Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(13)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(13)

 

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب


سوال: کیا اپنے بیٹے کا نام عبدالہادی رکھ سکتے ہیں؟

جواب:یہاں پر ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا الہادی اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ہے یا نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ، شیخ ابن عثیمین ؒنے کہا ہے کہ اس کے اسمائے حسنی میں سے ہونے کی دلیل کا مجھے علم نہیں ہے اور کچھ اسی قسم کی بات شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے کہی ہے اور اس میں صحیح بات یہی ہے کہ الہادی اسمائے حسنی میں سے نہیں ہے بلکہ اللہ کے صفات میں سے ہےکیونکہ اللہ ہی اصلا الہادی ہے یعنی وہ بندوں کو ہدایت دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِياً وَنَصِيراً(الفرقان:31)

ترجمہ:اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا اور مدد کرنے والاکافی ہے ۔

اور اسی طرح اللہ کا فرمان ہے: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص:56)

ترجمہ: آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔

تاہم اللہ تعالی نے رسولوں کو بھی ھاد یعنی ہدایت و رہنمائی کرنے والا کہا ہے جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے:

إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:7)

ترجمہ:بات یہ ہے کہ آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

لہذا محمد ہادی بھی نام رکھ سکتے ہیں اور اگر کوئی عبدالہادی نام رکھتا ہے تو بھی اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے کیونکہ اسلاف میں اس طرح کا نام گزرا ہے اور کسی نے اس نام پر نکیر نہیں کی ہے ۔ جب ھاد ی پر الف لام آجائے یعنی الھادی تو خصوصیت کے ساتھ اللہ ہی کے لئے استعمال ہوگا۔

سوال:85گرام سونے کی مقدار تولے کے حساب سے کیا ہے، میرے پاس تین تولہ سونا ہے اور اس پر سال بھی گزر گیا ہے تو کیا زکوٰۃ دینی ہوگی اور کیا اس تین تولے سونا کی وجہ سے قربانی بھی کرنی ہوگی؟

جواب:85 گرام سونا تولہ کے حساب سے ساڑھے سات تولہ بنتا ہے۔ جس کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ یعنی 85 گرام یا اس سے زیادہ سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس کی قیمت  میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی۔

آپ کے پاس نصاب سے کم سونا ہے لہذا آپ کو زکوۃ نہیں دینا ہے اور سونا وچاندی سے قربانی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قربانی ایک الگ چیز ہے اور یہ اس کو دینا ہے جس کے پاس قربانی کا جانور خریدنے کی طاقت ہو۔

سوال: اگر عورت پر غسل جنابت واجب ہو اور وہ کسی وجہ سے ابھی غسل نہ کرسکی تو کیا اس ناپاکی کی حالت میں وہ خود کھا پی سکتی ہے اور بچے کو فیڈ کروا سکتی ہے؟

جواب:جنابت کی حالت میں کھانا بنانا، کام کاج کرنا، کھانا کھانا، بچے کو دودھ پلانا، سونا وغیرہ یعنی ان میں سے کوئی کام ممنوع نہیں ہے۔ گویا یہ سارے کام جنابت کی حالت میں  جنبی انجام دے سکتا ہے تاہم بلاعذر غسل جنابت میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے تاکہ نماز کی ادائیگی میں تاخیر یا کوتاہی نہ ہو۔

سوال: غزیۃ نام کا کیا مطلب ہے ، کیا یہ نام لڑکا یا لڑکی دونوں کا رکھ سکتے ہیں اور غازیہ کا معنی کیا ہے؟

جواب:غزیہ نام سے انصاری صحابی گزرے ہیں ان کا نام اس طرح سے ہے،غَزِيَّةَ بْنِ عمرو الأنصاري(یہاں زاء کے بعد یاء پر تشدید ہے)۔

یہ نام لڑکے کا رکھ سکتے ہیں اور غازیہ غزوہ کرنے والی عورت، یہ نام عورت کے لئے رکھ سکتے ہیں۔

سوال: نقدی میں زکوۃ کا نصاب کتنا ہوتا ہے؟

جواب:نقدی کی زکوۃ سونا یا چاندی کے نصاب کا اعتبار کرکے دیں گے۔ مثال کے طور پر 595 گرام چاندی  کانصاب ہے، اگر کسی کے پاس 595 گرام چاندی کی قیمت کے برابر پیسہ ہوجائے اور اس پیسے پر ایک سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینا ہے۔گویا پیسے میں زکوۃ کے لئے کوئی رقم متعین نہیں ہے، یہ رقم اپنے اپنے ملک اور شہر کے سونا اور چاندی کی قیمت میں اختلاف کے سبب الگ الگ ہوسکتی ہے۔

سوال: کیا سمندر کی ہرچیز حلال ہے، بعض لوگوں سے سنا ہے کہ سمندر میں بعض زہریلے جاندار بھی ہوتے ہیں ، کیا یہ صحیح ہے ۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان کا کھانا کیسا ہے اور کیکڑا کے بارے میں سنا ہے کہ جس کا تعلق پانی ہو ہو اس کا کھانا جائز ہے اور جو ریگستان میں رہتا ہو اس کا کھانا جائز نہیں ہے، اس بارے میں رہنمائی کریں ؟

جواب:سمندری جانور کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے :أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ (المائدة: 96)

ترجمہ:تمہارے لئے سمندر کا شکار اوراسکا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔

اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی جانور جس کی زندگی پانی ہے، جو پانی کے بغیر زندہ نہ رہ سکے وہ حلال ہے اور جو پانی و خشکی دونوں پر رہ سکے اس کے احکام الگ ہیں ۔

اس کے باوجود اہل علم نے سمندری بعض چیزوں کو ضرر و خباثت کی وجہ سے ان کا کھانا ممنوع قراردیا ہے ۔شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے اپنے ایک فتوی میں ان بعض استثناء کو اس طرح ذکر کرتے ہیں :

وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ۔ سے استدلال میں محدثین نے اسی آیت کی بنا پر سرطان(کیکڑا) کوبھی حرام فرمایا ہے۔ علامہ دمیری حیات الحیوان میں بذیل حکم سرطان لکھتے ہیں۔ يرحم الكله لاستخباثه ولما فيه من الضرر (ص 17 ج2) یعنی بوجہ خبیث اور مضر ہونے کے سرطان کا کھانا حرام ہے۔ حافظ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں تحریر فرماتے ہیں۔

ومن المستثني ايا التمساح والقرش والثعبان والعقرب والسرطان والسلحفاة للا ستخباث والضرر اللا حق من السم ودينلس قيل ان اصله السرطان فان ثبت پ23 ص 215) یعنی حلت صید البحر سے مستثنیٰ کیے گئے ہیں۔ (گھڑیال اور قرش عظیم الحبثہ بحری شکاری جانور)اور آبی اژد ہے ار بچھو اور کیکڑے اور کچھوے بوجہ خبیث ہونے کے اور اس نقصان کے جو ان کے زہر سے آکل کو لاحق ہوتا ہے۔ اور گھونگھے کہ اصل ان کی سرطان ہی ہے۔ کیونکہ دونوں صدف سے پیدا ہوتے ہیں۔ پس اگر ایسا ہی ہے۔ تو گھونگھے بھی مثل کیکڑوں کے حرام ہوں گے۔(فتاویٰ ثنائیہ امرتسری: 2/109)

شیخ محمد صالح المنجد نے بعض مستثنی جانور کو اس طرح ذکر کیا ہے۔

٭مگرمچھ کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔

٭مینڈک کا کھانا جائز نہیں ہے۔

٭بعض اہل علم نے سمندر سانپ كو بھى مستثنى كيا ہے ليكن صحيح يہ ہے كہ اگر وہ صرف سمندر ميں ہى رہتا ہو اس کا كھانا جائز ہو گا۔

٭ پانى ميں رہنے والا سمندرى كتا اور كچھوا کے بارے میں صحيح يہ ہے كہ اسے ذبح كرنے كے بعد كھانا جائز ہے كيونكہ يہ خشكى اور سمندر دونوں جگہ رہتا ہے۔ اس سے سرطان خارج ہے، اسے ذبح كرنا لازم نہيں چاہے وہ سمندر اور خشكى دونوں جگہ رہتا ہے، كيونكہ اس ميں خون نہيں۔
٭ہر وہ چيز جس ميں ضرر اور نقصان ہو اس كا كھانا جائز نہيں، چاہے وہ سمندرى ہو كيوں نہ ہو.(الاسلام سوال وجواب: فتوی رقم، 1919)

سوال: جنبی آدمی کیا اذکار، دعائیں ، اذان کا جواب اور درود وغیرہ پڑھ سکتا ہے؟

جواب:جنبی اذکار، دعائیں، اذان کا جواب اور درود وغیرہ پڑھ سکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے اور یہ سب ذکر کی قسموں میں سے ہے البتہ جنبی کے لئے قرآن کریم سے تلاوت کرنا ممنوع ہے۔

سوال: میری بہن چار بچوں کو لے کر والد صاحب کے گھر پر ہے، طلاق نہیں ہوئی ہے، اللہ کے فضل سے اسکی اور بچوں کی ضروریات میرے والدہ اور بھائی پوری کرتے ہیں، سوال یہ تھا کہ بہن کو صدقہ اور زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بہن کے پاس تین تولہ سونا ہے باقی کوئی رقم نہیں ہے؟

جواب:چونکہ آپ کی بہن کی کفالت کرنے کے لئے آپ کی والدہ اور آپ کے بھائی موجود ہیں اور اگر آپ کی بہن کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں تو پھر آپ اپنی بہن کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں لیکن اگر ضروریات پوری نہ ہوں تو آپ اپنی بہن کو زکوۃ دے سکتے ہیں البتہ صدقہ کا معاملہ الگ ہے، آپ صدقہ دینا چاہیں تو کبھی بھی دے سکتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی کا کیا معاملہ ہے اس کا تصفیہ کروائیں یعنی اگر وہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا اور بیوی اس کے پاس نہیں رہنا چاہتی  تو اس سے طلاق یا خلع سے جدائی حاصل کرلے تاکہ وہ کہیں دوسری جگہ شادی کرنا چاہے تو شادی کرسکتی ہے  اور اگر شوہر کے ساتھ رہنا ممکن ہو گوکہ کچھ صبر کرنا پڑے تو پھر شوہر کے ساتھ رہے۔

سوال: ایک بہن کے شوہر کے پاس پیسے موجود ہیں مگر بیوی کو ذاتی اخراجات کے لئے پیسے نہیں دیتے ، گھر اور بچوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن بیوی کے لئے کپڑا، جوتا، کوئی آن لائن کورس کرنا ہو جیسے تجوید کلاس یا تفسیر کلاس اور اسی طرح کسی کو کچھ دینا ہو تو ان ضروریات کے لئے شوہر بیوی کو پیسے نہیں دیتے ہیں ایسے میں ان کا سوال ہے کہ کیا وہ اپنے شوہر کے پاکٹ سے چپکے سے پیسہ نکال سکتی ہے؟

جواب:اگر شوہر، بیوی کی بنیادی ضرورت کو پورا کر رہا ہے یعنی کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی جو بنیادی ضرورت ہے وہ پورا کر رہا ہے تو پھر بیوی کو شوہر کے مال سے پوشیدہ طور پر لینے کا حق نہیں ہے۔جہاں تک اضافی کپڑے وچپل یا سجاوٹ کی چیزیں یا پڑھائی یا دوسروں کو پیسہ دینا، یہ سب اضافی چیزیں ہیں، ان کاموں کے لئے شوہر کے پیسے کو بیوی چپکے سے نہیں لے سکتی ہے بلکہ اس سے اجازت لے کر ان چیزوں پر استعمال کر سکتی ہے۔اور جو شوہر گھر کے لئے خرچ کرے، بچوں کے لئے خرچ کرے، ظاہر سی بات ہے وہ بیوی کی بنیادی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہوگا، بنیادی ضرورت سے زیادہ چیز کے لئے بیوی کو شوہر سے مانگنا ہے اور اگر شوہر نہ دے تو صبر کرے۔ اور اگر بیوی کے پاس اپنے پیسے ہیں تو وہ اپنے پیسے کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: کلینڈر وغیرہ پہ قرآن شریف کی آیات اور احادیث لکھی ہوئی ہوتی ہیں ، کلینڈر استعمال کرنے کے بعد ہٹا دیا جاتا ہے ، ہمیں آیت والے صفحات کا کیا کرنا چاہئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جلا دینا چاہئے، کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب:یہ بات صحیح ہے کہ مدارس اور مراکز وغیرہ سے جو اردو کلینڈر شائع کئے جاتے ہیں اس میں قرآنی آیات، احادیث اور دعائیں بھی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ جب اس کلینڈر کے استعمال کا وقت ختم ہو جائے تو آپ اسے جلا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

چنانچہ جمع قرآن سے متعلق صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ(صحیح البخاری:4987)

ترجمہ:اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھیجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس کتاب ، کاپی ، اخبارات و جرائد اور کلینڈر وغیرہ میں قرآنی آیات و احادیث لکھی ہوئی ہوں آپ ان چیزوں کو جلا سکتے ہیں۔

سوال:شيخ کیا سوشل میڈیا / یو ٹیوب وغیرہ کسی سلفی عالم کی قرآن کی تفسیر اردو میں آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں موجود ہے، اگر مکمل تفسیر قرآن موجود ہے تو اس کی رہنمائی فرمائیں؟

جواب: قرآن کی تفسیر ایک بہت ہی اہم ترین بلکہ نازک ترین معاملہ ہے اور یہ ذمہ داری بحسن و خوبی وہی عالم ادا کر سکتے ہیں جو واقعتا قرآنی علوم میں مہارت رکھتے ہوں۔

اول درجہ میں وہ عربی زبان کے بہترین ماہر ہوں، صرف و نحو پر انہیں ملکہ حاصل ہو یعنی عربی زبان کے قواعد و ضوابط اور گرامر میں عبور و دسترس ہو تاکہ وہ ایک ایک لفظ کے اعراب، اس کے مشتقات و معانی اور پھر جملے کی معنویت اور وسعت و گہرائی کو بیان کر سکیں۔

عربی زبان کے علاوہ علم تفسیر، علم قرات و تجوید، علم محکم و متشابہ، علم ناسخ و منسوخ، اسباب نزول اور علم بلاغت وغیرہ کے علاوہ انہوں نے مختلف تفاسیر کا دقت نظری سے مطالعہ کیا ہو بلکہ انہیں حدیث و اصول حدیث اور فقہ پر بھی درک حاصل ہو ۔

شیخ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ آج کے دور کی عبقری شخصیت ہیں جو متعدد علوم و فنون کے ماہر ہیں اور مختلف علوم پر آپ کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں حتی کہ "ذکر للعالمین" کے نام سے تین جلدوں میں آپ کی عمدہ تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ عرصہ حیات سے آپ قرآنی علوم سے خصوصی طور پر وابستہ ہیں اور امت کو تفسیر قرآن سے فیض پہنچا رہے ہیں لہذا وہ تمام لوگ جو اردو زبان میں قرآن کی تفسیر سننا چاہتے ہیں وہ شیخ جلال الدین  قاسمی حفظہ اللہ کی تفسیر سماعت کریں۔ آپ کے بیان میں علمی گہرائی، وسعت مطالعہ اور علم تفسیر کا باریک سے باریک نکتہ پائیں گے جنہیں شیخ اس انداز و سنجیدگی سے بیان کرتے ہیں جیسے محسوس ہو کہ شیخ تفسیر بیان کرتے رہیں اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہی رہیں۔ شیخ کی تفسیر کے متعلق ایک جملے میں، اگر میں کہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ تفسیر بیان کرتے ہوئے قرآن کی تفسیر کا حق ادا کر دیتے ہیں۔

شیخ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کی ذاتی ویب سائٹ ہے، جہاں پر آپ کے مضامین و کتب اور مکمل آڈیو تفسیر حتی کہ ویڈیو تفسیر کے بھی لنک موجود ہیں ۔یوٹیوب پر شیخ جلال الدین قاسمی کی تفسیر کے نام سے تلاش کریں گے تو آپ کو شیخ کے یوٹیوب چینل پر بھی تفسیری بیان مل جائے گا اور بھی متعدد ویب سائٹ پر آپ کی ویڈیو تفاسیر موجود ہیں۔ شیخ کی ویب سائٹ  کا عنوان ہے، ڈبلیو ڈبلیوڈبلیو ڈاٹ جلال الدین قاسمی ڈاٹ ان۔

سوال: کیا عطر یا پرفیوم میں الکوحل ہو تو ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب:اسلام نے کھانے اور پینے کے طور پر نشہ آور چیزوں کو ہمارے لئے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وكُلُّ مُسْكِرٍ حَرامٌ(صحیح مسلم:2003)

ترجمہ: ہر نشہ اور چیز خمر ہے اور ہر نشہ اور چیز حرام ہے۔

لہذا کھانے پینے کے طور پر کسی بھی قسم کی نشہ آور چیز ہم نہیں استعمال کریں گے۔ جہاں تک مسئلہ ہے پرفیوم کا تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس میں کیمیاوی الکوحل ہوتا ہے جو معمولی مقدار میں ہوتا ہے اور ہم اسے غذا کے طور پر استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ کپڑے میں بطور پرفیوم استعمال کرتے ہیں اور یہ پرفیوم کپڑے پر لگنے کے بعد کچھ دیر میں اڑ جاتا ہے۔ گویا پرفیوم کے الکوحل سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ ہی یہ نجس العین ہے کہ کپڑا ناپاک ہو جائے گا۔ اس وجہ سے پرفیوم لگا کر اس کپڑے میں نماز بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ کیا ہم ہندو ڈاکٹر سے اپنا علاج کروا سکتے ہیں؟

جواب:جی، بلا شبہ ہندو ڈاکٹر سے علاج کرا سکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ علاج کراتے ہوئے ہمیں یہ دھیان دینا ہے کہ مرد، مرد ڈاکٹر سے علاج کرائے اور عورت، عورت ڈاکٹر سے علاج کرائے تاہم ضرورت کی بنا پر مخالف جنس کے ڈاکٹر سے بھی علاج کرا سکتے ہیں۔

سوال: عورت عمرہ کے لئے جارہی ہے ، اس کے ساتھ ایک پرابلم ہے ، وہ یہ کہ اس کی طہارت نکل جاتی ہے ایسے میں کیا وہ ڈائپر پہن کر عمرہ کرسکتی ہے؟

جواب:آپ کے سوال میں طہارت کا ذکر ہے شاید طہارت سے آپ نے پیشاب مراد لیا ہو یا ہوسکتا ہے اسے لیکوریا کی شکایت ہو یا استحاضہ ہو۔

بہرکیف ! اگر عورت کو ان میں سے کسی طرح کی کوئی شکایت ہو تو حفاظت کے طور پر عمرہ کے دوران وہ پیڈ، پمپر، لنگوٹ اور ڈائیپر وغیرہ استعمال کر سکتی ہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔طواف کے لئے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے طواف سے پہلے نجاست وغیرہ کی صفائی کرلے پھر پمپر لگاکراور وضو کرکے عمرہ ادا کرے ۔

سوال: کیا عورتیں واقعی ناقص العقل ہوتی ہیں اور مرد حضرات عورتوں کو موقع بہ موقع اس طرح کہہ سکتے ہیں؟

جواب: یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ عورتیں ناقصات العقل والدین ہیں مگر اس سے مراد کیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے ۔ عورت کے دین میں نقص سے مراد حیض ونفاس کے دنوں میں نماز وروزہ ادا نہ کرنا اور عقل میں نقص سے مراد مردوں کے مقابلہ میں عورت کی  آدھی گواہی مانا جانا۔ گویا عورت کے دین اور عقل میں نقص کا معاملہ اللہ کی طرف سے متعین بعض چیزوں میں کمی سے متعلق ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت مرد سے کم دیندار ہوتی ہے یا مرد سے کم عقلمندہوتی ہے ۔ایک سے ایک صالحہ اور عاقلہ خاتون گزری ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہی معاملہ دیکھ لیں ، ان سے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ دین کے مسائل پوچھنے کے لئے آتے تھے ۔ اس وجہ سے کسی مرد کا عورت کو دین وعقل میں کمی کا طعنہ دینا خود اس مرد کی عقل میں کمی کے سبب ہے ۔ اگر مرد کے پاس صحیح عقل وسمجھ ہو تووہ  کسی عورت کو ایسا طعنہ نہ دے ۔

سوال: لڑکی نے والد کے گھر آکر طلاق مانگی ، شوہر نے گھر رہتے ہوئے ایک بار بھی اس کے لئے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا ، لڑکی نے خود طلاق کی ڈیمانڈ کی ، اب لڑکی کو شوہر کی طرف سے طلاق کا ایک نوٹس آیا ہے ، کیا اس کی عدت شروع ہوجائے گی یا طلاق کے تیسرے نوٹس کے بعد عدت شروع ہوگی؟

جواب:شوہر جب طلاق دے اسی وقت سے طلاق شروع ہو جاتی ہے لہذا دو یا تین نوٹس ملنے کا انتظار کرنے کی عورت کو ضرورت نہیں ہے، پہلے ہی نوٹس اور اس کی لکھی طلاق کی تاریخ سے عدت شروع ہوجاتی ہے۔اس نوٹس میں طلاق کی تاریخ لکھی ہوئی ہوگی، اسی تاریخ سے طلاق کی عدت شروع ہو گی اس لئے عورت کوطلاق کی تاریخ سے  تین حیض عدت گزارنی چاہیے۔

سوال:کیا رضاعی بیٹے کی بیوی سے شادی کی جاسکتی ہے؟

جواب:رضائی بیٹے کی بیوی سے شادی کی جا سکتی ہے کیونکہ مرد کے لئے اپنے رضائی بیٹے کی بیوی سے رضاعت کا کوئی تعلق نہیں ہے سوائے مصاہرت کے اور رضاعت مصاہرت یعنی شادی میں موثر نہیں ہے۔

اس قسم کے ایک سوال سے متعلق شیخ محمد صالح المنجد جواب دیتے ہیں کہ رضاعت مصارت میں موثر نہیں اس لئے لڑکے پر اپنے رضاعی باپ کی بیوی حرام نہیں ہے اور اسی طرح باپ پر اپنے رضاعی بیٹے کی بیوی حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَحَلائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ (النساء:23)

ترجمہ: اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں بھی (تم پر حرام ہیں) جو تمہاری صلب سے ہوں۔

اور یہ بیٹا اس کے صلب سے نہیں ہے اس لیے اس کی بیوی اس کے باپ پر رضاعت کی وجہ سے حرام نہیں ہوگی۔(الاسلام سوال وجواب:291210)

سوال: ((حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جب سفر پر نکلتے تھے تو قرآن شریف کی ایک آیت پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ سفر پر نکلو تو یہ دعا پڑھ لو تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ان شاءاللہ اور اگر خدا نہ خواستہ تکلیف پہنچے تو حشر کے میدان میں مجھ سے لے لینا۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے، وہ آیت پڑھ لیجئے میرے ساتھ۔ (وما قدروا الله حق قدره والارض جميعا قبضته يوم القيامه والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون). یہ آیت یاد کر لیجئے چوبیس پارے کی آیت ہے))۔

یہ پوسٹ ایک گروپ میں اسی طرح سے آئی ہے، اس کی حقیقت بتادیجئے کیا یہ بات مستند ہے؟

جواب:ابن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی امام طبرانی نے اس طرح ذکر کیا ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : أمَانٌ لأُمَّتي مِن الغرَقِ إذا ركِبوا السُّفُنَ أو البحرَ أنْ يقولوا بسمِ اللهِ الملِكِ {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} [الزمر: 67] {بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [هود: 41]۔

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لئے غرق ہونے سے یہ امان ہے کہ جب وہ کشتی پہ سوار ہو یا سمندر کا سفر کرے تو یہ کلمات کہے :{وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} [الزمر: 67](اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے،وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں) {بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [هود: 41](اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے)۔

حوالہ :( المعجم الأوسط للطبراني:(12/124) (12661) ، طبرانی نے اسے "المعجم الكبير" (12/124) میں بھی ذکر کیا ہے اور دیلمی نے "مسند الفردوس" (1667) میں بیان کیا ہے۔

امام طبرانی نے خود ہی اس حدیث کے بارے میں کہا کہ اس حدیث کو ضحاک بن مزاحم سے صرف نہشل بن سعید ہی ورایت کرتے ہیں ۔ گویا وہ اشارہ کررہے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ نہشل بن سعید متروک راوی ہیں جیساکہ ہیثمی نے "مجمع الزوائد" (10/132) میں کہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور آپ کے سوال میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اس طرح کی روایت مجھے نہیں ملی بلکہ الفاظ سے ہی اس کا جھوٹ ہونا واضح ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے "اگرخدا نخواستہ تکلیف پہنچے تو حشر کے میدان میں مجھ سے لے لینا"۔ یہ جھوٹی بات ہے، یہ حدیث رسول نہیں ہوسکتی  اورنہ ہی کسی صحابی کی بات ہوسکتی ہے۔

دراصل مولانا یونس پالنپوری دیوبندی صوفی آدمی ہیں جو ہاتھ میں تسبیح پکڑے اور گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو وظیفہ سناکر ویڈیو بنواتے رہتے ہیں ، انہوں نے ہی ایک ویڈیو میں یہ وظیفہ بتایا ہے جس کو لوگوں نے پھیلادیا ہے۔ یہ صوفی بدعتی آدمی ہیں ان کے بیان کردہ اوراد ووظائف سے بچیں ۔

سوال: کیا کسی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے؟

جواب:اللہ تعالی نے قرآن میں متعدد مقامات پر نبی ﷺ کو امی کہا ہے یعنی آپ ان پڑھ تھے بلکہ اس بات کی صراحت بھی قرآن میں موجود ہے کہ آپ کتاب سے نہ دیکھ کر پڑھ سکتے تھے اور نہ قلم سے لکھنا جانتے تھے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ(العنکبوت:48)

ترجمہ:اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے، نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے۔

یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مشرکین نے صلح نامہ پہ لکھے ہوئے الفاظ "رسول اللہ" پر اعتراض کیا تو آپ نے حضرت علی سے پوچھا کہ دکھاؤ، کہاں پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں، جب آپ کو دکھایا گیا تو آپ نے اسے مٹادیااور آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ محمد بن عبداللہ لکھو۔ آپ نے قرآن کی کتابت کے لئے متعدد صحابہ کرام کو مامور کیا تھا اور اسی طرح احادیث لکھنے کا بھی صحابہ کو حکم دیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔

سوال: میں نے کل جمعہ کو عمرہ ادا کیا اور چونکہ اس وقت دھوپ تھی اس وجہ سے میرا کندھا ڈھکا ہوا تھا بلکہ مجھے یاد بھی نہیں تھا، دو چکر کے بعد یاد آیا تو میں نے کندھا کھول لیا ایسے میں میرے عمرہ کا کیا حکم ہے جبکہ میں نے اللہ تعالی سے توبہ استغفار بھی کی ہے؟

جواب : آپ کا عمرہ درست ہے اس میں کسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ویسے آپ کو ساتوں چکر میں دایاں کندھا کھول کر طواف کرنا تھا لیکن بھول سے آپ نے دو چکروں میں  اضطباع چھوڑ دیا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور کندھا کھولنا یعنی اضطباع کرنا یہ مسنون ہے ،واجب اور رکن نہیں ہے اس لئےبھول سے  سنت چھوٹ جانے  پر عمرہ کی صحت پر فرق نہیں پڑے گا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔