﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(25)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
سوال: میں نے سنا ہے کہ زم
زم كو متبرك سمجهنے کا سبب یہ کہ یہ جنت کی نہر سے نکلا ہے اور اللہ نے اس کو
مبارک بنایا ہے، کیا یہ صحیح بات ہے یا یہ اللہ کے حکم سے جاری ہونے والا ایک معجزہ
ہے اور خاص نبی کی طرف منسوب ہے؟
جواب: نبی ﷺ نے زمزم کو برکت والا قرار دیا ہے ، جب نبی
کسی چیز کو برکت والا قرار دیں تو وہ برکت والی ہے۔ صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ ایک
آدمی تیس دنوں سے صرف زمزم پی کر گزارا کررہا تھا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: إنَّهَا مُبَارَكَةٌ؛ إنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ(صحیح مسلم:2473)
ترجمہ: (زمزم کا پانی) برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی
ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔
جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کا سینہ چاک کرکے زمزم کے
پانی سے دھلا ہے اس سے زمزم کے پانی کی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ
عنہما سے مروی ہے کہ زمزم جنت کے چشموں میں سے ہے ۔
بہرکیف! زمزم متبرک پانی بھی ہے، جنت کے چشموں کا ایک
چشمہ بھی ہے ، اللہ کے حکم سے جاری ہونے والا ایک معجزہ بھی ہے اور سیدنا اسماعیل
علیہ السلام کی طرف منسوب بھی ہے۔
سوال: بہت سے لوگ دسمبر کو غم کا مہینہ
سمجھتے ہیں،کیا کسی مہینہ کو مخصوص کرکے غم کا مہینہ قرار دینا ٹھیک ہے؟
جواب: مسلمانوں کا دسمبر کے مہینے سے کوئی تعلق ہی نہیں
ہے کیونکہ دسمبر انگریزی مہینہ ہے اور انگریزی مہینہ کا اسلام سے واسطہ نہیں ہے
اسلام کا عربی تاریخ سے واسطہ ہے۔ اور عربی تاریخ میں بھی کوئی دن یا کوئی مہینہ
غم والا نہیں ہے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ کسی تاریخ یا مہینے کو غم کا دن قرار
دیتے ہیں وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں اور غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک سے ایک غم کے پہاڑ توٹے مگر آپ نے کسی
ماہ یا دن یا وقت کو غم کا وقت قرار نہیں دیا، نہ اپنی امت کو کسی قسم کا غم منانے
کا حکم دیا ہے۔ اسلام میں خوشی منانے کا حکم تو ہے لیکن غم منانے کا کوئی حکم نہیں
ہے۔ غم منانا دراصل غیر اقوام کا طریقہ ہے، اور ہمیں غیر اقوام کی مشابہت اختیار
کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جو لوگ غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہ انہیں
کی قوم سے کہلاتے ہیں۔
یہاں پر یہ بات علم میں رہے کہ جس سال نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وفات پائے
اس سال کو بعض مورخین نے عام الحزن(غم کا سال) قرار دیا ہے مگر یہ نام درست نہیں
ہے کیونکہ کتاب و سنت میں عام الحزن کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
سوال: ایک دفعہ کسی کا درس سن رہی تھی جس
میں انہوں نے بتایا کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہہ رہا تھا کہ میں
تو بیمار نہیں ہوتا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم شیطان ہو کیا؟
کیا ایسی کوئی حدیث موجود ہے اور جو لوگ ہر وقت وائرل امراض سے یا ویسے بھی زیادہ
بیمار نہیں ہوتے تو کیا یہ ہمارے دین میں ناپسندیدہ بات ہے؟
جواب: میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ یہ
جھوٹی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کو یا کسی
عام انسان کو بھی شیطان نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے نبی نے کبھی کسی کو برے لقب سے
نہیں پکارا بلکہ آپ نے دوسروں کو بھی اس سے منع فرمایا ہے۔
بیماری اور صحت مندی یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہیں لیکن
کسی کے بیمار نہ ہونے کو برا نہیں کہہ سکتے ہیں یا اس سے نحوست نہیں لے سکتے ہیں۔
الحمدللہ جس کو عافیت نصیب ہوتی ہے، یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بیمار ہو جائے وہ
بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ایک آزمائش ہو سکتی ہے یا اپنی کرتوت کا نتیجہ بھی ہو
سکتا ہے۔
اگر کوئی بیماری یا مصیبت کے ذریعہ آزمایا جائے اور وہ
آزمائش میں صبر کرے تو یقینا اس کے لیے بہترین بدلہ ہے مگر ہمیں بیماریوں ،
مصیبتوں اور آزمائشوں میں واقع ہونے سے بچنے اور عافیت کے لیے اللہ سے دعا کرنا
چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عافیت طلب کرنے کے لیے حکم دیا ہے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
سلوا اللَّهَ العفوَ والعافيةَ فإنَّ أحدًا لم يُعطَ
بعدَ اليقينِ خيرًا منَ العافيةِ(صحیح الترمذی:3558)
ترجمہ:اللہ سے معافی اور عافیت مانگیں کیونکہ یقین کے
بعد عافیت سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔
یہاں تک کہ آپ نے ہمیں عافیت طلب کرنے والی مختلف
دعائیں سکھائی ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے لئے صبح و شام اللہ
تعالی سے عافیت کی دعا کرتے تھے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح اور شام کرتے تو ان دعاؤں کا پڑھنا نہیں
چھوڑتے تھے۔
اللهم إني أسألُك العافيةَ في الدنيا والآخرةِ ، اللهم
إني أسألُك العفوَ والعافيةَ في ديني ودنياي وأهلي ومالي ، اللهم استرْ عورتي
وآمنْ روعاتي ، اللهم احفظْني مِن بين يديَّ ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن
فوقي ، وأعوذُ بعظمتِك أن أُغتالَ مِن تحتي(صحیح ابی داؤد:5074)
ترجمہ:اے للہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا
طالب ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال
میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما۔ اے اللہ!
ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے
اللہ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے،
اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا
جاؤں۔
سوال: جب عورت وضو میں سر کا مسح کرے تو
کیا گدی میں پانی کے قطرے یا گیلی انگلیاں لگانا ضروری ہے کیونکہ عورت کے سر میں
چوٹی اور لمبے بال ہونے کے سبب سر کا مسح تو ہو جاتا ہے مگر گدی میں پانی کا گیلا
پن نہیں لگتا۔دوسری بات یہ ہے کہ میں کہیں پڑھا ہے کہ سائنس کے حساب سے ہر دن گدی
میں پانی کے چند قطرے لگانے سے انسان کی صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے، کیا اسی وجہ سے
دوسرے فرقے کے لوگ گلے کا بھی مسح کرتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ
سائنس کو وضو اور مسح سے دور ہی رکھیں، ان دونوں کو ملا کرکے ہرگز نہ دیکھیں۔ وضو
عبادت ہے، ہم عبادت کی نیت سے وضو کرتے ہیں۔ اس میں کوئی جسمانی فائدہ بھی ہے تو
اچھی بات ہے لیکن ہم اس جسمانی فائدے سے بے پرواہ ہوکر خالص اللہ کی رضا کے لئے
طہارت حاصل کرتے ہیں۔
لہذا عورتیں ترانگلیوں سے اپنے پورے سر کا گدی تک مسح
کریں اور مسح میں سر کے بالوں کو گیلا کرنا یا گدی کو گیلا کرنا شرط نہیں ہے بلکہ
ترانگلیوں کو سر کے بالوں پر پھیرنا ہمارے لئے کافی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ گردن کا مسح کرتے ہیں وہ
خلاف سنت ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جیساکہ میں
نے کہا وضو کو میڈیکل سائنس سے جوڑ کر نہیں دیکھیں گے بلکہ وضو عبادت کی نیت سے
کریں گے اور دنیاوی فائدہ کے لئے وضو میں گردن کا مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ عبادت کا
عمل ٹھیک اسی انداز میں انجام دینا ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا
ہے۔
سوال: ایک عورت کا سوال ہے کہ اس کی امی
فوت ہو چکی ہے اور اس کی چھوڑی ہوئی دو چاندی کی انگوٹھی اس کے پاس ہے۔ ان میں سے
ایک اس کی مامی نے اس سے مانگ لی ہے جس کے بارے میں اسے پتہ ہے کہ یہ اس کی والدہ
کی ہے اور وہ نہیں دینا چاہتی۔ مامی کو کہنا اس لئے مناسب نہیں سمجھ رہی کہ اس کے
بہت احسان ہیں جیسے وہ مالی لحاظ سے مدد کرتی رہتی ہے۔ اس مسئلہ میں شرعی لحاظ سے
کیا کیا جائے، کیا وہ انگوٹھی مامی کے لئے صدقہ کی نیت سے چھوڑ دیا جائے تاکہ
والدہ کو اس کا ثواب مل جائے؟
جواب: میت کی چھوڑی ہوئی چیز وراثت میں شامل ہوتی ہے
لہذا فوت شدہ خاتون نے جو رنگ چھوڑی ہے اور اس کے علاوہ بھی جو چیزیں ہیں وہ ساری
چیزیں وراثت میں شامل ہیں اور میت کی وراثت پر اس کے تمام وارثوں کا حق ہوتا ہے۔
میت کے جو بھی وارثین ہیں ان سب کے مشورے سے میت کی رنگ
سائلہ کی مامی کے لئے صدقہ یا ہدیہ کرسکتے ہیں لہذا اس سلسلے میں تمام وارثوں سے
مشورہ لینا ضروری ہے، سب کے مشورہ سے جو طے پائے اس پر عمل کیا جائے۔
سوال: ایک خاتون نے واٹس ایپ پہ فیملی
گروپ بنایا ہوا ہے جس میں روزانہ قرآن کا ایک صفحہ بھیجتی ہے۔ بچوں اور بڑوں یعنی
سبھی کو صفحہ پڑھنےکے بعد روزانہ اس پر ری ایکٹ کرنا ہے۔ شاید مقصد یہ ہو کہ قرآن
پڑھنے کی سب کو عادت ہوجائے، کیا ایسا کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے ؟
جواب: واٹس ایپ گروپ میں روزانہ قرآن کا ایک ایک صفحہ
شیئر کرنا تاکہ گروپ میں موجود لوگ اس کی تلاوت کریں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں
تاہم اس میں بہتر صورت یہ ہے کہ روزانہ چند آیات ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ بھیجی
جائیں تاکہ بڑے افراد قرآن کی آیتوں کا معنی اور مفہوم بھی جان لیں اور چھوٹے بچے
تلاوت کرلیں گے ۔
یہاں پر ایک تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس طرح کی
تلاوت کا مقصد سب لوگ اکٹھے تلاوت کرکے اور ساری تلاوت کو جمع کرکے کسی میت کو
ہدیہ کیا جائے تو پھر یہ صورت جائز نہیں ہے، یہ بدعت ہے اس بدعتی عمل سے پرہیز کیا
جائے۔
سوال: میں حاملہ ہوں، طبیعت کچھ ٹھیک
نہیں رہتی، قے ہوتی ہے اور کمزوری بھی بہت ہے۔ نماز نہیں پڑھی جاتی اور نماز پڑھنے
کا دل بھی نہیں کرتا، ایسے میں آپ رہنمائی کر دیں کہ میں کیا کروں؟
جواب: نماز تو فریضہ ہے اسے ہر حال میں ادا کرنا ہے
خواہ کبھی طبیعت ناساز ہو یا دل گھبرا رہا ہو۔ اللہ کی بندگی تو ہر حال میں کرنی
ہے اور اللہ کی بندگی میں دلوں کو سکون ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالت حمل میں خواتین کو مشکلات
سے دوچار ہونا پڑتا ہے تاہم ایسی مشکلات میں بندگی کرنا زیادہ اہم ہے تاکہ اللہ
تعالی کی نصرت حاصل ہو اور دلوں کو اطمینان اور سکون نصیب ہو۔
کبھی کبھار زیادہ دقت میں جمع صوری کے ساتھ نماز ادا کر
سکتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک نماز کو آخری وقت میں پڑھیں اور دوسری نماز کو
اول وقت پر مثلا ظہر کی نماز کو عصر سے کچھ پہلے آخری وقت میں اور عصر کی نماز کو
اول وقت میں پڑھیں اس طرح دو نمازیں ایک ساتھ ادا کرلیں تاہم نماز ضرور بالضرور
ادا کریں۔
ساتھ ہی اللہ رب العالمین سے اپنے معاملے میں آسانی اور
عبادت کی توفیق طلب کرتے رہیں، وہ اپنے بندوں کی ہر طرح مدد کرنے والا ہے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کے شوہر
صبح کو فجر سے پہلے گھر سے نکلتے ہیں اور فجر کی اذان ہونے میں تقریبا 45 منٹ باقی
ہوتا ہے۔ وہ ٹرین سے سفر کرتے ہیں، راستے میں فجر کا وقت ہوتا ہے اور ٹرین کا سفر
دو گھنٹے کا ہے یعنی جب سفر مکمل ہوتا ہے تو فجر کا ٹائم ختم ہوچکا ہوتا ہے،ایسے
میں کیا وہ گھر سے نکلنے سے پہلے فجر کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: پانچوں نمازوں کے سلسلے میں اللہ رب العالمین کا
یہ فرمان سامنے رکھیں کہ ہم کسی بھی نماز کو کسی بھی صورت میں اس کے وقت سے پہلے
نہیں ادا کر سکتے ہیں ۔اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
كِتَابًا مَّوْقُوتًا (103)
ترجمہ: یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے ۔
اس فرمان کی روشنی میں تمام نمازیں وقت داخل ہونے کے
بعد ہی ادا کی جا سکتی ہیں۔
لہذا جس آدمی کو فجر پینتالیس منٹ پہلے کہیں سفر پر
نکلنا ہو وہ آدمی وقت داخل ہونے سے پہلے فجر کی نماز نہیں پڑھے گا۔ جب فجر کا وقت
داخل ہو جائے اور وہ جہاں پر موجود ہو وہیں پر نماز ادا کرے گا۔ فجر کا وقت ٹرین
میں ہو رہا ہے تو وہ حسب سہولت ٹرین میں ہی نماز پڑھے گا اور اگر ٹرین میں کھڑے ہو
کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لے۔ یہاں پر یہ معلوم رہے کہ
ہندوستان میں دوران سفر بطور خاص ٹرین میں نماز پڑھنا آج کے حالات کے تناظر میں
خطرے کا سبب ہے لہذا ہندوستانی لوگوں کو ٹرین میں نماز پڑھنے سے احتیاط برتنا
چاہیے، جب وہ اپنے مقام پر پہنچ جائیں تو محفوظ مقام اپنی نماز ادا کریں ۔
سوال: ایک عورت کہتی ہے کہ جب ہم میت کو
غسل دیتے ہیں تو کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے میت کو غسل دیتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی اور
دعا بھی ہے؟
جواب:میت کو غسل دینے کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے جیسے
ہم اور آپ بغیر کوئی ذکر کئے غسل کرتے ہیں اسی طرح میت کو غسل دیں گے۔
غسل کی ابتدا میں بسم اللہ کہنا چاہیے اور غسل دیتے
ہوئے میت کی حق میں استغفار کرتے ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن اس وقت کلمہ
پڑھنے یا کوئی اور مخصوص دعا پڑھنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔
سوال: میرے والد جہاز میں ملازم کے طور
پر کام کرتے ہیں۔ جب جہاز چل رہا ہوتا ہے تو میرے والد قصر کرتے ہیں۔ اب جہاز
پندرہ دن کے لئے رکا ہوا ہے تو کیا نماز قصر کرنی ہوگی یا مکمل پڑھنی ہوگی۔ جہاز
سے اترنے کی گنجائش نہیں ہے اور ان کے کام زیادہ ہونے کی وجہ سے وقت بھی نہیں
ہوتا؟
جواب:جب آدمی سفر کرے
خواہ وہ سفر ہوائی جہاز کا ہو یا پانی جہاز کا ہو دوران سفر قصر سے نمازیں پڑھنی
ہیں لیکن جب کسی جگہ پر ٹھہر جائیں اور چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو
وہاں پر مکمل نماز پڑھیں گے اور سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس صورت میں بھی
جہاز کے اندر ہی مکمل نماز ادا کرنا ہے کیونکہ یہ بھی حالت اقامت ہی ہے۔
پندرہ دن جہاز میں قیام کرنے کی وجہ سے شروع دن سے ہی
آپ کے والد کو مکمل نمازی ادا کرنی ہے، قصر نہیں کرنا ہے۔
سوال:کیا اون سے گڑیا اور کھلونے بنانا
اور ان کو بیچنا اور اسے اپنی معاش کا ذریعہ بنانا صحیح ہے؟
جواب: اسلام میں جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے بلکہ اس
سلسلے میں بہت شدید وعیدیں آئی ہوئی ہیں ، بطور عبرت و نصیحت چند ایک حدیث ملاحظہ
کریں۔
(1)سیدنا
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا: یقیناً یہ تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، انہیں
کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس کو زندہ بھی کرو۔(بخاری:5951)
(2)سیدہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:قیامت
کے دن سب سے زیادہ عذاب والے لوگ وہ ہوں گے جو اللہ تعالی کے تخلیق میں مقابلہ
بازی کرتے تھے.(بخاری:5954)
جس چیز کی اس قدر حرمت آئی ہو اسے بنانا، بیچنا اور اس
کو ذریعہ معاش بنانا کسی بھی مسلمان کے لئے صحیح نہیں ہے۔ اس طرح کی کمائی بھی
حلال نہیں ہے اور آخرت میں بھی انسان عذاب دیا جائے گا لہذا مسلمان اس عمل سے
پرہیز کرے۔
سوال:مجمع الزوائد کتاب کو پڑھنا اور اس
میں جو احادیث اور دعائیں ہیں ان سے استفادہ کرنا اور ان کا حوالہ دینا ٹھیک ہے؟
جواب: ابوالحسن نورالدین علی بن ابی بکر بن سلیمان
الہیثمی رحمہ اللہ(735ھ-807ھ) ایک مشہور عالم الحدیث گزرے ہیں۔ آپ کے مشہور اساتذہ
میں حافظ عراقی رحمۃ اللہ علیہ اور مشہور تلامذہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہیں۔
فن حدیث میں آپ کا بڑا مقام ہے ، مجمع الزوائد و منبع الفوائد آپ کی مشہور زمانہ
تالیف ہے۔
یہ احادیث کا مجموعہ ہے جو کافی ضخیم ہے ، اس مجموعہ
میں علامہ ہیثمیؒ نے کتب ستہ (بخاری ، مسلم، نسائی، ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ) کے
علاوہ مسند احمد، مسند ابی یعلی، مسند بزار ، معجم طبرانی کبیر، معجم طبرانی اوسط،
معجم طبرانی صغیر یعنی ان چھ کتب سے احادیث لی ہیں۔اس مجموعہ کی ایک خاصیت یہ ہے
کہ اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے اور دوسری بڑی خاصیت یہ ہے کہ ہیثمی ؒ نے
احادیث پر حکم بھی لگایا ہے۔ کتب ستہ کے بعد احادیث کی معرفت کے لئے مجمع الزوائد
پڑھ لینا کافی ہے۔ اب یہاں اصل مسئلہ یہ جان لینا چاہئے کہ مجمع الزوائد مصادر
اصلیہ میں سے نہیں ہے اس لئے بطور حوالہ اصل مرجع کا ذکر کرنا چاہئے اور مجمع
الزوئد کا علمی استفادہ کے طور پر مطالعہ کرنا چاہئے، ان میں موجود صحیح احادیث
اور ماثورہ دعاؤں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجمع الزوائد میں
صحیح و ضعیف دونوں قسم کی روایات ہیں نیز حکم حدیث کے بارے میں علامہ ہیثمی کی
توثیق و تضعیف ان کا اجتہادی مسئلہ ہے جس میں کبھی درست بھی ہوسکتے ہیں اور کبھی
مخطی بھی ۔
سوال: کیا ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے
وقت اُس کی شان، عظمت، قُدرت ، اُس کے ناموں اور اُس کی عرش و کرسی کا واسطہ دے کر
ان کے وسیلے سے دعا مانگ سکتے ہیں؟
جواب: جائز وسیلہ کی تین اقسام ہیں۔
٭اللہ کے اسمائے حسنی کا وسیلہ لگانا۔
٭نیک اعمال کا وسیلہ لگانا
٭زندہ آدمی سے دعا کے لیے کہنا۔
ان تین جائز وسیلوں کے علاوہ کوئی اور وسیلہ جائز نہیں
ہے، ہم اپنی دعاؤں میں اللہ رب العالمین کے اسمائے حسنی اور اس کے صفات کا وسیلہ
لگا کر دعا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ جائز وسیلہ میں سے ہے لیکن اللہ رب العالمین کے
عرش اور اس کی کرسی کا وسیلہ نہیں لگائیں گے یعنی یہ کہنا کہ ہم تیرے عرش اور تیری
کرسی کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں جائز نہیں ہے۔ ہم اس طرح سے دعا کر سکتے ہیں۔ اے
اللہ! تیرے فضل و کرم کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں۔
سوال:اگر غیر مسلم ممالک میں میت کو دفنانے
کے لئے مسلمانوں کا قبرستان نہ ہو اور اپنے ملک میں لانا بھی ممکن نہ ہو تو اس
صورت میں کیا غیر مسلم کے قبرستان میں دفنایا جاسکتا ہے؟
جواب: اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلم میت کو
کافر کے قبرستان میں دفن کرنا حرام ہے اور اسی طرح کافر میت کو مسلم کے قبرستان
میں دفن کرنا حرام ہے۔
جب کسی مسلمان کا ایسے ملک میں انتقال ہوجائے جہاں
مسلمانوں کا قبرستان نہ ہو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ایک اہم سوال ہے۔
تدفین سے متعلق مذکورہ بالا شرعی حکم کو دیکھتے ہوئے
جہاں بھی مسلمان رہتے ہوں وہاں اپنا قبرستان بنانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے یہ
ہماری اولین ذمہ داری ہے تاکہ مسلمان میت کو مسلمان قبرستان میں ہی دفن کیا جائے
اور قبرستان سے جڑے کئی شرعی مسائل ہیں ان سب کے تناظر میں بھی مسلم قبرستان ہونا
ضروری ہے۔
جہاں مسلم قبرستان نہ ہو یا قبرستان بنانا بھی ممکن نہ
ہو پھر مسلم لاش کو مسلم ملک بھیجا جائے تاکہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ تدفین کی
جاسکے ۔ عموما قانونی طور پر ہم اپنی لاش کو جہاں چاہیں منتقل کرسکتے ہیں تاہم اس
میں صعوبت بھی موجود ہے اور کہیں پر منتقل کرنے کی ممانعت بھی ہو۔
جب نہ مسلم قبرستان میسر ہو اور نہ ہی کسی دوسری جگہ
میت کی منتقلی ممکن ہو تو آخری مرحلہ یہ ہے کہ اس ملک کے غیر مسلم قبرستان میں میت
کی تدفین کرسکتے ہیں، یہ معاملہ مجبوری کے تحت ہے اور ہم میت کی تدفین اسی طرح
کریں گے جیسے اسلام نے تدفین کے احکام بتائے ہیں یعنی میت کو غسل دینا، کفن دینا ،
جنازہ کی نماز ادا کرنا اور قبر کھود کر مٹی میں دفن کرنا۔ مسلم میت کو نہ جلایا
جاسکتا ہے اور نہ ہی سمندر میں پھینکا جاسکتا ہے ۔
سوال: باہری ممالک میں اگر کسی مسلمان کا
انتقال ہوجائے تو کیا اس کی قبر غیر مسلموں کے ساتھ ہو سکتی ہے جبکہ مسلمانوں کے
لئے الگ سے ایک قبرستان میں جگہ مختص ہوئی ہو مگر آس پاس عیسائیوں کی قبریں بھی
ہوں۔ اصل میں ایک نومولود بچی کا انتقال ہوا ہے اور یہاں نوعمر بچوں کے لئے ایک
مخصوص علاقہ مختص کیا گیا ہے جہاں سارے بچے دفن کئے جاتے ہیں خواہ وہ مسلم ہوں یا عیسائی
ہوں؟
جواب: اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلم میت کو
کافر کے قبرستان میں دفن کرنا حرام ہے اور اسی طرح کافر میت کو مسلم کے قبرستان
میں دفن کرنا حرام ہے الا یہ کہ اس کی ضرورت ہو۔ جب غیرمسلم ملک میں مسلمانوں کا
کوئی قبرستان نہ ہو اور الگ سے تدفین کی کوئی صورت یا جگہ موجود نہ ہو تو اس ضرورت
کے تحت مسلمان میت کو عیسائی قبرستان میں دفن کرسکتے ہیں اور نومولود ہونے کے سبب
مسلم ملک میں اس کی منتقلی بھی ٹھیک نہیں ہے۔
اب ظاہر سی بات ہے کہ غیر مسلم قبرستان میں دفن نہیں
کریں گے تو اسی طرح میت کو چھوڑ کر رکھ بھی نہیں سکتے ہیں۔ میت کی تدفین ہر حال
میں کرنی ہے چاہے جہاں کرنی پڑے لہذا اس ضرورت خاص کے تناظر میں وہاں دفن کرسکتے
ہیں تاہم کوشش یہ ہو کہ مسلم میت کو ایک حصے میں ایک ہی ساتھ یعنی آس پاس ہی دفن
کیا جائے تاکہ مسلم قبریں ایک خاص جگہ ہی رہیں۔
سوال:اگر کوئی آدمی وضو بنایا اور موزے
پر بروقت مسح کرنا بھول گیا کچھ دیر بعد یاد آتا ہے اور اپنے ہاتھ موزہ پر پھیر
لیتا ہے تو کیا اس سے وضو ہو جائے گا یا دوبارہ کرنا پڑے گا؟
جواب: وضو میں ایک شرط اعضائے وضو کو پے در پے دھونا ہے
اگر وضو کرتے ہوئے اعضاء کے درمیان دھلنے میں دیری ہو جائے تو ازسرنو وضو بنانا
پڑے گا لیکن زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہو تو فورا جراب پر مسح کرنا کافی ہو جائے گا
اور وضو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مسح کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف خالی ہاتھ
نہیں پھیرے گا بلکہ پہلے وہ پانی سے اپنے ہاتھ کو ترک کرے گا پھر تر ہاتھ موزے کے
ظاہری حصے پر پھیرے گا۔
سوال: اگر کسی سے حقوق العباد میں بہت
کوتاہی ہوگئی ہو اور جن کے ساتھ کوتاہی ہوئی ہو ان کا انتقال بھی ہوچکا ہو تو وہ
کیا کرے۔ بظاہراس کے پاس معافی مانگنےکی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ وہ بہت زیادہ
پریشان ہے اور دوسری بات یہ کہ کیا حقوق العباد اللہ سبحانہ و تعالی بھی معاف کر
سکتا ہے یا اس کی معافی بندوں سے ہی مانگنی ہوتی ہے؟
جواب: حقوق العباد کا معاملہ بہت ہی زیادہ اہم ہے اس
لیے مسلمانوں کو اس معاملہ میں ایک دوسرے کے ساتھ کافی محتاط رہنا چاہیے کیونکہ
زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، کبھی بھی موت آسکتی ہے اور حق تلفی کا گناہ سر پہ
باقی رہ جاتا ہے جیسے مذکورہ بالا صورتحال ہے۔
اس صورت میں اس آدمی کو سب سے پہلے اللہ رب العالمین کی
طرف رجوع کرنا چاہیے اور سچے دل سے اللہ سے توبہ کرنا چاہیے اور آئندہ کسی کے ساتھ
ظلم و زیادتی کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
اس کے بعد اگر مالی معاملہ ہے تو میت کا مال اس کے وارث
کو لوٹانا پڑے گا اور اگر کوئی وارث نہ ہو تو میت کی طرف سے وہ مال صدقہ کر دیا
جائے۔ اور اگر مالی معاملہ نہ ہو بلکہ زبانی اور جسمانی زیادتی ہو تو اس کے سبب
میت کے لئے کثرت کے ساتھ استغفار کرنا چاہیے بلکہ جب تک زندہ رہے میت کے لئے
استغفار کرتا رہے، ممکن ہے کہ یہ استغفار کرنا اس کو فائدہ پہنچائے۔ اصل میں معافی
تو اس وقت مانگنا تھا جب مظلوم زندہ تھا مگر اس وقت معافی نہیں مانگی گئی اس لیے
میت سے معافی مانگنے کا دروازہ بند ہو چکا ہے اب امید کی ایک ہی کرن ہے کہ میت کے
حق میں کثرت سے دعائے خیر کی جائے اور مزید کسی پر زیادتی کرنے سے ہمیشہ کے لیے رک
جایا جائے۔
سوال: حرمین میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ
نمازیوں کے آگے سے بلا جھجھک گزرجاتے ہیں اور نمازی بھی سترہ کا اہتمام نہیں کرتے،
کیا حرمین میں یہ معاف ہے یا گزرنے والے گناہگار ہوں گے؟
جواب: دراصل تمام مساجد میں نمازیوں کے سامنے سے گزرنا
منع ہے اور نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو گناہ ملتا ہے مگر حرمین شریفین کا
معاملہ دنیا کی مساجد سے الگ ہے۔ یہاں پر ہمیشہ لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے جس کے
سبب نمازی کے سامنے سے بچ کر گزرنا ناممکن ہے۔ جب صورتحال ایسی ہے تو پھر حرمین
شریفین میں بطور خاص حرم مکی میں نمازی کے سامنے سے گزرا جا سکتا ہے ایسی صورت میں
گزرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ملے گا۔
سوال:طواف کے دوران مرد و زن کا اختلاط
ہوتا ہے اور کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی عورت سے بدن ٹچ ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت
میں گناہ ہوگا؟
جواب: عورتوں کے لئے الگ سے خانہ کعبہ یا مطاف یا مسعی نہیں بنایا جا سکتا ہے، وہیں پر مرد وعورت سبھی عمرہ کریں گے اور طواف و سعی کرتے رہیں گے اور ایسے ہی مرد و عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک ساتھ طواف کیا کرتے تھے۔
کثرت ازدہام کی وجہ سے عورتوں سے مردوں کا بدن ٹچ ہو
جانے میں کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ یہ لاشعوری اور انجانے میں ہونے والا عمل ہے جو
اللہ کے یہاں معاف ہے، کسی کو اس وقت گناہ ملے گا جب وہ جان بوجھ کر یہ عمل کرے۔
سوال :مسجد حرام میں مقتدی کا امام سے
آگے بڑھ جانے کا حکم کیا ہے؟
جواب: مقتدی کے لئے اصل
حکم یہی ہے کہ وہ امام سے آگے بڑھ کر نماز نہیں پڑھے گا مگر حرمین میں بطور خاص
حرم مکی کے مطاف میں نماز پڑھنے کا معاملہ دوسری جگہ کے بنسبت مختلف ہے۔ مطاف میں
امام سے آگے بڑھ کر نماز پڑھنے سے متعلق اہل علم کے فتاوی کی روشنی میں ایک صورت
یہ ہے کہ امام جس سمت میں ہے اس سمت میں مقتدی امام سے آگے بڑھ کر نماز نہیں پڑھے
گا لیکن اس سمت کے علاوہ دوسری سمتوں میں مقتدی امام سے آگے ہو کر بھی نماز پڑھ
سکتا ہے۔
ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جب کبھی اضطراری صورت میں امام
سے آگے ہو کر نماز پڑھنے کی ضرورت درپیش ہو جائے تو ایسی صورت میں امام سے آگے ہو
کر نماز پڑھنا جائز ہے جیسے مطاف میں نماز کے وقت طواف روک دیا جاتا ہے اور مطاف
میں اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ پھر وہاں سے نکلنا بھی دشوار ہوتا ہے، اس وقت جس کو جہاں
نماز پڑھنے کی جگہ مل جاتی ہے وہیں پر نماز پڑھنے کے لیے مجبور ہوتا ہے، اس طرح کی
اضطراری صورت میں امام سے تقدم جائز ہے۔
سوال: میرے رشتے دار میں ایک آدمی کو
بیٹا ہوا ہے، وہ باہری ملک میں رہتا ہے اور اسے عقیقہ اپنے ملک پاکستان میں بیٹے
کے دادا دادی کے گھر کرنے کا ارادہ ہے، سوال یہ ہے کہ جہاں پر بچہ موجود نہ ہو
وہاں پر عقیقہ کرنا کیسا ہے؟
جواب: اس مسئلہ میں افضل صورت یہی ہے کہ جہاں پر بچہ
موجود ہو وہاں پر عقیقہ کیا جائے کیونکہ عقیقہ اس بچے کی جانب سے ہے لیکن اگر
عقیقہ ایسی جگہ دیا جائے جہاں پر بچہ موجود نہیں ہے تو یہ عقیقہ بھی کفایت کرجائے
گا۔ اور عقیقہ میں اصل یہ ہے کہ نومولود کے نام سے بطور عقیقہ چھوٹا جانور ذبح
کرکے اس کی اذیت دور کی جائے۔
سوال: بعض لوگ انڈیا کو ہندوستان بولنے
سے منع کرتے ہیں کیونکہ کچھ ہندو ہندوستان بولنے سے اسے ہندو کی استھان (زمین) سمجھتے
ہیں جبکہ انڈیا میں کروڑوں مسلمان موجود رہتے ہیں اور انڈیا کے آئین میں بھی انڈیا
کو بھارت یا انڈیا ہی لکھا گیا ہے؟
جواب: جس ملک کا جو نام ہو اس ملک کو اس کے نام سے
منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور انڈیا کے مختلف ناموں میں سے ایک نام
ہندوستان بھی ہے لہذا انڈیا کو ہندوستان کہنے میں قطعا کوئی حرج نہیں ہے۔ واقعتا
کچھ ہندو سیاسی لیڈروں کے بہکاوے میں آکر اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ ہندوستان ان
کی اور ان کے اجداد کی ذاتی ملکیت ہے، اس پر مسلمانوں کا حق نہیں ہے۔ انڈیا کو
انڈیا کہنے سے ایسے لوگوں کی سوچ نہیں بدل سکتی۔
دوسری بات یہ کہ ہندوستان میں ہزاروں شہر اور گاؤں کا ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر ہے اور ان سب کو اپنے ناموں سے ہی پکارا جاتا ہے ، ایسے میں بھلا صرف ہندوستان بدلنے سے کیا فرق پڑے گا۔ کیا پاکستان کو پاکستان نہیں بولا جاتا جبکہ کتنے وہاں پر ناپاک اور نجس لوگ رہتے ہیں۔
سوال: باپ کے کہنے پر جبرا بیوی کو طلاق
دینا کیسا ہے اور ایسے موقع پر عموما ابراہیم علیہ السلام کا اپنی بہو کو طلاق
دلوانے والا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے؟
جواب: بیوی کو اسی وقت طلاق دے سکتے ہیں جب اس میں کوئی
شرعی خامی ہو اور شرعی خامی نہ ہو تو کسی کے کہنے سے بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں
ہے خواہ والدین ہی اس بات کا حکم کیوں نہ دے۔
والدین کی اطاعت اپنی جگہ واجب ہے مگر پہلی باتوں میں
ان کی اطاعت کی جائے گی جبکہ اج کل بہت سارے ماں باپ محض خاندانی انانیت کے سبب
اپنی بہوؤں کی طلاق کرواتے ہیں۔ اس موقع سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتوی
بیان کرنا بیحد مفید ہوگا۔
آپ سے ایک شخص نے کہا کہ میرے والد بیوی کو طلاق دینے
کا حکم دیتا ہے ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔ اس پر امام صاحب نے جواب دیا کہ تم اپنی
بیوی کو طلاق مت دو۔ آدمی عرض کرتا ہے کہ کیا عبداللہ ابن عمر نے اپنے باپ کے کہنے
سے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیا تھا۔ اس پر امام صاحب نے اس سے یہ کہا کہ کیا
تمہارا باپ عمر کی طرح ہے۔
اس واقعہ میں آج کل کے ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت و
نصیحت ہے جو اپنی اولاد کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیتے ہیں۔
بہر کیف! بیوی کو بغیر شرعی عذر کے طلاق دینا جائز نہیں ہے اور یہ بھی علم میں رہے کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی ہے لیکن ماں باپ کی خوشی کے لئے طلاق دینا یہ جبری طلاق نہیں ہے، ایسی طلاق واقع ہو جائے گی۔
سوال:اگر کوئی بھکاری مانگنے آئے اور وہ
سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہے یا واجب نہیں ہے؟
جواب:سلام کرنا سنت ہے لیکن اگر کوئی سلام کرے تو اس کا
جواب دینا واجب ہوجاتا ہے اس لئے بھکاری اگر مسلم ہو اور وہ سلام کرے تو اس کا
جواب دینا واجب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے کہ ہم جانے
انجانے ہر مسلمان کو سلام کریں۔ اس فرمان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم سے کوئی
بھی مسلمان سلام کرے ہمارے لیے اس کے سلام کا جواب دینا ضروری ہے خواہ وہ کسی طبقہ
سے تعلق رکھتا ہو۔
سوال: اگر عورت خلع لے تو شوہر کو صرف
مہر واپس کرے گی یا سسرال کے پورے تحفے واپس کرے گی؟
جواب: اگر عورت خلع لیتی ہے اور شوہر نے طے شدہ مہر دے
دیا ہے تو بیوی وہ مہر شوہر کو لوٹائے گی اور شوہر نے طے شدہ مہر نہیں دیا ہو تو
بیوی اس کا مطالبہ نہیں کرے گی بلکہ اس مہر سے دست بردار ہوجائے گی ۔
مہر کے علاوہ خلع میں بیوی اور کوئی بھی چیز شوہر کو
نہیں دے گی ۔ اس کی دلیل عہد رسول میں ہونے والا خلع کا واقعہ ہے ۔ جب ثابت بن قیس
رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے خلع کے لئے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تو آپ
نے ان سے کہا کہ شوہر سے بطور مہر ملا باغ شوہر کو لوٹاؤگی تو انہوں نے کہا ہاں
اور بیوی نے شوہر کو ان کا مہر واپس کردیا۔ صحیح بخاری میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس
طرح ہے۔ نبی ﷺ زوجہ ثابت بن قیس سے فرماتے ہیں:
فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ،
فَرَدَّتْ عَلَيْهِ،وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا(صحیح البخاری: 5276)
ترجمہ: کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا)
واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں، چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے
جدا کر دیا۔
مہر کے علاوہ بیوی کا جو بھی سامان ہو خواہ اس نے خود
سے خریدی ہو یا شوہر نے گفٹ دیا ہو یا سسرال والوں نے ہدیہ دیا ہو یا اپنے میکے
والوں میں سے کسی نے دیا ہو ، وہ سارا مال بیوی کی ذاتی ملکیت ہے اس میں سے کچھ
بھی سسرال والے یا شوہر خلع کے وقت نہیں لے سکتے ہیں۔
جب کوئی کسی کو کچھ ہدیہ دیتا ہے تو اس ہدیہ کا مالک وہ
شخص ہو جاتا ہے جس کو ہدیہ دیا گیا ہے، دینے والے کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے ، ہدیہ
دینے والا زندگی میں کبھی بھی وہ ہدیہ واپس نہیں مانگ سکتا ہے بلکہ ہدیہ دے کر
واپس مانگنا حرام ہے۔ نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو کتے اور برے لوگوں سے تشبیہ دی ہے جو
ہدیہ دے کر واپس مانگے ۔ اس بارے میں چند احادیث دیکھیں ۔
(1)حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا:الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ
يَقِيءُ ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ(صحیح البخاری:4176)
ترجمہ: اپنا ہبہ واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے
کرتا ہے، پھر اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے۔
(2)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ الَّذِي يَعُودُ فِي
هِبَتِهِ، كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِي قَيْئِهِ( صحيح البخاري:2622)
ترجمہ:ہم مسلمانوں کو بری مثال نہ اختیار کرنی چاہئے۔
اس شخص کی سی جو اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لے لے، وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے
خود چاٹتا ہے۔
(3)عبداللہ
بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لا يحلُّ لرجلٍ أن يعطيَ عطيةً، أو يهبَ هبةً، فيرجعَ
فيها، إلَّا الوالدَ فيما يعطي ولدهُ، ومثَلُ الّذي يعطي العطيَّةَ. ثمَّ يرجعُ
فيها كمثلِ الكلبِ يأكلُ، فإذا شبِع قاء ثمَّ عاد في قيئهِ( صحيح أبي داود:3539)
ترجمہ:کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ
دے، یا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور پھر اسے واپس لوٹا لے، سوائے والد کے کہ وہ
بیٹے کو دے کر اس سے لے سکتا ہے، اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر (یا ہبہ کر کے)
واپس لے لیتا ہے کتے کی مثال ہے، کتا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، پھر قے کرتا ہے، اور
اپنے قے کئے ہوئے کو دوبارہ کھا لیتا ہے۔
تیسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف والد اپنی اولاد کو ہدیہ دے کر واپس لے سکتا ہے کیونکہ اصل میں اولاد کا مال والد کا ہی مال کہلاتا ہے جیساکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ ایک شخص نے کہا:
يا رسولَ اللَّهِ إنَّ لي مالًا وولدًا وإنَّ أبي يريدُ
أن يجتاحَ مالي فقالَ أنتَ ومالُكَ لأبيكَ(صحيح ابن ماجه:1869)
ترجمہ: اللہ کے رسول! میرے پاس مال اور اولاد دونوں
ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خلع کے وقت عورت اپنے شوہر کو صرف
مہر واپس کرے، باقی اپنے سارے مال، سسرال سے لے کر اپنے گھر واپس آجائے گی خواہ وہ
مال شوہر یا شوہر کے رشتہ داروں نے ہی اسے کیوں نہ تحفہ دیا ہو۔
سوال: میرے پوتے کی پیدائش جمعہ کو مغرب
کے بعد ہوئی ہے، ساتواں دن جمعہ بن رہا ہے، اب ہم عقیقہ مغرب سے پہلے کریں یا مغرب
کے بعد اور اس کا کوئی حساب ہے یا ساتویں دن کسی بھی وقت عقیقہ کر سکتے ہیں؟
جواب: جمعہ کو مغرب کے بعد بچہ پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ
بچہ ہفتہ کے دن پیدا ہوا کیونکہ سورج ڈوبنے کے بعد عربی تاریخ بدل جاتی ہے۔ اس طرح
نومولود کے لئے ہفتہ پہلادن ہے اور جمعہ ساتواں دن ہورہا ہے۔ آپ جمعہ کو عقیقہ دن
یا رات کسی بھی وقت کرسکتے ہیں، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری
ہے کہ جمعرات کا سورج ڈوبتے ہی جمعہ کا دن شروع ہوجاتا ہے اور اگلے روز جمعہ کا
سورج ڈوبنے تک یوم الجمعہ رہتا ہے۔
سوال: میری ایک سہیلی ہے جس کے شوہر نے
اپنی کام والی بائی سے دوسری شادی کی تھی اور اس کی پہلی بیوی سے شادی سٹے وٹے
والی تھی۔ اس وجہ سے اس کے بھائی نے دھمکی دی کہ اگر تم نے دوسری بیوی کو طلاق
نہیں دی تو تمہاری بہن کو چھوڑ دوں گا، ایسے میں مرد نے سب کے سامنے دوسری بیوی کو
طلاق دے دی ہے مگر لگتا ہے اس عورت سے رابطے میں ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا دی
گئی طلاق واقع ہو گئی ہے؟
جواب: جب شوہر نے اپنی دوسری بیوی کو سب کے سامنے طلاق
دیدی تو یہ طلاق مانی جائے گی، یہ طلاق واقع ہو گئی ہے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں
لیکن یہ پہلی طلاق ہے جسے طلاق رجعی کہتے ہیں۔ ہاں اگر شوہر عدت میں رجوع کر لیتا
ہے تو بیوی ہی رہے گی اور رجوع نہیں کرتا ہے تو تین حیض گزرنے کے بعد میاں بیوی کا
رشتہ ختم ہو جائے گا۔
اور جب میاں بیوی کا رشتہ ختم ہو جائے تو اس کے بعد مرد
کا اس عورت سے تعلق رکھنا، بلا ضرورت بات چیت کرنا اور بیوی کی حیثیت سے کوئی
معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
سوال: بچی کو دانت نکلنے کے لئے طلسماتی
موتی پہنانا کیسا ہے؟
جواب: اللہ رب العالمین نے جیسے بچی کو پیدا کیا ہے اسی
طرح بچی کی تمام جسمانی ضروریات کی تکمیل بھی کرے گا لہذا نومولود کے دانتوں کے
لئے ہمیں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ خود نکل آئیں گے، اللہ کا
قدرتی نظام ہے۔
جہاں تک نومولود کو دانت نکلنے کے واسطے طلسماتی موتی پہنانے کا مسئلہ ہے تو اس سے گریز کرنا بہترو اولی ہے۔ طلسم جادو کو کہتے ہیں اور اسلام میں جادو کفر ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ موتی جادوئی نہیں ہے مگر جادو کی طرف نسبت ہی ہمارے لئے اس سے بچنے کے واسطے کافی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے کسی طرح کی کوئی چیز
لٹکانے اور باندھنے سے منع کیا ہے جس کے ساتھ ہی اعتقاد پایا جاتا ہو کہ یہ چیز
ہمیں فائدہ پہنچائے گی کیونکہ اس طرح کی چیزوں کا تعلق شرک سے جڑ جاتا ہے اور اس
بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے کوئی چیز لٹکائی اس نے
شرک کیا۔
سوال: مجھے برے برے خواب آتے ہیں، ایک ہی
رات میں تین تین دفعہ عجیب و غریب خواب آتے ہیں، ان کو بیان کرنے میں گھبراہٹ اور
خوف سامحسوس ہوتا ہے۔ رات کے بعد جب دن ہوتا ہے تو سارا دن الجھن، پریشانی اور
ڈپریشن میں گزرتا ہے۔ خوابوں پر میرا کوئی زور نہیں ہے پھر بھی مجھے کیا کرنا
چاہیے کیونکہ ان خوابوں کی وجہ سے میں ذہنی طور پر پریشان ہوں؟
جواب: ڈراؤنے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ایسے خواب
کی طرف ہمیں التفات نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی اس کو ذہن و دماغ پر بٹھانا چاہیے ورنہ
آدمی ہمیشہ گھبرایا ہوا رہے گا۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیں جب کوئی بری عورت آپ کو گندی
گالی دے اور آپ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر اپنے ذہن و
دماغ پر بٹھاتے ہیں تو آپ کو یہ سوچ کر اذیت محسوس ہوگی۔ اور اگر کوئی اس سے بھی
خطرناک بات آپ کو کہہ دے جیسے کہ میں تم کو قتل کر دوں گا، میں تمہیں لوگوں میں
ذلیل و رسوا کر دوں گا۔
اگر اس قسم کی باتوں کو ذہن ودماغ پر سوار کرلیں تو پھر
نیند بھی حرام ہو جائے گی لیکن اگر اس قسم کی بات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو کوئی
فرق نہیں پڑے گا چاہے آپ کو کوئی کچھ بھی کہہ دے۔ یہی معاملہ برے خواب کا ہے کہ
اگر آپ اس سے پریشان ہوں گے تو ہمیشہ برے خواب آئیں گے اور ہمیشہ پریشان رہیں گے
اور اگر اس کو کوئی مطلب نہیں دیں گے تو یہ خواب آنا بھی کچھ وقفہ کے بعد بند ہو
جائے گا۔لہذا خواب کو ذہن میں نہ بٹھائیں اور ساتھ ساتھ کچھ احتیاط بھی کریں۔
٭پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کرتے رہیں ۔
٭نماز کے بعد کے اذکار اور صبح و شام کے اذکار پڑھا
کریں۔
٭قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں۔
٭رات میں سوتے وقت وضو کرکے سوئیں اور سونے کے اذکار
ضرور پڑھ کر سوئیں، جب اذکار پڑھیں تو کچھ آواز کے ساتھ پڑھیں تاکہ آپ کو سنائی
دے۔
٭اور ایک انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ آپ وقت پر سوئیں اور
فجر کے وقت اٹھ جائیں تاکہ وقت پر فجر کی نماز پڑھ سکیں۔ ضرورت سے زیادہ ہرگز نہ
سوئیں کیونکہ جب ضرورت سے زیادہ ہم سوتے ہیں تو اس وقت برے اور ڈراؤنے خواب آتے
ہیں۔
سوال: جب ہم تشہد میں بیٹھتے ہیں تو
التحیات پڑھتے ہیں، اُس کے بعد درود اور دعائے ماثورہ پڑھتے ہیں۔ کیا اس کے بعد ہم
اور دیگر دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں جو قرآن اورحدیث سے ثابت ہیں؟
جواب: جب آپ آخری تشہد میں بیٹھتے ہیں تو التحیات، درود
شریف اور نماز سے متعلق دعائیں پڑھنے کے بعد مزید دعائیں جو قرآن و حدیث میں موجود
ہیں ان کو پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے آخری تشہد میں دعائیں کرنے کی ترغیب دی ہے۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ عورت پریگننسی کی
حالت میں جو تصویر زیادہ دیکھے بچہ ویسا ہی پیدا ہوتا ہے، کیا یہ بات درست ہے یا
شرکیہ ہے؟
جواب:حمل کی حالت میں عورت جو تصویر دیکھتی ہے اس طرح
کا بچہ نہیں پیدا ہوگا بلکہ بچہ ویسا پیدا ہوگا جیسا اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کی جو
مرضی ہے اسی حساب سے بچے کی تخلیق ہوتی ہے۔ حاملہ کی تصویر دیکھنے سے بچے کی رنگت
پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے کہ ہم اس بات پر ایمان
لائیں کہ اللہ رب العالمین ہی وہ ذات ہے جو ماں کے پیٹ میں جیسے چاہتا ہے بچے کی
تخلیق کرتا ہے خواہ رنگ ہو یا جسامت ہو۔اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ
يَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا
هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران:6)
ترجمہ:وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح کی چاہتا
ہے بناتا ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
سوال میں جو بات کہی گئی ہے کہ حمل کی حالت میں جس چیز کو زیادہ دیکھے بچہ ویسا پیدا ہوتا ہے یہ جھوٹی بات ہے، ایک مومن کو اپنے خالق پر صحیح سے ایمان لانا چاہیے اور جھوٹی باتوں سے بچنا چاہیے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔