Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(21)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(21)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال: ایک مولانا نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ نماز سنسکرت کا لفظ ہے اگر یہ صحیح ہے تو کیا ہم لفظ نماز کا استعمال نہ کریں بلکہ صلاۃ کا استعمال کریں؟

جواب:نماز فارسی زبان کا لفظ ہے۔ آپ اردو لغت اٹھا کر دیکھیں مثلا فیروز اللغات اس میں نماز کو اردو زبان کا لفظ بتایا گیا ہے۔ اگر نماز سنسکرت زبان کا بھی لفظ ہو تب بھی اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ لفظ بطور بندگی استعمال ہوتا ہے اور اردو مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے جس میں ہندی، سنسکرت، فارسی، انگریزی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

ہمارا دین عربی زبان میں ہے، جب ہم اس زبان کو اپنی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے اپنی زبان کے الفاظ کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہاں پر صرف لفظ نماز کا مسئلہ نہیں بلکہ ہزاروں الفاظ ہیں جنہیں ہم ترجمہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اس لئے لفظ نماز ہو یا لفظ روزہ ہو یا اور دیگر ترجمہ شدہ الفاظ ہوں ان کے استعمال میں حرج نہیں ہے۔ٹھیک یہی معاملہ دیگر زبانوں کا بھی ہے جیسے انگریزی میں نماز کو کئی الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں ان کے استعمال میں حرج نہیں ہے۔

سوال:كوئی عمرہ کرنے گیا، تھکاوٹ وغیرہ میں حلق کروانا بھول گیا اور احرام اتار دیا۔ یاد آنے پر کچھ دیر بعد جا کر حلق کروایا۔اب وہ پریشان ہے کہ کیا کوئی کفارہ ہے یا اس پہ دم ہے یا دوبارہ عمرہ کرنا پڑے گا؟

جواب: احرام لباس کا نام نہیں ہے بلکہ عمرہ کی نیت کا نام ہے اس لئے اگر کوئی احرام کا لباس اتار دیتا ہے تو اس سے آدمی کا احرام ختم نہیں ہو جاتا ہے اور احرام کی حالت میں مردوں کے لئے سلا ہوا کپڑا لگانا ممنوع ہے۔

جس آدمی نے تھکاوٹ اور بھول کی وجہ سے احرام کا لباس اتار دیا لیکن پھر وہ کچھ دیر کے بعد حلق کروا لیا تو اس وجہ سے اس کے اوپر کوئی کفارہ اور دم نہیں ہے کیونکہ اس نے بھول کر غلطی کی ہے اور اللہ نے بھول چوک معاف کردیا ہے۔اس کا عمرہ اپنی جگہ درست ہے اور دوباہ اسے عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال:کچھ لوگ اپنی اولاد کو خود جنم دینے کے بجائے دوسری عورت کے رحم سے پیدا کرواتے ہیں۔میں نے یوٹیوب پر دیکھا کہ بعض مشہور شخصیات کے بچے دراصل ان کے اپنے ہوتے ہیں مگر انہیں جنم دوسری عورت دیتی ہے۔ اپنے دوستوں سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے، کیا یہ زنا کے ذریعہ ہوتا ہےتو انہوں نے بتایا کہ نہیں بلکہ ڈاکٹر کے ذریعہ شوہر اور بیوی کے نطفے کو دوسری عورت کے رحم میں منتقل کرکے یہ عمل کیا جاتا ہے۔آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی ہے اور اس کے ذریعہ لوگ بہت سے حیرت انگیز کام کر رہے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب شوہر اور بیوی کا نطفہ دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے، تو کیا اس کے خون اور جسم سے پیدا ہونے والا بچہ حقیقت میں انہی کا ہوتا ہے اور کیا شرعی طور پر وہ بچہ ان دونوں کا ہی کہلائے گا؟

جواب: بہت پہلے اس سائنسی طریقہ کی ایجاد ہوئی اور بعض لوگ اس طریقہ کواپناکر اولاد حاصل کرتے ہیں ،اسے سروگیٹ مددہوڈ کہاجاتا ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے نقطے لے کر اور دونوں کے نطفے کو بار آور کرکے دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے، دراصل یہ بھی زنا کی ایک قسم ہے اور یہ حرام ہے یعنی کسی مسلمان کے لئے اس طرح سے اولاد حاصل کرنا حرام ہے۔

جہاں تک نسب کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ بچہ جس کی منی ہے اس کا ہوگا اور بعض کہتے ہیں کہ جس نے اپنی کوکھ میں رکھا اور اسے جنم دیا ہے وہی اس کی ماں ہے۔

بہر کیف! نسب سے زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ یہ طریقہ ہی حرام ہے۔ جو اس طرح سے اولاد حاصل کرے وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا مجرم ہے اور وہ اس جرم کی آخرت میں سزا پائے گا۔(مزید جانکاری کے لئے میرا مضمون"رحم مادر کی پیوندکاری اسلام کی نظرمیں" دیکھیں)۔

سوال: گھر کا انشورنس ، گاڑی کا انشورنس ، میڈیکل انشورنس وغیرہ ان سب انشورنس میں ہمیں ہر مہینے متعین رقم دینی پڑتی ہیں پھر جب ہمیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ ہمارے نقصان کی بھرپائی کرتے ہیں یہ جائز ہے ؟

جواب: تجارت سے جڑے کسی بھی قسم کا انشورنس جائز نہیں ہے خواہ وہ گھر کا انشورنس ہو یا گاڑی کا انشورنس ہو یا میڈیکل انشورنس ہو یا اور کوئی انشورنس ہو۔

تجارتی ہر قسم کا انشورنس سود، جوا، دھوکہ اور فریب پر مبنی ہے۔ اس کے صرف ایک پہلو پہ نظر ڈالیں اس کی حرمت کا علم ہوجائے۔ انشورنس ایک قسم کی تجارت ہے اور یہ مجہول تجارت ہے جبکہ اسلام میں مجہول چیزوں کی تجارت جائز نہیں ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بیع غرر یعنی مجہول تجارت اور بیع حصاۃ سے منع فرمایاہے(سنن ابن ماجہ:2194)۔ اس لئے کسی مسلمان کو بغیر عذر کے کسی قسم کا انشورنس کروانا جائز نہیں ہے۔

سوال: وسطی اور سبابہ انگلی میں انگھوٹھی پہننا کیسا ہے؟

جواب: درمیانی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننا منع ہے، صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے، ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضر علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاتھا کہ میں ان دونوں میں سے کسی انگلی میں انگوٹھی پہنوں، پھر انھوں نے درمیانی اور (انگوٹھے کی طرف سے) اس کے ساتھ والی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔(صحیح مسلم:5493)

یہ ممانعت صرف مردوں کے لئے ہے لیکن عورتیں تمام انگلیوں میں انگوٹھی پہن سکتی ہیں۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ سنت یہ ہے کہ مرد خنصر میں انگوٹھی پہنے اور عورتیں تمام انگلیوں میں انگوٹھی پہن سکتی ہیں ۔

سوال: کیا زکوۃ کی رقم سے زکوۃ کی چیزیں خرید کر دی جا سکتی ہیں یا رقم ہی دینا ضروری ہے؟

جواب: اگرنقدی مال کی زکوۃ دینی ہے تو زکوۃ میں روپیہ ہی نکالنا ضروری ہے ، اس مال سے سامان خرید کر دینا جائز نہیں ہے بلکہ سامان خرید کر دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ مال غیر میں یہ تصرف مانا جائے گا ۔ مستحق اپنی ضرورت بہتر جانتا ہے اس لئے اسے رقم ہی دینا چاہئے تاکہ اپنی ضرورت کی چیز اپنے حساب سے خرید سکے ۔ ہاں کبھی شدید حاجت ومصلحت کی بناپر اشیاء خریدکر دے سکتے ہیں جیسے کوئی یتیم بچہ ہو یا دیوانہ ومجنوں ہو یا پیسے کو ضائع کردینے والا ہو تو ایسی مجبوری میں ان کی ضرورت سمجھ کر اشیاء دے سکتے ہیں ۔شیخ ابن عثیمینؒ نے یہ بات بھی کہی ہے کہ جب غریبوں کی طرف سے اس چیز کا مطالبہ کیا جائے اور وہ کہیں کہ اگر آپ کے پاس پیسے ہوں تو میرے لئے فلاں فلاں چیزیں خرید لینا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(مجموع رسائل وفتاوی ابن عثیمین)

سوال: یہ بات مشہور ہے کہ حضرت حوا علیہا السلام کو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا مگر کیا یہ بات صحیح ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی پر ایک پھوڑا ہوا تھا اور وہ پھوڑا آہستہ آہستہ بڑا ہو گیا اور وہ زمین پر گر گیا جس سے حضرت حوا علیہاالسلام کی پیدائش ہوئی ؟

 جواب: صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حوا علیہاالسلام، آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئیں جبکہ یہ بات ثابت نہیں ہے کہ آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی پر ایک پھوڑا ہوا اور وہ پھوڑا آہستہ آہستہ بڑا ہوا اور زمین پر گرگیا جس سے حوا علیہ السلام پیدا ہوئیں۔ یہ جھوٹی بات ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

سوال:نبی کریم ﷺ بازار میں تھے کہ ایک صاحب کی آواز آئی ، یا ابا القاسم ! آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے (معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی اور کو پکارا ہے) اس پر آپ نے فرمایا : میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت مت رکھو ۔(صحیح بخاری:3537)اس حدیث کی روشنی میں کیا اگر کسی کا نام قاسم ہو تو اس کے باپ کو ابو القاسم نہیں کہہ سکتے ہیں؟

جواب:یہ حدیث، صحیح بخاری میں موجود ہے اس حدیث کی بنیاد پر بعض علماء کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھنا درست ہے مگر آپ کی کنیت رکھنا منع ہے تاہم بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ یہ ممانعت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود تھی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کا نام بھی رکھ سکتے ہیں اور آپ کی کنیت بھی رکھ سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی وارد ہے جو ابو داؤد میں ہے۔محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کے بعد میرے بیٹا پیدا ہو تو میں اس کا نام اور اس کی کنیت آپ کے نام اور آپ کی کنیت پر رکھوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(ابوداؤد:4967،صححہ البانی)

المہم ، ابوالقاسم نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس کے بیٹے کا نام قاسم ہو اس کو ابوالقاسم کہنے میں حرج نہیں ہے۔

سوال:کیا بچوں کو انبیاء کرام کے واقعات اس طرح کارٹون کی شکل میں دکھا سکتے ہیں جس میں انکا چہرہ نہیں دکھایا گیا ہے کیونکہ آج کل بچے بڑے سب میڈیا سے وابستہ ہیں؟

جواب:یوٹیوب پر موجود کارٹون کی شکل میں انبیاء کرام کے واقعات بچوں کو دکھانا جائز نہیں ہےخواہ اس میں انبیاء کا چہرہ دکھایا گیا ہو یا نہیں دکھایا گیا ہو۔انبیاء کے نام پر اس قسم کے کارٹون اور ویڈیوز بنانا ہی حرام کام ہے کیونکہ نہ صرف اس میں جاندار کی تصویر بنائی گئی ہے جس کی حرمت مختلف احادیث سے ثابت ہے بلکہ یہ انبیاء کی توہین بھی ہے کہ ان کے ناموں کا کارٹون بنایا جائے۔

کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جب کفار و مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کارٹون بنائے تو ہم ان کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں اور جب یہی کام ایک مسلمان کرے تو ہمیں کیوں برا نہیں لگتا بلکہ اپنے بچوں کو بھی ایسے کارٹون دکھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے کارٹون بنانا ہی جائز نہیں ہے تو اپنے بچوں کو دکھانا کیسے جائز ہوگا۔اور ویسے بھی کارٹون اور ویڈیوز کے ذریعہ کبھی بھی اسلام کی سچی تصویر یا کسی بھی قصے کی صحیح ترجمانی نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ اس میں جھوٹ اور مرچ مصالحہ لگا کر کچھ اور چیز دکھائی جاتی ہے۔ یہاں ذرا ٹھہر کر ایک اور بات سوچیں کہ نبی کی طرف جھوٹ منسوب کرنا کتنا بڑا گناہ ہے، پھر کارٹون بنانے والا ایک ویڈیو میں کتنی ساری جھوٹی باتیں انبیاء کی طرف منسوب کر دیتا ہوگا، جسے ہم سچ سمجھ کر دیکھتے ہیں۔

خدارا ! اپنے بچوں کو ایسی غلط چیزوں سے دور رکھیں اور ایسی چیزوں سے بچوں کی تربیت نہ کریں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے کتابوں کے ذریعہ سچے اور اسلامی واقعات پڑھ کر سنائیں اور ترغیب دلائیں۔

سوال: کیا مسجد جعرانہ سے عمرہ کی نیت کی جا سکتی ہے؟

جواب: عمرہ کے واسطے احرام باندھنے کے لئے تین قسم کے مقامات ہیں۔

پہلی قسم: جو مکہ میں رہتا ہے وہ حدود حرم سے باہر جا کر کسی بھی جگہ سے احرام باندھ کر عمرہ کر سکتا ہے اور جعرانہ حدود حرم سے باہر ہے لہذا مکہ میں رہنے والا جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کر سکتا ہے۔

دوسری جگہ: جو میقات کے اندر رہتا ہے جیسے جدہ والے وہ اپنی رہائشی سے احرام باندھ کر عمرہ کریں گے۔

تیسری جگہ: جو میقات سے باہر رہتا ہے وہ اپنی میقات پر آکر اور یہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرے گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جعرانہ سے صرف وہی احرام باندھے گا جو حدود حرم کے اندر رہتا ہے، نیز وہ بھی جعرانہ سے احرام باندھ سکتا ہے جو کسی دوسری جگہ سے آیا ہو اور فی الحال حدود حرم میں رہ رہا ہو جیسے کسی کام وضرورت سے مکہ آنے والا یا عمرہ کی غرض سے آنے والا جو بروقت مکہ میں مقیم ہو، وہ دوبارہ عمرہ کے لئے جعرانہ جائے گا یا حدود حرم سے باہر نکل کر کسی بھی جگہ سے احرام باندھ سکتا ہے۔

سوال:میاں بیوی میں جھگڑا کے سبب شوہرنے طیش میں آکرعدالت کے باہر سے اسٹامپ پیپر پر تین طلاقیں لکھوائی اور بیوی کو بھیج دیا ، ساتھ ہی موبائل پربھی تین دفعہ طلاق طلاق طلاق لکھ کر بھیج دیا ۔اس واقعہ کو ایک سال گزرگیا، اب دونوں کو غلطی کا احساس ہوا ہے پھردونوں خاندان والے آپس میں مل کرصلح کئے اور ایک عالم دین سے تجدیدنکاح اورحق مہردوبارہ طے کرکے گواہوں کی موجودگی میں بیوی کو شوہر کے سپردکردیا، کیا یہ عمل درست ہے ۔ یاد رہے اس بارے میں لوگ دو گروہ میں بٹ گئے ہیں ، ایک گروہ اس کو صحیح کہتا ہے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تین طلاق دینے اور تین حیض کی عدت گزر جانےکی وجہ سے اصل طلاق واقع ہوگئی ہے اور اب رجوع کا اختیار ختم ہوگیا ہے۔ اب لڑکی کی دوسری جگہ شادی کے بعد طلاق یا شوہر کے مرنے کے بعد ہی پہلے شوہر کے لئے حلال ہوسکتی ہے یا پھر یہ حلالہ کرائے تب ہی پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے بلکہ یہاں تک کہاجارہاہے کہ نکاح کی تقریب میں موجود ہرفرد کانکاح ختم ہوگیا ہے، وہ سارے لوگ اپنا نکاح دوبارہ کروائیں ۔ دلائل کے ساتھ اس بارے میں حقیقت کی وضاحت فرمائیں ؟

جواب: جب شوہر نے اپنی بیوی کو پیپر پہ اکٹھی تین طلاق لکھ کر بھیجا اور موبائل پر بھی ایک ساتھ تین طلاق دیا ہے تو اس صورت میں بیوی کو صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ طلاق دینے کے بعد جب تین حیض کی عدت گزر جاتی ہے تو میاں بیوی میں جدائی ہو جاتی ہے اور چونکہ میاں بیوی کے درمیان عدت گزر جانے کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا تھا لہذا جب دوبارہ نکاح کیا گیا تو اس نکاح سے پھر وہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہو گئے اور یہ نکاح اپنی جگہ پر درست ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ نکاح نہیں ہوا، عورت کا حلالہ کرنا پڑے گا اور اسی طرح جو لوگ اس نکاح میں شامل تھے سب کا نکاح ختم ہوگیا، ان سب کو اپنا نکاح دوبارہ کرنا پڑے گا۔دراصل یہ لوگ اندھے مقلدین ہیں جو مشرکین مکہ کی طرف اپنے آباء واجداد کی تقلید کر رہے ہیں جبکہ دین قرآن اور حدیث کا نام ہے۔ مقلدوں کی بیان کردہ مذکورہ بالاساری باتیں جھوٹ اور قرآن و حدیث کے خلاف ہیں ۔

سماج میں اماموں کی تقلید کی وجہ سے کچھ غلط فتوی رائج ہیں جن کی وجہ سے طلاق کے مسائل میں بہت سارے گھرانے الجھے ہوئے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اللہ کی کتاب قرآن مجید اور محمد ﷺ کی سنت یعنی حدیث پر عمل کرنا چاہئے ، اسی کا نام اسلام ہے ۔ اسلام میں اماموں کی تقلید نہیں ہے۔ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا ہے ۔

تقلید کرنے والے عالم کہتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے جبکہ یہ فتوی صحیح نہیں ہے ۔ صحیح فتوی یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے تو وہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی ۔ ایسی صورت میں شوہر کو عدت کے دوران رجوع کرنے کا حق ہے ۔ جب شوہر عدت میں بیوی سے رجوع کرلے تو بیوی حلال ہوجاتی ہے ۔

اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت اور ایک حدیث پیش کرکے مسئلہ واضح کرنا چاہتا ہوں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (سورۃ البقرۃ: 229)

ترجمہ: طلاق دو مرتبہ ہے، پس (اس کے بعد) بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے طلاق کی تعداد اور طلاق دینے کا طریقہ بھی بتایا۔ اللہ بتاتا ہے کہ

لوٹانے والی طلاق یعنی طلاق رجعی صرف مرتبہ ہے ۔ اگر کوئی اپنی بیوی کو پہلی طلاق دے یا دوسری طلاق دے تو لوٹاسکتا ہے، اس بات کا اختیار ہے لیکن اگر تیسری طلاق دیتا ہے تو پھر بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے ۔ اس تیسری طلاق کا ذکر اگلی آیت میں ہے ۔

آیت میں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے "مرتان" کا لفظ ذکر کیا یعنی طلاق الگ الگ وقت میں دو مرتبہ ہے جس کی وضاحت اگلے الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ طلاق دینے کے بعد چاہو تو عدت میں رجوع کرکے بیوی کو روک لو اور رجوع نہ کرنا چاہو تو بیوی کو چھوڑ دو۔

جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سےتینوں واقع ہوجاتی ہیں اور فورا بیوی حرام ہوجاتی ہے ، ان کا کہنا غلط ہے اس آیت کے خلاف ہے جس میں بیوی کو الگ الگ وقت میں طلاق دینے کا اختیار دیا ہے ۔ویسے تو بیوی کو ایک بار میں ایک ہی طلاق دینا چاہئے لیکن اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاق دے بھی دیا تو ایک ہی طلاق مانی جائے گی کیونکہ اللہ نے کسی کو ایک ساتھ تین طلاق دینے کا اختیار ہی نہیں دیا ہے ۔اس بات کو ایک حدیث سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ، وہ حدیث مسند احمد میں اس طرح سے ہے۔

سيدنا رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عہنما فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد، حدیث نمبر:2387)

اس حدیث میں بالکل واضح ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک ہی طلاق ہے ، ساتھ ساتھ یہ بتایا کہ تم رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرسکتے ہو اور اس صحابی نے رجوع بھی کرلیا تھا۔ اگر ایک ساتھ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتیں تو نبی ﷺ رجوع کرنے کے لئے نہیں کہتے اور صحابی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں کرتے مگر نبی ﷺ نے رجوع کا اختیار دیا اور صحابی نے رجوع بھی کیا۔

معلوم ہوا کہ مقلدوں کا تین طلاق والا فتوی غلط ہے اور اسی طرح مقلدوں نے حرام کاری کا چور دروازہ کھول رکھا ہے جس کا نام حلالہ ہے۔ احناف کے معاشرہ کا مروجہ حلالہ سراسر غلط اور خلاف شرع ہے ۔ سنن ترمذی میں ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا: حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پراللہ کی لعنت ہے ، ابن ماجہ میں روایت موجود ہے کہ نبی ﷺ نے حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے ۔ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا ، اگر یہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کر دوں گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا درست ہے اور اب پھر سے ان دونوں کےدرمیان میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوگیا ہے، اس نکاح میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

سوال: کرنسی ایکسچینج میں جو پرسنٹیج لگتا ہے اس کا حکم بتائیں؟

جواب: ایک ملک کی کرنسی دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ کرانا اور اس تبادلہ پر اجرت دینا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آدمی ایسا کاروبار کر سکتا ہے اور کرنسی کے تبادلہ پر اجرت لے سکتا ہے یا کوئی اپنی کرنسی چینج کراسکتا ہے اور اس پہ اجرت دے سکتا ہے جیسے خلیجی ممالک میں رہنے والے منی ایکسچینج سے اپنا پیسہ اپنے اپنے ملک بھیجتے ہیں اور ایکسچینج والا اجرت لے کر یہ کام کرتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ منی ایکسچینج میں الگ سے اجرت لینا ہے اس میں پرسنٹیج نہیں لینا ہے۔

سوال: کیا تہجد کے نوافل میں آخری دس سورہ پہلی رکعت میں اور پھر دوسری رکعت میں اسی طرح دس سورہ پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اتنی ہی سورتیں یاد ہیں جبکہ اپنا قیام لمبا کرنا چاہتے ہیں ؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ تہجد کی نماز صرف دو رکعت نہیں ہے کہ کوئی دس سورتیں ایک رکعت میں پڑھ لے اور دس سورتیں دوسری رکعت میں پڑھ لے بلکہ تہجد کی آٹھ رکعات ہیں اور کوئی چاہے تو اس سے کم یا زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جو سورتیں پہلی رکعت میں پڑھی گئی ہیں، وہی سورتیں بعد والی رکعت میں بھی پڑھی جائیں نیز تہجد کی نماز میں کوئی چاہے تو مصحف سے دیکھ کر بھی تلاوت کر سکتا ہے۔

سوال: اگر کوئی اپنے بیٹے کے قرآن حفظ کرنے کی دعوت کرے اور ہمیں دعوت دے تو ایسی دعوت میں جانا صحیح ہے یا ایسی رسم تو نہیں ہے جس میں ہمیں گناہ ملے گا؟

جواب: یہ رسم ہے اور غلط رسم ہے، ایسی دعوت قبول نہ کریں اور ایسے لوگوں کو نصیحت کریں کہ آپ اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کے لئے اسے جو دینا چاہتے ہیں، وہ گفٹ دیں اور اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کریں لیکن تقریب عام کرکے اپنے مال ضائع نہ کریں۔ اللہ تعالی نے آپ کو مال دیا ہے تو محتاج اور فقیرومسکین پر صدقہ کریں، اس سے مسکین کی حاجت بھی پوری ہوگی اور صدقہ کرنے والے کو ثواب بھی ملے گا اور فضول دعوت کرکے اپنا مال ضائع نہ کریں جس میں آپ کو کوئی ثواب نہیں ملے گا۔

سوال: مغرب کی اذان سے لے کر کتنے وقت تک اس کی نماز پڑھی جا سکتی ہے، سورج ڈوبنے سے تو مجھے پتہ ہے مگر سورج ڈوبنے کے بعد سے کب تک وہ وقت رہتاہے، وہ ایگزیکٹ ٹائم کا اندازہ نہیں ہے؟

جواب:مغرب کی نماز کا وقت سمجھنا تمام نمازوں میں سب سے زیادہ آسان ہے ۔سورج ڈوبتے ہی مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور آسمان میں جب تک شفق یعنی لالی باقی رہتی ہے اس وقت تک مغرب کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت کو ایگزیکٹ دنیا کے کسی حصے میں طے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ ہر شہر کے اعتبار سے سورج ڈوبنے اور شفق کے غائب ہونے کو دیکھ کر مغرب کا علم حاصل کیا جاتا ہے اور بارہ مہینے یہ وقت بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ سورج ڈوبنے اور شفق دیکھنے سے مغرب کا وقت معلوم ہوتا ہے۔ آسمان کی لالی ختم ہوجائے تو مغرب کا وقت ختم ہوگیا۔

سوال:لڑکے کے عقیقہ کے وقت ایک ہی بکرا میسر ہو ،دوسرے کی استطاعت نہ ہو تو بر وقت جتناموجود ہواس سے عقیقہ کرسکتے ہیں ۔ بعد میں جب استطاعت ہو تو دوسرا کر لیں یا دوسرا کرنا پھر ضروری نہیں ہے اور کیا عقیقہ کا جانور ولیمہ میں یا نکاح میں کھلا سکتے ہیں؟

جواب: جس کو اللہ تعالی نے بیٹا دیا ہے اور اس کو بطور عقیقہ دو بکرا ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو اسے عقیقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عقیقہ اس کو دینا ہے جو عقیقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ اگر کسی کو ایک جانور ذبح کرنے کی طاقت ہو تو ایک جانور ذبح کر لے پھر بعد میں جب اللہ تعالی دوسرے جانور کی استطاعت دے تو دوسرا جانور ذبح کر لے یعنی کوئی اس طرح سے کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ عقیقہ کا جانور ولیمہ یا نکاح میں کھلایا جا سکتا ہے لیکن کوئی جان بوجھ کر اپنے عقیقہ کو روک کر رکھے اور نکاح کے ٹائم کھلائے یہ غلط ہے بلکہ جب عقیقہ کی استطاعت ہو اسی وقت عقیقہ کرنا چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ولیمہ کب ہے یا شادی کب ہے، ایسا سوچ کر عقیقہ میں تاخیر کرنا غلط ہے۔

سوال: گھر سے گولڈ زیورات سیٹ چوری ہوگیا جو بہت پریشانی کا سبب بناہواہے، برائے مہربانی کوئی حل یاکوئی دعا یا کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ چور کا پتہ لگایا جا سکے کیونکہ بے گناہ ملازمین پر اور فیملی میمبرز ایک دوسرے پر شک کر رہے ہیں؟

جواب:گھر کے زیورات چوری ہوگئے ہیں تو گھر والے کو چاہیے کہ پولیس میں شکایت درج کرائے اور اس کی مدد لے کر چور کو پکڑنے کی کوشش کرے، یہی قانونی کاروائی ہے۔اور چور کو پتہ لگانے کا کوئی وظیفہ یا کوئی خاص دعا نہیں ہے، اگر چور کو پکڑنے کا کوئی وظیفہ ہوتا تو دنیا میں کوئی چوری نہیں کرتا، نہ کسی کے گھر سے کوئی سامان چوری ہوتا، نہ دنیا میں کوئی چور چوری کرکے بچ پاتا بلکہ وہ فورا پکڑلیا جاتا، نہ پولیس محکمہ بنانے کی ضرورت پڑتی، نہ چور کا ہاتھ کاٹنے کی ضرورت پڑتی۔ جو لوگ چوروں کو پکڑنے کے لئے الٹا سیدھا وظیفہ بتاتے ہیں، وہ جھوٹے لوگ ہیں،ایسے لوگوں پر کبھی اعتبار نہ کریں نیز چوری کے لئے جن وشیاطین کی مدد لینا بھی جائز نہیں ہے۔

اور جو آدمی بغیر ثبوت کے اپنے ملازم یا گھر کے کسی فرد پر شک کرے یا تہمت لگائے وہ اللہ کے ہاں سزا پائے گا اور یہ حقوق العباد سے متعلق گناہ ہے لہذا وہ کسی پر بغیر ثبوت کے شک کرنے یا تہمت لگانے سے باز آئے۔

چور پکڑنے کے لئے ایک تو قانونی کاروائی ہے ، دوسرا طریقہ حکمت کے ساتھ وہاں موجود لوگوں سے پوچھ تاچھ کرے اور اس گناہ کے اخروی انجام بیان کرکے لوگوں کو نصیحت کرے ، اگر وہاں موجود لوگوں میں کوئی چوری کیا ہوگا تو ممکن ہے نصیحت سے فائدہ ملے ۔اللہ سے اپنے گم شدہ سامان کے ملنے کی دعائیں کرے ، اللہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے ۔ اگر تلاش بسیار اور کوشش کے باوجود سامان نہ ملے تو اس پر صبرکرے اور اس کو صدقہ کی نیت کرلے ، ان شاء اللہ گم شدہ سامان صدقہ ہوجائے گا لیکن سامان گم ہونے پر الٹی سیدھی حرکتیں کی جائیں ،بلاثبوت الزام تراشیں کی جائیں تو سامان کا سامان نقصان ہوا مزید گناہ بھی ملے گا۔

سوال: کسی گھر میں عورت کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے شوہر ،اس کے بیٹا بیٹی اور رشتہ دار کو کتنادن تک اور کب تک غم منانا ہے؟

جواب: اس معاملہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سوگ منانے کا تعلق صرف عورت سے ہے ، مرد کے لئے سوگ ہے ہی نہیں ۔اس لئے کسی کے گھر میں وفات ہوجائے تو گھر کے مرد لوگ سوگ نہیں کریں گے ، ہاں عورت اپنے باپ، یا ماں یا بھائی یا بیٹا، یا بیٹی یا بہن اور کسی قریبی آدمی کی وفات پر تین دن تک سوگ کرسکتی ہے ۔ اور سوگ کا مطلب ہے زینت کی چیزیں ترک کرنا مثلا خوشبو، سرمہ وغیرہ ، رونا دھونا، چیخنا چلانا اور گریبان چاک کرنا منع ہے ، بطور سوگ عورت صرف زینت کی چیز ترک کرے گی اور اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا ہے تو اسے چار ماہ دس دن سوگ کرنا ہوتا ہے۔اس بارے میں حدیث دیکھیں ۔

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تُحِدُّ امْرَأَةٌ علَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاثٍ، إلَّا علَى زَوْجٍ، أرْبَعَةَ أشْهُرٍ وعَشْرًا، ولا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ ، ولا تَكْتَحِلُ، ولا تَمَسُّ طِيبًا، إلَّا إذا طَهُرَتْ، نُبْذَةً مِن قُسْطٍ ، أوْ أظْفارٍ(صحیح مسلم:938)

ترجمہ:کوئی عورت کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے مگر خاوند پر، (اس پر) چار مہینے دس دن (سوگ منائے)۔ نہ وہ عَصب کے خانہ دار کپڑے کے سوا کوئی رنگا ہوا کپڑا پہنے، نہ سرمہ لگائے، مگر (اس دوران میں) جب (حیض سے) پاک ہو تو معمولی سی قُسط یا اظفار (جیسی کوئی چیز) استعمال کر لے(یہ دونوں خوشبوئیں نہیں، صرف بدبو کو زائل کرنے والے بخور ہیں)۔

لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ گھر میں کسی کی وفات ہو جائے تو گھر والوں کے لیے تین دن سوگ ہوتا ہے جبکہ میں نے حدیث کی روشنی میں بتایا کہ گھر کے سارے لوگوں کے لیے سوگ نہیں ہے بلکہ صرف عورت کے لیے سوگ ہے لہذا معاشرے میں پھیلی غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے۔

سوال: عمرہ کی غرض سے میری بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ آرہی ہے اور میری بیوی کی بہن بھی ہے جو اپنی فیملی کے ساتھ ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ میری بہن بھی ساتھ آنا چاہتی ہے جس کی عمر پچاس سال ہے مگر اس کا شوہر نہیں ہے ایسے میں وہ کیسے آسکتی ہے؟

جواب: آپ کا بیٹا آپ کی بہن کے لئے محرم ہے لہذا اس سفر میں آپ کا بیٹا آپ کی بیوی کے لئے اور آپ کی بہن دونوں کے لئے محرم کی حیثیت سے ہوگا اس لئے آپ کی بہن اپنے بھتیجا یعنی آپ کے بیٹے کے ساتھ عمرہ کے لئے سفر کر سکتی ہے، کوئی حرج نہیں گویا ایک ہی محرم دو خواتین کے لئے کافی ہے۔

سوال:میں جب مسجد میں جاتا ہوں تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ الوضوء پڑھتا ہوں تو کیا اس کے بعد تحیۃ المسجد بھی بڑھنا ضروری ہے جبکہ فرض نماز میں کافی وقت رہتا ہے؟

جواب: جب کوئی مسجد جائے اور فرض نماز کی اذان ہو گئی ہے اور فرض نماز کے لئے سنت ہے جیسے ظہر کی اذان ہو چکی ہے تو مسجد میں داخل ہونے والا آدمی تحیۃ الوضوء یا تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا بلکہ وہ آدمی براہ راست ظہر نماز کی سنت ادا کرے گا لیکن اگر کسی نماز کی اذان ہوئی اور اس نماز میں سنت نہیں ہے جیسے عصر کی نماز تو اس وقت مسجد میں داخل ہونے والا تحیۃ المسجد پڑھے گا۔ تحیۃ الوضوء نہیں پڑھنا ہے، تحیۃ المسجد پڑھنا ہے کیونکہ مسجد میں داخل ہو رہے ہیں تو مسجد کے ادب میں تحیۃ المسجد پڑھنا ہے اور تحیۃ المسجد پڑھ کے بیٹھے رہنا ہے، تحیۃ الوضوء کسی دوسرے موقع پر یا گھر میں یا کسی اور جگہ پر پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں یا اسی نماز میں تحیۃ المسجد کے ساتھ ہی تحیۃ الوضوء کی بھی نیت کرلیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب کسی نماز کے لئے سنت ہو تو پھر اس وقت تحیۃ المسجد نہیں پڑھیں گے، ڈائریکٹ سنت پڑھنے لگیں گے۔

سوال:چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت میں ملنے والا مسافر مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیر دے یا مکمل چار رکعت کے بعد سلام پھیرے گا؟

جواب: مسافر آدمی، مقیم امام کے پیچھے مکمل نماز ادا کرے گا لہذا تیسری رکعت میں پہنچنے والا مقتدی ایک رکعت پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے تاکہ مقیم امام کی طرح چار رکعت ہوجائے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:

تلك سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم. يعني إتمام المسافر إذا اقتدى بالمقيم، وإلا فالقصر(السلسلة الصحيحة:2676)
ترجمہ:یہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یعنی مقیم کی اقتدا میں مسافر کا نماز پوری پڑھنا، وگرنہ قصر کرنا۔

سوال: اگر ہم صدقہ کریں تو کیا پوری امت کی طرف سے صدقہ کی نیت کرسکتے ہیں؟

جواب:صدقہ اپنی جانب سے یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے کریں کیونکہ اعمال صالحہ کےخود ہم محتاج ہیں اور اللہ تعالی نے ہمیں زندگی دی ہے تو نیکی کرنے کا موقع اس وقت ہمارے لئے ہے۔ جو گزر گئے ہیں ان کی ذمہ داری زندوں پر نہیں ہے بلکہ جو زندہ ہیں ان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ جیتے جی کثرت سے اعمال صالحہ کرتے رہیں۔

پوری امت کی طرف سے صدقہ کرنے کا حکم ہمیں نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی سلف سے یہ طریقہ منقول ہے۔ اللہ تعالی ہر کسی سے اس کے اپنے اعمال کے بارے میں پوچھے گا اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ(فاطر:18)

ترجمہ: اورکوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

لہذا صدقہ اپنی جانب سے کریں تاہم قریبی رشتہ داروں کی طرف سے یا کسی خاص زندہ یا میت کی طرف سے بھی صدقہ کر سکتے ہیں۔ باقی اپنی دعاؤں میں امت کے تمام مسلمانوں کو بھی شریک کریں اور امت کو اپنی دعاؤں میں شریک کرنا ہی کافی ہے، اسی کی اکثر دلیل ملتی ہے۔

سوال: رزق سے متعلق کچھ دعاؤں کی ضرورت ہے؟

جواب:سوال سے متعلق ایک ضروری علم یہ دینا چاہتا ہوں کہ صرف دعا کرنے سے روزی نہیں ملتی ہے بلکہ اسباب اپنانے اور محنت کرنے سے روزی ملتی ہے، ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے بھی حلال روزی کے لئے دعا کی جائے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف دعا کرنے سے روزی کا دروازہ کھل جاتا ہے اس لئے ہم ایسے موقع پر لوگوں کی صحیح رہنمائی کردینا مناسب سمجھتے ہیں۔ انسانوں میں اللہ کے سب سے مقرب بندے انبیاء ہوتے ہیں اور انبیاء نے بھی محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالا ہے بلکہ بخاری(2262)میں ہے کہ تمام انبیاء نے بکریاں چرائی ہیں۔ اس لئے ہمیں روزی کے لئے جتن بھی کرنا ہے، ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کرنا ہے۔ متعدد قسم کے اعمال صالحہ بھی رزق کا سبب ہیں جیسے توبہ واستغفار، توکل، تقوی، دلجمعی والی عبادت، صلہ رحمی، انفاق فی سبیل اللہ، کمزوں کے ساتھ احسان ، اللہ کی راہ میں ہجرت اور نکاح کرنا وغیرہ ۔

اللہ سے روزی مانگنے سے متعلق چند دعائیں مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)فجر کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھیں اور دوسرے اوقات میں بھی پڑھ سکتے ہیں: اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا۔ اس دعا سے متعلق ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

كانَ يقولُ إذا صلَّى الصُّبحَ حينَ يسلِّمُ اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا(صحيح ابن ماجه:762)

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا» اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔

(2)اللہ تعالی نے سیدیا عیسی علیہ السلام کی ایک دعا قرآن میں ذکر فرمائی ہے:

اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (المائدۃ:114)

ترجمہ:اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما کہ وہ ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہوجائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور تو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے۔
(3)
موسی علیہ السلام کی اپنے رب سے دعا، اللہ کا فرمان ہے:

رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص:24)

ترجمہ:ے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔

(4)صحیح مسلم (2697)میں ایک عظیم دعا ہے جسے آپ ﷺ نئے مسلموں کو سکھاتے تاکہ ان کلمات کے ذریعہ نماز میں وہ اپنے رب سے دعا مانگے، وہ کلمات یہ ہی:

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي۔

ترجمہ:اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔

یہ دعا دونوں سجدوں کے درمیان پڑھی جانے والی بھی ہے ، اس دعا کو نماز اور غیر نماز میں کثرت سے پڑھیں ، نبی ﷺ اس دعا کو سکھانے کے بعد فرماتے ہیں :فَإِنَّ هَؤُلَاءِ تَجْمَعُ لَكَ دُنْيَاكَ وَآخِرَتَكَ(یہ کلمات تمہارے لئے تمہاری دنیا اور آخرت دونوں جمع کر دیں گے)۔
اور صحیح ابن حبان یہ مذکور ہے کہ ایک اعرابی نے یہ دعا کی تو آپ نے اس کے بارے میں فرمایا:لقد ملَأ يدَيْهِ خيرًا(اس نے تو اپنا ہاتھ خیر سے بھر لیا)۔

(5)نبی کریم ﷺ کی ایک محبوب دعا جو دنیا وآخرت دونوں کے لئے ہے چنانچہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی:

اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا في الدُّنْيَا حَسَنَةً، وفي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وقِنَا عَذَابَ النَّارِ(صحیح البخاری:6389)

ترجمہ:اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی«حسنة» عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔

(6) نبی ﷺ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے:

اللهمَّ اغفِرْ لي ذَنْبي، و وسِّعْ لي في داري، و بارِكْ لي في رِزْقي(صحيح الجامع:1265)

ترجمہ:اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے گھر میں کشادگی دے اور میرے رزق میں برکت دے۔

(7)نبی ﷺ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو یہ دعا دی تھی:

اللَّهُمَّ أكْثِرْ مَالَهُ، ووَلَدَهُ، وبَارِكْ له فِيما أعْطَيْتَهُ( صحيح البخاري:6380)

اس دعا کو اپنے لئے اس طرح کرسکتے ہیں :

اللَّهُمَّ أكْثِرْ مَالي، ووَلَدي، وبَارِكْ لي فِيما أعْطَيْتَني.

ترجمہ: اے اللہ! میرے مال و اولاد میں زیادتی فرما اور جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔

سوال: عمره كا احرام باندهنے سے پہلےحیض شروع ہو جائے تو کیا گولی استعمال کرکے اسی دن خون رک جانے پر عمرہ کرسکتے ہیں؟

جواب:حیض روکنے کے لئے مانع حیض گولی کھا سکتے ہیں بشرطیکہ اس میں کوئی نقصان نہ ہو۔

اگر کوئی عورت عمرہ کرنا چاہتی ہے اور احرام باندھنے سے قبل اسے حیض شروع ہو جائے تو بہتر ہے کہ وہ پاک ہونے تک انتظار کرے اور جب پاک ہو جائے تو پاکی کی حالت میں احرام باندھ کر عمرہ کرے۔ دوران حیض گولی کھانے سے ممکن ہے صحت کو نقصان پہنچے کیونکہ یہ قدرتی نظام کے خلاف عمل ہے۔ پھر بھی اس معاملے میں ڈاکٹر سے مشورہ لے، اگر وہ مشورہ دیں کہ حیض کی حالت میں دوا کھانے اور حیض روکنے سے کوئی جسمانی نقصان نہیں ہوگا تو عورت گولی کھا سکتے ہیں اور حیض رکنے پر غسل کرکے عمرہ کر سکتی ہے۔

سوال:کیا وضو کے بعد بغیر بات کئے تحیۃ الوضوء پڑھنا ہے یا بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؟

جواب:وضو کرنے کے بعد اگر کسی نے بات چیت کرلی تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ وضو کی سنت ادا کر سکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ وضو کرنے کے فورا بعد وضو کی سنت ادا کریں اس میں زیادہ     تاخیر نہیں کرنا چاہیے اور بات کرنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: آپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شوہر کی وفات سے میاں بیوی کا رشتہ ختم نہیں ہوتا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ اگر وفات کے بعد میاں بیوی کا رشتہ ختم نہیں ہوتا تو جو عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرتی ہے اس کا رشتہ ختم ہوتا ہے کہ نہیں؟

جواب: جس عورت کا شوہر وفات پاجائے تو وفات پانے سے رشتہ ختم نہیں ہوتا ہے، وہ اس کا شوہر ہی ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے شوہر کے لئے چار ماہ دس دن سوگ مناتی ہے۔ یہ وہ سوگ ہے جو صرف بیوی کے لئے جائز ہے ، مرد کو سوگ کی اجازت نہیں ہے۔

ساتھ ہی اللہ تعالی نے عورت کو یہ اجازت دی ہے کہ شوہر کی وفات کی عدت گزار کر وہ دوسرے مرد سے شادی کر سکتی ہے، یہ اللہ کی طرف سے اس خاتون کو اجازت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مردوں کو ایک ساتھ چار بیویوں کی اجازت دی ہے اور ایک مرد بیک وقت چار شادی کرکے وہ چار عورتوں کا اکیلا شوہر ہوتا ہے جبکہ اللہ نے عورت کو بیک وقت ایک سے زائد شوہر رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے لیکن شوہر کی وفات پر دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔