Sunday, January 14, 2024

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(قسط:2)

 آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(قسط:2)
جواب از مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ -سعودی عرب
 
سوال(1): ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ اسکول کی نوکری کے لئے صبح ساڑھے پانچ بجے گھرسے نکلتی ہے ، فجر کا وقت پانچ پینتالیس یا پانچ پچاس کا ہوتا ہے تو کیا نماز فجر سے پندرہ بیس منٹ پہلے فجر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
جواب:یہ بات تمام نمازوں کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے، فجر کی نماز بھی وقت سے پندرہ بیس منٹ پہلے نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ نماز اپنے مقررہ اوقات پر مومنوں پر فرض ہے گویا ہم نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کریں گے ۔لہذا اگر کوئی آدمی کسی بھی نماز کو وقت سے پہلے پڑھ لیتا ہے تو اس کی وہ نماز شمارنہیں  ہوگی ، وقت ہونے کے بعد وہ نماز پھر سے دہرانی ہوگی ۔
سوال(2):ایک بہن کے سسرال والے ہلدی رسم وغیرہ کرتے ہیں جبکہ وہ بہن یہ سب نہیں مانتی ہے لیکن اگر وہ مجبوری میں اس رسم میں ساتھ دے تو کیا وہ بھی گنہگار ہوگی حالانکہ وہ اس میں شرکت پہ منع کرتی ہے مگر مجبورا شامل ہونا پڑےگا؟
جواب:یہ اچھی بات ہے کہ کوئی غلط رسم ورواج نہ کرے ، اور نہ اس میں  شامل ہوکیونکہ اس طرح کی رسموں کے بہانے بہت سارے غیرشرعی کام کئے جاتے ہیں جیسے عورتوں کا ناچنا، گندے مذاق کرنا، ڈی جے بجانا، مردوں سے اختلاط اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا وغیرہ ۔ کسی لڑکی کو اپنے سسرا ل میں اس رسم کی ادائیگی میں شرکت پر مجبور کیا جائے تو اولا اس لڑکی کا ذمہ دار اس کا شوہر ہے وہ اپنےشوہر کے ذریعہ اس رسم کا ہی خاتمہ کی کوشش کرے ، اگر رسم کو ختم نہ کرسکے تو اپنے آپ کو اس رسم کے نام پر انجام دی جانے والی غیرشرعی باتوں سے دور رکھےجیسے ناچنے گانے اور گندے مذاق وغیرہ سے یعنی مجبورا وہ وہاں موجود رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن گناہ والے کاموں میں شریک نہ ہوکیونکہ گناہ تو گناہ ہے اس کے کرنے سے گناہ ملے گا۔ اور گناہ کے تئیں ہم میں اتنی نفرت تو ضرور ہو کہ گناہ کے کام اور گناہ کی جگہ سے ہم دور رہیں اور کوئی ہاتھ پکڑ کر ہم سے گناہ کروائے تو اس کی تردیدکریں اور ایمان غیرت وحمیت کا اظہار کریں ۔
سوال(3): کسی کی طرف سے دوسرے بندے کو سلام بھیجا جائے تو اس کے جواب میں کیا جواب دیا جائے گا؟
جواب:ایک آدمی کسی کے معرفت دوسرے کو سلام بھیج سکتا ہے جیسے اللہ تعالی نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سلام بھیجا اور اسی طرح  جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ کے ذریعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام بھیجا ۔ جس کو سلام بھیجا جائے وہ اس طرح جواب دے گا۔ وعليك وعليه السلام ورحمةالله وبركاته"۔
سوال(4): اگر کسی روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم ہو تو اس باتھ روم میں وضو ہوجائے گا اور اس کمرے میں نماز ہوجائے گی جس کے ساتھ باتھ روم اٹیچ ہے؟
جواب:ہاں ، اٹیچ باتھ روم میں وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا جیسے غسل کرنے سے غسل ہوجاتا ہے ۔ وضو کی طرح غسل بھی طہارت ہے بلکہ وضو سے بڑی طہارت ہے ۔ اس لئے اٹیچ باتھ روم میں جس طرح غسل کرتے ہیں وضو بھی کرسکتے ہیں اور غسل جنابت میں تو پہلے وضو ہی کیا جاتا ہےپھر جسم پر پانی بہایا جاتا ہے ۔ اور اس روم میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں جس سے باتھ روم اٹیچ ہے کیونکہ رہائشی روم الگ ہے اور باتھ روم الگ ہے ، نماز کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ  جگہ پاک ہو۔
سوال(5): کیا کسی کو خون عطیہ دینے کا کوئی اجر ہے؟
جواب: انسان خون بیچ نہیں سکتا ہے لیکن کسی ضرورت مند کو خون کا عطیہ دے سکتا ہے اور یہ ایک قسم کا دینی تعاون ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول نے ترغیب دی ہے ۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جو اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ فائدہ پہنچائے (مسلم:2199)۔ خون کا عطیہ اسی تعاون کے باب سے ہے اور جوکسی کا تعاون کرتا ہے اللہ اس کی بھی مدد کرتا ہے اور اجر بھی ملتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ(صحيح مسلم:2699)
ترجمہ:جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔
سوال(6):ظہر کی نماز پڑھ کر نکلیں اور ریلوے اسٹیشن پہ عصر کی نماز کا وقت ہوجائے اور ٹرین آنے تک عصر کا وقت نکل جائے گا جبکہ اسٹیشن پہ ویٹنگ روم میں بھیڑ ہوتی ہے ، جگہ بھی صاف ستھری نہیں ہوتی ایسے میں عورت کہیں صاف ستھری جگہ دیکھ کر کسی کونے میں نماز پڑھ لے یہ بہتر ہے یا ٹرین میں بیٹھنے کے بعد قضا پڑھ لے جبکہ اس کے ساتھ بڑی فیملی بھی نہ ہو جونماز کے وقت  آڑ کرسکے ؟
جواب:گوکہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر نہیں کیاجاسکتا ہے ، وقت ہوتے ہی جہاں ہیں اسی جگہ نماز ادا کرلیں  گے لیکن اس وقت ہندوستان کے جو حالات ہیں اس  کی روشنی  میں ہندوستانی بھائی بہن کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اسٹیشن یا ریل گاڑی میں نماز ادا نہ کریں چاہے نماز کا وقت کیوں نہ نکل جائے کیونکہ سرکاری یا عام پبلک مقامات پر نماز پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے ۔حالت سفر میں کہیں محفوظ ومناسب جگہ ملے تو اس جگہ نماز پڑھیں اور سفر میں ایسی کوئی جگہ نہ ملے تو گھر آکر وہ ساری نماز پڑھ لیں جو چھوٹ گئی ہیں  ، یہ مسئلہ صرف ہندوستانی بھائی بہنوں کے لئے آج کل کے حالات کے تئیں بتایا جارہا ہے ۔
سوال(7):نیا سال منانے کا عیسائیت سے کیا تعلق ہے کہ اس کو وش کرنے سے شرک ہوجاتا ہے یا گناہ ملے گااس کی کیا دلیل ہے؟
جواب:اسلام نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ نئے سال پہ مبارکبادی دی جائے اس لئے نئے سال پہ مبارکبادی دینا غیراسلامی کام ہے ۔ اور نئے سال کا عیسائیت سے تعلق واضح ہے ، یہ تاریخ اور کلینڈر عیسائیوں کی ایجاد ہے اس تاریخ سے فائدہ اٹھانے میں حرج نہیں ہے لیکن یکم جنوری منانا عیسائیوں کا طوروطریق ہے ۔ نئے سال  پہ لوگ، بہت سارے گناہ اور فحش کام کرتے ہیں جن کے کرنے سے لامحالہ گناہ ملے گا۔ گناہ تو گناہ ہے وہ کسی موقع سے انجام دیں گناہ ملے گا۔ کوئی کہے کہ ہم صرف وش کرتے ہیں یا سادہ الفاظ میں ہپی نیوایئر کہتے ہیں اس میں کیا حرج ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ بھی غلط اور گناہ کا کام ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کرکے عیسائیوں کے نئے سال کو سیلی بریٹ کیا ۔ ہمیں نئے سال منانے سے کوئی سروکار ہی نہیں ہونا چاہئے اور یہودی و عیسائی تہوار اور ان کے رسومات و اعمال سے دور رہنا چاہئے ۔ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ(صحیح البخاری:3456)
ترجمہ:تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے؟
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہود ونصاری کی روش اور اس کے طور وطریق سے بچنا چاہئے ۔
سوال(8):پانچ رکعت وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ لیں پھر تین الگ سے پڑھیں ؟
جواب: پانچ رکعت وتر پڑھنے کا وہ طریقہ ثابت نہیں ہے جو آپ نے بتایا کہ پہلے دو پڑھیں پھر تین پڑھیں ، اس طرح پانچ رکعت والا وتر نہیں پڑھا جائے گا۔
پانچ رکعت وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلسل یعنی ایک ساتھ پانچ رکعات ادا کریں اور درمیان میں کہیں نہ بیٹھیں ، آخری رکعت میں بیٹھیں گے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیریں گے ۔ دلیل دیکھیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا».(صحيح مسلم: 737)
ترجمہ:ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سے پانچ وتر پڑھتے تھے اس دوران وہ کسی رکعت میں (تشہد)نہیں بیٹھتے تھے سوائے آخری رکعت کے۔
اس حدیث میں پانچ رکعت وتر کاطریقہ ایک سلام سے بتایا گیا ہے اور ایک ہی تشہد ہوگا آخری رکعت میں ۔
سوال(9):تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ بھی بتادیں ؟
جواب:تین رکعت وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تین رکعت مسلسل پڑھیں ، درمیان میں کہیں نہ بیٹھیں ، تیسری اور آخری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھیں اور سلام پھیردیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردیں پھر الگ سے ایک رکعت پڑھیں اور سلام پھیردیں ۔
سوال(10): کیا عمرہ کے لیے جمع کیے گئے پیسوں سے کسی غریب کی بیٹی کی شادی کرسکتے ہیں یا ان دونوں عمل میں افضل کیا ہے نیز عمرہ کے لیے آج کل مارکیٹ میں خوشبو کے بغیر شیمپو وصابن آگئے ہیں تو کیا ان کو خرید کر استعمال کرنا تکلف ہے جبکہ ایک بندہ گھر سے غسل کر کے عمرہ پر جاتا ہے اور عمرہ کے دوران نہانے کی ضرورت نہیں پڑتی تو ایسے میں کیا حکم ہے؟
جواب:اگر کسی نے عمرہ کرنے کی نیت سے پیسہ جمع کیا ہے اور اتنا پیسہ ہوگیا کہ اس سے عمرہ کرسکتا ہے تووہ  اس پیسے  عمرہ کرے کیونکہ اس نے عمرہ کی نیت کی ہے اور اتنا پیسہ ہوگیا ہے جس سے عمرہ ہوسکتا ہے لیکن اس نے  پہلے عمرہ کرلیا ہے دوبارہ عمرہ کے لئے پیسہ جمع کیا تھا اس حال میں کہ کوئی اس کے رشتہ یا پڑوس میں بہت ضرورت مند ہوخواہ شادی کے لئے یا اور کسی کام کے لئے  تو اس صورت میں ضرورت مند کی مدد کرنا بہتر ہے اور وہ عمرہ کا فریضہ پہلے ادا کرچکا ہے۔ اور عمرہ کرنے والا ساتھ میں صابن وشیمپو رکھ لے تاکہ ضرورت پڑے تو غسل کرسکے ، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کوبھی  پوچھا جائے ۔ یہ معمولی بات ہے ۔کوئی  سفر پہ جارہا ہے اسے نہانے اور صفائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ضرورت نہ بھی پڑے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ضرورت کی چیز گھر واپس آکر بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔
سوال(11):لوگ اذن شروع ہوتے ہی جل شانہ کہتے ہیں تو یہ کہنا چاہئے؟
جواب:ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے کہ اذان ہونے لگے تو ہمیں جل شانہ کہنا چاہئے ۔ اگر لوگوں میں اس قسم کی بات پائی جاتی ہے تو جس کو ہم اس طرح بولتے سنیں اس کو منع کریں ۔ اور اس سے یہ کہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اذان کے کلمات کا جواب دینے کا حکم دیا ہے یعنی موذن اذان دے تو جس طرح کلمات کہے ہمیں اسی طرح جواب دینا ہے سوائے حی علی الصلاۃ اورحی  علی الفلاح کے ۔اور اذان کا جواب دینے پر   بہت اجر ہے ۔
سوال(12): بازار میں اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح ملتی ہے ، بیچنے والے اس طرح پرچار کرکے بیچتے ہیں کہ اس سے جادو ، نظربداور شیطانی طاقت سے حفاظت ہوگی ، اور برکت کے لئے گھر ، دوکان اور دفتر میں بھی رکھ سکتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح پر ذکر کرسکتے ہیں اور اس قسم کے نظریات رکھنا اور اس تسبیح کوگفٹ کرنا کیسا ہے اور اسی طرح سو سے زائد دانوں والی تسبیح کے متعلق راہنمائی فرمائیں، کیا ایسی تسبیح خریدی جا سکتی ہے؟
جواب:اصل میں اونٹ کی ہڈی کے تعلق سے عیار ومکار عاملوں نے سماج میں یہ بات پھیلائی ہے کہ گھرمیں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے سحر وآسیب اور شیطانی قوت سے حفاظت ہوتی ہے اور اسی طرح دغاباز عامل اونٹ کی ہڈی سے سحر کا علاج بھی کرتے ہیں اور صوفیا ء و گمراہ قسم کے لوگ اونٹ کی ہڈیوں پر مختلف قسم کے وظائف پڑھنے کے لئے کہتے ہیں جن سے جنات وشیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اونٹ کی ہڈی کے بارے میں اس قسم کے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ باطل نظریات ہیں اور لوگوں کو لبھانے اور پیسہ کمانے کے لئے فریبی عمل ہے ۔
اگر شرعی طور پر اونٹ ذبح ہوا ہو تو اس کی ہڈی سے بنی تسبیح استعمال کرنا جائز ہے اور اسے دوسروں کو گفٹ کرنا بھی جائز ہے لیکن اس اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح کے بارے میں جو خیال پایا جاتا ہے کہ اس کے رکھنے سے سحر ، نظر بد اور شیطانی طاقت سے حفاظت ہوتی ہے ، یہ جھوٹ اور باطل نظریہ ہے اس لئے جب آپ کے یہاں اس قسم کے غلط خیالات کے ساتھ ہڈی والی تسبیح بیچی جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ اسی نظریہ سے یہ تسبیح بنائی بھی جاتی ہوگی تو آپ اس قسم کی تسبیح سے پرہیز کریں کیونکہ غلط لوگوں کی تجارت اور غلط نظریات کے فروغ میں آپ بھی شامل ہوجائیں گے ۔ تسبیح کا مقصد رب العالمین کا ذکر کرنا ہے وہ انگلیوں پر افضل ہے اور تسبیح کا دانہ بھی استعمال کرنا جائز ہے تاہم تسبیح کا عام دانہ لیں ، غلط عقیدہ والی تسبیح نہ خریدیں ۔
جہاں تک سو سے زیادہ والی تسبیح کا مسئلہ ہے تو اس سے پرہیز کریں ، آپ کو صوفی نہیں بننا ہے ،ضرورت ہو تو ہلکی پھلکی  تسبیح استعمال کریں مثلا تسبیح فاطمی کے لئے یا سو دفعہ کے ذکر کے لئے یا چاہیں تو ڈیجیٹل تسبیح لے لیں جو چھوٹی اور ہلکی ہوتی ہے ۔ تسبیح کا مقصد دکھانا نہ ہو اور نہ ہی تسبیح میں بدعت والا کام کرنا ہے یعنی اپنی طرف سے تعداد متعین کرکے تسبیح پڑھنا بدعت ہے اس سے بچیں ۔
سوال(13): اگر شوہر کہے کہ آج سے میں نے تمہیں چھوڑا ہے تو کیا یہ طلاق میں شمار کیا جائے گا؟
جواب:ہاں یہ طلاق شمار ہوگی کیونکہ اس میں صراحت کے ساتھ بیوی سے جدائی کا ذکر ہے ۔ یہ ایک طلاق رجعی مانی جائے گی ۔اور شوہر طلاق سے رجوع کرنا چاہے تو عدت میں رجوع کرسکتا ہے۔
سوال(14): پچھلے سال میں نے اپنا سونے کا سیٹ بیچا اوراُس سے جو سات لاکھ روپے ملے وہ میں نے کسی کے کاروبار میں لگا دئے اور اس کا منافع میں ہر مہینے لیتی ہوں ،اب اس بات کو ایک سال ہونے والا ہے، یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اس رقم کی ( جو کاروبار میں لگائی تھی)زکٰوۃ نکالنی ہے؟
جواب:اس میں ایک مسئلہ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اگر منافع متعین کرکے لیا جاتا ہے جیسے سات لاکھ کسی کمپنی میں لگایا گیا تو ہرماہ مثلا پچیس ہزار یا پچاس ہزار روپئے متعین طور پر منافع لئے جاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے ۔ کاروبار کے منافع ونقصان دونوں میں شرکت کرنا ضروری ہے اور کاروبار کے منافع  کے حساب سے فائدہ لینا ہے نہ کہ متعین رقم  منافع میں لینا ہے ۔
جو پیسہ کاروبار میں لگاہے اس پہ ایک سال ہوگیا ہے تو اس کی زکوۃ دینی ہوگی اور ساتھ میں ان منافع اور بچت پیسوں کو بھی ملاکر زکوۃ دی جائے گی جن  پر ایک سال ہوگیا ہے ۔
سوال(15): زکوۃ کی رقم مسجد کی تعمیر وغیرہ کے لیے دی جا سکتی ہےاور آل رسول کو دی جا سکتی ہے؟
جواب:زکوۃ کی رقم مسجد کی تعمیر میں نہیں لگائی جائے گی ، نفلی صدقات کی رقم لگائی جاسکتی ہے اور واقعی جس کا سلسلہ  آل بیت سے ملتا ہو اس کو زکوۃ نہیں دی جائے گی ۔  بہت سے لوگ فرضی طور پر آل رسول بنے ہوتے ہی اس لئے اس کو علم میں رکھنا ضروری ہے ۔
سوال(16): آج کل لکڑی کے جائے نماز پائے جاتے ہیں جو بیڈ کی طرح ہوتے ہیں کیا ان پر نماز پڑھنا صحیح ہے؟
جواب:لوگ کیا بیچتے یا بناتے ہیں اس سے آپ بالکل بھی سروکار نہ رکھیں ۔ ہم کو نماز پڑھنا ہے  تو صحیح ڈھنگ سے نماز ادا کریں گے اور نماز زمین پر پڑھی جاتی ہے اس لئے زمین پر نماز پڑھیں گے  ، کپڑے کا مصلی بچھاکر نماز پڑھتے ہیں توبھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن لکڑی کا مصلی نہ خریدیں  اور نہ استعمال کریں ۔ آپ لوگ خریدیں گے تو اس قسم کے مصلی بناوالے ایسی چیزوں کی تجارت کریں گے اور لوگ خریدنا بند کردیں تو تجارت کرنے والے کی یہ تجارت بھی بند ہوجائے گی ۔
سوال(17):کیا سر کا حجامہ نہیں کروانا چاہئے، شاید میں نے سنا ہے کہ اس سے آدمی پاگل ہوجاتا ہے؟
جواب: سر کا حجامہ کرواسکتے ہیں ، کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ متعدد احادیث سے سر کا حجامہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ نبی ﷺنے سر کا حجامہ کروایا ہے ، صحیح بخاری میں ہے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے بيان كيا ہے :
احْتَجَمَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في رَأْسِهِ وهو مُحْرِمٌ، مِن وجَعٍ كانَ به، بماءٍ يُقالُ له لُحْيُ جَمَلٍ.(صحيح البخاري:5700)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں اپنے سر میں پچھنا لگوایا (یہ پچھنا آپ نے سر کے) درد کی وجہ سے لگوایا تھا جو لحی جمل نامی پانی کے گھاٹ پر آپ کو ہو گیا تھا۔
سر میں حجامہ کرنے سے آدمی پاگل نہیں ہوتا ہے، حجامہ تو ایک بہترین علاج ہے اور نبی ﷺ نے خود کیا ہے تو اس سے آدمی پاگل کیسے ہوسکتا ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ سر میں حجامہ کرانے سے ہرقسم کی بیماری کا علاج ہوجاتا ہے اور چند بیماری کا نام بھی مذکورہے جیسے  برص ، کوڑھ ، سردرد سے اور جنون(پاگل پن ) وغیرہ میں شفا حاصل ہوتی ہے گویا سر میں حجامہ سے آدمی پاگل نہیں ہوتا ہے بلکہ پاگل پن ٹھیک ہوتا ہے ۔اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے(سلسلہ ضعیفہ:7071)
سوال(18):دانیال کا مطلب پیغمبر، مشہوردانشور، اور عدل کرنے والا ہوتا ہے؟
جواب:دانیال نام سے بنی اسرائیل میں ایک نبی گزرے ہیں اس لئے دانیال ایک پیغمبر ہیں ۔ تو دانیال کا معنی پیغمبر نہیں ہے بلکہ دانیال نام سے ایک پیغمبر گزرے ہیں ۔ دانیال دو لفظوں سے بنا ہے ، ایک دان فیصلہ کرنا والا یا قاضی  اور ایک ایل یعنی اللہ ۔ اس لئے دانیال کا مطلب ہوتا ہے اللہ فیصل یا اللہ قاضی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔