﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (19)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال:آج کل کہیں بھی نوکری
بنا پیسے دئے نہیں ملتی اس لئےاگر اس طرح مجبوری میں جاب حاصل کرنا پڑے تو کیااس
میں گناہ ہے؟
جواب:نوکری کے لئے مجبوری میں پیسے دینے سے شاید رشوت
مراد ہو، اگر رشوت مراد ہے تو رشوت دے کر اور رشوت کے ذریعہ کوئی بھی نوکری حاصل
کرنا اور اس کی کمائی کھانا اسی طرح حرام ہے جیسے رشوت دینا حرام ہے۔اس بات کو یوں
بھی کہہ سکتے ہیں کہ رشوت کے بل بوتے پر کوئی نوکری حاصل کرنا حرام ہے اور اس
نوکری سے حاصل شدہ کمائی بھی حرام ہے۔
یہاں پر ایک دوسرا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی
نوکری کے لئے انٹرویو اور امتحان کے ذریعہ پاس ہو چکا ہے اور اس کی نوکری لگ چکی
ہے لیکن نوکری شروع کرنے یا نوکری کا پیپر حاصل کرنے کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہے
تو اس مجبوری میں گنجائش ہے کہ رشوت دے کر اپنا حق حاصل کر لے اور اگر کوئی اس سے
بھی بچنا چاہے اور بلا رشوت سو فیصد حلال کام کرنا چاہے تو وہ اور بہتر ہے۔اللہ کی
زمین بہت کشادہ ہے اورحلال روزگار و حلال
روزی کے متعدد ذرائع ہیں ، ہم کوئی بھی حلال ذریعہ اپنا سکتے ہیں، ہم کسی ایک
نوکری یا پیشہ کے لئے مجبور نہیں ہیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ رشوت دے کر ہم باطل طریقے سے
کوئی حق حاصل کریں گے تو یہ جائز نہیں ہے لیکن کسی جگہ پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے
لئے رشوت دینے پر مجبور ہونا پڑے تو اس کی گنجائش ہے۔
سوال: کیانماز کے دوران وضو ٹوٹنے پر
سلام پھیرکر نماز سے نکلنا پڑتا ہے ، میں نے کسی کو ایسا عمل کرتے دیکھا ، جب اس
سے پوچھا تو اس نے کہا کہ نماز سے نکلنے کے لئے سلام پھیراجاتا ہےاور جب اس سے
دلیل مانگی تو پریشان ہوگیا، اس بارے میں صحیح کیا ہے رہنمائی فرمائیں؟
جواب:اگر نماز پڑھنے کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو نماز سے
باہر نکلنے کے لئے سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں ہے، یوں ہی نماز سے باہر ہو جائیں گے
یعنی نماز سے باہر ہونے کا کوئی بھی مخصوص طریقہ نہیں ہے۔اور آپ نے جس کو سلام
پھیر کر نماز سے باہر ہوتے ہوئے دیکھا ہے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اسی لئے آپ
نے جب ان سے دلیل مانگا تو وہ پریشان ہو گیا۔
اس مسئلہ سے متعلق ایک
حدیث پہ غورفرمائیں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أحدثَ أحدُكم في صلاتِهِ فليأخُذ بأنفِهِ، ثمَّ
ليَنصَرِفْ(صحيح أبي داود:1114)
ترجمہ: جب حالت نماز میں تم میں سے کسی شخص کو حدث ہو
جائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر چلا جائے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں جب کسی کو نماز میں حدث لاحق ہوجائے تو بس ناک پہ ہاتھ رکھ کر نماز سے نکل جائے یعنی جماعت والی نماز سے باہر ہوجائے۔
اس حدیث سے ہمیں صاف صاف معلوم ہوگیا کہ جب نماز کے دوران مبطلات نماز میں سے کوئی چیز لاحق
ہوجائے مثلا ہوا خارج ہو جائے تو نماز ہی باطل ہو جاتی ہے اور جب نماز باطل ہو گئی
پھر سلام پھیرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی اس لئے جب نماز کے دوران ہوا خارج
ہو جائے تو آدمی فورا نماز سے باہر ہو جائے اور دوبارہ وضو کر کے ازسرنو نماز شروع
کرے۔
سوال: کوئی شخص نماز کو اتنا مؤخر کرے کہ
بالکل آخری وقت ہوجائے اور پھر وہ نماز پڑھے جیسے فجر میں سورج نکلنے سے دس پندرہ
منٹ پہلے نماز پڑھے تو اس طرح نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:نماز کو تاخیر سے ادا کرنے سے متعلق مختلف احکام
ہیں جو مندرجہ ذیل بیان کئے جاتے ہیں۔
*اگر
کوئی مرد ہے تو اس کے اوپر واجب و ضروری ہے کہ پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں حاضر
ہو کر جماعت سے ادا کرے۔
*اگر
کبھی کبھار کسی آدمی کو مشغولیت یا ضرورت کی وجہ سے کوئی نماز تاخیر سے ادا کرنا
پڑے تو اس میں حرج نہیں ہے اور کوشش یہ ہو کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے
ادا کر لے، یہ مسئلہ صرف ضرورت کے وقت ہے۔یہاں پر فجر کی نماز کا بھی مسئلہ سمجھ
لیں کہ کوئی سویا رہ جائے اور کبھی کبھار سورج نکلنے کے وقت آنکھ کھلے تو وہ اسی
وقت فجر کی نماز ادا کرلے مگر عمدا فجر میں تاخیرکرنا اور سویا رہنا غلط ہے۔
*اور
اگر کوئی بیمار آدمی ہے جو مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا تو ایسے آدمی کے لئے نماز
کا آخر وقت پر ادا کرنا بھی جائز ہے تاہم اس کے لئے بھی افضل یہی ہے کہ اول وقت پر
نماز ادا کیا کرے۔
*جہاں
تک عورتوں کا مسئلہ ہے تو ان پر جماعت فرض نہیں ہے لہذا وہ اول وقت سے لے کر آخر
وقت تک کسی بھی وقت نماز کو ادا کر سکتی ہیں تاہم اول وقت پر نماز ادا کرنا افضل
عمل قرار دیا گیا ہے لہذا عورتوں کو بھی چاہیے کہ اپنی نمازیں اول وقت پر ادا کیا
کریں۔
اور سب سے آخری مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد جس کے ساتھ
کوئی عذر یا ضرورت نہ ہو وہ اگر ہمیشہ تاخیر سے نماز ادا کرتا ہے اور جماعت کو ترک
کرتا ہے تو ایسا آدمی گنہگار ہوگا کیونکہ جماعت سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے وعید سنائی ہے۔
سوال: کیا میں ڈاکٹر سے پوچھ سکتی
ہوں کہ ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی
اور اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہے؟
جواب:ڈاکٹر سے یہ بات پوچھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ
ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ساتھ ہی یہاں پر
یہ بات آپ کے علم میں رہے کہ ڈاکٹر بھی آلات کے ذریعہ ہی اندازہ لگا کر بتاتا ہے
اس لئے اس اندازہ کو یقینی علم بھی نہیں کہا جائے گا۔ بسا اوقات ڈاکٹر کچھ بتاتا
ہے اور کچھ اور ہو جاتا ہے۔
اس معاملہ میں احتیاطی پہلو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا
پتہ نہیں لگانا چاہیے کہ ماں کے پیٹ میں بیٹا ہے یا بیٹی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب
آدمی معلوم کرلیتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے تو بہت سارے لوگ مستقبل کے لئے بہت
زیادہ سوچ و فکر کرنے لگتے ہیں بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ جب انہیں معلوم
ہوتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بیٹی ہے پھر اس
کا اسقاط اور ابارشن کرنے کے لئے سوچنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ساری جگہوں پر
یہ لکھا رہتا ہے کہ بیٹا یا بیٹی معلوم کرنا قانونا جرم ہے کیونکہ اکثر لوگ بیٹی
کا علم ہونے پر اسے گرا دیتے ہیں۔ لہذا اس معاملہ میں بہتر اور افضل پہلو یہی ہے
کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے اس کا پتہ نہ لگایا جائے، جو کچھ بھی ماں کے پیٹ میں ہے
وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہوگا اور معلوم ہوجائے گا اور اللہ کو بہتر معلوم ہے کہ
ہمیں کیا دینے والا ہے ، وہ جو کچھ بھی عطا فرمائے گا وہ ہمارے حق میں بہتر ہی
ہوگا۔
سوال: کیا ایک استاد کو یتیم بچوں کو
قرآن پڑھانے کی فیس صدقہ یا زکوٰۃ سے دی جا سکتی ہے ؟
جواب:زکوۃ کے آٹھ مصارف
ہیں، ان میں فقیر ومسکین بھی داخل ہیں ۔ اگر یتیم بچوں کو تعلیم دینے والا
فقیرومسکین کے زمرے میں آتا ہے تو اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر وہ اس زمرے میں
داخل نہیں تو اسے زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں ۔ جہاں تک نفلی صدقات کی بات ہے تو یہ بھی اصلا غریب ومحتاج کا ہی حق
ہے تاہم ضرورت کے وقت مالدار کو بھی صدقہ دے سکتے ہیں اس لحاظ سے استاد کو صدقہ دیا جاسکتا ہے۔
سوال: احرام کی حالت میں مرد کو اس کے
احرام کی چادروں میں کفنایا جاتا ہے ، نہ سر ڈھانپا جاتا اور نہ ہی خوشبو لگائی
جاتی ہے لیکن احرام والی عورت کو کفن دینے کا کیا طریقہ ہوگا ؟
جواب:میدان عرفات میں ایک صحابی کا احرام کی حالت میں انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ نے ان کو غسل دے کر احرام کے لباس کی طرح دوکپڑوں میں کفن دینے کا حکم دیا ، حدیث اس طرح سے ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
بيْنَما رَجُلٌ واقِفٌ بعَرَفَةَ، إذْ وقَعَ عن
رَاحِلَتِهِ ، فَوَقَصَتْهُ - أَوْ قالَ: فأوْقَصَتْهُ - قالَ النبيُّ صَلَّى
اللهُ عليه وسلَّمَ: اغْسِلُوهُ بمَاءٍ وسِدْرٍ، وكَفِّنُوهُ في ثَوْبَيْنِ، ولَا
تُحَنِّطُوهُ، ولَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فإنَّه يُبْعَثُ يَومَ القِيَامَةِ
مُلَبِّيًا(صحيح البخاري:1265)
ترجمہ: ایک شخص میدان عرفہ میں (احرام باندھے ہوئے)
کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا «وقصته» کے
بجائے یہ لفظ«أوقصته» کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا کہ
پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت
فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک
کہتا ہوا اٹھے گا۔
یہ تو مردوں کا معاملہ ہے ، اگر کوئی عورت احرام کی
حالت میں وفات پاجائے تو اس کو کیسے کفن دیا جائے گا؟
چونکہ احرام کی حالت میں مردوں کا ایک خاص لباس ہے جو
بلاسلی ہوئی دو عدد چادر ہے یہی وجہ ہے کہ
جب محرم مرد کا انتقال ہوجائے تو اسی طرح دو عدد بغیر سلی ہوئی چادر میں کفن دیا
جائے گا جبکہ عورتوں کے لئے احرام کی حالت میں ہرقسم کے لباس کی آزادی ہے سوائے
نقاب و دستانہ کے ، نیز عورت احرام کی حالت میں بھی چہرہ اور ہاتھوں سمیت پورے جسم
کا پردہ کرتی ہے لہذا جب کوئی محرمہ انتقال کرجائے تو جیسے عام حالت مین کفن دیتے
ہیں اسی طرح غسل دے کر تین کپڑوں میں اسے کفن دیں گے اور سر، چہرہ ، ہاتھوں سمیت
پورا بدن ڈھکیں گے، محرم مرد کی طرح سر اور چہرہ کھلا نہیں رکھیں گے کیونکہ عورت
کے لئے احرام و غیر احرام ہمیشہ پردہ ہے البتہ خوشبو نہیں لگائیں گے اور نہ ہی بال
وناخن تراشیں گے ۔
سوال:مسجد میں جب دینی پروگرام چل رہا ہو
اور ہم پروگرام کے لئے مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو اس وقت ہم تحیة المسجد کی نماز
پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:جب آپ مسجد میں کسی پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے
داخل ہوں تو سب سے پہلے آپ تحیۃ المسجد دو رکعت ادا کریں پھر اس کے بعد بیٹھیں ،یہ
مسجد کا ادب ہے بلکہ جب بھی آپ کا مسجد میں جانا ہو تو آپ باوضو ہو کر مسجد جائیں
تاکہ مسجد میں داخل ہونے کی دو رکعت نماز ادا کر سکیں ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ، فلا يَجْلِسْ
حتَّى يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ(صحيح مسلم:714)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتو بیٹھنے
سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔
سوال:اگر رمضان میں روزہ کے دوران شوہر
اپنی بیوی سے ہمبستری کرے تو کفارہ شوہر کو ادا کرنا ہوگا یا بیوی کو یا اس عمل
میں بیوی کی رضامندی شامل ہو تب کفارہ بیوی اور شوہر دونوں کو ادا کرنا ہوگا یا
صرف شوہر کو ہی ؟
جواب:رمضان میں میاں بیوی کے درمیان جماع ہونے پر بیوی
کی رضامندی شامل ہو تو بیوی پر بھی شوہر کی طرح ہی کفارہ ہے بلکہ یہ کہا جائے گا
کہ اگر بیوی شوہر کو جماع سے روک سکتی تھی مگر اس نے نہیں روکا تو یہ بھی بیوی کی
رضامندی کی طرح ہے یعنی اس صورت میں بھی بیوی پر کفارہ ہے۔ ہاں اگر شوہر بیوی پر
جبر اور غالب آکر یا مارپیٹ کر ہمبستری کرلے اس طرح کہ بیوی روکنے کی قدرت نہ
رکھتی ہو تو ایسی صورت میں بیوی پر کفارہ نہیں ہےاور اس کا ورزہ بھی درست ہے۔گویا
روزہ کی حالت میں ہمبستری کرنے پر شوہر پر کفارہ تو ہے ہی کیونکہ جماع میں اصل اسی
کا کردار ہے لیکن بیوی پر کبھی کفارہ ہوسکتا ہے اور کبھی نہیں جس کی اوپروضاحت کی
گئی ہے۔
سوال: کیا اللہ کے نام سےقرآن پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:قرآن کی تلاوت ہم اللہ کے نام سے ہی کرتے ہیں بلکہ
جو بھی قولی اور فعلی عبادت انجام دیتے ہیں وہ ساری عبادتیں اللہ کے لئے انجام
دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي
لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام:162)
ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری
ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا
مالک ہے۔
اس آیت سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ساری عبادتیں
اللہ کے لئے ہیں اور یہاں پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ کسی بھی عمل کی قبولیت کے
لئے اخلاص اور اتباع سنت ضروری ہے۔ اخلاص کا مطلب ہوتا ہے وہ عمل اللہ کے لئے ہو
اور اتباع سنت کا مطلب ہے وہ عمل رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہو۔جب یہ دونوں شرطیں
پائی جاتی ہیں تبھی جاکر کوئی بھی عمل اللہ کے یہاں قبول ہوتا ہے۔
سوال:اگر کوئی ہمارے ساتھ برا سلوک کرے
اور ہم اسے یہ کہیں کہ "جو کرنا
ہے کر لو، آج کل اللہ تعالی دنیا میں ہی بدلہ لے رہا ہے" تو کیا یہ جملہ شرعی اعتبار سے درست ہے؟
جواب:اگر کوئی ہمارے
ساتھ ظلم کرے تو اس طرح سے کہنا کہ "جو کرنا ہے کر لو آج کل اللہ تعالی دنیا
میں ہی بدلہ لے رہا ہے" بالکل بھی درست بات نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا نظام ہمیشہ سے یکساں ہےاور ایسا نہیں ہے کہ آج
کل اس کا نظام بدل گیا ہےاس لئے ہمیں اس طرح سے کسی کو بھی نہیں کہنا چاہیے خواہ
کوئی ہمارے اوپر ظلم ہی کیوں نہ کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو ظلم کرے اس کے ظلم کے
برابر ہم بدلہ لے سکتے ہیں اسلام نے ہمیں اس کی اجازت دی ہے تاہم جو معاف کر دیتا
ہے اور بدلہ نہیں لیتا ہے اس کا مقام بہت بلند ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ظلم
کرنے والے کو معاف کرکے ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ پیش کیا ہے بلکہ آپ ہابیل و
قابیل کا واقعہ پڑھیں گے تو ہمارے لئے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔ جب قابیل نے ہابیل
کو قتل کرنے کی دھمکی دی تو ہابیل نے کہا کہ اگر تم مجھے قتل بھی کردو تو میں کچھ
نہیں کروں گا، میں اللہ سے ڈرنے والا ہوں، اللہ تعالی کا فرمان دیکھیں:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا
بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ
إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (المائدہ:28)
ترجمہ:گو تو میرے قتل کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے
قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، میں تو اللہ تعالیٰ پروردگار عالم سے
خوف کھاتا ہوں۔
لہذا ہمیں بھی اگر کوئی ڈرائے دھمکائے، برا بھلا کہےاور ناروا سلوک کرے
تو ہم صبر کریں۔ اللہ سے اس کی ہدایت کے لئے دعا کریں اور کچھ اپنی زبان سے کہنا
چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ٹھیک ہے تم کو
جتنا ظلم کرنا ہوکر لو، ہم تمہارے ظلم کا بدلہ نہیں لیں گے۔اللہ دیکھ رہا ہے وہی
ہمارے درمیان انصاف کرے گا۔
سوال: میں نے آپ کی ایک تحریر پڑھی جس کا
خلاصہ ہے کہ انعامی آن لائن کوئز کمپٹیشن میں
فیس دے کر شامل ہونا جوا ہے ، جب یہ بات تعلیمی کورس کرانے والے لوگوں سے کرتے ہیں
تو آگے سے جواب ملتا ہے ہم انعام دینے کے لئے فیس پرمنحصر نہیں ہیں بلکہ انعام کی
سوچ تو پہلے سے ہی طے ہوتی ہے پھر یہ جوا کیسے ہے اور پھر محنت کرنے والے یا تعلیم
دینے والے فیس لیتے ہی ہیں ایسے میں جو اچھے نمبرات لائے ان کی حوصلہ افزائی کے طور پر انعام دینا جوا کیسے
ہوا؟
جواب:کورس کروانے پر فیس لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں
ہے مگر یہاں جو اصل مسئلہ ہے، وہ انعام کے ذریعہ لوگوں کو لالچ دینا ہے۔دنیا بھر
میں دینی ادارے، مدارس، مراکز اور اسکول و کالج چلتے ہیں، اکثر اداروں میں فیس لے
کر کورس کروائے جاتے ہیں اور تعلیم دی جاتی ہے مگر آپ نے کسی بھی اسکول اور ادارہ
میں نہیں دیکھا ہوگا کہ وہاں پر فیس کے ساتھ انعام کا لالچ دیا جاتا ہو۔آخر آج کل
معمولی معمولی کورس کے لئے فیس کے ساتھ انعام کا ٹرینڈ کیوں چلا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ کم علم لوگ معمولی معمولی چیزوں کا
کورس کروا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف
متوجہ کرنے کے لئے جوئے کی ایک شکل اختیار کرتے ہیں وہ ہے انعام کا لالچ۔اگر تعلیم
دینے والا مخلص ہو تو اپنی محنت کی وجہ سے تعلیم پر فیس لے سکتا ہے مگر وہ انعام
کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرے گا۔ انعام نہ رکھا جائے تو ان
چھوٹے چھوٹے اور کم علم لوگوں کے کورس کی طرف عام لوگ توجہ نہیں دیں گے اس لئے
انعام کا لالچ دیا جاتا ہے ، دراصل یہ جوا اور لاٹری کی طرح ہے۔
انعام کی ایک جائز شکل یہ ہے کہ جو مخلص ہو کر دینی
تعلیم دےیا کوئی تعلیمی کورس کروائے اور فیس بھی لے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں
ہے لیکن وہ انعام کا اعلان نہ کرے اور جب کورس کروالے اور اسے کورس میں کوئی محنتی
یا زیادہ نمبر حاصل کرنے والا طالب نظر آئے اس کو انعام دینا چاہے تو دے سکتا ہے
اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ کوئی آدمی کسی کو قرض
دیتا ہے، اگر قرض کے شروع میں یہ کہے کہ قرض لوٹاتے وقت اتنا پیسہ زیادہ دینا پڑے
گا یا قرض سے بڑھا کر دینا پڑے گا تو یہ سود ہے لیکن قرض دیتے وقت ایسی کوئی بات
طے نہ ہوئی ہو تو قرض لوٹانے والا اپنی مرضی سے قرض سے زیادہ کچھ دینا چاہے تو دے
سکتا ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
سوال: ہم اپنے استعمال شدہ کپڑے کسی
ضرورت مند کو دے سکتے ہیں اور جب دینا ہو تو کیا دھوکر دینا ضروری ہے کیونکہ
تقریبات میں استعمال ہونے والے کپڑے فینسی ہوتے ہیں جن کا دھلنا مشکل ہوتا ہے؟
جواب:ایک مسلمان عورت کے لئے ایسا لباس خریدنا فضول
خرچی کے دائرے میں آئے گا جو کافی زیادہ مہنگا ہو اور اس کو دھل بھی نہیں سکتے، دو
چار مرتبہ بغیر دھلے پہن کر پھینکنا پڑ جائے یا کسی کو دینا پڑے ۔ ایسا بھڑکیلا
اور جاذب نظر لباس پہننا بھی کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں ہے جو لوگوں کے لئےاپنی
جانب میلان کا سبب بنے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کے پاس ضرورت سے زائد کپڑے یا
استعمال شدہ کپڑے ہوں جو کسی محتاج کو دینا چاہے تووہ بالکل کسی غریب و مسکین کو دے سکتا ہے ، یہ ایک
طرح سے تعاون ہے اور پہنا ہوا لباس دھل کر دینا چاہیے، بغیر دھلے کسی کو کپڑا دینا
بالکل بھی مناسب نہیں ہے خواہ کیسا بھی کپڑا ہو اور اگر ایسا کپڑا جسے نہ دھل سکتے
ہوں تو وہ خود ہی اسے جب تک استعمال کرنا چاہے، استعمال کرے مگر کسی کو بغیر دھلے
کوئی کپڑا نہ دے اور آئندہ اس قسم کے فضول، خرچیلے اور بھڑکیلے کپڑوں سے پرہیز کرے۔
یاد رکھیں اللہ کے نزدیک پائی پائی کا حساب دینا ہوگا۔
سوال: کیا بچی کا نام انعمت رکھ سکتے
ہیں؟
جواب:انعمت ، یہ نام نہیں ہے ، یہ کام ہے۔ اس کا معنی
ہے تو نے انعام کیا، اس لئے یہ کسی بچی کا
نام نہیں رکھ سکتے۔آپ ناموں کے لئے اسلامی سیرت کی کتاب دیکھیں اور صحابیات اور
نیک خواتین کے ناموں پر اپنی بچی کا نام رکھیں ۔
سوال: کیا بنک میں جاب کرنا جائز نہیں ہے
اور کیا بنک میں جاب سے حاصل شدہ پیسوں کو حلال کاموں میں نہیں لگاسکتے ہیں جیسے
ان پیسوں سے حج وعمرہ نہیں کرسکتے ہیں ؟
جواب:سودی بینک میں نوکری کرنا جائز نہیں ہے۔ جب بینک
کی نوکری جائز نہیں ہے تو اس کی کمائی بھی جائز نہیں ہے لہذا بینک کی کمائی کو
اپنے اوپر خرچ کرنا، اس سے گھر بنانا، بال بچوں کی پرورش کرنا ، اس سے حج و عمرہ
کرنا اور اس قسم کا دوسرا کوئی کام کرناجائز نہیں ہے۔
سوال:اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو ایک
طلاق دی اور ایک مہینہ گزر گیا لیکن اس نے رجوع نہیں کیا ۔ جب دوسرا مہینہ شروع
ہوگا تو کیا دوسری طلاق خود بخود واقع ہو جائیگی اگر چہ شوہر نے دوبارہ طلاق نہ دی
ہو یا پھر ایک ہی طلاق شمار ہوگی اگرچہ کئی مہینے ہی کیوں نہ گزر گئے ہوں؟
جواب:اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور ایک
مہینہ گزر گیا مگر شوہر نے رجوع نہیں کیا تو دوسرا مہینہ شروع ہونے پر دوسری طلاق
واقع نہیں ہوگی بلکہ وہی طلاق مانی جائے گی جو پہلی بار شوہر نے دی تھی۔طلاق دینے
سے طلاق واقع ہوتی ہے، خود بخود طلاق واقع
نہیں ہوتی ہےاور دوسری بات یہ ہے کہ اگر شوہر ایک طلاق دیتا ہے اور وہ عدت میں
دوسری یا تیسری طلاق دے تب بھی وہ طلاق واقع نہیں ہوگی، بس پہلی طلاق مانی جائے گی
خواہ کتنے مہینے بھی گزر جائیں اور آپ خود تو طلاق واقع ہوتی ہی نہیں ہے۔نیز طلاق
دینے کے بعد اگر شوہر نے رجوع نہیں کیا یہاں تک کہ تین حیض کی عدت گزر گئی تو میاں
بیوی میں جدائی ہوجاتی ہے ، اب شوہر کا بیوی سے یا بیوی کا شوہر سے رشتہ باقی نہیں رہتا ۔بیوی آزاد ہوجاتی ہے، وہ
عدت گزرنے کے بعد جس سے چاہے شادی کرسکتی
ہے۔
سوال: ایک آدمی جدہ میں رہتا ہے اس کی بیوی عمرہ پہ آئی ہوئی ہے ۔ وہ جدہ سے احرام باندھ کرایک مرتبہ اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ کرلیا ہے اور ابھی میاں بیوی دونوں مکہ میں ہیں ۔ ایک عمرہ کرنے کے بعد شوہربیوی کے ساتھ اب دوسرا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو وہ کہاں سے احرا م باندھے گا، اس کی بیوی نے مسجد عائشہ سے احرام باندھا ہے؟
جواب: عمرہ کرنے کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ آدمی ایک
سفر میں ایک ہی عمرہ کرے اس لئے جو آدمی جدہ سے عمرہ کرنے کے لئے گیا تھا یاجو کسی ودسرے ملک سے عمرہ کے لئے آیا تھا ان کے لئے وہی ایک عمرہ کافی ہے جو انہوں نےپہلی
دفعہ کر لیا ہے، دوبارہ جب مکہ کا سفر ہو
اور عمرہ کا ارادہ ہو تو اس وقت دوسری مرتبہ عمرہ کرنا چاہئے۔
بہر کیف! جو آدمی مکہ میں ہے اور مکہ میں رہتے ہوئے
عمرہ کرنا چاہتا ہے تو مسجد عائشہ جا کر احرام باندھ سکتا ہے اور عمرہ کر سکتا ہے
لہذا وہ شخص اور اس کی بیوی دونوں مسجد عائشہ سے احرام باندھ سکتے ہیں۔
سوال: میں ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر
ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ جن مہینوں میں ٹیچرز کو چھٹیاں ہوتی ہیں ان مہینوں کی
تنخوا ہ لینا کیسا ہے؟
جواب: اگر اسکول سے چھٹی کی تنخواہ پر بھی اتفاق ہو اہوتو چھٹی کی تنخواہ لے سکتے ہیں اور اگر چھٹی کی تنخواہ پر اتفاق نہ ہواہو تو چھٹی کی تنخواہ نہیں لیں گے یعنی جو ایگریمینٹ اور اتفاق ہوا ہے اس حساب سے عمل کیا جائے گا۔ویسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ماہانہ حساب سے پڑھانے والے ٹیچروں کو بعض مواقع پر چھٹی کی تنخواہ نہیں کاٹی جاتی البتہ کئی ماہ کی چھٹی ہو تو پھر اس کی تنخواہ کاٹی جاتی ہے بہرحال تنخواہ سے متعلق جس ادارے کا جونظام ہواس کے حساب سے عمل کیا جائے گا۔
سوال: جویلرس کی دکان میں ہر ماہ ایک
متعین مدت تک مخصوص رقم انویسٹ کرتے ہیں، وقت پورا ہونے پر انعام بھی ملتا اور
زیور پر اضافی چارجز نہیں لگتے ہیں، کیا اس طرح جویلوی لینا جائز ہے؟
جواب: اگر کسی نے سونا یا چاندی کی خرید و فروخت کے لئے
یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ جویلری والے کے پاس تھوڑا تھوڑا کرکے ایک میعاد تک
ہر ماہ پیسہ جمع کرتا ہے پھر اس کے بعد جب پیسے مکمل ہو جاتے ہیں تو جویلر سے
جویلری یعنی سونا یا چاندی لیتا ہے اور اسے انعام بھی ملتا ہے تو یہ طریقہ جائز
نہیں ہے۔ سونا اور چاندی کی خرید و فروخت کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں لین
دین ہو یعنی ایک ہاتھ سے پیسہ دیا جائے اور دوسرے ہاتھ سے زیور لیا جائے۔ ایک ہی طریقہ
ہے سونا و چاندی کے خرید و فروخت کا یعنی نقدی طریقہ ، اس میں ادھار خریدو فروخت
نہیں کر سکتے ہیں۔ تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کرکے سونا و چاندی خریدنا ایک قسم کا
ادھار معاملہ ہے جو کہ جائز نہیں ہے ۔
ایسے لوگوں کے لئے میرا ایک مشورہ ہے کہ جو پیسہ آپ
جویلر کے پاس جمع کرتے ہیں ، اس کو آپ اپنے پاس ہی جمع کرتے رہیں اور جب پیسہ
جویلری خریدنے کے قابل ہو جائے تو اس پیسے سے ایک ہی مرتبہ میں نقدا جویلری خرید لیں، یہ جائز معاملہ
ہے ۔
سوال: جو آدمی بے نمازی ہے یعنی اس نے کبھی بھی نماز نہیں پڑھی اور ایک آدمی ہے جو کبھی نمازپڑھ لیتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا ہے، کیا ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے یا نہیں پڑھنی چاہیے؟
جواب: جو آدمی نماز کبھی
کبھار پڑھتا ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ نماز کا قائل ہے اور نماز کو تسلیم کرتا ہے
بلکہ کبھی کبھار اسے ادا کرکے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ ایسا آدمی اسلام
میں داخل ہے، اگر اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور
اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
جہاں تک اس آدمی کا معاملہ ہے جو کبھی نماز نہ پڑھتا
رہا ہو درحقیقت وہ آدمی اسلام سے خارج ہے کیونکہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق کرنے
والی چیز نماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بے نمازی ہوگا اللہ رب العالمین اسے جہنم رسید
کرے گا۔
یہاں پر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مسلمان گھرانے میں
ایک ایسے شخص کی پیدائش ہوئی جو کبھی نماز نہ پڑھتا ہو، جب ایسے شخص کا انتقال ہو
جائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائےبشرطیکہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور دین کا منکر نہ
ہو؟
شریعت کا معاملہ تو بالکل واضح ہے کہ ایسے آدمی کی نماز
جنازہ نہیں ادا کی جائے گی اور ایسے آدمی کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں
کیا جائے گا مگر معاشرتی طور پر ایسے بہت سے افراد ہیں جو نماز کا اہتمام نہیں
کرتے ہیں اور وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، خود کو مسلمان بھی باور کراتے ہیں۔ اگر ان
لوگوں کو قبرستان میں دفن نہ کیا جائے تو نہ صرف امت مسلمہ میں تشویش پیدا ہوگی
بلکہ اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے لئے طنز و تمسخر کا فتنہ انگیز دروازہ کھل جائے
گا، ممکن ہے اس وجہ سے کتنے کلمہ گو، کلمہ بھی پڑھنا چھوڑ دیں اور وہ دوسرے ادیان
میں چلے جائیں یا ملحد ہو نے لگیں۔ بایں سبب حالات اور ضرور کو دیکھتے ہوئے جو مسلمان
گھرانے میں پیدا ہوا ہو اور وہ کلمہ کا اقرار کرتا ہو تو ایسے آدمی کو مسلمانوں کے
قبرستان میں دفن کر دیا جائے تاہم اس کے جنازہ میں نیک اور اچھے لوگ شامل نہ ہوں
تاکہ دوسروں کو عبرت ونصیحت حاصل ہو۔
سوال: اگر بارہ، تیرہ، چودہ سال کی
لڑکیاں حفظ کر رہی ہوں تو کیا مرد عالم یا حافظ روبرو ہوکر انہیں پڑھا سکتے ہیں۔
لڑکیاں باضابطہ نقاب میں ہوں لیکن چہرے کھلے ہوئے اور روبرو ہوں تو اس طرح کسی
عالم یا حافظ مرد کا تعلیم دینا اور حفظ کروانا شرعا جائز ہے ؟
جواب: مرد و عورت کی تعلیم کے سلسلے میں اصل تو یہی ہے
کہ خاتون، خاتون سے تعلیم حاصل کرے اور مرد، مرد سے تعلیم حاصل کرے لیکن اگر کبھی
ضرورت ہو تو مرد ،عورت سے اور عورت، مرد سے بھی تعلیم حاصل کر سکتی ہے لیکن شرعی
حدود میں رہتے ہوئے۔اگر کہیں پر ضرورت کے تحت مرد حافظ وعالم، لڑکیوں کو حفظ کی
تعلیم دے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ لڑکیاں پردے میں ہوں
یعنی استاد اور طالبات کے بیچ میں پردے کا آڑ کیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کو نہ
دیکھ سکیں اور دوسری بات یہ ہے کہ مرد عالم صرف ایک لڑکی کو نہیں پڑھائے بلکہ
متعدد لڑکیاں ہوں تاکہ خلوت نہ رہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے حفاظتی امور ہیں ان کو
بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔
سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے کہ لڑکیاں چہرہ کھول کر مرد عالم کے روبرو طالب حاصل کرے یہ صورت جائز نہیں ہے، جائز صورت پردہ کے آڑ کے ساتھ پڑھانا ہے۔
سوال: جب صحرائے عرب میں لڑکیاں جلدی
بالغ ہو جاتی ہیں تو کم عمری میں نکاح کر دیا جاتا تھا مگر نبیﷺ نے حضرت فاطمہ کی
شادی میں تاخیر کیوں کی اور لگ بھگ پندرہ سال یا اس سے زائد عمر پر نکاح کیا ،اس
کی پیچھے کیا حکمت تھی؟
جواب: عرب کی سرزمین میں لڑکی کا جلدی بالغ ہونا تاریخ
میں بیان کیا جاتا ہے لیکن بلوغت کے لئے یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ ہر کوئی جلدی ہی
بالغ ہو جائے۔ یہ فطری معاملہ ہے، کوئی نو سال میں، کوئی دس سال میں، کوئی بارہ
سال میں ، کوئی پندرہ سال میں بالغ ہوتی ہے۔ عام طور سے پندرہ سال بیان کیا جاتا
ہے کہ لڑکا یا لڑکی پندرہ سال میں بلوغت تک پہنچ جاتے ہیں۔
آج کل اپنے معاشرہ کو دیکھا جائے تو بر صغیر ہند و پاک
یا پوری دنیا کہہ لیں ، کم عمری میں حتی کہ آٹھ سال کی عمر میں بعض لڑکی بالغ
ہوجاتی ہے مگر یہ اصول نہیں ہے کہ ہر لڑکی آٹھ سال میں بالغ ہو جاتی ہے بلکہ کوئی
جلدی اور کوئی تاخیر سے بالغ ہوتی ہے، یہی عرب کا معاملہ رہا ہے۔
جہاں تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا معاملہ ہے
تو اس میں کہیں تاخیر نظر نہیں آتی ہے۔ پندرہ سال کا مرحلہ نوجوانی کا مرحلہ ہے
اور یہی وہ عمر ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو شادی کرنے کا حکم
دیا ہے۔ تاخیر تو اس وقت کہیں گے جب نوجوانی کا مرحلہ گزر جائے اور آدمی بڑھاپے
میں داخل ہو جائے۔
شادی کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پوری طرح واضح ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت
رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرمنگاہ کی حفاظت کرنے میں
(دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے، اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم
کر لے، یہ اس کے لئے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے۔(مسلم:3400)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےشادی کے لئے نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانی میں شادی کرنا چاہئے اور بلوغت کے بعد نوجوانی شروع ہوتی ہے یا یوں کہیں کہ پندرہ سال کے بعد نوجوانی شروع ہوتی ہے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں تاخیر کہنا کسی طرح درست نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ان کا نکاح صحیح وقت پر ہوا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔