Friday, January 26, 2024

بغیر اعتدال و سکون کے نماز نہیں ہوتی

 
بغیر اعتدال و سکون کے نماز نہیں ہوتی

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ- سعودی عرب

نماز اللہ رب العالمین کی بندگی ہے اس کو نہایت اطمینان و سکون ، اعتدال وسنجیدگی اور خشوع وخضوع کے ساتھ انجام دینا ہے مگر ہماری نمازیں اعتدال وسکون سے خالی ہوتی ہیں جو اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہیں۔ چاہے آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہے، ایسی نماز، نماز ہی شمار نہیں کی جاتی اس لئے ہمیں نماز کی تمام ہیئتوں میں اعتدال کے ساتھ نماز پڑھنا چاہئے تاکہ ہماری نماز ، نماز شمار ہو اوراللہ کے یہاں مقبول ہو۔
نماز میں اعتدال سے کیا مراد ہے: پوری نماز کو اطمینان وسکون سے اداکرناحتی کہ قرات واذکار وغیرہ بھی بغیر جلدبازی کے نہایت آرام سے پڑھنا اور بطور خاص نماز کے ارکان کی ادائیگی میں ٹھہراؤہو مثلا قیام اطمیان سے ہو، رکوع اطمینان سے ہو، رکوع سے اس طرح اٹھنا اور اٹھ کر کھڑا ہونا کہ جسم اپنی اصلی ہیئت پر آجائے، سجدہ اطمیان سے کرنا،سجدہ سے اطمینان سے اٹھنا پھر اٹھ کراس طرح بیٹھ جانا کہ جسم کے سارے اعضاء اپنی جگہ آجائیں ، اس طرح پوری نماز اطمیان وسکون سے پڑھی جائے اسی کانام اعتدال وسکون ہے ۔
بہت ساری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم خشوع وخضوع اور اعتدال وسکون سے نماز ادا کریں چنانچہ اس سلسلے میں چند احادیث پیش کرتے ہیں ۔
(1)اس بابت پہلی حدیث ، حدیث جبریل دیکھیں جس میں نبی ﷺ احسان کی تعریف کرتے ارشاد فرماتے ہیں :
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ(بخاري:50)
ترجمہ: تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو سمجھوکہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کی بندگی میں محو ہوکر اس قدر لذت وچاشنی سے نماز ادا کریں گویا ہم اپنے رب کو دیکھ رہےہیں اور یہ کیفیت بغیر اطمینان وسکون کے ممکن نہیں ہے۔
(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمیں) نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرا اور فرمایا:
يا فُلَانُ، ألَا تُحْسِنُ صَلَاتَكَ؟ ألَا يَنْظُرُ المُصَلِّي إذَا صَلَّى كيفَ يُصَلِّي؟ فإنَّما يُصَلِّي لِنَفْسِهِ(صحیح مسلم:423)
ترجمہ:اے فلاں! تم اپنی نماز اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے؟ کیا نمازی نماز پڑھتے وقت یہ نہیں دیکھتا (غور کرتا) کہ وہ نماز کیسے پڑھتا ہے؟ وہ اپنے ہی لیے نماز پڑھتا ہے (کسی دوسرے کےلیے نہیں)۔
نبی ﷺ نے اپنے پیچھے جلد بازی سے نماز پڑھنے والےکو جلدبازی سے منع کیا اور اچھی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا کیونکہ بندگی اللہ کے لئے انجام دی جاتی ہےجبکہ بندگی کا فائدہ خودبندگی کرنے والے کو نصیب ہوتاہے۔
(3)عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ رَسولَ اللَّهِ نَهَى عن ثَلاثٍ : عن نَقرةِ الغُرابِ ، وافتراشِ السَّبُعِ ، وأن يوطِّنَ الرَّجلُ المقامَ للصَّلاةِ كما يوطِّنُ البعيرُ(صحيح النسائي:1111)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع کیا ہے: ایک کوے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسری درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے، اور تیسری یہ کہ آدمی نماز کے لیے ایک جگہ خاص کر لے جیسے اونٹ اپنے بیٹھنے کی جگہ کو خاص کر لیتا ہے۔
اس حدیث میں نبی ﷺ نےنماز کے تین اعمال کو تین قسم کے جانوروں کی مشابہت سے منع فرمایاہے، کوے کی طرح ٹھونگ مارکرجلدی جلدی نماز پڑھنے سے، درندے(کتے) کی طرح سجدہ میں بازو زمین پر بچھانے سے اور اونٹ کی طرح نماز کے لئے ایک جگہ کو مخصوص کرنےسے منع فرمایا ہے۔ یہاں محل استشہاد "نقرالغراب" ہےجس سے مراد جلدبازی والی بغیر اطمینان کے کامل طور پر ادا نہ کی جانے والی نماز ہےیعنی کوے کی چونچ مارنے کی طرح کوئی رکوع وسجدہ میں جلدی جلدی ٹھونگ مارکر نماز نہ پڑھے۔
(4) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا سَمِعْتُمُ الإقَامَةَ، فَامْشُوا إلى الصَّلَاةِ وعلَيْكُم بالسَّكِينَةِ والوَقَارِ، ولَا تُسْرِعُوا، فَما أدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وما فَاتَكُمْ فأتِمُّوا(صحيح البخاري:636)
ترجمہ:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہرحال) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
اس حدیث میں باضابطہ ابتدائے صلاۃ سے سکون وقار کو قائم رکھنے کے لئے کہا گیا ہے حتی کہ اگر کوئی اقامت کی آواز سن لے تب بھی دوڑ کرمسجد نہ آئے کہ کہیں اس کی رکعت فوت نہ ہوجائے ۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ جب ہم نماز کے لئے دوڑ کر نہیں آسکتے ہیں تو نماز پڑھتے ہوئے کیسے جلدبازی کرسکتے ہیں ؟
ان چند اچادیث سے ہم نے معلوم کرلیا ہے کہ نمازمیں جلد بازی ممنوع ہے اور اسے سکون سے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اب اس جگہ ایک بہت ہی اہم حدیث جو ہرمسلمان کو یاد رکھنا چاہیے اور اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ نماز پڑھنا چاہئے ۔
اعتدال ارکان سے متعلق سب سے اہم حدیث، حدیث مسی الصلاۃ :
ایک بہت اہم حدیث جو مسی الصلاۃ(جو ٹھیک سے نماز نہیں ادا کرتا) کے نام سے مشہورہے ، آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أنَّ رَجُلًا دَخَلَ المَسْجِدَ فَصَلَّى، ورَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في نَاحِيَةِ المَسْجِدِ، فَجَاءَ فَسَلَّمَ عليه، فَقَالَ له: ارْجِعْ فَصَلِّ فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَالَ: وعَلَيْكَ، ارْجِعْ فَصَلِّ فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ في الثَّالِثَةِ: فأعْلِمْنِي، قَالَ: إذَا قُمْتَ إلى الصَّلَاةِ، فأسْبِغِ الوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ، فَكَبِّرْ واقْرَأْ بما تَيَسَّرَ معكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَسْتَوِيَ وتَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ افْعَلْ ذلكَ في صَلَاتِكَ كُلِّهَا(صحیح البخاری:6667)
ترجمہ:ایک صحابی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کنارے تشریف رکھتے تھے۔ پھر وہ صحابی آئے اور سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور پھر نماز پڑھ کر آئے اور سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی ان سے یہی فرمایا کہ واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ میں وہ صحابی بولے کہ پھر مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کر لیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جو کچھ قرآن مجید میں تمہیں یاد ہے اور تم آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اسے پڑھا کرو، پھر رکوع کرو اور سکون کے ساتھ رکوع کر چکو تو اپنا سر اٹھاؤ اور جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو سجدہ کرو، جب سجدے کی حالت میں اچھی طرح ہو جاؤ تو سجدہ سے سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ سیدھے ہو جاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو اور جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، یہ عمل تم اپنی پوری نماز میں کرو۔
ایک مسلمان کس طرح اعتدال وسکون سے نماز ادا کرے اس بارے میں یہ حدیث بہت ہی زیادہ اہم ہے بلکہ علماء نے یہ کہا ہے کہ نماز کے ارکان وواجبات کے سلسلے میں یہ حدیث اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور جو کچھ بھی اس حدیث میں بیان ہوا ہے وہ سارے کے سارے نماز کے واجبات میں سے ہیں یعنی ان کا ادا کرنا ضروری ہے ۔جو اس کیفیت میں نماز نہ ادا کرے اس کی نماز ، نماز ہی شمار نہیں کی جاتی ہے ، رد کردی جاتی ہے اور اس کے چہرے پر مار دی جاتی ہے چاہے انسان چالیس سال تک یا ساٹھ سال تک اللہ کی بندگی کرتا رہے ۔اس بارے میں صراحتا بھی مذکورہے کہ واقعی ایسے بندے کی چالیس یا ساٹھ سالہ عبادت ، عبادت نہیں ہے ۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:
إن الرجل ليصلي ستين سنة وما تقبل له صلاة ولعله يتم الركوع ولا يتم السجود ويتم السجود ولا يتم الركوع(سلسلہ صحیحہ:2535)
ترجمہ: ایک آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے اوراس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رکوع صحیح سے کرتا ہے تو سجدہ ٹھیک سے نہیں کرتا اور سجدہ ٹھیک سے کرتا ہے تو رکوع ٹھیک سے نہیں کرتا۔
اللہ اکبر، ساٹھ سال کی نماز نماز نہیں ہے اگر نماز میں جلدی جلدی رکوع اور جلدی جلدی سجدہ کیا جائے تو ۔ اس طرح کی ایک اور حدیث ملتی ہے جس میں چالیس سال کا تذکرہ ہے ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّهُ رأى رجلاً يصلِّي فطفَّفَ ، فقالَ لَهُ حذيفةُ : منذُ كم تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ؟ قالَ : منذُ أربعينَ عامًا ، قالَ : ما صلَّيتَ منذُ أربعينَ سنةً ، ولو متَّ وأنتَ تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ لمتَّ على غيرِ فطرةِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ثمَّ قالَ : إنَّ الرَّجلَ ليخففُّ ، ويتمُّ ويحسن(صحيح النسائي:1311)
ترجمہ:انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اچھی طرح نہیں پڑھ رہا ہے، اس میں وہ کمی کر رہا ہے، تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: اس طرح سے نماز تم کب سے پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: چالیس سال سے، تو انہوں نے کہا: تم نے چالیس سال سے کامل نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جاتے تو تمہارا خاتمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کے علاوہ پر ہوتا، پھر انہوں نے کہا: آدمی ہلکی نماز پڑھے لیکن پوری اور اچھی پڑھے۔
اس حدیث کی اصل صحیح بخاری میں بھی موجود ہے جہاں اس بات کی صراحت ہے کہ نمازی کس چیز میں کمی کررہا تھا چنانچہ ابووائل شقیق بن سلمہ سے روایت ہے:
رَأَى رَجُلًا لا يُتِمُّ رُكُوعَهُ ولَا سُجُودَهُ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قالَ له حُذَيْفَةُ: ما صَلَّيْتَ؟ قالَ: وأَحْسِبُهُ قالَ: لو مُتَّ مُتَّ علَى غيرِ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ(صحيح البخاري:389)
ترجمہ: (حذیفہ) نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے اپنی نماز پوری کر لی تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل راوی نے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تو ایسی ہی نماز پر مر جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں مرتا۔
نماز کے ارکان اور ان کا حکم:
اہل علم نے نماز کے چودہ ارکان بیان کئے ہیں ، تین قیام سے متعلق ہیں، تین رکوع سے متعلق ہیں ، تین سجدے سے متعلق ہیں ، تین آخری تشہد سے متعلق ہیں اور دو پوری نماز سے متعلق ہیں ۔
(1)قیام کے ارکان : قدرت ہونے پر کھڑے ہوکرنماز پڑھنا، نماز میں داخل ہوتے وقت تکبیرتحریمہ کہنا، اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔
(2)رکوع کے ارکان:رکوع کرنا، رکوع سے اٹھنا، اور اٹھ کر پوری طرح سیدھا کھڑا ہونا۔
(3)سجدے کے ارکان: سجدہ کرنا، سجدے سے اٹھنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔
(4) آخری تشہد کے ارکان:آخری تشہد کے لئے بیٹھنا، آخری تشہدپڑھنا، اور دونوں طرف سلام پھیرنا۔
(5) پورے ارکان کو ترتیب سے ادا کرنا اور پوری نماز میں اعتدال وسکون قائم رکھنا یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کے ساتھ ادا کرنا۔
نماز کے ارکان کی ادائیگی میں یہ بات یاد ہے کہ ان چودہ ارکان میں سے کوئی بھی رکن نماز میں چھوٹ جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی ہے اور اس مضمون میں چودہ ارکان میں سے ایک رکن اعتدال وسکون سے متعلق جانکاری حاصل کررہے ہیں جس کا تعلق پوری نماز کی ادائیگی سے ہے ۔
نماز کے ارکان کی ادائیگی میں سب سے اہم غلطی :
ویسے تو لوگ ارکان کی ادائیگی میں بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ، کتنے سارے لوگوں کو بطور خاص مقتدی کو یہ معلوم نہیں کہ نمازمیں داخل ہوتے وقت تکبیر تحریمہ بھی کہی جاتی ہے اور ترک فاتحہ تو حنفی عوام کے یہاں عام بات ہے ۔ ان  سب کے علاوہ جن ارکان کو رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا اور ان کی ادائیگی  پہ بیحد اہتمام کا حکم دیاوہ ارکان رکوع و سجود سے متعلق ہیں ۔ اوپر آپ نے ساٹھ سال اور چالیس سال والی احادیث ملاحظہ فرمائی ہے ، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹھیک سے رکوع اوراطمینان سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے نماز ، نماز ہی نہیں ہوتی چاہے ایک مدت تک آدمی نماز پڑھتا رہے اس لئے نماز کے دیگر ارکان کے ساتھ خصوصی طور پر رکوع وسجودکے جملہ ارکان  میں ہمیں اعتدال وسکون برتنے کی اشد ضرورت ہے اور اوپر ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ رکوع میں تین ارکان ہیں اور سجدہ میں بھی تین ارکان ہیں۔
رکوع وسجود میں اعتدال سے متعلق ارشادات نبوی:
اب آپ کے سامنے نبی ﷺ کے وہ ارشادات وفرمودات بیان کرتے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ رکوع وسجود میں اعتدال کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔
(1) ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تُجزئُ صلاةُ الرَّجلِ حتَّى يُقيمَ ظهرَهُ في الرُّكوعِ والسُّجودِ(صحيح أبي داود:855)
ترجمہ:آدمی کی نماز درست نہیں، جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کر لے۔
(2)ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أسوأُ الناسِ سَرِقَةً ، الذي يسرقُ صلاتَه . قال : وكيف يسرقُ صلاتَه ؟ قال : لا يُتِمُّ ركوعَها ولا سجودَها(صحيح الترغيب:533)
ترجمہ:سب سے بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے ، پوچھا گیا کہ کیسے نمازی میں چوری کرتا ہے تو آپ نے جواب کہ وہ نہ اپنے رکوع کو مکمل طور پر ادا کرتا ہے اور نہ ہی سجدے کو ٹھیک ڈھنگ سے ادا کرتا ہے۔
(3)سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينظرُ اللهُ عزَّ و جلَّ إلى صَلاةِ عبدٍ لا يُقِيمُ فيها صُلْبَهُ بين رُكُوعِها وسُجُودِها(السلسلة الصحيحة:2536)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ اس بندے کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا، جس میں وہ رکوع و سجود کے دوران کمر سیدھی نہیں کرتا۔
(4)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَقِيمُوا الرُّكُوعَ والسُّجُودَ فَوَاللَّهِ إنِّي لَأَرَاكُمْ مِن بَعْدِي - ورُبَّما قالَ: مِن بَعْدِ ظَهْرِي - إذَا رَكَعْتُمْ وسَجَدْتُمْ(صحيح البخاري:742)
ترجمہ:رکوع اور سجود پوری طرح کیا کرو۔ اللہ کی قسم! میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں یا اس طرح کہا کہ پیٹھ پیچھے سے جب تم رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو (تو میں تمہیں دیکھتا ہوں)۔
(5)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَما يَخْشَى أحَدُكُمْ -أوْ: لا يَخْشَى أحَدُكُمْ- إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإمَامِ، أنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ؟! أوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ(صحيح البخاري:691)
ترجمہ:کیا تم میں وہ شخص جو (رکوع یا سجدہ میں) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
مذکورہ بالا احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اکثر لوگ اپنی نمازیں ضائع کرتے ہیں کیونکہ ہماری نماز کے رکوع وسجود میں اعتدال مفقود ہوتا ہے ، ہم نماز تو پڑھتے ہیں مگر تعدیل ارکان کی رعایت کرتے ہوئے نہیں بلکہ جلدی جلدی پڑھتے ہیں جبکہ ہمیں ان احادیث سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی نمازوں کی اصلاح کرنا چاہئے اور پورے اعتدال کے ساتھ نماز اد ا کرنا چاہئے، آپ نے یہ بھی پڑھا اگر کوئی جلدی بازی کرتے ہوئے امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اٹھالے تو خدشہ ہے کہ کہیں اللہ اس کو گدھے کی شکل والا نہ بنادے ۔ العیاذباللہ
نماز اللہ کی بندگی ہے اور اس بندگی کو محمد ﷺ کے طریقہ کے مطابق انجام دیں گے جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (بخاری:6008)
اب ہم رسول اللہ ﷺ کی ذاتی نماز کی کیفیت معلوم کرتے ہیں کہ آپ اپنی نمازوں میں کیسے اعتدال وسکون قائم رکھتے تھے ۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں:
كانَ رُكُوعُ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وسُجُودُهُ وبيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وإذا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ما خَلا القِيامَ والقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّواءِ(صحيح البخاري:792)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے۔
اس حدیث میں نبی ﷺ کی نماز کا اعتدال بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے رکوع، آپ کے سجود،دوسجدوں کے درمیان کا وقفہ اوررکوع سے سر اٹھانا ان سب کا زمانی وقفہ تقریبا برابر ہوتا تھا سوائے قیام وتشہد کے کیونکہ یہ دونوں طویل ہوتے تھے(قیام قرات کے سبب طویل ہوتا اور تشہد دعا کے سبب)۔
جب نماز کے ارکان میں رکوع و سجود کی حسن ادائیگی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی طرف تاکید کے ساتھ دھیان دینے کی ضرورت ہے تو ہم آپ کو وضاحت کے ساتھ رکوع اور سجدہ کا طریقہ اور ان میں اعتدال کی صورت بھی بتادیتے ہیں ۔
رکوع اور سجود کا طریقہ اوران میں اعتدال :
تکبیر کہہ کردونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوئے رکوع میں جائیں اور جب آپ رکوع کریں تودونوں ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ گھٹنوں کو پکڑیں ، نظر سجدہ کی جگہ ہو اور رکوع میں سر اور پیٹھ دونوں کو برابر ایک مستوی میں رکھیں اور ایک سے زائدبار رکوع کی تسبیح پڑھیں تاکہ رکوع میں ٹھہراؤ ہو۔ رکوع سے جب سر اٹھائیں تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابراٹھائیں پھرانہیں نیچے چھوڑ دیں اوراطمینان سے کھڑے ہوجائیں اس طرح کہ جسم کا ہر عضو اپنے مقام پر ٹھہرجائے،اس کو قومہ کہتے ہیں اور عموما لوگ نماز میں قومہ ترک کردیتے ہیں خصوصا احناف کے یہاں ۔ اور پھرسکون سے قومہ کی دعا پڑھیں ۔ پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں جائیں ، سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھیں پھر گھٹنہ رکھیں ، سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھ مع ناک وجبیں زمین پر ہو اور بازو،زمین سے الگ، پیٹ ، ران سے الگ اور ران ، پنڈلی سے الگ ہواور سجدے میں ایک سے زائد بار تسبیح پڑھیں ۔ پھر اطمینان سے سجدہ کرنے کے بعد آرام سے سجدہ سے اٹھیں اور سکون سے بیٹھیں یہاں تک کہ جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر ٹھہرجائے ، اس میں اطمینان سے دونوں سجدہ کے درمیان کی دعا پڑھیں ، نماز کا یہ بھی ایک مقام ایسا ہے جسے نمازی عام طور پر ترک کردیتا ہے اور ایک سجدہ کرکے صحیح سے بیٹھنا بھی نہیں کہ دوسرے سجدہ میں چلا جاتا ہے ۔ جب سکون سے دونوں سجدہ کے درمیان والی دعا پڑھ لیں تو پھر اسی طرح دوسرا سجدہ کریں جیسے پہلے کیا تھا اور اسی طرح نماز کی تمام رکعات میں رکوع وسجدہ کیا کریں ۔اس سے متعلق مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ کریں جس میں حضرت عقبہ بن عمرورضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے وارد نماز کی کیفیت بیان کرتے ہیں ۔
سالم براد سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أتينا عقبةَ بنَ عمرٍو الأنصاريَّ أبا مسعودٍ فقلنا لَه حدِّثنا عن صلاةِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقامَ بينَ أيدينا فى المسجدِ فَكبَّرَ فلمَّا رَكعَ وضعَ يدَيهِ علَى رُكبتيهِ وجعلَ أصابعَه أسفلَ من ذلِك وجافى بينَ مرفقيهِ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ قالَ سمعَ اللَّهُ لمن حمدَه فقامَ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ كبَّرَ وسجدَ ووضعَ كفَّيهِ علَى الأرضِ ثمَّ جافى بين مرفقيهِ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ رفعَ رأسَه فجلسَ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ففعلَ مثلَ ذلِكَ أيضًا ثمَّ صلَّى أربعَ رَكعاتٍ مثلَ هذِه الرَّكعةِ فصلَّى صلاتَه ثمَّ قالَ هَكذا رأينا رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يصلِّي( صحيح أبي داود:863)
ترجمہ: ہم ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے «الله اكبر» کہا، پھر جب وہ رکوع میں گئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیاں اس سے نیچے رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر ایک عضو اپنے اپنے مقام پر جم گیا، پھر انہوں نے «سمع الله لمن حمده» کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر آ کر ٹھہر گیا، پھر «الله اكبر» کہہ کر سجدہ کیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر دوبارہ ایسا ہی کیا، پھر چاروں رکعتیں اسی کی طرح پڑھیں (اس طرح) انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
رکوع وسجود کی ٹھیک یہی کیفیت حدیث مسی الصلاۃ میں بیان کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کی نماز میں رکوع، سجود، دوسجدوں کے درمیان کا وقفہ اور قومہ کی مقدار یکساں ہوا کرتی تھی کیونکہ آپ ان تمام مقامات پر اعتدال وسکون اختیارکیا کرتے تھے ۔
آخری پیغام و تلقین:
ہم لوگ نمازوںپر اس طرح محافظت نہیں کرتے جیساکہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے ، بارہا ہم سے نمازیں چھوٹتی ہیں اور پھر جو نمازیں ہم ادا کرتے ہیں ان میں خشوع وخضوع کا فقدان ہوتا ہے حتی کہ ارکان صلاۃ میں جو اطمینان وسکون مطلوب ہے اس کو بھی ہم برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں ، ایسی صورت میں ہماری ساری نمازیں رائیگاں جاتی ہیں ۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم ایسی نماز کیوں پڑھتے ہیں جو عنداللہ مقبول نہیں ۔ اس مسئلہ میں نہایت سنجیدگی سے غور وفکر کے بعد نماز کی ادائیگی میں تعدیل ارکان کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں ، جو معذور وبیمار ہیں ان کے لئے اسی کیفیت میں نماز کی ادائیگی کافی ہے جس کی وہ استطاعت رکھتے ہیں ۔ یاد رکھیں جلدبازی شیطان کی طرف سے ہے اس لئےیہ  کسی بھی معاملہ میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، اللہ سکون وٹھہراؤ کو پسند کرتا ہے ۔
نبی ﷺ نے اشج رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ، الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ (مسلم:17)
ترجمہ: تمہارے اندر دو صفات ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے: عقلمندی اور ٹھہراؤ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
التَّأنِّي من اللهِ و العجَلَةُ من الشيطانِ( السلسلة الصحيحة:1795)
ترجمہ: طبیعت میں ٹھہراؤ اور آہستگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔
نیکی میں سبقت کرنا اور خیر کی طرف جلدی آناپسندیدہ عمل ہے مگر کسی عمل کی انجام دہی میں عجلت سے کام لینا یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے اور نماز تو رب کی بندگی ہے اس کی ادائیگی میں پوری طرح اعتدال وسکون چاہئے ورنہ بغیر سکون کے پڑھی گئی عجلت والی نماز ، رائیگاؤں وبرباد ہے ۔ بسا اوقات ہم وقت کی تنگی اور حالات وظروف کے تحت خفیف نماز پڑھتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم نماز کی ادائیگی میں سکون ہونا ضروری ہےجو نماز کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہےاور جس کا تعلق پوری نمازاور پورے ارکان سے ہے ۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔