﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(22)
جواب: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ-سعودی عرب
سوال: ہم جب کسی سے کہتے ہیں
کہ ہر قسم کا انشورنس حرام ہے تو بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ انشورنس رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں پایا جاتا تھا پھر کس طرح انشورنس حرام
ہوسکتا ہے؟
جواب: اللہ رب العالمین نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
جو شریعت نازل کی ہے وہ قیامت تک کے لئے ہے اور اس شریعت کی خوبی یہ ہے کہ عہد
رسول سے لے کر قیامت تک جتنے مسائل پیدا ہوں گے ان تمام مسائل کا اس میں حل موجود
ہے۔
جس موبائل کے ذریعہ لکھ کر آپ سوال کر رہے ہیں یہ
موبائل بھی رسول اللہ کے زمانے میں نہیں تھا مگر ہم اس موبائل کو حرام نہیں کہتے
کیونکہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ۔ اسی موبائل میں گندی
فلمیں بھی ہوتی ہیں، ہم اس کو حرام کہتے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس
کی حرمت ثابت ہوتی ہے جبکہ فلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےموجود میں
نہیں تھی۔ٹھیک یہی معاملہ انشورنس کا بھی ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تجارتی
انشورنس میں متعدد خامیاں ہیں جن کی وجہ سے اس تجارت کو حرام قرار دیا جاتا ہے۔ اس
موضوع پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں جن کے ذریعہ تفصیلا اس کی حرمت جان سکتےہیں ۔
سوال: نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے ربنا آتنا ۔۔۔۔پڑھنا بھول
جائیں اور سلام پھیر دیں تو اس سے نماز ضائع ہو جائے گی؟
جواب: نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہمیں ربنا آتنا۔۔۔ پڑھنے کے لئے حکم ہی نہیں دیا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہمیں یہ دعا پڑھنے کا حکم ہی نہیں دیا ہے پھراگر کوئی یہ دعا پڑھے یا نہ
پڑھے اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے بشرطیکہ آخری تشہد میں پڑھے جانےوالے اذکار پڑھا ہو۔آخری تشہد میں التحیات ، درود اور
اللھم انی ظلمت نفسی ،،، نیز چار چیزوں(جہنم ، عذاب قبر، موت وحیات اور دجال کا
فتنہ) سے پناہ مانگنے والی دعا پڑھی جاتی ہے ۔ ربناآتنا ۔۔ قرآن کی ایک دعا ہے مگر
یہ آخری تشہد کی دعا نہیں ہے پھر بھی کوئی آخری تشہد میں اسے پڑھنا چاہے تو پڑھ
سکتا ہے اور کوئی نہیں پڑھے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نماز اپنی جگہ
درست ہے۔
سوال: تعزیت کے لئے گھرآنے والی
خواتین اور مرد، جہاں میت ہے اس جگہ جنازہ نماز پڑھنا چاہےالگ الگ یا جماعت سے تو
جائز ہے، اس کی کوئی دلیل ملتی ہے ؟
جواب: اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جہاں پر میت ہو وہاں پر آنے والے لوگ اپنے اپنےطور پر اکیلے اکیلے یا جماعت بنا بنا کر جنازہ کی نماز پڑھتے رہیں۔میت کے لئے صرف ایک مرتبہ جنازہ پڑھا جائے گا، اسی جنازے میں سب لوگ شریک ہو کر ایک ساتھ نماز ادا کریں گے حتی کہ جو عورتیں نماز ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی مردوں کی جماعت میں شریک ہو کر نماز ادا کریں۔
ہاں اگر نماز جنازہ میں شرکت کے واسطے عورتوں کے لئے
سہولت نہ ہو تو عورتیں جمع ہو کر یعنی ایک ساتھ مل کر میت کے پاس نماز جنازہ ادا
کر سکتی ہیں جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ منگاکر
نماز جنازہ ادا فرمائیں۔
سوال: لوگوں میں ایک چیز عام ہو گئی ہے
کہ نفاس والی عورت کو چھٹی اور چلہ جیسے ناموں سے پورے چالیس دن تک بیچ بیچ میں پورے پانچ الگ الگ موقعوں پر
واجب الغسل کی طرح پانی سے نہلایا جاتا ہے
جبکہ کچھ عورتوں کو چالیس دن تک خون بھی نہیں آتا پھر بھی وہ عبادت سے دور رہتی
ہیں اور چالیس دن مکمل ہونے پر ماں کے ساتھ بچے کو بھی وضو کراکرپانی سے نہلایا
جاتا ہے، اس کی کوئی حقیقت ہے؟
جواب: حیض کی طرح نفاس بھی ناپاکی کی حالت ہے اس حالت
میں غسل کرنے سے ناپاکی دور نہیں ہوتی ہے البتہ فریش ہونے کے لئے اور بدن کی صفائی
کے لئے عورت حالت نفاس میں غسل سکتی ہے، اس میں حرج نہیں ہے۔
جہاں تک مسئلہ ہے چھٹی یا چلہ کے نام سے حالت نفاس میں
عورت کو پانچ الگ الگ مواقع پر غسل کرانے کا تو یہ عمل شرعا ثابت نہیں ہے، یہ سماج
و معاشرے کی بے دینی اور جہالت کے سبب ہے۔غسل نفاس سے متعلق شرعی مسئلہ یہ ہے کہ
عورت چالیس دن سے پہلے جب بھی پاک ہو جائے، اسی دن سے غسل طہارت کر کے وہ نماز کی
پابندی کرنے لگے گی ۔ ممکن ہے کسی عورت کو چالیس دن تک نفاس کا خون آئے کیونکہ
نفاس کی اکثرمدت چالیس دن ہے، ایسی عورت چالیس دن تک انتظار کرے گی اور چالیس دن پرغسل
نفاس کرکے نماز کی پابندی کرے گی ۔
اپنے ماحول اور معاشرہ میں بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ
نفاس میں لازمی طور پر چالیس دن تک انتظار کرنا پڑے گا خواہ خون آنا بند کیوں نہ
ہو جائے جبکہ یہ مسئلہ شریعت کے خلاف ہے۔ ہمیں شریعت یہ کہتی ہے کہ جب عورت پاک ہو
جائے اسی دن سے غسل کر کے نماز پڑھنے لگ جائے۔
اور نو مولود کا چالیسویں دن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور
نو مولود کا وضو سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے لہذا جس جگہ پر چالیسویں دن نو مولود کو
وضو کرایا جاتا ہے اور غسل دیا جاتا ہے، یہ بھی معاشرے کی بے دینی اور جہالت ہے۔شرعی
طور پر نومولود کو ساتویں دن غسل دیا جائے گاپھر اس کے بعد آپ اپنی مرضی سے جب چاہیں
غسل دیں لیکن چالیسویں دن سے اس بچے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: سورہ النساء آیت نمبر 159 کی تفسیر
میں ایک حدیث کے تحت لکھا ہے کہ ایک سجدہ
دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہوگا یہاں پر اس بات کا کیا مطلب ہے؟
جواب: یہ حدیث صحیح بخاری(حدیث نمبر:3448) میں موجود ہے
، حدیث اس طرح ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ
قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے
نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں
گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس
وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔
اس حدیث میں قرب قیامت سے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے کہ جب
عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے اس وقت "ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کر
ہوگا"۔ اہل علم نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس وقت مال و دولت کی اس قدر
فراوانی ہوگی کہ لوگ اس جانب توجہ نہیں کریں گے اور اس کا خیال نہیں کریں گے اس
لئے اللہ سے قربت الہی کا ذریعہ مال نہیں بلکہ عبادات بدنیہ ہوگا اور ایک سجدہ بھی
بہت زیادہ اہمیت رکھے گا یعنی اس وقت بدنی عبادت کی اہمیت زیادہ بڑھ جائے گی۔
سوال: ڈی ٹی پی ورک یعنی ڈیزائننگ ٹائپنگ
پرنٹنگ :اس کام میں ہندو، یہود اور
عیسائیوں کی عید، سالگرہ وغیرہ سے متعلق کئی قسم کے کام کئے جاتے ہیں جیسے ان کی کتابیں ٹائپ کرنا رہتا ہے مثلا بائبل،
بھاگوت گیتاوغیرہ اور چھاپنا بھی رہتا ہے ۔ان کے ہر پوجا اور میت سے متعلق پوسٹرزوغیرہ
مطلب ان کے بہت سے کام اس تجارت میں شامل
ہیں، کیا یہ تجارت کرنا جائز ہے اور یہ کام حلال ہے؟
جواب: اللہ رب العالمین نے ہمیں حلال روزی کھانے کا حکم
دیا ہے جیساکہ فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ
وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ
إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (المومنون:51)
ترجمہ: اے پیغمبر! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم
جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔
جہاں ایک طرف اللہ تعالی پاکیزہ روزی کھانے کا حکم دیتا
ہے وہیں دوسری طرف خبیث اور غیرحلال چیزوں سے روکتا بھی ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ
إِلَّا طَيِّبًا(صحیح مسلم:2346)
ترجمہ:اے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (مال) کے سوا
(کوئی مال) قبول نہیں کرتا۔
اس لئے ہمیں پاکیزہ چیزیں کھانا بھی ہے اور جائز طریقے
سے پاکیزہ چیزیں کمانا بھی ہے ۔ وہ تمام کمائی جو غلط طریقے سے حاصل کی جائے حرام
اور خبیث کمائی ہے ، وہ مسلمانوں کے لئے حلال نہیں ہے۔ سوال میں جن کاموں کی تجارت
کا ذکر ہے وہ گناہ اور معصیت کے کام پر تعاون ہے ۔ گناہ پر تعاون کرکے کمائی ہوئی
دولت حلال نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے گناہ وظلم کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع
فرمایا ہے ۔ فرمان الہی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ
وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ
إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدۃ:2)
ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے
رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ
تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
یہودیت ، عیسائیت اور ہندومت کی مذہبی کتابوں اور عبادت کی چیزوں کو تیارکرنا اور چھاپنا ایسا گناہ ہے جس گناہ کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا یعنی جو لوگ بھی اس کی تیارکردہ معصیت والی چیزوں کو استعمال کرتے رہیں گے سب کے گناہوں میں اس مسلمان کا بھی حصہ رہے گا جس نے غیرمسلموں کے لئے ایسی چیزیں مہیا کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث دیکھیں اور عبرت حاصل کریں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن دَعا إلى هُدًى، كانَ له مِنَ الأجْرِ مِثْلُ
أُجُورِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن أُجُورِهِمْ شيئًا، ومَن دَعا إلى
ضَلالَةٍ، كانَ عليه مِنَ الإثْمِ مِثْلُ آثامِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ
مِن آثامِهِمْ شيئًا( صحيح مسلم:2674)
ترجمہ:جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی
پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو
گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر
گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
لہذا مسلمان کے لئے یہودیت ، عیسائیت اور ہندؤں کی مذہبی چیزوں سے
وابستہ اس قسم کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
سوال:کیا لڑکے والے جب لڑکی کا رشتہ
دیکھنے آئیں تو لڑکے کے والد ( یعنی ہونے والے سسر) اس لڑکی کا چہرہ دیکھ سکتے
ہیں؟
جواب:جب لڑکا والے لڑکی دیکھنے کے لئے اس کے گھر آتے ہیں
تو لڑکی کو لڑکا کے علاوہ کوئی بھی دوسرا مرد نہیں دیکھ سکتا ہے۔ ہاں لڑکا والوں
کے ساتھ خواتین ہوں تو خواتین لڑکی کو دیکھ سکتی ہیں لیکن غیر محرم کوئی بھی مرد
لڑکی کو نہیں دیکھ سکتا ہے یہ حرام ہے۔ شادی کے موقع پر لڑکی کو دیکھنے کی اجازت
اللہ تعالی نے صرف لڑکے کو دی ہے۔صحیح مسلم ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت کی، انہوں نے کہا:
كُنْتُ عِنْدَ النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ،
فأتَاهُ رَجُلٌ فأخْبَرَهُ أنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنَ الأنْصَارِ، فَقالَ له
رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ: أَنَظَرْتَ إلَيْهَا؟ قالَ: لَا،
قالَ: فَاذْهَبْ فَانْظُرْ إلَيْهَا، فإنَّ في أَعْيُنِ الأنْصَارِ شيئًا( صحيح
مسلم:1424)
ترجمہ: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر
تھا، آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے نکاح (طے)
کیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےفرمایا: کیا تم نے اسے دیکھا ہے؟
اس نے جواب دیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اسے دیکھ لو
کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہے۔
اس حدیث پہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کو شادی
کرنی ہے اسی کو حق حاصل ہے کہ وہ لڑکی کو دیکھے اور جس کو شادی نہیں کرنی ہے وہ
مرد، لڑکی کو نہیں دیکھے گا اس لئے لڑکے کے والد کا لڑکی کو دیکھنا جائز نہیں ہے،
نہ ہی کسی اوراجنبی مرد کا لڑکی کو دیکھنا جائز ہے ۔
سوال:اگر کوئی آدمی دمام سعودی عرب میں وزٹ ویزا پہ مقیم ہو تو عمرہ کے لئے میقات سےاحرام کی نیت کریں گے یا اپنی رہائش سے؟
جواب: جوکوئی دمام میں مقیم اور رہائش پذیر ہو اور وہ عمرہ کرنے کا
ارادہ کرے تو اس کی میقات، طائف کی میقات(السیل الکبیر) ہوگی ۔ وہ طائف آکر یہاں
سے احرام باندھ کر عمرہ کرے گا۔اگر کسی ایسی گاڑی یا فلائٹ سے آرہا ہے جس کی وجہ
سے میقات پر ٹھہرنا ممکن نہیں ہے تو وہ دمام میں اپنی رہائش سے غسل کرکے اور احرام
کا لباس لگا کر سفر کرے اور جب طائف کی میقات کے قریب آئے تو عمرہ کی نیت کر لے۔
سوال:اگر پردہ کرنے والی خاتون کو
اینڈوسکوپی کرانے کی ضرورت پیش آئے اور وہاں کوئی خاتون ڈاکٹر دستیاب نہ ہو، تو
کیا ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر کے سامنے چہرہ کھولنا جائز ہے؟
جواب: کسی مسلم خاتون کو انڈو سکوپی کرانے کی ضرورت پڑے
تو پہلے کوشش یہ ہو کہ چیک اپ کے لئے لیڈی ڈاکٹر تلاش کی جائے۔ اگر تلاش کے باوجود
لیڈی ڈاکٹر کی سہولت میسر نہ ہو تو میل ڈاکٹر سے مسلم خاتون انڈوسکوپی کرا سکتی ہے
اور اس میں ضرورت کے تحت بدن کے جو حصے ظاہر کرنا پڑے اسے ظاہر کر سکتی ہے کیونکہ
علاج ضرورت میں داخل ہے اور ضرورت کی اسلام میں گنجائش ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:فَمَنِ
اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ(البقرۃ:173)
ترجمہ: پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ
بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
سوال: بارہ سال پہلے دوبھائیوں نے ملکر
ایک پلاٹ خریدا، بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا آپس کی بات ہے ایک گھر میں رہتے
ہیں پلاٹ اپنے نام کرلو ،یہ پیسہ بڑے بھائی کی بیوی کا تھا جوگھر والوں کو معلوم
تھا ۔کچھ سالوں بعد چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے گھر بور ویل لگایااور بڑے بھائی
نے کہا مجھ سے قرض ادا نہیں ہورہا ہے اس پلاٹ سے تم بورویل کاپیسہ لے لو پھر دوسال
بعد چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو بغیر بتائےپلاٹ بیچ کر اس سے کہا میں نے وہ پلاٹ بیچ دیاجبکہ
کتنے میں بیچا ابھی تک اس نے واضح نہیں کیاہے۔ کچھ دن بعد بڑے بھائی کی بیوی نے کہا
چلواپنا پلاٹ بیچ دیتے ہیں تاکہ ہم اپنا
قرض ادا کرسکیں ،اس وقت بڑے بھائی نے اپنی بیوی کو بتایا کہ چھوٹے بھائی نے ہمیں
بتائے بغیر دو ماہ پہلے ہی بیچ دیا ہے، کیا ایسا کرنا شرعا جائز ہے؟
جواب:دو بھائیوں نے مل کر ایک پلاٹ خریدا اور بڑے بھائی
نے چھوٹے بھائی سے اپنے نام پلاٹ کر لینے کے لئے کہا یہ بڑے بھائی کی بڑی غلطی ہے۔
اسے چاہیے تھا کہ جب دونوں بھائی کا پلاٹ تھا تو زمین کی رجسٹری میں اپنا نام بھی
دیتا اور جب بڑے بھائی کا نام ہوتا تو چھوٹا بھائی مکمل پلاٹ نہیں بیچ سکتا
تھا۔بڑے بھائی کی دوسری غلطی یہ کہ اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے کہا پلاٹ سے بورویل
کا پیسہ لے لو، ظاہر سی بات ہے زمین بیچنے کی طرف اشارہ بڑے بھائی نے ہی کیا ہے، وہ بغیر پلاٹ بیچے کیسے اپنا پیسہ لے
سکتا تھا اور جب بڑے بھائی کو دو ماہ پہلے بیچنے کی اطلاع ملی پھربھی بیوی سے بیان
نہیں کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ خود بھی اس معاملہ میں بڑی غلطی کیا ہے۔
بہر کیف!جب زمین دو بھائیوں کی ملکیت تھی تو اصولی طور پر چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کی رضامندی کے ساتھ اس پلاٹ کو بیچنا چاہیے تھا اور اگر پلاٹ بیچ کر غلطی کر بیٹھا ہے تو پھر کم از کم اب زمین کی صحیح قیمت بتاکربڑے بھائی کا پیسہ لوٹا دے۔چھوٹے بھائی کو پیسہ بڑے بھائی نے دیا ہے تو یہ پیسہ بڑے بھائی کا مانا جائے گا چاہے اس نے اپنی بیوی سے ہی لے کر کیوں نہ دیا ہو۔
سوال: گھروں میں اجتماعی شکل میں قرآن
پاک کی تلاوت رکھوانا کیسا ہے کیونکہ سنا ہے کہ جو اجتماعی شکل میں یا گروہ میں
اللہ پاک کو یاد کرنے کی محفل ہوتی ہیں وہ بابرکت ہوتی ہے؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت باعث
اجروثواب ہے اور گھر میں قرآن پڑھنا باعث رحمت و برکت ہے لیکن چونکہ دین اسلام میں
اجتماعی شکل میں قرآن تلاوت کرنے کی دلیل نہیں ملتی ہے اس لئے مروجہ اجتماعی قرآن
خوانی بدعت ہے ۔پہلے ہم دین کو سمجھیں تویہ مسئلہ بھی سمجھ میں آجائے گا۔ دین اللہ اور
اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے اور جو عمل اطاعت الہی و اطاعت رسول سے خالی ہے وہ
مردود و باطل ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ
وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد:33)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی
اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ(صحيح
مسلم:1718)
ترجمہ:جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو
(یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔
قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر
وہ عمل جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہ ہو مردود و باطل ہے ۔ اس کو بدعت کہتے ہیں
اور بدعت سراسر گمراہی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:وَكُلُّ بِدْعَةٍ
ضَلَالَةٌ(ہر بدعت گمراہی ہے)۔ (مسلم:867)
چونکہ گھر میں ، مسجد میں یا کسی اور جگہ پر اجتماعی
شکل میں قرآن خوانی کا ثبوت نہیں ملتا ہے اس لئے ہمیں اس عمل سے پرہیز کرنا چاہئے
، جو ایسا عمل کرتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت کرنے سے ثواب نہیں
ملتا ہے، اس میں الٹا گناہ ملتا ہے۔ یہیں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو لوگ
کہتے ہیں کہ گھروں میں اجتماعی قرآن خوانی کی محفل قائم کرنے سے برکت نازل ہوتی
ہے، ان کی یہ بات قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
ہاں قرآن کی علمی مجلس میں سکینت نازل ہوتی ہے ، جب علماء مساجد یا دوسری جگہوں پر اللہ کی
کتاب کی لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں اس مجلس پر رحمت وسکینت نازل ہوتی ہے۔ ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما اجتمعَ قومٌ في بيتٍ من بيوتِ اللَّهِ تعالى يتلونَ
كتابَ اللَّهِ ويتدارسونَه بينَهم إلَّا نزلت عليهمُ السَّكينةُ وغشيتهمُ
الرَّحمةُ وحفَّتهمُ الملائِكةُ وذَكرَهمُ اللَّهُ فيمن عندَه(صحيح أبي داود:1455)
ترجمہ:جو بھی قوم (جماعت) اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں
سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتی اور باہم اسے پڑھتی
پڑھاتی ہے اس پر سکینت نازل ہوتی ہے، اسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے اسے
گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ان لوگوں
میں کرتا ہے، جو اس کے پاس رہتے ہیں یعنی مقربین ملائکہ
میں۔
اس حدیث میں ہمارے معاشرہ کے مروجہ اجتماعی قرآن خوانی
کا ذکر نہیں ہے بلکہ قرآن پڑھنے اور پڑھانے یعنی قرآن کی تعلیم دینے کا ذکر ہے
جیساکہ دوسری حدیث میں نبی ﷺ فرماتے ہیں تم میں بہترشخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور
سکھائے ۔ (بخاری:5027)
سوال: ہمبستری کے وقت بستر پر اگر کچھ
ڈسچارج وغیرہ لگ جائے تو کیا وہ بسترناپاک ہوجاتا ہےاورکیا صرف اتنا حصہ دھونا کافی
ہو گا یا پھر جہاں جہاں ہمارے ہاتھ لگ جائیں وہ حصہ بھی ناپاک ہو جائے گا اور سارا
بستر دھونا پڑے گا ؟
جواب: اگر جماع کی وجہ سے بستر پر منی لگ جائے تو صرف
اس حصے کو دھلنا کافی ہے جہاں پر منی لگی ہوئی ہے، پورا بستر دھلنے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے۔ اس بارے میں سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ
سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الْمَنِيُّ أَنَغْسِلُهُ، أَوْ
نَغْسِلُ الثَّوْبَ كُلَّهُ؟ قَالَ سُلَيْمَانُ: قَالَتْ عَائِشَةُ " كَانَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصِيبُ ثَوْبَهُ فَيَغْسِلُهُ مِنْ
ثَوْبِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فِي ثَوْبِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، وَأَنَا أَرَى أَثَرَ
الْغَسْلِ فِيهِ۔(سنن ابن ماجہ:536، صححہ البانی)
ترجمہ: عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن
یسار سے سوال کیا: اگر کپڑے میں منی لگ جائے تو ہم صرف اتنا ہی حصہ دھوئیں یا پورے
کپڑے کو؟ سلیمان نے کہا: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں منی لگ جاتی تو اس حصے کو دھو لیتے، پھر اسی کو
پہن کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے، اور میں اس کپڑے میں دھونے کا نشان دیکھتی تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ منی لگی ہے صرف اسی جگہ
کو دھلنا کافی ہے اور بستر پر ہاتھ لگنے یا جسم لگنے سے بستر ناپاک نہیں ہوتا ہے
اس لئے مکمل بستر دھلنے کی ضرورت نہیں ہےبلکہ جہاں آنکھوں سے منی لگی ہوئی دکھائی
دے بس اس حصے کو دھلنا کافی ہوگا۔
سوال: حال ہی میں، ڈاکٹر ذاکر نائک کی میں
نےایک کلپ سنی ہے اس میں ایک شخص ڈاکٹر ذاکر نائک سے یہ پوچھ رہا ہے
کہ جب ہم جنت میں چلے جائیں گے تو ہم اللہ کو کیسے دیکھیں گے ،اللہ تو نور ہے ؟
جواب میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے کہا کہ سارے جنتی اللہ کو نہیں دیکھیں گے ، اللہ کو وہ جنتی دیکھیں گے جن کا مقام اونچا ہو ۔میں
نے پہلے سنا تھا کہ جب سارے لوگ جنت میں
چلے جائیں گے تو اللہ ساروں کو اپنا دیدار کرائے گا مگر اس کلپ کو سن کر الجھن
ہورہاہے ، اس بارے میں صحیح کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالی سورہ یونس میں ارشاد فرماتا ہے:
لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ
وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ
أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ
هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (یونس:26)
ترجمہ:جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ویسا ہی اچھا
بدلہ ہوگا اور اس سے زیادہ بھی۔ ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت یہی
لوگ جنتی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اس آیت میں اللہ رب العالمین نیک عمل کرنے والوں کے
بارے میں بتاتا ہے کہ ان کے لئے اچھا بدلہ اور زیادتی ہے ، یہ لوگ جنت میں جانے
والے ہیں جہاں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔ یہاں پر آیت میں "وَزِيَادَةٌ" کی
مختلف تفسیر بیان کی جاتی ہے، ایک تفسیر یہ ہے کہ زیادتی سے مراد جنت میں اللہ کا
دیدار ہے چنانچہ اس بارے میں سنن ترمذی کی حدیث دیکھیں جو صحیح مسلم(181) میں بھی
موجود ہے۔
صہیب رضی الله عنہ روایت بیان کرتے ہیں:
في قولِهِ : لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى
وَزِيَادَةٌ قالَ : إذا دخلَ أَهْلُ الجنَّةِ الجنَّةَ نادى مُنادٍ : إنَّ لَكُم
عندَ اللَّهِ موعدًا، قالوا : ألَم يبيِّضْ وجوهَنا وينجِّنا منَ النَّارِ
ويدخِلْنا الجنَّةَ ؟ قالوا : بلى، فيُكْشفُ الحجابُ، قالَ : فواللَّهِ ما أعطاهُم
شيئًا أحبَّ إليهِم منَ النَّظرِ إليهِ( صحيح الترمذي:2552)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ:
«للذين أحسنوا الحسنى وزيادة» (یونس: 26) کے بارے میں فرمایا: جب جنتی جنت میں
داخل ہو جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا: اللہ سے تمہیں ایک اور چیز ملنے
والی ہے، وہ کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا، ہمیں جہنم سے
نجات نہیں دی، اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟وہ کہیں گے: کیوں نہیں، پھر حجاب
اٹھ جائے گا، آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے انہیں کوئی ایسی چیز نہیں
دی جو ان کے نزدیک اللہ کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو گی۔
یہاں پر رسول کریم ﷺ نے یہ واضح کردیا کہ اہل جنت کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا، یہ دیدار تمام جنتیوں کو نصیب ہوگابلکہ اس سے بھی واضح اندار میں نبی ﷺ نے دیدار الہی کو بیان کردیا جب صحابہ نے سوال کیا کہ ہم اپنے رب کو کیسے دیکھیں گے چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
أنَّ أُنَاسًا في زَمَنِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه
وسلَّم قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، هلْ نَرَى رَبَّنَا يَومَ القِيَامَةِ؟ قَالَ
النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: نَعَمْ، هلْ تُضَارُّونَ في رُؤْيَةِ الشَّمْسِ
بالظَّهِيرَةِ ضَوْءٌ ليسَ فِيهَا سَحَابٌ؟ قالوا: لَا، قَالَ: وهلْ تُضَارُّونَ
في رُؤْيَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ ضَوْءٌ ليسَ فِيهَا سَحَابٌ؟ قالوا: لَا،
قَالَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ما تُضَارُونَ في رُؤْيَةِ اللَّهِ عزَّ
وجلَّ يَومَ القِيَامَةِ إلَّا كما تُضَارُونَ في رُؤْيَةِ أحَدِهِمَا(صحيح
البخاري:4581)
ترجمہ:کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا
قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں،
کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل
بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے،
جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو
دیکھو گے۔
دلائل سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی کہ جنت میں موجود
ہر کسی کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا کیونکہ یہی تو اہل جنت کی سب سےبڑی نعمت ہے اور کسی بھی حدیث میں یہ بات نہیں ہے کہ جنت میں
اونچے طبقہ میں رہنے والوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا اور دوسرے جنتیوں کو اللہ
کا دیدار نصیب نہیں ہوگااور اس مسئلہ میں اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے،
یہ اجماعی مسئلہ ہے کہ تمام جنتی اپنے رب
کا دیدار کریں گے ، اگر کوئی اس مسئلہ میں اختلاف کرتا اور بعض جنتیوں کے لئے
دیدار الہی کا منکر ہے اس کے عقیدہ و ایمان میں خلل ہے ۔
سوال: ایک عورت ہے جس کے دو بچے ہیں اور
وہ یتیم ہیں ۔اس بہن نے دوسری شادی کی لیکن اپنے شوہر پر ان بچوں کی اسکول اور
ٹیوشن فیس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی۔ ان بچوں کی خالہ نے زکوۃ اور صدقہ سے تقریبا
چار لاکھ روپئےدئے ہیں ،وہ ان پیسوں کو اپنے بھائی کی تجارت میں لگانا چاہتی ہے
اوراس نے اپنے بھائی سے کہا کہ آپ ہر ماہ مجھے بچوں کی فیس کے طور پہ تیس ہزار روپئےبھیج
دیا کریں۔ ان کے بھائی تیار ہو گئے ہیں اور کہا ہے کہ جب تم کو ضرورت ہو اپنے سارے
پیسے واپس لے لینا ،کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟
جواب: کاروبار میں پیسہ لگا کر اس طرح سے فکس منافع
لینا جائز نہیں ہے، یہ سود کے زمرے میں داخل ہے۔شریعت کی روشنی میں کاروبار کے نفع
اور نقصان کے حساب سے فائدہ طے کرسکتے ہیں ، ماہانہ فکس رقم کے طور پر منافع نہیں
لے سکتے ہیں کیونکہ کاروبار میں اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے ۔مثلا اس طرح منافع لینا
جائز ہے کہ کاروبار میں جو منافع ہوگا اس منافع سے دس فیصد یا پندرہ فیصد جس پرآپس
میں اتفاق ہوجائے طے کرسکتے ہیں مگر
ماہانہ طور پر رقم فکس کرکے منافع لینا جائز نہیں ہے۔
سوال:بالوں کو گھنے اور بھرے ہوئے دکھنے
کے لئے ہئربلڈنگ فائبرس استعمال کیا جاتا ہے، یہ مصنوعی یا قدرتی مواد پر مبنی
چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو بالوں پر لگا کر کمزور یا پتلے حصوں کو کلر بھرنے میں مدد
دیتے ہیں، یہ صرف اس حصے میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں بال کم ہوتے ہیں جس کی وجہ
سے سر کی چمڑی دکھائی دیتی ہے یعنی زیادہ تر لوگ بالوں کے پتلے حصے یا گنج پن کے
شکار علاقوں کو چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔یہ fibers وقتی طور
پر بالوں کو بھرے اور گھنے دکھاتے ہیں لیکن یہ کوئی مستقل علاج نہیں ہے ، بارش،
پسینہ، یا بال دھونے کے بعد دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
Hair building fibers مختلف
رنگوں میں دستیاب ہوتے ہیں تاکہ بالوں کے قدرتی رنگ سے مطابقت پیدا کی جا سکےاور
عام رنگوں میں کالا، بھورا، سرمئی، اور سنہری شامل ہوتے ہیں۔ کیا اس طرح سر کو
ایسے رنگوں سے رنگ سکتے ہیں؟
جواب: کسی مسلمان مرد اور عورت کے لئے کالے رنگ کا
اسپرے یا کالاخصاب یا کالا رنگ لگانا جائز نہیں ہے ، نبی ﷺ نے سر اور داڑھی کے
بالوں میں کالا رنگ لگانے سے منع فرمایا ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
أُتِيَ بأَبِي قُحَافَةَ يَومَ فَتْحِ مَكَّةَ
وَرَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ كَالثَّغَامَةِ بَيَاضًا، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى
اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ: غَيِّرُوا هذا بشيءٍ، وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ(صحيح
مسلم:2102)
ترجمہ:فتح مکہ کے سال یا فتح مکہ کے دن حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو لایاگیا، وہ آئے اور ان کےسر اور داڑھی کےبال ثغام یا ثغامہ (کے سفید پھولوں) کی طرح تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کی عورتوں کوحکم دیا، یا ان کے بارے میں (ان کےگھر کی عورتوں کو) حکم دیا گیا، فرمایا:اس (سفیدی) کو کسی چیز (اور رنگ) سے بدل دیں۔
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے ابوقحافہ رضی اللہ
عنہ کو سر اور داڑھی کے بالوں میں کالا رنگ لگانے منع کیا ہے یہی وجہ ہے کہ امام
مسلم نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے"باب اسْتِحْبَابِ خِضَابِ
الشَّيْبِ بِصُفْرَةٍ أَوْ حُمْرَةٍ وَتَحْرِيمِهِ بِالسَّوَادِ(باب:بڑھاپے میں
بالوں پر زرد رنگ یا سرخ رنگ کے ساتھ خضاب کرنے کے استحباب اور سیاہ رنگ کے خضاب
کی حرمت کے بیان میں)۔
لہذا کسی کے لئے جائز نہیں ہےکہ وہ سر
کے بالوں کو رنگنے کے لئے یا سر کے پتلے بالوں کے لئے یا سر کے گنجے پن کے لئے
کالا رنگ استعمال کرے ۔ ہاں کالے رنگ کے علاوہ دوسرا کوئی بھی رنگ یا فائبرس
استعمال کرسکتے ہیں ، اس سے بالوں کو رنگ سکتے ہیں ، پتلے کو موٹا کرسکتے ہیں یا
گنجے پن کو وقتی طور پر چھپا سکتے ہیں ، اس کام کے لئے بس کالے رنگ سے بچنا ہے۔
سوال: عورت زیور یعنی سونا پیر میں یاپیر کی اُنگلیوں میں یا کمر میں یا بیلٹ یا پٹے میں پہن
سکتی ہے؟
جواب: عورت سونے کو پیر کی انگلیوں میں، کمر میں، بیلٹ
میں، کان میں، ناک میں،بازومیں ، کمرمیں یعنی جس جگہ چاہے پہن سکتی ہے اس میں کوئی حرج
کی بات نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہے۔
سوال: کیا قرآن مکمل ہونے کی دعوت کرنی
چاہیےاور خوشی منانی چاہیے یا نہیں کیونکہ
لوگ باقاعدہ ہال میں آمین کی تقریب کرتے ہیں اور خوشی کے طورپر دعوت میں بہت سارے
لوگوں کو بلاتے ہیں ، کیا یہ صحیح ہے اور قرآن کی اس آیت کا کیا مطلب ہے کیونکہ
تقریب کرنے والے اس آیت کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس آیت کا مطلب قرآن کی
خوشی منانا ہے"بس لوگوں کو چاہیے خوشی منائیں قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے
جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں"۔(یونس58)؟
جواب: قرآن مکمل ہونے پر خوشی منانا اور خوشی میں آمین
کی محفل قائم کرنا دین میں نئی ایجاد ہے کیونکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے کہیں
پر ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا ہے اور جو عمل دین میں موجود نہ ہو وہ باطل و مردود
ہے، اللہ ایسے عمل کو قبول نہیں کرتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:مَن
عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ:جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو
(یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔
آپ نے سوال میں قرآن کی جس آیت کے بارے میں پوچھا ہے وہ
مکمل آیت ترجمہ کے ساتھ دیکھیں گے تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اللہ فرماتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ
فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ (یونس:58)
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سےبدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔
یہاں پر اللہ اللہ تعالی قرآن کو اپنا فضل اور اپنی
رحمت قرار دے رہا ہے اور اس فضل و رحمت کے لئے خوش ہونے کو کہا ہے اور یہ خوش ہونا
دلی اعتبار سے خوش ہونا ہےاور یہ کہا گیا ہےکہ
لوگ جو دنیاوی مال ومتاع جمع کرنے میں لگے ہیں اس سے اس قرآن کا علم حاصل
کرنا بہتر ہے۔ یہاں پر یہ نہیں کہا گیا کہ جب تم قرآن مکمل کرو تو خوشی میں تقریب
اور محفل منعقد کرو یا مجلس قائم کرو، اس قسم کی بات اس آیت میں مذکور نہیں ہے۔
اللہ نے خوش ہونے کو کہا ہے نہ کہ مجلس قائم کرکے خوشی منانے کو کہا ہے۔ اس بات کو
مثال سے اس طرح سمجھیں کہ میں آپ سے کہوں کہ مجھے سرکاری نوکری مل گئی ہے، یا میری
شادی ہو گئی ہے، آپ یہ بات سن کر خوش ہوں گے یا نہیں؟ یقینا آپ خوش ہوں گے ۔ یہاں
پر آپ کی خوشی کیسی ہے، دل کی خوشی ہے۔ اسی خوشی کا ذکر مذکورہ بالا قرآنی آیت میں
ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کی تکمیل پر
تقریب کا انعقاد کرتے ہیں، شریعت کی نظر میں یہ عمل بدعت ہےاور اللہ بدعتی عمل کو
ہرگز قبول نہیں کرتا ہے ، وہی عمل اللہ کے یہاں مقبول ہے جو اخلاص کے ساتھ اور سنت
کے مطابق انجام دیا جائے ۔
سوال: ایک عورت کے بیٹے کا نکاح ہوا ہے ، لڑکی
کے والد نے حق مہر دوطرح سے لکھوایا ہے ۔ مہرمعجل پچاس ہزار تھا وہ ادا ہوگیا اور
غیرمعجل جب طلاق ہوگی اس وقت دس تولہ سونا دینا ہوگا۔ اس وقت لڑکے کے والد نے لکھ
دیا لیکن اب وہ پریشان ہیں کہ دو حق مہر ہوتے ہیں یا نہیں اور کیا وہ دس تولہ سونا
بھی شادی کے بعد دیناضروری ہے ۔ لڑکے کی حیثیت ابھی ایسی نہیں ہے کہ وہ دے سکے،
والد پہ بوجھ ہے ؟
جواب:بطور مہر رقم یا
کوئی چیز متعین نہیں ہے، اس معاملہ میں لڑکا اور ولی جس چیز پر متفق ہو جائیں وہی
مہر کہلائے گا تاہم مہر میں زیادتی کرنا اور بڑھا چڑھا کر لکھوانا مناسب نہیں ہوتا
ہے، حسب استطاعت مہرہونا چاہئے تاہم اتفاق رائے سے جو بھی مہرطے ہوجائے وہ ادا
کرنا ضروری ہےخواہ زیادہ ہو یا کم ۔جہاں تک سوال میں مذکور ہے کہ مہر معجل کے طور
پر پچاس ہزار لکھوایا گیا اور طلاق دینے پر دس تولہ سونا لکھوایا گیا۔مہر معجل ادا
کر دیا گیا ہے اور طلاق سے متعلق جو مہر ہے وہ ابھی باقی ہے، یہ مہر اس وقت دینا
پڑے گا جب لڑکا اپنی بیوی کو طلاق دے گا۔ اگر لڑکا طلاق نہیں دیتا ہے تو یہ مہر
ادا کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق کے ساتھ مشروط ہے۔طلاق دے تو حسب شرط ہر
حال میں لڑکا کو یہ مہر ادا کرنا پڑے گا کیونکہ نکاح کے وقت جو جائز شرط رکھی جائے
اس شرط کا ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
عن عقبة بن عامر رضي
الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: احق الشروط ان توفوا به ما
استحللتم به الفروج(صحیح البخاری:2721)
ترجمہ: عقبہ بن عامر
رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ شرطیں جن
کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ
مستحق ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مہرغیرمعجل لڑکے کو صرف اس صورت میں ادا
کرنا ہے جب وہ اپنی بیوی کو طلاق دے گا، اوربیوی کو طلاق نہ دے تو یہ مہر زندگی
میں کبھی بھی اسے ادا نہیں کرنا ہے۔
سوال:کسی نے کہا ہے کہ ایک سوانتیس بار سورہ کوثر پڑھنے سے رزق میں
برکت ہوتی ہے اور اول آخر گیارہ بار درود ابراھیم پڑھنا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: دین اسلام میں اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے،
ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اس طرح کی کوئی تعلیم نہیں دی ہے ،
یہ سراسرجھوٹی بات ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔کسی بدعتی نے اپنی طرف سے گھڑکر
لوگوں میں اسے پھیلادیا ہوگا۔بدعتی لوگوں کے یہاں اس قسم کے بے شمارمصنوعی وظائف
پائے جاتے ہیں۔لوگوں کے گھڑے ہوئے اور ایجاد کردہ وظائف بدعتی اعمال ہیں ، ایسے
بدعتی اعمال سے دور رہیں ۔
سوال:جب لڑکی بالغ ہوتی ہے تو اسے ساتویں،
نویں اور گیارہویں دن غسل حیض دیکر پاک کیا جاتا ہے ،اسی طرح نفاس میں نویں یا
گیارہویں اور اکیس کو پھر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو پینتیس دن میں اگر لڑکا پیدا ہوا
توچالیسویں دن نفاس کا غسل دیاجاتا ہے ،کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:اسلام میں بالغ ہونے کا کوئی غسل نہیں ہے،نہ لڑکا
کے لئے اور نہ ہی لڑکی کے لئے ۔ غسل اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی کو حدث اکبر(جنابت
یا حیض ونفاس) لاحق ہو ۔ جب کسی لڑکی کو حیض آنا شروع ہو جائے تو یہ اس کی بلوغت
کی علامت ہے مگر اس کو اس دن غسل طہارت کرنا ہے جب وہ حیض سے پاک ہوگی جیسے دوسری
حیض والی عورت غسل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بلوغت کا یا بالغ ہونے والی لڑکی کا کوئی
مخصوص طریقہ غسل نہیں ہے اور جو بیان کیا جاتا ہے کہ ساتویں دن، نویں دن اور
گیارہویں دن غسل حیض دے کر پاک کیا جاتا ہے، یہ معاشرہ کا اپنا بنایا ہوا رواج ہے،
اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح نفاس میں بھی جب عورت نفاس سے پاک ہو
جائے اس وقت اسے غسل کرنا پڑے گا لیکن سوال میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے نویں یا
گیارہویں یا اکیسویں دن پھر لڑکی پیدا ہو تو پینتیسویں دن اور لڑکا پیدا ہو تو چالیسویں دن عورت غسل کرے گی، یہ بھی لوگوں کا اپنا رواج
ہے۔ اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جن باتوں کا اسلام سے تعلق نہیں ہے
ہمیں ایسی باتوں کو عمل میں نہیں لانا چاہیے۔ بس اسی پر عمل کریں جو کتاب اور سنت
سے ثابت ہے۔
سوال:بچہ پیدا ہونے کے تین دن بعد فوت ہو گیا ، کیا اس بچے کی وفات کے بعدفوت
شدہ بچے کے نام سے عقیقہ کر سکتے ہیں اس
بات کو حدیث کی روشنی میں واضح فرما دیجئے؟
جواب: بچے کی پیدائش کے بعد ساتویں دن اس کے نام سے
عقیقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، سات دن سے پہلے عقیقہ کا کسی حدیث میں حکم نہیں
دیا گیا ہے ۔سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
كلُّ غلامٍ رَهينةٌ بعقيقتِهِ تُذبَحُ عنهُ يومَ
سابعِهِ ويُحلَقُ ويُسَمَّى( صحيح أبي داود:2838)
ترجمہ:ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز
اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جب بچہ پیدا ہوکر اسے سات
دن ہوجائے تب اس کے نام سے عقیقہ کیا جائے ۔ اگر کوئی بچہ ساتواں دن پانے سے پہلے
وفات پاجائے تو اس کے نام سے عقیقہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس بچے نے اس دن کو
نہیں پایا جس دن عقیقہ کرنا مسنون ہے۔
سوال: کیا
ننگے پاؤں چلنے سے عقل کم ہوتی ہے، کیا یہ بات حدیث سے ثابت ہے؟
جواب:حدیث سے ایسی بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ ننگے پاؤں
چلنے سے عقل کم ہوتی ہے بلکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم ننگے پاؤں بھی چل سکتے ہیں
اور پیر میں جوتا پہن کر بھی چل سکتے ہیں یعنی دونوں عمل اپنی جگہ پر درست ہے، صرف
اس بات کی ممانعت ہے کہ کوئی ایک پیر میں جوتا پہنے اور دوسرے پیر میں جوتا نہ
پہنے۔
عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:
لا يمشي احدكم في نعل واحدة ليحفهما جميعا او لينعلهما جميعا(صحیح البخاری: 5856)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں کوئی شخص صرف ایک پاؤں میں جوتا پہن کر نہ
چلے یا دونوں پاؤں ننگا رکھے یا دونوں میں جوتا پہنے۔
سوال: احرام سے دھاگے نہ نکلے اس وجہ سے کیا اس کے چاروں طرف
انٹر لاک یا سلائی کروا سکتے ہیں؟
جواب:احرام کے لباس سے دھاگہ نہیں نکلنے کی وجہ سے انٹرلاک کرنا یا سلائی کرنا صحیح نہیں ہےاحرام کی جو چادر ہوتی ہے وہ خود ہی محفوظ ہوتی ہے، اس کے اطراف کو سلنے اور انٹرلاک کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔یہ چادر روزانہ استعمال کے لئے نہیں ہے ، ایک مرتبہ عمرہ کرنے کے بعد پھر اتاردینا ہوتا ہے ، مشکل سے تین چار گھنٹے بدن پر رہتی ہے۔ میں پندرہ سالوں سے سعودی عرب میں ہوں ، اللہ کی توفیق سے برابر عمرہ کرنے کا موقع ملا اور مجھے کبھی احرام کی چادر سے دھاگہ نکلنے کی شکایت نہیں ملی ۔ اگر کبھی ایک آدھ دھاگہ چادرسے نکل آئے تو اسے توڑ کر ہٹادینا ہے اس کے لئے باقاعدہ سروں کو سلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں مریض کے لئے یا بچوں کے لئے ضرورت کے تحت کچھ سلنا پڑے جیسے ازاربندڈالنے کے لئے تو اس میں حرج نہیں ہے۔یہ مجبوری کے تحت ہے۔
سوال:کیا صبح وشام کے اذکار ٹہلتے پھرتے کر سکتے ہیں تاکہ نیند نہ آئے ؟
جواب: چلتے پھرتے ہوئے صبح وشام کے اذکار پڑھ سکتے ہیں
، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ اللہ کا ذکر اور دعائیں ہیں ، اسے چلتے پھرتے ،
اٹھتے بیٹھتے ہرحال میں پڑھ سکتے ہیں ۔آپ کوصبح وشام کے اذکار پڑھنے کےلئے جو سہولت ہو اس طرح پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال: مجھے ایک سافٹ ویئر سیکھنا ہے جس
کو پچاس ہزار میں خریدنا پڑتا ہے مگر میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے ۔اگر یہی سافٹ
ویئر دوسری جگہ سےکریک کر کے فری میں مل
جائے تو کیا یہ چوری ہوگی؟
جواب :جس کی جو چیز ہوتی ہے اس کی چیز کو اس کی اجازت
سے استعمال کرنا چاہئے ، اسلام ہمیں کسی کی خاص اور ذاتی چیز کو بغیر اجازت
استعمال کرنے سے منع کرتا ہے۔ اگر کوئی سافٹ ویئر پچاس ہزار قیمت کا ہے اور اسے
کریک کرکے استعمال کرنا اس سافٹ ویئرکمپنی کے قانون کے خلاف ہے تو کریک شدہ سافٹ ویئر حاصل کرنا چوری
ہے ، جو کریک کررہا ہے وہ بھی قانونی جرم کررہا ہے اور جو کریک شدہ سافٹ ویئراس سے
حاصل کررہا ہے وہ بھی اس جرم میں شریک ہے
۔
سوال: میری امی عمرہ پر آئی ہوئی تھی ، وہ حرم شریف سے مسجدعائشہ گئی اور وہاں سے
عمرہ کا احرام باندھ کر حرم آئی مگر کسی وجہ سے اس نے عمرہ نہیں کیا اور انڈیا چلی
گئی اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ، اس وقت دم دینے کےلئے پیسے بھی نہیں تھےاور کیا گھر
پہ دم دے سکتے ہیں؟
جواب: عمرہ
ایسی عبادت ہے کہ اس عبادت میں داخل ہونے کے بعد آدمی کپڑا بدل لے یا سوچے کہ ہم عمرہ نہیں کریں گےاس سے احرام ختم نہیں
ہوجاتا ہے ، ایک مرتبہ جوعمرہ کا احرام
باندھ لے وہ احرام میں رہے گا جب تک عمرہ
نہ کرلے۔ خیر آپ کی والدہ کو پہلے ہی سوچنا تھا کہ وہ عمرہ کرسکتی ہے یا نہیں ؟
اکثر لوگوں کو عمرہ پہ آنے کے بعد باربار عمرہ کرنے کی چاہت ہوتی ہے ، یہ عمل سنت
کے خلاف ہے۔آپ کی والدہ کو سب سے پہلے اللہ سے توبہ کرنا چاہئے کیونکہ اس نے عمرہ
کا احرام باندھ لیا اور بغیر عمرہ کئے انڈیا چلی گئی ۔ چونکہ وہ انڈیا سے اب واپس
بھی نہیں آسکتی ہے اس وجہ سے وہ محصرکے حکم میں کہلائےگی یعنی ایسے آدمی کے حکم میں جو عمرہ سے روک دیا
جائے۔ اس صورت حال میں مکہ کے حدود میں والدہ کی طرف سے ایک دم دیں اور دم دینے کے
بعد والدہ کو کہیں انگلی کے پور برابرسرکے نچلے حصے سے بال کاٹ کر حلال ہوجائے
کیونکہ وہ ابھی بھی حالت احرام میں ہی ہے۔ وہ ممنوعات احرام سے بچتی رہے اور دم
انڈیا میں نہیں دینا ہے بلکہ لازما مکہ میں ہی دینا ہے۔
سوال: تقریبا آج سے سترہ سال پہلے جب سعودیہ میں برید ہ القصیم میں تھے ، اس وقت جب ہم نے
عمرہ کیا تو عمرہ میں طواف کے بعد حلق کروالیا، سعی نہیں کیا کیونکہ اس کے بارے
میں کچھ معلوم نہیں تھا ۔ بال کٹانے کے بعد کسی نے سعی کے بارے میں پوچھا تو ہم نے
کہا کہ سعی نہیں کی ، پھر وہاں کسی سعودی سے پتہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تین مسکین
کو کھانا کھلادو، ہم نے تین مسکین کو کھانا کھلادیا مگر اچانک ابھی یاد آرہا ہے کہ
پتہ نہیں ہمارا عمرہ صحیح ہوا یا نہیں ؟
جواب: آپ نے سترہ سال پہلے جوعمرہ کیا اور اس میں آپ نےسعی چھوڑ دی ، اس سعی سے متعلق اہل علم کی دورائیں
ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ سعی عمرہ میں واجب ہے اور بعض کہتے ہیں سعی رکن ہے ۔ سعی کا
رکن ہونا ہی راحج معلوم ہوتا ہےاور جب سعی رکن ہوگا تو اس رکن کو چھوڑ دینے سے
عمرہ نہیں ہوگا۔اس مسئلہ میں تین مسکین کو
کھانا کھلانا نہیں تھا بلکہ اسی وقت حرم جاکر سعی مکمل کرکے پھر سے بال کٹانا تھا
۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اتنے سالوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں ، لازما آپ نے پھردوبارہ
عمرہ بھی کیا ہوگا ، آپ کا وہ عمرہ جو آپ نے بعد میں کیا وہ پہلے عمرہ کے لئے بطول بدل ہوجائے گااور یہ مانا جائے گا کہ جب آپ
نے دوسرا عمرہ کیا اس وقت تک احرام میں تھے اور اس دوران محظورات احرام کے ارتکاب
پر کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ لاعلمی میں ہوا ہے۔
سوال: میں جدہ میں مقیم ہوں اورابھی پاکستان جانا چاہتاہوں ، چھٹی نہیں لگی ہے ۔ اس جمعہ کو عمرہ کرنے کا ارادہ ہے مگر آج طبیعت ناساز لگ رہی ہے پتہ نہیں جمعہ کو طبیعت ٹھیک ہوگی یا نہیں ۔اگرخدانخواستہ جمعہ کو عمرہ نہ کرسکیں تو مسئلہ تو نہیں ہے اور اس میں کچھ رعایت ہے؟
جواب: ابھی آپ نے عمرے کرنے کی جو نیت کی ہے کہ اس جمعہ
کو عمرہ کریں گے اور اگر طبیعت ساتھ نہ دےاور عمرہ نہ کر سکیں تواس میں حرج کی کوئی بات نہیں کیونکہ ابھی آپ نے
عمرہ کرنے کے لئے سوچا اور ارادہ بنایا ہے ، یہ ارادہ بدل سکتے بھی ہیں ۔ جب آپ احرام کا لباس پہن کر عمرہ کی نیت
کرلیں اس وقت آپ کو عمرہ مکمل کرنا پڑے گا اور جب تک احرام لگاکر عمرہ کرنے کی نیت
کرکے گھر (جدہ)سے نہیں نکلتے ہیں اس وقت تک آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
سوال:امام بھول کر پانچویں رکعت کے لئے اٹھنے لگا،ابھی
اٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ دیا ایسے میں امام کوکھڑا
ہونا چاہئے یا اسے بیٹھ جاناچاہئے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پانچویں رکعت کیلئے
پورا کھڑا ہوگیا یعنی مکمل سیدھا کھڑا ہوگیا تو اگرچہ اس کو یاد ہے کہ یہ پانچویں
رکعت ہےاور چونکہ پورا کھڑا ہوگیا ہے اس
لئے اب بیٹھے گا نہیں بلکہ پانچویں رکعت پورا کرکے آخر میں سجد سہو کرے گا؟
جواب:اگر کوئی امام پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہونے کی
کوشش کر رہا ہے یا کھڑا ہو گیا ہے اور مقتدیوں نے لقمہ دیا ہے کہ امام غلطی پر ہے
ایسی صورت میں امام کو لازما اور واجبا بیٹھ جانا ہے کیونکہ نماز میں زیادتی بطلان
نماز کا سبب ہے یعنی کوئی عمدا نماز میں زیادتی کرے تو اس سے نماز ہی باطل ہو جاتی
ہے۔جس نے آپ سے کہا ہے کہ اگر سیدھا کھڑا ہو گیا ہے تو رکعت پوری کرے گا اس نے غلط
مسئلہ بتایاہے اس کو اس مسئلے کا علم نہیں ہے۔
اس طرح کا مسئلہ پہلے تشہد سے متعلق ہے یعنی چار رکعت والی نماز میں اگر کوئی امام بھول کر دو رکعت پر بیٹھنے کے بجائے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو اب اسے نہیں بیٹھنا ہے بلکہ اپنی نماز جاری رکھنی ہے اور آخر میں سجدہ سہو کرنا ہےکیونکہ پہلا تشہد واجب ہے اور نماز میں واجب چھوٹ جانے پر سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔