Monday, January 13, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (11)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (11)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سینٹر حی السلامہ ـ سعودی عرب


سوال: اگر گھر کے مختلف حصوں میں رہنے والے خواہ کرایہ پر ہوں یا اپنے گھروں میں رہنے والے ہوں ، کیا وہ سب پڑوسی کہلائیں گے ؟

جواب: اگر ایک مکان کے الگ الگ فلیٹ اور حصوں میں متعدد افراد رہتے ہوں جن میں اپنے رشتہ دار ہوں یا  کرایہ دار ہوں ، یہ سب پڑوسی کہلائیں گے ۔ اللہ تعالی نے پڑوسی رشتہ داروں  اور اجنبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء:36)

ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سےاور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔

اگر آپ کے رشتہ دار آپ سے الگ رہتے ہوں خواہ ایک ہی مکان میں کیوں نہ ہوں وہ بھی پڑوسی ہیں اور اجنبی آدمی تو پڑوسی ہے ہی، ان دونوں قسم کے پڑوسی کا ذکر مذکورہ بالا آیت میں موجود ہے۔

سوال: غلط نام ، غلط لوکیشن اور غلط نمبر کا تجربہ بتاکر پروجیکٹ کرنا صحیح ہے جبکہ کام سو فیصد صحیح ہو اور کلائنٹ بھی اس کے کام سے خوش ہو ، کیا یہ حلال ہے؟

جواب: ایک مسلمان کسی کے ساتھ دھوکہ کا معاملہ نہیں کرتا اور جو کسی کے ساتھ دھوکہ کا معاملہ کرتا ہے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے، دیکھیں رسول اللہﷺ نے دھوکہ دینے والوں کے بارے میں کیا کہا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن حَمَلَ عليْنا السِّلاحَ فليسَ مِنَّا، ومَن غَشَّنا فليسَ مِنَّا( صحيح مسلم:101)

ترجمہ:جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔

اس حدیث کے بعد صحیح مسلم میں اگلی حدیث کچھ اس طرح سے ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے توآپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا:غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا:توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔(صحیح مسلم:102)

آپ اس حدیث سے اندازہ لگائیں کہ جو غلہ بارش کے پانی سے بھیگ کیا گیا ہے اس کی نمی اوپر نہیں بلکہ نیچے غلہ میں موجود تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس نمی کو اوپر ظاہر کرنے کا حکم دیا تاکہ کسی کے ساتھ تجارت میں دھوکہ نہ ہو۔

 خلاصہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کا غلط نام ، غلط پتہ اور غلط تجربہ بتاکر پروجکٹ کرنا جائز نہیں ہے، یہ دھوکہ کا معاملہ ہے اور جس نےکسی کے ساتھ  ایسا معاملہ کیا ہے وہ اللہ سے سچی توبہ کرے، اللہ معاف کرنے والا ہے اور آئندہ اس قسم کا دھوکہ دینے سے پرہیز کرے ۔جو اپنے کام میں ماہر ہے اور اپنے کلائنٹ کو اپنے کام سے خوش کرسکتا ہے وہ اپنے بارے میں اصل حقیقت بتاکر اپنے کام سے کلائنٹ کو خوش کرے اور دھوکہ والا کام نہ کرے ۔

سوال: میرا menopause شروع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ماہواری کے دن آگے پیچھے رہتے ہیں ۔ میری عادت سات ایام سے اوپر کبھی نہیں گئی تھی مگر اس بار سات دن سے اوپر ہونے کو ہیں اور ماہواری جاری ہے، شریعت کی رو سے میرے لئے نماز کب سے پڑھنے کا حکم ہے؟
جواب: عموما عورتوں کو حیض کی ایک عادت ہوتی ہے اور اسی عادت سے ہرماہ حیض آتا ہے تاہم حیض کے معاملہ میں اصل حیض کا اعتبار کیا جائے گا ، نہ کے دن کا اعتبار کیا جائے گا۔ بڑی عمر کو پہنچنے پر حیض کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہونے لگتا ہے ایسے میں حیض کے ایام میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لہذا عورت کو جب تک حیض کا خون آئے اس وقت تک نماز سے رکنا ہے خواہ پرانی عادت سے زیادہ یا کم دن کیوں نہ ہو۔

سوال: جب ہم سے گناہ سرزد ہو جائے تو ہم اللہ سے معافی مانگتے ہیں کیونکہ یہ تو اللہ کے حق میں گناہ ہے مگر بندہ کا گناہ تو بندہ ہی معاف کرے گا اور اگر بندہ معاف کر بھی دے تو کیا اللہ معاف کر دیتا ہے؟

جواب: اگر کوئی بندوں کے معاملہ میں گناہ کرتا ہے اور جس کے حق میں گناہ کیا ہے وہ اگر معاف کردیتا ہے تو اللہ بھی معاف کردیتا ہے تاہم ایسے بندہ کو چاہئے کہ وہ اللہ سے بھی معافی طلب کرلے کیونکہ اس نے اللہ کے حکم کی بھی تو نافرمانی  کی ہے ۔ کیا ہمیں اللہ نے کسی پر ظلم کرنے اور کسی کے ساتھ ناانصافی کرنے سے منع نہیں کیا ہے؟ اس لئے اللہ سے بھی معافی طلب کرلی جائے تواور بہتر ہے۔

سوال: جب بھی ہم چاشت یا اشراق کی نماز پڑھتے ہیں تو کیا یہ نیت بھی درست ہے جیسے دو نفل اشراق، حاجت، مغفرت، شکر یعنی ان سب کی اکٹھی نیت کرنے سے سارے نوافل کا حق ادا ہو جاتا ہے اور ثواب بھی مل جاتا ہے یا الگ الگ پڑھنے چاہیے؟

جواب: آپ اشراق یا چاشت کی نماز پڑھتے وقت صرف اسی ایک نماز کی نیت کرکے نماز پڑھیں ، اس کے ساتھ اور کسی نماز کی نیت نہ کریں ۔ کسی ایک دیوبندی عالم نے ایک نماز میں پانچ نمازوں(صلاۃ التوبہ، صلاۃ الحاجات، صلاۃ الشکر، صلاۃ الاستعانہ اور صلاۃ الاستخارہ) کی نیت کرنے کی تعلیم دی ہے، اس عالم کا وہ میسیج لوگوں میں گردش کررہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسا سوال کررہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی کا یہ عمل باطل ومردود ہے کیونکہ دین میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ان پانچ نمازوں میں تین نمازوں کا ثبوت ہی نہیں ہے اور باقی دو نمازوں کا تعلق مخصوص گناہ یا مخصوص کام سے ہے ۔ صلاۃ التوبہ ماضی میں ہوئے کسی گناہ سے توبہ کے لئے پڑھ سکتے ہیں مگر اس نماز میں دوسری نماز کی نیت نہیں کریں گے اور صلاۃ الاستخارہ مستقبل میں کسی اہم کام کے کرنے کا ارادہ ہو تب صلاۃ الاستخارہ پڑھیں گے۔

بہرکیف ! آپ اشراق یا چاشت الگ سے پڑھیں اور جو نماز حدیث سے ثابت ہے وہی نماز پڑھیں اور جو نماز ثابت نہیں ہے وہ نہ پڑھیں ۔

سوال: حائضہ عورت مسجد میں جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب: حیض والی عورت مسجد میں ٹھہر نہیں سکتی ہے اس لئے حائضہ کا درس یا تعلیم کی غرض سے مسجد جانا جائز نہیں ہے۔

سوال : وضو میں سر کا مسح کرتے وقت پہلے آگے ،جہاں سے بال شروع ہوتے ہیں وہاں سے ہاتھوں کو پھیرتے ہوئے پیچھے گدی تک لے جانا ہے اور پھر وہیں سے دوبارہ آگے تک، جہاں سے شروع کیا تھا وہاں تک ہاتھوں کو لوٹانا ہے لیکن اکثر عورتیں یہاں تک کہ میں بھی بال بندھے ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کو صرف پیچھے لے جاتی ہوں اور اسکو آگے کی طرف یا تو کبھی نہیں لوٹاتی ہوں اور اگر لوٹاتی بھی ہوں تو اچھی طرح نہیں ہو پاتا ۔ عورتوں کے بال بڑے ہوتے ہیں اور چوٹی وغیرہ بندھی ہوتی ہے اس لئے مشکل ہوتا ہے تو کیا ہمارا وضو صحیح نہیں ہوگا؟ اور جب کبھی ہاتھوں کو آگے تک لاتے ہیں، ہلکا ہاتھ پھیرتے ہوئے بھی تو پورے کے پورے بال بگڑ جاتے ہیں تو اس کو صحیح کرنے کے لئے اسی وقت جس وقت ہاتھ آگے لائے وہیں سے دوبارہ پیچھے کی طرف پھیرتے ہیں بالوں کو صحیح کرنے کے لئے تو کیا اس سے بھی مسح کے طریقہ پر اثر پڑےگا ؟

جواب: سر کے مسح میں اصل یہی ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی تر ہاتھ کو سر کے اگلے حصے سے گدی تک لے جائے پھر گدی سے اگلے والے حصہ تک واپس لائے ۔ مسح کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا ایک عمل یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے سر کے اوپری یعنی بیچ کے حصہ سے نیچے کی جانب، بالوں کی سمت میں مسح کیا اور واپس یعنی بالوں کی سمت کے برعکس مسح نہیں کیا چنانچہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ توضَّأَ عندَها فمسحَ الرَّأسَ كلَّهُ مِن قرنِ الشَّعرِ كلِّ ناحيةٍ لمنصبِّ الشَّعرِ لا يحرِّكُ الشَّعرَ عن هيئتِهِ(صحيح أبي داود:128)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس وضو کیا، تو پورے سر کا مسح کیا، اوپر سے سر کا مسح شروع کرتے تھے اور ہر کونے میں نیچے تک بالوں کی روش پر ان کی اصل ہیئت کو حرکت دیے بغیر لے جاتے تھے۔

اس حدیث میں مذکور ہے کہ بال کی جو ہیئت ہے اسی سمت میں آپ ﷺ نے مسح کیا تاہم سر کے پورے جانب مسح کیا تاکہ پورے سر کا مسح ہوجائے لہذااس حدیث کی روشنی میں عورتوں کے لئے بھی جائز ہے کہ مسح کرتے وقت سر کے اگلے حصے سے تر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے گدی کی طرف ایک بار لے جائے ، یہی کافی ہے، دوبارہ یعنی ہاتھ کو گدی سے سر کے اگلے حصہ کی طرف پلٹانا ضروری نہیں ہے ،گویا بالوں کی مشقت کی وجہ سے ایک مرتبہ ہی اگلے حصے سے پیچھے کی طرف تر ہاتھ پھیرلینا کافی ہے تاہم دھیان رہے کہ پورے سر کا مسح ہونا چاہئے گدی تک ۔ اور اگر ہاتھ واپس لوٹانا آسان ہو تو پیچھے سے آگے کی طرف بھی ہاتھ لوٹالیں اور اس صورت میں بال الجھ جائیں پھر سے بالوں کو اسی وقت سیدھا کرتے ہیں تو اس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سوال: جب میں قرآن کریم کی تلاوت کرتی ہوں تو پانی پر دم کر کے پی لیتی ہو کیونکہ مجھ پر سحر ہوا تھا، کیا یہ عمل درست ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو آپ کا کیا معمول تھا یعنی کیسے دم کرتے تھے،  آپ  دو سورتیں پڑھتے تھے یا تین اور صبح و شام پڑھتے تھے یا کتنی مرتبہ پڑھتے تھے ،اس مسئلہ کی وضاحت فرمادیں؟

جواب: قرآن کی تلاوت الگ چیز ہے اور دم کرنا الگ چیز ہے اس لئے جب آپ تلاوت کریں تو تلاوت کو تلاوت ہی رہنے دیں ، اس کو دم نہ بنائیں اور جب دم کی نیت سے قرآن پڑھیں تو جو میسر ہو قرآن سے پڑھ کر دم کرلیں ۔ نبی ﷺ پر جو سحر کیا گیا تھا اس کے لئے جبریل علیہ السلام معوذتین(سورہ فلق اور سورہ ناس) لے کر آئے اور انہوں نے ان سورتوں کو پڑھ کرآپ پر دم کیا اور آپ سے جادو دور کیا۔ نبی ﷺ معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۔

عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:كان إذا اشتكى يقرا على نفسه بالمعوذات وينفث، فلما اشتد وجعه كنت اقرا عليه وامسح بيده رجاء بركتها(صحيح البخاري:5016)

ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔

اس حدیث کی روشنی میں آپ بھی جب کبھی دم کرنا چاہیں تو تین سورتیں پڑھ کر دم کرلیا کریں اور یہی تینوں سورتیں پڑھ کر اور دم کرکے روز رات میں سونا بھی چاہئے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے  سونے کا معمول تھا۔

سوال: اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی غربت کا جو واقعہ ہے جس میں وہ گوشت کھانے کی خواہش کرتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ایک دعا سکھاتے ہیں، اس کے بعد وہ مدینہ کی سب سے امیر عورت بن گئیں، کیا وہ واقعہ صحیح ہے؟

جواب:ایسا کوئی صحیح واقعہ میرے علم میں نہیں ہے تاہم اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا جن کی شادی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ہوئی اس وقت آپ کے شوہر کے پاس ایک گھوڑے کے سوانہ کچھ مال تھا، نہ غلام تھا، نہ کوئی اور چیز تھی۔(صحیح مسلم:2182) بعد میں اللہ نے حالات بہتر بنائے تاہم سوال میں پوچھے گئے واقعہ کا علم نہیں ہے۔

سوال: غسل میں اگر بغیر واجبات ادا کئے کسی نے نہا لیا تو ایسا کرنا کیسا ہے کیونکہ روزانہ سر نہیں   دھونا ہوتا ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر فرائض و واجبات ادا کئے بغیر نہایا جائے تو وہ غسل بے کار ہے؟

جواب: دین کے معاملہ میں ہمارے لئے اسوہ محمد ﷺ ہیں لہذا کون کیا کہتا ہے ہمیں اس بارے میں دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں غسل کے بارے میں جاننا ہے تو اپنے بہترین اسوہ محمد ﷺ کا طریقہ دیکھیں گے چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان فرماتی ہیں:

أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ إذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ ، بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ كما يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ أصَابِعَهُ في المَاءِ، فيُخَلِّلُ بهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ يَصُبُّ علَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بيَدَيْهِ، ثُمَّ يُفِيضُ المَاءَ علَى جِلْدِهِ كُلِّهِ( صحيح البخاري:248)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔

یہ آپ ﷺ کے غسل کا طریقہ ہے لہذا آپ اسی طرح غسل کیا کریں، آپ کو فرض وواجب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، غسل کی کیفیت ہمیں معلوم ہوگئی اس کیفیت میں غسل کرنا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے غسل کیااور واضح رہے کہ غسل طہارت کے وقت ہرحال میں سربھی دھونا ہےیعنی بالوں کی جڑ تک پانی پہنچانا ہے ورنہ غسل نہیں ہوگا۔

سوال : میری ایک جاننے والی بہن ہے وہ دعا مانگا کرتی کہ اللہ پاک تونے بیٹا عطا فرمایا تو میں اسے حافظ قرآن بناؤں گی اور اگر نہیں بنا سکی تو آپ مجھ سے واپس لے لینا۔ اب وہ بڑا افسوس کرتی رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو حافظ قرآن نہیں بنا سکی، اور بیٹا بڑا ہو گیا،اس کی شادی بھی ہو گئی مگر شادی کے بعد بیٹا ماں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا بلکہ کوئی میسج تک بھی نہیں کرتا حتی کہ عید پر بھی نہیں۔ شاید اسے بیوی ایسی ملی یا اس کے سسرال والے ایسے ہیں، پتہ نہیں۔ ماں کو اس بات کی بے چینی ہے کہ اس نے جس طرح سے دعا کی تھی شاید اس دعا کی وجہ سے اس سے اس کا بیٹا بچھڑ گیا ایسے میں اس ماں کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: اس مسئلے میں اس بہن کی غلطی یہ ہے کہ اس نے دعا میں غلط الفاظ بولی تھی، اتنی دعا صحیح تھی کہ اے اللہ تو مجھے بیٹا عطا کرے گا تو اسے حافظ قرآن بناؤں گی مگر اس نے جو یہ کہا کہ اگر حافظ قرآن نہ بناسکوں تو اسے لے لینا ، یہ غلط بات تھی ۔

المہم ! ایک ماں اور ایک باپ اپنی اولاد کو اچھا بنانے کا ارادہ کرتے ہیں اور اس کے لئے انہیں کوشش بھی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اس بہن نے اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کے لئے کیا کوشش کی، اگر اس نے وعدہ کے مطابق کوشش بھی کی پھر بھی بیٹا حافظ قرآن نہ بن سکا تو اس میں ماں کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن ماں نے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کے لئے کوشش ہی نہیں کی تو پھر ماں نے اپنے وعدہ کے مطابق عمل نہیں کیا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ماں نے جو اللہ  سے وعدہ کیا وہ ایک نیک ارادہ تھا اس کے لئے ماں کو بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگرماں باپ نے اولاد کی دینی تربیت میں کوتاہی کی تو یہ بڑی غلطی ہےاور ممکن ہے کہ بیٹے کی دینی تربیت نہیں ہوئی اس لئے ماں کا نافرمان ہے  اس کے لئے وہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے ،اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ جہاں تک بیٹے کا مسئلہ ہے تو اس کے ذمہ والدین کی خدمت ہے، اگر وہ اس خدمت کو پورا نہیں کرتا تو آخرت میں اس سے والدین کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ماں اپنے معاملہ میں اللہ سے توبہ و استغفار کرلے یہی کافی ہے، اسے بلاوجہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے نیز اپنے بیٹے کو کسی عالم کے ذریعہ والدین کی اطاعت کا احساس دلاسکے تو بہتر رہے گا۔

سوال: جب ہم کسی فقیر اور غریب بندے کو کچھ پیسے یا کوئی چیز دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کرنا۔ کسی عالم کا کہنا تھا کہ اس طرح سے آپ نیکی کا بدلہ دنیا میں ہی پا لیتے ہیں یا پانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیا ہم بغیر بدلہ کی نیت کئے ہوئے یوں ہی دعا کے لئے کہتے ہیں تو کیا یہ مناسب نہیں ہے اور اس میں کوئی قباحت ہے؟

جواب: کسی سے دعا کے لئے کہنا یہ ایک مسنون طریقہ ہے، اس کا صدقہ دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسا کہنے سے صدقہ کا اجر ضائع نہیں ہوتا یا اس کا اجر دنیا میں ہی نہیں مل جاتا بلکہ صدقہ، صدقہ ہے وہ آخرت میں کام آئے گا۔ شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی فقیر کو صدقہ دینے کے بعد اس سے دعا کے لئے کہنا کیسا ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اور ویسے بھی صدقہ لینے والے فقیر و مسکین کو چاہئے کہ صدقہ دینے والے کا شکریہ ادا کرے اور اس کودعا دے اور وہ دعا نہ بھی دے تو انسان کو اپنے صدقہ کا اجر مل جاتا ہے۔

سوال: کچھ دن پہلے میری امی بہت بیمار تھی اور ڈپریشن میں چلی گئی تھی جس میں انہوں نے اپنے ہاتھ کی چوڑی کو اللہ کی راہ میں دینے کے لئے کہہ دیا جبکہ اس کے لئے میرے ابو تیار نہیں تھے، ابوچاہتے تھے کہ امی کچھ دن اور پہنے اور انتقال کے بعد اسے اللہ کے راستے میں دے دیا جائے گا۔جب کچھ دن بعد امی کی طبیعت اچھی ہوئی، اس نے چوڑی پہننے کا ارادہ کیا مگر وہ نہیں پہنی پھر ایک دن جمعہ کے خطبے میں سناکہ جو آدمی اپنی کسی چیز کو اللہ کی راہ میں وقف کرے تو اس کا ہوش و حواس میں ہونا ضروری ہے اور جس سامان کو وقف کرے وہ پورا اس کا مالک ہو جبکہ زیور کے مالک تنہا امی نہیں، ابو بھی ہیں اور ابو چاہتے ہیں کہ یہ زیور ابھی امی پہنے۔ جب امی نے وقف کے لئے کہا تھا اس وقت وہ گھبراہٹ کی کنڈیشن میں تھی اور ان کو ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا آخری وقت آگیا ہے، اب ہم اس حال میں کیا کریں، کیا وہ زیور اللہ کی راہ میں فورا نکال دیں یا ابھی میری امی اس کو پہن سکتی ہے؟

جواب: اس مسئلہ میں پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ جب شوہر بیوی کو کوئی زیور خرید کر دیتا ہے تو یہ بیوی کی ملکیت ہوجاتی ہے اس میں شوہر کا حق نہیں رہتا ہے ، یہ ہدیہ و تحفہ کے قبیل سے ہے مثلا شوہر نے عید کے دن بیوی کو سوٹ اور نسوانی سامان وغیرہ خرید کر دیا تو یہ بیوی کے لئے ہدیہ ہوا اور یہ بیوی کی ملکیت ہوگئی اس میں شوہر کا حصہ نہیں ہوتا ہے لہذا آپ کے والد نے جو زیور آپ کی والدہ کو دیا ہے وہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہے اس میں والد کا حصہ نہیں ہے۔ ہاں اگر میاں بیوی دونوں نے پیسہ لگاکر زیور خریدا یہ بول کر کہ اس میں آدھا میرا اور آدھا تمہارا ہوگا تو اس صورت میں دونوں کا آدھا آدھا حصہ ہوگا مگر زیور عورت کی چیز ہے اس لئے عموما مشترکہ نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو بیماری میں صدقہ کرنے کا حکم ہوا ہے اس سے مریض کو فائدہ ہوتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ(صحيح الجامع:3358)

ترجمہ:صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو۔

گویا صدقہ ایک طرح سے مریض کے لئے علاج کے درجہ میں ہے ، جب آپ کی والدہ بہت زیادہ سیریس تھی اور انہوں نے اس حال میں اپنا زیور صدقہ کرنے کا حکم دیا تو آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ اسی وقت فورا اس کا زیور فقیر ومسکین میں صدقہ کردیتے۔ جب آدمی سخت علیل ہوتا ہے تو اس وقت بیماری کے لئے سلطنت بھی دینے کو تیار ہوجاتا ہے ، یہ زیور تو معمولی چیز ہے۔

آپ کے مسئلے میں ایک بات تو یہ ہے کہ یہ زیور اگر آپ کے والد نے آپ کی والدہ کو دیا ہے تو یہ والدہ کی ملکیت ہے، اس میں آپ کے والد کا حصہ نہیں ہے اور جس کا ذاتی سامان ہے وہ اپنے سامان کو وقف کرنے کا حق رکھتا ہے، اس میں دوسرے شخص کی مرضی نہیں چلے گی لہذا آپ کے والد کا سوچنا صحیح نہیں ہے ، میرے حساب سے اس زیور کو محتاجوں میں تقسیم کردیں اور صدقہ کے لئے اس قدر دل چھوٹا نہ کریں، اس کا اجر آخرت کے لئے جمع ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان دائیں ہاتھ سے  بڑا بڑا صدقہ کرتا ہے اور بائیں کو خبر نہیں ہوتی ، اور آپ کی والدہ نے  معمولی زیور صدقہ کرنے کا حکم دینے کے باجود صدقہ کرنے میں اس قدر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں؟

سوال:میری شادی کو پانچ سال ہو گئے اور مسلسل تین سال سے میرا شوہر سعودی عرب میں رہ رہاہے، مجھے گھر والوں نے ان کی مرضی سے گھر سے نکال دیا اور چار ماہ سے اپنی امی کے گھر پہ ہوں، پہلے بھی دو مرتبہ گھر سے نکال چکے تھے اور یہ تیسری دفعہ ہے اور میرے شوہر کا کہنا ہے کہ جو میرے ابو اور امی کی مرضی ہے وہی میری مرضی ہے نیز چار ماہ سے کوئی میسج اور کوئی بات چیت نہیں ہے۔ میں نے خلع کا کیس کیا ہے اور شادی کا پیغام بھی آرہا ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مجھے خلع کی عدت گزارنی پڑے گی جبکہ تین سال سے میرے شوہر باہر رہتے ہیں اور تین چار ماہ سے بات تک نہیں ہوتی؟

جواب: جب آپ کا شوہر آپ کا حق ادا نہیں کرتا ہے اور آپ کو میکے سے نکال دیا گیا، یہی مرضی آپ کے شوہر کی ہے تو ایسے شخص کی زندگی میں رہنا صحیح نہیں ہے ، آپ کو اس سے جدا ہوجانا بہتر ہے اور آپ کے لئے خلع کا فیصلہ درست ہے۔ آپ کا جب خلع ہوگا اور چونکہ شوہر باہر رہتا ہے اس صورت میں قاضی نکاح کو فسخ کرے گا ، جب نکاح فسخ کرے تو اس وقت سے لے کر ایک حیض آنے تک عدت گزارنا ہے، یہ عدت لازما گزارنا ہے، شوہر کے باہر رہنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے آپ کو گھر سے نکالا گیا اور آپ کی غلطی کی وجہ سے شوہر ناراض ہے تو اپنے فیصلہ میں نظرثانی کریں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے شوہر کے ساتھ رہیں ۔ میرے علم میں آپ کی پوری حقیقت نہیں ہے اس لئے آپ کو یہ مشورہ دے رہا ہوں ۔

سوال: كيا مقروض انٹریسٹ کے پیسوں سے اپنا قرض ادا کر سکتا ہے جبکہ قرض بہت زیادہ ہو اوراسکی ادائیگی کی کوئی صورت نہ بن پا رہی ہو؟

جواب: مقروض آدمی اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے سودی پیسہ استعمال نہیں کرسکتا ہے، سود حرام ہے، یہ نہ عام آدمی کے لئے حلال ہے اور نہ ہی مقروض کے لئے حلال ہے۔ قرض لینے والا بسااوقات اپنی اوقات سے زیادہ قرض لے کر خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، اس لئے کہاجاتا ہے کہ جتنا بڑی چادر ہو اتنا ہی پیر پھیلانا چاہئے۔

خیر،مقروض سودی پیسہ تو قرض کے لئے استعمال نہیں کرسکتا ہے لیکن اس صورت میں زکوۃ طلب کرکے زکوۃ سے قرض ادا کرسکتا ہے ، یہ جائز ہے۔

سوال: دم اور تعویذ کے استعمال کی کیا حقیقت ہے اور اس کے استعمال کی حد کہاں تک ہے اور کب ناجائز ہے قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیں؟

جواب: تعویذ لٹکائی جانے والی چیز ہے، یہ کبھی بھی جائز نہیں ہے، حتی کہ جسے قرآنی تعویذ بولتے ہیں وہ بھی جائز نہیں ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے، نہ بیمار مرد و عورت اور نہ ہی بچہ کے لئے تعویذ استعمال کرنا جائز ہے ۔ نبی ﷺ نے ہرقسم کے تعویذ سے منع فرمایا ہے ۔ ہاں شرعی دم کرنا جائز ہے ۔ جب کبھی ہم بیمار پڑیں تو رسول اللہ ﷺ کی طرح دم کرسکتے ہیں، آپ ﷺ کے دم کا طریقہ یہ ہے ۔

عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:كان إذا اشتكى يقرا على نفسه بالمعوذات وينفث، فلما اشتد وجعه كنت اقرا عليه وامسح بيده رجاء بركتها(صحيح البخاري:5016)

ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔

سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کے لئے ایک رشتہ آیا ہے، اس لڑکے کا اپنا بزنس ہے اور ابھی اس کو سرکاری نوکری ملنے والی ہے، وہ جاب ولڈ بنک سے منسلک ہے۔ بینک کا نام سن کر لڑکی کو بے چینی ہے مگر لڑکے کا کہنا ہے کہ یہ بینک جاب نہیں گورنمنٹ جاب ہے، سیلری گورنمنٹ دیتی ہے، بس بینک اور گورنمنٹ کا آپس میں ڈیویلپمنٹل پروجیکٹ ہے اور اس لڑکے کی جاب اس میں فنڈڈ پروجکٹ میں ہوگی، اس بارے میں رہنمائی کریں؟

جواب: یہ جاب کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بنک جاب ہے اور اس جاب کا پیسہ حکومت کیوں نہ ادا کرے مگر بنک کا عمل ہونے کی وجہ سے یہ جاب جائز نہیں ہے ۔ حکومت اس لڑکے کو تنخواہ صرف اس بنیاد پر دے گی کہ لڑکا بنک کا کام کرے گا اور بنک کا کام سودی ہے لہذا سودی کام کرکے بنک سے تنخواہ  لینا یا حکومت سے تنخواہ  لینا دونوں ایک جیسا ہے اور دونوں حرام ہیں۔

سوال: ایک لڑکی جس کو شادی کے بعد یہ بات پتہ چلی کہ شوہر کے اور بھی میریٹل افیئر (ازدواجی تعلقات) ہیں، وہ اپنی بیوی کو سیدھے سے وقت بھی نہیں دیتا اور اس کے شوہر کی کمائی کا اکثر حصہ حرام اور ناجائز ہے۔ جب لڑکی نے سسرال میں یہ بات رکھی تو شوہر نے سارے ثبوت کو جھٹلا دیا اور اپنی بیوی کے ساتھ اکثر لڑائی کرتا اور مارتا ہے، ایسی صورت میں خلع نہیں چاہتی اور نہ ہی اللہ کے لئے مہر چھوڑنا چاہتی ہے بلکہ وہ طلاق کے ذریعہ اپنے شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہے تاکہ اسے مہر ملے بلکہ وہ یہاں تک چاہتی ہے کہ سسرال سے جتنے تحائف ملے وہ سب اس کو ملنا چاہیے نیز وہ ایک بڑی رقم بھی وصول کرنا چاہتی ہے تاکہ شوہر کو سبق سکھائے کیونکہ اس نے حرام آمدنی والی بات شادی کے وقت چھپائی ،اگر وہ یہ بات اس وقت  بتا دیتا تو یہ شادی نہیں ہوتی ۔ساتھ ہی اس کی ڈیمانڈ پر بھاری بھرکم دعوت کی گئی تھی اور بھاری رقم وصولی کا مقصد یہ بھی ہے کہ دوسری لڑکی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے۔شوہر پہلے دوبار طلاق دے چکا ہے اور وہ تیسری طلاق بھی دینے کے لئے تیار ہے تاہم سوال یہ ہے کہ سبق سکھانے کے لئے دلہا سے بڑی رقم وصول کرنا شریعت کی نظر میں حرام تو نہیں؟

جواب: اگر لڑکے کا کسی دوسری لڑکی سے جنسی تعلقات ہے تو ایسے شخص کے ساتھ لڑکی کا رہنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ یہ بات یقینی طور پر صحیح ہو، محض وہم وگمان نہ ہو نیز جب اس کی کمائی بھی حرام ہو تو الگ ہوجانا بہتر ہے ۔ لڑکی خلع یا طلاق کے ذریعہ شوہر سے الگ ہوسکتی ہے ۔ اگر شوہر طلاق دے دیتا ہے تو اس سے طلاق لے لے اور وہ پہلے اپنا مہر نہ لی تو مہر لے لے نیز اپنے ذاتی سامان مثلا زیورات وغیرہ لے سکتی ہے حتی کہ لڑکی کو میکے یا سسرال سے جو بھی تحفہ ملا ہو وہ سب لے جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ تحفہ صرف لڑکی کے لئے ہو ۔ جہاں تک لڑکے کا تحفہ ہے تو وہ لڑکے کا حق ہے، اسے لڑکی نہیں لے سکتی ہے خواہ اس کو سسرال سے ہی کیوں نہ ملا اور لڑکی کا طلاق کے وقت بڑی رقم طلب کرنا جائز نہیں ہے، یہ رقم لڑکی کے لئے حرام ہوگی ۔ جہاں تک مہنگی دعوت کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ لڑکی کے گھر والوں کی غلطی ہے حتی کہ لڑکے کی حرام کمائی معلوم نہ کرنا یہ بھی لڑکی والوں کی غلطی ہے۔ شادی کرتے وقت ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی کیسی ہے، ہم خود سے پہلے تحقیق کرلیں پھر دینداری ملنے پرشادی کریں اور دنیاداروں سے شادی نہ کریں جو جہیز کا مطالبہ کرے اور مہنگی پارٹی کی فرمائش کرے۔ بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شادی دینداری کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی اسی لئے لڑکے کا دوسری عورتوں سے جنسی تعلقات ہے اور وہ حرام کمائی کرتا ہے اور اسی لئے شادی میں ناجائز مطالبات کیا تھا۔ جب لڑکی والوں نے شادی کے وقت تحقیق نہیں کی یا  دینداری نہیں دیکھی ، پھر لڑکے کو کیا سبق سکھانا ہے،اسے تو خود اپنے آپ کو سبق سکھانا چاہئے تاکہ آئندہ اس قسم کی شادی کہیں نہ کرے۔

سوال: کسی کو پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد جماع کے لئے غسل کرنا بھی ضروری ہے اور اس سے متعدد بار لاعلمی میں یہ عمل سرزد ہوا، اس کی تعداد بھی معلوم نہیں ہے اس انسان کو کیا کرنا چاہیے جبکہ اسے کفارہ ادا کرنے کی استطاعت بھی نہ ہو؟

 جواب: جس نے اپنی بیوی کے ساتھ حیض منقطع ہونے اور غسل طہارت حاصل کرنے سے پہلے، ہمبستری کی اس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرۃ:222)

ترجمہ: اور وہ تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جائو، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آئو جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔

اس آیت کے تحت اگر کوئی مرد اپنی بیوی سے حیض منقطع ہونے کے بعد اور غسل سے پہلے جماع کرتا ہے تو اہل علم نے ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دینے کو کہا ہے جیساکہ حدیث رسول میں حیض کی حالت میں جماع کا کفارہ بتایا گیا ہے۔

اور کسی کو اس بات کا علم نہیں کہ کتنی دفعہ اس نے ایسا عمل کیا ہے اور اسے کفارہ دینے کی طاقت بھی نہیں ہے تووہ  اللہ رب العالمین سے سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ ہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہے۔

سوال: عصر کی نماز کے وقت نیند لگ گئی اور آنکھ کھلتے وقت مغرب کی نماز کا وقت ہو جائے تو ایسے میں پہلے عصر قضاء کریں یا پہلے مغرب ادا کریں؟

جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے ہمارے سونے کے لئے رات بنایا ہے اس لئے ہمیں اصل وقت میں سونا چاہیے اور بغیر حاجت و ضرورت کے دوسرے اوقات میں نہیں سونا چاہیے بطور خاص جب نماز فوت ہونے کا خدشہ ہو، ہاں اگر کسی کو عصر کے بعد مجبوری میں سونا پڑ جائے تو وہ سو سکتا ہے تاہم آج سہولت میسر ہے، وہ نماز کے لئے الارم لگا لے یا کسی کو جگانے کے لئے متعین کرلے تاکہ وقت پر نماز ادا کر سکے۔اور جب کبھی سوتے ہوئے کسی کی عصر کی نماز چھوٹ جائے یہاں تک کہ مغرب میں آنکھ کھلے، ایسے آدمی کو پہلے عصر کی نماز ادا کرنی چاہیے کیونکہ ترتیب میں پہلے عصر ہے، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کرے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من نسي صلاة، او نام عنها، فكفارتها ان يصليها إذا ذكرها(صحيح مسلم:684)

ترجمہ:جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس (نماز) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے۔

یہ حدیث بتاتی ہے کہ کسی کی کوئی نماز نیندکی وجہ سے رہ جائے تو اٹھنے پر پہلے وہ نماز ادا کرے جو چھوٹی ہوئی ہے یہی اس فوت شدہ نماز کا کفارہ ہے۔

سوال: لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت حاملہ ہو تو سورت مریم اور سورت محمد پڑھے، اس کے پڑھنے سے بچہ خوبصورت پیداہوتا ہے اور اللہ آسانی کا معاملہ فرماتا ہے، کیا یہ بات درست ہے اور اس کے لئے آپ کوئی وظیفہ بتا دیں تاکہ حمل کا دورانیہ اچھے سے گزر جائے کیونکہ مجھے حمل میں مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے؟

جواب: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حاملہ عورت کے سورہ مریم اور سورہ محمد پڑھنے سے خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے معاملے میں آسانی ہوجاتی ہے تو وہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث میں کہیں ایسا نہیں بتایا گیا ہے اور ہمارے لئے قرآن و حدیث سے ہی دلیل ہے، جو بات ان دونوں کتاب میں موجود نہ ہو اس کا اسلام سےکوئی  تعلق نہیں ہے۔

لہذا آج کے بعد نہ تو آپ ایسی بات کسی کو بتائیں اور نہ ہی کسی کے ایسا کرنے پر خاموش رہیں بلکہ اسے اس پر تنبیہ کریں کہ یہ جھوٹی بات ہے، ایسی بات مت بولو ۔ اللہ تعالی نے ہمیں بغیر علم کے  کوئی بات بولنے سے منع فرمایا ہے، فرمان باری تعالی ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الاسراء:36)

ترجمہ: اور جس بات کا تمہیں علم نہ ہو ایسی بات مت بولا کرو۔

ساتھ ہی یہ بھی آپ کے علم میں رہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے حمل کی حالت میں کوئی خاص وظیفہ نہیں بتایا ہے لہذا اگر کوئی آدمی آپ کو حمل کا خاص وظیفہ بتائے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ دین کی بات نہیں ہے بلکہ اس آدمی کی اپنی بات ہے۔ ہاں یہ مسئلہ ضرور ہے کہ حمل کی حالت میں ایک عورت کو مختلف پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے بطور خاص توالد کے وقت انتہائی تکلیف دہ مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے ایسی صورت میں ایک عورت کو اپنی زبان میں کثرت کے ساتھ اللہ رب العالمین سے دعا کرنی چاہیے، اللہ تعالی ساری زبانوں کو سمجھتااور ہر پکارنے والے کو سنتا اور جواب دیتا ہے۔ نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت میں متعدد دعائیں پڑھنے کی تعلیم دی ہے، آپ ان دعاؤں کو بھی پڑھ سکتے ہیں تاہم کسی دعا کو وظیفہ بناکر متعین تعداد کے ساتھ خاص کرکے پڑھنا بدعت ہے۔

پریشانی کے وقت کی ایک دعا یہ ہے۔

اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في الدُّنْيا وَالآخِرَة ، اللّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ العَفْوَ وَالعافِيةَ في ديني وَدُنْيايَ وَأهْلي وَمالي ، اللّهُمَّ اسْتُرْ عوْراتي وَآمِنْ رَوْعاتي ، اللّهُمَّ احْفَظْني مِن بَينِ يَدَيَّ وَمِن خَلْفي وَعَن يَميني وَعَن شِمالي ، وَمِن فَوْقي ، وَأَعوذُ بِعَظَمَتِكَ أَن أُغْتالَ مِن تَحْتي .(صحيح ابن ماجة: 3135)

ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے دنیاو آخرت میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، اپنی دنیا، اپنے اہل اور اپنے مال میں درگزر اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میرے پوشیدہ امور پر پردہ ڈال اور میری گھبراہٹوں میں مجھے امن دے، اے اللہ! میرے سامنے سے، میرے پیچھے سے، میرے دائیں سے، میرے بائیں سے، میرے اوپر سے میری حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کے ذریعہ پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے اچانک ہلاک کردیا جاؤں.

اسی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مصیبت میں مبتلاہو وہ یہ دعا پڑھے :

اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ۔(صحيح الجامع للالباني 3388 )

ترجمہ:اے اللہ میں تیری ہی رحمت کی امید کرتا ہوں، مجھے لحظہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر، میری مکمل حالت درست فرمادے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔

بہر کیف!دعا کی کتابوں سے مزید مسنون دعائیں دیکھ کر پڑھ  سکتے ہیں اور اپنی زبان میں بھی  اللہ سے تکلیف کرنے ، آسانی پیدا کرنےاور اپنی وبچے کی صحت وعافیت  کی دعا کریں، ساتھ ہی یہ بھی دعا کیاکریں کہ اے اللہ حمل کی تکالیف کو میرے گناہوں کا کفارہ بنا۔

سوال: مرد کے لئے نماز پڑھتے ہوئے مکمل لباس پہننا ضروری ہے یا صرف شرعی ستر ڈھانپنے سے نماز ہو جائے گی؟

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو کندھا ڈھک کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لہذا ایک مرد کے لئے کندھا سے لے کر گھٹنے سے نیچے تک ڈھکا ہونا ضروری ہے لہذا ایک آدمی نماز پڑھتے ہوئے قمیص اور تہبند پہن کر کم از کم دو لباس میں نماز ادا کرے اور اگر کسی کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو تب بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کپڑے سے کندھا سے لے کر گھٹنے سمیت ڈھک کر نماز پڑھے جیساکہ متعدد صحابہ کرام سے ایک لباس میں نماز پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ایک کپڑے میں نماز اس ادا فرمائی ہے۔ تفصیل کے لئے میرا رسالہ "خواتین کی نماز اور ان کا لباس" مطالعہ کریں۔

سوال:کسی نے سورت مزمل ایک مخصوص تعداد میں پڑھنے کو کہا، حیض ختم ہوگیا لیکن غسل نہیں کیا گیا تھا یعنی بغیر غسل کے ہی موبائل سے سورت پڑھ کر بتا دیا کہ میں نے پڑھ دی ہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: اس مسئلے میں آپ سب سے پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ جب کوئی عورت آپ سے دین کے نام پر کوئی کام کرنے کے لئے کہے تو پہلے یہ جانکاری حاصل کریں کہ وہ کام کرنا جائز ہے یا نہیں ،اس کے بعد ہی آگے کوئی کام کریں۔

جس کسی نے آپ کو سورہ مزمل ایک مخصوص تعداد میں پڑھنے کے لئے کہا اور آپ نے مخصوص تعداد میں سورہ مزمل پڑھ دی ، یہ بدعتی کام ہے، آپ نے بدعت پر عمل کیا اور بدعت گناہ کا کام ہے۔ گویا حکم دینے والی عورت نے بدعت کا کام کروایا اور آپ نے بدعت کا کام انجام دیا، اس سے دونوں خاتون کو بدعت پر عمل کرنے کا گناہ ملے گا۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کسی نے حیض کی حالت میں  یا حیض سے پاک ہوکر غسل کرنے سے پہلے سورہ مزمل کی تلاوت کی ہے بلکہ حیض کی حالت میں  بھی عورت قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے، زبانی بھی کر سکتی ہے اور موبائل سے بھی کر سکتی ہے لیکن کسی حاجت  کے لئے خود سے سورہ مزمل کو متعین تعداد میں پڑھنا یا کسی دوسری  خاتون سے پڑھوانا بدعت ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں سورہ مزمل کو اس طرح سے پڑھنے کا کہیں پر حکم نہیں دیا گیا ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

كلَّ مُحدَثةٍ بدعةٌ ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ ، وكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ(صحیح الجامع:1353)

ترجمہ: ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

سوال: ایک خاتون کا سوال ہے جس کی عمر پچاس سال سے کچھ اوپر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میرے شوہر کے چچا کی بیوہ بیٹی جو عمر میں میرے برابر ہے، اکثر اپنے گھریلو مسائل پوچھنے کے لئے یا جب بھی ضرورت پڑے میرے شوہر کے پاس آتی ہے بلکہ  اس کے شوہر کے بارے میں ایک بار کہا بھی تھا کہ یہ میرا کزن ہے، میرا خون اور میرا جگر ہے اس لئے ہم پریشانی میں اس کے پاس آتے ہیں۔ وہ آتی ہے تو ٹھیک ہے مگر وہ بہت قریب بیٹھ کر سرگوشی کے انداز میں بات کرتی ہے، دونوں میں محض دو تین انچ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ ایسا میں شادی کے وقت سے دیکھ رہی ہوں اور مجھے اس بات پر بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن اپنے شوہر کو نہیں کہہ سکتی ،وہ مجھے مارے گا کیونکہ وہ اس مزاج کا ہے اور دوسری بات یہ کہ شوہر کے سارے رشتہ دار میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اس لئے اس بیوہ کے بارے میں کچھ بولنے سے وہ سب مجھے ہی برا بھلا کہیں گے، ایسی صورت میں مجھے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے یا پھر صبر کرنا بہتر ہے؟

جواب:ایک معمر بیوہ عورت کا ضرورت کے تحت کسی مرد کے پاس ایسی صورت میں جانا جبکہ اس کے گھر میں اس کی بیوی موجود ہے حرج کی بات نہیں ہے خصوصا جب اپنے رشتہ داروں میں سے ہو بلکہ ایسی عورت کو اپنا رشتہ دار ہی اصل سہارا دے سکتے ہے۔

 جہاں تک بیوہ کا مرد کے قریب بیٹھنے کا معاملہ ہے تو یقینا یہ قابل اعتراض ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ وہ خاتون اگر اپنے شوہر کو نہیں کہہ سکتی تو کسی دوسرے شخص کے ذریعہ اس بات پر مرد اور بیوہ کو تنبیہ کی جا سکتی ہے اور ظاہر سی بات ہے جب ایک مدت سے ایک عورت کا کسی کے گھر انا جانا ہو تو بہت سے لوگوں کو اس بارے میں خبربھی  ہوگی اور کسی کو نہ بھی خبر ہو تو کسی مناسب آدمی کو بتا کر نصیحت کروائی جا سکتی ہے اس طرح کہ بیوی پر شک نہ ہو۔اور بیوی بھی حکمت سے اصلاح کرنا چاہے تو پہلے بھی کر سکتی تھی اور آج بھی کر سکتی ہے مثلا گھر میں کسی اچھے عالم دین کا بیان لگائے جس میں ایسی بات کا ذکر ہو یا خود سے ہی کسی کتاب سے بلند آواز میں ایسی باتیں پڑھ کر شوہر کو سنائے یا جب شوہر اچھے مزاج میں ہو تو اس وقت دینی مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے اس مسئلے کو بھی درمیان میں بطور بات چیت لے آئے تاکہ شوہر کے دل میں احساس پیدا ہو۔

بہر حال! عورت حکمت و بصیرت  کے ساتھ حق بات بتانے کی کوشش کرے ۔

سوال: کیا سجود میں کئی  دعاؤں کو جمع کیا جا سکتا ہے؟

جواب : جی، ہاں سجود میں سجدے کی مختلف دعاؤں کو جمع کرسکتے ہیں بلکہ سجدہ میں مزید مسنون دعائیں بھی کرسکتے ہیں ،اس بارے میں حدیث دیکھیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ(صحيح مسلم:482)

ترجمہ: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔

اس وجہ سے سجدہ میں بکثرت دعائیں پڑھنی چاہئے اور کوئی سجدہ میں سجدہ سے متعلق صرف ایک دعا کرلے تو بھی کافی ہے اور اس سے زیادہ پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور سجدہ کی دعا کے بعد مزید مسنون دعائیں کرے توبھی کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال :میری بیٹی یو ایس اے میں رہتی ہے اور پہلی دفعہ حاملہ ہے۔ وہ میرے یہاں نہیں آسکتی ہے جس کی وجہ سے مجھے ڈیلیوری کے وقت اس کے پاس جانا پڑے گا۔میرے شوہر کو اس وقت چھٹی نہیں مل رہی ہے ، کیا اس حال میں اکیلے سفر کر سکتی ہوں۔ڈاکٹر ذاکر نائک نے فتوی دیا تھا کہ یہاں سے ڈراپ کرنے والا محرم ہو اور وہاں پک کرنے والا بھی اگر محرم ہو یعنی دامادوغیرہ تو ہم سفر کر سکتے ہیں کیا یہ درست ہے؟

جواب: اللہ تعالی آپ کی بیٹی کی حفاظت فرمائے اور خیر و خوبی کے ساتھ وضع حمل ہو جائے، اللہ تعالی زچہ اور بچہ دونوں کو صحیح سلامت رکھے۔آمین

 اگرآپ کی  بیٹی حمل سے ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ آپ اس  کے پاس جائیں جبکہ  اس کے پاس اس کا شوہر موجود ہے اور  یو ایس  اے دنیا کا  ترقی یافتہ ملک ہےجہاں ایک سے ایک سہولیات میسر ہیں ، اس وجہ سےوضع حمل کے وقت آپ کا اس کے پاس ہونا کوئی ضروری نہیں ہے  تاہم محرم کے ساتھ بیٹی کے پاس جانا چاہیں تو اس میں حرج نہیں ہے۔

اصل مسئلہ یہاں ہے کہ  اگر شوہر کو چھٹی نہیں مل رہی ہےیا سفر کے لئے آپ کے ساتھ کوئی محرم نہ ہوتو ایسی صورت میں سفر کرنا جائز نہیں ہے بطور خاص اس وقت جب آپ کا جانا بھی اتنا ضروری نہ ہواور دیکھ ریکھ کرنے والا بھی ہو اور ہرقسم کی سہولتیں بھی میسرہوں بلکہ وضع حمل جیسی صورت میں کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہتی ، ہاسپیٹل کےسارے کام نرس انجام دیتی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر ذاکر نائک کا فتوی ہے تو بعض علماء اس سلسلے میں اس طرح کا فتوی دیتے ہیں اس لئے  انہوں نے ایسا کہا ہے لیکن یہ فتوی صحیح نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت سفر میں یعنی چلنے کے وقت عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے، صرف ایرپورٹ چھوڑنے اور ایرپورٹ سے ریسیو کرنے کے لئے  ہی ضروری نہیں بلکہ حالت سفر میں ساتھ ساتھ محرم کا چلنا ضروری ہےاس لئے  ڈاکٹر ذاکر نائک یا اس طرح سے جو بھی علماء یہ فتوی دیتے ہیں ان کا  فتوی قرآن و حدیث کی روشنی میں درست نہیں ہے۔

سوال : کسی بچے نے سوال کیا ہے کہ اس کا دوست باہر ی ملک گیا ہے، ابھی ا پنے سبجیکٹ کے حساب سےجاب  نہیں شروع ہوئی ہے اس لئے بروقت   ڈیلیوری بوائے کاکام کر رہا ہے جس میں کبھی اس کو کوئی حرام چیز بھی ڈلیور کرنی پڑ جاتی ہے جو  مسلمان کے لئے حرام ہےمثلا شراب یا  پوک  یاحرام پزاوغیرہ  تو کیا یہ اس کے لئے  غلط کام ہے جبکہ  وہ تو ایک شاپ پہ کام کر رہا ہے اور  شاپ والا اس کو جو کہے گا وہ کر نا پڑے  گا ؟

جواب:کسی مسلمان لڑکا کے لئے ایسی جگہ ڈیلیوری بوائے کے طور پر کام کرنا جائز نہیں ہے جہاں اسے شراب ، خنزیر،حرام پزا  اور حرام ماکولات ومشروبات وغیرہ ڈیلیور کرنا پڑے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں گناہ کے کاموں پر تعاون سے منع کیا ہے ، اللہ کا فرمان ہے:

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(المائدہ:2)

ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو، تقوی الہی اپناؤ؛ یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔

لہذا اس لڑکے کو چاہئے کہ ایسی جگہ کام کرے جہاں اسے حرام چیزوں پر تعاون نہ کرناپڑے اورکسی جگہ کچھ مشکوک مسئلہ نظر آئے تو وہاں دوکاندار سے معاہدہ کرلے کہ میرے کام کی نوعیت اسلام کے کنڈیشن  کے حساب سے رہے گی  اور اس کنڈیش کے مطابق کام کرے ۔

سوال:(لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ الحليمُ الكريمُ سبحانَ اللَّهِ ربِّ العرشِ العظيمِ الحمدُ للَّهِ ربِّ العالمينَ. اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ موجِباتِ رحمتِكَ ، وعزائمَ مغفرتِكَ والغَنيمةَ من كلِّ برٍّ والسَّلامةَ من كلِّ إثمٍ أسألُكَ ألَّا تدَعَ لي ذنبًا إلَّا غفرتَهُ ، ولا همًّا إلَّا فرَّجتَهُ ولا حاجةً هيَ لَكَ رضًا إلَّا قضيتَها لي)

کیا یہ دعا حدیث سے ثابت ہے اور اگر کسی کو کچھ حاجت درپیش ہو تو وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ کی حمد بیان کرے، درود پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھنے کے بعد کوئی دعا کرے تو کیا قبول ہوگی اور کیا یہ طریقہ صحیح حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: آپ نے جس دعا کے بارے میں سوال کیا ہے اور حاجت پوری کرنے سے متعلق جو طریقہ بیان کیا ہے وہ ضعیف حدیث میں مذکور ہے ۔ ترمذی(479) اور ابن ماجہ(1384) میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ:جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين» ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترمذی ، ضعیف ابن ماجہ، ضعیف الترغیب، ضعیف الجامع، اورهداية الرواة وغیرہ میں ضعیف کہا ہےجیسے دیکھیں:ضعيف ابن ماجه:260۔

لہذا حاجت پوری کرنے کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اور یہ بھی جان لیں کہ صلاۃ الحاجہ نام کی کوئی خاص  نمازنہیں ہے تاہم دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے ضرورت طلب کرنے میں حرج نہیں ہے ، یہ ایک عام نماز ہے لہذا کسی مخصوص طرز پر ضرورت کی نماز نہ پڑھیں۔

سوال: حادثات سے بچنے کا وظیفہ ۔حضرت طلق فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کیا کہ آپ کا مکان جل گیا ۔ فرمایا نہیں جلا، پھر دوسرے شخص نے آکر یہی اطلاع دی تو فرمایا: نہیں جلا، پھر تیسرے شخص نے آکر یہی خبر دی ، آپ نے فرمایا نہیں جلا، پھر ایک اور شخص نے آکر کہا کہ اے ابوالدرداء آگ کے شرارے بہت بلند ہوئے مگر جب آپ کے مکان تک آگ پہنچی تو بجھ گئی ۔ فرمایا ، مجھے معلوم تھا کہ اللہ تعالی ایسا نہیں کرے گا (کہ میرا مکان جل جائے) کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات پڑھ لے شام تک اس کو کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی ۔ ( میں نے صبح وہ کلمات پڑھے تھے اس لئے مجھے یقین تھا کہ میرا مکان نہیں جل سکتا ) وہ کلمات یہ ہیں :((اللھم انت ربی لاالہ الا انت علیک توکلت وانت رب العرش الکریم ماشاء اللہ کان ومالم یشا لم یکن ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم اعلم ان اللہ علی کل شیئ قدیر وان اللہ قد احاط بکل شیئ علما اللھم انی اعوذبک من شر نفسی ومن شر کل دابۃ انت آخذ بناصیتھا ان ربی علی صراط مستقیم))۔

کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب: یہ حدیث ثابت نہیں ہے، ابن الجوزی نے اس حدیث کی تحقیق میں بتایا ہے"لایثبت" یعنی یہ ثابت نہیں ہے ۔( العلل المتناهية:2/836) اور شیخ البانی نے بھی اسے بہت ضعیف کہا ہے۔( السلسلة الضعيفة:6420)

سوال: بچے کا نام ملک براق رکھنا کیسا ہے؟

جواب: براق کو متعدد طرح پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے مختلف معنی ہوسکتے ہیں لیکن جو مشہور لفظ ہے وہ نبی ﷺ کی  سواری کے طور پر ہے جسے آپ نے معراج کی رات استعمال کیا تھا۔ نام رکھنے کے حساب سے یہ مناسب لفظ نہیں ہے ، آپ یہ نام نہیں رکھیں، ملک کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملاکر نام رکھیں ۔

سوال:سری نماز کو سرا اور جہری نماز کو جہرا پڑھنا مسنون ہےیا واجب ہے ، اور اگر کسی خاتون نے مسلسل جہری نمازوں کو سرا پڑھا ہو تو وہ اب کیا کرے نیز ایک عورت جہری نماز میں قرات کتنی بلند آواز سے کرے گی ، کیا اس کے اپنے کان تک آواز پہنچنا کافی ہے؟

جواب: سری نماز کو سرا اور جہری نماز کو جہرا پڑھنا مردو عورت دونوں کے حق میں مسنون ہے اور ہمیں نماز کی تمام کیفیات کو اسی طرح ادا کرنا ہے جیسے نبی ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے، اس میں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ کون واجب ہے اور کون سنت ہے بلکہ نماز کو اس کے ارکان وواجبات اور سنن کے ساتھ ادا کرنا ہے کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:صَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008، 7246، 631) یعنی تم نماز ویسے ہی پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

اگر کسی خاتون نے مسلسل تمام نمازوں کو سرا پڑھا ہے تو اس نے نماز میں سنت کو ترک کیا ہے تاہم ان کی ساری نمازیں اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اور پہلے اس سے جو غلطی کی اس کا مسئلہ نہیں ہے، اب اسے چاہئے کہ سری اور جہری کا فرق کرکے نماز ادا کیا کرے ۔ اور جب عورت ایسی جگہ نماز ادا کرے جہاں غیرمحرم ہو تو وہ جہری نماز کو سرا پڑھ سکتی ہے کیونکہ اس وقت اس کے لئے مجبوری ہے اور جب وہاں کوئی غیرمحرم نہ ہو تو جہری نماز کو جہرا پڑھے اور قرات کی آواز اتنی کافی ہے کہ اسے سنائی دے یعنی قرات میں آواز ہو ، فقط اپنے دل میں نہ پڑھے ۔

سوال: کیا یہ پتہ کروایا جاسکتا ہے کہ کسی پر یا گھر والوں میں سے کسی فرد پر جادو ہوا ہے اور اس کو کنفرم کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ اگر ہے تو ایسے عالم و قاری کی طرف ہماری رہنمائی کر دیں۔ میرے والد جو صحیح العقیدہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ کسی شخص کے سامنے سورت الفلق اور سورت الناس پڑھنے سے اگر اس پر کوئی ردعمل نہیں ہوتا تو جادو نہیں ہے، مزیدکہتے ہیں کہ یہی دوسورتیں جادو کا علاج ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، کیا ان کی بات درست ہے اور میرا کہنا ہے کہ نبی ﷺ کے لئے کنگھی سے بال کی گرہ بھی کھولی گئی تو کیا ہمیں بھی سورتوں کے پڑھنے علاوہ کچھ کرنا پڑے گا؟

جواب: کسی کے اوپر یا اس کے گھر والوں میں سے کسی پر جادو ہوا ہے یا نہیں ہوا اس کو چیک کروانا حماقت اور بے وقوفی ہے اور لوگوں میں اس قسم کا خیال سماج میں موجود عیار و مکار عاملوں کی وجہ سے پایا جاتا ہے ۔ اسلام میں کنفرم کرنے کا ایسا کوئی تھرمامیٹر نہیں ہے اور ایسی کوئی پڑھائی نہیں ہے جسے پڑھ کر مخصوص طرز کا عامل پیدا ہو اور وہ میٹرلگاکر ہر ایک کو چیک کردے کہ کس پر جادو ہوا ہے اور کس پر جادو نہیں ہوااور جو لوگ اس قسم کی حرکات کررہے ہیں وہ لوگوں سے مال کمانے کے لئے کررہے ہیں ۔ لہذا آپ اپنے دماغ سے اس قسم کا فضول و بے ہودہ خیال نکال دیں ۔ جب آپ کو کوئی بیماری لاحق ہو تو اس بیماری سے متعلق طبیب سے علاج کرائیں کیونکہ اللہ تعالی نے جو بھی بیماری نازل فرمائی ہے اس کا علاج بھی نازل کیا ہے۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما أنْزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنْزَلَ له شِفاءً(صحيح البخاري:5678)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔

اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِكُلِّ داءٍ دَواءٌ، فإذا أُصِيبَ دَواءُ الدَّاءِ بَرَأَ بإذْنِ اللهِ عزَّ وجلَّ.(صحيح مسلم:2204)

ترجمہ:ہر بیماری کی دوا ہے، جب کوئی دوا بیماری پر ٹھیک بٹھا دی جاتی ہے تو مریض اللہ تعالیٰ کےحکم سے تندرست ہوجاتاہے۔

نیز اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ دیہاتیوں نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ کیا ہم دوا کرسکتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

تداوَوا فإنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ لم يَضَع داءً إلَّا وضعَ لَهُ دواءً، غيرَ داءٍ واحدٍ الهرمُ(صحيح أبي داود:3855)

ترجمہ: دوا کرو اس لیے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی ہے جس کی دوا نہ پیدا کی ہو، سوائے ایک بیماری کے اور وہ بڑھاپا ہے۔

سمجھ کے لئے مذکورہ بالا احادیث کافی ہیں بلکہ آخری حدیث پر زیادہ غور وفکر کریں کہ اس میں سائل نے کیا سوال کیا ہے اور نبی ﷺ نے کیا جواب دیا ہے؟

کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی ایسا آدمی جو بیمار نہ ہواور اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ ہو وہ ڈاکٹر کے پاس جاکر کہے کہ مجھے چیک کردو، میرے میں کیا بیماری ہے۔ نہیں، بلکہ کسی کو کوئی مرض لاحق ہوتا ہے تبھی اس کا علاج کرانے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، ٹھیک یہی معاملہ سحر کا ہے کہ جب سحر کے اثرات نظر آئیں تو آپ شرعی طور پر دم کرائیں اور کسی پیشہ ور عامل کے پاس نہ جائیں کیونکہ اس کام کے لئے جو لوگ خود کو ماہر کہتے ہیں وہ جھوٹے ہیں ۔ اسلام میں اس کی کوئی مخصوص پڑھائی نہیں ہے اور مدارس میں اس کی کوئی مخصوص ڈگری نہیں دی جاتی ہے۔

آپ کے والد کی باتیں بھی غلط ہیں اور آپ کی سوچ بھی غلط ہے۔ آپ کو آنکھ سے دکھے کسی پر سحر ہے تو اس پر رقیہ شرعیہ کریں ، پورا قرآن شفا ہے ، قرآن میں سے کہیں سے پڑھ کر دم کرسکتے ہیں اور ایک سورت یا دو سورت حتی کہ ایک آیت جیسے آیۃ الکرسی بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا سحر دو سورتوں سے ٹھیک کیا گیا ، آپ وہ دو سورتیں بھی پڑھ سکتے ہیں اور آپ ﷺ تین سورتوں (سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) کے ذریعہ بیماری میں دم کیا کرتے تھے ان سورتوں کو پڑھ کر دم کرسکتے ہیں۔ بہرکیف! جیسے بیماری میں قرآن اور مسنون اذکار پڑھ کر دم سکتے ہیں ، وہی شرعی دم جادو کا بھی علاج ہے اور کوئی دوسرا علاج نہیں ہے۔ جہاں تک نبی کے بالوں کی گرہ کھولنے والا معاملہ ہے وہ اللہ کی طرف سے جبریل علیہ السلام نے انجام دیا تھا ، یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ رقیہ شرعیہ پہ تفصیل سے میں نے بیان دیا ہے اورعاملوں کے غلط طور طریقوں پہ بھی تنبیہ کی ہے اس لئے میرےیوٹیوب چینل پہ وہ بیان سنیں۔آسانی سے وہ بیان تلاش کرنے کے لئے میرے چینل کی پلے لسٹ میں رقیہ شرعیہ والی لسٹ دیکھیں۔

سوال: بالوں میں وگ لگانا تو ناجائز ہے لیکن بالوں میں جو پیوند کاری کرتے ہے اور نیا بال لگاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: بالوں کے معاملہ میں اصل حکم یہی ہے کہ بالوں میں بال جوڑنا یعنی مصنوعی بال لگانا یا وگ لگانا جائز نہیں ہے لیکن اگر کسی کے بال جھڑ گئے ہوں تو بقدر ضرورت یعنی عیب دور کرنے کی حد تک وہ وگ بھی  لگاسکتا ہے یا بالوں میں پیوندکاری بھی کرسکتا ہے، اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ فیشن یا شوقیہ نہیں ہے بلکہ بطور علاج ہے۔ ہاں اگر کوئی شوقیہ طور پر وگ پہنے یا بال جوڑے تو جائز نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔