﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(20)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: مروان نام رکھنا کیسا ہےاور کیا
نام شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے یا اگر بچہ مستقل بیمار رہتا ہے تو اس میں نام کا
اثر ہو سکتا ہےیعنی نام بیماری کی وجہ ہو
سکتا ہے؟
جواب: مروان نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور ناموں
کا شخصیت اور آدمی کے کردار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور نہ ہی ناموں کا بیماری
سے اور صحت مندی سے کوئی تعلق ہے ۔نام محض ایک نام ہوتا ہے جو تعارف اور پہچان کے
کام آتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اچھے نام سے نیک فال لے سکتے ہیں لیکن ناموں میں
کوئی تاثیر نہیں ہوتی ہے اور اس کا شخصیت پر اچھا یا برا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
سوال سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مروان بن حکم نام سے جو
اسلامی تاریخ میں شخصیت گزری ہے ان کے بارے میں کچھ غلط فہمی ذہن میں ہے ۔ اس سے
متعلق آپ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ مروان بن حکم کو بعض اہل علم نے صحابی اور بعض نے تابعین میں شمار
کیا ہے اور ان کے متعلق خصوصا شیعہ، مسلمانوں میں غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں ، ہمیں
کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا ہے نیز مروان نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور
نہ مروان نام رکھنے سے بچے پر کوئی برا اثر پڑے گا۔
سوال:الطھور شطر الایمان کا ترجمہ
پاکیزگی آدھا ایمان ہے، کرتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ترجمہ ہےیعنی شطر الایمان کا ترجمہ نصف الایمان کر سکتے ہیں؟
جواب:آج کل سوشل میڈیا پر "الطھورشطرالایمان"
سے متعلق کافی چرچا ہے کیونکہ ڈاکٹرذاکر نائک نے ایک سائل کے جواب میں کہا کہ
صفائی آدھا ایمان ہے ، یہ بات قرآن اور حدیث میں کہیں نہیں ہے حالانکہ یہ حدیث
معتبر کتاب، میری مراد صحیح مسلم(223) میں موجود ہے ۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الطُّهُورُ
شَطْرُ الإيمانِ۔
ترجمہ:پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
صحیح مسلم میں کتاب الطھارہ کے تحت "باب فَضْلِ
الْوُضُوءِ"میں یہ حدیث درج ہے۔ یہاں جو اصل سوال ہے کہ شطر کا معنی کیا ہے
اور شطرالایمان کا معنی آدھا ایمان کرنا درست ہے؟
جب آپ لغت کی کتاب دیکھیں گے تو وہاں پر شطر کا معنی
نصف ملے گا، اسی لئے جب عربی میں کہا جاتا ہے "شَطَرَ الشيءَ" تو اس کا
مطلب ہوتا ہے اس کو دوحصوں میں یعنی آدھا آدھا کیا۔
اب حدیث کی روشنی میں اس لفظ کا معنی دیکھتے ہیں چنانچہ
ہم سبھی جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے خیبر
کے یہود سے ان کی زمین میں کاشت کا آدھا حصہ لینے پر
معاملہ طے کیا اس حدیث میں یہی شطر کا لفظ وارد ہے ۔ حدیث دیکھیں۔ عبداللہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا
:
أَعْطَى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ خَيْبَرَ
اليَهُودَ: أنْ يَعْمَلُوها ويَزْرَعُوها، ولَهُمْ شَطْرُ ما يَخْرُجُ مِنْها(صحيح
البخاري:4248)
ترجمہ:ی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر (کی زمین و
باغات وہاں کے) یہودیوں کے پاس ہی رہنے دیئے تھے کہ وہ ان میں کام کریں اور بوئیں
جوتیں اور انہیں ان کی پیداوار کا آدھا حصہ ملے گا۔
تاریخی اعتبار سے یہ معاملہ کافی معروف ومشہور ہے اس
وجہ سے کسی کو اس میں کوئی تردد نہیں ہوگا کہ یہاں شطر کا معنی نصف نہیں ہے۔ یہ
روایت بخاری ومسلم میں کئی مقامات پر آئی ہے اور اصحاب السنن نے بھی اسے روایت کیا
ہے بلکہ شطر کا لفظ متعدد قسم کی احادیث میں وارد ہے جیسے عشاء کی نماز آدھی رات
تک پڑھ سکتے ہیں ، یہ ہم سب کو معلوم ہے اس سے متعلق یہ حدیث دیکھیں ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان
کیا:أَخَّرَ رَسولُ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الصَّلَاةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إلى شَطْرِ
اللَّيْلِ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا صَلَّى أقْبَلَ عَلَيْنَا بوَجْهِهِ،
فَقالَ: إنَّ النَّاسَ قدْ صَلَّوْا ورَقَدُوا، وإنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا في
صَلَاةٍ ما انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ(صحيح البخاري:847)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات (عشاء
کی) نماز میں دیر فرمائی تقریباً آدھی رات تک۔ پھر آخر حجرہ سے باہر تشریف لائے
اور نماز کے بعد ہماری طرف منہ کیا اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے
لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے گویا کہ نماز میں رہے (یعنی تم کو نماز
کا ثواب ملتا رہا)۔
اس سے بھی واضح ایک اور حدیث ہے جو ثلث کے ساتھ استعمال
ہوا ہے جس سے شطر کا معنی نصف متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَعُودُنِي
وأَنَا مَرِيضٌ بمَكَّةَ، فَقُلتُ: لي مَالٌ، أُوصِي بمَالِي كُلِّهِ؟ قالَ: لا
قُلتُ: فَالشَّطْرِ؟ قالَ: لا قُلتُ: فَالثُّلُثِ؟ قالَ: الثُّلُثُ والثُّلُثُ
كَثِيرٌ(صحيح البخاري:5354)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے
تشریف لایے۔ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے کہا کہ میرے پاس مال ہے۔ کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر آدھے کی کر دوں؟ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں! میں نے کہا، پھر تہائی کی کر دوں (فرمایا)
تہائی کی کر دو اور تہائی بھی بہت ہے۔
اس طرح بے شمار احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شطر
کا معنی نصف کے ہوتا ہے تاہم دلیل کے لئے ایک ہی حدیث کافی ہے اور اگر بالکل واضح
حدیث چاہئے کہ شطر کا معنی نصف ہوتا ہے تو ایک حدیث دیکھیں جس میں خود نبی ﷺ نے
شطر کی وضاحت نصف سے کردی ہے۔ جنت میں امت محمد ﷺ کی تعداد سے متعلق حدیث ہے،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
كُنَّا مع النَّبيِّ في قُبَّةٍ، فَقالَ: أتَرْضَوْنَ
أنْ تَكُونُوا رُبُعَ أهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قالَ: أتَرْضَوْنَ أنْ
تَكُونُوا ثُلُثَ أهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قالَ: أتَرْضَوْنَ أنْ
تَكُونُوا شَطْرَ أهْلِ الجَنَّةِ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قالَ: والَّذي نَفْسُ
مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، إنِّي لَأَرْجُو أنْ تَكُونُوا نِصْفَ أهْلِ الجَنَّةِ(صحيح
البخاري:6528)
ترجمہ: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک
خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت
کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم
اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی
ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (
صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا
نصف حصہ ہو گے ۔
اب بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ شطر کا معنی نصف کے ہوتا
ہے اور مذکورہ بالا حدیث کا صحیح معنی ہے، طہارت وپاکیزگی نصف ایمان ہے بلکہ یہ
بھی حدیث ملتی ہے "الطہور نصف الایمان" طہارت نصف ایمان ہے جس سے حدیث
کا معنی پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔یہاں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ شطر جزء اور
حصہ کے معنی میں بھی آتا ہے اس لئے کہیں قرینہ صارفہ ہو تو جزء کے معنی میں بھی
ہوسکتا ہے مگر اس کا اصل معنی نصف کے ہے اور یہاں اصل معنی میں مستعمل ہے۔
سوال: اگر کہیں جسم میں چوٹ آئی ہو اور
اس سے خون نکلے توکیا وضو ٹوٹ جاتا ہےیازخم
اور پھوڑے سے خون و پیپ بہنےسے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب: جسم کے کسی حصے سے خون نکل جائے تو اس سے وضو
نہیں ٹوٹتا ہے لہذا اگر کسی کو چوٹ لگ جائے یا اس کے زخم و پھوڑے سے خون وپیپ نکلے اور وہ باوضو ہو تو اس سے اس
کا وضو نہیں ٹوٹے گا، وضو برقرار رہے گا اور وہ اس حال میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
نماز کی حالت میں ایک صحابی کو تیر لگتا ہے اور جسم سے
خون نکلتا ہے مگر وہ صحابی نماز جاری رکھتے ہیں ۔ ابوداؤد(198) میں ہے۔ غزوہ ذات
الرقاع کا واقعہ ہے ، ایک گھاٹی پر ایک انصاری اور ایک مہاجر کی ڈیوٹی لگی تھی ، "مہاجر
(صحابی) لیٹ گئے اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے (اور ساتھ ساتھ پہرہ بھی
دیتے رہے، نماز پڑھتے میں اچانک)، وہ مشرک آیا، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے
جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے، اس کافر نے آپ پر تیر
چلایا، جو آپ کو لگا، تو آپ نے اسے نکالا (اور نماز میں مشغول رہے)، یہاں تک کہ اس
نے آپ کو تین تیر مارے، پھر آپ نے رکوع اور سجدہ کیا، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو
جگایا، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہوشیار اور چوکنا ہو گئے ہیں، تو بھاگ گیا، جب
مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے
کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی) ایک سورۃ پڑھ رہا
تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں (ادھوری چھوڑوں)"۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زخم اور پھوڑوں سے خون
نکلنا ناقض وضو نہیں ہے یعنی اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
سوال:
اگر کوئی لڑکی میڈیکلی ان فٹ ہو یا جیسے کچھ لوگوں کو ایسی بیماری ہوتی ہے جس
میں ڈاکٹرز بتادیتے ہیں کہ ان کو اولاد
نہیں ہوسکے گی تو ایسی صورت میں اگر لڑکی نکاح کرنا چاہے کیونکہ یہ ایک سنت بھی ہے
تو کیا وہ کر سکتی ہے اسلام اجازت دیتا ہے ایسی خواتین اور مردوں کو نکاح کی؟
جواب: جس لڑکی کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے اندر طبی
پرابلم ہے اور ڈاکٹر بتائے کہ یہ اولاد سے محروم ہوگی تو ایسی لڑکی کے لئے یہ
پرابلم بیان کر کے جو لڑکا شادی کے لئے تیار ہو اس سے شادی کر سکتی ہے لیکن چھپا
کر شادی کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔
باقی ہم ڈاکٹر کی اس بات پر سو فیصد یقین نہیں رکھتے
ہیں۔ اولاد دینے والی اللہ کی ذات ہے اور اللہ ہی بہترجانتا ہے کہ کس کو اولاد ہوگی اور کس کو
اولاد نہیں ہوگی یعنی اس بارے میں صحیح علم اللہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے۔بسا
اوقات جس عورت کو بانجھ سمجھا جاتا ہےاس کو بھی اولاد نصیب ہوتی ہے جیسے سورہ مریم
میں ہے کہ جب اللہ تعالی نے زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی خوشخبری دی تو اللہ نے
زکریا علیہ السلام کا قول ذکر کیاہے: قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ
وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا (مریم:8)
ترجمہ:زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں
لڑکا کیسے ہوگا، جب کہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ
چکا ہوں۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بعض کو اللہ بانجھ
بھی بنادیتا ہے جیسے اللہ کا فرمان ہے:
وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ
إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ(الشوری:50)
ترجمہ:اور جسے چاہے بانجھ کردیتا ہے وہ بڑے علم والا
اور کامل قدرت والا ہے۔
معلوم ہوا کہ حقیقی علم اللہ کے پاس ہے کہ کون بانجھ ہے
اور کون نہیں ہے اور اللہ اپنی قدرت سے بانجھ کو بھی اولاد دے سکتا ہے ۔اس علم و عقیدہ کے باوجود جس لڑکی کے ساتھ رپورٹ
میں اولاد نہ ہونے کے پرابلم کا پتہ چلے تو وہ اپنی اس بات کو چھپا کر شادی نہیں
کر سکتی ہے۔ اگر وہ شادی کرنا چاہے تو اس پرابلم کو بیان کرے اور جو لڑکا اس
پرابلم کے ساتھ شادی کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بہت سے ایسے
لڑکے بھی ہوں گے جن کو ڈاکٹرنے کہا ہوگا کہ تمہیں اولاد نہیں ہوگی ایسے لڑکے اس قسم
کی لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں۔اس پرابلم کو چھپا کر شادی کرنا دھوکہ کرنا کہلائے
گا۔
سوال: کسی عورت کے پاس نصاب سے زیادہ
سونا ہو اور اس کے پاس زکوۃ نکالنے کے لئے رقم موجود نہ ہو اور وہ اپنے ماں باپ یا
شوہر سے رقم نہ لینا چاہتی ہو زکوۃ کے لئے اور نہ ہی اولاد ہو جن میں نصاب کے
مطابق سوناتقسیم کر سکے جبکہ سونا بیچنے کے لئے بھی فیملی رضامند نہ ہو ایسی صورت میں شریعت کیا حکم
دیتی ہے؟
جواب: جب عورت کے پاس
نصاب بھر سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس کی زکوۃ اس عورت پر فرض ہے جو
سونے کی مالکہ ہے البتہ اگر اس کا شوہر یا اس کا باپ یا اس کا بھائی اس کی زکوۃ
ادا کر دے تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔اگر عورت زکوۃ کے سلسلے میں اپنے باپ یا شوہر سے
مدد نہیں لینا چاہتی ہے تو اپنے سونا کی زکوۃ کے لئے سونے میں سے کچھ حصہ بیچ دے
تاکہ زکوۃ ادا کر سکے۔
جہاں تک بات ہے گھر والوں کی رضامندی کی تو اس سونے سے
گھر والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے، نہ باپ کا،نہ ماں کا، نہ اس کے شوہر کا کیونکہ یہ سونا بیوی کا ہے تو
اس سونے کی مالکہ بھی بیوی ہی ہے۔ بیوی جیسے چاہے اپنی مرضی سے سونے میں تصرف کر
سکتی ہے۔
عموما سونا چاندی کی زکوۃ سے متعلق خواتین کو مسائل درپیش ہوتے
ہیں اس تعلق سے میں عورتوں کو یہ تجویز دیتا ہوں کہ وہ تھوڑا تھوڑا پیسہ سال بھر
جمع کرتی رہے اور جب زکوۃ دینے کا وقت ہو جائے اس جمع شدہ پیسے سے آسانی کے ساتھ
زکوہ ادا کرلے۔
سوال: کیا عنیزہ اور عریضہ نام رکھ سکتے
ہیں؟
جواب:عنیزہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت کا نام تھا اور
سعودی میں ایک شہر کا بھی نام ہے ۔ اور عریضہ کا معنی درخواست یا چوڑی چیز وغیرہ
ہے۔ بطور نام یہ لفظ رکھ سکتے ہیں۔ اس میں حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا عمرہ کے لئے گیا ہوا شخص اسی سفر میں مدینہ جا کر آئے اور اس طرح سات آٹھ عمرے کر سکتا ہے؟
جواب: اولا جو آدمی عمرہ پہ آیا ہے اس کے لئے ایک عمرہ ہی قبول ہو جائے وہی بہت ہے اور ایک سفر میں ایک عمرہ کرنا کافی ہے، یہی سنت بھی ہے۔اگر کوئی آدمی عمرہ پہ آیا اور وہ مدینہ جاکے واپس آرہا ہے تو ایسی صورت میں یہ دوسرا سفر شمار ہوگا اور وہ دوبارہ عمرہ کر سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان ساڑھےچار سو کلومیٹر کی دوری ہے یعنی اس کو الگ سفرکہا جائے گا۔
بہر کیف! عمرہ میں اصل سنت یہی ہے کہ آدمی کچھ وقفے سے
عمرہ کیا کرے، بار بار یا جلدی جلدی عمرہ کرنا سنت کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی اس
طرح سے کر رہا ہے تو سنت کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ہاں الگ الگ سفر میں الگ الگ عمرہ
کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔
سوال:کیا اسلام میں عدد "اربعین "(چالیس)کو
کچھ خاص اہمیت حاصل ہے، اہل بدعت کے یہاں اس عدد کی اہمیت کے پیش نظر چہلم ، چلہ یا
چالیس دن تک متعددمن گھڑت وظائف اعمال وغیرہ انجام دئے جاتے ہیں ، ان سب کے بارے میں تو جانتے ہیں کہ یہ سب فضول و بے بنیاد اور سراسر بدعات ہیں
۔جاننا یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اکثر اس عدد کا ذکر آتا ہے مثلا ((وَإِذْ
وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ
الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ
وَأنتُمْ ظَالِمُونَ))((وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ
أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ
أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَضلِحُ لِي فِي ذَرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ
إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ))
اسی طرح حدیث میں مثلا جو شخص کسی کاہن
کے پاس جائے اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور ابھی ڈاکٹر ذاکر نایئک
صاحب کی ایک وڈیو میں سنا آپ ایک بےنمازی کے لئے چالیس دن تک ہرفجر پڑھ کر ظہر پڑھنے
کی توفیق اور ظہر بعد عصر اس طرح ہر نماز میں اگلی نماز کی توفیق کی دعا کرنے کہا،
کیا اس عدد اربعین کو کوئی خصوصی اہمیت ہے ؟
جواب: اسلام میں کئی
سارے عدد کا بار بار ذکر آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس عدد سے اپنے
مطلب کی کوئی دوسری چیز نکالیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے ساتھ جو عدد
وارد ہے وہ عدد صرف اسی چیز کے ساتھ خاص ہے، اس عدد کو کسی اور چیز سے جوڑ کر نہیں
دیکھا جائے گا جیسے بہت ساری چیزوں کا ذکر تین مرتبہ آیا ہے، بہت ساری چیزوں کا
ذکر سات مرتبہ آیا ہے، بہت ساری چیزوں کا ذکر دس مرتبہ آیا ہے، بہت ساری چیزوں کا
ذکر سو مرتبہ آیا ہے ٹھیک اسی طرح بعض چیزوں کا ذکر چالیس مرتبہ بھی آیا ہے اس لئے
چالیس کو کوئی الگ اہمیت حاصل نہیں ہے۔
اس سوال کے تحت اصل
بنیادی مسئلہ سمجھ لیں کہ کوئی بھی اپنی طرف سے دین میں کسی بھی چیز کے لئے تعداد
متعین نہیں کر سکتا ہے البتہ شریعت نے جس چیز کے لئے جو تعداد متعین کی ہے ہم اسے
تسلیم کریں گے۔جو لوگ ذکر میں اپنی طرف سے تعداد متعین کرتے ہیں وہ بدعت کا ارتکاب
کرتے ہیں یا جو لوگ صرف تعداد کو دلیل بنا کر چہلم یا چلہ یا اور کوئی چیز ایجاد
کرتے ہیں یہ ساری چیزیں بدعات کے زمرے میں داخل ہیں، ہم ان بدعات سے دور رہیں گے۔
شیخ ابن عثیمینؒ نے عبادت کی چھ شرطیں ذکر کی ہیں ، وہ
چھ شرطیں عبادت کا سبب، اس کی نوعیت، مقدار، کیفیت ، وقت اور جگہ ہیں ۔ ایک مسلمان
کے لئے عبادت وبندگی میں نبی ﷺ کی پیروی
کے لئے ان چھ شرطوں کو اپنانا لازم ہے۔ان
چھ شرطوں میں ایک شرط عبادت کی مقدار ہے یعنی جس مقدار وتعداد میں جو عبادت جس طرح
شریعت میں مذکور ہے ہم ٹھیک اسی مقدار وتعداد کے ساتھ وہ عبادت انجام دیں گے مثلا جمعہ
کی نماز دورکعت ہے تو کسی کو اس تعداد کے گٹھانے یا بڑھانے کا کوئی اختیار نہیں
ہے، ہمیں دو ہی رکعت جمعہ ادا کرنا ہے، اسی طرح کوئی ذکر تین مرتبہ آیا ہے تو اسے
تین مرتبہ پڑھنا ہے لیکن جو عبادت یا ذکر
عام ہو اسے عام ہی رہنے دینا ہے، اسے کسی تعداد سے خاص نہیں کرنا ہے ۔
سوال:اگر کوئی شخص ہمیں ایک راز بتائے
اور ہم اُس بات کے امین بن جائیں اور کوئی تیسرا شخص ہمیں قسم دے کر اُس راز کے
بارے میں دریافت کرے تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ،کیا ہم سچّی قسم کھا
کر راز اِفْشا کر دیں یا راز کی حفاظت کے لئے جھوٹی قسم کھالیں،اِس مشکل صورت حال
سے کیسے نکل سکتے ہیں تاکہ ہم شرعی اعتبار سے بھی دُرست رہیں اور اپنی اخلاقی
ذمےداری بھی پوری کر سکیں ؟
جواب:کوئی آپ سے اپنے راز بتائے تو اس راز کو دوسرے سے
بیان کرنا امانت میں خیانت ہے اور اس پہ وعید اور سزائیں بھی ہیں لہذا راز کو راز
ہی رکھیں ، اس معاملہ میں نہ جھوٹی قسم کھانا ہے اور نہ سچی قسم کھانا ہے،
کسی کا راز آپ کے سینے میں امانت رہے،اسے بطور امانت محفوظ رکھنا ہے ،یہی آپ کا
اخلاقی فریضہ ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا حدَّثَ الرَّجلُ الحديثَ ثمَّ التفتَ
فَهيَ أمانةٌ(صحيح الترمذي:1959)
ترجمہ: جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے
راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑکر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔
اس حدیث کو مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آپ سے کوئی بات بیان
کرے اور دائیں بائیں مڑکر دیکھے تو یہ اہم اور راز کی بات ہے ، اس کو امانتداری کے
ساتھ اپنے پاس محفوظ رکھنا ہے، کسی سے بیان نہیں کرنا ہے۔
نبی ﷺ نے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے
راز کی ایک بات کی اور ان کو اس بات پرامین بنایا مگر انہوں نے رسول اللہ کے راز
کو فاش کردیا تو اللہ تعالی نے ان دونوں امہات المومنین کی سرزنش کی اور توبہ کرنے
کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا
ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ
وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ (التحریم:4)
ترجمہ: ۔ ( اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں
اللہ کے سامنے توبہ کر لو(تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر
تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور
جبرائیل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں۔
لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ راز امانت ہے اس کا ظاہر
کرنا خیانت اور گناہ کبیرہ ہے ۔ جس نے کسی کے ساتھ اس قسم کا معاملہ کیا اسے چاہئے
کہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے اور راز فاش کرنے والے کو اس کے متعلق خبر ہوگئی ہو
تو اس سے بھی معافی مانگے ساتھ ہی اگلے سے کسی اور سے اس کے عدم اظہار کا وعدہ لے
نیز الزامی امر ہو تو اس کی تردید کرے اور حقوق کا معاملہ ہو تو تصفیہ کرے ۔
سوال: بیماری اور تکلیف میں اللہ پر توکل
کی دعا۔ اذهب الباس رب الناس انت الطبيب وانت الشافي.(تکلیف دور کر دیں اے
لوگوں کے رب اپ ہی طبیب ہیں اور شفا دینے والے ہیں)۔(مسنداحمد:24744؛41 )یہ روایت
درست ہے؟
جواب : یہ دعا مسند احمد میں وارد ہے اور یہ صحیح دعا
ہے مگر میں آپ کو بتادوں کہ اس دعا میں مزید اضافہ بھی ہے جو بخاری و مسلم کی
روایات میں ہے وہ دعا پڑھا کریں ، وہ رقیہ شرعیہ کی دعا ہے یعنی خود بیمار پڑیں یا
کسی دوسرے بیمار کو دعا دیں تو اس طرح دعا دیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بعض (بیماروں) پر یہ دعا پڑھ کر دم
کرتے اور اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے «اللهم رب الناس أذهب
الباس، اشفه وأنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا
يغادر سقما» "اے اللہ! لوگوں کے پالنے والے! تکلیف کو دور کر دے، اسے شفاء
دیدے تو ہی شفاء دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے سوا کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء (دے)
کہ کسی قسم کی بیماری باقی نہ رہ جائے"۔(بخاری:5743)
سوال : جب ہم نفل نماز کے سجدے میں اپنی
ذاتی دعا مانگیں تو پھر سجدے کا جو وقت ہے
وہ کم زیادہ ہو جاتا ہے مطلب پہلا سجدہ
چھوٹا بعد والا بڑا ،گویابعد والے سجدے میں زیادہ دعا مانگ لو تو وہ لمبا ہو جاتا
ہے اور پہلے والا چھوٹارہتا ہے، ایسا کرنا کیسا ہے یا پہلے سجدہ کو بڑا اور بعد
والے کو چھوٹا کرنا چاہئےاس معاملہ میں صحیح رہنمائی درکار ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ دعا مانگنے کے لئے سجدے ہی میں دعا مانگنا ضروری نہیں ہے اس لئےکوئی آدمی دعا کے واسطے سجدہ کو خاص نہ کرے اور سجدہ ہی میں لمبی لمبی دعا نہ کرتا رہے بلکہ سجدے میں بھی دعا کرے، آخری تشہد میں بھی دعا کر لے اور نماز کے بعد بھی دعا کیا کرے۔جہاں تک مسئلہ ہے کہ سجدے میں زیادہ دعا کرنے سے ایک سجدہ کم وقفہ والا اور دوسرا سجدہ طویل وقفہ والا ہو جاتا ہو تو ایسی صورت میں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں نماز، نبوی کیفیت کے مطابق ادا کرنا چاہیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی تمام ہیئتوں میں یکساں وقفہ رکھتے تھے یعنی جتنی دیر قیام کرتے، اتنی دیر رکوع کرتے اور اتنی دیر سجدہ کرتے لہذا اسی کیفیت میں ہمیں اپنی نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔سجدے میں بلا شبہ دعا کر سکتے ہیں اور جب سجدے میں دعا کریں تو زیادہ طویل نہ کریں کہ نماز کی ہیئتوں میں اور دو سجدوں میں زیادہ وقفہ نظر آئے بلکہ اعتدال کے ساتھ دعا کیا کریں اور تمام سجدوں میں تسبیح کے بعد کچھ دعا کیا کریں۔
سوال: والد کا قرض ادا کرنے کے لئے میں
جو زکوۃ نکالتی ہوں اس سے ان کا قرض ادا کر سکتی ہوں؟
جواب:اولاد اپنے والدین کو زکوۃ نہیں دے سکتی ہے، اولاد
کو چاہیے کہ اپنی اصل رقم والدین پر خرچ کرے یعنی جو رقم اولاد اپنے اوپر خرچ کرتی
ہے، اسی قسم کی رقم اپنے ماں باپ پر بھی خرچ کرے اور زکوۃ ان کو دے جو زکوۃ کے
مستحق ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ زکوۃ وہ ادا کرتا ہے، جس کے پاس مال ہوتا ہے اور وہ مالدار ہوتا ہے، جب اولاد مالدار ہے تو باپ کو زکوۃ دینے کے لئے سوچنا بھی غلط ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مالدار بیٹا یا مالداربیٹی اپنا اصل مال اپنے والدین پر خرچ کرے۔
سوال: اگر کوئی عورت شوہر سے طلاق لینے
کے بعد شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارنا چاہتی ہو کیونکہ شوہر سے رجوع کی کوئی امید
بھی نہیں ہے اور بیوی بھی اس کے پاس واپس جانا نہیں چاہتی اور اس سے بڑھ کر شوہر
سے بیوی کی جان کو خطرہ ہے اور مارپیٹ کرنے والا آدمی ہے تو کیا ایسے میں بیوی گنہگار
ہوگی؟
جواب:اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق رجعی دیتا ہے تو ایسی صورت میں بیوی کو طلاق کی عدت
شوہر کے گھر گزارنی ہوتی ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اس میں کسی کو
اپنی مرضی نہیں چلانا چاہیے۔اور یہ بات بولنا کہ رجوع کی امید نہیں ہے، جائز نہیں
ہے کیونکہ یہ مستقبل کے بارے میں اپنی جانب سے پیشین گوئی کرنا ہے جو کہ شرعا جائز
نہیں ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے
درمیان ہیں جیسا چاہتا ہے انہیں الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔(ترمذی : 2140)
اس لئے اللہ کب کس کا دل کس طرف پھیر دے یہ بات کسی کو
معلوم نہیں ہے۔
ہاں اگر شوہر کے گھر نہ رہنے کا کوئی شرعی عذر ہو جیسے
شوہر سے جانی خطرہ ہو یا نان و نفقہ نہ دے ، الٹاظلم اور مارپیٹ کرے تو ایسی صورت میں بیوی اس جگہ کو چھوڑ کر اپنے میکے عدت گزارنےآسکتی ہے
اور شرعی عذر کی بنیاد پر اسے گناہ نہیں ملے گا لیکن کوئی عذر نہ ہو پھر بھی اس
جگہ کو چھوڑے تو یہ باعث گناہ ہے۔
سوال:اگر کوئی رات میں وتر پڑھ کر سوجائے
اور آنکھ کھلنے پر تہجد پڑھنا چاہے تو کیاوہ تہجد پڑھ سکتا ہے اور تہجد کے بعد
دوبارہ وتر پڑھنا ہوگا، ایک مولانا سےیہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ پہلے
ایک رکعت پڑھ لیں تاکہ پہلے والی وتر جوڑ بن جائے پھر جس قدر تہجد پڑھنا چاہیں
تہجد پڑھیں، اس کے بعد آخر میں وتر پڑھ لیں ، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: اس میں
صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز پڑھ لی ہے اور رات میں اٹھ
کر تہجد کی نماز پڑھتے ہیں تو بے شک تہجد کی نماز ادا کریں، اس میں کوئی مسئلہ
نہیں ہے لیکن چونکہ آپ پہلے وتر پڑھ چکے ہیں اس لئے تہجد کے بعد وتر نہیں پڑھیں گے
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ایک رات میں دو وتر نہیں ہے۔اور آپ کو
جوڑ بنانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وتر پڑھنے کے بعد بھی آدمی تہجداور قیام اللیل
ادا کرسکتا ہے۔اس بارے میں ایک صحابی کا عمل بھی ملتا ہے کہ وہ ایک جگہ رمضان میں
تہجد کی نماز وتر کے ساتھ پڑھاتےہیں پھر
دوبارہ دوسری جگہ تہجد کی نماز پڑھاتے ہیں مگر وتر نہیں پڑھاتے کیونکہ پہلی مرتبہ وہ وتر
پڑھ چکے ہوتے ہیں ، وہ حدیث اس طرح ہے۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، قال: زَارَنَا أَبِي طَلْقُ
بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَأَمْسَى بِنَا وَقَامَ بِنَا تِلْكَ
اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدٍ فَصَلَّى
بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ، ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلًا , فَقَالَ لَهُ:
أَوْتِرْ بِهِمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ"( صحيح النسائي
:1678)
ترجمہ:قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی رضی
اللہ عنہ نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری،
ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی، اور وتر بھی پڑھی، پھر وہ ایک مسجد میں گئے،
اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی، تو انہوں
نے ایک شخص کو آگے بڑھایا، اور اس سے کہا: انہیں وتر پڑھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”ایک رات میں دو وتر نہیں“۔
ساتھ ہی یہاں پر یہ مسئلہ بھی معلوم رہے کہ اگر آپ رات
میں تہجد کے لئے جاگنا چاہتے ہیں اور پہلے سے ارادہ ہے تو عشاء کے بعد وتر نہ
پڑھیں کیونکہ وتر رات کی آخری نماز ہے۔
سوال: بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ہر وقت
گھر اور ان کے پاس سے خوشبو آئے اس لئے وہ اپنے گھر اور جسم پر خوشبو کا استعمال
کرتے ہیں کیا ایسا کرنا تکبر میں آتا ہے؟
جواب:خوشبو استعمال کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا محبوب اور پسندیدہ عمل تھا لہذا کوئی برابر اپنے بدن پر خوشبو استعمال کرے اس
میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا ہے۔ اپنے معاشرہ میں اس سنت کا رواج کم ہے
جبکہ عربوں میں اس کا رواج بہت عام ہے۔خوشبو کے تعلق سے عورتوں کا معاملہ الگ ہے
کہ وہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہے مگر گھر میں لگانے میں حرج نہیں
ہے۔اورکوئی آدمی اپنے گھروں میں بھی کوئی
خوشبودار اسپرے استعمال کرے یا خوشبو کی دھونی دے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے
اور اسے تکبر کی علامت نہیں کہا جائے گا تاہم گھر میں برابر خوشبو استعمال کرنے سے
بہتر ہے آدمی برابر اپنے بدن پر خوشبو استعمال کرے یہ اصل سنت ہے۔
سوال:ایک ماں اپنے بچوں کوڈرانے کے لئےپابندی کے ساتھ قرآ ن کا حکم دے رہی تھی اور وہ قسم کھالیتی ہے
کہ جس نے فجر کی نماز کے بعد قرآن نہ پڑھا اسکو ماروں گی پھر ساتھ ہی دل میں یہ نیت بھی کرتی ہے کہ کسی دن گھر پہ نہ رہی یا کسی وجہ سے کسی بچے نے قرآن نہ پڑھا اور میں
نے نہ مارا تو میں گنہگار نہ ہوں ۔اس کا مقصد بچوں کو ڈرانا اور لازمی طور پر
پابندی کے ساتھ قرآن پڑھانا ہے،اگر کسی دن کسی بھی وجہ سے کوئی بچہ قرآن نہ پڑھے
اور اس پہ ماں نہ مارے ،صرف زبان سے سختی
کرے تو صحیح ہوگایا قسم کا کفارہ ادا کرنا
ہوگا ؟
جواب:اللہ کی قسم کھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس لئے
کسی عورت یا مرد کا معمولی معمولی بات پر اللہ کی قسم کھانا یہ سنگین معاملہ ہے۔ قرآن کی تلاوت مستحب اور مسنون عمل
ہے اس عمل کو خود ہمیں اپنانا چاہیے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے
لیکن تلاوت قرآن نہ کرنے پر عورت کا قسم کھا کر بچوں کو مارنے کی بات کہنا نہایت غیرمعمولی
معاملہ ہے۔ اس خاتون کو سب سے پہلے اپنے اس عمل سے توبہ کرنا چاہیے اور آئندہ اس
سے پرہیز کرنا چاہیے۔دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کے سامنے زبان سے قسم کھانا اور پیٹھ
پیچھے دل میں یہ کہنا کہ ویسے ہی قسم کھالی ہوں، یہ نفاق کی علامت ہےجبکہ مومن
کی زبان سے وہی بات نہیں نکلتی ہے جو اس
کے دل میں ہوتی ہے لہذا اپنے اندر سے اس نفاق کو ختم کریں۔
اور آخری بات یہ ہے کہ اگر اس نے قسم کھا کر قسم توڑی
ہےیعنی نہ پڑھنے پر نہ مارا، صرف زبان سے کچھ کہا تو اس کا کفارہ ادا کرے اور
آئندہ کے لئے اللہ تعالی سے سچی توبہ کرکے اس عمل سے باز رہے۔ ہم خود قرآن کے کتنے
احکام پر عمل نہیں کرتے جبکہ قرآن کی تلاوت تو محض سنت ہے اور احکام پر عمل کرنا
واجب ہے۔ اگر اللہ تعالی ہمارا مواخذہ کرنے لگے تو ہم زندہ بھی نہیں رہ سکتے پھر
بچوں کے لئے اس طرح کی سختی صحیح نہیں ہے۔ قرآن پڑھنے اور سیکھنے کے لیے بچوں کو
ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ آپ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان سے انعام واکرام کا
وعدہ کریں ، نہ کہ ڈرائیں اور دھمکائیں اور سزا دینے کی بات کریں ، ڈرانے اور
مارنے سے دین کی محبت نہیں پیدا ہوگی ۔
سوال: ہمارے والد نے پھو پھا ،پھو پھی کے
انتقال کے بعد ان کی بیٹی جو پانچ سال کی تھی ،اس کی پرورش کر کےتمام سازوسامان کے
ساتھ اس کا نکاح بھی کروایا، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میرے والد کی وراثت میں اس کا
کیا حصہ ہوگا؟ہمارے بھائی کہتے ہیں کہ گود لی ہوئی اولاد کا وراثت میں حصہ ہوتا ہے
بھلے پھوپھی کی لڑکی کیوں نہ ہومگر ابو نے پالا ہے تو اسے وراثت میں حصہ ملے گا،
آپ سے گزارش ہے کہ دلیل سے ہمیں جواب دیں تاکہ بھائیوں کو سمجھاسکیں ؟
جواب: میت کے ترکہ اور اس کی وراثت میں میت کی بہن کی
بیٹی کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ میت کو بیٹا اور بیٹی ہو تو بہن کا بھی کوئی حصہ
نہیں ہوتا ہے اور بہن کی اولاد کا تو کوئی حصہ ہے ہی نہیں۔کسی بچی کو گود لے لینے
سے وہ حقیقی اولاد نہیں ہو جاتی ہے وہ بچی غیر کی ہی اولاد رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالی نے قرآن میں یہ حکم دیا ہے کہ لے پالک کو ان کے اصل باپ کی طرف منسوب
کرویعنی لے پالک کو پالنے والا اپنی طرف منسوب تک نہیں کر سکتا ہے حتی کہ وراثت کا
معاملہ، نکاح کا معاملہ، پردہ کا معاملہ، جوں کا توں رہتا ہے مثلا اگر لے پالک
لڑکی ہے تو گھر کے غیر محرم مرد سے پردہ کرے گی اور اگر لے پالک لڑکا ہے تو گھر کی
غیر محرم عورتیں اس سے پردہ کریں گی یعنی دین کے تمام احکام اپنی جگہ پر ویسے ہی
رہتے ہیں۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اگر کوئی آدمی یتیم بچوں
کی کفالت کرتا ہے اور وہ یتیم بچے اپنےہی گھر میں رہتے ہیں لیکن خرچہ کوئی دوسرا دیتا ہے۔
کیا اس طرح یتیم بچے کو پالنے کی وجہ سے وہ یتیم بچہ، پالنے والے کی وراثت کا
حقدار ہو جائے گا ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ لے پالک کا ہے۔ باپ کی
جائیداد میں اس کی اپنی اولاد اور اس کے اپنے قریبی گھر والے اور وارثین کا حصہ
ہوتا ہے اور وراثت کا اصول ہے کہ جب میت کے اپنے قریبی رشتے دار اوروارثین موجود ہوں تو دور کے رشتہ دار وراثت کے حقدار
نہیں ہوں گےاور لے پالک تو پالنے والے کی وراثت میں حصہ دار ہی نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ لے پالک کا حصہ اس کے اپنے باپ کی
جائیداد میں ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ لےپالک اپنے باپ کی بھی جائیداد سے حصہ لے
اور دوسرے کی بھی جائیداد سے حصہ لےجو اس کا اپنا باپ نہیں ہے؟
آپ یہ ساری باتیں اپنے بھائیوں سے بتائیں ، نہ مانے تو
ان لوگوں سے ہی دلیل طلب کریں کہ قرآن وحدیث میں کہاں پر لے پالک کو وراثت میں حصہ
دینے کی بات کہی گئی ہے یا کسی عالم دین سے انہیں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کہیں ۔
سوال: کیا غیر مسلم کو زمزم کا پانی ان
کے مانگنے کی خواہش پر دیا جاسکتا ہے؟
جواب:غیر مسلم کے مانگنے پر اس کو زمزم کا پانی دے سکتے
ہیں بلکہ بلا مانگے اور بغیر خواہش کئے ہوئے بھی آپ اپنی مرضی سے زمزم کہہ کر غیر
مسلم کو دے سکتے ہیں۔ ممکن ہے اللہ تعالی اس کے ذریعہ اسے شفا دے یا کوئی فائدہ
پہنچائے اور زمزم اسلام کی طرف رغبت کا ذریعہ بن جائے۔زمزم دینا ہدیہ کے قبیل سے
ہے ، آپ کسی کو بھی بطور ہدیہ زمزم پیش کرسکتے ہیں خواہ وہ مسلم ہو یا کافر ہو۔
سوال:آج کل حسد بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اگر لوگ جس سے حسد کرتے ہے اس کے بارے میں زیادہ بولنے سے نظر لگ سکتی ہے ؟
جواب:حسد
کرنا بذات خود ایک بیماری ہے اور اس بیماری کا نقصان پہلے حاسد کو ہی ہوتا ہے ۔
حسد سے اس کا دل بیمار ہوجاتا ہے اور اس کے چہرے سے بشاشت چھین لیتا ہے ۔ اور حسد
کہتے ہیں اپنے بھائی کی کسی نعمت کو دیکھ کر اس کے زوال کی تمنا کرنا۔ حاسد کے
تمنا کرنے سے کسی کی نعمت نہیں چھن جاتی ہے ، یہ بس تمنا ہی رہتی ہے اور یہ نظربد بھی نہیں ہے، نظربدالگ چیز ہے اور
حسد الگ چیز ہے ۔ ہاں کبھی ہمیں حسد سے بھی نقصان لاحق ہوسکتا ہے اس وجہ سے اللہ
اور اس کے رسول نے حسد سے پناہ مانگنے کی دعاسکھائی ہے، ہمیں حاسد کے شر وحسد سے
اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے۔ اس مقام پہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنا ایمان صحیح
رکھیں، رب کی عبادت اور اس کا ذکر کرتے رہیں اور اللہ پر اعتماد مضبوط رکھیں ،
کوئی حاسد آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے ۔جب آپ کے پاس صحیح ایمان اور اللہ پر توکل
واعتماد ہوتولوگوں کے حسد، بغض، کینہ، نفرت اور دشمنی
سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔لوگوں کی مخالفت اور ان کے بغض و حسد سے وہی لوگ ڈرتے ہیں
جو ایمان اور توکل و اعتماد میں کمزور ہوتے ہیں۔آپ ہمیشہ اپنی نظر میں ایک سنہری حدیث رکھیں۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے!
بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ
تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے،
جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد
طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا
چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے
لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے
زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے
گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں۔ (ترمذی:2516)
سوال: بیس دن سے خون جاری ہے، ڈاکٹر سے
ٹسٹ کروا نے پر معلوم ہوا کہ بچے دانی میں خون جمع ہے اس وجہ سےخون جاری ہے ، سوال
یہ ہے کہ کیا میں نمازیں ادا کرسکتی ہوں، کیا ہرنماز کے لئے غسل کرنا ہوگا؟
جواب:حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن تک ہوسکتی ہے، اس سے زیادہ دن آئے تو پندرہ دن کے بعد استحاضہ(بیماری) کا خون مانا جائے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے لئے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر ماہ آپ کی جو عادت رہی ہو اس عادت پر عمل کریں گے یعنی جتنے دن ہر ماہ حیض آتا رہا، اس وقت بھی اتنا ہی دن حیض کا مان کر اس کے بعد نماز کی پابندی کریں گے۔ نیز حیض کو اس کے صفات سے پہچان سکتے ہیں جو استحاضہ سے بالکل الگ ہوتا ہےیعنی حیض کالا، گاڑھا اور بدبودار ہوتا ہے۔
بہر کیف! ابھی پندرہ دن سے زیادہ مدت ہو گئی ہے لہذا اس وقت تو آپ ہر
حال میں غسل کرکے نماز ادا کریں گے اور آئندہ ماہ سے حیض کے لئے اپنی عادت اور حیض
کی کیفیت کا خیال کریں گے ۔دوسری بات یہ ہے کہ استحاضہ کے خون میں ہرنماز کے لئے
غسل نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ ہر نماز سے پہلے خون آلود جگہ اور کپڑے کی صفائی کرکے
وضو کرنا ہوتا ہے اور آپ ایک وضو سے ایک وقت کی نماز ادا کرسکتے ہیں اور اس طرح ہر
نماز کے لئےنیا وضو ضروری ہے ۔
سوال: اگر عورت کمائے توگھر سے برکت اٹھ
جاتی ہےخصوصا جب گھر میں کوئی کمانے والا مرد ہو؟
جواب:اگر جائز طریقہ سے حلال رزق کمایا گیا ہو تو جیسے
مرد کی کمائی حلال ہے ویسے عورت کی کمائی بھی حلال ہے اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے
عورت کو کمانے کا موقع ملے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ گھر میں کمانے والا
مرد ہی کیوں نہ ہو اور اس سے نہ گھر کی برکت ختم ہوتی ہے، نہ اس میں کوئی شرعی
مسئلہ ہے۔ اگر کوئی آدمی آپ سے یہ کہے کہ عورت کی جائز کمائی بھی حرام ہے یا جائز
طریقے سے عورت کے کمانے سے بھی گھر کی برکت ختم ہوجاتی ہے تو آپ اس سے پوچھیں کہ
اس بات کی کیا دلیل ہے ۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کرسکے تو اسے اللہ کا یہ فرمان سنائیں
۔
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(الاسراء:36)
ترجمہ:جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ
کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔
اس بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر کہیں پر عورت کے
نوکری کرنے میں فتنہ ہو، اس کی عزت و عصمت کو خطرہ ہو اور شرعی حجاب وغیرہ کا
اہتمام نہ ہو تو پھر ایسی نوکری عورت نہ کرےبلکہ عورت کی اصل جگہ اس کا گھر ہے، وہ
جس قدر اپنے گھر کو لازم پکڑے اس قدر فتنے سے محفوظ رہے گی۔
سوال: مہندی لگے ہوئے ہاتھ کو اسٹیٹس پر
یا انسٹا گرام پر پوسٹ کرنا کیسا ہے ہمارا مقصد مہندی کی ڈیزائن کو دکھانا ہے جس کو
دیکھ کر لوگ ہم سے مہندی لگوا سکیں ؟
جواب:اس طرح کی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنا جائز
نہیں ہے کیونکہ یہ جاندار کی تصویر ہیں جن کی حرمت ہمیں معلوم ہے ، مزید
برآں مہندی لگا ہوا ہاتھ ، عورت کا ہاتھ ہوگا اور عورت سراپا پردہ کی چیز ہے اس کے
کسی عضو کی تصویر شیئر کرنا اور بھی فتنہ کا سبب ہے۔
آپ مہندی کا ڈیزائن جو بغیر ہاتھ کے کاغذ پر بناہوا ہواسے شیئر کرسکتے ہیں ، یہی کافی ہے ۔یاد رہے ہاتھوں میں لگی مہندی شیئر کرنے سے گناہ ملے گا اور اس سے حاصل شدہ کمائی پر اثر پڑے گا ، نیز یہ بھی معلوم رہے کہ کسی مردکے لئے اجنبی عورت کے ہاتھوں پر مہندی لگانا جائز نہیں ہے، ہاتھوں پر مہندی لگانے کا کام عورت کو ہی کرنا چاہئے اور مسلم عورتوں کو عورت سے ہی مہندی لگانا چاہئے ، وہ کسی اجنبی مرد سے مہندی نہ لگوائے۔
سوال:آج کل ہماری اہل حدیث مسجد میں
جماعت سے فرض نماز ہونے کے بعد کچھ لوگ ہر روز دیر سے آتے ہے اور دوسری جماعت
بناکر نماز پڑھتے ہیں ۔یہ ہر روز کے پنچ وقت نمازوں میں کم سے کم دو سے تین مرتبہ دوسری جماعت
ایک ہی مسجد میں بنتی ہے جسکی وجہ سے دوسرے نمازیوں کو اور سنت پڑھنے والوں کو ان کی آواز سے خلل ہوتا ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا ہر روز اس طرح دوسری
جماعت بناکر نماز پڑھنا درست ہے اور پہلی نماز امام کے ساتھ جو ادا کی گئی ہے کیا
اسکی اہمیت کم ہوگی؟
جواب: مسجد میں دوسری یا تیسری جماعت کے ہونے کوخلاف سنت نہیں کہہ سکتے ہیں۔ جماعت سے نماز پڑھنے پر جماعت کا ثواب
ملے گا تاہم مذکورہ صورتحال سے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر ہمیشہ
تاخیر سے آتا ہےاور پہلی جماعت کو ترک کرکے جماعت ثانیہ بناکرنماز ادا کیا کرتا ہے
تو یہ خلاف سنت ہے بلکہ معیوب ہے۔ایسے لوگوں کی اصلاح کی جائے گی، ان کو سمجھایا
جائے گا تاکہ وہ پہلی جماعت سے نماز ادا کیا کریں لیکن جو لوگ مشغولیت کی وجہ سے
پیچھے رہ گئے تھےوہ اپنی جماعت بناکر نماز ادا کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ دوسری جماعت بن جائے یا تیسری جماعت بن جائے ۔قابل
گرفت اصل یہ عمل ہے کہ کوئی عمدا جماعت اولی چھوڑ کر بعد میں اپنی جماعت کراکر
نماز ادا کرے ، ایسے میں امام مسجد اور انتظامیہ کمیٹی کو چاہئے کہ لوگوں کے اس عمل کی اصلاح کرے ۔جہاں تک جماعت اولی کی اہمیت
کا معاملہ ہے توہم پہلی جماعت کو غیر اہم
نہیں کہہ سکتے یا دوسری تیسری جماعت کی وجہ سے پہلی جماعت کی اہمیت ختم نہیں ہو
جائے گی بلکہ اصل تو وہی جماعت ہے جو پہلی مرتبہ جماعت کی گئی ہے ،اصل وہی جماعت ہے اور اسی
جماعت کا اصل میں اعتبار کیا جائے گا اور اسی جماعت سے وہاں کے لوگوں اور محلے
والوں کو نماز ادا کرنی پڑے گی ۔
سوال: کیا اہل حدیث لڑکی حنفی مسلک میں
شادی کر سکتی ہے؟
جواب: اہل حدیث لڑکی حنفی مسلک میں شادی کر سکتی ہے
کیونکہ عام طور سے عام افراد کے یہاں ایسا شرک نہیں پایا جاتا ہے جو اسے ملت اسلام
سے خارج کر دے اگرچہ ان کے یہاں بدعت موجود ہے جیسےاجتماعی قرآن خوانی،تبلیغی چلے ، تعویذ اور دعاؤں میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ وغیرہ تاہم اس طرح کی چیزیں نہیں ہیں جو اسلام سے خارج کرے
جیسےبریلویوں کے یہاں پائی جاتی ہیں اس لئے اہل حدیث لڑکی حنفی میں شادی کرسکتی
ہے۔دیکھ بھال کر شادی کی جائے، جولڑکا دینداری اور اخلاق وکردار میں بہتر ہو اس
سے بیٹی کا رشتہ کرنے میں حرج نہیں ہے ۔افضلیت وترجیح اہل حدیث مسلک کو دینا چاہیے اور اسی کے لئے
اصلارشتہ کی کوشش کی جائےکیونکہ اہل حدیث عقائد میں پختہ
ہوتے ہیں اور بدعا ت وخرافات سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔
سوال:اکثربڑی بڑی منڈی میں بیٹھے لوگ اور بڑے
بڑے ڈیلر ادھار کاروبار کرتے ہیں ۔ان کے یہاں نقدسامان لینے میں الگ ریٹ ہوتا ہے
اور ادھار لینے میں اس کا ریٹ الگ ہوتا ہے مثلا کوئی چیز نقد میں دس روپئے کی ہے
تو اسے ادھار میں بارہ روپئے دینے ہوتے ہیں ، کیا یہ سود میں آئے گا؟
جواب: منڈی والوں کا ڈیلروں سے ادھار خریدنے پر زیادہ پیسہ لینا سود کے زمرے
میں آئے گاکیونکہ سامان کی اصل قیمت کم ہوتی ہے مگر صرف ادھار یا پیسے کی ادائیگی
میں مہلت دینے کی وجہ سے قیمت بڑھاکردے رہا ہے ، یہ سود ہے اور ایسا معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔
گوکہ بعض علماء نے نقد کے مقابلہ میں زیادہ قیمت پر
ادھار بیع کو جائز قرار دیا ہے مگر میں اس مسئلے میں ان علماء کی رائے کو قوی
مانتا ہوں جو ایک چیز کی دو قیمت والی بیع کو جائز نہیں سمجھتے، یہاں بیک وقت ایک
ہی چیز کی دو الگ الگ قیمت ہے۔
سوال:جماعت اسلامی والوں نے ایک اسلامی بنک کھول رکھا ہے، جب ان سے کوئی قرض لیتا ہے تو پہلے کچھ
پیسے یا کوئی چیز گروی لیتا ہے اور ادائیگی
کے موقع پر دوہزار ایکسٹرا لیتا حواری
مواری کے نام پر یہ کہاں تک صحیح ہے؟
جواب:سب سے پہلے اس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جو بینک
کھولا گیا ہے، وہ اسلامی اصول پر قائم ہے کہ نہیں؟ اگر اس میں سود کی آمیزش ہے یا
سودی کاروبار میں ملوث ہے تو پھر اس بینک سے قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت
میں وہ سود پر تعاون کہلائے گا۔
اگر بینک یا ادارہ اسلامی اصول پر قائم ہے اور اس بینک سے آپ قرض
لیتے ہیں، اس قرض کی وجہ سے کچھ خدماتی چارجز دینا پڑے تو اس میں حرج نہیں ہے
کیونکہ ادارہ قائم کرنے اور اس میں موظف رکھنے پر مصروفات آتے ہیں لہذا اسلامی
اصول پر قائم بینک سے قرض لیا جا سکتا ہے اور سروس چارج دینے میں مسئلہ نہیں ہےتاہم
سروس چارجز حقیقی مصارف سے زیادہ نہ ہوں ورنہ وہ سود میں داخل ہوجائے گا۔
سوال:کیا عورت کے لئے ایسی خوشبو کا لگا کر باہر نکلنا جائز ہے جو عام
عطر کی طرح نہیں پھیلتی ہے البتہ جو بغل میں کھڑا ہو اس کو محسوس ہوتی ہے؟
جواب:ایسی خوشبو لگا کر عورت کا باہر نکلنا جائز نہیں
ہے کیونکہ اگرچہ وہ خوشبو نہیں پھیلتی لیکن چونکہ اس کی خوشبو نزدیک میں رہنے والے
کو محسوس ہوتی ہے اس وجہ سے یہ خوشبو لگاکرباہرنکلناعورت کے لئے جائز نہیں ہے۔گھر
میں رہتے ہوئے لگائے کوئی حرج نہیں ہے۔
عورت کی اصل خوشبو رنگ ہے یعنی وہ بغیر خوشبو والی چیز
جس میں فقط رنگ ہو وہ استعمال کرے جیسے مہندی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
طِيبُ الرِّجَالِ مَا ظَهَرَ رِيحُهُ، وَخَفِيَ
لَوْنُهُ، وَطِيبُ النِّسَاءِ مَا ظَهَرَ لَوْنُهُ، وَخَفِيَ رِيحُهُ(سنن
نسائی:5120، صححہ البانی)
ترجمہ:مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ چھپا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک چھپی ہو۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔