﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(15)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفطہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر۔حی السلامہ – سعودی عرب
سوال:میں اپنی کوئی چیز کسی خاتون سے
واپس لیتی ہوں تو وہ گالی دیتی ہیں، جھولی اٹھااٹھا کے بددعائیں دیتی ہیں اور کہتی
ہیں کہ میں روز محشر تمہارا گریبان پکڑوں گی، تم سے حساب لوں گی، اس طرح رو رو کر
بددعائیں دیتی ہیں تو کیا یہ بددعائیں لگ سکتی ہیں اور روز محشر وہ میراگریبان
پکڑے گی جبکہ چیز ہماری ہے، اس کو استعمال کے لئے دی تھی اور جب ہمیں ضرورت پڑی تو
واپس مانگی؟
جواب:اگر آپ کسی کو اپنا سامان دیتے ہیں اور وہ سامان
واپس لینے پر کوئی آپ سے گالی گلوچ کرے اور بد دعائیں دے تو اس حال میں آپ صبر
کریں اور گالی کے بدلے اس کو ہدایت کی دعا دیں۔جہاں تک اس کی گالیوں اور اس کی
بددعاؤں کا معاملہ ہے تو اس سے آپ کو فائدہ ہی ہوگا، نقصان نہیں ہوگا۔ صحیح مسلم
کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی روز قیامت ہر قسم کے نیک اعمال کرکے آئے گا لیکن اس کی
نیکیاں مظلوم میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ اس نے جس کو گالی دی ہو، جس پر بہتان
لگایا ہو، جس کو مارا ہو، جس پر ظلم کیا ہو اس کی نیکیاں ان سب لوگوں میں تقسیم کر
دی جائیں گی۔اس لئے کسی کی گالیوں اور بے جا بد دعاؤں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں،
ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے اور اس کے حق میں ہدایت کی دعا کرنی چاہیے۔ممکن ہے کہ
کبھی آپ کی طرف سے بھی زیادتی ہوگئی ہو،ورنہ صرف اپناسامان واپس مانگنے پر کوئی اس
قدر گالی اور بددعا نہ کرے، اگر ایسی بات ہے تو آپ اپنی غلطی کی تلافی کروالیں
۔اور آپ کی طرف سے زیادتی نہیں ہوئی ہے تو صبر کریں اور اس کے لئے ہدایت کی دعا
کریں۔
سوال: ایک بہن نے اپنی ایک عزیز کی رہائش
کیلئے فلیٹ خریدنے کیلئے بطور قرض پیسے دئے، جو امید ہے واپس مل جائیں گے۔ اس دی
گئی رقم پر سال گزرنے کے بعد زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟
جواب:جس خاتون نے کسی کو فلیٹ خریدنے کے لئے بطور قرض
پیسے دئے ہیں تو اس پیسے پر سال گزرنے پر زکوۃ ادا کرنی پڑے گی بشرطیکہ وہ پیسے
نصاب تک پہنچتے ہوں۔ یاد رہے کہ اگر آپ کے پاس مزید پیسے ہوں تو ان سب پیسوں کو
قرض کے ساتھ جوڑ کر زکوۃ نکالنا ہے۔
سوال:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں ۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا‘ پیٹ کی بیماری میں
ہلاک ہونے والا‘ ڈوب کر مرنے والا‘ دب کر مرجانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت
پانے والا ۔(حدیث) اس حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ شہید کی دیگر اقسام
بتائی گئیں ہیں تو ایسی موت پانے والے کا ذکر کیا شہید کہہ کر کیا جاسکتا ہے مثلا
کوئی پیٹ کی بیماری سے موت پائے تو ہم کہہ سکتے کہ وہ شہید ہے؟
جواب:حدیث میں شہید کی جتنی اقسام بیان کی گئی ہیں، اگر
کوئی اس جیسی وفات پاتا ہے جس کا ذکر بطور شہید آیا ہے تو ہم اس کو شہید کہہ سکتے
ہیں تاہم شہید کہتے ہوئے ان شاءاللہ لگا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اصل علم
اللہ کے پاس ہے، ہمارے سامنے صرف ظاہر ہے۔ مثلا پیٹ کی بیماری سے مرنے والے کو
کہیں، وہ شہید ہے ان شاءاللہ اس طرح سے کہنا بہتر رہے گا۔
سوال:ایک شخص نے کچھ مال والد سے بطور
تحفہ میں پایا اور اس سے ایک فلیٹ بک کروایا تاکہ اسکو مہنگا ہونے پر بیچ کر اچھی
رقم مل جائے یا کرایہ پر دے دیا جائے اور گھر کے اخراجات میں اس سے مدد ملے۔اب اس
فلیٹ کی ملکیت ملنے میں گزشتہ ایک سال سے تاخیر ہورہی ہے، کیا اس انویسٹ کی گئی
رقم کی تمام مدت میں زکوٰۃ دی جاتی رہے گی؟
جواب:فلیٹ کی دو حیثیت ہے، اگر فلیٹ بیچنے کی نیت سے
خریدا ہے تو ہر سال زکوۃ دینی پڑے گی چاہے قبضہ ہو نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں یہ
مال تجارت ہے اور اس کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسے ہم کسی کاروبار میں اپنا پیسہ لگاتے
ہیں ۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اگر فلیٹ کرایہ پر دینے کے لئے خریدا گیا ہے تو اس
میں زکوۃ نہیں ہے بلکہ زکوۃ اس فلیٹ سے جب آمدنی ہوگی اور وہ نصاب تک پہنچے گی اور
ایک سال گزرے گا تب زکوۃ دینا ہے ورنہ کرائے والے فلیٹ پر زکوۃ نہیں۔
اور اگر نیت متعین نہ ہو کہ فلیٹ کرایہ کے لئے ہے یا
بیچنے کے لئے ہے تو پھر ایسی صورت میں بھی زکوۃ نہیں ہے۔ جب متعین طور پر وہ فلیٹ
بیچنے کے لیے ہو تب زکوۃ دینا ہے۔
سوال: کوئی بے اولاد جوڑا اپنی زندگی میں
اپنی ساری جائیداد کسی ٹرسٹ کو دے سکتا ہے؟
جواب:جس آدمی کو اپنی اولاد نہ ہو لیکن اس کا کوئی نہ کوئی وارث موجود ہے تو وہ آدمی اپنی پوری جائیداد کسی ٹرسٹ کو وقف نہیں کر سکتا اور نہ پوری جائیداد کی وصیت کر سکتا، صرف ایک تہائی مال ہی وقف یا وصیت کر سکتا ہے۔یہ مسئلہ واضح ہے۔
ہاں جب آدمی کا کوئی بھی وارث نہ ہو تو ایسی صورت میں
اختلاف ہے۔ بعض ائمہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ پوری جائیداد کی وصیت کر سکتا
ہے اور بعض ائمہ کہتے ہیں کہ نہیں ثلث مال سے زیادہ وصیت نہیں کر سکتا ہےاور چونکہ
حدیث میں یہ کہاگیا ہے کہ صاحب مال ایک ثلث کی ہی وصیت کرسکتا ہے لہذا کسی کو
اولاد ہو یا نہ ہو اسے اپنے مال سے ایک ثلث کی ہی وصیت یا وقف کرنا ہے۔
سوال:جب بھی کبھی مالی اعتبار سے استطاعت
ہوجائے تو سب سے پہلے حج یا عمرہ میں سے کون سا عمل افضل ہے؟
جواب:اگر کسی کے پاس اس قدر مال ہوجائے کہ وہ اس سے حج
کر سکتا ہے تو اس کے اوپر حج واجب ہو جاتا ہے لہذا ایسے آدمی کو بلا تاخیر حج کرنا
واجب ہے۔یہاں افضل یا غیرافضل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک فریضہ کا معاملہ ہے۔اور
اگر اتنا مال نہ ہو کہ حج کر سکتا ہو بلکہ وہ صرف عمرہ کر سکتا ہے تو ایسی صورت
میں اس کے اوپر حج فرض نہیں ہے وہ صرف عمرہ کر سکتا ہے۔
سوال:سنت مؤکدہ کے علاوہ نوافل میں بلند
آواز سے قرات کرسکتے ہیں یا نہیں رہنمائی فرمائیں؟
جواب:وہ نفلی نماز جو دن میں ادا کی جائے، اس میں سنت
یہ ہے کہ سری طور پر اسے ادا کریں گے اور وہ نفلی نماز جو رات میں ادا کی جائے، اس
میں سنت یہ ہے کہ اسے جہرا ادا کیا جائے بلکہ رات کی ساری نماز جہری ہے خواہ فرض
ہو جیسے مغرب، عشاء اور فجر خواہ نفل ہو جیسے تہجد۔
سوال:ترمذی(1987) میں ہے کہ گناہ کے بعد
نیکی کرو تو اس گناہ کو ختم کردے گی ۔ اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان جب کسی کو
تکلیف دیتا ہے تو نیکی کرنے سے کیا وہ گناہ مٹ جاتا ہے ؟
جواب:اس حدیث کا تعلق حقوق اللہ سے ہے یعنی اگر کوئی
اللہ کے معاملے میں غلطی کرتا ہے تو نیکی کرنے سے غلطی معاف ہو جاتی ہے، وہ بھی وہ
غلطی جو گناہ صغیرہ میں داخل ہے لیکن اگر کوئی اللہ کے معاملہ میں گناہ کبیرہ کا
ارتکاب کرتا ہے تو اس کی معافی کے لئے توبہ کرنا ضروری ہے۔جہاں تک حقوق العباد کا
معاملہ ہے یعنی اگر کوئی بندوں کے معاملہ میں زیادتی کرے تو اس معاملہ کی تلافی اس
بندے سے کرنے پر ہی گناہ معاف ہوگا ورنہ گناہ معاف نہیں ہوگا۔
سوال:سکول و کالج جانے والے افراد کی ظہر
کی نماز فوت ہو جاتی ہے تو کیا ظہر کی نماز وقت سے پہلے صبح گھر سے ادا کرکے جا
سکتے ہیں، انگلش ملکوں میں سکول وکالج کے اندر سہولیات آسانی سے نہیں ملتیں؟
جواب:ظہر کی نماز کسی بھی صورت میں ظہر سے پہلے ادا
نہیں کر سکتے حتی کہ سفر کی حالت میں بھی کوئی آدمی ظہر کی نماز ظہر سے پہلے نہیں
ادا کر سکتا ہے ،اس بات کی گنجائش نہیں ہے البتہ اس بات کی گنجائش ہے کہ مجبوری کی
وجہ سے ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے آخری وقت میں ادا کرے اور عصر کی نماز کو اول وقت
میں ادا کرے اس کو جمع صوری کہتے ہیں مجبوری میں یہ صورت جائز ہے مگر اس عمل کو
بھی کوئی ہمیشگی والا عمل نہیں بنائے گا، کوشش یہی ہو کہ ہر نماز اول وقت پر ادا
کی جائے اور مرد کے لئے مسجدمیں جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے ، مسجد نہ ہو تو قرب
وجوار کے لوگوں کے ساتھ جماعت بناکر نماز ادا کرے۔ اور عورت کا معاملہ مختلف ہے،
یہ اکیلے گھر و اسکول وغیرہ میں نماز پڑھ سکتی ہے۔
سوال: کیا یہ دعا ثابت ہے، اللھم انی
اسالک لذہ النظر الی وجھک والشوق الی لقائک (اے اللہ میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت
اور تیری ملاقات کے شوق کا طالب ہوں)؟
جواب:اصل میں ایک لمبی دعا کا یہ ایک ٹکڑا ہے اور یہ
صحیح دعا ہے، متعدد کتاب میں موجود ہے اور شیخ البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے،
سنن نسائی کے حوالے سے یہ اس طرح مروی ہے۔
اللَّهمَّ بعِلمِكَ الغيبَ وقدرتِكَ على الخلقِ أحيني
ما علمتَ الحياةَ خيرًا لي وتوفَّني إذا علمتَ الوفاةَ خيرًا لي وأسألُكَ خشيتَكَ
في الغيبِ والشَّهادةِ وَكلمةَ الإخلاصِ في الرِّضا والغضبِ وأسألُكَ نعيمًا لاَ
ينفدُ وقرَّةَ عينٍ لاَ تنقطعُ وأسألُكَ الرِّضاءَ بالقضاءِ وبردَ العيشِ بعدَ
الموتِ ولذَّةَ النَّظرِ إلى وجْهِكَ والشَّوقَ إلى لقائِكَ وأعوذُ بِكَ من
ضرَّاءٍ مُضرَّةٍ وفتنةٍ مضلَّةٍ اللَّهمَّ زيِّـنَّا
بزينةِ الإيمانِ واجعَلنا هداةً مُهتدين.(سنن النسائي:1307)
ترجمہ: اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر
تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک
تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے، اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے
لیے بہتر ہے، اے اللہ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں،
اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں،
اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی
ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال
کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلبگار ہوں، اور میں
تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں، اور پناہ چاہتا
ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے، اے
اللہ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہنما و ہدایت یافتہ بنا دے۔
سوال:میرے شوہر باہر ہوتے ہیں تو میں دوا
یادیگر ضرورت کے لئے کسی کے ساتھ باہر جاتی ہوں ،مجھے میل کی ضرورت ہوتی ہے ، اس
کے ساتھ بائک پہ باہر جانا ہوتا ہے ، سفر کرنا ہوتا ہے، اس حوالے سے میرے کزن
وغیرہ سپورٹ کرتے ہیں، ان سب سے کام پڑتا ہے، مجھے یہاں کے بارے میں معلوم نہیں،
اکیلے کیا کروں، میں پردہ کرتی ہوں تاہم جاننا چاہتی ہوں کہ کس طرح کسی سے میں مدد
لے سکتی ہوں ؟
جواب:اسلامی شریعت کسی خاتون کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ وہ کسی اجنبی مرد کے ساتھ بائیک پر بیٹھے کیونکہ ایسی صورت میں اس مرد کے ساتھ خلوت بھی ہوگی جوکہ حرام ہے اور مرد کے بدن سے بھی بدن ٹچ ہوگا اور یہ شدید حرام کام ہے۔ اور کوئی عورت کسی غیر محرم کے ساتھ اکیلے کہیں نہیں جا سکتی ہے، اس کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی ، نہ بائک پر اور نہ بغیر بائیک کے۔اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے کسی خاتون کا سہارا لے یا اپنی ضرورت کی چیزیں معتمد آدمی کے ذریعہ گھر پہ ہی منگوالے، وہ خود کسی غیر محرم کے ساتھ تنہا نہ جائے ، بھلے ضرورت کے وقت باہر قریب پاس میں اکیلی چلی جائے مگر غیرمحرم کے ساتھ نہیں جائے۔
سوال:سری اور جہری نماز کے درمیان فرق کو
واضح کردیں؟
جواب:سری اس نماز کو کہتے ہیں جس میں قرآن کی قرات
آہستہ کرتے ہیں جیسے ظہر اور عصر کی نماز۔اور جہری اس نماز کو کہتے ہیں جس میں
قرآن کی قرات بلند آواز سے کرتے ہیں جیسے فجر و مغرب اور عشاء۔گویا سری اور جہری
میں یہ فرق ہے کہ جو نماز آہستہ قرات سے پڑھی جائے وہ سری ہے اور جو بلند آواز سے
پڑھی جائے وہ جہری ہے۔
سوال:کیا ہپی برتھ ڈے کہنا شرک ہے؟
جواب:فقط ہپی برتھ ڈے کہنا شرک نہیں ہے کیونکہ اس میں
شرک کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے۔جب کوئی ہپی کرسمس کہتا ہے تو اس وقت کہیں نہ
کہیں شرک پایا جاتا ہے کیونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ کرسمس ڈے کو اللہ کا بیٹا
پیدا ہوا لہذا ہپی کرسمس کہنے سے پرہیز کریں اور ہپی برتھ ڈے بھی نہیں کہنا چاہئے
کیونکہ جنم دن کی مبارکباد دینا جائز نہیں ہے۔
سوال: وضو کے اعضاء کو حدیث میں 1-1، 2-2
، 3-3 مرتبہ دھونے کا ذکر ہے، کیا ایک دفعہ کے وضو میں ایک بار عضو کو دھلتے ہیں
تو تمام عضو کو ایک بار دھلنا ہے اور اگر تین بار دھلتے ہیں تو ہر عضو کو تین تین
بار دھلنا ہے یا کم وزیادہ بھی کرسکتے ہیں؟
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وضو کے عضو کو تین تین بار دھلنے کا حکم دیا ہے۔ گویا کوئی آدمی وضو کرتے ہوئے تمام عضو کو تین تین مرتبہ دھل سکتا ہے اور اگر کوئی چاہے تو دو مرتبہ بھی یا ایک مرتبہ بھی دھل سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور ایک بار وضو کرتے ہوئے کسی عضو کو ایک مرتبہ دھلے، کسی عضو کو دو مرتبہ دھلے، کسی کو تین مرتبہ دھلے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عضو کو تین تین بار ہی دھلیں۔ اصل مسئلہ ہے کہ اعضائے وضو اچھی طرح دھل جائیں چاہے ایک مرتبہ سے یا دو مرتبہ سے یا تین مرتبہ سے۔
سوال: ایک آدمی کا انتقال ہوگیا ہے، اس
کے چھ بیٹے ہیں، ان میں سے تین صاحب حیثیت ہیں جنہوں نے اپنا حج بھی کرلیا ہے اور
تین غریب ہیں جنہوں نے حج نہیں کیا ہے اور بیٹوں کا ارادہ ہے کہ میت والد کی طرف
سے حج کیا جائے تو کون حج کرے گا جس نے اپنی طرف سے حج کرلیا ہے یا جس کے پاس
استطاعت نہیں ہے اس کے ذریعہ بھی حج کرواسکتے ہیں ؟
جواب:حج بدل کرنے کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ وہی آدمی
کسی میت کی طرف سے حج بدل کرے گا جس نے پہلے اپنا حج کر لیا ہے لہذا بیٹوں میں سے
وہ بیٹا جو پہلے اپنا حج کر لیا ہے وہ اپنے فوت شدہ والد کی طرف سے حج کر سکتا ہے
اور حج بدل کے لئے کوئی ضروری نہیں کہ بیٹا ہی حج کرے بلکہ پیسہ دے کر کسی دوسرے
شخص سے بھی حج بدل کروا سکتے ہیں جس نے پہلے اپنا حج کر لیا ہو۔اور اگر غریب بیٹے
سے حج بدل کروانا چاہیں جس نے پہلے حج نہیں کیا ہے تو پہلےاس کو خود اپنا حج کرنا
پڑے گا پھر دوسرے سال والد کی طرف سے حج بدل کرسکتا ہے۔
سوال: اگر نماز کے دوران کسی کو لیکوریا
ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس سے نماز بھی ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب:جس عورت کو لیکوریا کی بیماری ہے وہ عورت ہر نماز
سے پہلے وضو کرے گی اور ایک وضو سے ایک وقت کی نماز ادا کرے گی اور دوران نماز
رطوبت خارج ہونے سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور جس عورت کو لیکوریا کی
بیماری نہیں ہے بلکہ کبھی کبھار کا مسئلہ ہے ، اچانک کبھی خارج ہو گیا جیسے نماز
کے دوران لیکوریا خارج ہو جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اسے وضو کرکے دوبارہ
نماز ادا کرنی پڑے گی۔ لیکوریا جسے رطوبت کہتے ہیں یہ اپنے آپ میں پاک ہے لیکن
ناقض وضو ہے یعنی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
سوال:اگر صبح وشام کے اذکار گروپ میں
پڑھے جائیں تو جو سو دفعہ کے اذکار ہیں ان کا ویڈیو اور یوٹیوب سے پلے کرکے سنیں
اور اس کے ساتھ پڑھیں تو ایسا کرنا صحیح ہے ؟
جواب:صبح اور شام کے اذکار ہر کسی کو انفرادی طور پر
اپنے لئے پڑھنا ہے، یہ اجتماعی عمل نہیں ہے کہ سب مل جل کر اسے پڑھیں اس لئے اگر
چند خواتین مل جل کر اجتماعی صورت میں صبح و شام کے اذکار پڑھتی ہیں تو یہ بدعت
ہے۔اور اگر کوئی یوٹیوب کے ویڈیو سے اذکار سنتا ہے تو یہ اذکار کرنا نہیں کہلائے
گا۔ ذکر کے لئے ضروری ہے کہ آپ خود اپنی زبان سے پڑھیں، اس طرح سے پڑھیں کہ آپ کی
زبان حرکت کرے۔گویا ویڈیو سننا کافی نہیں ہے لیکن ویڈیو کے ساتھ خود بھی پڑھتے ہیں
تو اس میں حرج نہیں ہے مگر جب خود سے ذکر کرنا ہی پڑے گا تو ویڈیو پلے کرنے کی
ضرورت ہی کیا ہے۔
سوال: اٹھرا جو عورتوں کو ہوتا ہے کیا اس کی قرآن و حدیث میں کوئی حقیقت ہے اور کیا یہ ایک دوسرے کو لگ جاتا ہے یا صرف جھوٹ ہے؟
جواب:حمل سے متعلق ایک مشکل کا نام اٹھرا ہے، اسے انگلش
میں (Recurrent Miscarriage)کہا
جاتا ہے۔
حمل پیش رفت نہ ہونا، حمل بار بار گرنا، حمل ٹھہر کر
وقت سے پہلے گر جانا اس طرح کی مشکلوں سے دو چار عورت کو اٹھرا کی عورت کہتے کہا
جاتا ہے۔ دراصل یہ ایک جسمانی بیماری ہے جو ماہواری میں خرابی اور جینز وغیرہ کے
سبب ہے۔ کسی عورت کے ساتھ بھی حمل کی دشواری آسکتی ہے، ایسی عورت کو طبی علاج
کرانا چاہیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اپنے سماج اور معاشرے میں جس عورت کا حمل بار بار ضائع
ہوتا ہو یا وقت سے پہلے حمل ضائع ہو جائے یا پیدائش کے وقت بچہ مر جائے یا پیدائش
کے بعد بچہ مرے تو اس طرح کی صورت میں عورت کو منحوس مانا جاتا ہے، اس پر جنات کا
سایہ ہے، کہا جاتا ہے اور اس سے دوری اختیار کی جاتی ہے اور تعویذ گنڈے کرائے جاتے
ہیں جبکہ یہ سب جھوٹی باتیں اور جھوٹے قصے کہانیاں ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق
نہیں ہے اور اٹھرا کسی کو لگنے والی بیماری نہیں ہے۔
سوال: کیاطلاق بائن میں بھی رجوع کی عدت
ہے ، اور جب شوہر کی حرام کمائی کی وجہ سے بیوی طلاق لے رہی ہو اور شوہر حرام
کمائی سے باز نہیں آنا چاہتا ہو تو بیوی شوہر کے گھر عدت میں رک کر اپنی عبادت کو
کیوں ضائع کرے گی کیونکہ کوئی حرام کا ایک لقمہ بھی اگر کھاکر عبادت کرتا ہے تو
چالیس سال تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی؟
جواب:جب شوہر پہلی یا دوسری طلاق دیتا ہے تو اسے طلاق
رجعی کہتے ہیں اور جب رجوع کی عدت ختم ہو جاتی ہے تب اس طلاق کو طلاق بائن کہتے
ہیں یعنی پہلی یا دوسری طلاق دیتے ہی یہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ عدت ختم ہونے کے
بعد یہ طلاق بائن کہلاتی ہے۔ تیسری طلاق ، بائن بلکہ طلاق مغلظہ ہے کیونکہ تیسری
طلاق دیتے ہی بیوی جدا ہوجاتی ہے ، اس میں رجوع نہیں ۔ یہ عدت، مطلقہ اپنے گھر
گزارے گی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ رجوع والی عدت میں بیوی کو شوہر کے
گھر رہنا پڑے گا کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔فرمان الہی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ
فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ
وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ
مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ
اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ
اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ
لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا (الطلاق:1)
ترجمہ: اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں
کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا
حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے
نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں۔ یہ
اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً
اپنے اوپر ظلم کیا ۔تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا
کردے۔
اس آیت میں اللہ نے بیوی گھر سے نکالنے سے منع کیا ہے
اور بیوی کو بھی گھر سے نکلنے سے منع کیا ہے۔
اور مستقبل کی بات کوئی مرد یا کوئی عورت نہیں جانتی ہے
اس لئے کسی عورت کو مستقبل کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ بیوی کو
خود نہیں معلوم ایک منٹ کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، پھر وہ اپنے شوہر کے
مستقبل کے بارے میں کیسے کچھ کہہ سکتی ہے؟
جہاں تک حرام لقمہ کی بات ہے تو وہ بیوی خود سے کماکر
حرام لقمہ نہیں کھا رہی ہے، جو حرام کما رہا ہے گناہ اس کے سر پر جائے گا اور بیوی
ماتحت ہے لہذا عذر کی وجہ سے بیوی گنہگار نہیں ہے ۔
سوال: استخارہ ایک مرتبہ کرنا کافی ہے یا
تین دن استخارہ کرنا ضروری ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ کسی کام کے لئے استخارہ کرنا
بھی ضروری نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحب عمل ہے۔ آپ کرنا چاہیں تو ٹھیک ہے اور نہ
کرنا چاہیں تو کوئی ضروری نہیں ہے، اس لئے یہ عمل نہ ایک بار ضروری ہے ، اور نہ دو
تین بار ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی ایک مرتبہ استخارہ کرے تو بھی
کافی ہے اور ایک سے زائد مرتبہ استخارہ کرے تو بھی اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے
تاہم ایک مرتبہ یا تین مرتبہ استخارہ کرنے کو ضروری عمل نہیں کہیں گے۔
سوال:کوئی بھی کی چین ہو جس پر کوئی
جانور بناہو اس کو استعمال کرسکتے ہیں مثلا اونٹ یا کنگارو وغیرہ؟
جواب:پہننے، اوڑھنے اور استعمال کرنے کی کوئی بھی چیز ہو اور اس پر جاندار کی تصویر بنی ہو تو اس کواپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے لہذا وہ چین بھی جس پر کوئی جانور بنا ہو مثلا اونٹ و کنگارو وغیرہ اس کا رکھنا جائز نہیں ہے۔
سوال:کیا بالغ لڑکا کسی نامحرم عورت سے
قرآن پڑھ سکتا ہے یعنی وہ نامحرم عورت کو قرآن سنا سکتا ہے ؟
جواب:جو لڑکا بالغ ہے اس سے غیر محرم عورت کو پردہ کرنا
واجب ہے اور اسی طرح اس لڑکے سے خلوت سے بھی بچنا واجب ہے لہذا کسی عورت کا غیر
محرم بالغ لڑکے کو اکیلے میں تعلیم دینا جائز نہیں ہے۔
ہاں اگر متعدد لڑکوں کا مجموعہ ہے اور خاتون محض آواز
کے ساتھ تعلیم دیتی ہے تو جائز ہے تاہم اس سے بھی پرہیز کرنا بہتر و اولی ہے
کیونکہ یہ عمل ضرورت میں شامل نہیں ہے، اس حال میں کہ وافر مقدار میں مرد علماء
تعلیم دینے کے لئے موجود ہیں۔
لہذا عورت کو چاہیے کہ وہ صرف عورتوں کو تعلیم دے اور
مرد کو چاہیے کہ مردوں کو تعلیم دے نیز ضرورت کے پیش نظر مرد عورتوں کو اور عورت
مردوں کو تعلیم دے سکتی ہے مگر اس کے اصول اور ضوابط ہیں، شرعی حدود ہیں ان حدود
کی پابندی ضروری ہے۔
سوال:چھ کلموں کی کیا حقیقت ہے، کیا یہ
دعائیں ہیں، بچوں کو یہ کس طرح سکھائے جائیں، مطلب چھ کلمے کہہ کر یا دعاؤں کے طور
پر؟
جواب:چھ کلموں کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ اللہ اوراس
کے رسول نے ہمیں صرف ایک کلمہ دیا ہے اس لئے ہمارا صرف ایک کلمہ ہے، ہمارے کلمے چھ
نہیں ہیں لہذا ہم اپنے بچوں کو صرف ایک کلمہ کی ہی تعلیم دیں گے جو قرآن اور حدیث
میں موجود ہے۔آپ کو کتب حدیث میں بے شمار احادیث مل جائیں گی جن میں ایک ہی کلمہ
کا ذکر ہے اور وہ سارے صحابہ جس کلمہ کو پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے وہ صرف ایک ہی
کلمہ ہے، مثال کے طور پر یہ حدیث دیکھیں۔صحیح بخاری(4372) میں ثمامہ رضی اللہ
تعالی عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ موجود ہے اس واقعہ سے اسلام لانے کا بیان ذکر
کرتا ہوں۔"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ
ثمامہ کو چھوڑ دو (رسی کھول دی گئی) تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور
غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا "«أشهد أن لا إله إلا الله،
وأشهد أن محمدا رسول الله» (بخاری)
اس حدیث میں جو کلمہ ہے یہی ایک کلمہ اسلام کا کلمہ ہے
اور چھ کلموں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں بلکہ جہاں قرآن نازل ہوا وہاں کے لوگوں
نے چھ کلمہ سنا بھی نہیں ہوگا۔
جہاں تک لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ان چھ کلموں میں بھی
دعائیں ہیں تو اس سلسلے میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ دعا کو دعا ہی رہنے دیں، نہ اس
میں کتربیونت کریں اور نہ اس کو کلمہ بناکر پیش کریں بلکہ ہم یہ بھی کہیں گے کہ آپ
کو کس نے اختیار دیا ہے کہ ایک کلمہ کو آپ چھ بنائیں جبکہ دین تو محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے زمانہ میں مکمل ہو گیا؟
لہذا آپ اپنے بچوں کو ایک کلمہ سکھائیں اور چھ کلموں سے
متعلق کوئی کتاب ہو تو اس کو کینسل کریں اور دعا سے متعلق جو مستند کتاب ہے اس
کتاب سے بچوں کو دعائیں سکھائیں۔
سوال:کیا بیوی زکوٰۃ اپنے شوہر کو دے
سکتی ہیں تاکہ وہ اپنا قرض اتار سکیں؟
جواب:شوہر اگر محتاج ہو یعنی اس کا شمار فقیر و مسکین میں ہوتا ہو تب بیوی شوہر کو زکوۃ دے سکتی ہے لیکن اگر شوہر کا شمار مسکین میں نہ ہوتا ہو، وہ اپنا قرض خود ادا کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں اسے زکوۃ نہیں دے گی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔