Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(14)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(14)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

 

سوال:کیا آرٹیفیشل چوڑی، رینگ یا کان میں پہنے جانے والے ٹپس جس میں لوہا یا اسٹیل کا استعمال ہوتا ہے کیا اس کو پہننے سے وضو نہیں ہوتاہے؟

جواب:ایک عورت مصنوعی چوڑی، رنگ، کان کے ٹپس استعمال کرسکتی ہے خواہ وہ کسی بھی چیز سے بنی ہوئی ہو، چاہے لوہے سے، پیتل سے، کانچ سے یا سونے و چاندی سے ۔ عورت کے لئے ان چیزوں کا استعمال جائز ہے اور ان کو پہن کر نماز پڑھنا بھی درست ہے، نماز پڑھنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک وضو کا مسئلہ ہے تو وضو میں اعضائے وضو تک پانی پہنچانا مقصد ہے، چوڑی پہنے ہونے سے پانی ہاتھ کے  جلد تک پہنچ جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پانی نہ پہنچے تو اسے ہلاکر نیچے جلد تک پانی داخل کریں اور اسی طرح انگوٹھی کا معاملہ ہے یا تو اسے نکال لیں یا پھر ہلاکر نیچے پانی پہنچائیں اور کان کے ٹپس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: بہت سارے گھروں میں ابھی بھی نماز، روزہ ، حج، قرآن کی تلاوت اور زکوۃ کو ہی دین سمجھاجاتا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نجات کے لئے کافی ہے یا عام لوگوں کو دین کا باقاعدہ علم حاصل کرنا چاہئے یا صرف کام کی معلومات حاصل کرنا ہی کافی ہے؟

جواب:آج فتنے کا زمانہ ہے، لوگ اسلام پر برائے نام چلتے ہیں، اسلام کی کچھ کچھ باتوں پر عمل کرلینے کو لوگ اسلام سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (البقرۃ:208)
ترجمہ:ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اس آیت میں اللہ نے مومنوں کو خطاب کرکے کہا کہ مکمل اسلام پر چلو یعنی ایسا نہ ہو کہ اپنی خواہش کے مطابق دین کی کچھ باتوں پر عمل کرو اور باقی اسلام کو چھوڑ دو بلکہ پورے طور پر اسلام پر عمل کرو اس لئے ہمیں پورے اسلام کا علم بھی حاصل کرنا ہے اور پورے اسلام پر عمل بھی کرنا ہے اور پورے اسلام کی تبلیغ بھی کرنا ہے ۔اور دیکھا جائے تو ہماری نماز، روزے اور زکوۃ کا معاملہ تک درست نہیں ہے، ہم میں سے ہر کوئی اپنا اپنا محاسبہ کرسکتا ہے کہ ان فرائض کی انجام دہی میں کتنا مخلص ہیں ۔

سوال: جنت کے آٹھ دروازے ہیں ، جہنم کے سات دروازے کیوں؟

جواب:ہم مسلمان ہیں، مسلمان کا مطلب ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار ۔ ایکمسلمان کے لئے جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو وہ فورا اس پر عمل کرتا ہے ، اس میں چوں چرا ،یا کیوں کا سوال نہیں کرتا ہے جیسے شروع اسلام میں شراب حلال تھی ، جب اللہ کی جانب سے شراب کی حرمت کا اعلان کیا گیا فورا صحابہ نے شراب چھوڑ دی۔ یہ سوال نہیں کیا کہ کیوں حرام کی گئی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ بعد میں یا کل سے اس پر عمل کریں گے، بلکہ فورا حکم الہی کی تعمیل کی ۔ہمیں بھی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر اسی طرح عمل کرنا ہے اور یہ سوال نہیں کرنا ہے کہ یہ ایسا کیوں ، ویسا کیوں ۔

مذکورہ بالاسوال بھی بلافائدہ ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے تو جہنم کے سات کیوں؟  اللہ نے جیسا چاہا ویسا بنایا، ہم اس میں کیوں کا سوال کرنے والے کون ہوتے ہیں؟  خالق وہ ہے ، تخلیق کے بارے میں وہی بہتر جانتا ہے۔اللہ نے فرمایا:

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ(الأنبياء:23)

ترجمہ:وہ اپنے کاموں کے لئے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی تخلیق کے بارے میں کیوں کا سوال نہیں کرسکتے ہیں، ہاں جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتایا وہی ہمارے لئے کافی ہے، اپنی جانب سے قیل وقال نہیں کرنا چاہئے۔

جہنم کے سات دروازے سے متعلق کسی نے یہ جواب دیا ہے کہ جسم میں سات قسم کے اعضاءعمل کے لئے مکلف ہیں، نافرمانی کی وجہ سے ان کو سزا ملے گی ، ان میں آنکھ، کان، زبان، دونوں ہاتھ، دونوں پیر، شرمگاہ اور پیٹ ہیں۔ اور جہنم سے جنت کا ایک دروازہ زیادہ اس لئے ہے کہ جنت اللہ کا فضل ہے اور جہنم اس کا عدل ہے اور فضل میں عدل سے زیادہ وسعت ہے۔

یہ لوگوں کا خیال ہے مگر یہ باتیں دلیل سے ثابت نہیں ہیں، دلیل سے یہ ثابت ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات دروازے ہیں لہذا ہمیں احتیاط کرتے ہوئے ثابت شدہ باتیں کرنی چاہئے اور آئندہ اس قسم کے بلافائدہ سوال سے بچنا چاہئے۔

سوال:کس کس وقت پہ قرآن نہیں پڑھ سکتے، اکثر کہا جاتا ہے کہ زوال کے وقت نہیں پڑھنا چاہیے؟

جواب:جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زوال کے وقت قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں، وہ دین کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں ، قرآن کریم ، اللہ تعالی کا عظیم ذکر ہے، یہ رات ودن کسی بھی پڑھ سکتے ہیں، قرآن کی تلاوت کے لئے کوئی بھی وقت منع نہیں ہے ۔ نفل نماز کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ تین اوقات میں پڑھنا منع ہے۔حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے تھے:

ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حتَّى تَغْرُبَ.(صحیح مسلم:831)

ترجمہ:تین ا وقات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روکتے تھے کہ ہم ان میں نماز پڑھیں یاان میں اپنے مردوں کو قبروں میں اتاریں: جب سورج چمکتا ہوا طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے اور جب دوپہر کو ٹھہرنے والا (سایہ) ٹھہر جاتا ہے حتیٰ کہ سورج (آگے کو) جھک جائے اور جب سورج غروب ہونے کے لئے جھکتا ہے یہاں تک کہ وہ (پوری طرح) غروب ہوجائے۔

اس حدیث کی روشنی میں عام نفل نماز تین اوقات میں ادا کرنا منع ہے جبکہ فرض نماز چھوٹی ہو یا سبب والی کوئی نماز(تحیہ المسجد، نماز طواف، وضو کی سنت وغیرہ) ہو تو اسے ہمیشہ ادا کرسکتے ہیں حتی کہ ممنوع اوقات میں بھی ۔ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تلاوت کے لئے کوئی بھی وقت ممنوع نہیں ہے۔

سوال: عدت میں عورت کس کس سے ملاقات کرنے جاسکتی ہے؟

جواب:عدت میں ایک عورت کو اپنے گھر کو لازم پکڑنا ہے اور کسی سے ملنے نہیں جانا ہے، ایسا کوئی آدمی یا عورت نہیں جس سے عدت والی عورت ملنے جائے گی، وہ مکمل طور پر عدت گھر میں گزارے گی  البتہ ضرورت کا معاملہ الگ ہے ۔ جب وہ بیمار ہو اور ڈاکٹر کے پاس جانے کی اسےضرورت پڑے تو وہاں جاسکتی ہے۔

سوال:کیا قرآن و حدیث میں کہیں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ اذان کے وقت یا تلاوت کے وقت سر پہ دوپٹہ لیا جائے گا؟

جواب:سر پہ دوپٹہ کا تعلق اذان یا تلاوت سے نہیں ہے، اس کا تعلق حجاب سے ہے، اگر اس بات کی کوئی حقیقت ہوتی تو ضرور شریعت میں عورتوں کو اس کا حکم دیا گیا ہوتا۔ مرد کی طرح عورتیں بھی مختلف حالات سے گزرتی ہیں مثلا غسل کررہی ہو، قضائے حاجت کررہی ہو، جماع کی حالت میں ہو،کیا ان حالات میں بھی اذان کے وقت عورت کو سر ڈھکنا ضروری ہے؟ ظاہر سی بات ہے شریعت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں ہے ۔ اذان کے وقت رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ سننے والا یا سننے والی اس کا جواب دے ۔ ہاں کسی اجنبی مرد کی نظر پڑنے والی جگہ ہو تو جس طرح پورے بدن کو اس سے چھپانا ہے اسی طرح سر کو بھی چہرہ سمیت چھپانا ہے خواہ کوئی بھی وقت ہو یعنی عورت تلاوت کررہی ہو یا اذان ہورہی ہو۔

سوال:اگر ظہر کی صرف ایک ہی رکعت ملے اور عصر کا وقت شروع ہو جائے تو ظہر کے فرض ادا کرنے کے بعد سنتیں ادا کر سکتے ہیں؟

جواب: اگر کسی کی ظہر کی نماز باقی ہو اور عصر سے کچھ دیر پہلے ادا کرنے کا موقع ملے ، صرف فرض ادا کرنے کا وقت ہو تو ظہر کی فرض نماز پہلے ادا کرلے تاکہ فرض نماز وقت پر ادا ہوجائے اور بعد میں سنت ادا کرے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح کبھی کبھی فجر کے وقت بھی ہوسکتا ہے کہ سورج نکلنے میں تھوڑا وقت  ہو، صرف فرض پڑھ سکتے ہیں تو ایسے میں پہلے فجر کی فرض نماز ادا کرلیں پھر بعد میں سنت ادا کریں تاکہ فرض نماز وقت پر ادا کرنے کا اجر حاصل ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

مَن أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، ومَن أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ(صحيح البخاري:579)

ترجمہ: جس نے فجر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیااور جس نے عصر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔

سوال: امسال پانچ اکتوبر کو پوری دنیا میں ٹیچر ڈے منایا جائے گا لیکن ہمارے سکول میں دو اکتوبر کو منایا جارہا ہے، ایسے میں سوال ہے کہ بچوں سے گفٹ تو نہیں لیکن کارڈز اور پھول لینا جائز ہے اور اگر اپنی خوشی سے بچے ٹیچر کو پارٹی دیتے ہیں، کیک پیش کرتے ہیں یا پزا لاتے ہیں تو کیا یہ سب بھی برتھ ڈے منانے جیسا ہے ۔ آخر ٹیچر کی بھی اسکول میں محنت اور کارگزاری ہوتی ہے ایسے میں بچوں کا خوشی سے کچھ کرنا کیسا ہے جبکہ یہ روٹین سے ہٹ کر ہے؟

جواب:اصل میں اس طرح کا کوئی ڈے منانا اسلام کی روشنی میں جائز نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیچر ڈے کی مناسبت سے کسی قسم کا تحفہ لینا ٹیچر ڈے منانے جیسا ہے ۔ اگر آپ یہ ہدیہ و تحفہ اس دن نہ لے کر کسی دوسرے دن لیتے ہیں تب بھی یہ وہی مانا جائے گا کیونکہ یہ نسبت ٹیچر ڈے کی ہے ۔ بنی اسرائیل کا واقعہ آپ نے پڑھا ہوگا کہ اللہ نے ان کو ہفتہ کے دن مچھلی مارنے سے منع کیا تھا، انہوں نے بہانہ بنایا ، ہفتہ کو مچھلی پھنسا لیتے اور اتوار کو مارکر لاتے مگر یہ ایک بہانہ تھا۔ اسی طرح ٹیچر ڈے کی مناسبت سے کسی دوسرے دن بھی تحفہ لینا یہی ہوگا۔یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ ٹیچر کی محنت کی وجہ سے تحائف دئے جاتے ہیں بلکہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیچر ڈے کی نسبت سے یہ تحائف دئے جاتے ہیں ۔

سوال:میں ایک سکول ٹیچر ہوں اور میں ایک کلاس کی انچارج بھی ہوں، اس کلاس میں ایک غیر مسلم عیسائی لڑکی پڑھتی ہے، اس نے ایک ماہ میں تقریبا تین ہفتے ناغہ کیا ہے اور میرے کلاس کا رول ہے کہ جو بچہ چھٹی کرتا ہے اس سے فائن لیا جاتا ہے اور اس کو سزا بھی دی جاتی ہے۔یہاں پہ اصل سوال یہ ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے تاکہ اس کے ذہن میں یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اس کے ساتھ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے زیادتی کی جا رہی ہے؟

جواب: اسکول کا جو نظام ہوتا ہے، وہ سب کے لئے برابر ہوتا ہےاور مسلم وغیرمسلم کا امتیاز کئے بغیر سب کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جاتا ہےلہذا اسکول کے نظام کو نظام عدل کے تحت ہر کسی کے لئے برابر برتنا چاہیے تاہم یہاں پر دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ اسکول یا مدارس میں غیر حاضری کرنے پر جو مالی فیس لی جاتی ہے یہ اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے لہذا اسکول سے اس مالی جرمانہ کو ختم کیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کو سزا دینے پر تکلیف دہ مار یا ذلیل کرنے والی مار سے پرہیز کیا جائے یعنی ایسی تنبیہ ہو جس سے نہ بچے کو ضرر لاحق ہو اور نہ ہی وہ ایسی ذلت محسوس کرے کہ وہ آئندہ کے لئے تعلیم منقطع کردے۔

ان دو باتوں کے علاوہ اسکول کے تمام اصول و ضوابط میں سب کے لیے یکسانیت ہونی چاہیے، یہی ہمارا اسلام کہتا ہے۔

سوال: اگر کسی عورت کے شوہر کی آمدنی حرام ہو اور اس وجہ سے لڑکی شوہر سے طلاق لینا چاہے توکیا اسے اپنی عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارنی ضروری ہے یا میکے میں بھی گزار سکتی ہے؟

جواب:اگر شوہر کی آمدنی حرام ہو تو بیوی کو چاہیے کہ ہر ممکن طور پر اپنے شوہر کو منائے اور حلال روزی کمانے کی ترغیب دے اور اس کے لئے جو بھی حکمت بھری ترکیب ہو اسے اپنائے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ انتہائی کوشش کے باوجود شوہر اپنی اصلاح نہ کرے اور حرام کمائی سے باز نہ آئے تو بیوی اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے۔اور جب شوہر طلاق دے تو اسے عدت شوہر کے گھر میں ہی گزارنا ہے کیونکہ یہ رجعی طلاق ہے یعنی شوہر کو رجوع کا اختیار ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ ممکن ہے شوہر اپنی اصلاح کر لے اور بیوی کو صحیح سے اپنالے۔

سوال: عصر و مغرب کے درمیان سونا کیسا ہے، کیا اس درمیان سونے سے بچوں میں یا بڑوں میں برے اثرات آتے ہیں ؟

جواب: عصر اور مغرب کے درمیان سونے سے بچوں یا بڑوں پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ آدمی کو رات میں سونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے سونے کے لئے رات کو بنایا ہے اس لئے بلا ضرورت عصر کے بعد نہ سوئے کیونکہ اس میں مغرب کی نماز فوت ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہاں کسی کو عصر کے بعد سونے کی حاجت اور ضرورت پڑ جائے تو وہ سو سکتا ہے اس میں حرج نہیں ہے اور اس سے کسی چیز پر برا اثر نہیں پڑتا ہےتاہم نماز کے لئے الارم وغیرہ لگالے ۔

سوال: کیا ہم وہ چیز بیچ سکتے ہیں جس کو شریعت اسلامیہ میں منع کیا گیا ہو جیسے چھوٹے کپڑے، شادی کے جوڑے اور لڑکیوں کےجینس وغیرہ ؟

جواب:اسلام نے جہاں عبادات و احکام کی ہمیں تعلیم دی ہے، وہیں پر ہمیں تجارت و معاملات سے متعلق بھی واضح تعلیمات دی ہے۔ تجارت میں ہم صرف اسی چیز کی کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں جس کا استعمال شرعا جائز ہے لہذا ایسی چیزوں کا بیچنا اور اس کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے جو اسلام میں منع ہے۔ اس وجہ سے ایسے تمام کپڑوں کی تجارت شرعا جائز نہیں ہے جن کا پہننا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: کہ تم گناہ اور ظلم کے کام پر تعاون نہ کرو۔

اگر کوئی غیر شرعی لباس بیجتا ہے تو جس طرح غیر شرعی لباس پہننے والے کو گناہ ہوگا اسی طرح غیر شرعی لباس بیچنے والے کو بھی گناہ ہوگا۔

سوال: ایک عورت عمرے پر جا رہی ہے اس کا سوال یہ ہے کہ احرام کی حالت میں عورت کس قسم کا جوتا پہن سکتی ہے، کیا کراس چپل جوآگے سے پنجے کور ہوتے ہیں لیکن پیچھے سے ٹخنے ننگا ہوتے ہیں، اسی طرح لیدر سوکس جو ٹخنے تک ہوتے ہیں یا جوتا پہن کر طواف و سعی کیا جا سکتا ہے اور وہ نقاب کرتی ہے تو احرام کی حالت میں کیسے نقاب کرے گی؟

جواب: عورت کے لئے احرام کی حالت میں کسی بھی قسم کا جوتا اور موزہ لگانا جائز ہے بلکہ وہ چپل نہیں پہنے ،موزہ اور جوتا استعمال کرے تاکہ زیادہ پردہ ہو۔جہاں تک حرم میں جوتا پہن کرداخل ہونے اور اس میں طواف وسعی کرنے  کا مسئلہ ہے تو اس معاملے میں احتیاط کرے یعنی حرم کے اندر جوتا پہن کر داخل نہ ہو کیونکہ یہ صفائی ستھرائی کا معاملہ ہے، وہ جراب (پورے پیرڈھکنے والا)یا لیدرساکس (خواہ  پورےپیرڈھکے یا ٹخنے تک ہو)پہن کرحرم کے اندر داخل ہو اور اس حالت میں عمرہ کرے۔نیز یہ بھی یاد رہے کہ مسح صرف اس موزہ پر ہوگا جو حالت وضو میں پہناجائے اور وہ پورےٹخنوں کو ڈھکنے والا ہو، ٹخنے سے نیچے والے موزہ وجراب پر مسح نہیں ہوگا۔
اور عورت کے لئے احرام کی حالت میں نقاب اور برقع ممنوع ہے اسے چاہیے کہ قمیص و شلوار کے ساتھ بڑی چادر استعمال کرے جس سے اپنے سر و چہرے اور ہاتھ کا پردہ کرے۔ تفصیل کے لئے اس موضوع پر میرا مضمون "حج وعمرہ میں عورتوں کے احرام کا لباس" دیکھیں۔

سوال: میرے نندوی کا ریاض میں چھبیس تاریخ کو انتقال ہوا ہے اور آج وہیں پر ان کی تدفین ہوئی ہے، کیا ان کی نمازِ جنازہ انڈیا میں پڑھ سکتے ہیں، ہمارے یہاں کی مسجد کے مولانا نےکہاہے کہ یہ درست نہیں ہے؟

جواب: نماز غائبانہ سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے، بعض علماء نماز جنازہ کے قائل ہیں اور بعض نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں اور میرا اس سلسلے میں ماننا یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں دلیل موجود ہے لہذا آپ کا جو رشتہ دار ریاض میں انتقال کیا ہے ان کے جنازہ کی نماز، غائبانہ طور پر انڈیا میں پڑھی جا سکتی ہے۔

سوال: اگر کوئی اپنے سامان کو ہاتھ لگانے سے منع کرنے کے لئے اللہ کا واسطہ دے یعنی وہ یہ کہے کہ اللہ کے واسطے میرے سامان کو ہاتھ نہیں لگانا یا میری مٹھائی وغیرہ نہیں کھانا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے اور اس جملہ کے ذریعہ منع کرنے کے بعد بھی کوئی ہاتھ لگا دیتا ہے یا کھا لیتا ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟

جواب: ویسے اللہ کا واسطہ دے کر کوئی چیز مانگنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے کسی چیز سے منع کرنے کے لئے اللہ کا واسطہ نہیں دینا چاہیے، اگر کسی کو منع کرنا ہو تواللہ کا واسطہ دئے بغیر منع کرے اس لئے یہاں صرف یہی اہم نہیں ہے کہ کوئی منع کردہ چیز کو ہاتھ لگائے بلکہ یہاں اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کوئی آدمی ایسی بات ہی نہ بولے جو نہیں بولنا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کوئی کسی کو اللہ کا واسطہ دے کر منع کرے یا بغیر اللہ کا واسطہ دئے منع کرے، جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس چیز سے رکنا چاہیے اور اگر کوئی نہیں رکتا ہے اور اس کی منع کردہ چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو یہ امانت میں خیانت ہے۔

ویسے بھی کسی کی رکھی ہوئی چیز کو ہاتھ لگانا صداقت و امانت کے خلاف ہے اور جب منع کر دیا جائے تو اس کو ہاتھ لگانا اور بھی امانت کے خلاف ہے لیکن صرف ہاتھ سے چھودینا کوئی گناہ نہیں ہے، گناہ اس وقت ہوگا جب کسی کی چیز کو استعمال کر لے یعنی کھانے والی چیز کھا لے یا استعمال کرنے والی چیز کو بغیر اجازت کے استعمال کر لے۔

سوال: ڈاکٹر ذاکر نائک کے بارے میں کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ وہ منہج سے بھٹکا رہے ہیں، ان کو سننا نہیں چاہیے، وہ قرآن کی آیت کا غلط مفہوم بتاتے ہیں اگرچہ وہ غیر مسلموں کو دعوت دیتے ہیں اور مجھے ان کی باتیں غلط لگتی ہیں بلکہ کچھ کو ان سے نفرت اتنی ہے کہ ان سے کوئی ویڈیو بھی شیئر کر دیں تو ناراض ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ علماء کے ہوتے ہوئے جاہلوں سے علم لینا علماء کے ساتھ نا انصافی ہے ، کیا ڈاکٹر ذاکر نائک سے اس طرح نفرت کرنا صحیح ہے، آپ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب: ان دنوں ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف بدگمانی پیدا ہو گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دعوت دین میں  ڈاکٹر ذاکر نائک کی اپنی خدمات ہیں اور وہ اپنے میدان میں آج بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں لہذا ان کی گرانقدر خدمات سے چشم پوشی کرتے ہوئے مکمل طور پر ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف ہو جانا قطعا درست نہیں ہے۔

یہ بھی اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ ان سے علمی طور پر غلطی ہوئی ہے، ہمیں ان کی غلطی کو غلطی ہی ماننا ہے ہم ان کی غلطی کو درست نہیں مانیں گے لیکن ان کی جو صحیح چیزیں ہیں ہم ان کا انکار نہیں کر سکتے ہیں۔

وہ کتاب و سنت کے داعی ہیں اور دین کی دعوت کتاب و سنت ہی سے پیش کرتے ہیں لہذا ان کی جو حق بات ہے اسے قبول کی جائے اور ان کی جو غلطی ہے ان غلطیوں کو غلطی مانا جائے جیسے ہم دیگر عالموں کے تعلق سے موقف اختیار کرتے ہیں یعنی ان کی درست بات کو تسلیم کرتے ہیں اور خطاؤں کو چھوڑ دیتے ہیں نیز ڈاکٹر صاحب کی علمی خطا کو بیان کرنا بھی اپنے جگہ درست ہے تاکہ ان کی خطاؤں سے دوسرے بچیں۔

آخری بات یہ ہے کہ شرعی علوم حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس علماء موجود ہیں ہم ان سے مربوط ہو کر شرعی تعلیم حاصل کریں گے اور علماء ہی سے شرعی مسائل پوچھیں گے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا میدان غیرمسلموں سے متعلق  ہے وہ اپنے میدان  میں کام کریں ،کسی کو ان کے کام  میں کوئی رخنہ نہیں ڈالنا چاہیےاور خطاؤں پر نصیحت کرنا اپنی جگہ درست ہے۔

سوال: کیکڑے سے متعلق صحیح مسئلہ کیا ہے کیا یہ حلال ہے یا حرام ہے؟

جواب: کیکڑے کے متعلق علماء کے دو قسم کے اقوال ملتے ہیں، بعض علماء کیکڑے کو ناجائز سمجھتے ہیں اور بعض علماء کیکڑے کو حلال سمجھتے ہیں۔مختصرا آپ یہ سمجھیں کہ اللہ تعالی نے پانی کے جانور کو حلال قرار دیا ہے لہذا وہ کیکڑا جس کی زندگی پانی ہی ہو اور پانی کے بغیر زندہ نہ رہ سکے تو اس کے حلال ہونے میں کوئی شک نہیں یعنی آپ اس کو کھا سکتے ہیں کیونکہ اللہ نے سمندری شکار کو ہمارے لئے حلال قرار دیا ہے۔ ہاں اگر اس کیکڑے سے انسانی جسم کو ضرر لاحق ہوتا ہو تب اس صورت میں جائز نہیں کہا جائے گا۔

سوال: ایک بہن کا بھائی جیل میں ہے، وہ بہن پوچھتی ہے کہ کوئی دعا بتادیں جس کے پڑھنے سے جلدازجلد جیل سے رہائی ہوجائے؟

جواب:ہم نے بارہا اس بات کی تاکید کی ہے کہ جب ہم کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اس سے نکلنے کے لئے ہمیں تدبیر اور دنیاوی اسباب اپنانا پڑے گا اور ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین سے اپنی زبان میں دعا بھی کریں بطور خاص افضل اوقات میں، ان میں اپنی پریشانی کو رب العالمین سے بیان کریں بلکہ اپنی کسی خاص نیکی جو اللہ کی رضا کے لئے انجام دی ہو، اس کا وسیلہ لگاکر اللہ سے دعا کریں۔ ممکن ہے اللہ تعالی تکلیف دور کر دے جیسے اس نے غار میں پھنسے ہوئے لوگوں کی تکلیف کو دور کیا تھا۔جیل سے رہائی کے لئے ہمیں رسول نے کوئی خصوصی دعا نہیں بتائی ہے ، تکلیف سے متعلق جو بھی مسنون دعائیں ہیں وہ پڑھ سکتے ہیں اور بہتر ہے کہ اپنی زبان میں اللہ سے دعا کریں، اللہ ہر پکار کو سننے والا ہے۔ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ بدعتی لوگ مختلف قسم کے وظیفے بتاتے ہیں، ان وظائف کے کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے سوائے گناہ کے کیونکہ مصنوعی وظائف بدعتی عمل کہلاتا ہے۔

یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ  کوئی واقعتا جرم کیا ہو تو مجرم کو سزا ملنی چاہئے تاکہ اس کو عبرت ملے اور دوسروں کو بھی اس سے عبرت حاصل ہو اور لوگ سماج میں جرم کرنے سے بچیں، اسی لئے تو اسلام نے مختلف قسم کے جرائم پر سزائیں مقرر کی ہے ۔

سوال: کیا مرد ہیرے موتی پہن سکتے ہیں جیسے آج کل شیروانی پر پہنتے ہیں؟

جواب:مردوں کا اپنی شیروانی پر ہیرے اور موتی لگوانا یہ عورتوں کی مشابہت میں سے ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کر نے  اور اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ ایسے لوگوں پر لعنت کی گئی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ(صحیح البخاری:5885)

ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیساچال چلن اختیار کریں۔

لہذا مردوں کو ایسی زینت اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جو عورتوں کی خصوصیت ہے اور معمولی مقدار میں جیسے انگوٹھی یا ایک آدھ بٹن لگا ہو جس سے نسوائیت نہ جھلکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہےنیز مردوں کے لئے سونا  یا سونے سے بنی چیز بھی استعمال کرنا منع ہے مگر چاندی کی انگوٹھی مرد استعمال کرسکتا ہے۔

سوال: صحیح مسلم(780) میں ایک حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر سے بھا گتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں کیا سورہ بقرہ ہر روز پوری تلاوت کرنی ہے؟

جواب:صحیح مسلم کی اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورہ بقرہ گھر میں روز پڑھنا چاہیے بلکہ سورہ بقرہ پڑھنا جن و شیاطین سے حفاظت کا سبب ہے لہذا ہمیں جب اور جتنی سہولت ہواپنے گھر میں  سورہ بقرہ پڑھنا چاہیے اور اگر کوئی چاہے تو سورہ بقرہ کی تلاوت بھی اپنے گھر میں لگا سکتا ہے لیکن یہ روز کا عمل نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کوئی اپنے گھر میں صرف سورہ بقرہ کی تلاوت کرے بلکہ پورا قرآن شفا ہے تو پورے قرآن سے تلاوت ہونی چاہیے۔
اور نہ صرف گھر میں تلاوت ہو بلکہ گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز بھی پڑھنے کا حکم دیا ہے اور وہ گھر جس میں نماز نہ پڑھی جائے اس گھر کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان کہا ہے جیساکہ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:إجعلوامن صلاتکم فی بیوتکم ولا تتخذوھا قبورا(صحیح مسلم: 777).

ترجمہ: اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔

لہذا ہمیں گھر میں قرآن بھی پڑھنا چاہیے، نماز بھی پڑھنا چاہیے اور مزید جو کچھ گھر اور انسانی زندگی کی حفاظت کے لئے اللہ اور اس کے رسول نے بتایا ہے وہ سارا عمل ہمیں انجام دینا چاہیے۔واضح رہے کہ عورتیں اپنی مکمل نماز گھر ادا کرسکتی ہیں جبکہ مردوں کو فرض نماز مسجد میں اور سنن ونوافل گھر میں ادا کرنا چاہئے۔

سوال: ایک مرد نے اپنی بیوی کو نشہ کی حالت میں ایک مرتبہ پہلے بھی طلاق دیا تھا اور اس نے ابھی بھی نشہ کی حالت میں طلاق دیا ہے ، کیا اس سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب:نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے لہذا اگر کسی نے اپنی بیوی کو نشہ کی  حالت میں طلاق دی ہے اور نشہ ایسا تھا کہ اس وقت صحیح وغلط میں تمیز کی صلاحیت نہیں تھی  توایسی حالت میں دی گئی  طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ نشہ کی حالت میں آدمی دیوانہ کے حکم میں ہے جس کے پاس عقل نہیں ہوتی اور دیوانہ مرفوع القلم ہوتا ہے ۔طلاق واقع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اپنے پورے ہوش اور حواس میں ہو۔

سوال: میری شادی کو تیرہ سال ہو گئے ہیں اور الحمد للہ ہمارے تین بچے ہیں، میرے شوہر باہرجایاکرتے ہیں اور میں سسرال میں ہی رہتی ہوں۔ بہت اچھے سے ہماری زندگی گزر بسر ہو رہی تھی، میرے شوہر ہفتہ دس دن پر گھر آتےتھے، فون سے بھی دن بھر کچھ کچھ وقفہ سے باتیں ہوتی تھی لیکن اچانک میرے شوہر نے مجھ سے بات کرنا بند کر دیا حتی کہ فون اٹھانا بھی۔ بہت زیادہ فون کرنے پر ریسیو کرتےہوئے کہتے ہیں فون مت کرو، کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ میں بہت پریشان ہوگئی کہ آخر مجھ سے کیا غلطی ہوگئی، بہت روئے، ہاتھ پیرجوڑکرمعافی مانگے کہ اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کردیں مگر کوئی سنوائی نہیں۔ اس بات کا میرے اوپر اتنا برا اثر ہوا کہ روتے روتے برا حال ہے، کھانا پینا چھوٹ گیا، کمزوری لاحق ہوگئی، جب اپنی امی سے کہا تو صبر کرنے کہتی ہیں ۔ میں نے تعویذ گنڈے بھی بہت کروائے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، مجھے شک ہے کہ شوہر کا باہر کسی سے افیئر چل رہا ہے ۔ اس معاملہ کی لمبی داستان ہے ۔ میکے والوں نے بھی سمجھایا مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔اب تو دو تین مہینے پرگھر آتے ہیں اور دو تین دن رہ کر جاتے ہیں مگر نہ وہ مجھ سے بات کرتے ہیں اور نہ ہمارے بیچ کوئی میاں بیوی والا تعلق ہے۔ فون سے بھی بات نہیں ہوتی ، ایک سال ہوگیا مگر ہمارے بیچ کچھ بھی نہیں ہے، سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں ، میری رہنمائی کریں۔

جواب: کافی دکھ بھری کہانی ہے، اللہ تعالی آپ کو ہمت و حوصلہ دے اور آپ کی پریشانی کو دور فرمائے۔اس مسئلے میں ضروری ہے کہ آپ کسی عالم کی رہنمائی میں آپ خود بھی اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھیں تاکہ اس مسئلہ میں گفتگو کی جائے اور شوہر کی بات آپ کے سامنے سنی جائے، اسے آپ بھی سنیں اور وہ بھی صحیح بات بتا سکے۔ اس لئے آپ اپنے آس پاس کے کسی اچھے عالم دین کو تلاش کریں اور ان سے وقت لے کر ایک دن آپ اور آپ کے شوہر ایک ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے پہ گفتگو کریں کہ آخر آپ کے شوہر کے ساتھ کیا معاملہ ہے، کیا وہ آپ کی کسی بات سے ناراض ہیں یا ان کا باہری کوئی مسئلہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر حال میں آپ کسی عالم دین کے ذریعہ بیٹھک کریں۔ اور ساتھ ہی اپنے سسرال میں جو آپ کے ہم خیال ہیں ان کا تعاون لے کر ان کے ذریعہ اپنے شوہر کے حال چال جاننے اور شوہر کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں۔ہمت نہ ہاریں ، اللہ سے دعائیں بھی کریں ، تعویذگنڈے سے بچیں یہ بدعتی کام ہےاور اگر شوہر گھر سے نہیں نکالتا، کھانے پینے کی ضروریات پوری کرتا ہے تو صبر سے کام لیں ۔صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔

سوال: دعا كرتے ہوئے نبی ﷺ کے صدقے سے لوگ دعا مانگتے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب:صحیح حدیث کی روشنی میں دعا کے طور پر تین قسم کے وسیلے لگانا جائز ہے، ان تین کے علاوہ اور کوئی وسیلہ لگانا جائز نہیں ہے۔

پہلا: اللہ کے اسمائے حسنی کا وسیلہ لگانا جائز ہے۔

دوسرا: اپنی کسی نیکی کا وسیلہ لگانا جائز ہے۔

تیسرا: زندہ شخص کے ذریعہ دعا کروانا جائز ہے۔

ان تین وسیلوں کے علاوہ چوتھا کسی اور کا وسیلہ لگانا خواہ وہ نبی ہو یا ولی ہو یا شہید ہو یا کوئی اور ہو جائزنہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبہ سے وسیلہ لگانے کے بارے میں بعض احادیث آئی ہیں لیکن کوئی بھی صحیح نہیں ہے اس لئے اپنی دعا میں یہ کہنا کہ اے اللہ نبی کے صدقہ طفیل قبول فرما، یا نبی کی شان اور مرتبہ کے وسیلے قبول فرما جائز نہیں ہے۔ ہم براہ راست اللہ رب العالمین سے دعا کریں گے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ(اغفر:60)

ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہا تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں۔یعنی اللہ تعالی نے خود ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اللہ کو بغیر وسیلہ کے ڈائریکٹ پکاریں۔

سوال:کیا ہم اپنی زکوۃ سے لیا ہوا قرض واپس کر سکتے ہیں؟

جواب: سائل نے شاید یہ پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ اس نے کسی آدمی سے قرض لیا ہے، کیا اسی آدمی کو قرض اتارنے کے لئے زکوۃ دے سکتا ہے؟اگر سوال یہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں یعنی قرض اتارنے کے لیے زکوۃ نہیں دی جا سکتی ہے۔ قرض کو ادا کرنے کے لئے الگ سے پیسہ دینا پڑے گا اور زکوۃ کی ادائیگی ان لوگوں کے لئے کریں جو زکوۃ کے مستحق ہیں۔ جس سے قرض لیا گیا ہے اگر وہ بھی زکوۃ کا مستحق ہے تو اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن قرض باقی رہے گا اس زکوۃ سے قرض نہیں اترے گا۔

سوال:شریعت اسلامیہ میں کس حد تک ایک طالب علم کو اپنے اساتذہ کی سختی کو برداشت و صبر کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی طالب کسی ماہر استاد سے پڑھ رہا ہو لیکن استاد کو غصہ بہت آتا ہو اور وہ اتنی سختی سے طالب علم سے پیش آتے ہوں کہ اسے ذہنی بیماری ہونے لگے۔ اسٹریس کی وجہ سے بدنی بیماری بھی ہو جائے تو ایسی حالت میں طالب علم کے لئے اس استاد کو چھوڑ کر دوسرے ماہر اور نرم مزاج کو ڈھونڈنا چاہیے یا پھر یہ سوچنا چاہئے کہ چاہے کچھ بھی ہو استاد کی سختی پر صبر کرکے ہی علم حاصل کیا جا سکتا ہے حالانکہ اس کی حالت بدترین ہو رہی ہو؟

جواب:استاد کے غصہ سے قبل یہ بات جاننا ضروری ہے کہ ہمارے معلم اور مدرس کتاب و سنت کے مستند عالم اور منہج سلف کے مطابق تعلیم دینے والے ہوں اور ان کے اندر تعلیم دینے کے تئیں اخلاص و للہیت پائی جاتی ہو۔ اگر آپ اس قسم کے مدرس سے تعلیم حاصل کرتے ہیں تو یقینا وہ آپ کو وہیں پر ڈانٹیں گے اور تنبیہ کریں گے جہاں پر آپ سے غلطی ہوئی ہے اور غلطی پر استاد کا تنبیہ کرنا ایک فریضہ ہے ۔ یہ فریضہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے بلکہ دین کا آدھا حصہ غلطی پر تنبیہ کرنا ہے اور آدھا حصہ نیکی کا حکم دینا ہے جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ اگر کوئی عالم صرف نیکی کا حکم دے اور غلطی پر تنبیہ نہ کرے تو وہ عالم، عالم ہی نہیں ہے۔

اب اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا صفات کے حامل عالم نہیں ہیں تو یقینا وہ طالب علم کے ساتھ زیادتی کر سکتے ہیں اور جیساکہ آپ نے بتایا کہ وہ بات بات پر غصہ ہوتے ہیں جس سے طلبہ کو ذہنی بیماری لگ سکتی ہے بلکہ تکلیف ہونے لگی ہے تو پھر ایسے استاد کو چھوڑ کر مخلص اور منہج سلف کے معلم سے وابستہ ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں ایک آخری بات یہ بھی ہے کہ آپ نے اس استاد کی کوئی کیفیت نہیں بیان کی ہے جس سے اس استاد کی حقیقت کو ہم اچھی طرح جان سکیں کیونکہ بسا اوقات طالب علم استاد کی صحیح تنبیہ کو بھی اپنے لئے ظلم اور زیادتی سمجھتا ہے لہذا اگر استاد کی کیفیت بیان کی جاتی تو معاملہ زیادہ واضح رہتا تاہم میں نے صورتحال بیان کر دی ہے اس سے آپ صحیح راستہ چن سکتے ہیں۔

سوال:آپ نے ایک آدمی کو بتایا کہ لفظ سر استعمال نہیں کرنا چاہیے، یہ اسکول کے ٹیچر کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب یہ بات میں نےاپنے ساتھیوں سے بتائی تو ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف زبان کا فرق ہے ۔ سربھی عزت دینے کے لئے ہی بولا جاتا ہے اور سب اپنی اپنی زبان میں بول سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ ایک عالم یا اپنے استاد کے لئے بھی لفظ سر استعمال کرسکتے ہیں لیکن   مجھے بھی سر کا استعمال درست نہیں لگتا ہے مگر اپنے ساتھیوں کو کیسے سمجھاؤں ، اس بارے میں میری مدد کریں؟

جواب:لفظ سر انگریزی لفظ ہے جو عصری تعلیم سے وابستہ لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یا عام بول چال میں بھی دنیاوی پیشوں سے جڑے لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔جہاں تک علمائے کرام کا تعلق ہے تو ان کے لئے سر کا استعمال کرنا قطعا درست نہیں ہے کیونکہ علماء، دین کے رہنما ہیں اور آپ دین سے متعلق جس زبان کی بھی کتاب اٹھا کر دیکھیں گے حتی کہ انگریزی کتاب بھی اٹھا کر دیکھیں وہاں پر علماء کے لئے سر کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر سر کا لفظ استعمال کرنا علماء کے لئے مناسب ہوتا تو انگلش کتابوں میں کم از کم اس کا استعمال ضرور ملتا مگر ایسا نہیں ہے۔ آپ تمام زبانوں میں علماء کے لئے خصوصا شیخ کا لفظ اور اردو ہندی کے طور پر شیخ کے علاوہ مولانا یا حضرت وغیرہ کا لفظ پائیں گے۔

یہاں پر اسی مسئلہ کو دوسرے زاویہ سے دیکھئے کہ کسی وکیل یا انجینیئر یا لیکچرار اور پروفیسر کو مولانا اور شیخ کہہ کر پکاریئے، کیا وہ آپ کے اس لفظ سے خوش ہوگا، کبھی خوش نہیں ہوگا ۔اگر کسی پولس والے کو مولا ناکہیں تو اپنے پاس کھڑا نہیں ہونے دےگاکیونکہ مولانا اور شیخ عالم دین کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ جب کسی ڈاکٹر اور انجینئر کو مولانا کہنے سے وہ ناراض ہوگا اسی طرح کسی عالم دین کو سر کہنے سے ہم ناراض ہوتے ہیں۔

اور چونکہ میرے جیسے بہت کم علماء ہیں جو اس بات پر لوگوں کی تنبیہ کرتے ہیں اس لئے عام لوگ  علماء کے لئے بھی سر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا استعمال اہل علم کے لئے درست نہیں ہے۔ اگر میری طرح دیگر علماء بھی اس پر گرفت کریں تو پھر عام لوگ علماء کے لئے سر استعمال کرنے سے باز آجائیں گے۔

سوال: کیا سلام کے ساتھ باربار اس کا ترجمہ بھیجنا بدعت میں شمار ہوگا؟

جواب:اگر ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو صرف سلام کرنا ہی کافی ہے اس کا ترجمہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ سلام کا معنی، مفہوم اور اس کی شرح بیان کر رہے ہیں تو ظاہر سی بات ہے آپ سلام کا معنی بتائیں گے لیکن سلام کرتے ہوئے سلام کا معنی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اگر کسی نے سلام کے ساتھ ترجمہ لکھ  بھی دیا تو اس میں حرج کی بات نہیں ہے تاہم اسی کام کو بار بار کوئی کرے تو یہ مناسب نہیں ہے مگر اسے بدعت نہیں کہیں گے کیونکہ یہاں تو ایک حقیقت بیان کی جا رہی ہے یعنی سلام کا جو معنی ہے وہ بیان کیا جا رہا ہے اسے بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کے شوہر چند دن پہلے فوت ہو چکے ہیں اور وہ کریانے کی دکان چلاتے تھے جو کہ گھر کے نیچے ہے اور دکان کے اوپر گھر ہے۔ گھر کا گزر بسر اسی دکان پر ہے تو کیا وہ اپنی عدت کے دنوں میں نقاب کر کے اس دکان پر بیٹھ سکتی ہے جبکہ اس کا کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ وہ اپنی بچیوں کو نہیں بٹھانا چاہتی۔ایک بیٹا ہے جو کہ بیمار اور معذور ہے، اس کا علاج بھی چل رہا ہے اور سارا خرچ ان کو اس دکان سے ہی نکالنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بیوہ کیا کرے؟

جواب:جیساکہ صورتحال مذکور ہے کہ ایک خاتون کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے جس کے پاس ایک کریانے کی دکان ہے اور اب اس کو چلانے والا گھر میں کوئی مناسب آدمی نہیں ہے اور وہی دکان گھر کی ضرورت کے لیے ہے لہذا ایسی صورت میں بیوہ عورت عدت میں اپنی دکان پر بیٹھ سکتی ہے اور دکان چلا سکتی ہے کیونکہ یہ باعث عذر ہے۔ باقی اس خاتون کو عدت کے دیگر امور کی پابندی کرنی چاہیے یعنی وہ زینت کی چیزیں نہ استعمال کرے اور بلا ضرورت دوسری جگہ نہ جائے، اپنے آپ کو دکان اور مکان تک محدود رکھے۔

سوال: نیاگھر بننے کی خوشی میں دوست و احباب کو دعوت دے سکتے ہیں؟

جواب:نیا مکان میسر ہونا اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ بڑی مشکل سے اور پائی پائی جمع کرکے آدمی آج کے زمانے میں مکان بنا پاتا ہے اور مکان بنانے کی خوشی در اصل وہی آدمی محسوس کر سکتا ہے جس نے اپنا ذاتی مکان محنت کے بل بوتے بنایا ہو۔

لہذا نئے مکان کی نعمت ملنے پر اگر خوشی میں کوئی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ جب بھی ہمیں خوشی ملے تو خوشی کے موقع پر خوشی کے اظہار سے اسلام ہمیں منع نہیں کرتا ہے تاہم خوشی میں  گناہ یا بدعت کا کام کرنا یا جاہلی رسم و رواج انجام دینا جائز نہیں ہے۔

سوال: میری چچی نے مسجد میں قرآن دینے کے لئے منت مانی تھی تو کیا وہ اس کا پیسہ مسجد میں دے سکتی ہے یا قرآن ہی دینا پڑے گا؟

جواب: منت میں جس چیز کی منت مانی جاتی ہے اور جیسے منت مانی جاتی ہے اسی طرح پورا کرنا واجب ہے لہذا آپ کی چچی پر مسجد میں قرآن دینا واجب ہے ، اس کا پیسہ نہیں دیا جائے گا۔

سوال: نیل پالش لگی ہو تو کیا اس سے وضو ہوجاتا ہے ، دلیل سے اس بات کی وضاحت فرمادیں ؟

جواب: اگر کسی خاتون نے ناخن پر نیل پالش لگائی ہو تو اس سے وضو نہیں ہوگا کیونکہ نیل پالش کی وجہ سے پانی ناخن کی جلد تک نہیں پہنچ سکے گا اور وضو کے لئے ضروری ہے کہ پانی جلد تک پہنچے ۔ اسی لئے نبی ﷺ نے اچھی طرح  اور کامل طور پروضو کرنے کا حکم دیا ہے اور وضو میں تین تین بار ہرعضو کو دھلنے کا حکم بھی اسی وجہ سے ہے کہ اعضائے وضو اچھی طرح دھل جائیں ۔ اس بارے میں خصوصی دلیل صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ ہم جس وقت پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لئے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (خشک رہ جانے کی وجہ سے ) کیونکہ ان تک پانی نہیں پہنچا تھا ۔(ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی صورت میں ہلاکت ہے ، مکمل طورپر وضو کرو۔ (صحیح مسلم:241)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو میں کوئی حصہ خشک رہ جانے سے وضو بھی نہیں ہوتا اور یہ ہلاکت کا سبب بھی ہے بلکہ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث دیکھیں ۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور اس نے اپنے پیر پہ ناخن کے برابرحصہ چھوڑدیا (یعنی باخن کے برابر پیر کے حشک رہ گیا) ۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا: لوٹ جاؤ اور اچھے ڈھنگ سے اپنا وضو کرکے آؤ۔ پس وہ لوٹ گیا پھر اس نے (دوبارہ وضو کرکے) نماز پڑھی۔(صحیح مسلم:243)

اب اس حدیث سے پوری طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ اعضائے وضو میں کوئی حصہ خشک رہ جائے تو وضو ہی نہیں ہوتا اور نیل پالش میں بھی پانی ناخن کی جلد تک نہیں پہنچ پاتا جس کی وجہ سے ناخن خشک ہی رہ جاتا ہے اس وجہ سے نیل پالش لگے رہنے پر وضو نہیں ہوگا۔اور کسی نے نیل پالش کے ساتھ وضو کیا اور نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی نہیں ہوگی کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ وضو کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔(صحیح مسلم:224)

 لہذاجس عورت کو نیل پالش لگی ہو اسے وضو کے وقت پہلے کھرچ کر ہٹانا اور پوری طرح صاف کرنا ہوگا اس کے بعد وضو کرنے سے وضو ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔