﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(18)
جواب از شیخ مقبول احمد
سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی
السلامہ – سعودی عرب
سوال: دو بہن اور ایک بھائی ہیں جن کی ماں ایک ہے اور باپ الگ الگ ہیں مطلب ایک
بہن اور ایک بھائی سگے ہیں اور دوسری بہن کا باپ الگ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا دوسری بہن جس کا باپ الگ ہے بھائی کو محرم بنا
سکتی ہے۔ اور کیا دوسری بہن جس کا باپ الگ ہے،اس کا بیٹا پہلی بہن کا محرم ہو سکتا ہے؟
جواب: ماں ایک ہو اور
باپ الگ الگ ہوں تو ماں کی تمام اولادیں آپس میں ماں شریک بہن بھائی ہیں جن کو
اخیافی بہن بھائی بھی کہتے ہیں۔اور ماں شریک بہن بھائی آپس میں اسی طرح سے حرام
ہیں جیسے حقیقی بہن بھائی حرام ہیں اس لئے ماں شریک بھائی، اپنی بہن کا محرم ہے۔
اسی طرح دوسری بہن کا
بیٹا پہلی بہن کا بھی محرم ہے کیونکہ ماں شریک بھائی بہن اور ان کی اولاد بھی آپس
میں ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں۔
سوال: میرے یہاں اذان کی آواز نہیں آتی ہے تو میں مسلم پرو سے وقت دیکھ کر نماز پڑھتی ہوں، کیا میرا طریقہ صحیح ہے ؟
جواب: عورتوں کے لئے
اذان اور اقامت نہیں ہے لہذا نماز کا وقت ہوتے ہی عورت کو اول وقت پہ اپنی نماز
ادا کر لینا چاہیے خواہ وہ اذان سنے، یا نہ سنے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں اگر
مسجد سے باقاعدہ اذان کی آواز آرہی ہو اور اول وقت پہ اذان دی جا رہی ہے تو عورت پہلے
اذان سن لے پھر اس کے بعد نماز پڑھے لیکن
اگر کہیں پر تاخیر سے مسجد میں اذان ہوتی ہو یا پھر کسی مسجد کی اذان سنا ئی نہیں دیتی تو ایسی صورت میں عورت اول وقت پہ اپنی نماز ادا کر لیا کرے۔جہاں تک اوقات نماز کا
مسئلہ ہے تو اس کے لئے اپنے علاقہ کے سلفی ادارے اور مرکز کا کلینڈر حاصل کریں جس
سے اوقات نماز کی صحیح رہنمائی حاصل ہوگی۔
سوال: کسی نے اپنے بیٹے کا نام زارون
رکھا ہے اس کا کیا مطلب ہے اور یہ کس زبان کا نام ہے؟
جواب: آج کل اکثر لوگ
اپنے بچوں کا نام عجیب و غریب رکھنا چاہتے ہیں یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اس کے بچے
جیسا نام پورے محلے میں اور پوری بستی میں کسی کا نام نہ ہو اور اس کام کے لئے وہ
انٹرنیٹ سے عجیب و غریب نام تلاش کرتے ہیں جبکہ ہمیں اپنے اسلاف کے طرز پر نام
رکھنا چاہیے اس کے لئے ہمیں سیرت کی کتابیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
زارون لفظ بھی انٹرنیٹ کے فرضی ناموں میں سے ایک نام ہے، نہ یہ اردو لغت میں ہے اور نہ ہی عربی لغت میں ہے مگر مختلف ویب سائٹ والوں نے اپنی ویب سائٹ کو مشہور کرنے کے لئے زارون کا معنی ملاقاتی یعنی وزٹ کرنے والا بتایا ہے جبکہ عربی میں زارون کوئی لفظ نہیں ہے۔ہاں عربی میں زائرون کا لفظ ہے ، یہ جمع کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہے زیارت کرنے والے لوگ ۔
سوال: مجھے ایک امیج ملا جس میں انگریزی
زبان میں ہربل دھونی پیک لکھا ہے، مزید لکھا ہے" حرمل ،گوگل اور لوبان (اینٹی
بیکٹیریل/ اینٹی وائرل) پھر اس کے فوائد لکھے ہیں کہ منفی اثرات کو زائل کریں،
ماحول کو صاف ستھرا بنائیں اور تھکان دور کریں۔اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: اصل میں جولوگ عملیات کرتے ہیں اور لوگوں کو جادو ٹونے
اور آسیب دور کرنے کا علاج اور نسخہ بتاتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک حرمل(اسفند) ،
گوگل اور لوبان کی دھوبی بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ جادوٹونے کا علاج کرنے والے ، لوگوں
کو بتاتے ہیں کہ حرمل کی دھونی دینے سے گھرسے آسیب دور ہوتے ہیں ، گوگل کی دھونی
دینے سے بھی سحروآسیب ختم ہوتے ہیں اور اسی طرح لوبان کی دھونی دینے سے گھرکے منفی
اثرات اور جادوٹونے ختم ہوجاتے ہیں ۔ بعض حدیثوں میں گھر میں لوبان وغیرہ کی دھونی دینے کا ذکر آیا ہے مگر اس سلسلے
میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے، جو بھی روایات آتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔
ایک روایت: عبداللہ بن ابی جعفر سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بخروا بيوتكم باللبان
والشيح(الشعب الايمان للبيهقي: 5/2092)
ترجمہ: اپنے گھروں کو
لوبان اور نبات شیح سے دھونی دو۔
امام بیہقی نے اس
حدیث کو منقطع کہا ہے یعنی یہ ضعیف حدیث ہے۔
دوسری حدیث: انس بن مالک سے روایت ہے:
بخروا بيوتكم باللبان
والمر والصعتر (الاجوبة المرضية: 2/537)
ترجمہ: اپنے گھروں کو
لوبان، مر اور صعتر سے دھونی دو۔
امام سخاوی نے اس کو
ضعیف کہا ہے۔
غرض یہ ہے کہ لوبان اور دیگرنبات کی دھونی
دینے سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں مگر کوئی بھی صحیح نہیں ہےاور پھر اس میں یہ
بھی مذکور نہیں ہے کہ اس کی دھونی دینے سے جادو کے اثرات زائل ہوتے ہیں ، یہ لوگوں
نے اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ لیا ہے ۔
اس کا یہ مطلب نہیں
ہے کہ اپنے گھروں میں خوشبو والی دھونی نہیں دے سکتے ہیں، آپ بلاشبہ اپنے گھروں
میں اگر بتی اور بخور وغیرہ جیسی کوئی بھی خوشبو کی دھونی دے سکتے ہیں مگر یہاں پر جھوٹے اور فرضی عاملوں کا
پردہ فاش کرنا ضروری ہے۔ وہ لوگ عوام کو یہ بتلاتے ہیں کہ حرمل ، گوگل اور لوبان
کی دھونی سے گھر کے منفی اثرات، نحوست،
بھوت پریت کا سایہ اور آسیب وغیرہ کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہ بات سراسر جھوٹ ہے لہذا
کسی بھی عامل کی اس قسم کی جھوٹی بات اور اس قسم کے جھوٹے فریب میں آپ کبھی نہ
آئیں۔آپ سیدھی سی بات یہ سمجھ لیں کہ جادو یا سحر و آسیب کا علاج صرف اور صرف
مسنون اذکار ہیں اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
سوال: میرے پاس میری بہن زکوۃ کے پیسے لوگوں کو دینے کے لئے دیتی ہیں مجھے پوچھنا تھا کہ جب میں زکوۃ کسی کو دیتی ہوں تو کیا مجھے اسے بتانا چاہیے کہ یہ میری بہن نے دی ہے جبکہ میں اپنی بہن کو بتا دیتی ہوں کہ میں نے کس کو زکوۃ دی ہے؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ کی بہن آپ کو زکوۃ تقسیم کرنے کے لئے دیتی ہے اورجس کو آپ زکوۃ دیں اس کو زکوۃ کی رقم بتلا کر دینا یا فلاں نے یہ زکوۃ دی ہے، یہ بتلانا کوئی ضروری نہیں ہےتاہم اس جگہ پر دو باتوں کو ضرور دھیان سے سمجھنا ضروری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ
زکوۃ صرف مستحق کو ہی دیں اور مالی زکوۃ ہے تو مال ہی دیں، کوئی سامان خرید کر
نہیں دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ
زکوۃ کو فی الفور ادا کیا جاتا ہے یعنی جس نے زکوۃ نکالی ہے اسے چاہیے کہ بغیر
تاخیر اپنی مکمل زکوۃ مستحقوں میں تقسیم کر دے اور اسے اپنے پاس رکھ کر تھوڑا
تھوڑا تقسیم کرنا جائز نہیں ہے۔
سوال: مجھے آخری ہفتہ پیریڈ ہوا مطلب صرف اسپاٹنگ لگی، میں نے
انتظار کیا لیکن کوئی بلیڈنگ نہیں ہوئی، سات دن کے بعد میں نے غسل کر لیا اب دو دن
کے بعد مجھے بلیڈنگ ہو رہی ہے کیا اب مجھے نماز چھوڑنی چاہیے یا پڑھنی چاہیے؟
جواب: کبھی کبھی حیض
آنے سے پہلے براؤں کلر کا کچھ ظاہر ہوسکتا ہے یا اسپاٹنگ لگ سکتی ہے، اگر یہ حیض
سے منفصل ہوکر یعنی ایک دو دن گیپ ہوکر آئے تو یہ حیض نہیں ہےاور مذکورہ صورت میں
یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ پھر جب دوبارہ خون جاری ہوا، اگر اس خون میں حیض کے صفات
ہیں تو بعد میں آنے والا خون حیض کا مانا جائے گا اور حیض کو اس کے صفات سے جان
سکتے ہیں ،حیض کے تین اہم صفات ہیں۔وہ گاڑھا ہوگا، وہ بدبودار ہوگا اور وہ سیاہی
مائل ہوگا۔
سوال: دیوالی کے موقع پر دیوالی بونس دیا
جاتا ہے کیا اس کا لینا جائز ہے؟
جواب: دیوالی یا کسی
تہوار کے موقع پر اگر کوئی کمپنی یا ادارہ اپنے ورکر کو بونس دے تو اس کو لینے میں
کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں اگر کسی کا دل اس بولس کے لینے میں مطمئن نہ ہو اور بونس نہ لینے میں کمپنی سے اس کی نوکری کو کوئی خطرہ نہ ہو تو وہ
بونس کو چھوڑ بھی سکتا ہےتاہم اسے لینے میں حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا عورتوں کی آواز کا پردہ ہے؟
جواب: عورت کی آواز
کا مطلق طور پر پردہ نہیں ہے ، بقدر ضرورت عورت اپنی آواز غیر محرم کے پاس ظاہر
کرسکتی ہے اور غیرمحرموں سے ضرورت کے وقت بات بھی کرسکتی ہے جیساکہ عہدرسول میں
ضرورت کے وقت عورتیں مردوں سے بات کرتی تھیں اور ضرورت کے وقت مرد حضرات عورتوں سے
بات کرتے تھے ۔ آپ نے کتب احادیث میں بہت ساری احادیث پڑھی ہوگی جن میں یہ مذکور
ہے کہ فلان خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے آپ ﷺسے مسئلہ دریافت کیا ، بطور مثال ایک حدیث ذکر
کرتاہوں ۔
ام المؤمنین ام سلمہ
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
جَاءَتْ أُمُّ
سُلَيْمٍ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَتْ: يا رَسولَ
اللَّهِ، إنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحِي مِنَ الحَقِّ، فَهلْ علَى المَرْأَةِ غُسْلٌ
إذَا احْتَلَمَتْ؟ فَقالَ: نَعَمْ، إذَا رَأَتِ المَاءَ(صحيح البخاري:6121)
ترجمہ:ام سلیم رضی
اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا
رسول اللہ! اللہ حق بات سے حیاء نہیں کرتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل
واجب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر عورت منی کی تری دیکھے
تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔
اسی طرح صحابہ کرام
ضرورت کے وقت عورت سے بات کیا کرتے تھے بطور مثال ایک دلیل دیکھیں۔ ابوموسیٰ اشعری
رضی الله عنہ کہتے ہیں :
ما أشكَل علينا -
أصحابَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم - حديثٌ قطُّ فسأَلْنا عائشةَ إلَّا
وجَدْنا عندَها منه عِلْمًا(صحيح الترمذي:3883)
ترجمہ: ہم اصحاب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں
عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور
ملی۔
اسی طرح نبی ﷺ عورتوں
کو سلام کرتے اور عورت آپ سے سلام کرتی ۔شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت
یزید رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے:
مرَّ علينا النبيُّ
صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ في نسوةٍ، فسلَّم علينا( صحيح أبي داود:5204)
ترجمہ: ہم عورتوں کے
پاس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔
ام ہانی بنت ابی طالب
جو نبی ﷺ کی چچازاد بہن تھیں، رشتہ میں آپ ان کے لئے غیرمحرم ہوئے اس کے باوجود
انہوں نے (فتح مکہ کے موقع سے) آپ ﷺ کو سلام کیا۔(دیکھیں ، بخاری: 6158)
بہرکیف! عورت کی آواز
کا پردہ نہیں ہے یعنی عورت ضرورت کے وقت مردوں سے بات کرسکتی ہے مگر یہاں بات کرنے
سے متعلق عورتوں کے لئے دوبنیادی باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
پہلی بات: عورت مردوں
سے بات کرے تو پردے کے پیچھے سے بات کرےیعنی پردہ کے ساتھ بات کرے جیسے اللہ نے صحابہ کرام کو نبی کی بیویوں سے
پردہ کے پیچھے سے بات کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ کا فرمان ہے:
وَإِذَا
سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ(الاحزاب:53)
ترجمہ:جب تم نبی کی
بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو،تمہارے اور ان کے دلوں
کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔
دوسری بات: عورت مرد
سے بات کرتے وقت بقدر ضرورت بات کرے اور اپنی باتوں میں لچک اور تصنع نہ پیدا کرے
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
يَا نِسَاءَ
النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا
تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا
مَعْرُوفًا(الأحزاب:32)
ترجمہ:اے نبی کی
بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے
بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق
کلام کرو ۔
ان دو باتوں کو ملحوظ رکھ کرعورت مرد سے ضرورت کے وقت بقدر ضرورت بات کرسکتی ہے، نیزعورت اجنبی مرد کے ساتھ خلوت وتنہائی میں بات نہ کرے کیونکہ غیرمحرم کے ساتھ خلوت ممنوع ہے۔
سوال: میری بیٹی کا خلع ہوگیا ہے، کورٹ
کا پیپر ہم کو ابھی تک نہیں ملا ہے۔ وکیل صاحب کہہ رہے ہیں کہ کچھ پروسیس ہے جس کے
بعد ملے گا۔ ایسے میں عدت کب سے شروع ہوگی اور میری بیٹی کے اپنے شوہر سے ازدواجی
تعلق قائم نہیں ہوا تو کیا پھر بھی عدت ہوگی جبکہ وہ جاب کرتی ہے؟
جواب: چونکہ آپ کی
بیٹی کا خلع بذریعہ کورٹ ہو رہا ہے تو صرف وکیل یا کسی آدمی سے سن لینے کی وجہ سے
خلع نہیں مانا جائے گا جب تک کہ خلع کا نوٹس نہ ملے۔جب آپ کو کورٹ سے خلع کا نوٹس
ملے اور اس میں خلع کی جو تاریخ لکھی ہوگی اس وقت سے خلع کی عدت شروع ہوگی۔
جہاں تک مسئلہ ہے کہ
شوہر نے بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا تھا لیکن بیوی کی رخصتی ہوئی تھی اور
وہ شوہر کے پاس رہتی تھی تو اسے عدت گزارنی ہے اور خلع کی عدت ایک حیض ہے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ کیا وہ
موبائل ایپ کے ذریعہ حیض کے دوران اپنی یومیہ تلاوت کو جاری رکھ سکتی ہے یا جمعہ
کے روز سورہ الکہف کی تلاوت کرسکتی ہے؟
جواب: ایک عورت حیض
کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے لہذا جس بہن کا روزانہ تلاوت کرنا معمول تھا
وہ حیض کے دنوں میں بلاشک موبائل کے ذریعہ یومیہ تلاوت کرسکتی ہے اور جمعہ کے دن
سورہ کہف پڑھ سکتی ہے بلکہ حائضہ کا مصحف سے قرآن پڑھنے کے بجائے موبائل سے تلاوت
کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں وہ مصحف چھونے سے بچ جائے گی اور موبائل میں موجود
قرآنی ایپ مصحف کے حکم میں نہیں ہے۔اور جس بہن کو مصحف سے قرآن پڑھنا پڑے جیسے
طالبات ومعلمات وغیرہ تو وہ مصحف سے بھی
پڑھ سکتی ہیں مگر اپنے ہاتھوں کو دستانہ لگالے ۔ اس موضوع سے متعلق مفصل ومدلل طور
پر جانکاری حاصل کرنے کے لئے میرا مضمون"حیض کی حالت میں قرآن کریم کی
تلاوت" کامطالعہ کریں۔
سوال : جب ہم فجر، ظہر، مغرب اور عشاء کی
نماز پڑھتے ہیں اور ان میں اگر بھول چوک ہوتی ہے تو آخری رکعت میں دو سجدے کرلیتے
ہیں لیکن اگر عصر کی نماز میں بھول چوک ہو جائے تو سجدہ سہو کرسکتے ہیں یا نہیں،
کسی نے کہا کہ عصر کے بعد سجدہ سہو نہیں کرتے کیونکہ عصر کے بعد کوئی سجدہ نہیں
کرتے۔ اس بارے میں رہنمائی کردیں؟
جواب: جس نے آپ سے
کہا کہ عصر کی نماز میں بھول چوک ہوجائے تو سجدہ سہو نہیں کرسکتے ہیں، اس نے آپ سے
غلط مسئلہ بتایا ہے،وہ دین کے بارے میں کم علم رکھتا ہے لہذا ایسے کم علم اور
نادانوں سے علمی مسئلہ نہ پوچھا کریں اور اگر ایسا آدمی کچھ بتائے بھی تو ایسے
لوگوں کی باتوں پر اعتبار نہ کریں بلکہ جو کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں ان علماء
سے مسئلہ دریافت کریں۔
عصر کی نماز میں بھول چوک ہو جائے تو اس وقت بھی سجدہ سہو کر سکتے ہیں، سجدہ سہو کسی بھی وقت منع نہیں ہے۔سوال سے متعلق اہم مسئلہ یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی آدمی نماز کا رکن چھوڑتا ہے تو اس کی نماز نہیں ہوگی لیکن اگر نماز کا کوئی واجب چھوڑتا ہے تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی اور اگر نماز میں سنت چھوٹ جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب نہیں ہے تاہم اگر سنت چھوٹنے پر بھی سجدہ سہو کر لیتے ہیں تو بہتر ہے۔
سوال: غیر مسلم کو سلام کرنا جائز نہیں
ہے تو اس کو اس کی زبان میں نمستے یا کچھ اور بولنا کیسا ہے؟
جواب: غیرمسلم کو
سلام کرنا جائز نہیں ہے ، نہ ہی اس کے سلام کا جواب دینا جائز ہے حتی کہ غیرمسلموں
میں استعمال ہونے والے نمستے اور اس قبیل کے دیگرالفاظ بھی ہم مسلمان استعمال نہیں
کرسکتے ہیں۔ ہاں ہیلو، گوڈ مارننگ ، آداب اس قسم کے سادہ الفاظ غیرمسلموں کے لئے استعمال
کرسکتے ہیں ۔
سوال: ((ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ
بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من استمع الى ايه من كتاب الله تعالى كتب له حسنه مضاعفه ومن
تلاها كانت له نورا يوم القيامه".جو قران مجید کی ایک آیت سنتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے اضافہ کی
ہوئی نیکی لکھ دیتے ہیں اور جو اس کی تلاوت کرتا ہے تو یہ آیت قیامت کے دن اس کے لئے
نور ہوگی))۔کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: الجامع الصغیر
میں یہ روایت اس طرح سے ہے، "مَنِ استمَعَ إلى آيةٍ من كتابِ اللهِ، كُتِبتْ
له حسنةٌ مضَاعَفةٌ، و مَن تَلا آيةً من كتابِ اللهِ كانتْ له نُورًا يومَ
القِيامةِ"۔اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے ضیعف الجامع میں ضعیف کہا ہے یعنی یہ
حدیث ضعیف ہے۔( ضعيف الجامع:5408)
سوال:کسی گروپ میں یہ میسیج شیئر ہوا ہے،
کیا یہ درست ہے؟جمعہ کے دن روحیں جمع ہوتی ہیں، لہذا اس میں زیارت قبور کرنی چاہیے
اور اس روز جہنم نہیں بھڑ کایا جاتا۔ ( الدر المختار، ج ۳، ص ،۳۹)
جواب: یہ بات کسی بھی
صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ جمعہ کے دن روحیں جمع ہوتی ہیں حتی کہ کسی بھی دن
روحوں کے جمع ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے لہذا یہ بات کہنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہےکیونکہ یہ غیبی اوربرزخی معاملہ ہے
جس کے بارے میں بلادلیل کچھ بولنا جائز نہیں ۔اور قبروں کی زیارت کرنا مسنون ہے
لیکن قبر کی زیارت کے لئے کوئی دن متعین کرنا مثلا جمعہ یا اور کوئی مہینہ اور
کوئی تاریخ بدعت ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک حدیث (ابوداؤد:1083)میں مذکور ہے کہ
جمعہ کو جہنم نہیں بھڑکایا جاتا مگر یہ حدیث ضعیف ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
جو میسج آپ نے بھیجا ہے وہ مکمل مبنی بر غلط ہے لہذا اس کو نہ کہیں شیئر کریں اور
نہ ہی کوئی اس پر عمل کرے۔
سوال: ایک بہن کے شوہر نے اس کو ایک طلاق کا نوٹس فروری کے مہینے میں عدالت کے ذریعہ بھیجا پھر پانچ ماہ بعد دوسرا نوٹس عدالت کے ذریعہ بھیجا، اب وہ تیسرا نوٹس نہیں بھیج رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب وہ آزاد ہے اس کے نکاح سے، اگر اس بچی کے والدین کہیں اور اس بچی کی شادی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یا پھر کہیں اور شادی کرنے کے لئے اس سے تیسری طلاق کا نوٹس لینا ضروری ہے؟
جواب: طلاق واقع ہونے
کے لئے نہ تو نوٹس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی تین نوٹس کا ملنا ضروری ہے بلکہ طلاق
کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ یہ یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ شوہر نے بیوی کو طلاق
دی ہے۔ خواہ زبان سے ہو یا پیپر کے ذریعہ ہو یا موبائل میسج کے ذریعہ ہو۔
لہذا جب عدالتی نوٹس
کے ذریعہ بیوی کو معلوم ہوگیا کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دی ہے تو پہلے ہی نوٹس سے
اور پہلے نوٹس کی اس تاریخ سے طلاق کی عدت شروع ہو جاتی ہے جو تاریخ نوٹس میں لکھی
گئی ہے۔اس نوٹس کے حساب سے تین حیض عدت شمار کی جائے اور اگر تین حیض گرز
گیا تو عدت پوری ہوگئی وہ لڑکی کسی اور جگہ شادی کرسکتی ہے ۔سوال سے معلوم ہوتا ہے
کہ پانچ ماہ بعد دوسرا نوٹس ملا گویا طلاق کی عدت ختم ہوچکی ہے اور بیوی اپنے شوہر
کی زوجیت سے آزاد ہوچکی ہے لہذا وہ اب دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔
سوال: قرآن خوانی کب جائز ہے اور کب نا
جائز ہے اور کب بدعت میں شمار ہو سکتی ہے، اس کی ایک لسٹ مل جائے تو زیادہ بہتر ہو جائے گا؟
جواب: قرآن کی تلاوت
کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے اور قرآن کی تلاوت جب چاہیں کریں مگر اکیلے کریں۔اپنے
معاشرے میں اجتماعی شکل میں جو قرآن خوانی کی جاتی ہے، یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس
کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے اسے بدعت کہیں گےیعنی ناجائز وبدعت ایک ہی معنی میں ہے
۔ اور اس قرآن خوانی کی کوئی فہرست نہیں ہے جسے ہم آپ کے سامنے پیش کرسکیں۔ بدعتی
لوگ اپنے گھروں میں اجتماعی شکل میں قرآن خوانی کرتے ہیں، اس کی یہی ایک لسٹ ہے
اور اس کی کوئی دوسری لسٹ میری نظر میں نہیں ہے۔مختصر طور پر یہ جان لیں کہ
اجتماعی صورت میں قرآن خوانی کرنا میت کو بخشنے ہو یا نذرونیاز وغیرہ کے لئے ہویہ
بدعت وناجائز ہے ۔
سوال: والدین اپنے ساتھ تین ناسمجھ بچوں
کو عمرہ کے لئے لے جا رہے ہوں تو بچوں کا عمرہ کس طرح ہوگا وضاحت کے ساتھ جواب
مطلوب ہے؟
جواب: بچوں کا عمرہ کروانا جائز ہے اور بچوں کا عمرہ
اپنی جگہ پر درست و صحیح ہے لیکن یہاں پر سرپرست کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا
بچہ احرام کی پابندی برداشت کر سکے گا اور بچے کو لے کر اس سے عمرہ کروانا آسان ہوگا؟
اگر یقین ہو کہ بچے
کا احرام باندھنا، احرام کی پابندی برداشت کرنا اور عمرے کے اعمال انجام دینا آسان
ہوگا ،تب ہی سرپرست کو بچے کی جانب سے احرام باندھنا چاہیے لیکن اگر یہ مشقت والا
عمل ہو تو بچے کا عمرہ نہ کروائیں۔ جب بچہ باشعور اور باتمیز ہو جائے اس وقت بچے کا
عمرہ کروائیں۔جہاں تک بچے کے عمرے کا معاملہ ہے تو جیسے بڑے عمرہ کرتے ہیں وہی
طریقہ بچوں کے لئے بھی ہے۔
پہلے بچے کو احرام کا لباس پہنایا جائے گا اور میقات پر بچے کی جانب سے اس کا سرپرست و ذمہ دار عمرہ کی نیت کرے گا اور اگر چاہیں تو بچے کی زبان سے بھی لبیک عمرہ کے الفاظ ادا کروا لیں۔یادرہے کہ بچے کو بھی احرام کی حالت میں محظورات احرام سے بچانا پڑے گا ۔
اس کے بعد بچے کو
تلبیہ یاد ہو تو بچہ بھی راستہ بھر تلبیہ پکارتا چلے۔مکہ پہنچ کر سرپرست بچے کو
اپنے ساتھ رکھے اور طواف کا کام شروع کرے، بچے کی اوپری چادر کو اضطباع کی شکل بنا
دے یعنی دایاں کندھا کھول کر رکھے اور سرپرست اپنے ساتھ بچے کے طواف کی بھی نیت
کرلے۔پھر اسی طرح سعی میں بھی اپنی نیت کے ساتھ بچے کی سعی کی نیت کر لے۔طواف و
سعی مکمل کرلینے کے بعد بچے کا بال کاٹ دے خواہ پورے سر سے بال منڈوا دے یا مکمل سر
سے تھوڑا تھوڑا بال چھوٹا کر دے۔ اس طرح بچے کاعمرہ مکمل ہو جائے گا۔
سوال: ایک بہن کے ساتھ کافی سنگین مسئلہ درپیش ہے ، اس کے شوہر نے تیس سال
بعد 18 سالہ اپنی ملازمہ سے نکاح کرلیا ہے جبکہ مرد کی عمر 63 سال ہے، یہ نکاح
ایسے حالات میں ہوا کہ نہ تو لڑکی کے گھر والوں کو صحیح علم ہےاور نہ ہی اس نکاح
کا کوئی اعلان کیا گیا ہے اور لڑکی کے والد کے مطابق یہ نکاح دباؤ میں کیا گیا،
زبردستی ان سے انگوٹھا لگوایا اور کہا کہ اگر ایسا نہیں کیا تو وہ لڑکی کو بھگا کر
لے جائیں گے۔شوہر شادی کا کوئی ثبوت نہیں دے رہا ہے اور جھوٹ پہ جھوٹ بول رہا ہے
اور طرح طرح کے بہانے بنارہا ہے اور دو لڑکیوں کی زندگی خراب ہوسکتی ہے نیزلڑکی
اپنا حق استعمال کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ مزید زندگی گزارنے سے انکاری ہے ،اس
صورتحال میں وہ بہن یہ سوال کر رہی ہیں کہ کیا پہلی بیوی کا اپنے شوہر سے خلع کا
مطالبہ کرنا جائز ہے؟
جواب: ایک مرد ایک سے زائد شادی کر سکتا ہے، اسے اللہ تعالی نے اس کی اجازت دی ہے خواہ اس کی عمر 60 سال ہو یا اس سے زیادہ ہی کیوں نہ ہواور لڑکی چھوٹی عمر کی ہو یا بڑی عمر کی ہوکوئی مسئلہ نہیں ہے حتی کہ اس کی ذات اور پیشہ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے لہذا شوہر کا دوسری شادی کرنا یہ کوئی سنگین مسئلہ نہیں ہے البتہ عورتیں اس مسئلہ کو اپنے لئے سنگین ہی نہیں، انتہائی سنگین سمجھتی ہیں۔
دوسری شادی کے کچھ
شروط ہیں، اگر مرد ان شرطوں کو پورا کرلے تو دوسری شادی کرسکتا ہے۔
٭وہ دو بیویوں میں
عدل کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔
٭وہ دو بیویوں کا حق
زوجیت ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ۔
٭وہ دونوں بیویوں کا
خرچ اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو۔
ان تین شرطوں کی
بنیاد پر ایک مرد دوسری شادی کر سکتا ہے اور بیوی کو دوسری شادی سے روکنے کا حق ہے
اور نہ ہی دوسری شادی کرنے پر شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا چاہیے ورنہ وہ
گنہگار ہوگی۔جہاں تک نکاح کے صحیح ہونے کا مسئلہ ہے تو اس کے لئے ولی کی رضامندی
ضروری ہے، دو عادل گواہان کی ضرورت ہے اور مہر طے ہو نیز یہ بھی سنت ہے کہ نکاح کا
اعلان کیا جائےبلکہ بعض علماء اعلان نکاح کو واجب بھی کہتے ہیں ، اس طرح سے نکاح
منعقد ہو جاتا ہے۔
شرعی مسئلہ میں نے
بیان کردیا ہے اب لڑکے نے شرعی طور پر نکاح کیا یا نہیں ، واقعتا نکاح ہوا ہے یا
جبری معاملہ ہے یہ تحقیق طلب موضوع ہے اس لئے ضروری ہے کہ لڑکا، لڑکی اور ولی کی
موجود میں شرعی طور پر پنچایت بلائیں اور ہرطرف سے معاملہ کی تحقیق کے بعد اہل علم
اس بارے میں محقق فیصلہ دیں گے ۔
سوال: ایک آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون ہیں جنہیں
نماز کے دوران سجدے میں پریشانی ہوتی ہے، وہ کیسے سجدہ کریں؟
جواب: حمل کی حالت
میں اگر خاتون کو زمین پر ناک اور پیشانی لگانا مشکل ہو تو جس قدر وہ سجدے کے لئے
جھک سکے اتنا جھک کر وہ سجدہ کرے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ جیسے کرسی پر
نماز پڑھنے والا آدمی رکوع کے لئے تھوڑا جھکتا ہے اور سجدہ کے لئے اس سے زیادہ
جھکتا ہے، ٹھیک اسی طرح حمل والی عورت سجدہ کے لئے زمین کی طرف جس قدر جھک سکے،
جھک کر سجدہ کرے۔
سوال: بعض خواتین کو ماہواری شروع ہونے سے ایک یا دو دن قبل اور بعض
کو ماہواری ختم ہونے کے بعد ایک دو دن لائٹ براؤن یا ڈارک براؤن میل نکلتا ہے، تو
کیا یہ ماہواری کے حکم میں ہے یا پاکی کےحکم میں؟
جواب: اگر کسی عورت
کو ماہواری آنے سے پہلے یا ماہواری آنے کے بعد لائٹ براؤن یا ڈارک براؤن کلر کا
کچھ ظاہر ہو تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔پہلی صورت یہ ہے کہ یہ براؤن کلر حیض
سے متصل ہو تو یہ ایام بھی حیض کے ہی مانے جائیں گے۔دوسری صورت یہ ہے کہ براؤن کلر حیض سے منفصل ہو یعنی پہلے
براؤن کلر کا کچھ ظاہر ہو پھر خشکی حاصل ہو پھر حیض آئے تو پہلے والا براؤن کلر
حیض نہیں ہے۔ اسی طرح حیض سے پاکی حاصل ہونے کے بعد براؤن کلر ظاہر ہو تو یہ بھی
حیض نہیں ہے۔ام عطیہ سے رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں:كنَّا لا نعُدُّ الكُدْرةَ والصُّفْرةَ بعدَ
الطُّهْرِ شيئًا(صحيح أبي داود:307)
ترجمہ:ہم حیض سے پاک
ہو جانے کے بعد زردی اور گدلے پن کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔
سوال: اگر نکاح میں ولی اور گواہ موجود
ہو تو نکاح درست ہوگا یا لوگوں کو خبر کرنا ضروری ہے یعنی اعلان نکاح، نکاح کے لئے
شرط ہے اس کے بغیر نکاح نہیں ہوگا؟
جواب:نبی ﷺ کا فرمان
ہے کہ أعلِنوا هذا النِّكاحَ واضرِبوا عليْهِ
بالغربالِ(صحيح ابن ماجه:1549)
ترجمہ: اس نکاح کا اعلان کیا
کرو اور اس موقع پر دَف بجایا کرو۔
اس حدیث کی روشنی میں
اہل علم نے کہا ہے کہ نکاح کا اعلان کرنا واجب ہے جبکہ بعض اہل علم اعلان نکاح کو
واجب نہیں کہتے ہیں۔ نکاح میں اصل ولی کی رضامندی اور دو عادل گواہ کی ضرورت ہے۔لڑکی
کی رضامندی کے ساتھ ولی نے اس کی شادی کسی لڑکے سے دوعادل گواہ کی موجود میں کردی
تو یہ نکاح اپنی جگہ درست ہے، اس کا اعلان کرنا نکاح کے صحیح ہونے کے لئے شرط نہیں
ہے تاہم یہ بھی مسنون ومستحب ہے کہ عقدنکاح کے وقت یا ولیمہ کی دعوت کرکے اس کا
اعلان کرے تاکہ لوگوں کو نکاح کی خبر ہوسکے
۔
سوال: ایک بہن نے آپ کا ایک سوال و جواب
پڑھا جس میں آپ نے بتایا ہے کہ جو قرآنی علوم کا ماہر ہو وہی قرآن کی تفسیر کرے
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان
تجوید قرآن پڑھ کر بچوں کو قرآن نہیں پڑھا سکتا؟
جواب: ایک استانی یا
ایک استاد بچوں کو قرآن کی تعلیم دے سکتا ہے اور قرآن کی تعلیم سے مراد بچوں کو
ناظرہ پڑھانا، مخارج سکھانا،قرآن پڑھنے کا طریقہ سکھانا، قرآن کی قرات سکھانا،
قرآن کی تجوید پڑھانا اور قرآن حفظ کروانا وغیرہ ۔
سوال: نماز باطل ہونے سے کیا مراد ہے ؟
جواب: نماز باطل ہونے
سے مراد ہے نمازکا ٹوٹ جانا جیسے ہم کہتے ہیں روزہ باطل ہوجانا اس کا مطلب ہوتا ہے
روزہ کا ٹوٹ جانا۔جب کبھی نماز باطل ہو جائے تو ایسی صورت میں دوبارہ پھر سے نماز
ادا کرنی پڑتی ہے۔
سوال: ایک لڑکی قبر کی ویڈیو بنا رہی ہے،
وہاں مردے پر عذاب ہو رہا ہے اس طرح کی وہ ویڈیو بنا رہی ہے تو کیا ممکن ہے مردے
پر جو عذاب ہو رہا ہے انسانوں کو دکھایا جائے وہ ایسی بہت ساری ویڈیو بناتی ہے جیسے
قبر کھلی ہے اور مردے پر عذاب ہو رہا ہے
یعنی طرح طرح کی ویڈیو، کیا یہ صحیح ہے ایسا ہو سکتا ہے یا یہ جھوٹ ہے؟
جواب: کسی لڑکی یا
کسی لڑکا کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ قبر کی ایسی ویڈیو بنائے جس میں مردہ کو
دفن کرتے یا مردہ پر کوئی عذاب ہوتے یا مردے کے ساتھ کوئی حرکت کرتے ہوئے دکھایا
جائے۔یہ عمل سراسر حرام ہے، نہ کسی کے لئے ایسی ویڈیو بنانا جائز ہے اور نہ کسی
مسلمان کو ایسی ویڈیوز دیکھنا جائز ہے بلکہ جو اس قسم کی ویڈیو بناتا ہے وہ قیامت
میں پکڑا جائے گا اور اپنے اس عمل کی وجہ سے سزا دیا جائے گا۔
قبر کا معاملہ برزخ
کا معاملہ ہے یا یوں کہیں کہ وہ غیب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں
معلوم ہے حتی کہ کسی قبر والے پر عذاب ہو رہا ہو تو اس عذاب کی کیفیت اور نوعیت
کیا ہے ہم اسے نہیں جانتے پھر کوئی کیسے قبر کے عذاب کو اور قبر کی غیبی چیزوں کو
ویڈیو میں بیان کر سکتا ہے۔لوگوں کی نصیحت کے لئے اللہ کا قرآن اور نبی ﷺ کا فرمان
ہی کافی ہے ، ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے
فرامین کو بیان کرکے نصیحت حاصل کرنا ہے۔
سوال: میرے شوہر الحمدللہ حافظ قرآن اور
کتاب و سنت کے پابند ہیں،ان کا یہ سوال ہے کہ میرے والد صاحب کو انتقال ہوئے تین
ہفتے ہونے کو ہیں اور مجھے دو دن سے خواب آرہا ہے جس میں وہ گھرم پھر رہے ہیں اور
لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتقال ہو گیا ہے ۔پہلے دن وہ کافی کمزور دکھ رہے تھے لیکن چل
پھر بھی رہے تھے، دوسرے دن وہ صحت مند دکھائی دے رہے تھے اور چل پھر رہے تھے اور دونوں میں لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انتقال ہو
گیا ہے جبکہ والد صاحب گھوم پھر رہے ہیں ایسے خواب کی کیا وجہ ہے اور ہمیں کیا
کرنا چاہیے، دل بے چین ہو رہا ہے؟
جواب: سب سے پہلے تو
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ آپ کے والد محترم کی بشری غلطیوں کو معاف فرمائے
اور ان کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے شوہر نے جو خواب
دیکھا ہے اور اس خواب کی وجہ سے بے چین و پریشان ہیں، آپ ان سے کہیں کہ خواب کے
بارے میں بے چین و پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آپ کے والد کو دنیا کی جو زندگی ملی اور جو عمل کرنے کا موقع ملا ،اللہ کی توفیق سے جو کچھ وہ عمل کرسکے اور دنیا کی زندگی تمام ہوئی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ ہونا ہے، ہمیں بھی اللہ تعالی نے زندگی دے کر عمل کرنے کا موقع دیا ہے، اب ہماری باری ہے ہم اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائیں اور جو چلے گئے ہیں، ان کے لئے زیادہ سے زیادہ آپ دعائے استغفار کر سکتے ہیں، باقی ان کے لئے مزید بے چین اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنے لئے اس وقت پریشان رہیں کیونکہ آپ ابھی زندہ ہیں اور آپ کو عمل کی مہلت ملی ہوئی ہے۔بسا اوقات انسان دن میں جو کچھ سوچتا ہے، رات میں وہ خواب دیکھ لیتا ہے یا کبھی کبھی شیطان انسان کو پریشان کرنے کے لئے کسی کی شکل بنا کر خواب میں آتا ہے لہذا اس معاملہ میں قطعا بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: اکثر علماء کہتے ہیں کہ عورت اگر
قرآن پاک بھی پڑھ رہی ہو اسکی آواز مردوں کو کانوں میں نہیں پڑھنی چاہیے اگر آواز
کو مزین کر کے پڑھ رہی ہو تو، کیا ایسا ہی ہے ؟
جواب: عورت کسی ایسی
جگہ تلاوت کر رہی ہے جہاں پر غیر محرم مرد موجود ہے تو اسے اپنی آواز پست رکھنی
چاہیے اور اگر غیر محرم نہیں ہے بلکہ محرم موجود ہے یا کوئی بھی نہیں ہے تو اپنی
آواز بلند کرکے قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے عورت کے لئے تلاوت کا یہ مسئلہ ہے۔
آواز مزین اور غیر
مزین کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آواز اونچی اور نیچی رکھنے کا مسئلہ ہے جو اوپر
بیان کیا گیا ہے۔
سوال: نکاح کے بعد چھوہارا وغیره جو
تقسیم کرتے ہیں کیا اِسکا کھانا جائز ہے؟
جواب: چھوہارا کھانے
میں حرج نہیں ہے، کھایا جاسکتا ہے۔ نکاح خوشی کا موقع ہے اس موقع پر کوئی مٹھائی
تقسیم کرے یا چھوہارا کھلائے تو کوئی حرج نہیں ہے ، نہ تقسیم کرنے میں حرج ہے اور
نہ ہی کھانے میں حرج ہے ۔ حرج اس وقت ہے جب لوگ چھوہارا تقسیم کرنے کو سنت سمجھتے
ہیں اور اسے کھانے والے سنت سمجھ کر کھاتے ہیں جبکہ چھوہارا تقسیم کرنے کو سنت
کہنا غلط ہے ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے ۔
كان إذا زوَّج أو
تزوَّج نثَر تمرًا( السلسلة الضعيفة:4198)
ترجمہ: جب نبی ﷺ شادی
کرتے یا کراتے تو کھجور تقسیم کرتے ۔
اس حدیث کو شیخ
البانی نے موضوع کہا ہے یعنی ہم اس حدیث کو بنیاد نہیں بناسکتے ہیں لہذا نکاح کے
بعد چھوہارا تقسیم کرنا سنت نہیں ہے۔ کوئی بغیر سنت سمجھے چھوہارا یا مٹھائی تقسیم
کرے تو اس میں حرج نہیں ہے اور اس کو کھانے میں بھی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر کوئی لڑکی، عورتوں کو مسجد میں
تعلیم دے رہی ہو اور اس کے علاوہ کوئی دوسری معلمہ نہ ہو یا پھر اس کا مسجد میں
پروگرام ہو اور اسے حیض واقع ہو جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے۔ بحیثیت معلمہ اگر
وہ ایام حیض میں نہیں جائے گی تو طالبات کا بہت زیادہ نقصان ہوگا یا اس کا عورتوں
کے لئے مسجد میں پروگرام کو کینسل کردینا ساری تیاریوں کو بیکار کردیگا، تو کیا وہ
حالت حیض میں مسجد کے کسی کونے میں یا آخر صف میں ٹھہر کر بیان دے سکتی ہے اور
طالبات کو پڑھا سکتی ہے؟
جواب:اس سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کی مستقل تعلیم کے لئے مسجد کاانتخاب ہی غلط ہے کیونکہ حیض کا مسئلہ صرف ایک بار کا نہیں ہے بلکہ ہر ماہ کا مسئلہ ہے اور یہ صرف معلمہ ہی کے لئے نہیں بلکہ ان تمام بچیوں کے ساتھ ہے جو بالغہ ہیں یعنی بالغہ بچیوں کو بھی ہر ماہ پابندی سے حیض آئے گا اور معلمہ کو بھی آئے گا تو ایسی صورت میں مسجد کا انتخاب کرنا درست نہیں ہے کیونکہ حائضہ کا مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے اس لئے تعلیم کے واسطے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جو مسجد کے علاوہ جگہ ہو جہاں پر حائضہ ٹھہر سکتی ہو۔ باقی مسجد میں جو پروگرام ترتیب دیا گیا اور معلمہ حائضہ ہے تو اس پروگرام کو کینسل کر دینے سے بہت بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ یا کوئی دوسری عالمہ مل جائے جو اس خلا کو پر کرسکے تو ٹھیک ہے، نہیں تو اس پروگرام کو کینسل کیا جائے یا اگر پروگرام کینسل نہیں کرنا چاہتے ہیں تو جگہ کو تبدیل کیا جائے اور مسجد کے علاوہ دوسری جگہ کو منتخب کیا جائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔