Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(23)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(23)

جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: ایک بیمار خاتون بیٹھ نہیں سکتی، نہ کرسی پر، نہ زمین پر اور وہ رکوع تو کر سکتی ہے مگرسجدہ کیسے کرے یعنی کتنا جھکےاور ہاتھ کہاں رکھے؟

جواب: صحیح بخاری میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔(بخاری: 1117)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے، وہ پہلو کے بل نماز پڑھے لہذا جو خاتون مرض کی وجہ سے کھڑے ہوکر یا زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہے وہ دائیں پہلو پر نماز پڑھے۔اس کی کیفیت یہ ہوگی کہ دائیں کروٹ لیٹ کر اپنا چہرہ قبلہ کی جانب رکھے اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر قیام کرے، پھررکوع کے وقت رفع یدین کرکے ہاتھ اپنی راہ پر رکھے اور رکوع کے لئے تھوڑا سا سر جھکائے اور پھر سجدہ کے لئے اس سے زیادہ سر جھکائے یعنی جتنی استطاعت ہو اسی قدر،اس حال میں دونوں ہاتھ ران پر رہے یا ران پر نہ رکھ سکے تو زمین پر ہی رکھ لے ، اسی طرح تشہد میں رکھے اور قیام میں سینے پر باندھےپھردائیں اور بائیں جانب سلام پھیرکر نماز مکمل کرے ۔ مریض کے لئے لیٹ کر نماز پڑھنے میں ہاتھوں اور سرجھکانے کا مسئلہ اس کی استطاعت کے بقدر ہے ۔ جب مریض حرکت نہ کرسکے تو اشارہ سے نماز پڑھنا ہی کافی ہوگا۔

سوال: بچوں کے لئے جاندار کی ڈرائنگ بنا سکتے ہیں ، آنکھیں بند ہوں؟

جواب: بچوں کو بہلانے اور ان کی تعلیم و تربیت کے طور پر اس طرح کی چیزیں معمولی حد تک بنا سکتے ہیں کیونکہ بچوں کو گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت نظر آتی ہے مگر اس میں غلو نہیں ہونا چاہیے۔ فقط کام چلانے کے لئے کبھی کبھار اس طرح کے ڈرائنگ کا سہارا لیا جائے یا ہوم ورک ہو تو اس کو کمپلیٹ کر سکتے ہیں۔

سوال: کیا شدید تکلیف یا سخت مصیبت کے اظہار کے لئے اس طرح کہنا صحیح ہے کہ"اللہ ایسی تکلیف یا مصیبت کسی دشمن کو بھی نہ دے"؟

جواب: ہم اپنے معاشرے میں اپنا دشمن اپنے ہی پڑوسی یا رشتہ داروں کو مانتے ہیں جن سے ہمارا جھگڑا اور اختلاف رہتا ہے۔ دراصل ایسے ہی پس منظر میں یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ اس پس منظر کو شریعت سے جوڑ کے دیکھیں تو اس طرح کی سوچ ہی غلط ہے پھر ہم ایسی بات کیسے اپنی زبان سے نکال سکتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں اپنے مسلم بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنے سے منع فرمایا ہے یعنی ہم مسلمان اصلا آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کا دشمن نہیں ہو سکتا ہے اس لئے اپنی زبان سے اس طرح کا جملہ تکلیف یا کسی اور موقع پر نکالنا درست و مناسب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا جملہ کہنا بھی ایک طرح سے مصیبت کو ظاہر کرنا ہوا جبکہ ہمیں مصیبت کے نزول پر صبر کرنا چاہیے اور اس سے باہر نکلنے کی تدبیر اپنانے کے ساتھ اللہ سے دعائیں کرنی چاہیے۔ اللہ سے اپنے لئے بھی دعا کریں اور دیگر مسلمان بھائیوں کی خیروعافیت کے لئےبھی دعا کریں ۔

سوال: قضائے حاجت کے علاوہ ہر وضو کے لئے استنجا کرنا ضروری ہے؟

جواب: بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جب صبح اٹھیں تو ہر حال میں وضو سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہے خواہ آپ پیشاب یا پاخانہ کریں یا نہ کریں۔ اس بات کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ جھوٹی بات ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ قضائے حاجت کے علاوہ ہر وضو سے پہلے استنجا کرنا پڑے گا۔

وضو کا قضائے حاجت یا استنجا سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے، حاجت و استنجا اپنی جگہ ایک الگ چیز ہے اور وضو اپنی جگہ ایک الگ چیز ہے۔ نماز پڑھنے کے لئے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے صرف وضو کرنے کا حکم دیا ہے، استنجا یا قضائے حاجت کرنے کا حکم نہیں دیا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ(ترمذی:1)

ترجمہ:نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے۔‏‏‏‏

اس حدیث سے مسئلہ واضح ہے کہ نماز سے پہلے صرف وضو کریں گے۔ ہاں اگر کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو جائے پھر اس کے بعد وضو بنائے۔

سوال: کیا عورت کو جہاد کی خاطر لڑنے اور نامحرموں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہے؟

جواب: جہاد سے متعلق بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کے لئے جہاد نہیں ہے اس لئے عورت جہاد نہیں کرے گی، جہاد کرنا صرف مرد کا کام ہے البتہ عورتیں جہاد میں مجاہدوں کی بعض حیثیت سے مدد کرنے کی خاطر جا سکتی ہیں جیسا کہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں مذکور ہے۔

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ میں) شریک ہوتے تھے، مسلمان فوجیوں کو پانی پلاتیں تھیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور جو لوگ شہید ہو جاتے انہیں مدینہ اٹھا کر لاتیں تھیں۔(بخاری:2882)

آج کل کی جنگیں میزائل اور توپ کی جنگیں ہیں، تعاون کے لئے یہاں پر خواتین کی ضرورت نہیں ہے۔ جو فوجی اس قسم کی جنگوں میں زخمی ہوں گے یا انہیں علاج کی ضرورت ہوگی فورا ایمرجنسی طور پر ہسپتال میں داخل کیا جائے گا اور یہ ایمرجنسی سہولیات فوجی تنظیم میں موجود ہوتی ہیں۔

جب پہلے جیسے کبھی حالات ہوں اور تیر و تلوار سے جنگ لڑی جائے تو وہاں عورتیں بعض کاموں پر تعاون دینے کے لئے جا سکتی ہیں۔

سوال: میرے خاوند نے ایک طلاق دی پھر عدت کے دوران رجوع کر لیا اور پھر اس کے بعد میرے بھائی اسے تنگ کرتے تھے تو ڈرانے کے طور پر طلاق کا اسٹامپ پیپر بھیجا لیکن اس میں دستخط نہیں ہے ، زبان سے طلاق بولا ،نہ ہاتھ سے پیپر پر لکھا۔ پھر اس کے بعد اس نے پھر طلاق دی تو کیا رجوع ہو سکتا ہے اور وہ جو پیپر والی طلاق ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب شوہر نے پہلی طلاق دی اورعدت میں رجوع کر لیا تو میاں بیوی کا رشتہ بحال ہو گیا لیکن پہلی طلاق کا اختیار شوہر کھو چکا ہے۔

جب شوہر نے دوسری بار طلاق کا پیپر بیوی کو بھیجا ہے تو اس سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی اور یہ دوسری طلاق مانی جائے گی۔طلاق کے لئے کوئی ضروری نہیں ہے کہ شوہر ہاتھ سے لکھے یا زبان سے بولے یا پیپر پردستخط کرے یا کورٹ سے لکھوائے، اس سب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شوہر نے طلاق کا پیپر بناکر بیوی کو بھیج دیا جس میں طلاق دیتا ہوں لکھا ہو تویہ طلاق مانی جائے گی۔پیپر والی طلاق کے بعد اگر تین حیض کی عدت باقی ہے تو شوہر رجوع کر سکتا ہے اور اگر تین حیض کی عدت ختم ہو گئی ہے تو رجوع نہیں ہو سکتا ہے اور میاں بیوی میں تعلق ختم ہو چکا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پیپروالی طلاق کے بعد پھر جو طلاق دی گئی ہے وہ شمار نہیں ہوگی خواہ وہ طلاق عدت میں دی گئی ہو۔ اور عدت کے بعد تو میاں بیوی کا رشتہ ہی ختم ہوجاتا ہے ایسے میں شوہر طلاق دینے کااختیار نہیں رکھتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ پیپر والی طلاق شمار کی جائے گی ، اگر اس طلاق کے بعد عدت باقی ہے تو شوہر رجوع کرسکتا ہے اور عدت ختم ہوگئی ہے تو میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوگیا ہے تاہم اگر وہ دونوں پھر سے اکٹھا ہونا چاہتے ہیں تو نئے نکاح اور نئے مہر کے ذریعہ اکٹھا ہوسکتے ہیں ۔

سوال: اگر جمعہ کو غسل کرکے بے دھیانی میں بھول کرپرفیوم لگالیا ہو جس میں مہک بھی تیز نہ ہو اور بیس منٹ کے بعدجمعہ کی نمازکے لئے مسجد جانا ہو تو کیا عورت جاسکتی ہے جبکہ عبایا میں پرفیوم نہیں ہے یا اس کو لباس تبدیل کرنا ہوگا، مسجد میں خواتین کا بالکل علاحدہ ہال ہے؟

جواب:عورت کے لئے پرفیوم لگا کر مسجد جانا سختی کے ساتھ منع ہے۔ اگر کسی عورت نے بدن یا لباس پر خوشبو لگائی ہو اور وہ مسجد جانا چاہے تو اسے غسل کرکے اپنے بدن کی خوشبو زائل کرنی ہوگی ، اس بارے میں حدیث دیکھیں ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَرَجَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلْتَغْتَسِلْ مِنَ الطِّيبِ كَمَا تَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ(سنن نسائی:5130، صححہ البانی(

ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت مسجد کے لیے نکلے تو خوشبو مٹانے کے لیے اس طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کرتی ہے۔

لہذا جس عورت نے بھول کر یا جان بوجھ کر اپنے بدن پر یا کپڑے پر خوشبو لگائی ہو وہ اپنے جسم و کپڑے سے خوشبو کو مکمل طور پر زائل کرلے تبھی مسجد حاضر ہو،چاہے خوشبو کم ہو یا زیادہ اور مسجد میں عورتوں کی جگہ علاحدہ ہی کیوں نہ ہو اور دس منٹ میں مسجد جانا ہو یا بیس منٹ میں جانا ہو، اس سے بحث نہیں ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ عورت کے لئے مسجد جانے کے جو نبوی ارشادات ہیں ان کے مطابق عورت مسجد جائے ۔

نیز عورت کے لئے خوشبو لگا کر صرف مسجد جانا ہی منع نہیں ہے بلکہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنا بھی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

ذرا اس حدیث کو پڑھیں اور غور کریں کہ اس بارے میں کس قدر وعید آئی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں (اور اس کی طرف متوجہ ہوں) تو وہ بدکارہ (زانیہ) ہے۔(سنن نسائی:5129،حسنہ البانی)

سوال: اگر ہم تہجد کے لئے اٹھتے ہیں تو اس میں کتنی رکعت پڑھنا زیادہ افضل ہے، دو پڑھ لیں ،چار پڑھ لیں یا آٹھ رکعت پڑھنا ضروری ہے ، اور جس کو عم پارہ سے بڑی سورتیں یاد نہیں، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد ہیں تو رکعتوں میں باربار دہراکر پڑھ سکتے ہیں اور کسی نے کہا ہے کہ قرآن سے بھی دیکھ کر نماز میں پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب: تہجد کی رکعت گیارہ ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر اسی عدد کے ساتھ ہمیشہ تہجد پڑھا کرتے تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، فإذا طَلَعَ الفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ علَى شِقِّهِ الأيْمَنِ، حتَّى يَجِيءَ المُؤَذِّنُ فيُؤْذِنَهُ(صحيح البخاري:6310)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں (تہجد کی) گیارہ رکعات پڑھتے تھے پھر جب فجر طلوع ہو جاتی تو دو ہلکی رکعات (سنت فجر) پڑھتے۔ اس کے بعد آپ دائیں پہلو لیٹ جاتے آخر مؤذن آتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتا تو آپ فجر کی نماز پڑھاتے۔

لہذا ہمیں بھی تہجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پڑھنا چاہیے اور کبھی کبھار کم یا زیادہ ہو جائے تو حرج کی بات نہیں ہے لیکن اصل یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئےگیارہ رکعت تہجد پڑھا کریں۔

چھوٹی یا بڑی جو سورتیں آپ کو یاد ہیں وہ تہجد میں پڑھا کریں تاہم ایک ہی سورت کو بار بار نہیں پڑھیں گے کیونکہ احادیث سے ہمیں ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ جو یاد ہے اتنا پڑھیں گے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ(المنزل:20)

ترجمہ: تمہیں جو میسر ہو قران میں سے پڑھو۔

یہ ہماری غلطی ہے کہ ہمیں اتنا بھی قرآن یاد نہیں کہ تہجد کی نماز پڑھ سکیں اس کے لئے ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم اتنا قرآن ازبر کریں جس سے کم از کم تہجد پڑھ سکیں اور جب تک زیادہ یاد نہ ہو سکے تب تک قرآن سے دیکھ کر بھی تہجد پڑھ سکتے ہیں یعنی مجبوری میں قرآن سے دیکھ کر تہجد کی نماز پڑھنا جائز ہے۔

سوال: ہمارے پڑوس کے گھر آٹھ مہینے کی بیٹی پیدا ہوئی اور مستقل دس دن ہاسپیٹل میں ہی رہی اور دس دن میں اس کی وفات ہو گئی ایک دفعہ بھی گھر نہیں آئی تو کیا اس کا عقیقہ کرنا چاہیے؟

جواب: جس کے یہاں بچہ پیدا ہوا اگر وہ عقیقہ کرنے کی استطاعت رکھتا تھا تو اسے چاہیے تھا کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کرتا۔ اگر عقیقہ کی استطاعت نہیں تھی تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور عقیقہ کے لئے بچے کا گھر پہ ہونا ضروری نہیں تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ جو بچہ وفات پا جائے یا جو انسان وفات پایا ہوا ہو اگر اس کی طرف سے عقیقہ نہیں ہوا ہے تو کیا میت کی طرف سے عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب شریعت میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے جس سے پتہ چلے کہ میت کی طرف سے عقیقہ دیا گیا ہو لہذا مرنے والے بچے کی طرف سے عقیقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے تاہم بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مرنے والے بچے کی طرف سے عقیقہ دے سکتے ہیں۔

سوال : میرا شوہر کافی سخت ہے، گالیاں دیتا اور مار پیٹ بھی کرتا ہے ۔گھر کا کھانا پینا وہی کرتا ہے البتہ الگ سے جیب خرچ نہیں ملتی ، بچوں پر خرچ کرتا ہے ،کیا ایسے شوہر کی اطاعت واجب ہے جبکہ وہ اپنی بیوی کو اپنے بھائیوں کے ساتھ عمرہ کرنے سے منع کرے اور اپنے ماں باپ کی قبر پر جانے سے روکے۔ایسے میں کیا شوہر کی اطاعت لازمی ہے یا عورت اس کی اجازت کے بنا عمرہ کرنے یا قبرستان جا سکتی ہے؟

جواب: ایسی بہن کو اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ کم از کم اس کا شوہر نان و نفقہ ادا کرنے والا ہے ورنہ بہت سارے ظالم ہیں جو اپنی بیویوں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ الحمدللہ بہت ساری مظلوم بہنوں سے اس بہن کی حالت اچھی ہے۔جہاں تک شوہر کی سختی، گالی اور مار پیٹ کا معاملہ ہے تو بیوی کو سمجھنا پڑے گا کہ کس بات پر شوہر ناراض ہوتا ہے، گالی گلوچ اور مار پیٹ کرتا ہے ان باتوں سے خود کو پرہیز کرکے رکھے۔

باقی شوہر کی اطاعت بیوی پر لازم اور فرض ہے اس کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم نہیں نکال سکتی ہے کیونکہ وہی اس کا ذمہ دار ہے۔ دراصل یہیں سے بیوی کے لئے ظلم کا دروازہ کھلتا ہے جب وہ اپنی مرضی سے گھر سے نکلنا چاہتی ہے یا شوہر کی مخالفت کرکے اپنی مرضی سے زندگی گزارنا شروع کردیتی ہے۔ جس وقت عورت یہ سمجھ لے کہ مجھے شوہر کی خوشی کے ساتھ جینا ہے اسی دن سے شوہر کے دل میں بیوی کے لئے محبت جاگ جاتی ہے اور آپ سمجھ لیں کہ اللہ نے عورت میں وہ خصوصیت رکھی ہے جسے کام میں لاکر کسی کا دل جیت سکتی ہے۔

سوال: شوہراپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات نہیں قائم کرتاہے، اگر بیوی اسے اپنی اس   حاجت کے متعلق اصرار کرتی ہے تو وہ ناراض ہوتا ہے یا بحث و مباحثہ کرتا ہے اور بیوی کو اس کا یہ حق نہیں دیتا۔ ان حالات میں شریعت بیوی کو کیا حکم دیتی ہیں؟

جواب: جیسے بیوی کے اوپر لازم ہے کہ شوہر کی جنسی خواہش کا احترام کرے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے اسی طرح شوہر پر بھی لازم ہے کہ بیوی کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جب اس کے دل میں قربت کی چاہت پیدا ہو تو اس کی طلب پوری کرے یعنی یہ وہ حق زوجیت ہے جو میاں اور بیوی دونوں کے درمیان مشترک ہے، دونوں کو ایک دوسرے کی خواہش و طلب کا احترام کرنا پڑے گا۔

بہر کیف! اس معاملہ میں زور زبردستی نہیں کی جائے گی بلکہ حکمت اور پیار بھرے انداز کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کیا جائے گا۔ اللہ نے عورت کے اندر وہ کشش رکھی ہے جس کے سامنے حکومتیں جھک پڑتی ہیں لہذا عورت اپنی اس فطری ہنر کو کام میں لاتے ہوئے اپنے شوہر سے اپنی ضرورت پوری کرے۔

کوشش کے باوجود اگر شوہر بیوی کی جنسی خواہش نہیں پوری کرتاہے اور مسلسل کئی ماہ گزر جائیں تو اس صورت بیوی ایسے مرد سے علاحدگی اختیار کرسکتی ہے لیکن کبھی کبھار اس کی ضرورت پوری کرتا ہے یا اپنی خواہش سے جماع کرتا ہے اور بیوی صبر کرسکتی ہے تو صبر کرے ۔

سوال: مالک بن دینار کا ایک واقعہ ہے جس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط سالی آگئی، بارش نہیں ہو رہی تھی تو ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور مسئلہ بتایا نبی کو مخاطب کرتے ہوئے تو اس شخص کے خواب میں ایک شخص ظاہر ہوا اور کہنے لگا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ انہیں سلام کرو اور اس چیز کی انہیں خبر دو ، تمہیں پانی دیا جائے گا ۔اس نے ایسا ہی کیا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور کہا کہ وہ رونے لگے اور دعا کی اے اللہ! میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا سوائے اس کے جو میرے اختیار میں نہیں، کیا یہ صحیح ہے اور قبر سے مدد مانگ سکتے ہیں ؟

جواب: شیخ البانی کی وسیلہ سے متعلق ایک کتاب ہے اس میں اس روایت کو درج کرکے اس کے بارے میں کہا کہ یہ ضعیف ہے اس لئے اس حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ہے۔

أصابَ الناسَ قحطٌ في زمنِ عمرَ، فجاءَ رجلٌ إلى قبرِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! استسقِ لأمَّتكَ، فإنَّهُمْ قد هلكُوا، فأتى الرجلَ في المنامِ، فقيلَ لهُ : ائتِ عُمرَ.. الحديث.( التوسل للألباني:118)

حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی قبر اور صاحب قبر سے مدد نہیں مانگ سکتے ہیں، یہ شرکیہ عمل ہے اس عمل سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے کیونکہ پکار عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے خاص ہے لہذا مدد کے لئے ہم صرف اللہ رب العالمین کو پکاریں گے۔

سوال: امام ابن جوزی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حافظ ابوعالی ہمدانی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تو کسی نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ ایک ایسے شہر میں بیٹھے ہیں جس کی ہر دیوار کتابوں سے بنی ہوئی ہے اور اس کے ارد گرد بھی بے حد و حساب کتابیں پڑھی ہیں اور وہ درمیان میں بیٹھ کر مطالعہ کر رہے ہیں پوچھا گیا یہ اپ کے ارد گرد اتنی کتابیں کیوں ہیں فرمایا یہاں ا کر میں نے اللہ تعالی کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ یا اللہ مجھے دنیا میں جس شے سے زیادہ محبت تھی اور میرا دین رات کا جو مشغلہ تھا مجھے یہاں بھی عطا فرما چنانچہ اللہ تعالی نے میری خواہش پوری کر دی اور یہ کتاب میں عطا فرما دی اس لیے اب میں یہاں بھی ہر وقت مطالعہ میں مشغول رہتا ہوں(طبقات الحنابلہ لابن رجب)۔

کیا ایک خواب کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہے کہ "جنت میں بھی کتاب دوستی ہوگی"اور کیا جنت میں مطالعہ کا امکان موجود ہے، اگر اس بارے میں کوئی دلیل موجود ہے تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟

جواب:جنت کا معاملہ غیبی امور میں سے ہے ، اس بارے میں محض خواب کو معیار بنانا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے، بغیر نص صریح کے غیبی امور میں کوئی بات نہیں بیان کرسکتے ہیں ۔ جنت میں مطلقا مومنوں کے پڑھنے سے متعلق صراحت نہیں ہے ، اشارتا پڑھنے کا ذکر ملتا ہے جیسے یہ روایت ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة، قلت: من هذا؟ فقالوا: حارثة بن النعمان، كذلكم البر كذلكم البر (وكان أبر الناس بأمه)(السلسلۃ الصحیحۃ:913)

ترجمہ:‏‏‏‏میں جنت میں داخل ہوا، میں نے وہاں قراءت کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا: (‏‏‏‏جس کی آواز آ رہی ہے) یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: حارثہ بن نعمان ہے۔ یہی نیکی اور (‏‏‏‏حسن سلوک) ہے، یہی نیکی اور (‏‏‏‏‏حسن سلوک) ہے، وہ (‏‏‏‏‏‏‏‏‏حارثہ) اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کرنے والا تھا۔

اس لئے صراحت کے ساتھ اور تمام مومنوں کے لئے مطلق طور پر جنت میں پڑھنے والی بات بیان نہیں کی جاسکتی ہے اور یہ بات بھی محض کسی کے خواب کی وجہ سے بیان نہیں کی جاسکتی ہے کہ جنت میں مومنوں کی کتاب دوستی ہوگی۔ عمومی طورپر یہ دلیل موجود ہے کہ جنت میں مومن جو خواہش کرے گا اس کی خواہش پوری کی جائے گی مگر خصوصیت کے ساتھ کسی چیز کو بیان کرنے کے لئے کتاب وسنت سے صریح دلیل چاہئے۔ اللہ کا فرمان ہے:

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ, يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (الزخرف:-70-71)
ترجمہ:تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ ،ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

سوال: نماز کے شروع میں نیت دل سے کی جاتی ہے یعنی زبان سے الفاظ ادا نہیں کرتے تو کیا نیت کرتے وقت کوئی دعا یا الفاظ قرآن یا حدیث سے ثابت ہیں جسے ہم نیت کرتے وقت دل میں پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: نماز کے شروع میں یا کسی بھی عمل کے شروع میں نیت کرنے کا تعلق دل سے ہے اور دل کا مطلب ارادہ ہے یعنی دل میں عمل سے متعلق جو ارادہ اور خیال پیدا ہوتا ہے اسی کا نام نیت ہے اس کے لئے قرآن وحدیث سے کوئی مخصوص دعا ثابت نہیں ہے۔

نیت کا معاملہ صرف نماز کے تعلق ہی سے نہیں ہے بلکہ جمیع عبادات سے متعلق ہے جیسے وضو سے پہلے نیت، غسل سے پہلے نیت، زکوۃ سے پہلے نیت اور صدقہ سے پہلے نیت یعنی تمام عبادات میں پہلے نیت ہے اور وہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اس کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔
اصل میں الفاظ تو زبان کے لئے درکار ہوتے ہیں، دل کے لئے الفاظ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دل سے سوچا جاتا ہے نہ کہ بولا جاتا ہے ۔

سوال: مدینہ منورہ کا ایک نام ”الجابرة“ (جوڑنے والا شہر) ہے کیونکہ یہاں شکستہ دل جڑتے ہیں اور ڈولتا ہوا ایمان قرار پکڑتا ہے۔ اور ایک نام ”المجبورة“ (جوڑا گیا شہر) ہے کیونکہ اللہ نے اسے اپنی پیارے نبی ﷺ کی سکونت کے ذریعہ جوڑ دیا ہے اور اسے فضائل و برکات کا منبع بنا دیا ہے۔ (وفاء الوفاء للسمهودي : ١٦/١، ٢٤/١)

جواب: علامہ نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے مدینہ کے لئے دس نام ذکر فرمائے ہیں ، وہ یہ ہیں ۔ [المدينة وطابة وطيبة والدار والمطيبة والمسكينة، والجابرة، والمجبورة، والمحببة، والمحبوبة، والقاصمة]۔ اورحموی نے معجم البلدان میں 29 نام گنائے ہیں ، وہ یہ ہیں ۔(المدينة، وطيبة، وطابة، والمسكينة، والعذراء، والجابرة، والمحبة، والمحببة، والمحبورة، ويثرب، والناجية، والموفية، وأكالة البلدان، والمباركة، والمحفوفة، والمسلمة، والمجنة، والقدسية، والعاصمة، والمرزوقة، والحيرة، والمحبوبة، والمحرومة، وجابرة، والمختارة، والمحرمة، والقاصمة، وطبابا)۔
اور بعض دیگر لوگوں نے چالیس بلکہ اس سے بھی زائد نام گنائے ہیں تاہم جو مشہور ہیں ہمیں ان پر اکتفا کرنا چاہئے ۔

سوال میں مدینہ کے جن دو ناموں کا ذکرہے وہ نام بھی اہل علم نے مدینہ کے اسماء میں شمار کیا ہے جیساکہ میں نے اوپر بتایا ہے اور اس میں جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے وہ کافی مشہور کتاب ہے جو تاریخ مدینہ پر مبنی ہے ۔ اس کتاب کا پورا نام "وفاء الوفاء باخباردارالمصطفی ہے، اس کے مصنف علی بن عبداللہ بن احمد حسنی شافعی ہیں جو نورالدین ابوالحسن سمہودی (متوفی:911ھ) سے معروف ہیں۔ تاریخی اعتبار سے یہ کتاب معلوماتی ہے ، اس کتاب کے شروع میں مدینہ کے مختلف نام اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں ان میں یہ دو نام اور ان کی وجہ تسمیہ بھی ہیں۔
اس کتاب میں نبی ﷺ کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے کہ جو نبی ﷺ سے مدد مانگنے یا آپ کی قبر کے پاس آکر کچھ طلب کرے اس کی مراد پوری ہے ، یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہ شرک ہے۔ہمیں مدد کے لئے صرف اللہ کو پکارنا چاہئے۔

سوال: ایک شخص غیر مسلم ملک میں رہتا ہے، اس کے پاس ذاتی کار ہے ۔ جب وہ گھر سے کہیں سفر پہ دور جاتا ہے اور جب بھی نماز کا وقت ہوتا ہے تو وہ جہاں گیس اسٹیشن ہو وہاں پر اپنی کار روک کر وضو کرکے کار کے اندر بیٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ آس پاس کی زمین پاک نہیں سمجھ آتی جس وجہ سے کہیں باہر نماز نہیں پڑھتا ہوں اور کہیں بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں لگتا ۔جب اللہ نے کاردیا ہے تو کار کے اندر ہی آرام سے پڑھ لیتا ہوں ،کیا اس کا کار میں بیٹھ کر نماز پڑھناصحیح عمل ہے؟

جواب: جو آدمی اپنی کار کے اندر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوگی اس کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ سوائے عذر کے فرض نماز سواری پر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ساری زمین نماز پڑھنے کے لئے مسجد بنا دیا ہے اس لئے جہاں پر بھی نماز کا وقت ہوجائے، مسلمان زمین کے اس حصے پر نماز پڑھ سکتا ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔

ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الأرضُ كلُّها مسجدٌ إلا الحمامَ والمقبرةَ(صحيح أبي داود:492)

ترجمہ:ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے۔

لہذا جو بندہ اپنی کار میں بیٹھ کر نماز پڑھتا ہےاس کی نماز صحیح نہیں ہے۔ اسے لازما زمین پر کھڑا ہوکر نماز پڑھنا ہے اور زمین پر سجدہ کرنا ہے اس طرح کہ جسم کے سات اعضاء زمین زمین سے جڑے ہوں۔ اس بندے کو اس بارے میں صحیح بات کی خبر دی جائے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکے اور زمین پر اس طرح عبادت کرے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کرکے دکھایا ہے۔

سوال: پڑوس میں سے اگر کسی بچے کی حصلی کے کھانے کا نوتا آئے تو وہاں کا کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں۔ حاصلی اصل میں کیا ہے یہ تو ہمیں بھی نہیں پتہ، بس اتنا معلوم چلا کہ بچہ جب بہت دعاؤں کے بعد پیدا ہو جاتا ہے تو نذر وغیرہ کچھ مانتے ہیں کہ اتنے سال میں حسلی اتارینگے ایسا کچھ۔۔ اور پھر اس کا کھانا بھی رکھتے ہیں، دعوت کرتے ہیں؟

جواب: پہلی بات یہ ہے جس دعوت کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے اس کے لئے آپ نے تین مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں حصلی، حاصلی اور حسلی۔ جہاں تک اس دعوت کے کھانے کا معاملہ ہے تو اس دعوت کے کھانے سے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں، کیا اسلام میں اس دعوت کا ثبوت ہے، کیا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی دعوت کرنے اور دعوت کھانے کی ترغیب دی ہے؟

اگر اسلام میں ایسی کوئی دعوت نہیں ہے تو نہ اس قسم کی دعوت کرنا جائز ہے اور نہ ہی اس قسم کی دعوت میں شریک ہونا جائز ہے۔

اور حقیقت یہی ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی دعوت نہیں ہے لہذا اگر کسی پڑوسی سے اس طرح کا دعوت نامہ آئے تو نہ صرف دعوت قبول کرنے سے انکار کریں بلکہ انہیں ایسی دعوت نہ کرنے کی نصیحت بھی کریں، ممکن ہے نصیحت کام آئے اور کم ازکم آپ بری الذمہ ہوجائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور زبان سے منع کرنے کی طاقت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔(صحیح مسلم:49)

سوال: چندہ کا پیسہ جس کام کے لئے وصول ہوتا ہے وہی کام کرنا ہے یا کسی دوسرے خیر کے کام میں تھوڑے پیسے دے سکتے ہیں، یا ایسا کرنا دھوکہ دینے کے برابر ہوگا جیسے کسی کی بیماری میں مدد کے لیے عورتوں نے پیسہ جمع کیا۔ جس کے پاس پیسہ جمع ہے اس کے پاس آکر ایک دوسری بیمار عورت یہ کہتی ہے کہ میں بھی ضرورت مند ہوں مجھے بھی کچھ پیسہ چاہیے تو کیا جمع شدہ پیسوں سے کچھ اس کو دے سکتے ہیں حالانکہ پیسہ کسی دوسری بیمار عورت کے لئے جمع ہوا ہے، اگر اس کو دیا تو دھوکہ دینے جیسا ہوتا ہے؟

جواب: اصل یہی ہے کہ جس بیمار کے لئے پیسہ جمع کیا گیا ہے وہ پیسہ اسی بیمار پر صرف کیا جائے گا، یہی امانتداری کا تقاضہ ہے کیونکہ جمع بھی اسی کے لیے کیا گیا ہے اور لوگوں نے بھی اسی کو دینے کی نیت سے چندہ دیاہے لہذا اسی بیمار پر وہ پیسہ خرچ کیا جائے جس کے لیے جمع کیا گیا ہے۔
جب اس بیمار کے علاج اور ٹھیک ہوجانے کے بعد پیسہ بچ جائے تو پھر اس قسم کے دوسرے ضرورت مند پر خرچ کیا جا سکتا ہے مگر علاج سے پہلے نہیں۔

سوال: جو شخص سود کے ذریعہ کاروبار کرتا ہے ، کیا اس کی دعوت قبول کرسکتے ہیں ؟

جواب: کسی کے یہاں دعوت کھانے سے متعلق ایک اصول یاد رکھیں۔ اگر دعوت کھلانے والے کی مکمل کمائی حرام کی ہے تو اس کی دعوت نہیں قبول کرنی چاہیے اور اگر اس کے پاس حرام اور حلال دونوں مکس ہیں تو اس کی دعوت کھا سکتے ہیں۔ خالص حرام کمائی والے کی کوئی بھی دعوت قبول نہ کریں۔

سوال: اگر کوئی مرد اذان کے بعد مسجد میں داخل ہوتا ہے یعنی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد اور اس کو کہیں سفر پہ جانے کی یا کسی اور کام کے لئے جانے کی جلدی ہے تو کیا ایسے میں وہ مرد کی جماعت کھڑی ہونے سے پہلے اکیلے ہی بنا جماعت کے نماز پڑھ کے مسجد سے نکل سکتا ہے؟

جواب:جب کوئی آدمی مسجد جائے اور اذان ہو گئی ہے تو اسے مسجد سے باہر نہیں نکلنا ہے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھ لے کیونکہ اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔ابراہیم بن مہاجر نے ابو شعثاء سے روایت کی، کہا:

كُنَّا قُعُودًا في المَسْجِدِ مع أَبِي هُرَيْرَةَ ، فأذَّنَ المُؤَذِّنُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ المَسْجِدِ يَمْشِي فأتْبَعَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ بَصَرَهُ حتَّى خَرَجَ مِنَ المَسْجِدِ، فَقالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَمَّا هذا، فقَدْ عَصَى أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ(صحيح مسلم:655)

ترجمہ:ہم مسجد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان کہی، ایک آدمی مسجدسے اٹھ کر چل پڑا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےمسلسل اس پر نظر رکھی حتی کہ وہ مسجد سے نکل گیا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےکہا: یہ شخص، یقینا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔

جس بندہ کو سفر پر جانے کی ضرورت ہے اور اس کے پاس وقت نہیں ہے تو وہ مسجد نہیں آئے گا، وہ اپنے سفر پر نکلے گا اور جب وہ مسجد آیا ہے تو وہ مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ کر نکلے وہ مسجد سے اکیلے نماز پڑھ کر نہیں نکلے گا۔

انسان کو اپنی ضرورت کا علم ہوتا ہے اور نماز پڑھنے والے کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنے میں کتنا ٹائم لگتا ہے لہذا اگر کسی کو ایمرجنسی کہیں نکلنے کی ضرورت ہے تو وہ اپنی ضرورت پر نکل جائے اور اگر وہ مسجد کی جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے تب مسجد جائے۔

مسجد میں داخل ہونے اور اذان ہو جانے کے بعد ایک اضطراری صورت یہ ہے کہ اذان کے بعد مجبوری کے تحت مسجد سے نکلنا پڑ جائے تو آدمی مسجد سے نکل سکتا ہے لیکن جماعت سے پہلے اکیلے مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا۔

سوال:جو لوگ عمرہ کے لئے آتے ہیں وہ لوگ مکہ میں سات دن اور مدینہ میں سات دن رہتے ہیں لیکن جب وہ مکہ میں رہتے اور انہیں عمرہ کرنا پڑے تو بار بار انہیں عائشہ مسجد جانا پڑے گا اور بعد میں وہ جدہ میں اقامت کریں گے تو عمرہ جانے کے لئے انہیں عائشہ مسجد جانا ہوگا یا پھر یہیں جدہ سے ڈائریکٹ عمرہ کر سکتے ہیں؟

جواب: جو عمرہ پہ آتے ہیں ان کو چاہیے کہ اپنا عمرہ مکمل کرکے صبر کے ساتھ مکہ اور مدینہ میں رہیں اور دوسری عبادات پہ توجہ دیں، بار بار عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سفر میں ایک عمرہ کافی ہوتا ہے اور یہی سنت ہے۔عمرہ پر آنے والا جب تک مکہ میں ہے وہ دوسرا عمرہ کے لئے مسجد عائشہ جائے گا اور جب وہی آدمی جدہ چلا جائے اور وہاں سے عمرہ کا ارادہ بنے تو وہ جدہ سے ہی احرام باندھ کر عمرہ کرے گا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ عمرہ کو عمرہ کی طرح انجام دیں اور بار بار ، جلدی جلدی کئی عمرہ کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ سنت کی مخالفت ہے تاہم ایک طویل سفر میں کچھ دنوں کے وقفہ کے ساتھ دوبارہ عمرہ کیا جاسکتا ہے۔

سوال: الحمد للہ میں اپنے اطراف میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ حتی المقدور انجام دے رہی ہوں ، معاشرتی طور پر سب سے تعلقات رہتے ہیں جن میں دیوبندی خواتین بھی ہیں ، وہ لوگ چاہتی ہیں کہ میں ان کے یہاں بھی دعوت و تبلیغ کروں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے حلانکہ وہ سب جانتی ہیں کہ میں اہلحدیث ہوں اور سلفی منہج کے مطابق دعوت ہوگی ، ان کو ہمارے بیان پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اس بارے میں رہنمائی درکار ہے؟

جواب: دین اسلام تمام جہان والوں کے لئے ہے لہذا ہمیں جہاں پر بھی دعوت حق پیش کرنے کا موقع مل جائے ہم ان لوگوں پر اپنی دعوت پیش کریں بلکہ ہمیں از خود کوشش کرنی چاہیے کہ ہم دیوبندی، بریلوی، ہندو، عیسائی، تمام لوگوں میں دین کی دعوت عام کریں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ یہ تو ہمارے دین اور اسلام کا تقاضہ ہے اور ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اہل حدیث کو دعوت دے دئے، ہمارا فریضہ ادا ہو گیا ایسا نہیں ہے ، اہل حدیث کی دعوت قرآن و حدیث کی دعوت ہے اور یہ صرف اہل حدیث طبقہ تک ہی محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ بلا تفریق تمام لوگوں کے لئے ہونی چاہیے لہذا جس قدر وسعت و طاقت ہو اپنی دعوت کو دوسروں میں عام کریں۔ نیز خواتین میں دعوت کا کام کرتے ہوئے شرعی حجاب اور شرعی حدود کی پابندی کرنا اور فتنے کے مقامات سے بچنا ازحد ضروری امر ہے مثلامردوزن کا اختلاط نہ ہو، دعوت کی جگہ عورتوں کے لئے محفوظ و مامون ہو اور مجمع کی تصاویرویڈیوز پر پابندی ہو تاکہ سوشل میڈیا پر اس کا بیجا استعمال نہ ہو۔

سوال: میں مالی طور پر مستحکم نہیں ہوں، میری ایک بیٹی ہے اور وہ الحمدللہ تین سال کی ہوگئی ہے اور اب میں دوسرا بچہ چاہ رہی ہوں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے پر مجھے پتہ چلا کہ تھوڑے علاج کی ضرورت ہے جس کے لئے میرے اور میرے شوہر کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں مگر مجھے بہت شدت سے دوسرے بچے کی طلب ہے۔ اس بارے میں شوہر سے میری لڑائی بھی ہوئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے دوسرا بچہ نہیں چاہیے ابھی ایک ہی بس ، یہی کافی ہے ۔کیاانہوں نے اللہ پاک کو ناراض کیا ، اللہ پاک سے کیسے معافی طلب کریں تاکہ اللہ پاک معاف کر دے اور دوسرا بچہ بھی آجائے بنا علاج کے؟

جواب: بنیادی طور پر پہلے آپ کو دو چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پہلی چیز یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کو زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ عہد رسول میں کافر لوگ کھلانے پلانے کے ڈر سے بچوں کا قتل کرتے تھے اور آج بھی غیر مسلم کم بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ انہیں کھلانا نہ پڑے جبکہ اللہ تعالی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ بچوں کو اور تم کو روزی اللہ ہی دیتا ہے اس لئے روزی کے ڈر سے بچوں کا قتل مت کرو۔ فرمان الٰہی ہے:

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (الاسراء:31)
ترجمہ: اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

ان دونوں دلیلوں کی روشنی میں آپ کے شوہر کی سوچ درست نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول نے جو حکم دیا ہے اس کے خلاف ہے لہذا انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ نے ایک عورت کو ایک بچہ دیا ہے تو اسے دوسرا بچہ بھی ہو سکتا ہے لہذا کسی علاج کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بس شوہر کے ساتھ حق زوجیت ادا کریں اور اللہ رب العالمین سے اپنی زبان میں اولاد کے لئے دعا کریں۔ اس سے پہلےقرآن وحدیث کی روشنی میں اپنے شوہر کے ایمان و عقیدے اور سوچ و فکر کی اصلاح کریں اور پہلے شوہر کی وہ سوچ بنائیں جو ایک مسلمان کی سوچ ہونی چاہیے۔ اولاد دینا اللہ کا کام ہے اور کوشش کرنا اللہ کے بندوں کا کام ہے۔ جب کبھی شرعی عذر کے تحت حمل میں وقفہ کی ضرورت پڑے تو اس میں حرج نہیں ہے مگر غیروں کی نقالی میں بغیرعذر کے بچے کی پیدائش روکنا ازروئے شریعت مناسب نہیں ہے۔

سوال: اگر ایک شادی شدہ عورت کسی غیر محرم سے میسج پہ بات کرے تو کیا یہ آج کل کے دور کے لحاظ سے بدکاری اور زنا کے زمرے میں آئےگا اور اس پر سورت النساء کی آیت 15 میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کو گھر میں قید کر لو یا جو سورت النور میں ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے یہ سزائیں ملنی چاہیے اور اگر اس عورت کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ توبہ کرنا چاہے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی غیر محرم سے ضرورت کی بنیاد پر میسج کے ذریعہ بات کرے تو شریعت کی روشنی میں یہ عمل جائز ہے لیکن اگر کوئی عورت غیر محرم مرد سے چیٹ پہ ناجائز پیار و محبت ، عشق و عاشقی اور فحش بات چیت کرے تو یہ زنا نہیں ہے مگر زنا کے قبیل سے ضرور ہے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:اللہ تعالی نے ہر ابن آدم پر زنا کا کچھ نہ کچھ حصہ لکھ دیا ہے، جو اسے لازمی ملوّث کرے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنے سے ہوتا ہے، زبان کا زنا بولنے سے ہوتا ہے، دل کا زنا تمنا اور چاہت کرنے سے ہوتا ہے، اور شرمگاہ اس تمام کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے(بخاری:5889)

کوئی عورت ہاتھ سے لکھ کر فحش چیٹ کر رہی ہے تو یہ ہاتھ کا زنا کہلائے گا لیکن یہ وہ زنا نہیں ہے جس کی وجہ سے عورت پرحد قائم کی جائے یا اس کو رجم کیا جائے گا بلکہ زنا کا ایک حصہ ہے، یہ بےحیائی ہے اسے گناہ کبیرہ کہیں گے اور یہ بھی قابل ملامت وسرزنش ہے۔ اگر عورت کو اپنی فحش کلامی کا احساس ہو گیا ہے تو وہ اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرے ان شاءاللہ اس کے گناہ کے لئے توبہ کافی ہو جائے گی۔

سوال: ایک بیان سن رہی تھی اس میں ایک عالم ایک حدیث ذکر کرتے ہیں کہ ایک بار بریرہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے گوشت صدقہ دیا تو انہوں نے وہ صدقہ کا گوشت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہدیہ کر دیا ،جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور دریافت کیا کہ گھر میں کچھ ہے کھانے کے لئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ گوشت ہے لیکن صدقہ کا گوشت ہے جو بریرہ نے ہم کو ہدیہ کیا۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ بریرہ کے لیے تھا لیکن ہمارے لیے تو ہدیہ ہے لہذا ہم کھا سکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ گوشت کھائے اس واقعہ کو دلیل بنا کر وہ عالم کہتے ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں حرام کمائی آتی ہو جیسے بینک کی جاب یا سودی کاروباروالی تو یہ کمائی اس کے لئے حرام ہے جس نے کمایا ہے لیکن یہ پیسہ وہ آدمی اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے یا دوست ورشتہ داروں کو کچھ ہدیہ کرے تو ان کے لئے حرام نہیں ہے۔ کیا بریرہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ صحیح ہے اور اس کو دلیل بنا کر اس طرح کہنا صحیح ہے کہ اس کی کمائی اس کی لئے حرام ہے لیکن اگر وہ دوسروں پر خرچ کر رہا ہے تو یہ حرام نہیں یہاں تک کہ بیوی بچوں کے لئے بھی حرام نہیں؟

جواب: یہ واقعہ درست ہے ، بخاری ومسلم سمیت متعدد کتب حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے ، صحیح بخاری میں اس طرح مروی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:

وأُتِيَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بلَحْمٍ، فَقُلتُ: هذا ما تُصُدِّقَ به علَى بَرِيرَةَ، فَقالَ: هو لَهَا صَدَقَةٌ، ولَنَا هَدِيَّةٌ(صحيح البخاري:1493)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے صدقہ کے طور پر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔

واقعہ تو صحیح ہے لیکن اس واقعہ سے جو مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ حرام مال آدمی اپنی بیوی اور بچوں پر خرچ کر سکتا ہے یہ مسئلہ استنباط کرنا غلط ہے اور حدیث سے غلط استدلال ہے۔جومال بنفس نفیس حرام ہو جیسے سودی کمائی، زناکی کمائی، جوا کی کمائی ،وہ سب کے حق میں حرام ہے، کمانے والے کے لئے بھی حرام ہے اور اس کے تمام اہل وعیال اور رشتہ داروں کے لئے بھی حرام ہے بلکہ سب کے حق میں حرام ہے۔ نبی ﷺ کو جو گوشت پیش کیا گیا وہ اپنے آپ میں حلال چیز ہے یعنی وہ حلال جانور کا گوشت تھا جو مسلمانوں کے لئے آج بھی حلال ہے،آل بیت کے لئے صدقہ جائز نہیں ہے اس حکم کے تحت آل بیت صدقہ نہیں کھاسکتے ہیں ورنہ صدقہ اپنے آپ میں حلال و جائز چیز ہے۔

اس سے متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا ایک فتوی ملاحظہ کریں، جب آپ سے کسی نے سوال کیا اگر ایک آدمی حرام مال کھاتا ہو اور وہ کچھ لوگوں کی کفالت کرتا ہو تو ان کے ماتحتوں اور بچوں کا کیا حکم ہے؟

اس پر شیخ نے یہ جواب دیا کہ جو مجبور اور مضطر ہیں جیسے چھوٹے بچے تو ان کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگر بیوی کو اس کی خبر ہے تو اپنے شوہر سے طلاق لے لے کیونکہ یہ شرعی عذر ہے کہ جب شوہر کی کمائی خبیث ہو تو وہ طلاق طلب کر سکتی ہے اور اپنے ماں باپ کے گھر جا سکتی ہے۔ یا تو وہ کمائی کا ذریعہ بدلنے کا مطالبہ کرے یا طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ وہ حرام کھانے والے کے ساتھ باقی نہ رہے۔یہ شیخ ابن باز کے فتوی کا اختصار بتایاہوں۔

سوال: اگر غسل جنابت فرض ہو گیا ہے اور رات غسل نہیں کیا اور رات کو ہی حیض شروع ہو گیا تو غسل کرنے سے حیض رکنے کا اور تکلیف کا ڈر ہو تو غسل کرنا ہے کہ نہیں؟

جواب: اگر عورت حالت جنابت میں تھی اور اسے حیض شروع ہو گیا ہے ، اس حالت میں وہ نہانا چاہے تو نہا سکتی ہے اور اگر نہانے سے کوئی مسئلہ ہے تو رک جائے، نہانا کوئی ضروری نہیں ہے تاہم جب نہانے کا موقع مل جائے اور وہ نہا لیتی ہے تو جنابت کی ناپاکی دور ہو جائے گی اور جنابت کی ناپاکی دور ہونے سے قرآن کی تلاوت کرنا اس کے لئے جائز ہو جائے گا۔

سوال: اگر جمعہ کے دن کوئی شخص خطبہ/بیان کے دوران سو جائے یا کچھ دیر کے لئے آنکھ لگ جائے بغیر ٹیک لگائے ہوئے تو کیا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا یا وہ ایسے ہی نماز پڑھ لے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ مسجد میں بیٹھے بیٹھے اونگ آسکتی ہے، گہری نیند نہیں ہوگی ، ایسی صورت میں وضو نہیں ٹوٹے گا اور اسی حالت میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ صحابہ کرام کے متعلق آتا ہے کہ عشاء کی نماز میں بیٹھے بیٹھے انہیں اونگھ آنے لگتی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوتے اور صحابہ کو نماز پڑھاتے اور صحابہ کرام بغیر وضو کئے نماز ادا کرلیتے ۔انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، ورَجُلٌ يُنَاجِي رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَما زَالَ يُنَاجِيهِ حتَّى نَامَ أصْحَابُهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى(صحيح البخاري:6292)

ترجمہ: نماز کی تکبیر کہی گئی اور ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرتے رہے، پھر وہ دیر تک سرگوشی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے صحابہ سونے لگے اس کے بعد آپ اٹھے اور نماز پڑھائی۔

یہاں سونے سے اونگھ مراد ہے یعنی اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے لہذا اگر کسی کو مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھ آنے تو وہ اسی حالت میں نماز ادا کرسکتا ہے۔

سوال: ایک شخص کی پہلی بیوی شدید بیمار ہے اور بسترِ مرگ پر ہے۔ جس سے ایک بیٹی ہے جو بالغ ہو چکی ہے۔ اس شخص نے دوسری شادی بھی کی ہے اور دوسری بیوی اپنے پہلے شوہر سے ایک بالغ بیٹا ساتھ لائی ہے۔ دونوں بچے بالغ ہیں، اس لیے ان کا آپس میں پردہ ہے۔ دونوں خاندان الگ الگ رہتے ہیں۔ اگر پہلی بیوی کا انتقال ہوجائے اور شوہر دونوں خاندانوں کو ایک ساتھ رکھنا چاہے تو گھر کے اندر پردہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں کیا دونوں کا پردہ ختم ہو جائے گا، کیا اس بارے میں دورِ رسول ﷺ یا صحابہ کرام کے زمانے سے کوئی دلیل موجود ہے؟

جواب: سوال میں جس بالغ لڑکے اور بالغہ لڑکی کا ذکر ہے ان دونوں کا آپس میں پردہ ہے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے غیر محرم ہیں اور وہ چاہیں تو آپس میں نکاح بھی کرسکتے ہیں۔صحابہ کرام کے زمانے کی ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ دو بیویوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دونوں بیویوں کو الگ الگ رکھا جائے گا یعنی ان میں سے ہر ایک کا چولہا، رہنے سہنے کا نظام اور طرزمعاشرت علاحدہ ہونا چاہئےجیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔ آپ کی حیات میں بیک وقت نو بیویاں زندہ تھیں مگر ان سب کا رہن سہن اور انتظام علاحدہ تھا۔ ہمارے یہاں جو جوائنٹ فیملی سسٹم ہے یہ اسلام کے خلاف ہے اس میں کئی ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں ، ان میں ایک خرابی بے پردگی بھی یعنی اس نظام کے تحت عورتوں کے لئے غیرمحرموں سے پردہ نہیں ہوپاتا ہے لہذا اس شخص کو چاہئے کو اپنی دونوں بیویوں کے لئے علاحدہ علاحدہ انتظام کرے خواہ قریب میں ہی رہائش کیوں نہ ہو مگر ان دونوں کا علاحدہ انتظام ہو تاکہ اختلاط نہ ہو۔

سوال: ایک کینسر کے مریض عمرہ پہ جانا چاہتے ہیں، ان کا نظام دفاع بہت کمزور ہے، ایسی حالت میں کیا وہ اور ان کے گھر والے (خاص طور پہ ان کی بیوی) حالت احرام میں فلو، گلاخراب اور دیگر بیماریوں سے بچنے کیلئے ماسک پہن سکتے ہیں، اگر گھر والے بیمار ہوگئے تو مریض کے اور زیادہ بیمار ہونے کا خدشہ ہے؟

جواب: جو لوگ عمرہ پر آرہے ہیں خواہ وہ بیمار ہوں یا بیمار کے ساتھ ہوں وہ سبھی لوگ اپنی حفاظت کے لئے احرام کی حالت میں چہرے پر ماسک لگا سکتے ہیں اس میں کسی بھی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مرد بھی ماسک لگا سکتا ہے اور عورت بھی ماسک لگا سکتی ہے۔

سوال: اگر میاں بیوی عیسائی ہوں لیکن صرف مرد اسلام قبول کرکے کسی مسلمان عورت سے شادی کر لے تو کیا پہلی بیوی جو ابھی تک عیسائی ہی ہے وہ بیوی اپنے مسلمان شوہر کی زوجیت میں ہوگی کہ نکاح ختم ہو جائے گا؟

جواب: اگر میاں بیوی دونوں عیسائی ہوں اور ان میں سے شوہر اسلام قبول کرلے تو عیسائی بیوی شوہر کے نکاح میں ہی باقی رہے گی کیونکہ عیسائی عورت سے نکاح حلال ہے۔ نیا مسلمان دوسری شادی کرلے تب بھی عیسائی بیوی اس کے لئے بیوی ہی ہے اور اگر نیامسلم پہلی بیوی کو اپنے سے جدا کرنا چاہے تو جدا کر سکتا ہے اور رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔

سوال: اگر کوئی بچہ گود لے تو کیا وہ رضاعت سے بھائی بہن اور محرم بن جائے گا اور اگر دودھ نہ پلایا ہو جیسے بچہ بڑے ہوتے ہیں تھوڑے جب اڈاپٹ کرلے تو نامحرم ہی رہتے ہیں؟

جواب: اگرکسی بچہ کو گود لیا جائے اور عورت اسے پانچ مرتبہ دودھ پلائے اور یہ دودھ پلانا بچے کے دو سال کی مدت کے اندر ہو تو اس سے رضاعت ثابت ہو جائے گی یعنی وہ بچہ اس عورت کے لئے رضائی بیٹا بن جائے گا اور اس عورت کی جتنی اولاد ہے سب کے لئے رضائی بھائی بن جائے گا۔ اس طرح یہ بچہ دودھ پلانے والی عورت اور اس کی بیٹیوں کے لئے محرم ہو جائے گا۔

اور اگر بچہ دو سال سے زیادہ عمر کا ہو اس وقت گود لیا جائے تو اس بچے کو رضاعی بیٹا نہیں بنایا جاسکتا،وہ عورت کے حق میں غیر محرم ہی رہے گا کیونکہ رضاعت صرف دو سال کی مدت میں ہے۔

سوال: کیا میت کے بعد وارثوں کا میراث تقسیم نہ کرنے پر میت کو کوئی گناہ ہوگا؟

جواب: اگر میت نے وراثت کے معاملہ میں غلط وصیت کی ہو جس کی وجہ سے وراثت تقسیم نہ کی جارہی ہو تو اس صورت میں میت بھی گنہگار ہوگا لیکن اگر میت نے زندگی میں ایسی کوئی وصیت نہ کی ہوجس کی وجہ سے تقسیم وراثت میں تنازع ہوا ہو بلکہ میراث کی تقسیم میں وارثین غفلت کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں صرف وہ وارث لوگ گنہگار ہوں گے جو میراث نہیں تقسیم کر رہے ہیں۔ میت کی چھوڑی ہوئی جائیداد اس کے وارثوں کا حق ہے لہذا وفات کے بعد جتنی جلدی ہو جائیداد وارثوں میں تقسیم کردی ہے اور بلاسبب اس تقسیم کو روکا نہیں جائے۔

سوال: عموما لوگ روم میں جاندارقسم کی چیزیں رکھتے ہیں جیسے گھوڑا، بھالو اور بہت ساری چیزیں اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب: گھر میں کسی طرح کی جاندار کی تصویر اور مورتی رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ اسلام میں جاندار کی تصویر بنانا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے۔اس تعلق سے احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ وَأَنَا مُتَسَتِّرَةٌ بقِرَامٍ فيه صُورَةٌ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ، ثُمَّ تَنَاوَلَ السِّتْرَ فَهَتَكَهُ، ثُمَّ قالَ: إنَّ مِن أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا يَومَ القِيَامَةِ، الَّذِينَ يُشَبِّهُونَ بخَلْقِ اللَّهِ.وفي روايةٍ : أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ دخل عليها. بمثل حديث إبراهيمَ ابنِ سعدٍ. غير أنه قال : ثم أهوى إلى القِرامِ فهتكه بيدِه. وفي روايةٍ : إنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا لَمْ يَذْكُرَا: مِنْ( صحيح مسلم:2107)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک موٹے سے کپڑے کا پردہ لٹکایا ہوا تھا، اس پر تصویر تھی تو آپ کے چہرہ انور کا رنگ بدل گیا۔پھر آپ نے پردہ کو پکڑا اور پھاڑ دیا، پھر فرمایا؛قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں پڑے ہوئے لوگوں میں سے وہ (بھی) ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی (جاندار) اشیاء کے جیسی (مشابہ) بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس لئے جس کسی کے گھر میں گھوڑا، بھالو اور بندر وغیرہ ہو اسے نکال کر باہر پھینک دینا چاہئے۔

سوال: کہیں پر ایک سے زائد عورتیں موجود ہوں اور وہ جماعت بناکر نماز ادا کرتی ہیں تو اس کی کوئی دلیل ہے؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ عورتوں پر نہ اذان ہے، نہ اقامت ہے اور نہ عورتوں پر جماعت واجب ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، عورتیں جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہیں اس کی دلیل ابو داؤد کی یہ حدیث ہے جس میں ام ورقہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرتی ہیں۔ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے:

كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يَزورُها في بَيتِها، وجعلَ لَها مؤذِّنًا يؤذِّنُ لَها، وأمرَها أن تؤمَّ أهلَ دارِها( صحيح أبي داود:592)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت ، عورتوں کی جماعت کراسکتی ہے لیکن ان کے لئے اقامت نہیں ہے اس لئے بغیر اقامت کے نماز ادا کرے گی اور عورتوں کی امامت کرنے والی درمیان صف میں کھڑی ہوگی ۔

سوال: ایک فيملى رياض سے مدینہ آئی پھردو دن بعد جدہ آئی کیونکہ یہاں اس کی کچھ مصروفیات تھے ۔ اب وہ لوگ عمرہ کرنا چاہتے ہیں ، احرام کی نیت کہاں سے کریں گے ، جدہ میں ان کے چار دن گزرے ہیں ،ان کا عمرہ کا ارادہ تھا وہ بغیر احرام کے میقات سے گزر گئے کیادم دینا ہوگا ؟

جواب: جو آدمی مدینہ سے جدہ آیا اس حال میں کہ اسے عمرہ کرنے کا ارادہ تھا مگر اس نے احرام نہیں باندھا، بغیر احرام کے میقات پار کرگیا اوروہ عمرہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی میقات پر واپس لوٹ کر احرام باندھنا پڑے گا ورنہ جدہ سے احرام باندھنے پر دم دینا پڑے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عمرہ کا ارادہ پختہ نہیں تھا بلکہ جدہ کام کی غرض سے آنا تھا اور یہ بھی ارادہ تھا کہ اگر عمرہ کا موقع مل گیا تو عمرہ بھی کرلیں گے تو ایسی صورت میں وہ جدہ سے ہی احرام باندھ سکتا ہے اس صورت میں کوئی دم نہیں ہے۔

سوال: ایک عورت کے حیض میں پرابلم ہے شروع کے دو چار دن صرف دھبے نظر آتے ہیں جو کہ صرف براؤن کلر کے ہوتے ہیں پھر دو یا تین دن پرحیض کا خون آتا ہے پھر آخر میں دو تین دن صرف براؤن دھبے لگتے ہیں۔ اس طرح سے تقریبا نو دس دن گزر جاتے ہیں اور یہ معاملہ پچھلے دو تین سالوں سے چل رہا ہے ورنہ اس کی عادت صرف پانچ یا چھ دن کی تھی اب ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب:حیض سے پہلے اور حیض کے بعد جو دو تین دن براؤن کلر کے دھبے کا مسئلہ ہے اگر یہ حیض سے متصل آتا ہے تو پہلے والا اور بعد والا بھی حیض میں ہی شمار کیا جائے گا لیکن اگر یہ دھبے پہلے والے اور بعد والے حیض سے منفصل ہو کر آتے ہیں تو یہ دونوں حیض میں شمار نہیں کئے جائیں گے۔اور حیض میں اصل خون کا ہی اعتبار ہوتا ہے عادت کا اعتبار اصل نہیں ہوتا ہے، ہاں جب استحاضہ کی نوبت آجائے تو اس وقت عادت کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

سوال: جمعہ کو جب امام صاحب خطبہ دیتے ہیں پھر دعا کرتے ہیں تو لوگ دعا مانگنے کی طرح دونوں ہاتھ اٹھا لیتے ہیں کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب: جب امام صاحب خطبہ کے آخر میں دعا کرتے ہیں تو اس جگہ پر ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ مقتدی آہستہ آمین کہیں تو اس میں حرج کی بات نہیں ہے۔آپ دیکھتے ہوں گے امام صاحب دعا کرتے وقت خودبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے ہیں کیونکہ یہاں ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ، ایسے ہی مقتدی کو بھی ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے۔

سوال: ہم نے 50 گرام سونا آج کے ریٹ کے حساب سے کمپنی سے ایک گولڈ کارڈ کی شکل میں خریدا، جب ہم کمپنی کو 50 گرام سونے کا یہ کارڈ واپس دیں گے تو کمپنی ہمیں اس وقت کے موجودہ ریٹ کے مطابق رقم ادا کرے گی چاہے سونے کا ریٹ خریدنے کے وقت سے زیادہ ہو یا کم۔ اس میں جب ہم اپنا پیسہ لینا چاہیں تو کارڈ دے کر مارکیٹ کے موجودہ قیمت کے حساب سے رقم ملے گی ، کارڈ سونے کے نام سے ہوتا ہے مگر سونا نہیں ملتا رقم ملتی ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس گولڈ کارڈ کی حقیقت سونے کی خریداری نہیں بلکہ رقم کو محفوظ کرنا ہے مثلاًاگر ہم نے اس کمپنی میں 5 لاکھ روپے جمع کر رکھے ہیں تو کمپنی 5 لاکھ کے مطابق گولڈ کارڈ بناکردے گی یعنی اتنے ہی گرام سونے کے برابر نمبر والا کارڈ دے گی جیساکہ ہم نے 50 گرام کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

جواب: سوال میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ سونے کی خریدوفروخت نہیں ہے بلکہ پیسہ محفوظ کرنا مقصد ہے اور اس طرح پیسہ محفوظ کرکے نفع کمانا جائز نہیں ہے۔ یہ سراسر سودی معاملہ ہے کیونکہ یہاں پر پیسہ قرض کی طرح جمع کرکے اس پیسے سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جیسے کوئی کسی کو قرض دے کر اس قرض سے نفع کماتا ہے بالکل ہو بہو وہی شکل ہے۔ اگر اس معاملہ کو سونا کی خریدوفروخت والا معاملہ مانتے ہیں تب بھی یہ شکل جائز نہیں ہے کیونکہ سونا کی خریدوفروخت میں ادھار معاملہ جائز نہیں ہے ، نقد معاملہ کیا جاتا ہے جبکہ یہاں گولڈکارڈ بناکر سونے کے کاروبار میں پیسہ لگاکر رکھ دیا جاتا ہے اس لئے اس جہت سے بھی یہ کاروبار جائز نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سودی معاملہ ہے جو ہمارے لئے حرام ہے بنابریں مسلمان کو اس طرح کے کاروبار سے پرہیز کرنا چاہئے ۔

سوال: کیا جنت میں بعض جنتیوں کو روزانہ دو مرتبہ اللہ کا دیدار نصیب ہوگا؟

جواب:مسند احمد اور ترمذی میں اس معنی کی ایک حدیث موجود ہے، ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث پیش کرتا ہوں ۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ أدنى أهلِ الجنَّةِ منزلةً لمن ينظرُ إلى جنانِه وأزواجِه وخدمِه وسررِه مسيرةَ ألفِ سنةٍ وأكرمَهم علَى اللهِ عزَّوجلَّ من ينظرُ إلى وجهِه غدوةً وعشيَّةً ثمَّ قرأ رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وجُوهٌ يَومَئذٍ نَاضِرةٌ إلى ربِّها نَاظِرَةٌ(أخرجه الترمذي:2553)

ترجمہ:سب سے کم تر درجے کا جنتی وہ ہو گا جو اپنے باغات، بیویوں، نعمتوں، خادموں اور تختوں کی طرف دیکھے گا جو ایک ہزار سال کی مسافت پر مشتمل ہوں گے، اور اللہ کے پاس سب سے مکرم وہ ہو گا جو اللہ کے چہرے کی طرف صبح و شام دیکھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة» ”اس دن بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے“ (القیامۃ: 22، 23)۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، دیکھیں : (ضعيف الجامع:1382،ضعيف الترغيب:2246، ضعيف الترمذي:3330)

جب یہ حدیث ضعیف ہے تو اس بنیاد پر ہم یہ بات نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اونچے درجے والے مومنوں کو جنت میں اللہ کا روزانہ دوبار دیدار ہوگا اور جنت کا معاملہ غیبی امور میں سے ہے اس کے لئے واضح دلیل چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ جنت میں ایمان واعمال کے اعتبار سے مومنوں کے درجات میں تفاوت ہوگا مگر اس تفاوت کے باوجود جس بات کے لئے ہمارے پاس قطعی ثبوت نہیں ہے وہ نہیں بول سکتے ہیں ۔

سوال: اگرعورتیں شادی میں دلہن کو مہندی لگا رہی ہوں اور وہاں پر کوئی ڈانس میوزک نہ ہو اور نہ ہی کوئی نامحرم موجود ہو لیکن اس دن کچھ لڑکیاں سب ایک کلر کے ڈریس بناتی ہوں جیسے سبھی لڑکیاں گرین کلرکا ڈریس پہنیں اور ایک دن سب پیلا ڈریس بھی پہنتے ہیں تو ایسا کرنا صحیح ہوگا جبکہ وہاں ناچ گانے اور نامحرم نہ ہوں؟

جواب: مہندی اور ہلدی لگانے میں حرج نہیں ہے۔ حرج اس وقت ہے جب رسم و رواج کو اپنایا جائے اور اپنے معاشرے میں مہندی کی رسم یا ہلدی کی رسم کافروں کی نقالی ہے۔ اسلامی تاریخ میں خواہ شادی بیاہ کے موقع پر یا کسی اور خوشی کے موقع پر مسلم خواتین میں یہ طریقہ کبھی رائج نہیں رہا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ان رسموں میں مزید نئے زمانے کی نقالی کی جا رہی ہے وہ ہے مخصوص لباس پہن کر مہندی اور ہلدی کی رسم ادا کرنا۔ مسلم خواتین کے لئے اس طرح کی رسومات کی ادائیگی بالکل درست نہیں ہے خواہ اس میں میوزک یا ڈانس یا غیر محرم موجود نہ ہوں ۔اسلام نے ہمیں شادی بیاہ کا ایک طریقہ بتایا ہے اس طریقہ پر شادی کرنا اسلام میں مطلوب ہے ، جو اسلامی طریقہ نکاح سے ہٹ کر غیروں کی مشابہت اور نقالی ہو وہ معیوب ہے۔

سوال: نماز کے دوران کبھی کبھی چھینک آجاتی ہے ، میں الحمدللہ پڑھ لینا ہوں ، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب: نماز میں جھینک پر الحمدللہ دل میں آہستہ سے کہہ سکتے ہیں ، اس میں حرج نہیں ہے مگر آواز بلند نہ کی جائے تاکہ دوسرے نمازیوں کو تشویش نہ ہو ، اگر کوئی نمازی الحمدللہ سن لے تو جواب میں یرحمک اللہ نہ کہے ، خاموشی اختیار کرے ۔

ابوداؤد میں معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) «يرحمك الله» کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔(ابوداؤد: 930، اسے شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)۔

سوال: کیا مائکرو فائننس بینک میں جاب جائز ہے؟

جواب: مائیکرو فائننس بنک لوگوں میں چھوٹے چھوٹے قرضہ دینے سے معروف ہے مگر یہ بھی سودی بنک ہی ہے،سود کے بنیاد پر قرض فراہم کیا جاتا ہے لہذا ایسے بنک میں کام کرنا سود پر تعاون کرنے جیسا ہے اس لئے اس میں بھی جاب کرنا اسی طرح حرام ہے جیسے دیگر سودی بنک میں جاب کرنا اس لئے بنک کے ذریعہ کمائی گئی رقم حلال نہیں ہوگی ۔

سوال:کیا حیض کی حالت میں نکاح ہو جاتا ہے؟

جواب: حیض کی حالت میں نکاح کی ممانعت وارد نہیں ہے اس لئے حیض کی حالت میں بھی نکاح ہو جاتا ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: میری شادی ہوئی تھی اور اب طلاق ہو گئی ہے براہ کرم نیک رشتہ کے لئے کوئی دعا اور وظیفہ بتا دیں جو میں پڑھا کروں؟

جواب: اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے اور آپ کے مسائل حل فرمائے۔ کسی نیک آدمی سے رشتہ ازدواج قائم کرنا ایک عمل ہے اور عمل کے لئے صرف دعا کرنے سے کام نہیں بنے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی آدمی صرف دعا پڑھے اور فورآ من پسند نیک رشتہ آجائے، اگر صرف دعا کرنے سے ہر کام انجام پذیر ہو جائے تو پھر دنیا میں کسی کو کوئی کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ آپ کو گھر میں جب کھانا کی ضرورت پڑتی ہے اس وقت کیا آپ دعا پڑھ لیں گے تو کھانا بن جائے گا؟ دعا پڑھ لیں گے تو پیٹ میں کھانا چلا جائے گا؟ دعا پڑھ لیں گے تو گھر میں جھاڑو لگ جائے گا؟

آپ کا جواب ہوگا کہ نہیں تو اسی طرح نیک رشتہ کے لیے ہمیں عمل کرنا پڑے گا اور وہ عمل یہ ہے کہ اپنے ولی اور گھر والوں کے ذریعہ رشتہ تلاش کریں ، نیک رشتہ کے لیے کوشش کریں اور اسباب اپنائیں۔اور ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین سے افضل اوقات میں دعائیں بھی کریں۔ اللہ یقینا اپنے بندوں کی مراد پوری کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دعا مومن کا ایک بہترین ہتھیار ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اسباب بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔

اس جگہ دو باتوں کو مزید علم میں رکھیں کہ رشتہ کرنے کے لئے شریعت میں کوئی مخصوص دعا نہیں ہے، آپ اپنی زبان میں اللہ رب العالمین کے سامنے اپنی فریاد رکھ سکتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ شادی میں دنیاوی معیار کو مد نظر نہ رکھیں بلکہ دین دیکھ کر رشتہ طے کرلیں خواہ لڑکا کسی بھی ذات کا ہو یا غریب و محنت کش ہی کیوں نہ ہو تاہم دیندار ہو۔

سوال: اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے یہ کہہ دے کہ تمہارا میرا نکاح حرام ہے یاکہ تم میرے نکاح میں حرام ہو تو اس کا کیا حکم ہے کیا اس سے خلع ہو جائے گا جیسے غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق شمار ہوتی ہے، نیت خلع لینے کی نہیں تھی، شوہر کو ڈرانا مقصد تھا لیکن جذبات میں اس طرح کے واضح الفاظ استعمال ہوگئے، اس کا کیا حکم ہے قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے؟

جواب:اگر کوئی بیوی اپنے شوہر سے کہے کہ میرا تمہارا نکاح حرام ہے یا تم میرے نکاح میں حرام ہو، ایسا کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، ایسا کہنے سے نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے خلع ہوتا ہے۔ نیت کچھ بھی ہو، یہاں پر نیت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس سے نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ خلع ہوتا ہے۔

بیوی اپنی زبان سے طلاق کا لفظ بھی بول دے پھر بھی طلاق نہیں ہوتی کیونکہ طلاق شوہر کا اختیار ہے بیوی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مسلمان کو اپنی زبان سے لایعنی، بدکلامی اور نازیبا کلمات نہیں نکالنا چاہیے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔