﷽
آپ کے سوالات اور ان کے
جوابات(16)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
سوال: ایک شوہر اپنا، اپنی بیوی کا، اپنے
بچوں کا، فلیٹ کا، گھر کا اور اپنی جاب اور گاڑی کا ہر ماہ صدقہ نکالتا ہے ، کیا
صدقہ نکالنے کا یہ طریقہ درست ہے ؟
جواب:انسان کے جسم کے ہر عضو پر صدقہ ہے اور یہ صدقہ کس
طرح سے ادا کریں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ بیان کیا ہے۔سیدنا
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يصبح على كل سلامى من أحدكم صدقة، فكل تسبيحة صدقة وكل
تحميدة صدقة وكل تهليلة صدقة وكل تكبيرة صدقة وأمر بالمعروف صدقة ونهي عن المنكر
صدقة، ويجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی:
577)
ترجمہ:تم میں سے ہر شخص کے ہر عضو پر صدقہ (واجب) ہے،
ہر مرتبہ «سبحان الله» کہنا صدقہ ہے اور ہر مرتبہ «الحمدلله» کہنا صدقہ ہے اور ہر
مرتبہ «لا إله إلا الله» کہنا صدقہ ہے اور ہر مرتبہ «الله اكبر» کہنا صدقہ ہے،
نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے وہ دو رکعتیں
کافی ہو جائیں گی جو کوئی شخص چاشت کے وقت ادا کرے گا۔
لہذا ایک آدمی اپنی جانب سے ہر عضو کا صدقہ ادا کرنے کے
لئے روزانہ چاشت کی دو رکعت نماز ادا کیا کرے۔باقی اللہ تعالی نے کسی انسان کو مال
دیا ہے تو ہر روز یا ہر ہفتہ یا ہر مہینہ یا جب بھی اسے میسر ہو اور جتنا میسر ہو
اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے صدقہ کیا کرے لیکن اس طرح سے نیت کر کےکسی کا صدقہ نکالنا کہ اس کا ، اس کے گھر کا، اس کے
بچوں کا، بیوی کا، گاڑی کا، جاب کاصدقہ اس
پر واجب ہے، اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے گھر یا گاڑی یا جاب کے نام سے
صدقہ نکالنا درست نہیں ہے ۔وہ عمومی انداز میں اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے
جس قدر صدقہ کرنا چاہیے، مہینے میں کرنا چاہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، روزانہ کرنا
چاہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اور اگر صدقہ کبھی نہیں بھی کرپائے توبھی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ صدقہ کرنانفلی عبادت ہے، واجب نہیں ہے البتہ جس
مال میں زکوۃ فرض ہوتی ہو اس کی زکوۃ ادا
کرنا واجب ہے۔
سوال: دن یا رات میں بارہ بجے نماز نہیں
پڑھنا چاہئے، ایسا لوگ بولتے ہیں ، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ بارہ
بجے دن میں یا بارہ بجے رات میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، یہ لوگوں کی
غلط فہمی ہے۔ہاں صحیح حدیث میں یہ بات ہے کہ تین اوقات میں نفل نماز پڑھنا منع ہے۔
ایک وقت، جب سورج نکل رہا ہو ، دوسرا وقت ،جب سورج سر کے اوپر بیچ آسمان میں ہو اور تیسراوقت ، جب سورج ڈوب رہا ہو۔
ان تین اوقات میں نفلی نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر آپ
کی فرض نماز باقی ہے تو اسے کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں خواہ سورج نکل رہاہو، زوال کا وقت ہو یا سورج
ڈوب رہا ہو یا بارہ بجے دن یا بارہ بجے رات ہوحتی کہ سبب والی نماز یں جیسے تحیۃ المسجد، وضو کی سنت اور طواف کی سنت
وغیرہ بھی چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت
ادا کر سکتے ہیں۔
سوال: مسجد کے ایک حصے میں عوام کے لئے
قبرستان ہوتا ہے اور کچھ مسجدوں کے حصے میں ایک یا دو یا کچھ پکی قبر بنی ہوتی ہے
تو کیا ایسی مسجدوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:سب سے
پہلے آپ مسجد کو سمجھیں یعنی جو نماز پڑھنے کی جگہ ہے اور مسجد کے لئے جو احاطہ
اور باؤنڈری بنائی گئی ہے اگر اس مسجد کے احاطہ میں قبرستان ہو یا قبر ہو تو اس
مسجد میں نماز پڑھنا بالکل بھی جائز نہیں ہےلیکن اگر مسجد الگ ہو اور قبرستان الگ
ہو، گرچہ قبرستان مسجد سے چھٹا ہوا ہو لیکن مسجد کا جو احاطہ ہے وہ قبرستان سے الگ
ہے تو ایسی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں نیز جس مسجد میں ایک قبر ہو یا دو قبر ہو
یعنی مسجد کے احاطے میں قبر موجود ہو تو ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
سوال: اگر مرد داڑھی نہیں رکھتا ہے تو
کیا اس سے سوال ہوگا اور اس کو گناہ ملے گا؟
جواب:مرد کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے اور واجب اس عمل کو کہتے
ہیں جسے شریعت نے لازمی طور پر انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔ جو آدمی اس پر عمل کرتا
ہے وہ واجب کو ادا کرتا ہے اور اسے ثواب ملے گا اور جو نہیں واجب کو چھوڑ دیتا ہے
وہ گنہگار ہے اسے سزا ملے گالہذا وہ مرد جو داڑھی مونڈتاہے وہ واجب کا تارک ہے، ایسا
شخص اللہ کی نظر کی گنہگار ہے اور اس کو سزا ملے گی ۔
سوال: اگر ہم درس قرآن دے رہے ہیں یا
قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں اور اذان
ہونے لگے تو کیا یہ کام روک دینا چاہئے
اور اذان کا جواب دینا چاہئے؟
جواب:اس مسئلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے
کہ اذان کے جواب دینے کا حکم کیا ہے؟ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اذان کا جواب دینا
مسنون ہے یعنی واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی اذان کا جواب نہیں دے تو گنہگار نہیں ہوگا
لیکن جو اذان کا جواب دے گا اس کو بہت اجر و ثواب ملے گا نیز ضرورت کے وقت آدمی
اذان کا جواب دئے اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے ۔
اس مسئلہ کو جاننے کے بعد اب اگر کوئی آدمی درس قرآن دے رہا ہے، وہ چاہے تو درس قرآن کو
جاری رکھ سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو درس قرآن کو بند بھی کر سکتا ہے تاہم ضرورت
کے پیش نظر دوران اذان اپنے درس کو سمیٹ لے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ پھر لوگ نماز کی
تیاری کریں اور اول وقت پر نماز ادا کریں۔
اور جہاں تک تلاوت کا معاملہ ہے تو یہ انفرادی چیز ہے۔
درس تو اجتماعی معاملہ تھا، کئی سارے لوگ اس سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے درس میں لوگوں کا خیال کرتے ہوئے درس
جاری رکھ سکتے ہیں یا ختم کرسکتے ہیں لیکن تلاوت انفرادی ہے لہذا آدمی کو چاہیے کہ
تلاوت روک دے اورخاموشی سے اذان سنے اور
اذان کے کلمات کا جواب دے، یہ بہتر ہے
لیکن اگر تلاوت جاری
بھی رکھتا ہے کوئی حرج نہیں ہے مگر بہتر اور افضل ہے کہ
تلاوت بند کر کے اذان کا جواب دے۔
سوال:اگرکوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا
ہے تو اسے (لا الہ الااللہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ ) پڑھائیں گے یا اشھد ان لا
الہ الااللہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ) اور اسی طرح موت کے وقت دونوں کلموں میں
سے کس کلمے کو پڑھنا ہے اور تلقین کرنا ہے؟
جواب:یہ دونوں کلمہ ہی ہیں اس لئے اسلام میں داخل ہوتے
وقت یا موت کے وقت" لا الہ الااللہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ " پڑھائیں
یا اشھد ان لا الہ الااللہ واشھد ان محمدا
رسول اللّٰہ پڑھائیں دونوں اپنی جگہ درست ہیں تاہم اسلام لاتے وقت بہتر و افضل اشھد ان لا الہ
الااللہ واشھد ان محمدا رسول اللّٰہ پڑھنا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہوتا ہے میں گواہی
دیتا ہوں اور کلمہ پڑھنے والے کو گواہی دینے کی ضرورت ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ
اسلام میں داخل ہوتے وقت احادیث میں اشہد
والے کلمہ کا ذکر ملتا ہے۔اور موت کے وقت آدمی مشکل میں ہوتا ہے اس وجہ ہے اس وقت آسان کلمہ لاالہ الا اللہ کی
تلقین کرنا چاہئے جیساکہ حدیث رسول میں ہے ، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
لَقِّنُوا مَوْتاكُمْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ( صحيح
مسلم:917)
ترجمہ: اپنے مرنے والے لوگوں کو لاالٰہ الا اللہ کی
تلقین کرو۔
سوال: میرا بیٹا کافی شاپ پہ کام کرتا ہے
اور اس کو میڈیکل ملتا ہے توکیا وہ میڈیکل استعمال کرسکتا ہے؟
جواب:آپ کا سوال یہ ہے کہ آپ کا بیٹا کافی شاپ پر کام
کرتا ہے اور اسے لوگوں کی طرف سے یا دکان مالک کی طرف سے دوا ملتی ہے، آپ یہ پوچھنا
چاہتے ہیں کہ اس دوا کو آپ کا بیٹا استعمال کر سکتا ہے کہ نہیں؟
اگر یہ دوا ،کافی شاپ پر کام کرنے والے لوگوں کے لئے ہے
تو آپ کے بیٹے کے لئے اس کا استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ یہ انہی لوگوں کے لئے ہے
لیکن اگر یہ کام کرنے والوں کے لئے نہیں ہے بلکہ شاپ مالک کے لئے ہے یا دوسرے
لوگوں کے لئے ہے تو پھر بغیر اجازت اس دوا
کا استعمال کرنا آپ کے بیٹے کے لئے جائز نہیں ہے۔
سوال: شیعہ کو گھر کرایہ پر دے سکتے ہیں
جبکہ سات اور لوگ کرایہ کے لئے انتظار میں ہیں جو شیعہ نہیں ہیں ؟
جواب:شیعہ کو اپنا مکان کرائے پر دے سکتے ہیں، اس میں
کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن مکان بہتر آدمی کو دیں تو زیادہ اچھا ہے اور بہتر
آدمی کا مطلب یہ ہے کہ اچھے مسلمان کو دیں جو مشرک و بدعتی نہ ہو، جو آپ کے گھر
میں نماز پڑھے، تلاوت کرے، اللہ کا ذکر کرے۔ اس سے آپ کا گھراللہ کےذکر سے آباد رہے گاتاہم شیعہ کو بھی گھر کرائے پر دے
سکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے۔
سوال: حق مہر معاف کرنے کی کیا فضیلت
ہےاور کن صورتوں میں حق معاف کرنا ہوتا ہے اور حق مہر زیادہ لکھوایا جائے تو
لکھواسکتے ہیں؟
جواب:مہر بیوی کا مالی واجبی حق ہے جو شوہر کے ذمہ ہے
اور اللہ تعالی نے یہ حق بیوی کو اس لئے دیا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے، نہ کہ
اسے معاف کرنے کے لئے یہ حق دیا ہے۔ہاں یہ الگ مسئلہ ہے کہ بیوی اگر چاہے تو بغیر
جبر و تشدد کے اپنی رضامندی سے جس قدر
معاف کرنا چاہے، معاف کر سکتی ہے، خواہ مکمل یا تھوڑا بہت۔ اور مہر معاف کرنے کی حدیث
میں کوئی فضیلت وارد نہیں ہے، یہ بیوی کا
حق ہے بیوی کو چاہئے کہ اپنا حق شوہر سے حاصل کرلے ۔
جہاں تک مہر کے طور پر زیادہ رقم لکھوانے کا معاملہ ہے
تو اس میں شرعی حکم یہ ہے کہ جو عرف اور سماج کے اعتبار سے معاشرے میں مہر ہوتا ہے
یا جو شوہر کی استطاعت ہے اس حساب سے مہر ہونا چاہیے لیکن اگر کوئی شوہر کی
استطاعت یا عرف کے اعتبار سے زیادہ لکھوائے تو یہ ظلم ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
سوال: میری ایک سہیلی اس ہفتہ عمرہ پہ
جائے گی، اس کی طرف سے سوال ہے کہ وہ پیریڈ میں ہے ، وہ مکہ پہنچنے کے ایک دن بعد پاک ہوگی تو کیا اس کو
مسجد عائشہ سے پھر سے احرام باندھنا ہوگا؟
جواب:آپ اپنی دوست سے کہیں کہ وہ فلائٹ میں احرام
باندھنے کے ارادے سے بیٹھے اور جب میقات
پر پہنچے تو فلائٹ ہی میں میقات کے آس پاس عمرہ کی نیت کر لے اور عمرہ کی نیت کرنے
سے وہ احرام میں داخل ہو جائے گی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ حیض کی حالت
میں ہے یعنی وہ حیض کی حالت میں احرام باندھ سکتی ہے۔پھر وہ مکہ آئے اور جب حیض سے
پاک ہو جائے تو غسل کرکے حرم جا کر عمرہ
کرے، اسے مسجد عائشہ یا کسی میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ احرام ہی
میں ہے اور وہ ممنوعات احرام کی پابندی کرتی رہے گی۔نیز اسے یہ بھی معلوم رہے کہ
احرام میں عورت کے لئے نقاب وبرقع اور دستانہ لگانا منع ہے لہذا عمرہ کا احرام
باندھتے وقت سے ہی نقاب ہٹادے گی اور بڑی چادرسے سر، چہرہ اور ہاتھوں کا پردہ کرے
گی ۔
سوال:ایک مسلم گھرانے میں کرسچین ملازمہ
ہے جو کھانا پکانا، برتن دھونا، غرض گھر کا پورا کام کرتی ہے، کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب:عیسائی ملازمہ سے کھانا بنوانے اور برتن دھلوانے
یا گھر کا کام کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ غیر مسلم سے گھریلو کام یا پکانے کا
کام لے سکتے ہیں تاہم اس کام کے لئے اگر مسلم خادمہ ہو تو زیادہ بہتر ہے تاکہ
اسلامی اعتبار سے صفائی ستھرائی کا خیال کرے اور اپنے کام اور دین کے معاملہ میں
امین اور صادق ہو۔اگرکوئی عیسائی ملازمہ رکھنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں
ہے تاہم اس خادمہ کو دین اسلام سے بھی واقف کراتے رہا جائے اور اسلام کی دعوت دیتے رہا جائے ممکن ہے اللہ تعالی اسے ہدایت دیدے اور اسلام
میں داخل ہو جائے۔
سوال: رکاز کے لئے نصاب متعین نہیں تو
کیا جس قدر بھی خزانہ نکلے اس کا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہوگا؟
جواب:سب سے پہلے رکاز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ زمین سے
ملنے والا ہر قسم کا خزانہ رکاز نہیں ہے بلکہ رکاز وہ مدفون خزانہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں دفن کیاگیاہو یعنی جب
کسی کو زمین سے کوئی مدفون خزانہ ملے اور اس پر ایسی کوئی علامت ہو جس سے پتہ چلے
کہ یہ اسلام سے پہلے کا خزانہ ہے تو ایسے مدفون خزانے کو رکاز کہیں گے۔صحیح بخاری میں امام مالک اور
امام شافعی رحمہما اللہ نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے اس میں تھوڑا مال
نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا اور کان رکاز نہیں ہے۔
اور رکاز کے لئے کوئی نصاب متعین نہیں ہے یعنی جو کچھ
بھی زمین سے رکاز نکلے اس کا پانچواں حصہ نکالنا پڑے گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے: وفي الركاز الخمس
(صحيح البخاري:1499)
ترجمہ: اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے۔
پھر اس معاملے میں اختلاف ہے کہ یہ پانچواں حصہ بحیثیت
زکوۃ ہے یا مال فیء ہے؟
بہر کیف! یہ طے ہے کہ رکاز سے پانچواں حصہ نکالا جائے
گا اور نکالا جانے والا حصہ اس لئے زیادہ ہے کیونکہ بغیر محنت کے یہ خزانہ ملتا
ہے۔
سوال: باپ کے مرنے کے بعد جو وراثت کا
حصہ بچوں کے حصے میں آتا ہے اگر اس کا کوئی گھر لے لیا جائے اور کچھ عرصے بعد اسے بیچیں تو اس کا منافع بھی بنے
گا ۔ ایسے میں منافع میں بھی اس کا حصہ ہوگا؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی کا باپ مر جائے
اور باپ وراثت میں جو کچھ چھوڑ جائے اس وراثت کو تدفین کے بعد فورا اسی وقت تمام
وارثوں میں تقسیم کرکے ان سب کو اپنا اپنا حصہ دے دینا چاہیے، وارثوں کے حصوں کو گڈمڈ کرکے نہیں رکھنا چاہئے۔ سبھی کا
حصہ الگ الگ ہو اور ہر کوئی اپنے حصے میں اپنا کام کرے ۔
سوال میں پوچھاگیا ہے کہ بچوں کے حصوں سے ایک مکان خرید
لیا گیا پھر اگر اس کو زیادہ قیمت پر بیچاجائے تو بچوں کو اتنا ہی پیسہ ملے گا
جتنا مکان خریدنے میں لگاتھا یا پھر زیادہ قیمت ملنے پر اس میں بھی حصہ ہوگا؟
اگر باپ کی جائیداد سے
دوسرے وارثین اپنا اپنا حصہ لے چکے ہیں ، یہ مکان صرف چند چھوٹے بچوں کے
حصوں سے خریدا گیا تو یہ مکان صرف انہیں چند بچوں کا ہے جن کے پیسوں سے خریدا گیا،
اس مکان میں دوسرے کسی فریق یا کسی اور وارث کا حصہ نہیں ملے گا۔ اب مکان زیادہ
قیمت پر بکے یا کم قیمت پر بکے ، یہ سارا پیسہ ان بچوں کاہے جن کے پیسوں سے مکان
خریدا گیا ہے۔
سوال:میری مرحوم پھوپھی کے لئے ان کے گھر
والے قرآن پڑھ کر بخشنے کا پروگرام رکھے اور آنے والے سبھی لوگوں کو دعوت بھی دیا
۔ ہم لوگ تو نہیں گئے لیکن ان لوگوں نے ہمارے گھر کھانا بھیجا تو اس کھانے کا
کھانا بھی جائز نہیں ہے نا، اور کھانے کو پھینکنے سے گناہ ہوگا؟
جواب:میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرنا بدعتی
عمل ہے اور اس عمل میں نہ ہمیں شریک ہونا چاہیے، نہ اس تعلق سے بنا ہوا کھانا
کھانا چاہیے۔اگر آپ کا کوئی رشتہ دار قرآن خوانی کا کھانا آپ کے گھر بھیجتا ہے تو
آپ صاف صاف انکار کریں اور کہہ دیں کہ یہ
کھانا جائز نہیں ہے، آپ ان سے کہیں کہ بلا شبہ ہمیں دوسرے موقع پر دعوت کرکے
کھلائیں، ہم ضرور آپ کا کھانا کھائیں گے لیکن قرآن خوانی کا کھانا جائز نہیں ہے۔
آپ نے جو سوال کیا کہ آپ کا رشتہ دار گھر کھانا بھیج دیا تو کیا اس کا پھینکنا
گناہ ہے؟
میں کہتا ہوں آپ وہ کھانا قبول ہی کیوں کریں گے، ظاہر
سی بات ہے، آپ جب کھانا قبول کریں گے، تب وہ کھانا آپ کے گھر آئے گا اور جب قبول
نہیں کریں گے تو وہ کھانا آپ کے گھر نہیں آئے گا لہذا شرعی لحاظ سے آپ شرعی ذمہ
داری انجام دیں یعنی بدعتی عمل کی نسبت کا کھانا قبول ہی نہیں کریں۔
سوال: گاؤں کے روڈ پر سے ٹرک گزرنے کی
وجہ سے بجلی کی لائن ٹوٹ گئی، گاؤں والوں نے ڈرائیور کو گھیر لیا، بات پولیس تک
پہنچائی اور ڈرائیور سے 20000 کا مطالبہ کیا، پیسہ کم کراتےہوئے ڈرائیور کو بالآخر 10 ہزار ، پھر
9000 پر راضی کیا۔بعد میں بجلی کی لائنیں بنوائی گئی تو خرچہ فقط ایک ہزار ہواایسی
صورتحال میں گاؤں والوں کو کیا کرنا چاہیے تھا اور ڈرائیور سے جو پیسہ لیا گیا وہ
جائز ہے؟
جواب:اس مسئلہ میں اگر پولیس کو خبر کر دی گئی تو پھر یہ پولیس گیس
تھا، پولیس اپنے حساب سے اس مسئلہ کو حل کرتی ۔اور جب گاؤں والوں اپنے حساب سے اس
مسئلہ کو حل کرنا تھا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ بجلی مستری بلاکر اس کے ذریعہ کام
کروایا جاتا اور اس جو اس میں مزدوری و صرفہ آتا اس ڈرائیور سے لے لیا جاتا ہے، یہ
منصفانہ طریقہ تھا مگر من مانی طریقے سے جبرا زیادہ پیسہ وصول کرنا ایک آدمی کے ساتھ زیادتی ہے۔
سوال: میرے رشتہ دار عمرہ ویزہ پر جدہ
آئے ہوئے ہیں، وہ تین ماہ یہاں رہیں گے اگر وہ عمرہ کریں تو کیا انہیں باربار مسجد
عائشہ جانا پڑے گا یا پھر جدہ سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں؟
جواب:جو آدمی کسی دوسرے ملک سے آکر جدہ میں مقیم ہے اور
وہ جدہ میں رہتے ہوئے عمرہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی رہائش سے یعنی جدہ ہی سے
احرام باندھ کر مکہ جانا ہے اور پھر عمرہ کرنا ہے، اس کو مسجد عائشہ سے احرام نہیں
باندھنا ہے ورنہ دم لازم آئے گا کیونکہ وہ اس صورت میں اس جگہ سے احرام نہیں باندھ
رہا ہے جہاں سے اسے احرام باندھنا تھابلکہ آگے جاکر احرام باندھ رہاہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک دن میں کئی بار یا ایک مرتبہ
میں بار بار عمرہ کرنا سنت کی خلاف ورزی ہے۔ آدمی کو ٹھہر ٹھہر کر اور کچھ دنوں کے
وقفہ کے ساتھ عمرہ کرنا چاہیے۔
سوال: میں نے سنا ہے کہ مرنے والے کا
مرنے سے چالیس دن پہلے اعمال نامہ بند کردیا جاتا ہے؟
جواب:جس نے یہ کہا کہ مرنے سے چالیس دن پہلے اعمال نامہ بند کر دیا جاتا ہےاس نے
جھوٹ بولا ہے کیونکہ قران و حدیث میں ایسی
کوئی بات مذکور نہیں ہے لہذا کسی مسلمان کو بغیر دلیل کے اس قسم کی جھوٹی باتیں
کرنا گناہ کا باعث ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں قرآن میں حکم دیا ہے کہ تم ایسی بات مت
بولو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ ہے اس وقت تک اس کا عمل
جاری رہتا ہے بلکہ نبی ﷺ
نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ انسان آخری وقت میں جس
عمل پر مرتا ہے اسی عمل کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
وإنَّما الأعْمَالُ بالخَوَاتِيمِ(صحيح البخاري:6607)
ترجمہ: بلاشبہ عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔
نیز ایک
دوسری حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مرتا ہے اس وقت اس کا عمل
منقطع ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنْه عَمَلُهُ إِلَّا
مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِن صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ،
أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو له.(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ:جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا
ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ
اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔
سوال: اذان کے وقت ایک اذان کا جواب دینے
لگتے ہیں ، دوسری طرف سے بھی اذان سنائی دیتی ہے، کئی آواز آتی ہے کیسے جواب دیں ؟
جواب:مسلم علاقوں میں ایک وقت میں کئی اذانیں ہوتی ہیں تو آپ سے جس قدر اور جتنی اذانوں کا جواب دینا ممکن ہوسکے اس قدر اذان کا جواب دیا کریں۔ جتنا زیادہ جواب دیں گے اتنا زیادہ آپ کو ثواب ملے گا۔
گویا حسب استطاعت جس قدر اذان کا جواب دے سکتے ہیں، آپ
اپنی استطاعت کے حساب سے جواب دیا کریں،اس میں اورکوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک آدمی
دین پر اسی قدر عمل کرے گا جو اس کی حیثیت اور استطاعت ہے۔ہاں اگر قریبی مسجد سے
کوئی اذان واضح طور پر سنائی دیتی ہو تو اس اذان کے ساتھ جواب دیں اور آخر میں
اذان کے بعد کی دعا پڑھیں ۔
سوال:ایک کنڈکٹر ہے وہ صرف فجر اور عشاء
کی نماز پڑھتا ہے اور ظہر و عصر و مغرب تینوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھتا
ہے ، کیا ایسا کرنا درست ہے اور اس نے ایسا معمول بنا رکھا ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے پانچ نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر
فرض کیا ہے لہذا ہر مسلمان مرد اور عورت ان پانچ نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر ادا
کریں گے البتہ جو مسافر ہے اس کے لئے دو نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت ہے۔
اس وجہ سے وہ کنڈکٹر جو روزانہ لمبی دوری کا سفر کرتا
ہو وہ دو نمازوں کو جمع کر سکتا ہے لیکن تین نماز کو جمع نہیں کر سکتا اور اگر وہ
آس پاس ہی میں رہتا ہے یعنی وہ لمبی دوری کا سفر طے نہیں کرتا ہے تب تو دو نمازوں
کو بھی وہ جمع نہیں کر سکتا ہے گویا اسے پانچوں نمازوں کو اپنے اپنے اوقات پر ادا
کرنا ہے۔نماز کے سلسلے میں یہ شرعی حکم ہے آپ اس کنڈکٹر کو یہ بات بتا سکتے ہیں تو
اس سے یہ شرعی مسئلہ بتا دیں، یہی آپ کی ذمہ داری ہے۔ باقی کنڈکٹر اپنے اعمال کا
وہ خود اللہ کے یہاں جواب دہ ہے۔
سوال: کیا حضرت محمد ﷺ اپنی قبر میں زندہ
ہیں؟
جواب:دین کے تین مراتب میں ایک درجہ ایمان کا ہے اور
ایمان کے چھ ارکان ہیں، ان چھ ارکان میں ایک رکن یہ بھی ہے کہ ہمیں مرنے اور مرنے
کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لانا ہے۔اس رکن میں ہم اس بار پر ایمان لاتے ہیں
کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے سوائے اللہ کے اور انسانوں میں بھی کوئی ایسا نہیں ہے
جو نہیں مرنے والا ہے۔ ہر آدمی مرتا ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالی پھر ہمیں
دوبارہ زندہ کرے گا۔جس مسلمان کو عقیدے کا یہ علم نہیں ہے اس مسلمان کا عقیدہ کچا
اور عقیدے کے معاملہ میں کم علم ہے۔ ایسے مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایمان کے چھ ارکان
کو تفصیلی طور پر جانے تاکہ اپنے عقیدے کو اور ایمان کو پختہ اور مضبوط کر سکے
کیونکہ دین میں عقیدہ اور ایمان سب سے اہم چیز ہے۔ جس کا عقیدہ درست نہیں ہوتا ہے
اس کا عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے لہذا عقیدے کی مکمل جانکاری حاصل
کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور اسی
لئے آپ کو قبر میں دفن کیا گیا۔ آپ زندہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی نے آپ کی زندگی
ہی میں آپ کو خبر دے دی تھی کہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح وفات پانے والے ہیں جیسا
کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
إنك ميت وإنهم ميتون (الزمر:30)
ترجمہ: یقینا خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی
مرنے والے ہیں۔
اللہ تعالی نے کس قدر وضاحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میت کا لفظ استعمال کیا ہے اس کے باوجود بھی مسلمانوں کو شک ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں یعنی اللہ کی آیت کا بھی انکار کرتے ہیں۔اس آیت کے علاوہ قرآن وحدیث کے وہ سارے دلائل آپ ﷺ کی وفات پر دلیل ہیں جن میں تمام انسانوں کے وفات پانے کا ذکر ہے۔
سوال: ہم انڈیا سے ہیں اور یہاں ہندو
لوگوں کا اکثر میلا لگتا ہے تو اس میلے میں میرا ایک دوست سواری لے کے جاتا ہے اس
میلے میں ہندو لوگ پوجا وغیرہ بھی کرتے ہیں اور بہت سارے ساز وسامان بھی بکتے ہیں
تو کیا سواری لے کر ایسی جگہ جانا درست ہے جبکہ وہ سواری کو میلے کے باہر ہی اتار
دیتا ہے ؟
جواب:کوئی آدمی اپنی گاڑی کو ہندو کے میلہ میں استعمال
کرتا ہے ، چاہے وہ سواری پہنچاتا ہے یا سامان پہنچاتا ہے یا اور بھی کسی طرح کا
کوئی کام اپنے گاڑی کے ذریعہ انجام دیتا ہے جو میلے سے متعلق ہے تو ایسا کام
مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ کے کام پر تعاون ہے اور اللہ تعالی نے
ہمیں ظلم اور گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔اور اس سے کوئی فرق
نہیں پڑتا ہے کہ سواری کو میلہ سے پہلے ہی اتار دیتا ہے یا سامان اتار دیتا ہے۔ یہ
اصل میں تعاون ہی گناہ کی بنیاد پر ہے چاہے ایک قدم ہی تعاون کیوں نہ کرے۔
سوال: اگر کوئی لڑکا ایسا کام کرتا ہے جس
میں شک ہو کہ حرام کاپیسہ ہو سکتا ہے جیسے
آن لائن کام کرتا ہے یا ویڈیو ایڈ وغیرہ کے ذریعہ کماتا ہے تو ایسے شخص سے ادھار
لینا کیسا ہے اور اگر ہم اس سے ادھار لیتے ہیں تو کیا ہمارا پیسہ بھی حرام کا پیسہ
ہوگا؟
جواب :اگر یقینی طور پرہمیں علم ہے کہ اس کی
کمائی مکمل حرام کی ہے تو ایسے آدمی سے تعاون اور قرض نہیں لینا چاہیے کیونکہ ظاہر سی بات ہے اس
صورت میں آپ بھی حرام کی کمائی کو استعمال
کریں گے ۔اور حرام مال جیسے کمانے والے کے لئے حرام ہے ویسے دوسروں کے لئے بھی
حرام ہے، ہاں اگر ایک آدمی کی کمائی میں حرام بھی ہے اور حلال بھی ہے یعنی کچھ حرام کا
ہے اور کچھ یا اکثر حصہ حلال کا ہے تو
ایسی صورت میں اس سے قرض لے سکتے ہیں
کیونکہ اس میں مکمل حرام کی آمدنی نہیں ہے۔
ایسی صورت میں اس سے قرضہ بھی لیا جا سکتا ہے اور ایسے آدمی کی دعوت بھی کھا
سکتے ہیں تاہم مکمل حرام کی آمدنی ہو تو پھر پرہیز کرنا چاہیے ۔یہ ایک طرح سے گناہ
کے کام پر تعاون ہوسکتا ہے۔
سوال: میں ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر
ہوں، رزلٹ کے موقع پر اگر والدین ٹیچر کے لئے کوئی تحفہ یا کیک وغیرہ لے کر آئیں
تو کیا اس کو قبول کرنا چاہیے اور ان اشیاء کوٹیچر استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: رزلٹ کے موقع پر اگر بچوں کے والدین ٹیچر کے لئے تحفہ پیش کریں خواہ کیک ہو یا اور کوئی چیز ہو تو ٹیچر کے لئے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے حتی کہ بچے بھی ٹیچر کو کچھ گفٹ کریں تو اس موقع سے لینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اسلام میں تحفہ لینا اور دینا جائز ہے اور بچوں کے تئیں ٹیچر کے خدمات ہوتے ہیں، ان خدمات کے پیش نظر سرپرستوں کا ٹیچر کی حوصلہ افزائی کے طور پر انہیں کچھ دینا اچھی بات ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔