﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (17)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ -سعودی عرب
سوال:کیا چھوٹے بچوں کو مثلا
چار پانچ سال کے بچوں کو مسجد میں لے جایا جا سکتا ہے جبکہ عموماً دیہاتوں میں
ٹیبل فین یا اس طرح کی چیزوں کے نقصان کا خدشہ لاحق ہوتا ہے؟
جواب:چار پانچ سال کے بچے کو مسجد لے جانے میں کوئی حرج
نہیں ہے، لے جا سکتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھے اور نماز پڑھنے کی اس
میں رغبت پیدا ہو۔
جہاں تک مسجد میں رکھی ہوئی چیزوں کا مسئلہ ہے تو اس اس
سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بچہ اپنے باپ کے ساتھ رہے گا اور باپ اپنے بچے کی
نگرانی کرے گا۔ ایسا نہیں کہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور وہ مسجد میں کچھ
بھی کرے مثلاً شور مچائے یا سامان کو نقصان پہنچ جائے۔ نہیں، بلکہ باپ یا ذمہ دار
بچے کو اپنی نگرانی میں اور اپنے ساتھ رکھے۔ اوراگر کسی ایسے بچے کو مسجد میں لانے
کے بعد معلوم ہو کہ بچہ نقصان کر رہا ہے
اور اس پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے تو اسے مسجد نہ لایا جائے، جب اسے شعور
ہوجائے اور باپ اس کی نگرانی کرسکے اس وقت مسجد میں لائے۔
سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ کوئی انسان
نبیوں والی نیکی لائے اور والدین کا نافرمان ہو تو سب اعمال برباد ہیں۔ اگر یہ
صحیح ہے تو اس کا حوالہ بتائیں؟
جواب:حدیث قدسی کے نام سے اس طرح کی بات بیان کی جاتی
ہے۔ "لو أن العاق لوالديه يعمل باعمال الأنبياء جميعاً لم أقبلها منه"
یعنی اگر والدین کا نافرمان تمام انبیاء کے اعمال کے برابر بھی عمل کرے گا تو اس
سے عمل قبول نہیں کروں گا۔
یہ حدیث میرے علم کے مطابق حدیث کی اہم کتابوں میں
موجود نہیں ہے مگر مجھے یہ شیعہ کی کتاب جامع السعادات میں ملی ہے جس کا مصنف ایک
شیعہ عالم محمد مهدي النراقي ہے ۔ گویا یہ بات مجھے شیعہ کتاب میں تو ملی مگر اپنے
یہاں کسی معتمد کتاب میں نہیں ملی اس لئے یہ بات نہیں بیان کی جائے گی۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے نافرمان کا
عمل قبول نہیں ہوتا ہے ۔اس بابت شیخ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں ایک روایت ذکر
فرمایا ہے۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا: عاق ومنان
ومكذب بالقدر.(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1785)
ترجمہ: ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی
ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔
گوکہ شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے تاہم
متعدد محدثین نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے جیسے ابن الجوزی نے العلل المتناھیہ میں
"لایصح" (صحیح نہیں ہے) کہا ہے، اور ذہبی و ہیثمی وغیرھما نے ضعف کی طرف
اشارہ کیا ہے اس وجہ سے یہ روایت صحت وضعف کے اعتبار سے مختلف فیہ ہے تاہم یہ ضرور
ہے کہ والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ میں سے ایک عظیم گناہ ہے ۔ شیخ ابن باز ؒ سے
سوال کیا گیا کہ کیا والدین کے نافرمان کی نماز، روزہ اور صدقہ قبول نہیں کیا جاتا
تو شیخ نے جواب دیا کہ والدین کی نافرمانی کبائر اور محرمات میں سے ہے اس سے بچنا
واجب ہے لیکن ان کی نافرمانی نماز، روزہ اور دیگر اعمال صالحہ کو باطل کرنے والی
نہیں ہے تاہم ایسا گنہگار بڑے گناہ کے دہانہ پر ہے ۔ (بن باز ڈاٹ آرگ ڈاٹ ایس اے)
سوال: غیروں کے تہوار وغیرہ کی مناسبت سے
سامان کو کم قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے تو کیا بحیثیت ایک مسلمان ان کے اس طرح کے
آفروں اور ڈسکاؤنٹ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
جواب: جو چیزیں ڈیلی روٹین کے اعتبار سے آدمی اپنی دکان
میں بیچتا ہے اگر ان چیزوں کی قیمت تہوار یا اور کسی موقع پر کم کر دیتا ہے تو اس
کے خریدنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر تہوار کے موقع پر دئے جانے والے
مختلف قسم کے تجارتی آفر اور ڈسکاؤنٹ سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سوال: ایک چیز مجھے پریشان کر رہی تھی،
تو میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں۔ دراصل میں ابھی تین مہینے سے ایک پری اسکول میں
ٹیچنگ کر رہی ہوں۔ وہاں اسکول میں فیسٹیولز اور سرگرمیاں ہوتی ہیں اور چونکہ وہ
ہندو اسکول ہے اس لئے جو بھی فیسٹیول کا جشن ہوتا ہے اس کے لئے ہم سے ڈیکوریشن
کروائی جاتی ہے، بورڈز بنوائے جاتے ہیں اور یہ سب گروپ میں ٹیچرز سے کروایا جاتا
ہے۔ یہ کام کا حصہ ہے اور اسکول میں یہ سب کرنا لازمی ہوتا ہے۔ البتہ میں جشن کے
دوران ہمیشہ پیچھے کھڑی رہتی ہوں اور ان میں حصہ نہیں لیتی اور ویڈیوز وغیرہ میں
بھی شامل نہیں ہوتی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینا
اسلامی طور پر جائز ہے؟
جواب:کسی اسکول میں پڑھانا اور تعلیم دینا اچھی بات ہے
لیکن کسی مسلمان کو ایسے سکول اور ایسی جگہ تعلیم دینے کے لیے جانا ہی نہیں چاہیے
جہاں پر اسے ہندوانہ فنکشن میں مدد کرنا پڑے یا غیر اسلامی فنکشن سے متعلق کاموں
میں تعاون دینا پڑے اور ان کاموں میں شرکت بھی کرنا پڑے۔
الحمدللہ بہت سارے تعلیمی ادارے غیر اسلامی فنکشن سے
پاک ہیں، آپ ایسے کسی ادارے سے جڑ کر تعلیم دیں، یہ آپ کے حق میں اس اسکول سے بہتر
ہے جس میں غیر اسلامی فنکشن کے کام کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے
کہ گناہ اور ظلم کے کام پر کسی کی مدد نہ کرو۔
سوال: اگر کوئی تعلیمی مرکز میں بچوں کو
ٹیوشن پڑھاتا ہو اور وہ چودہ دن تک عمرہ کی وجہ سے چھٹی پر ہو۔ اس کی جگہ کسی اور
سے پڑھائے جس کو گھنٹوں کے بیس پر پہلے سے وہاں اجرت دی جاتی ہو تو جس نے چودہ دن
تعلیم دی ہے اس کو تنخواہ دیتے وقت کچھ بڑھا کر تنخواہ دی جائے گی یا جو ادارے کا
اصل ذمہ دار ہے وہ فیس کو بغیر پڑھائے اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟
جواب:تعلیمی مرکز کا ٹیچر کے ساتھ پڑھانے اور اجرت دینے
کے سلسلے میں جو اتفاق شروع میں ہوا ہے اسی اتفاق کی بنیاد پر ٹیچر کو تعلیمی اجرت
دی جائے گی۔اگر ٹیچر کا تعلیمی مرکز سے گھنٹوں کے حساب سے اجرت طے ہوئی ہے تو اسے
مہینے کے اختتام پر گھنٹوں کی بنیاد پر ہی اجرت دینا چاہیے۔ اس معاملہ میں شریعت
بھی یہی کہتی ہے کہ آدمی نے جتنا کام کیا ہے اس کو اپنے کام کے حساب سے ہی اجرت
ملنی چاہیے اور جو کام نہیں کیا اس کام کے بدلے اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
کسی خاص ٹیچر کی حاضری میں جس ٹیچر نے چودہ دنوں تک
بچوں کو تعلیم دی ہے اس نے اگر اپنی ڈیلی روٹین والی اصل ذمہ داری ادا کرتے ہوئے
مزید اضافی طور پر ایک ٹیچر کی ذمہ داری نبھائی ہے تو اسے چودہ دنوں کی اجرت ملنی
چاہئے اور اگر انہوں نے پرانے گھنٹوں کی بنیاد پر ہی چودہ دن تعلیم دی ہے تو صرف
اتنی ہی اجرت ملے گی جو سابقہ مہینوں میں ملتی تھی ، بڑھاکر اجرت نہیں ملے گی۔ اور
چودہ دنوں کی اجرت مرکز کے اصل ذمہ بھی نہیں رکھیں گے بلکہ اس صورت میں معلوم یہ ہوتا ہےکہ چودہ دنوں میں ایک ٹیچر کی
تعلیم دینے کے برابر بچوں کا تعلیمی نقصان ہوا ہے اس وجہ سے بچوں سے اس قدر فیس
معاف کی جائے۔
سوال: کوئی عمرہ کیلئے احرام باندھ کر
نکلے ، راستے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو کیا دم دینا ہوگا اور حرم بھیجنی ہے دم
کیلئے رقم ؟
جواب:جس آدمی نے عمرہ کے لئے احرام باندھا اور احرام
باندھنے کے بعد اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ آدمی بروقت عمرہ کرنے
کی استطاعت رکھتا ہے یا نہیں؟اگر بروقت عمرہ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اسی وقت
عمرہ کرنے کے لئے جائے اور عمرہ ادا کرے لیکن اگر اسے علاج کی ضرورت ہے تو وہ
احرام میں باقی رہے گا اور اپنا علاج کرائے گا ۔ جب اللہ اسے شفا دے پھر وہ اسی
احرام میں حرم جاکر اپنا عمرہ مکمل کرے اور اس دوران حتی المقدور محظورات احرام سے
بچتا رہے۔ گویا اکسیڈنٹ کی حالت میں دم نہیں ہے بلکہ عمرہ کرنا ہے، خواہ اسی وقت
ہو یا علاج کی ضرورت ہو تو علاج کے بعد۔
سوال: میں سمجھتی ہوں کہ قرآن خوانی الگ
چیز ہے جس میں لوگ ثواب کی نیت سے یا کسی کام کے ہو جانے پر قرآن خوانی کرنے کی
منت کرکے اسے پورا کرنے کے لئے لوگوں سے قرآن پڑھواتے ہیں تو اس دعوت کا کھانا
بدعت میں شمار ہوگا اور میت کو قرآن پڑھ کر بخشوانے اور اس کا ثواب میت کو پہنچانے
کی نیت سے سب لوگ جمع ہوکر پڑھتے ہیں جو یہ بھی بدعت ہے۔ رہی اس کی دعوت تو کیا
میت کی طرف سے کوئی صدقہ کرنا یا مال خرچ کرنا یا لوگوں کو کھانا کھلانا جائز نہیں
ہے، اس حساب سے قرآن بخشوانا غلط ہے مگر اس میں آئے لوگوں کو کھانا کھلانےکی نیت
صحیح ہے تاکہ اس کھانے کا ثواب میت کو پہنچ جائے؟
جواب:قرآنی خوانی اصل میں میت کو بخشوانے کے مقصد سے ہی
کی جاتی ہے اور یہ عمل کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے لہذا یہ بدعت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی
کسی حاجت و مقصد کو پورا کرنے کے لئے یا کسی مقصد کو پورا کرنے کے بعد اجتماعی شکل
میں قرآن خوانی کرے تو یہ بھی بدعت ہے۔جہاں تک میت کی جانب سے کھانا کھلانے کا
مسئلہ ہے تو اس مسئلے کو آپ نہیں سمجھ پائے ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
میت کی طرف سے کھانا کھلانا اور صدقہ و خیرات کرنا جائز ہے مگر یہ فقراء اور مساکین کے لئےہے، یہ کھانا مالداروں کو نہیں کھلایا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ کھانا جو قرآن خوانی کے وقت
بنایا جاتا ہے اس کھانے کا تعلق بدعتی عمل سے ہے اور وہ بدعتی عمل قرآن خوانی ہے
اور یہ کھانا دراصل قرآن خوانی میں آنے کی وجہ سے کھلایا جاتا ہے لہذا یہ کھانا
کھانا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی قرآن خوانی کرے اور کھانا کھانے کی نیت میت کی
طرف سے کرے تو بھی جائز نہیں ہے۔
بغیر کسی رسم، بغیر کسی قرآن خوانی اور بغیر کوئی
مناسبت و تاریخ متعین کئے عام انداز میں اگر فقیر و مسکین کو میت کی طرف سے کھانا
کھلایا جائے یا صدقہ اور خیرات کیا جائے تو یہ عمل جائز ہے۔
سوال: مایوں مہندی کی رسم ہندوانہ ہے اس
میں گناہ ہے مگر گھر والے جبر کریں تو کیا کریں اور اس کا کھانا آجائے تو کھاسکتے
ہیں ، گھر والے کہتے ہیں کہ وہاں بیٹھنا ہے بس، اس میں ہمیں گناہ نہیں ملے گا اور
گناہ اس کو ملے گا جو کرتے ہیں اور اسی طرح شادی کی بات پکی ہوجانے پر ایک رسم ہے
تو کیا پکی رسم کی دعوت کھاسکتے ہیں؟
جواب:دلہن کے مہندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے بظاہر
یہ جائز عمل ہے لیکن مایوں مہندی کے نام سے جو رسم انجام دی جاتی ہے، اس کے لئے
بڑی دھوم دھام سے پرتکلف تقریب منعقد کی جاتی ہے اور اس کے اندر فضول خرچی کے
علاوہ متعدد غیر شرعی کام کئے جاتے ہیں جسے عام طور پر خواتین جانتی ہیں بلکہ بے
حیائی اور فحش کام تک انجام دئے جاتے ہیں لہذا مایوں مہندی کے نام پر غیر شرعی رسومات
اور بے حیائی کے کام کرنا کسی بھی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں ہے ۔ گھر کے ذمہ
داروں کو اس قسم کے رسم و رواج اور فضول تقریب سے پرہیز کرنا چاہیے خصوصا دلہن جس
کی شادی ہو رہی ہے وہ اس چیز کا کھلم کھلا بائیکاٹ کرے اور اس طرح کی رسم و تقریب
میں حصہ نہ لے ، نہ اس قبیل کا کھانا کھائے۔
شادی کی بات پکی ہونے پر دعوتی تقریب منعقد کرنے کا
اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا اس موقع سے تقریب رکھنا اسلامی طریقہ نہیں ہے، ہمارے
لئے اس طرح کی فضول تقریب اور کھانے کا بائیکاٹ کرنا بہتر ہے تاکہ سماج سے غلط رسم
و رواج کا خاتمہ ہوسکے۔
سوال: میرے ایک بھائی کا کہنا ہے کہ
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ قبر میں زندہ ہیں ، وہ قبر میں عبادت بھی کرتے ہیں، کیا یہ
بات درست ہے؟
جواب:مستند بزار کے اندر ایک حدیث ہے جسے شیخ البانی نے
صحیح قرار دیا ہے۔
الأنْبياءُ أَحْياءٌ في قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ(السلسله
الصحيحه: 621)
ترجمہ: انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے
ہیں۔
اس حدیث میں انبیاء کے تعلق سے دو خصوصیات کا تذکرہ
ملتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور دوسری بات یہ ہے
کہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔دراصل ایسی حدیث کو بنیاد بناکر صوفی حضرات یہ استدلال
کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں ہماری طرح زندہ ہیں اور ہماری
طرح نماز پڑھتے ہیں جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اس بات پر قرآن کی واضح آیت موجود ہے بلکہ متعدد آیات
اور احادیث اس بات پر شاہد ہیں۔ اور مذکورہ بالا حدیث میں جس زندگی کی بات ہے وہ
برزخ کی زندگی ہے اور برزخ کی زندگی ہر کسی کو ملتی ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر
ہو۔
برزخ کی زندگی دنیا کی زندگی سے بالکل مختلف ہے اور جو
کوئی برزخ کی زندگی میں ہوتا ہے اسے میت یا مردہ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک دوسرا مسئلہ ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں نماز
پڑھتے ہیں تو دلیل کی روشنی
میں اس بات پر ایمان لائیں گے انبیاء اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں مگراس
نماز کی کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ برزخ میں انبیاء کس کیفیت میں نماز
پڑھتے ہیں کیونکہ برزخ کا معاملہ غیبی ہے اس کو دنیاوی امور پر قیاس کرنا کسی صورت
صحیح نہیں ہے۔
آپ کتنے میڈیکل ٹریننگ کالج میں مردہ لاش کو پائیں گے
جن لاشوں پر میڈیکل پڑھائی کرنے والے چیر پھاڑ اور ریسرچ کرتے ہیں۔اگر یہ کسی مومن
کی لاش ہے تو نہ وہ زندہ ہے، نہ اس میں حرکت ہے، نہ بولی ہے اور نہ ہی ہم اپنی
آنکھوں سے اسے جنت کی نعمت میں دیکھتے ہیں اس کا جو معاملہ ہے وہ برزخی ہے اسے صرف
اللہ جانتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کتنے سارے کافروں کی لاش ہاسپیٹلوں میں کئی کئی
مہینوں تک رکھی رہتی ہے اور ہم اس لاش پر کسی قسم کا کوئی عذاب نہیں دیکھتے ہیں
کیونکہ یہ برزخی معاملہ ہے عذاب کی کیفیت کو ہم نہیں جان سکتے۔
مذکورہ بالا مثال انبیاء اور غیرانبیا ء میں بطور تقابل نہیں پیش کی گئی ہے بلکہ محض عالم برزخ کوسمجھانے کے لئے ہے کہ جس طرح عام آدمی کو برزخ کی زندگی ملتی ہے اسی طرح انبیاء کو برزخ کی زندگی ملتی ہے، اس زندگی کا ہمیں کچھ بھی شعور نہیں اور ان کے نماز پڑھنے کا بھی ہمیں کوئی شعور نہیں اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ ہماری طرح زندہ ہیں اور ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
سوال:ایران سے آنے والے لوگ اکثر اپنے
عزیزوں اور دوستوں کے لئے کچھ تحائف لاتے ہیں جن میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل
ہوتی ہیں جیسے کھجور، مختلف اقسام کی ٹافیاں اور دیگر میٹھی چیزیں اور اسی طرح
وہاں سے بچیوں کے لئے اسکارف وغیرہ بھی لائے جاتے ہیں۔ کیا ان اشیاء کا استعمال
شرک کے زمرے میں آتا ہے نیز ایسی تسبیح کا کیا حکم ہے، اس پر اللہ کا ذکرکرنا کیسا
ہے؟
جواب:اسلامی اعتبار سے کھانے پینے یا پہننے اوڑھنے سے
متعلق جو چیز ہمارے لئے حلال ہو اس کے قبول کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے
کیونکہ یہ تحفہ کے قبیل سے ہے۔اس لحاظ سے اگر شیعہ بھی ایسی کوئی چیز پیش کرے جو
شرعا ممنوع نہ ہو تو بطور تحفہ قبول کرنے میں حرج نہیں ہے۔ ساتھ ہی کھانے پینے کی
چیزوں سے متعلق اس بات پر یقین کر لینا ضروری ہے کہ یہ کسی نسبت کا کھانا یا شرکیہ
و کفریہ عقیدے سے متعلق کوئی کھانا نہ ہو۔گویا جائز چیز کا استعمال، جائز ہوگا،
شرک نہیں کہلائے گا اور شیعہ کی طرف سے پیش کردہ تسبیح پر اللہ کا ذکر کر سکتے ہیں
بلکہ ہم تسبیح کے بارے میں یہ مشورہ دیں گے کہ انگلیوں پر تسبیح پڑھیں کیونکہ
انگلیوں پر تسبیح پڑھنا افضل ہے۔
سوال : جیسے ہم نماز کے بعد دس مرتبہ درود شریف پڑھتے ہیں کیا اسی طرح یہ ذکر بھی دس مرتبہ پڑھنا ہے ، لاالا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت وھو علی کل شی قدیر؟
جواب:نماز کے بعد دس مرتبہ درود پڑھنے کا حدیث میں کہیں
ذکر نہیں آیا ہے بلکہ ایک حدیث آتی ہے جس میں صبح اور شام کے اذکار کے طور پر دس
مرتبہ درود پڑھنے کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔"جو شخص مجھ پر درود بھیجے
دس مرتبہ صبح کے وقت اور دس مرتبہ شام کے وقت تو اس کو میری شفاعت قیامت کے دن پا
لے گی۔" یہ طبرانی کی روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ (5788) میں
ضعیف کہا ہے۔
گویا کہ یہ حدیث قابل عمل نہیں ہے اس لئے اس پر عمل
نہیں کریں گے۔باقی جو دوسرا ذکر آپ نے بیان کیا ہے وہ فجر کی نماز اور مغرب کی
نماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھنا ثابت ہے اس لئے اس ذکر کو آپ فجر و مغرب کی فرض
نماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھا کریں۔
سوال: کیا اسرائیلی مصنوعات استعمال کر
سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کر رہے ہیں اس لئے
اسرائیلی مصنوعات کا استعمال کرنا ان کا ساتھ دینا ہے؟
جواب: کافر حربی ہو یا غیر حربی ہو یعنی ہم سے جنگ کرنے
والا کافر ہو یا جنگ کرنے والا کافر نہ ہو ان لوگوں سے معاملہ کرنا، خرید و فروخت
کرنا، ان سے کچھ بیچنا یا ان سے کچھ خریدنا شرعا جائز ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے کافروں سے سامان خریدا ہے، یہودیوں سے سامان لیا ہے اور کافروں اور
یہودیوں سے مدد بھی لی ہے بلکہ آپ نے مدینہ کے یہودیوں سے معاہدہ بھی کیا تھا۔
ہاں جنگی اسلحے دشمن کافروں کو نہیں بیچنا ہے کیونکہ وہ
اس کا استعمال ہمارے خلاف کرسکتے ہیں۔
باقی دیگر مباح چیزیں ان سے بھی ہم لے سکتے ہیں اور ہم
ان کو دے سکتے ہیں۔
فلسطین کے پس منظر میں یہودیوں کا چہرہ بہت بھیانک اور
ظالمانہ معلوم ہوتا ہے اور فلسطینی مسلمان کے حالات کو دیکھتے ہوئے مختلف ممالک
میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چلی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ
اسرائیلی مصنوعات کو خریدنے سے یہودیوں کی معیشت مضبوط ہوتی ہے اور اسی معیشت سے
وہ ہتھیار خریدتے ہیں اور مظلوموں کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس لئے اگر ہم ان
مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جن سے یہود کو زیادہ مالی مدد ملتی ہے تو یہ اچھی بات ہے
مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ بعض مسلمان صرف کھانے پینے کی چند چیزوں کا بائیکاٹ کرتے
ہیں جبکہ ایک سے ایک مشینری چیزیں ہیں، ایک سے ایک ٹیکنالوجی اور ایک سے ایک نئی
نئی ایجادات اکثر و بیشتر یہودیوں کی ہیں۔ ظاہر ہے ہم اپنی زندگی میں ان ساری
مشینری اور الیکٹرانک چیزوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان سے ہم اپنا دامن بھی نہیں
چرا سکتے۔
گویا بعض اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے یہودیوں کو
کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ بہت ساری ایجادات یہودیوں کی ہیں جن کو ہم چاہ کر بھی
نہیں چھوڑ سکتے، نیز یہودیوں کی مدد کرنے والا اور اسلحے مہیا کرنے والا سپر پاور
امریکہ ساتھ کھڑا ہے۔ لہذا اس معاملے میں میرا تجربہ یہ ہے کہ چند ایک اسرائیلی
مصنوعات کے بائیکاٹ سے یہودیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور شرعا اسرائیلی
مصنوعات کی خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں یعنی آپ کو اس میں کوئی گناہ نہیں ملے
گا۔
سوال: جب ہم کسی غلط رسم و رواج جیسے مہندی ، ہلدی وغیرہ کی رسومات سے متعلق لوگوں کوسمجھاتے ہیں کہ یہ گناہ ہے تو الٹا وہ ہم ہی پر طنز کستے ہیں کہ تم بھی فلاں فلاں کام کرتے ہو ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہوتا ہے کہ جو کسی کو دین
کی صحیح بات بتائی جائےخصوصا کسی برائی اور منکر پر تنبیہ کی جائے تو لوگ الٹا آپ
پہ طنز کریں گے اور آپ ہی کو غلط ٹھہرائیں گے ایسے میں ہمارا کردار کیا ہونا
چاہیے؟
اس مسئلے میں بنیادی چیز یہی سمجھیں کہ ہمارے ذمہ دین
کی دعوت دینا ہے، اس دعوت کو جس پر پیش کی جائے، وہ قبول ہی کرلے ایسا ضروری نہیں
ہے کیونکہ ہدایت و توفیق اللہ کی جانب سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کی قسمت میں ہدایت
نہیں تھی، وہ رسول کی تبلیغ سے بھی ایمان نہیں لا سکے اس لئے ہمیں قطعا اس بات کے
لئے پریشان نہیں ہونا ہے کہ کوئی ہماری بات کو قبول نہیں کرتا۔ ہم دلائل کے ساتھ
حق بات سامنے والے پر پیش کردیں اس سے ہمارا فریضہ ادا ہو جاتا ہے اور ہم عند اللہ
ثواب کے بھی مستحق ہوتے ہیں اور بری الذمہ بھی ہو جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ سماج میں جو غلط رسم و رواج چل پڑے
ہیں، اگر آپ ان رسم و رواج کے خلاف بات کرتے ہیں تو آپ کو نہ صرف طعنہ دیا جائے گا
بلکہ اذیت بھی دی جا سکتی ہے، آپ کا سوشل بائیکاٹ بھی ہو سکتا ہے ، یہ کافی صبر
آزما مرحلہ ہوتا ہے، یہاں پر ہمیں دعوت دین کے راستے میں تکلیف لاحق ہونے پر صبر
کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیساکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں رہنمائی ملتی
ہے اور جس کا ذکر اللہ نے سورۃ العصر میں فرمایا ہے۔
شادی کے موقع پر یہ کسی اور موقع پر جس غلط رسم پر آپ
تنبیہ کریں اس کے بارے میں حکمت و بصیرت اور قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں
بات کریں اور جدل و مناظرہ اورتلخ کلامی سے حتی الامکان پرہیز کریں، ساتھ ہی دعوت
کے لئے ضروری ہے کہ ہمارااپنا کرداربھی اچھا ہو اور ہم خود بھی نیکی کے کام کرتے
ہوں اور برائی سے پرہیز کرتے ہوں۔
سوال: مقام ابراہیم کے بارے میں، میں نے
سنا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو جیسے جیسے ضرورت پڑتی وہ پتھر آپ خود وہاں تک
پہنچا دیتا تھا کیا یہ بات صحیح ہے اور کیا کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے آدم علیہ
السلام نے کی یا فرشتوں نے کی؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خانہ کعبہ ابراہیم علیہ
السلام کی تعمیر سے پہلے تعمیر ہو چکا تھا کیونکہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ
السلام کو پرانی بنیاد پر تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم سب سے پہلے کس نے کعبہ
کی بنیاد رکھی اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ فرشتوں نے اس کی تعمیر کی اور بعض
کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیر کی یعنی تاریخ میں اس طرح کی
باتیں ملتی ہیں مگر اس بارے میں ٹھوس دلیل نہیں ہے۔
جہاں تک مقام ابراہیم کی بات ہے کہ جس پتھر پر ابراہیم
علیہ السلام کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے وہ آپ خود حرکت کرتا اور
ابراہیم علیہ السلام کو وہاں پہنچا دیتا جہاں سے تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی، اس بات
کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سراسر فسانہ اور جھوٹ ہے۔ پتھر جمادات کی قسم میں سے ہے
اور جمادات میں حرکت نہیں ہوتی ہے۔ اس پتھر کے بارے میں یہ بات صحیح ہے کہ آپ اس
پر کھڑے ہوکر کعبہ کی بنیاد تعمیر فرماتے مگر یہ آپ خود حرکت کرتا اور آپ خود
مطلوبہ مقام تک پہنچا دیتا، یہ بات بے دلیل اور بے بنیاد ہے۔
سوال: کیا ہم اپنے بدن کی سرجری کرا سکتے
ہیں جیسے چہرہ، ناک، بریسٹ، پیٹ اور پرائیویٹ پارٹ وغیرہ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ
جیسے کسی کے چہرے کی رنگت اچھی نہ ہو یا ناک موٹی ہو یا پرائیویٹ پارٹ کا شیپ ٹھیک
نہ ہو تو ان صورتوں میں سرجری کرنا کیسا ہے؟
جواب: سوال سے بالکل ظاہر و عیاں ہے کہ مذکورہ اعضاء کی
سرجری خوبصورتی اور حسن میں اضافہ کے لئے کی جانی ہے۔اس معاملہ میں آپ یہ سمجھیں
کہ ضرورت کے وقت سرجری کرنا جائز ہے اور ضرورت یہ ہے کہ سرجری کے بغیر آدمی کا کام
نہ بنے یا بڑے عیب کو دور کرنے کے لئے سرجری کی جائے جیسے ایک صحابی کی ناک کٹ گئی
تھی تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، جب اس میں بدبو پیدا ہو گئی تو پھر بعد میں
سونے کی ناک لگوائی۔(سنن نسائی:5156)
اسی طرح کسی کا چہرہ جل جائے اور چہرہ بدنما معلوم ہو
تو اس کا عیب دور کرنے کے لئے سرجری کر سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس قسم کی ضرورت کے
تحت سرجری کرنا جائز ہے۔
جہاں تک حسن و خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے سرجری کرنے کا
حکم ہے تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کے مترادف ہے اور اللہ
تعالی نے تخلیق میں تبدیلی کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہےاوریہ شیطانی فعل ہے جیسا
کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے۔
ابلیس ملعون کے بارے میں بتلاتے ہوئے فرمان باری تعالی
ہے: وَلآمُرَنَّهُمْ
فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ(النساء:119)
ترجمہ: [شیطان نے کہا]اور میں انہیں ضرور حکم کروں گا
تو وہ اللہ تعالی کی تخلیق میں لازماً تبدیلی کریں گے۔
اسی طرح حدیث رسول میں ہے، سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ لعنت
فرما رہے تھے خوبصورتی کے لیے چہرے سے بال نوچنے والی اور دانتوں میں فاصلہ ڈالنے
والی عورت پر کیونکہ یہ عورتیں تخلیق الہی میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ (بخاری:4507)
مذکورہ بالا قرآنی آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
کوئی بھی مرد و عورت خوبصورتی کے لئے جسم کے کسی حصے کی سرجری نہیں کروا سکتے ہیں
کیونکہ یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہے۔
اور جس خاتون نے چہرے کو اچھا بنانے یا موٹی یا بڑی ناک
کو خوبصورت بنانے یا پرائیویٹ پارٹ کو اچھی شکل دینے کے لئے سرجری کروانے سے متعلق
سوال کیا ہے اس عورت کے لئے اس قسم کی سرجری کروانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ضرورت
میں سے نہیں ہے، یہ خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے ہے اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ
عورتوں میں مغربی تہذیب اور فحش چیزوں کو دیکھ کر پرائیویٹ پارٹ تک کو خوبصورت
بنانے کی فکر پیدا ہو گئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج مسلمان کس راہ پر چل پڑے اور کن لوگوں کی نقالی کرنے
لگے، ایک مسلمان کو اپنا کردار خوبصورت بنانا چاہیے، اس کو اپنا عمل خوبصورت بنانا
چاہیے اور اس کو اپنے صبح و شام اور صبح و شام کے اعمال و معاملات خوبصورت و بہتر
بنانا چاہیے۔
سوال: غسل کرنے کے بعد جو وضو غسل کے
شروع میں کئے تھے اسی سے نماز ادا کریں یا پھر سے وضو کریں؟
جواب: اگر کسی نے غسل سے پہلے وضو کیا پھر غسل کیا تو
آدمی اسی وضو سے نماز ادا کر سکتا ہے لیکن ایک شرط ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ غسل کرتے
ہوئے یا غسل کے بعد اس نے بغیر پردے کے شرمگاہ کو ہاتھ نہیں لگایا ہو کیونکہ بغیر
پردے کے شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اور عموما غسل کرتے وقت لوگ پورے بدن پر ہاتھ پھیرتے
ہیں اور صابن لگاتے ہیں جس کی وجہ سے شرمگاہ کو ہاتھ لگتا ہے، اگر غسل کے دوران
ایسا ہوا ہو تو پھر وہ وضو باقی نہیں رہے گا اور نماز کے لئے پھر سے وضو کرنا پڑے
گا۔
سوال: میں بہت پریشان ہوں کیونکہ میری
نماز قبول نہیں ہو رہی ہے مجھے نماز میں نیند آنے لگتی ہے اور بھول و سستی بھی ہو
جاتی ہے اور میری دعا بھی قبول نہیں ہوتی ہے اس بارے میں میری رہنمائی کریں؟
جواب: ہمارے اور آپ کے ذمہ اللہ کی بندگی کرنا جس طرح
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے، رب کی بندگی کی ہے اور اس سے دعائیں مانگنا ہے۔
نماز کو اور دعا کو قبول کرنے والا اللہ رب العالمین ہے
اور یہ یقین رکھیں کہ جو بھی عبادت اخلاص کے ساتھ اور سنت کے مطابق انجام دی جائے
وہ عبادت اللہ کی یہاں مقبول ہے اور ہم جو کچھ بھی اللہ رب العالمین سے دعائیں
مانگتے ہیں وہ ساری قبول ہوتی ہیں۔ ممکن ہے بعض دعائیں دنیا ہی میں قبول کر لی
جائیں اور بہت ساری ہماری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ کرلی جاتی ہیں، ہماری کوئی بھی
دعا رائیگاں نہیں جاتی۔
لہذا ہمیں نہ اپنی نماز کی قبولیت کے لئے پریشان ہونا
ہے اور نہ اپنی دعا کی قبولیت کے لئے پریشان ہونا ہے۔ آپ اخلاص کے ساتھ سنت کے
مطابق اللہ کی بندگی کرتے رہیں اور اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہیں نیز جو
کام ہماری عبادتوں کو رائیگاں کرنے والا ہے اس سے بچیں یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو
شریک بنانے سے بچیں کیونکہ یہ ہمارے اعمال کو برباد کرنے والا ہے۔
نیند کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ رات میں بھرپور نیند لیں
ان شاءاللہ نیند کی پریشانی ختم ہو جائے گی اور نیند کی وجہ سے جو سستی و کاہلی
پیدا ہوتی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔
سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ فرمانِ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:رسول اللہﷺ نے فرمایا: صبح کا سونا رزق کو روک
دیتا ہے۔(مسنداحمد:530)
جواب: یہ حدیث مسند میں اس طرح سے موجود ہے۔
عن عمرو بن عثمان بن عفان ، عن ابيه ، قال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم:الصبحة تمنع الرزق۔
ترجمہ: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے
محروم ہو جاتا ہے۔
یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے، شیخ البانی نے ضعیف الترغیب
اور ضعیف الجامع میں بہت ہی ضعیف کہا ہے اور مسند احمد کی تخریج میں شعیب ارناؤوط
نے کہا کہ یہ بہت ہی ضعیف ہے بلکہ موضوع کے مشابہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے
اسے موضوع بھی کہا ہے جیسے صغانی نے الموضوعات میں موضوع کہا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ صبح کے
وقت سوئے رہنے سے آدمی رزق سے محروم ہو جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی
فجر کی نماز چھوڑ کر صبح میں سویا رہے، آدمی سویرے سوئے اور فجر کے وقت بیدار ہو
کر جماعت سے فجر کی نماز ادا کرے۔ہاں فجر کی نماز کے بعد آدمی کو سونے کی ضرورت ہو
تو وہ سو سکتا ہے۔
سوال: آن لائن انسٹیٹیوٹ میں یعنی جو آن
لائن مدرسے چلاتے ہیں ان میں تعاون کے طور پر زکوۃ کا پیسہ دے سکتے ہیں؟
جواب: کسی بھی آن لائن انسٹیٹیوٹ کو زکوۃ دینا جائز
نہیں ہے، آن لائن انسٹیٹیوٹ والے فیس لےکر لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں، نیز نہ ان کے
پاس زکوۃ کا کوئی مصرف ہے اور نہ ہی آن لائن انسٹیٹیوٹ زکوۃ دینے کا ادارہ ہے۔زکوۃ
کے آٹھ مصارف قرآن میں مذکور ہیں انہی آٹھ مصارف میں زکوۃ صرف کی جا سکتی ہے۔ زکوۃ
کے مصارف اور ان کی تفصیل جاننے کے لئے سورہ توبہ کی ساٹھ نمبر کی آیت اور اس کی
تفسیر دیکھیں۔
سوال: مہاراشٹر حکومت کے چیف منسٹر نے ماجھی لاڈکی بہین یوجنا کا اعلان کیا ہے جس میں پندرہ سو روپے ماہانہ براہ راست خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے جارہے ہیں تو کیا اس رقم کو لینا درست ہے؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے ماجھی لاڈلی
بہین یوجنا کا اعلان کیا ہے، اس اعلان کے تحت خاتون کو پندرہ سو روپیے ماہانہ دئے
جائیں گے۔ تحقیق سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن خاندان کی سالانہ آمدنی ڈھائی
لاکھ روپے سے کم ہوگی اور جن کے پاس پیلا یا اورینج راشن کارڈ ہو گا اسی خاندان کی
خاتون کو اس اسکیم کا فائدہ ملے گا۔
لہذا اگر واقعی حکومت کی شرائط میں یہ بات بھی درج ہے
تو اس شرط پر پورا اترنے والی خاتون اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتی ہے لیکن جو خاتون
اس شرط پر پورا نہ اترتی ہو اس کا فرضی طریقہ سے جھوٹے کاغذات بنا کر یہ اسکیم
لینا جائز نہیں ہوگا۔
مختصر الفاظ میں یہ سمجھیں کہ حکومت نے جن شرائط کی
بنیاد پر یہ اسکیم لائی ہے، ان شرائط پر جو بھی خاتون اترتی ہو اس کے لئے اس اسکیم
سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے حکومت کا عوام کے ساتھ
تعاون ہے اور مستحق خاتون کا اس تعاون سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
سوال: عام حالات میں صبر کی دعا کرسکتے
ہیں، قرآنی دعا یا اپنی زبان میں کہ یا اللہ! مجھے صبر دےمثلااگر کوئی کسی تکلیف
میں یا آزمائش میں مبتلا ہو تو کیا وہ دعا کر سکتا ہے کہ یا اللہ مجھے صبر عطا
فرما؟
جواب: تکلیف کے وقت صبر کرنا مومن کا خاصہ ہے اور مومن
ایسے وقت میں اللہ تعالی سے صبر کی دعا مانگ سکتا ہے کیونکہ صبر کی دعا مانگنے میں
شرعی طور پر کوئی حرج نہیں ہے اس لئے جو کوئی کسی مصیبت میں یا آزمائش میں مبتلا
ہو وہ بلاشبہ اللہ تعالی سے اس قسم کی دعا کر سکتا ہے کہ اے اللہ مجھے اس مصیبت
میں صبر دے یا اس آزمائش میں صبر کی توفیق عطا فرما۔
سوال: میں نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا کہ
مصیبت آنے سے پہلے صبر کی دعا کرنے کا مطلب ہے پہلے اپنے لئے مصیبت مانگنا پھر اس
پر صبر مانگنا ہے۔ کیا مصیبت کے آنے سے پہلے صبر کی دعا نہیں مانگ سکتے؟
جواب: جب کوئی کسی مصیبت یا پریشانی میں ہوتا ہے اس وقت
وہ اللہ تعالی سے صبر کی دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ! مجھے صبر دے اور جو مصیبت میں
مبتلا نہ ہو وہ بھلا ایسی دعا کیوں کرے گا کہ اے اللہ! مجھے صبر دے۔
تاہم اس طرح کی دعا ہم کر سکتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں
مصیبت میں صبر دے۔ اس دعا کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کبھی مصیبت آئے تو اللہ تعالی
ہمیں صبر دے گا۔ یہ دعا ٹھیک اسی طرح ہے جیسے ہم اللہ تعالی سے دعا مانگتے ہیں اے
اللہ! ہمیں آزمائش سے بچا، اے اللہ! ہمیں مصیبت سے بچا یعنی آزمائش اور مصیبت آنے
سے پہلے اللہ تعالی سے اس سے بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔
سوال: ایک لڑکی کی شادی ہوئی ہو پھر اس
کا شوہر فوت ہو جائے اور وہ حصہ لئے بغیر دوسری شادی کر لے تو کیا پھر بھی دوسری
شادی کرنے کے بعد پہلے شوہر کی جائیداد میں حصہ رہے گا؟
جواب:جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس حال میں کہ وہ
عورت شوہر کی بیوی تھی اور میاں بیوی میں طلاق یا خلع وغیرہ کے ذریعہ جدائی نہیں
ہوئی تھی تو ایسی صورت میں اس عورت کو شوہر کی جائیداد سے حصہ ملے گا چاہے وہ عورت
دوسری جگہ شادی کرلے یا شادی نہیں کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سوال: ایک لڑکے کا نکاح مولوی نے پڑھایا
لیکن لڑکی کا نکاح باپ نے پڑھایا اور نام میں کچھ مسٹیک کر دیا مثلا باپ کا جو نام
ہے وہ صحیح سے نہیں لیا اور شادی کو ایک سال ہو گیا، اب جاکرپتہ چلا ہے تو کیا یہ
شادی صحیح ہے؟
جواب: لڑکے کا نکاح پڑھاتے وقت لڑکے کے نام میں یا اس
کی ولدیت بولنے میں لفظی طور پر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں
پڑتا ہے۔ جس لڑکی کا نکاح ہونا تھا اس کی طرف سے ولی راضی تھا اور اس لڑکی کا
اعتبار کرکے اس کے ولی کی طرف سے نکاح خواں نے لڑکے سے نکاح کے لئے قبول کروایا
گیا، عقد نکاح کے وقت یہی ایجاب و قبول ہی نکاح کا نام ہے اور نام بولنے میں لفظی
خطا کوئی مسئلہ نہیں ہے، نکاح اپنی جگہ پر درست ہے۔
جہاں تک لڑکی کے نکاح پڑھوانے کا مسئلہ ہے تو یہ اپنے
معاشرے کا فضول طریقہ ہے، اس رواج کا نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نکاح میں لڑکی کی
خاموشی ہی اس کی رضامندی ہے اور اس لڑکی کی طرف سے اس کا ولی لڑکے سے نکاح کروائے
گا اور اگر کسی نے لڑکی کا بھی نکاح پڑھایا اور وہاں پر نام بولنے میں کچھ غلطی ہو
گئی تو بھی اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، نکاح اپنی جگہ درست ہے۔
سوال : فرض عین اور فرض کفایہ میں کیا
فرق ہے اور کیا قرآن کی تجوید سیکھنا فرض عین ہے؟
جواب: فرض عین کا مطلب ہوتا ہے ہر کسی پر فرض ہے اور
فرض کفایہ کا مطلب ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اگر فرض کو ادا کرلیں تو سب کی طرف سے فرض
ادا ہو جاتا ہے جیسے جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے، اگر گاؤں کے چند لوگ ادا کرلیتے
ہیں تو پورے گاؤں کی طرف سے فرض ادا ہو جاتا ہے ۔
اور قرآن کی تجوید سیکھنا فرض عین نہیں ہے یعنی تجوید سیکھنا فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ یہ عمل فقط استحباب کا درجہ رکھتا ہے ۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی تجوید واجب نہیں ہے، تجوید فقط لفظ کا حسن ہے اور قرآنی الفاظ کا حسن بلاشبہ خیر ہے اور حسن قرات کا اکمال ہے لیکن جو تجوید سے قرآن نہ پڑھے ہم اس کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ گنہگار ہے کیونکہ یہ بات بلا دلیل ہے۔ گویا شیخ تجوید قرآن کو واجب قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ مزید یہ بھی فرماتے ہیں کہ حرکات کو قائم رکھا جائے اور جیسے حروف ہیں ٹھیک اسی طرح ان کا نطق واضح کیا جائے مثلا راء کو لام نہ پڑھا جائے اور ذال کو زاء نہ پڑھا جائے یعنی اس طرح کی چیزیں ممنوع ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔