﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(12)
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفطہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
سوال: کسی غلام کو آزاد کرنے کا کیا
طریقہ ہے، کیا زیادہ سے زیادہ صدقہ دے کر اس کی فضیلت حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غلام آزاد کرنے میں بڑا
اجر و ثواب ہے اور اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی ترغیب بھی دی ہے بلکہ
بعض گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی ٹھہرایا ہے لیکن چونکہ آج کے زمانے میں غلام
نہیں پایا جاتا ہے لہذا ہمیں غلام آزاد کرنے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی
ان گناہوں کے ارتکاب پر غلام آزاد کرنے کے لئے سوچنا ہے جن کا کفارہ غلام کی آزادی
ٹھہرایا ہے۔
تاہم یہ ضرور ہے کہ بعض اعمال کی انجام دہی پر غلام کو
آزاد کرنے کے برابر اجر ملتا ہے جیساکہ صحیح بخاری: (3293) اور مسلم: (2691) میں
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا: جو شخص ((لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ
الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)) سو مرتبہ پڑھے گا
تو یہ اس کے لئے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہو جائے گا ۔
بخاری کی ایک دوسری حدیث میں اس طرح مذکور ہے سیدنا
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ
کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پر ایمان رکھنا اور
اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے پھر عرض کی کہ کس قسم کے غلاموں کا آزاد کرنا
افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان غلاموں کو جو گراں قیمت ہوں اور
اپنے مالکوں کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہوں۔ میں نے عرض کی کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں
تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کام کرنے والے کی مدد کر دو یا کسی بے
ہنر اناڑی کو کچھ کام سکھا دو۔ میں نے عرض کی اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں تو؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کی ضرر رسانی چھوڑ دو کہ یہ بھی ایک صدقہ
ہے جسے تم اپنی جان پر صدقہ کرو گے۔
اسی غلام آزاد کرنے سے کے اجر و ثواب سے متعلق مغرب کی
فرض نماز کے بعد دس مرتبہ پڑھا جانے والا ایک ذکر ہے، عمارہ بن شبیب سبائی کہتے
ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا
شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى
كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ عَلَى إِثْرِ الْمَغْرِبِ، بَعَثَ اللَّهُ
مَسْلَحَةً يَحْفَظُونَهُ مِنَ الشَّيْطَانِ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَتَبَ اللَّهُ
لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ مُوجِبَاتٍ، وَمَحَا عَنْهُ عَشْرَ سَيِّئَاتٍ
مُوبِقَاتٍ، وَكَانَتْ لَهُ بِعَدْلِ عَشْرِ رِقَابٍ مُؤْمِنَاتٍ (صحیح
الترمذی:3534)
ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد دس بار کہا: «لا إله إلا الله
وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير» اللہ اس کی
صبح تک حفاظت کے لیے مسلح فرشتے بھیجے گا جو اس کی شیطان سے حفاظت کریں گے اور اس
کے لیے ان کے عوض دس نیکیاں لکھی جائیں گی جو اسے اجر و ثواب کا مستحق بنائیں گی
اور اس کی مہلک برائیاں اور گناہ مٹا دیں گی اور اسے دس مسلمان غلام آزاد کرنے کا
ثواب ملے گا۔
بہرکیف! ہمارے لئے یہ اصل مسئلہ نہیں ہے کہ ہم صرف غلام
آزاد کرنے کا ثواب معلوم کریں اور وہی کام کریں بلکہ اصل یہ ہے کہ ہم اپنا ایمان
درست کریں اور جو بھی عمل صالح ہے ان سب کو انجام دیتے رہیں ، اسی کا بدلہ جنت ہے
جیساکہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا (الکہف:107)
ترجمہ:بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک
اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔
سوال:مسلسل تیز بارش کی صورت میں جمع بین
الصلاتین کی جارہی ہے مغرب اور عشاء میں تو کیا عشاء کا وقت داخل ہونے کے بعد اذان
دینی چاہیے یا نہیں کیونکہ عشاء کی جماعت تو ہوچکی ہے؟
جواب: جب بارش کے پیش نظر مغرب کے وقت مغرب وعشاء جمع
تقدیم سے ادا کرلی گئی تو عشاء کے وقت اذان نہیں دی جائے گی کیونکہ اذان تو نماز
کے لئے بلانے کی غرض سے دی جاتی ہے ۔ نبی ﷺ نے اسی طرح عمل کیا ہے ۔ حج سے متعلق
ایک بہت طویل حدیث جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں مذکور ہے کہ نبی نے عرفہ
میں ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر وعصر ادا فرمائی، اسی طرح مزدلفہ میں ایک اذان
اور دو اقامت سے مغرب وعشاء کی نماز ادا فرمائی۔حدیث کے الفاظ ہیں:حتَّى أَتَى
المُزْدَلِفَةَ ، فَصَلَّى بهَا المَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بأَذَانٍ وَاحِدٍ
وإقَامَتَيْنِ(صحیح مسلم:1218) یعنی جب مزدلفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے مغرب وعشاء کی
نماز ایک اذان اور دو اقامت سے کہی ۔
سوال: اگر کسی نے یونہی کسی کو صدقہ دے
دیا پھر بعد میں اسے زکوۃ کی نیت کرے تو کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: جب پہلے صدقہ کی نیت سے کچھ دے دئے تو اسے صدقہ
ہی مانیں گے، اس کو زکوۃ تصور نہیں کریں گے کیونکہ عمل کرنے کے بعد نیت تبدیل نہیں
ہوگی اور عمل کے وقت جو نیت تھی اس کا اعتبار ہوگا۔
سوال: میں عطر کی دوکان کرتا ہوں ، عطر
کی بعض قسم نہیں رکھتا ہوں خصوصا مہنگے عصر مثلا عود سے متعلق تو خریدار کے آڈر پر
اپنی پارٹی دوکان کے ذریعہ آڈر پر بھجوا دیتا ہوں، جب آڈر والے سے پیسے مل جاتے
ہیں تو اپنا منافع رکھ لیتا ہوں ، باقی سامان کا پیسہ پارٹی کو دے دیتا ہوں ، کیا
یہ طریقہ درست ہے؟
جواب: نہیں ، یہ طریقہ درست نہیں ہے ۔ نبی ﷺنے ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جو اپنی ملکیت نہ ہو جبکہ آپ آڈر کرنے والے کو اپنی ملکیت والی چیز نہیں بیچتے ہیں۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ پارٹی سے وہ سامان خرید کر اس سامان پر قبضہ حاصل کرکے پھر آگے کسی کو بیچیں۔
اس کی ایک جائز صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اس پارٹی
کا وکیل بن کر کام کریں اور اس کے ساتھ منافع/کمیشن پہ کام کریں ۔ منافع کی دو
صورت ہوسکتی ہے۔ یا تو پارٹی سے طے کرلیں کہ اس کے دوکان کی چیز اپنا منافع رکھ کر
بیچیں گے یا دوکاندار ہی آپ کو ہر سامان پہ اتنا منافع دیا کرے جو دونوں کے درمیان
طے ہو ۔ ایسی صورت میں آپ اس پارٹی کا وکیل ونائب رہیں گے اور آپ کے لئے مذکورہ دو
میں سے کسی ایک طرح سے منافع لینا جائز ہوگا۔
سوال: جب کوئی عورت عدالت میں خلع کا کیس
کرے ، عدت اسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے یا جب عدالت خلع کردے تب سے؟
جواب:خلع کا نوٹس عدالت میں پیش کرنے سے عدت شروع نہیں
ہوتی ہے کیونکہ ابھی خلع نہیں ہوا ہوتا ہے۔ جب عدالت سے خلع کا فیصلہ ہو جائے اور
جس دن فیصلہ ہو اس دن سے خلع کی عدت شروع ہوگی اور ایک حیض عدت گزارنی ہوگی۔
سوال: اگر کسی نے میرے پاس آٹو رھن پہ
رکھا اور مجھ سے ایک لاکھ قرض لیا اور میں نے آٹو اسی شخص کو چلانے کے لئے دی اور
مہینے میں تین ہزار فائدہ مجھے دے رہا ہے تو کیا لے سکتی ہوں؟
جواب: پہلے رہن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رہن کہتے ہیں بطور ضمانت کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس رکھنا۔ اگر کسی قرض دینے والے کے پاس بطور رہن آٹو ہے تو اس آٹو کو پھر اسی آدمی کو کیسے دے گا جس نے ضمانت کے طور پر جمع کیا ہے، یہ تو ضمانت اور گارنٹی کی چیز ہے، اس چیز کوقرض خواہ اپنے پاس بطور ضمانت رکھے گا۔
ایک بات تو یہ واضح ہو گئی کہ اس ضمانت کو حفاظت سے گھر
میں رکھنا ہے جیسے اپنے گھر میں سونا اور چاندی حفاظت سے رکھتے ہیں لہذا مذکورہ
معاملہ جائز نہیں ہے بلکہ یہ سودی معاملہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس اپنا آٹو ہو اور اس
آٹو کو بھی کسی کو کرایہ پر دیتے ہیں تو اس سے فکس طور پر تین ہزار روپیہ لینا
جائز نہیں ہے یعنی فکس کر کے منافع لینا جائز نہیں ہے۔
سوال: ایک آدمی اپنے بچوں کے لئے باہر سے اکثر کھانے
پینے کی چیز لایا کرتا تھا جس سے بچوں کو کبھی نقصان ہوجاتا، اس سے پریشان ہوکر
بیوی کہتی ہے کہ اللہ کو حاضر جان کر ، اللہ کی قسم کھاکر کہتی ہوں کہ اگر دوبارہ
کوئی چیز بچوں کے لئے لائی تو اسے باہر پھیک دوں گی ، سوال ہے کہ کیا کھانے والے
سامان کو باہر پھینکنا صحیح ہوگا جبکہ وہ قسم کھالی ہے؟
جواب:جس عورت نے یہ قسم کھائی ہے کہ آئندہ اگر میرا
شوہر اس طرح کی چیز لائے گا تو پھینک دوں گی، ظاہر سی بات ایسی قسم کھانا اس عورت
کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ کھانے پینے والی چیز اللہ کی نعمت ہے، یہ پھینکی نہیں
جاتی بلکہ اس کی قدر کی جاتی ہے جبکہ یہ عورت پھینکنے کے لئے قسم کھا رہی ہے۔
بہر کیف! ایسی قسم کو توڑ دے اور قسم کا کفار ادا کرے
اور آئندہ اس طرح کی قسم کھانے سے گریز کرے ۔ قسم کا کفارہ سورہ مائدہ میں اللہ
تعالی نے اس طرح بیان کیا ہے۔((اﷲ تم سے تمہاری لغو قسموں کے متعلق مواخذہ نہیں
کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے مضبوط کر کے اٹھایا ہے، ان پر تم سے ضرور مواخذہ
کرے گا۔ اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا دینا ہے جو تم اپنے گھروں
میں کھاتے ہو یا انہیں لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے لیکن جو شخص ان کی طاقت نہ
رکھے تو اس کے ذمے تین دن کے روزے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم
اٹھا لو اور اپنی قسم کی حفاظت کیا کرو))۔ (المائدہ:89)
سوال: لڑکیوں کو اپنا ٹوٹے بال کیا کرنا
چاہئے ، اکثر خریدنے والے لوگ بھی گلیوں میں گھومتے ہیں، حدیث میں اس کی کیا
رہنمائی ملتی ہے؟
جواب:اس میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عورت اپنے سر کا بال
نہیں کاٹے گی لیکن بال میں کنگھی کرنے سے جو بال ٹوٹتے ہیں ان بالوں کو کہیں پر
بھی پھینک سکتی ہے بلکہ بہتر ہے کہ کسی جگہ دفن کر دیں یا ایسی جگہ پھینکیں جہاں
پر لوگوں کی نظر نہ پڑے کیونکہ عورت، عورت ہے اس کی ہر ایک چیز لوگوں کے لئے پرکشش
اور باعث فتنہ ہے اس وجہ سے مناسب جگہ کہیں پر بھی عورت اپنا بال پھینک سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عورت کے ٹوٹے ہوئے بال کو کوئی دیکھ نہیں سکتا ہے، آدمی دیکھ سکتا
ہے ، فقط احتیاط کے پیش نظر مناسب جگہ پھینکنے کے لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ معاشرے
میں کچھ بیمار ذہن لوگ بھی رہتے ہیں اور کتنی جگہ مکار عاملین (جھاڑپھونک والے
بابا) عورتوں کو بالوں کے بارے میں طرح طرح سے ڈراتے رہتے ہیں۔
جہاں تک مسئلہ ہے بال بیچنے کا تو کوئی بھی عورت اپنا بال کسی کو نہیں بیچ سکتی ہے، بال بیچنا جائز نہیں ہے لہذا کوئی بال خریدنے والا گاؤں محلے میں آئے تو اس کو اپنا بال ہرگز نہ بیچیں حتی کہ دوسریمسلم عورتوں کو بھی اس بات سے آگاہ کریں اور انہیں بھی بال بیچنے سے منع کریں۔
سوال:ایک عورت کے شوہر کے موبائل میں بہت
سارے لڑکیوں کے چیٹ ملے ہیں، اس کا شوہر بہت لڑکیوں کو اپنا جھوٹا نام، جھوٹی
کمائی اور جھوٹا پتہ بتاکر ان سے شادی کا وعدہ کرتا ہے، ان سے جنسی باتیں کرتا ہے
اور کبھی کبھی ان سے مل کر بھی آتا ہے کیونکہ ایک دو لڑکیوں سے ملنے اور زنا کرنے
کی باتیں بھی چیٹ میں ہوئی ہیں، پھر بعد میں ان لڑکیوں سے کچھ نہ کچھ جھوٹ بول کر
لڑکیوں سے شادی نہ کرنے کا بہانہ بنا کر ان کو چھوڑ دیتا ہے جبکہ اس کی بیوی نے یہ
سب دیکھ کر سسرال والوں کو بتایا تو لڑکا بولا ہے کہ وہ میسج میرا نہیں، دوسروں کا
ہے، یہ لنک ڈیوائس ہے، دوسرے اس کے فون سے چیٹ کرتے ہیں، ویسے وہ سب فونز میرے
بزنس کے لیے یوز کرتے ہیں، میرا اپنا ذاتی فون بس ایک ہی ہے۔ یہ سب کام ہماری پوری
ٹیم مل کر کرتی ہے اور لڑکیوں سے ہم اپنا کام نکلواتے ہیں اور ہم اپنی حد پار نہیں
کرتے یعنی وہ سب لوگ زنا نہیں کرتے، یہ بول کر الٹا بیوی سے ہی یہ کہتا ہے کہ میرے
اوپر الزام لگا رہی ہو۔ کیا ایسے میں بیوی اپنے شوہر سے طلاق لینے کے ساتھ ساتھ
پولیس کیس کر سکتی ہے، کیا ان سبھی لڑکیوں کو اس کے شوہر کا سارا سچ بتا سکتی ہے،
شوہر کا پتہ ان لڑکیوں کو دے سکتی ہے تاکہ وہ لڑکیاں خود سے جھوٹے انسان سے آکر
بدلہ لے اور کیا بیوی کو اس کا گناہ ہوگا؟
جواب:جس طرح کی باتیں آپ نے لکھی ہیں اگر واقعی شوہر اس
طرح کے کاموں میں ملوث ہے تو بیوی کی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔
پہلے مرحلے میں وہ خود اللہ کے عذاب سے ڈرائے اور اس سے
باز آنے کی نصیحت کرے۔ اگر وہ باز آنے کا وعدہ کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اچھے لوگوں
کے ذریعہ ایک مرتبہ کم از کم فیصلہ کرائے اور اس سے متعلق ساری باتیں بیان کرکے اس
کو توبہ کرنے کے لئے آمادہ کرے۔
اگر ان چیزوں کے ذریعہ اصلاح نہیں ہوتی ہے تو بیوی اس
سے الگ ہو سکتی ہے اور اسے پولیس کیس کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پولیس کیس میں
کوئی انصاف نہیں ہے۔ یہاں جھوٹی گواہی، جھوٹے ثبوت اور پیسہ بولتا ہے۔ وہ مرد چاہے
تو پیسہ دے کر الٹا بیوی کو بھی پھنسا سکتا ہے کیونکہ پولیس محکمہ میں آج کل یہی
ہو رہا ہے، اس لئے اسے کسی لڑکی کو نمبر اور پتہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا کام
ہے نصیحت کر دینا اور لوگوں کے ذریعہ سمجھا دینا اور اپنے آپ کو اس کے شر سے الگ
کر لینا۔ اگر لڑکی چاہے تو سماجی اعتبار سے اس شخص کے خلاف تادیبی کاروائی کرسکتی
ہے تاکہ اس کے شر سے دوسری خواتین بھی محفوظ رہیں لیکن یہ کام اس وقت کرے جب اس کے
پاس ٹھوس ثبوت اور یقین واعتماد ہو، صرف وہم وگمان اور یقینی علم نہ ہونے پر اس
کاروائی سے باز رہے ۔
سوال: دو سجدوں کے درمیان میں پڑھی جانی
والی دعا ہمیں مختلف الفاظ میں تین ملی ہے، ان میں سے کون سی صحیح ہے اور ہم کون
سی دعا پڑھا کریں ؟ الدعاء بين السجدتين
٭اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي
وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي
٭اللهم اغفر لي ، وارحمني ، واجبرني ، واهدني ، وارزقني
، وعافني ، وارفعني
٭ اللَّهُمَّ
اغْفِرْ لِي ، وَارْحَمْنِي ، وَاجْبُرْنِي، وَارْفَعْنِي، وَاهْدِنِي وَعَافِنِي
، وَارْزُ قُنِي.
جواب:اس میں دوسری اور تیسری دعا ایک ہی ہے بس آخر کے
چار الفاظ دونوں میں ادھر ادھر ہیں اور کوئی فرق نہیں ہے جبکہ پہلے نمبر پر انہی
دونوں دعاؤں میں سے پانچ الفاظ موجود ہیں۔
ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں سجدہ کے درمیان
دعا سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں، کسی میں پانچ الفاظ ہیں تو کسی میں زائد
الفاظ بھی موجود ہیں، ان سب الفاظ کی مجموعی تعداد سات الفاظ بنتے ہیں جو دو اور
تین نمبر میں مذکور ہیں لہذا آپ نیچے والی دونوں دعا میں سے کوئی پڑھ سکتے ہیں یا
اگر چاہیں تو پہلے نمبر کی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں کیونکہ وہ دعا بھی ثابت ہے اور اس
سے بھی مختصر ایک دعا ہے جو "رب اغفرلی رب اغفرلی" ہے، کوئی اسے بھی پڑھ
سکتا ہے۔
سوال:کیا ہم اپنے بہن یا بھائی کے کسی
کام کے سلسلے میں استخارہ کر سکتے ہیں؟
جواب:جس کو کوئی معاملہ درپیش ہے وہ آدمی خود سے اپنے
معاملات میں استخارہ کرے گا اور کوئی اس کی طرف سے دوسرا آدمی استخارہ نہیں کرسکتا
کیونکہ یہ نماز ہے جو بندے کو خود ادا کرنا ہے اور اسی کو استخارہ کرنے کے لئے کہا
گیا ہے جس کو کوئی اہم کام درپیش ہو بلکہ نماز تو ایک ایسی عبادت ہے کہ کوئی کسی
طرح کی نماز کسی دوسرے شخص کی جانب سے نہیں ادا کر سکتا ہے۔
لہذا آپ اپنے کسی بھائی یا اپنی کسی بہن کی طرف سے استخارہ کی نماز نہیں ادا کریں گے، زیادہ سے زیادہ آپ اپنے بھائی بہن کو دعا دے سکتے ہیں، جو کام کرنے کا ارادہ ہو اس کام میں کامیابی اور برکت و سعادت کے لیے اللہ سے دعا کر سکتے ہیں لیکن صلاۃ الاستخارہ وہی پڑھے گا جس کو کسی کام کے لئے استخارہ کرنا ہے۔
سوال:ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی خالہ
نے کسی کام کے اچھے ہو جانے کے لئے دل میں ارادا کیا تھا کہ وہ چالیس دن تک
اکتالیس مرتبہ سورہ یس پڑھنے کا عمل کرے تاکہ اس کا وہ کام ہو جائے اور اس نے اس
پر کچھ دن عمل بھی کیا لیکن اب ان سے نہیں ہو پا رہا ہے تو کیا وہ اس کام کو چھوڑ
سکتی ہے؟
جواب:مذکورہ سوال میں کسی کا یہ ارادہ کرنا ہی غلط ہے
کہ ایک دن میں اور پھر 40 دن تک روزانہ 41 مرتبہ سورہ یاسین پڑھیں گے، یہ بات وہی
عورت سوچ سکتی ہے جس کے پاس دینی معلومات کی کمی ہے ۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ کوئی اس لئے 40 دن تک عمل کرے کہ
میرا کام بن جائے گا یہ طریقہ بھی غلط ہے اس طرح عمل کرنے کی سنت سے کوئی دلیل
نہیں ملتی۔
تیسری بات یہ ہے کہ کسی کام کے لئے سورہ یاسین کو متعین
کرکے پڑھنا بدعت ہے اور متعین تعداد میں مثلا 41 مرتبہ پڑھنا یہ عمل بھی بدعت ہے
اور چونکہ یہ بدعتی عمل ہے لہذا وہ عورت اس کام کو چھوڑ دے، اس پر آئندہ عمل نہ
کرے اور اس کے ذمہ کچھ نہیں ہے۔
جس کسی عورت یا مرد کو کوئی کام کرنا ہو تو اس کام کے
لیے دنیاوی اسباب اپنائے اور ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین سے اپنی زبان میں اس کام
میں آسانی کے لیے دعا کرے۔
سوال: آج کے دور میں محتاج کی کیا صفات
ہوگی جبکہ ہر کوئی مانگ ہی رہا ہے چاہے کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو اور صدقہ یا
کفارہ وغیرہ کی ادائیگی بتا کر کرنا ہے؟
جواب:ہمیں اپنے صدقہ و زکوۃ فقیر اور مسکین کو دینا
چاہیے اور ہر مانگنے والا فقیر و مسکین نہیں ہوتا، بہت سے مانگنے والے ایسے ہیں جو
ضرورت مند نہیں ہوتے مگر پھر بھی مانگتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے حدیث میں سخت قسم
کی وعید آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے
منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری: 1474)
اس لئے کسی کو بلا ضرورت مانگنا بھی نہیں چاہیے ورنہ
آخرت میں اس کی پکڑ ہوگی اور دینے والے کو بھی چاہیے کہ تحقیق کے بعد صدقہ دیا
کرے۔
فقیر اور مسکین یہی اصل میں محتاج اور ضرورت مند ہیں،
فقیر وہ ہے جو محتاجگی کے سبب لوگوں سے مانگتا ہے لیکن مسکین ضرورت مند ہونے کے
باوجود لوگوں سے نہیں مانگتا تو ہمیں ایسے لوگوں کا پتہ لگا کر ان کی ضرورت پوری
کرنی چاہیے۔
اور کفارہ یا صدقہ یا زکوۃ یا فطرانہ بتا کر دینے کی
ضرورت نہیں ہے آپ بغیر بتائے دے سکتے ہیں۔
سوال: ایک بہن نے سوال کیا کہ ان کے شوہر
کا بزنس ہے اور وہ مختلف کمپنیوں سے ادھار پہ سامان خریدتے ہیں، ان سے ان کا یہ
معاہدہ ہوتا ہے کہ آپ مجھے چیزیں بیچ دیں، سیل ہوجانے پر پیمنٹ کردیں، قیمت طے
ہوتی ہے اور اس میں کوئی سود وغیرہ نہیں ہوتا، کیا بزنس کا یہ طریقہ صحیح ہے ؟
جواب: کوئی آدمی تجارت کرتا ہے اور اسے کوئی پارٹی
ادھار سامان دیتی ہے اور کہتی ہے کہ بیچنے کے بعد مجھے پیسہ دے دیں تو اس میں کوئی
حرج کی بات نہیں ہے، ادھار میں صرف سونا اور چاندی خریدنا منع ہے باقی دیگر چیزیں
ادھار خرید سکتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: قرض کے بدلے زمین رہن رکھ دی جائے
تو گروی لینے والا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کیا مقرر پیسہ لے کر زمین رہن رکھ
دی جائے جائز ہے، اصل میں ہمارے یہاں کسی نے چھ ایکڑ زمین رہن رکھ کر سات لاکھ قرض
لیا ، زمین پانچ سال کے لئے رہن رکھ دی گئی ہے، نیز زمین سے کھیتی باڑی کا جو
فائدہ ہوگا گروی لینے والا اٹھائے گا اور زمیندار کو پانچ سال تک ایک پیسہ بھی
نہیں ملے گا، کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب: سوال کو سمجھنے کے لئے پہلے رہن اور قرض دونوں کو
سمجھنا ضروری ہے۔
رہن کہتے ہیں بطور ضمانت کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس
گروی رکھنا۔
اور قرض کہتے ہیں کسی محتاج اور ضرورت مند کو بطور
احسان اور بغیر کسی مالی منفعت کے مدد کرنا۔
ان دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوال کا جواب یہ ہے کہ
جس نے سات لاکھ روپیہ کسی کو قرض دیا گویا اس نے قرض لینے والے پر قرض دے کر ایک
احسان کیا اور قرض لینے والے نے بطور ضمانت اپنی کچھ زمین گروی رکھ دی۔
اب اسلامی شریعت کی روشنی میں جس کے پاس زمین گروی ہے
اس کے لئے گروی رکھی ہوئی زمین سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے۔(یہ حدیث گرچہ ضعیف
ہے مگر اس کا معنی درست ہے)۔
اور یہاں پر آدمی قرض دے کر زمین سے فائدہ اٹھا رہا ہے
گویا کہ یہ فائدہ اٹھانا سود میں داخل ہے اس لئے رہن سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں
ہے۔
اپنے سماج میں بہت سے لوگ اس طرح سے گروی رکھی زمین سے
فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ شرعا جائز نہیں ہے۔
بہرکیف! جس نے بھی ایسا معاملہ کیا ہے وہ پہلے ہی سے طے
شدہ سودی معاملہ کیا ہے، یہ بطور احسان قرض دینے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ خالص
سودی والا معاملہ ہے اور یہ ناجائز و حرام معاملہ ہے۔
سوال: جب ہم کسی کو گروی شدہ سامان سے
فائدہ اٹھانا ناجائز بتاتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ پھر گروی لینے والے کو
کیا فائدہ ملا؟ دوسری بات یہ ہے کہ قرض کے بدلے زمین ایک مقرر وقت تک اس صورت میں
رہن رکھ دی جائے کہ گروی لینے والا مقرر مدت تک فائدہ اٹھاتا رہے اور مدت پوری
ہوجانے کے بعد قرض ادا کئے بغیر زمین واپس لے لے ، اس میں ہوتا یہ ہے کہ مقرر مدت
کے اندر گروی لینے والا زمین میں خود کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس مدت کے اندر زمین
کا سارا فائدہ خود لیتا ہے، مقروض(زمیندار ) کو نہیں ملتا ہے اور جب مقرر مدت پوری
ہوجاتی ہے تو یہ شخص دیا ہوا قرض نہیں لیتا ہے اور زمین زمیندار کو واپس دے دی
جاتی ہے ، کیا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب:جس نے یہ کہا کہ گروی رکھنے کا کیا فائدہ ہوا اس
کو معلوم ہونا چاہیے پھر قرض دینے کا مطلب آپ نے سمجھا کیا ہے؟ قرض کہتے ہیں بغیر
فائدہ کے کسی کے اوپر احسان کرنا اس لئے گروی شدہ سامان سے فائدہ اٹھانا سود ہے
اور یہ حرام ہے۔
دوسرا سوال ہے کہ ایک متعین مدت تک زمین قرض کے بدلے
گروی رکھے اور اس کے بعد قرض واپس نہ کرے؟
یہ جو دوسری صورت ہے اس کو کرایہ کی صورت بنا سکتے ہیں یعنی کوئی آدمی کرائے پر پانچ سال کے لئے زمین دے اور اس زمین کا جو کرایہ ہے چاہے ایک مرتبہ ہی لے لے کوئی حرج کی بات نہیں ہے، ایسی صورت میں جس نے زمین کرائے پر لی ہے اس زمین سے جیسے چاہے متعین مدت تک فائدہ اٹھائے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، یہ صورت جائز ہے اور یہ قرض کا معاملہ نہیں ہے، یہ کرائے کا معاملہ ہے جیسے دکان اور مکان کرایہ پر دیتے ہیں۔ اور جو زمین کرائے پر لے وہ اس میں کھیتی کرے، دکان کرے ،تجارت کرے، کچھ بھی کرے اس میں کوئی مسئلہ نہیں یعنی وہ متعین مدت تک اس زمین سے جیسے چاہے فائدہ اٹھائے۔
سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ ماں باپ کو
محبت کی نگاہ سے دیکھنا مقبول حج کا ثواب ہے؟
جواب: یہ بات لوگوں میں بہت مشہور ہے کہ ماں کو دیکھنا
حج کے برابر ثواب ہے یا ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھنا مقبول حج کے برابر ثواب
ہے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ بات جھوٹی ہے مگر افسوس بریلوی تو بریلوی دیوبندی علماء نے
بھی اس جھوٹی بات کو اپنی کتابوں اور بیانوں میں اجاگر کرکے لوگوں میں مشہور کیا
اور عوام اس بات کو صحیح سمجھنے لگی ۔
اس طرح کی روایت مشکوۃ (4944)، بیہقی اور الجامع الصغیر
وغیرہ میں موجود ہے ۔
((ما من ولد بار ينظر الى والديه نظرة رحمة الا كتب
الله له بكل نظرة حجة مبرورة قالوا وان نظر كل يوم مائة مرة؟ قال نعم، الله اكبر
وأطيب))
ترجمہ:جو کوئی بچہ اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے
دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر نظر کے بدلے ایک حج مبرور کا ثواب لکھ دیا
جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، خواہ وہ ہر روز سو (100) مرتبہ دیکھے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا اور پاکیزہ ہے۔
اس کو شیخ البانی نے السلسلة الضعيفة(6273)اور هداية
الرواة(4872) وغیرہ میں موضوع کہا ہے یعنی یہ جھوٹی بات ہے اور امام ذہبی نے منکر
اور شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو بہت ضعیف کہا ہے لہذا ہمارے لئے یہ جھوٹی بات
بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
سوال: حیض کی عمر ختم ہونے پر ، اگر حیض
اور بیماری والا خون ایک ساتھ آئے اور خون آنے کے ایام بڑھ جائیں تو کیا سولہ دن
کے بعد نماز شروع کرنا ہے اور حیض کا خون مع بیماری والا خون آئے تو غسل کی کیا
صفت ہوگی ؟
جواب:جس عورت کو حیض کے دنوں میں بیماری کا خون آئے اس
عورت کو اپنی عادت کے مطابق صرف اتنے ہی دن نماز سے رکنا ہے جتنے دن حیض کی عادت
پہلے رہی ہے یعنی اس سے زیادہ حیض نہیں ماننا ہے۔ اپنی عادت کا اعتبار کرکے اور
غسل کرے نماز شروع کرے اور غسل کا اصل ایک ہی طریقہ ہے جسے غسل جنابت کہتے ہیں،
اسی انداز میں غسل حیض، غسل جنابت، غسل نفاس اور ہر قسم کا غسل کریں گے۔
بعض اہل علم نے غسل حیض میں چوٹی کھولنے واجب قرار دیا
ہے جبکہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بغیر چوٹی کھولے غسل ہوجائے گا، اصل مقصد بال کی
جڑوں تک پانی پہنچانا ہے ۔
سوال: اگر کوئی کینسر کا مریض ہو یا کسی
عورت کو alopecia جیسی بیماری ہو جس کی وجہ سے بال اس طرح گر جائیں کہ دوبارہ نہ
اگیں تو ایسی صورت میں عورت وگ لگاسکتی ہے اور اسی طرح بالوں کی PRP کروانا یا بالوں کا ٹرانسپلانٹ کروانا جائز ہے ؟
جواب:اگر کسی عورت کے بال جھڑ جائیں یا کسی مرض کا شکار
ہو کر بال گرنے لگے تو یہ ایک عورت کے لئے الجھن کا سبب ہے بلکہ اس کے لئے ایک عیب
مانا جائے گا۔ اس عیب کو دور کرنے کے لئے عورت کسی بھی طرح کا علاج اختیار کر سکتی
ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس علاج میں عورت کے لئے کوئی جسمانی ضرر نہ ہو۔ گویا گنجے
پن کے لئے عورت پی آر پی کرا سکتی ہے یا وگ پہن سکتی ہے یا ہیئر ٹرانسپلانٹ بھی
کرا سکتی ہے۔
سوال:بچے کی نانی نے اسے رضاعت کے مطابق
دودھ پلایا ہیں تو کیا اس بچے کی چھوٹی بہن کا رشتہ خالہ کے بیٹے سے ہوسکتا ہے اور
کیارضاعت کا قانون صرف اسی بچے کے لئے ہوگا جس نے نانی کادودھ پیا ہے یا اس کے
باقی بہن بھائیوں پربھی اسی طرح لاگو ہوگا؟
جواب:جس بچے نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہے رضاعت کا
مسئلہ صرف اسی کے ساتھ ہے، باقی اس بچے کے علاوہ دوسرے بہن بھائی اس سے مستثنی
رہیں گے اور خالہ زاد بھائی بہنوں سے رشتہ کر سکیں گے کیونکہ رضاعت کا رشتہ صرف
اسی بچے کے مربوط ہے جس نے دودھ پیا ہے۔ گویا جس بچے نے نانی کا دودھ پیا ہے اس کی
چھوٹی کا رشتہ خالہ کے بیٹے سے ہوسکتا ہے۔
سوال: دلہن کو سلامی کے طور پر رشتہ
داروں سے جو رقم ملتی ہے کیا اس رقم کو بھی زکوۃ کے وقت شامل کرنا ہے اور لڑکی جاب
کرتی ہو اور سیلری سے سونے کی کوئی چیز خریدے، ایسے میں ساری سیلری کی زکوۃ نکالنی
ہوگی یا سونے والی رقم منہا کرکے زکوۃ دینی ہے؟
جواب:یہاں پر آپ تین چیزوں کی زکوۃ سمجھیں۔
٭نقدی روپیے پیسوں کی زکوۃ
٭سونے کی زکوۃ
٭چاندی کی زکوۃ
ان تینوں کی الگ الگ زکوۃ دینی ہے یعنی نقدی پیسے نصاب
تک پہنچ جائیں اور ایک سال تک رہیں تو جب سال مکمل ہوگا اس پر زکوۃ دینی ہے۔ ٹھیک
یہی مسئلہ سونا کے لیے ہے کہ جس کے پاس نصاب بھر یعنی 85 گرام یا اس سے زیادہ سونا
یا سونے کا زیور ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینا
ہے اور ٹھیک یہی معاملہ چاندی کے لیے بھی ہے یعنی وہ بھی نصاب تک پہنچ جائے اور
ایک سال تک رہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینا ہے۔
لہذا آپ کے پاس جو تنخواہ کا پیسہ ہے یا سلامی کا پیسہ
ہے یا بینک میں ہے یا کوئی ہدیہ تحفہ ہے ان سارے پیسوں کو جمع کیا جائے گا اور جب
سال مکمل ہو جائے تو ان سب کو جوڑ کر ڈھائی فیصد زکوۃ نکالیں گے اور جو پیسہ سونا
خریدنے پر لگایا گیا ہے اس کو نہیں جوڑا جائے گا، سونے کی زکوۃ الگ ہے اور چاندی
کی زکوۃ الگ ہے۔
جب سونا یا چاندی نصاب کو نہ پہنچے اس وقت آپ کے پاس نقدی بھی ہو تو نقدی کو سونا کے ساتھ یا نقدی کو چاندی کے ساتھ ملا کر نصاب پورا ہو جائے تو اس صورت میں زکوۃ دینی ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔