Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(24)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(24)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب


سوال: فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا ایک ایمان افروز واقعہ ہے جسے آپ نے بتایا ہے کہ سندا وہ واقعہ صحیح ہے مگر میں نے سورہ قصص آیت ( او نتخذہ ولدا -9) کی تفسیر میں دیکھا ہے کہ فرعون اولاد سے محروم تھا ، ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ فرعون کو اولاد تھی یا نہیں؟

جواب: قرآن کی اس آیت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ فرعون کو اولاد نہیں تھی بلکہ اس میں موسی علیہ السلام کو بطور بیٹا بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہےاور پھرآپ نے جس کسی تفسیر میں فرعون کی اولاد نہ ہونے کا ذکر پڑھا ہے وہاں پر اس بات کے لئے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
جہاں تک مشاطہ والے واقعہ کا معاملہ ہے تو اس کے لئے ایک دلیل ہے جو ثابت ہے اور ثابت شدہ دلیل کے مقابلہ میں بغیر دلیل کی بات نہیں مانی جائے گی اس لئے ثابت شدہ دلیل سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرعون کو اولاد تھی۔

سوال: پانچ افراد ہیں جن کو عمرہ کرنا تھا وہ بغیر احرام باندھے جدہ آگئے ہیں، وہ لوگ دم نہیں دےسکتے ہیں ۔ان کو چار دن ہوگئے جبکہ بتایا جاتا ہےکہ چاردن قیام ہونے پر مقیم ہوجاتا ہے تو کیا وہ جدہ               سے احرام باندھیں گے یا میقات جانا پڑے گا؟

جواب: مسافر اور مقیم کا مسئلہ عمرہ سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ عمرہ ایک الگ چیز ہے اور مسافر و مقیم کا معاملہ دوسری چیز ہے۔آپ جانتے ہیں کہ حجاج کو ایام حج میں (منی، عرفات اور مزدلفہ ) میں قصر سے نمازیں ادا کرنی ہوتی ہے، اگر حاجیوں کے ایام کو دیکھا جائے تو اکثر حجاج مقیم کے حکم میں ہوتے ہیں ،باوجود اس کے وہ حج میں قصر سے نمازیں پڑھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے ہی ثابت ہے ۔ اسی طرح عمرہ کا سفر یا اقامت سے تعلق نہیں ہے بلکہ عمرہ کے جو احکام ہیں وہ نافذ ہوں گے۔

جن لوگوں نے اپنے ملک یا شہر سے عمرہ کی نیت سے جدہ کا سفر کیا تواس کے اوپر لازم تھا کہ وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرتا ۔ اگر وہ جدہ سے ہی احرام باندھ کر عمرہ کرلیتا ہے تو ان پانچوں افراد کو دم دینا پڑےگا لیکن اگر وہ سبھی اپنی میقات پر واپس جاکر احرام باندھ کر آتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کو دم نہیں دینا پڑے گا۔ اور جدہ میں چار دن ٹھہرنے کا عمرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، عمرہ کے لئے عمرہ کے احکام دیکھے جائیں گے ۔

سوال: ایک خاتون ہیں جن کی بیٹی کا خلع ہوا ہے، وہ اسکول میں جاب کرتی ہے ۔اسکول والے عدت کے لئے چھٹی نہیں دے رہے ہیں اور چھٹی ایک ماہ بعد مل رہی ہے ۔اگر جاب چھوٹ گئی تو خرچہ کیسے پورا ہوگا؟

جواب: خلع کی عدت ایک حیض ہے اور یہ لازما خلع والی عورت کو گزارنا چاہیے۔جہاں تک اس لڑکی کا معاملہ ہے جو نوکری کرتی ہے اور عدت گزارنے کے لئے اسے چھٹی نہیں مل رہی ہےاور اگر وہ بغیرچھٹی لئے عدت گزارتی ہے تو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، ایسی صورت میں وہ عدت کے دوران نوکری کر سکتی ہے کیونکہ یہ اس کے لئے اضطراری صورت ہے۔

سوال: ایک ویڈیو میں قاری صہیب صاحب نے بتایا کہ اذان ہوتے وقت دعا کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ جب اذان ہوتی ہے اس وقت اذان کا جواب دینا ہوتا ہے پھر دعا کیسے کریں؟

جواب: قاری صہیب حفظہ اللہ نے جو بات بیان کی ہے وہ درست ہے اور وہ بات صحیح حدیث میں مذکور ہے اور اذان کے وقت دعا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایک وقت میں اذان کا جواب بھی دے سکتے ہیں اور دعا بھی کر سکتے ہیں۔اذان کے وقت دعا کرنے سے متعلق صحیح حدیث مندرجہ ذیل ہے۔

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثِنتانِ لا تُرَدَّانِ أو قلَّما تردَّانِ الدُّعاءُ عندَ النِّداءِ وعندَ البَأسِ حينَ يُلحِمُ بعضُهُم بَعضًا(صحيح أبي داود:2540)

ترجمہ: دو (وقت کی) دعائیں رد نہیں کی جاتیں یا کم ہی رد کی جاتی ہیں: ایک اذان کے بعد کی دعا، دوسرے لڑائی کے وقت کی، جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں۔

سوال : ایک آدمی احرام باندھ کر میقات سے ہوٹل آگیا اور پھر اسے یاد آیا کہ وہ انڈروئیر اتارنا بھول گیا ہے تو کیا اسے کوئی فدیہ یا دم دینا ہوگا؟

 جواب: احرام کی حالت میں مرد کے لئے سلا ہوا کپڑا لگانا منع ہوتا ہے لیکن اگر کوئی احرام کی حالت میں انڈر ویئر اتارنا بھول گیا تو اس کے اوپر کوئی دم اور کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ بھول سے ایسا ہو جانے پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال:کیا بیٹی کسی صورت میں اپنی ماں کو زکوۃ نہیں دے سکتی ہے؟

جواب: زکوۃ کے تعلق سے اصل مسئلہ یہی ہے کہ اولاد خواہ بیٹی ہو یا بیٹا اپنے والدین کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں لیکن کبھی ایسی صورت درپیش ہو سکتی ہے کہ اولاد کے پاس والدین کو دینے کے لئے زکوۃ کے علاوہ کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں اولاد اپنے والدین کو زکوۃ دے سکتی ہے خاص طور سے اکثر عورتوں کے پاس زکوۃ کے علاوہ پیسے نہیں ہوتے ہیں۔

عورتیں عموما اپنے زیورات کی زکوۃ نکالتی ہیں اور زکوۃ کے علاوہ ان کے پاس مزید پیسے نہیں ہوتے لہذا مجبوری میں یہ زکوۃ اپنے والدین کو دے سکتی ہیں مگر وہ عورتیں جن کے پاس اپنا کاروبار ہو اور نوکری و پیشہ سے جڑی ہو ں تو ایسی صورت میں وہ اصل مال سے والدین کی مدد کرے۔

سوال: نمازوں میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر کیسے کرتے ہیں ؟

جواب:جب دو نمازوں کو عذر کے سبب جمع کیا جاتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔

پہلی صورت: جمع تقدیم یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرتے ہوئے دوسری نماز کو پہلی نماز کے ساتھ مقدم کر لینا جیسے ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نماز پڑھنا جمع قدیم ہے۔

دوسری صورت: جمع تاخیر یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کو مؤخر کرکے پڑھنا

جیسے عصر کے وقت ظہر اور عصر کی نماز پڑھنا جمع تاخیر ہے۔

یہاں یہ یاد رہے کہ حالت اقامت میں بغیر عذر کے دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جائے گالیکن سفر میں دونمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔

سوال: اگر رات میں وتر نہ پڑھ سکیں تو اشراق کے وقت کتنی رکعات پڑھنی ہے جبکہ میری عادت تین رکعت وتر کی ہے پھر اس میں دو تشہد ہوگا اور دعائے قنوت بھی ہوگی ان سب کی تفصیل بتادیں ؟

جواب: صحیح قول کی روشنی میں وتر کی نماز واجب نہیں ہے اور وتر کی نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے کسی بھی وقت ادا کر سکتے ہیں۔

جسے رات کے آخری پہر میں وتر کی ادائیگی کی امید نہ ہو وہ عشاء کے بعد ہی وتر ادا کر لے۔اور جو رات میں کسی وقت وتر نہ ادا کر سکے وہ دن میں اس وتر کی قضا کر سکتا ہے۔ وتر کی قضا کرتے ہوئے جفت نماز ادا کرے گا یعنی جو آدمی تین رکعت وتر پڑھا کرتا تھا وہ دن میں وتر کی قضا کرتے وقت چار رکعت پڑھے گا اور دو دو رکعت کر کے پڑھے گا اور اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھنی ہے۔

سوال: والدین نے اپنے دو بیٹوں کے لئے دوالگ الگ گھرخریدے ہیں جن کی آدھی آدھی قیمت ابھی بطور قرض باقی ہے۔ بڑے بیٹے کے لئے جو گھر لیا گیا ہے، اس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے اور وہ گھر والدین کے نام پر ہی ہےجبکہ دوسرا گھرجو چھوٹے بیٹے کے لئے لیا گیا ہے اس کی قیمت تھوڑی کم ہےمگروہ گھر چھوٹے بیٹے کے نام سے رجسٹریشن کرایا گیا ہے۔اب والدین نے دونوں بیٹوں سے کہہ دیا کہ اپنے اپنے گھروں کا باقی بچا قرض خود ادا کرو۔چونکہ بڑے بیٹے کے گھرکا رجسٹریشن نہیں ہوااس میں بھی لاکھوں روپئے چاہئے۔سوال یہ ہے کہ دونوں بیٹوں کو مکان کی قیمت میں فرق کے ساتھ گھردینا جائز ہے جبکہ چھوٹے بھائی کاماننا ہے کہ والدین نے اسے ڈاکٹربنانے پر خرچ کیا اس لئے کم قیمت کے گھر پہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ خدا نخواستہ اگر والدین کا انتقال ہو جائےجن کے نام گھررجسٹرڈہے تو کیا بڑا گھر دونوں بچوں کو وراثت میں دیا جائے گاکیونکہ یہ کاغذ کا زمانہ ہے اور شیطان مال و دولت کے لئے خونی رشتوں کو بھی بگاڑ دیتا ہے تو کل کو کیا پتہ چھوٹا بیٹا بڑےبھائی کے گھر سے وراثت مانگ لے؟

جواب: اگر والد نے دو بیٹوں کے لئے الگ الگ گھر خریدا ہے یعنی دونوں کو گھر گفٹ کیا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ باپ اپنی اولاد کو جو چاہے تحفہ میں دے سکتا ہے اس میں مسئلہ نہیں ہے، بس تحفہ دیتے ہوئے یہ اہم اصول یاد رکھنا چاہیے کہ ساری اولاد کو تحفہ دینا چاہیے۔ اگر اس کے پاس اور بھی اولاد ہے تو انہیں بھی دینا چاہیے خواہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔بڑے اور چھوٹے بیٹے کے گھر کی قیمت میں جو فرق ہے اور فرق کی جو وجہ بیان کی گئی ہے اس حساب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اور چونکہ بڑے بیٹے کا گھر اس کے نام نہیں ہے لہذا بیٹے کو چاہیے کہ اپنا گھر اپنے نام کر لے تاکہ بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اور یہ گھر باپ کے مرنے کے بعد بھی بڑے بیٹے ہی کا ہوگا چاہے کاغذات میں کسی کا بھی نام رہے۔

سوال: کوئی موٹر سائیکل، اسکوٹی وغیرہ کی دکان کھولنا چاہتا ہے لیکن اس میں بہت سے کسٹمر ایسے آتے ہیں جو بینک کے ذریعہ یعنی قرض پر لینا چاہتے ہیں کیونکہ بھارت میں زیادہ تر یہی چلتا ہے تو کیا    اس طرح کی کمائی جائز ہوگی؟

جواب: جو آدمی موٹر سائیکل اور اسکوٹی سودی بنک سے مربوط ہوکر بنک لون کے ذریعہ فروخت کرے تو یہ کاروبار اوراس کی کمائی جائز نہیں ہےکیونکہ سودی بینک سے جڑ کر یہ کام کرنا سود پر تعاون کرنا ہے اور یہ گناہ کا کام ہے۔ انڈیا میں کچھ بھی ہوتا ہو اس سے مسئلہ نہیں ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ اسلام میں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ہے۔اسلام میں جو چیز حلال ہے وہی حلال ہے اور جو حرام ہے وہ حرام ہے لہذا ایک مسلمان کو حلال روزی کھانی چاہیے۔

سوال: ایک شخص اگر کسی چیز کو بیچتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کی رقم اتنے عرصے بعد لوں گا جیسے کسی نے گندم، چاول اور بھینس وغیرہ بیچا اور طے کر لیا کہ اتنی رقم چھ مہینے یا سال بعد لوں گا توکیا یہ درست ہےیایہ سودی معاملہ ہے؟

جواب: اگر آدمی کوئی چیز ابھی بیچتا ہے اور اس کا سودا طے کر لیتا ہے اور سامان دے دیتا ہے لیکن خریدار اس کی قیمت بعد میں دیتا ہے مثلا چھ ماہ بعد تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے یہ تجارت جائز ہے تاہم اس تجارت سے متعلق چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔

٭بیچتے وقت ہی اشیاء کی قیمت طے ہو اور اس قیمت میں چھ مہینے کی مدت کا پیسہ جوڑ کر نہ لیا گیا ہوگاجیسے قسطوں کےکاروبار میں نقد میں الگ رقم اور ادھار میں الگ رقم ہوتی ہے بلکہ موجودہ وقت کے حساب سے پیسہ طے کیا گیا ہو کیونکہ مہلت دے کر اس کے بدلے نفع لینا سود ہے ۔
٭بعد میں اس کی قیمت میں تبدیلی نہ کی جائے۔

٭اور سب سے اہم شرط یہ ہے کہ طے شدہ وقت پر پیسہ نہ دینے کی صورت میں مالی جرمانہ نہ لگایا جائے۔

سوال: ایک بہن کا کہنا ہے کہ میرے پاس سوگرام سونا ہے اور میری مالی حالت اچھی نہیں ہے کہ زکوۃ نکال سکوں۔ گذشتہ سال تک زکوۃ ادا کرتی رہی ،اب گذارا مشکل سے ہورہا ہے، میری تین بیٹیاں ہیں اگران کی شادی کے لئے حصہ نکال دوں پھر بھی مجھے زکوۃ ادا کرنی ہوگی ؟

جواب:جس بہن کے پاس سو گرام سونا ہے تو اس بہن کو سالانہ طور پر زکوۃ دینی پڑے گی لیکن اگر وہ اپنی بیٹیوں کی شادی میں سونا دینا چاہتی ہیں اور ابھی سے ان کا حصہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ کچھ کچھ حصہ اپنی بیٹیوں کے لئے مختص کر دے اور جب شادی ہو تو ان کو ان کا حصہ لازما دے، اس صورت میں جب نصاب سے سونا کم ہو جائے تو زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: اگر کوئی صدقہ کی نیت سے پیسے جمع کرتا ہے تو کیا وہ مسجداور بورنگ کے کام میں یا دیگر جگہوں پر خرچ کرسکتا ہے یا اگر جمع شدہ پیسہ صدقہ کی نیت سے ہوتو صرف محتاجوں اور مسکینوں کو ہی دینا ہے؟

 جواب:صدقہ کی نیت سے جو پیسے جمع کریں وہ دین کے تمام قسم کے کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں، صدقہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف غریب کو دینا ہے بلکہ صدقہ دین کے تمام کاموں کو شامل ہے حتی کہ اگر ضرورت پڑے تو صدقہ سے مالدار آدمی کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔

سوال: ایک ڈاکٹر ہے جو اکوپنچرلیڈی ہے، کیاوہ مردمریض کا علاج کر سکتی ہے، اس میں نبض کے ذریعہ علاج کیا جاتا ہے، ہاتھ کے نبض کوپکڑ کرکہنی تک اور پیروں میں ٹخنوں تک پواٹنٹس پر ٹچ کرکے علاج کیا جاتا ہے اس طرح کا علاج ایک لیڈی ڈاکٹر ، مردمریض کے لئے انجام دے سکتی ہے؟

جواب:ایک عورت غیر محرم مرد کا علاج اسی وقت کر سکتی ہے جب اس مرد کے لئے مرد ڈاکٹر موجود نہ ہو۔ جب مرد ڈاکٹر موجود ہو تو لیڈی ڈاکٹر کو چاہیے کہ اسے مرد مریض کو، مرد ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے مشورہ دے کیونکہ جب عورت مرد کا علاج کرے گی تو کم از کم اس کو چھونے، ٹچ کرنے اور چیک اپ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ عموماً ڈاکٹر کے چمبر میں خلوت بھی ہوتی ہے ایسے میں ایک مرد اور ایک عورت خلوت میں رہیں گے جو کہ جائز نہیں ہے۔

بنابری ایک عورت، عورت ہی کا علاج کرے البتہ جب کبھی اضطراری صورت حال ہو تو لیڈی ڈاکٹر ، مرد کا علاج کر سکتی ہے جیسے اس بیمار کا علاج کرنے والا کوئی مرد نہ ہو یا اسے ایمرجنسی علاج کی ضرورت ہو اور دوسری جگہ لے جانے میں جانی نقصان ہو۔

سوال:ایک عورت ہے جس کی عمر بیالیس سال ہے ، جسم میں طاقت بھی نہیں ہے کہ اولاد ہو سکے اور اس کے گھر میں بڑی ساس بسترمرگ پر ہےاور وہ عورت بہت مجبور ہو گئی ہے کیا ایسی حالت میں کوپرٹی استعمال کرسکتی ہے؟

جواب: سوال میں مذکور تین اسباب کی بنیاد پر کوپرٹی لگانے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ حمل روکنے کے لئے کوپرٹی لگانا بوڑھی ساس کے بیمار ہونے کے سبب یا عورت کے بیالیس سال ہونے کے سبب مناسب نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ عورت اس قدر کمزور ہوکہ حمل کی تکلیف اور توالد برداشت نہیں کر سکتی ہے تو وقتی طور پر ضبط تولید کے لئے کوپرٹی لگانا جائز ہے اس بات کی تاکیدکے ساتھ کہ اس خاتون کے پاس پہلے سے اولاد موجود ہو۔

سوال: میرے جیٹھ کی بیٹی کواس کے میاں نے اسے دو دفعہ ایک ہی ٹائم میں طلاق دی ہے،کیا یہ               طلاق ہو جائے گی؟

جواب: جس مرد نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ میں دو طلاقیں دی ہے تو اس سے ایک طلاق واقع ہوگی اور یہ طلاق رجعی کہلائے گی یعنی اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو تین حیض سے پہلے پہلے اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے اور اگر وہ رجوع نہیں کرتا ہے تو عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے گی یعنی نکاح کا رشتہ ختم ہو جائے گا۔

سوال: اگر ظہر کی نماز مؤخر کرکے عصر کے ساتھ ادا کی جائے تو صرف فرض ادا کریں گے یا مکمل ادا کریں گے؟

جواب:اصل جواب جاننے سے پہلے اس سے متعلق بنیادی مسئلہ جاننا ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ مردوں کو پانچوں نمازیں جماعت سے مسجد میں حاضر ہوکر ادا کرنا ہے اور عورتوں کے لئے جماعت کی رخصت ہے ، اس کی نماز گھر میں افضل ہے۔ اور ہرنماز کا اول و آخر وقت ہے ، عورت کو اس درمیان میں ہرنماز ادا کرلینی چاہئے جبکہ اول وقت میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔ نماز کا اس کے وقت سے تجاوز کرکے قضا کی صورت میں ادا کرنا جائزنہیں ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔

دونمازوں کو جمع کرنے کی دوصورتیں ہیں ، ایک جمع تقدیم اوردوسری جمع تاخیر۔ اور اس کی بھی دوحالتیں ہیں ، ایک حالت ہے سفر کی اور دوسری حالت ہے اقامت کی۔

جب آپ حالت سفر میں ہوں گے اور جمع تقدیم یا جمع تاخیر کریں گے تو سنن رواتب(ماسواوتروسنت فجر) کی ادائیگی نہیں کرنی ہے ، صرف فرض ادا کرنا ہے لیکن جب آپ حالت اقامت میں کسی عذر کے سبب دو نمازوں کو جمع کریں گے تو فرض اور سنن رواتب دونوں ادا کریں گے۔

سوال: کیا قرآن چومنا صحیح ہے۔ بہت سوں کو دیکھا ہے قرآن پڑھنے کے بعد چومتے ہیں اورمنع کرنے پر کہتے ہیں کیوں نہیں چومنا چاہیے؟

جواب: قرآن و حدیث میں قرآن چومنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ لوگوں کی کا بنایا ہوا اپنا طور طریقہ ہے ۔ اگر کوئی اس طرح کرنے کو سنت کہتا ہے یا ایسا کرنے کو باعث اجر و ثواب گردانتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے۔

اور میں نے ہمیشہ ایک بات کی نصیحت کی ہے کہ کسی کو کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھیں تو آپ اس سے دلیل پوچھیں کہ اس کے کرنے کی کیا دلیل ہے کیونکہ دلیل اس کے ذمہ ہے جو کوئی عمل کرے یا کسی کام کے کرنے کا دعوی کرے۔اس لئے جب کبھی ایسے لوگ ملیں تو اس سے دلیل طلب کریں ، آپ کے ذمہ دلیل پیش کرنا نہیں ہے بلکہ مدعی کے ذمہ دلیل ہے اور قرآن چومنے والا مدعی ہے۔

اس سے کہیں کہ اگر تم ایسا کرتے ہو تو دلیل پیش کرو اور اگر دلیل نہیں پیش کر سکتے ہو تو بلا دلیل عمل کیوں کرتے ہو۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے: قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (البقرۃ:111)

ترجمہ:ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ(صحیح مسلم:1718)

ترجمہ:جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے، تو وہ قابل قبول نہيں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس عمل کی کوئی دلیل نہیں ہے اور ہر وہ عمل جس کے لئے دلیل نہ ہو وہ مردود و باطل ہے۔

سوال:اگر ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ ویسے ہی قرآن چوم لیا جائے تو اس میں کوئی حرج ہے؟

جواب: اصل میں بریلویوں نے قرآن چومنے کو ایک مسنون عمل بنالیا ہےاور اس عمل کو باعث اجر و ثواب گردانتا ہے ۔ بریلویوں کے اس عمل کو دیکھ کر عام لوگوں کو لگتا ہے کہ واقعی یہ سنت ہوگی اس لئے عوام بھی ایسا کرتی ہے جبکہ سنت میں ایسا کچھ وارد نہیں ہے۔

ویسے قرآن چومنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ قرآن چومنے کو اپنی عادت بنالیں۔ اگر آپ اس عمل کو اپنی عادت بنالیتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اس کو سنت سمجھ رہے ہیں۔

سوال: اگرکسی عورت نے چار یا پانچ ماہ کی بچی کو صرف پانچ دن دودھ پلایا ہو پھر وہ بچی اپنی ماں کے پاس چلی جائے تو کیا اس سے بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی؟

جواب:اگر چار یا پانچ ماہ کی بچی کو پانچ دن میں پانچ مرتبہ دودھ پلایا گیا ہو تو اس سے رضاعت ثابت ہو جائے گی اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ بچی پھر اپنی ماں کے پاس چلی جائے۔ رضاعت کے لئے شیرخواری میں پانچ مرتبہ صرف دودھ پینا کافی ہے، باقی بچی کہیں بھی رہے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: کسی کا گھرمسجد کے سامنے ہو اور مسجد میں نماز باجماعت ہو رہی ہو تو اپنے گھر میں صف بنا کر اس جماعت میں شامل ہوا جا سکتا ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ حرم کے پاس ہوٹلز کے اپنے کمروں کولوگ بطور مصلی بناتے ہیں اور حرم کی جماعت میں رش کی وجہ سے شریک ہوتے ہیں ان کی نماز ہوجاتی ہے۔ اس کو دلیل بناکرہم مسجد کے قریب گھروں میں مسجد کی جماعت میں شریک ہوسکتے ہیں؟

جواب: جس نے آپ سے یہ کہا ہے کہ حرم کے قریب ہوٹلوں میں رہتے ہوئے حرم کے امام کی اقتداء کر سکتے ہیں اور نماز ہو جائے گی اس نے غلط کہا ہے۔ حرم کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ حرم شریف کے اندر نماز پڑھیں اور متصل ہوکر صف میں نماز پڑھیں اور جو لوگ حرم کے قریب ہوٹلوں میں رہتے ہوئے امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں ان کی نماز درست نہیں ہے۔

جس طرح حرم کے قریب ہوٹلوں میں نماز پڑھنے والوں کی نماز درست نہیں ہے اسی طرح دوسرے مقام پرمسجد کے پاس گھر میں رہتے ہوئے مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔

سوال: جب کُرسی پر نماز پڑھی جاتی ہے تو سجدہ کے لئے ہاتھ گھٹنوں پر رہنے چاہئے یا آگے پھیلا نا چاہئے؟

جواب: کرسی پر نماز پڑھنے کے مختلف احکام اور مسائل ہیں لہذا جو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کرسی پر نماز پڑھنے سے متعلق مکمل احکام و مسائل کو جانے۔ اس سلسلے میں میرا ایک مضمون "بیٹھ کر نماز پڑھنے کے احکام" کا مطالعہ کریں جو میرے بلاگ پر موجود ہے۔جہاں تک سوال ہے کہ کرسی پر نماز پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاتھ گھٹنے پر ہونا چاہیے جیسے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی حالت میں ہوتا ہے۔

سوال: ایک معلمہ قرآن پڑھاتی ہےاور گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لئےوہ مناسب فیس بھی لیتی ہے، اس کی نیت صدقہ جاریہ کے طور پر پڑھاناہو لیکن مجبوری کے تحت کچھ فیس لے رہی ہوتوکیا معلمہ کوقرآن پڑھانے کا اجرنہیں ملے گاکیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب پڑھانے کی فیس لی جائے تو اجر نہیں ملتاہے؟

جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم پر مناسب اجرت لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

إنَّ أحَقَّ ما أخَذْتُمْ عليه أجْرًا كِتَابُ اللَّهِ(صحیح البخاری: 5737)

ترجمہ:بیشک سب سے زیادہ مستحق کام جس کی اجرت لی جائے کتاب اللہ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم دینے پر اجرت لینے کی وجہ سے آدمی قرآن کی تعلیم دینے کے اجر سے محروم نہیں ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی نیت خالص رکھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ(صحيح البخاري:5027)

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو بھی قرآن دوسروں کو سکھاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہتر انسان ہے اور دینی تعلیم دینا صدقہ جاریہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ تعلیم دیتے ہوئے اپنی نیت خالص رکھیں یعنی اللہ کی رضا اور قرآن کی خدمت کی نیت سے تعلیم دیں۔ اگر تعلیم دینے کا مقصد محض پیسہ کمانا نہ ہو اور شہرت مقصود نہ ہو بلکہ رضائے الہی مقصود ہو تو یقینا اس طرح کی تعلیم دینے پر اجر و ثواب ملے گا چاہے پڑھانے پر اجرت ہی کی کیوں نہ لی جاتی ہو۔ پوری دنیا میں دینی مدارس موجود ہیں جن میں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے ، ان میں تعلیم دینے والے اکثر علماء اجرت لیتے ہیں اس لئے محنت کے بقدر تعلیمی اجرت لینے پر اجر سے محروم قرار نہیں دئے جائیں گے بشرطیکہ نیت خالص ہو۔

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ دردو دنیا کی واحد ایسی عبادت ہے جس سے ایک ہی وقت میں گناہ بھی معاف ہوتے ہیں، نیکیاں بھی لکھی جاتیں ہیں اور درجات بلند بھی کر دیئے جاتے ہیں؟

جواب: یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ درود پڑھنے سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں ، نیکیاں بھی لکھی جاتیں اور درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ(صحیح الجامع : 6359)

ترجمہ: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔

مگر یہ بات کہنا کہ صرف درود ہی ایسی عبادت ہے صحیح نہیں ہے، بعض دوسرے اعمال کو بھی یہ خصوصیت حاصل ہے۔

ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَهُوَ ثَانٍ رِجْلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ، كُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَكَانَ يَوْمَهُ ذَلِكَ كُلَّهُ فِي حِرْزٍ مِنْ كُلِّ مَكْرُوهٍ، وَحُرِسَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَلَمْ يَنْبَغِ لِذَنْبٍ أَنْ يُدْرِكَهُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ إِلَّا الشِّرْكَ بِاللَّهِ (صحیح الترمذی:3474)

ترجمہ:جو شخص نماز فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دو زانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء» دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ و ناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا، اور شیطان کے زیر اثر نہ آ پانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی، اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کر سکے گا۔
اسی طرح عمارہ بن شبیب سبائی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ عَلَى إِثْرِ الْمَغْرِبِ، بَعَثَ اللَّهُ مَسْلَحَةً يَحْفَظُونَهُ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ مُوجِبَاتٍ، وَمَحَا عَنْهُ عَشْرَ سَيِّئَاتٍ مُوبِقَاتٍ، وَكَانَتْ لَهُ بِعَدْلِ عَشْرِ رِقَابٍ مُؤْمِنَاتٍ (صحیح الترمذی:3534)

ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد دس بار کہا: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي  ويميت وهو على كل شيء قدير» اللہ اس کی صبح تک حفاظت کے لیے مسلح فرشتے بھیجے گا جو اس کی شیطان سے حفاظت کریں گے اور اس کے لیے ان کے عوض دس نیکیاں لکھی جائیں گی جو اسے اجر و ثواب کا مستحق بنائیں گی اور اس کی مہلک برائیاں اور گناہ مٹا دیں گی اور اسے دس مسلمان غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔

سوال: اگر وتر نماز قضا ہو جائے تو اس کی ادائیگی کس وقت کریں اور اگر غلطی سے وتر میں دعائے قنوت پڑھنا بھول جائیں تو کیا نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی؟

جواب: سب سے پہلے وتر کا حکم جان لیں کہ وتر کی نماز واجب نہیں ہے سنت مؤکدہ ہے۔ اگر کبھی چھوٹ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم آدمی عمدا اس نماز کو نہ چھوڑے، برابر اس نماز کو ادا کرتا رہے۔نبی ﷺ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو زندگی بھر یہ نماز ادا کرنے کی وصیت کی تھی۔

جب کبھی وتر کی نماز پڑھتے ہوئے دعائے قنوت بھول جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ کبھی کبھار آپ خود سے بھی چھوڑ سکتے ہیں یعنی کبھی بغیر دعائے قنوت کے بھی وتر کی نماز ادا کر سکتے ہیں۔

جب رات میں کبھی وتر کی نماز نہ پڑھ سکیں تو دن میں ظہر سے پہلے اس کی قضا کر سکتے ہیں اور دن میں وتر کی نماز قضا کرتے ہوئے جفت ادا کریں گے یعنی اگر آپ رات میں ایک رکعت وتر پڑھتے تھے تو دن میں دو پڑھیں گے اور اگر تین رکعت وتر پڑھتے تھے تو دن میں چاررکعت دو سلام سے پڑھیں گے۔

سوال: میں فنڈنگ کا کام کرتی ہوں لوگ مجھے رقم بھیجتے ہیں ،مجھے کسی بہن نے قربانی کے لیے کچھ رقم بھیجی تھی لیکن قربانی نہیں کر سکی کیونکہ ان کی قربانی نہیں ہوگی، وہ ایک قربانی کا پورا حصہ دے رہی ہے ،اس کی طرف سے بھی صدقہ ہی ہوگا قربانی نہیں ہوگی۔رقم بھیجنے والی کو نہیں جانتی تو کیامیں وہ کسی بھی فی سبیل اللہ کام میں لگا سکتی ہوں ؟

جواب: بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت اہم ہے اس لئے پیسوں کی فنڈنگ کے سلسلے میں بہت محتاط رہنا چاہیے اور جو جس نیت سے پیسہ دے اس پیسے کو اسی مد میں خرچ کرنا چاہیے۔ اگر اس میں آگے پیچھے کرتے ہیں یا کمی کرتے ہیں تو پھر ایک ایک پیسے کا اللہ کے یہاں حساب دینا پڑے گا۔

فنڈنگ کرتے ہوئے شروع ہی میں اس بات کا احتیاط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہر ایک کو یہ خبر دی جائے جو جتنا پیسہ بھیجے اور جس مد میں بھیجے اس کی تفصیل اور معلومات بھی ساتھ ذمہ دار کو بھیجے یا الگ الگ مد کا الگ الگ اکاؤنٹ ہونا چاہیے مثلا زکوۃ کے لیے الگ اکاؤنٹ اور صدقہ و خیرات کے لئے الگ اکاؤنٹ۔

بہرکیف! آپ نے قربانی کا جو پیسہ لیا ہے ، اسے عام صدقہ نہ کریں بلکہ اگر اس پیسے میں کوئی جانور آجائے تو کسی غریب کو جانور خرید کے دے دیں تاکہ وہ قربانی کرلے اور اس کا ثواب پیسہ دینے والے کو ملے اور کچھ پیسہ گھٹ جائے تو مزید پیسہ ملا کر قربانی کا انتظام کریں۔

سوال: کیا فٹ بال کو کریئر کے طور پر چنا جا سکتا ہے؟

جواب: ایک مسلمان کے لئے فٹبال ، کرکٹ، والی بال، ٹینس یا اس طرح کے دیگر کسی کھیل کو اپنی زندگی کے لئے بطور کیریئر منتخب کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے اس کے متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

٭ہماری تخلیق کا مقصد اللہ رب العالمین کی بندگی ہے جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:56)

ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔

جو کوئی کھیل کو اپنا کیریئر بناتا ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا دیتا ہے اور وہ کبھی بھی تخلیق کا مقصد پورا نہیں کر سکتا۔

٭اس دنیا میں ہم بطور آزمائش و امتحان بھیجے گئے ہیں تاکہ اچھا عمل کریں جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك:2)

ترجمہ:جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور )بخشنے والا ہے ۔

جو آدمی کھیل کو اپنا کیریئر بنائے گا اسے زندگی کی آزمائشوں میں کامیابی کی فکر نہیں ہوگی بلکہ اسے دنیاوی کھیلوں میں کامیابی کی فکر ہوگی ، اس طرح وہ فکر آخرت اور اس کی تیاری کو بھول بیٹھے گا۔

٭ایک دنیا کی زندگی ہے اور ایک آخرت کی زندگی ہے،دنیا کی زندگی کو کھیل تماشہ صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو اللہ کے دین پر عمل نہیں کرتے اور جو اللہ کے دین پر عمل کرتے ہیں وہ آخرت کو اپنا اصل گھر سمجھ کر دنیا میں آخرت کی تیاری کرتے ہیں ، نہ کہ کھیل تماشے میں اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہیں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (الانعام:32)

ترجمہ:اور دنیاوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لہو و لعب کے اور دار آخرت متقیوں کے لئے بہتر ہے کیا تم سوچتے سمجھتے نہیں ۔

٭دنیا کی زندگی مومن کے لئے انتہائی قیمتی ہے، وہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العالمین کی رضا، اس کی بندگی اور آخرت سنوارنے میں لگاتا ہے ۔ اس کے برعکس کفار لوگ دنیا کے کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں اور اپنی خواہشات کی پیچھے بھاگتے ہیں یہاں تک کہ موت آجاتی ہے لیکن جب مرکر اللہ کے پاس جائیں گے تو پھر اسی دنیا میں آنے کی دوبارہ تمنا کریں گے مگر ان کی تمنا پوری نہیں ہوگی۔ اللہ فرماتا ہے:

وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ (السجدة:12)

ترجمہ:کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالٰی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے ، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں ۔

اس آیت سے اس دنیا کی زندگی کا اندازہ لگائیں کہ اگر ہم دنیا کی زندگی کو رب کی بندگی میں نہ لگا کر کھیل تماشے میں لگائیں تو پھر اسی دنیا میں آنے کے لئے اور نیک عمل کرنے کے لئے آخرت میں ترسیں گے مگر اس وقت افسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

لہذا وقت رہتے ہمیں مقصد تخلیق کو سمجھ لینا ہے اور اسی مقصد کے تحت اپنی زندگی گزارنی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی گزاری ہے ہمیں آپ کی سیرت کو اپناتے ہوئے اسی طرز پر اپنی زندگی گزارنی ہے۔

سوال: میری عمر اڑتالیس سال ہے اور شاید عمر کے اس حصے میں مینوپاز (حیض ختم ہونے کا عمل) کا وقت قریب ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے میری ماہواری کے دن بے قاعدہ ہو گئے ہیں۔ کبھی دو دو یا ڈھائی ڈھائی مہینے ماہواری نہیں آتی اور کبھی آ بھی جاتی ہے۔اس مہینے پہلی بار ایسا ہوا کہ تیرہ دن کے اندر ہی دوبارہ ماہواری آ گئی ہے لیکن اس بار مجھے عام علامات جیسے جسم میں بھاری پن اور سردی محسوس ہونا محسوس نہیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر تیرہ دن کے اندر دوبارہ ماہواری آ جائے تو اسے حیض شمار کیا جائے گایامیں ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھ سکتی ہوں؟

جواب: جب عورت پچاس کے قریب ہونے لگتی ہے تو ماہواری کا سلسلہ بند ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ساٹھ تک پہنچتے پہنچتے عام طور سے ماہواری منقطع ہو جاتی ہے۔عمر دراز خاتون کو جب کسی ماہ ماہواری نہ آئے تو اس مہینے میں مکمل طور پر نماز پڑھنا ہے اور جب ماہواری آئے اور اس میں ماہواری کے صفات موجود ہوں تو اتنے دن نمازو روزہ سے رک جانا ہے اور جب ماہواری ختم ہو جائے تو غسل کرکے نماز کی پابندی کرنا ہے۔

جیساکہ مذکورہ صورتحال ہے کہ ایک مرتبہ ماہواری آئی اور پاک ہونے کے بعد پھر دوبارہ ماہواری آگئی۔اس مسئلہ میں بنیادی بات جو سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ حیض کو اس کے صفات سے پہچانیں گے نہ کہ جسم کے درد اور سردی سے۔ حیض کے تین اہم صفات ہیں اس کا رنگ کالا ہوتا ہے، وہ گاڑھا ہوتا ہے اور اس میں بدبو ہوتی ہے۔

جب پہلی مرتبہ خون آیا اور اس میں مذکورہ بالا تینوں صفات موجود تھے تو وہ حیض کا وقت تھا اور جب حیض سے پاکی حاصل ہو گئی یعنی پورے طور پر حیض منقطع ہوگیا۔ پھر چند دن کے بعد دوبارہ خون آنے لگے اس حال میں کہ اس میں حیض کی کیفیت نہ ہو تو دوبارہ آنے والا خون حیض نہیں مانا جائے گا بلکہ فاسد خون مانا جائے گا اس حال میں عورت ہر نماز کے وقت پہلے خون آلود جگہ کی صفائی کرلے پھر وضو کرکے نماز ادا کرے۔

سوال: پہلا بچہ ہونے پر لوگوں میں مٹھائی تقسیم کرتے ہیں اور"نیمنگ سریمنی" لکھ کر ڈبہ میں لڈو ڈالکر گھر گھر بانٹتے ہیں کیا ایسا کرنا صحیح ہےاور لڈو کھاسکتے ہیں؟

جواب: اگر کسی کے یہاں پہلا بچہ ہو یا دوسرا ہو یا تیسرا وچوتھا بچہ ہو اور وہ خوشی میں لوگوں کو مٹھائی کھلائے یا کوئی چیز تقسیم کرے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے آپ اس کا تحفہ قبول کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی اس معاملہ میں رسم و رواج پر عمل کرے اور اس رواج کے تحت کوئی تقریب منعقد کرے یا اس رواج کے تحت کوئی چیز ہمیں بھیجے تو ہمیں اس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت وہ چیز قبول کرکے اس رسم کا آپ حصہ بن جاتے ہیں لہذا آپ کے گھر جو لڈو بھیجا جاتا ہے اس کی حیثیت معلوم کر کے مذکورہ بالا حکم کے مطابق عمل کریں ۔

سوال: اگر قبض یا گیس کی وجہ سے وضو بار بار ٹوٹ جاتا ہویعنی ایک نماز میں ہی دو یا تین دفعہ، اس صورتحال میں ہر بار وضو کرنا ضروری ہے یا ایک ہی وضو سے نماز ہو جائے گی؟

جواب: اگر کسی کو قبض اور گیس کی وجہ سے مستقل طور پر ہوا خارج ہونے کا پرابلم ہے تو وہ ہر نماز کے وقت ایک دفعہ وضو کرے اور اس وضو سے ایک وقت کی ساری نمازیں ادا کر لے یعنی بار بار وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر دوسرے وقت میں جب دوسری نماز ادا کرے تو ایک وقت کی ساری نماز ایک وضو سے ادا کرے۔یہ تو اس کے لئے مسئلہ ہے جس کو مستقل طور پر ہوا خارج ہونے کی شکایت ہو لیکن اگر کسی کو مستقل بیماری نہ ہو، وقتی طور پر ایسا ہو رہا ہو تو اسے ہوا خارج ہونے پر پھر سے وضو کرنا پڑے گا۔

سوال: ایک عورت کے رحم میں ٹانکے لگے ہیں جس کی وجہ سے شرمگاہ سے خون آرہا ہے کیا اس کے لئے نمازو روزہ جائز ہے؟

جواب: اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ کیا شرمگاہ سے نکلنے والا خون نفاس کی مدت کا ہے؟

اگر یہ خون بچے کے توالد کے وقت نفاس والا ہے تو اس حال میں عورت نماز اور روزہ سے رکی رہے گی یہاں تک کہ نفاس سے پاک ہو جائے۔اور اگر شرمگاہ سے نکلنے والا خون نفاس کی مدت میں نہیں ہے یعنی یہ خون صرف ٹانکے لگے رہنے کے سبب زخم سے رس رہا ہے تو اس کے لئے نماز وروزہ ہے ۔ایسی صورت میں اس عورت کو نماز سے پہلے خون آلود جگہ کی صفائی کر لینی ہے پھر لنگوٹ باندھ لینا ہے اس کے بعد وضو کرکے ایک وقت کی ساری نمازیں ادا کرنا ہے اور اسی طرح ہر نماز سے پہلے صفائی کرنی ہے پھر لنگوٹ باندھ کر اور وضو کرکے نماز ادا کرنا ہے۔

سوال: عورت کا عورت سے کتنا پردہ ہے؟

جواب: ایک عورت کا دوسری عورت کے لئے ستر وہی ہے جو ایک مرد کا مرد کے لئے ہوتا ہے یعنی ایک مرد کا دوسرے مرد کے لئے ستر ناف سے نیچے اور گھٹنے سے اوپر ہے۔ ایک عورت کا دوسری عورتوں کے لئے بھی یہی ستر ہے یعنی ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر اس درمیان کا حصہ ہے۔

جہاں تک پردہ کا مسئلہ ہے تو عورت سراپہ پردے کی چیز ہے لہذا ایک عورت اپنے پورے بدن کا پردہ عورتوں سے بھی کرے ماسوا ہاتھ و پیر اور چہرہ کے۔ اور کوئی عورت ننگا ہو کر یا عریاں لباس لگاکر دوسری عورت کے سامنے بھی نہ جائے بلکہ اپنے سینہ، پیٹ، پیٹھ وغیرہ سب کچھ دوسری عورتوں سے بھی چھپاکر رکھے کیونکہ اس کے ظاہر کرنے میں فتنہ ہے۔اور جہاں کہیں فتنے کا اندیشہ ہو جیسے کافر عورتوں کے درمیان تو وہاں بہتر ہے کہ وہ مکمل پردہ کرے یعنی چہرے تک کا بھی پردہ کرے۔

سوال: اگر بیوی ساس و سسر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے، اس کا شوہر الگ گھر دینے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور بیوی الگ رہنے کی خواہش کرے تو اسے گناہ ہوگا جبکہ ساتھ رہنے سے ازدواجی زندگی پہ اثر ہو رہا؟

جواب: ایک معاملہ ہے جوائنٹ فیملی کا جس میں دیور، دیورانی، نند، جیٹھ، جیٹھانی اور ان کی اولاد وغیرہ سب ہوں۔ اس طرح کے مشترکہ فیملی میں زندگی گزارنا بہت ساری مشکلات کا سبب ہے اس لئے اس قسم نظام کو ختم کیا جانا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کے ذمے جہاں بیوی کا نان و نفقہ ہے وہیں اس کی رہائش کا انتظام کرنا بھی ہے یعنی شوہر جہاں رہے وہاں پر بیوی کے لئے بھی اچھی رہائش کا انتظام کرے۔

تیسری اور اصل بات جو سوال میں پوچھی گئی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بہو کا اپنی ساس اور سسر سے الگ رہنا ساس و سسر کے لئے تکلیف کا سبب ہے پھر الگ رہائش کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

والدین کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر شوہر بیوی کو نئی جگہ رکھ دے تو کیا بیوی چاہے گی کہ اس کا شوہر اپنے والدین کے پاس رہے جبکہ والدین کی خدمت اولاد کی ذمہ داری ہے؟ ہرگز نہیں چاہے گی۔

گویا یہ حالات پر منحصر ہے، اگر حالات اس کی اجازت دیتے ہوں تو بہو اپنے شوہر سے الگ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہے اور حالات ٹھیک نہ ہوں تو یہ مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے بیوی کے سبب شوہر سے اس کے والدین کے حق میں ظلم و زیادتی ہو جائے ۔

سوال: عقیقہ کا گوشت رشتہ داروں میں بانٹنے کے بعد کچھ حصہ گھر میں بھی رکھ سکتے ہیں کیا جیسے کلیجی ، پائے اور گردے وغیرہ؟

جواب: عقیقہ کا گوشت بھی قربانی کی طرح ہے۔ اسے خود بھی کھائیں دوسروں کو بھی کھلائیں خواہ پکاکر کھلائیں یا گوشت تقسیم کریں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر اسے اسٹور کرکے رکھنا مناسب نہیں معلوم ہوتاہے۔ جانور کی معمولی یا الگ قسم کی چیزیں جیسے اوجھڑی، پایا اور سر رکھ لینے میں حرج نہیں ہے(لوگوں بلکہ محتاجوں میں تقسیم کردیتے ہیں تو اور اچھی بات ہے کیونکہ رکھنے سے بہتر تقسیم کرنا ہے) اور میں سمجھتا ہوں اس کے علاوہ باقی ساری چیزوں کو مکس کرکےخود بھی کھانا چاہئے اور دوسروں کو بھی کھلانا چاہیے۔ کلیجی گردے تو وہ حصے ہیں جو سب کو پسند ہیں پھر سب کو پسند آنے والی چیزیں اپنے حصے میں رکھ لینا مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ(صحیح البخاری:13)

ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہوگا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو اپنےنفس کے لیے پسند کرتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عقیقہ کرنے والا خودبھی گوشت کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور اپنے لئے جو پسند کرتا ہے اپنے بھائیوں کے لئے بھی پسند کرے ، کوئی ان چیزوں کو اپنے لئے رکھ لیتا ہے تو اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ، اصل یہ ہے کہ کھائے اور کھلائے ۔

سوال:ایک عورت پوچھتی ہے کہ وہ غریب خاندان سے ہے اس کا شوہر نہیں کماتا ہے ، والدین فوت ہوچکے ہیں اور سسرال والے بہن بھائیوں سے مانگنے کو کہتے ہیں ۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا تو اس نے مجبوری میں اپنی ساس کے بیس ہزار روپئے چوری کرلئے ، وہ کہتی ہیں کہ مجھے پچھتاوا بہت زیادہ ہے، میں اللہ سے بہت معافی مانگتی ہوں، میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ ساس کو واپس کر دوں کیونکہ کوئی مجھے نہیں دیتا کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا یا مجھے ہرحال میں پیسے چکانے ہیں؟

جواب: چوری کرنا بہت بدترین خصلت ہے اور یہ ایسا گناہ ہے جس کے سبب ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایسا مجرم عمر بھرلوگوں کے لئے نشان عبرت بن جاتا ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔(صحیح البخاری:3775)

مذکورہ بالا واقعہ میں چوروں کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے اس لئے کتنی بھی مجبوری ہوجائے کسی کو چوری نہیں کرنا چاہئے، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے بھیگ کر کھائے۔ جس خاتون نے اپنی ساس کا پیسہ چوری کیا ہے اسے چاہئے کہ اپنی ساس کو یہ بات بتائے، اگر وہ معاف کردیتی ہے تو معاف ہوجائے گا مگر یونہی دل میں معافی مانگنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوگا، آخرت میں اللہ سخت محاسبہ کرے گا اس لئے ساس سے بتاکر اور اس سے معافی مانگ کر اپنے معاملہ کا تصفیہ کرلے۔

سوال: امام ممبر پہ بیٹھ گیا ہو اور اذان ہو رہی ہو تو اس وقت مسجد میں آنے والا کیا کرے گا؟

جواب: مقتدی چاہے تو اذان کا جواب دئے بغیر فورا تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے کیونکہ اذان کا جواب دینا واجب نہیں سنت ہے تاہم بہتر ہے کہ وہ اذان سنے ، اس کا جواب دے اور اس کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھ کر پھر تحیۃ المسجد پڑھے اس طرح اذان کا اجر بھی مل جائے گا۔
تحیۃ المسجد وہ نماز ہے جس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے دوران بیٹھنے والے کو کھڑا کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لہذا جوشخص خطبہ کے دوران مسجد آئے اسے ہلکی دورکعت نماز پڑھ کر ہی بیٹھنا چاہئے۔

سوال: کیا کوئی مسلمان مندروں، گرجا گھروں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی دعا کر سکتا ہے۔مولانا سجاد نعمانی یہ دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بالکل کر سکتے ہیں اور بطور دلیل کہ یہ بات کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں یہ حرام ہوتا تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر میں فرعونوں کی ایک بھی عبادت گاہ نہیں چھوڑتے اور عبیداللہ بن جراح اور خالد بن ولید عراق اور شام میں ان کی ایک بھی عبادت گاہ نہیں چھوڑتے جبکہ ان جگہوں پر یہ سب آج بھی موجود ہیں؟

جواب:سجاد نعمانی صاحب کی بات ہی نہ کریں وہ تو الٹی پلٹی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ شیعوں کو اپنا ہمنوا سمجھتے ہیں مگر اہل توحید کو اپنا دوست نہیں مانتے۔ دن و رات سعودی عرب کو گالیاں دیتے اور یہاں کے حکام کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کے دشمن شیعوں کی کھل کر تعریف کرتے ہیں ۔ ابھی میں ملت ٹائمس پر ایک انٹرویو سن رہا تھا جس میں انہوں نے شیعوں کی بڑی تعریف کی ہے اور ایران کو فلسطین کے مسلمانوں کا اصل ہمدرد قرار دیا ہے جبکہ ایرانی شیعوں نے کس طرح فلسطینی مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا اور ہزاروں لوگوں کی زندگی تباہ کروائی وہ اہل خرد اچھی طرح جانتے ہیں مگرسجاد نعمانی جیسے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔

مسلمان کبھی بھی مندروں، گرجا گھروں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے دعا نہیں کرسکتا، یہ عمل جائز نہیں ہے۔ اسلام تو آیا ہے ایک اللّٰہ کی عبادت کے لئے۔ کوئی مسلمان کیسے اللہ تعالی سے یہ دعا کر سکتا ہے کہ دنیا میں غیر اللہ کی عبادت کی جانے والی جگہ بھی محفوظ رہے اور اللہ سے ان جگہوں کی حفاظت کے لئے دعاکرے۔گرجا گھروں کو توڑنا ایک الگ مسئلہ معاملہ ہے اوران کی حفاظت کے لئے دعا کرنا ایک الگ مسئلہ ہے اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اللہ رب العالمین نے سورہ انعام میں ہمیں حکم دیا ہے کہ "اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جاہلانہ ضد سے گزر کر اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے"۔اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھی غیر اللہ کی تعظیم کریں یا کافروں سے دوستی کریں۔

سوال: اگر کسی کو وتر کی دعا اور اسی طرح جنازہ کی دعا یاد نہ ہوتووہ کیا پڑھے گا؟

جواب: یہ قابل افسوس مقام ہے کہ ایک مسلمان کو وتر کی یا جنازہ کی دعا یادنہ ہو۔ ایسا مسلمان بلاتاخیر جنازے کی اور وتر کی دعا یاد کرے گا اور زبانی طور پر نماز میں دعا پڑھے گااور یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے۔وتر میں کبھی دعا چھوڑ دیتے ہیں تب بھی کوئی حرج کی بات نہیں اور جنازے سے متعلق کئی دعائیں ہیں کوئی بھی یاد کر لی جائے ۔

سوال: آپ نے ایک ویڈیو میں کہا ہےکہ اشراق کی فضیلت پانے کے لئے فجر کی نماز ادا کر کے اسی جگہ بیٹھ کر ذکر کرے جب تک کہ اشراق کا وقت نہ ہو جائے ،اگر اس درمیان کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اس فضیلت سے محروم ہو جائے گا جو اشراق میں حاصل ہوتاہے؟

جواب: کوئی آدمی اشراق کی نماز کے لئے بیٹھا ہوا ہے اس حال میں وضو ٹوٹ جائے تو وضو کر کے آنے میں حرج نہیں ہے، یہ اٹھنا عذر کے سبب ہے اور اس سبب اشراق کی فضیلت ختم نہیں ہوگی بلکہ ایسے آدمی کو پورا اجر ملے گا ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔