Thursday, January 11, 2024

دعا میں بہت اثر ہے

 
دعا میں بہت اثر ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، مجھے انڈیا سے سعودی عرب کا سفرکرنا تھا، دن میں بارہ بجے کے قریب پٹنہ سے لکھنؤ کے لئے فلائٹ تھی، پھر لکھنؤ سے جدہ۔ گھر سے پٹنہ آنے کے لئے اسکارپیوبک کیاتھا، گاڑی والے سے اچھی طرح گفتگو کرلی تھی کہ رات دوبجے دروازے پر مجھے گاڑی چاہئے، فلائٹ کی بات ہے، تاخیرہونے پرفلائٹ چھوٹ سکتی ہے ۔گاڑی والے نے بولا آندھی ہویا طوفان دوبجے رات کو گاڑی آپ کے گھر کے دروازے پر رہے گی ۔
سفر والی رات ایک بجے گاڑی والے کو بطور تذکیر فون کیا کہ گاڑی کہاں ہے اورکب تک پہنچ جائے گی پھر اس نے جوجواب دیا اسے سن کرہوش اڑہوگیا۔ اس نے کہا کہ گاڑی بارات میں گئی تھی لوٹتے ہوئے دیر ہوگئی ، ابھی تک نہیں لوٹی ہے ۔میں نے اس کو وعدہ یاد دلایا تو بولتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ گاڑی تاخیرسے لوٹے گی ، اب تومجبوری آگئی ہے ، میں کیا کرسکتا ہوں ۔ کافی طویل گفتگوہوئی ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں نے اس سے کہا اپنے دوست واحباب میں سے کسی کی گاڑی دیکھو اور میرے پاس بھیجو۔ ادھر میرے پاس جن گاڑی والوں کے نمبرات تھے رابطہ کرنا شروع کیا تو رات ہونے کے سبب کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ دھیرے دھیرے وقت گزررہا تھا،ایک گھنٹہ بعد اسی گاڑی والے کا فون آیا کہ ایک آدمی سے بات ہوئی ہے وہ آجائے گا، میں نےکہا جلدی بھیجو وقت نکل رہا ہے ۔
بہرکیف!  ساڑھے چار یا پونے پانچ بجے کے قریب گاڑی آئی ، میں اور میری فیملی کے لوگ تیار بیٹھے تھے ، جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور جلدی نکلنے کو کہا۔ اتفاق ایسا کہ وہ ڈرائیور کبھی کسی کو ایرپورٹ نہیں چھوڑا تھا اور اسے راستے کا بھی علم نہیں تھا۔ گاڑی چلتی رہی، متعدد بار راستے میں پوچھنا بھی پڑا، پٹنہ کے قریب پہنچ کر بڑی بھیڑ میں گاڑی پھنس گئی ۔ اب فلائٹ پرواز کرنے کا وقت قریب ہورہاتھا۔ ڈرائیور سے بولا کہ گاڑی سے اتر کو ذرا حالات کا پتہ لگاؤ ، کیسا جام ہے اور کب تک ختم ہوسکتا ہے ۔ پتہ چلا  بھیانک جام ہے ، کافی وقت لگ سکتا ہے ۔ یہ وہ نازک وقت تھا جب میرے لئے ایک ایک منٹ قیمتی سے قیمتی تھا۔ دس پندرہ منٹ تک سوچ میں پڑا رہا پھر اچانک دل میں خیال آیا کہ اس گاڑی کو چھوڑ کر کوئی دوسری گاڑی لی جائے ، میں نے گھروالوں کو سلام کیااور گاڑی سے اترکرسڑک  کے دوسرے طرف  چلا گیا یعنی یہ ٹووے تھا، ون وے کو چھوڑکرسکنڈ وے پر چلا گیا۔ اس جانب  پورا راستہ صاف تھا حتی کہ کوئی گاڑی بھی نظر نہیں آرہی تھی ، راستہ کراس کرتےوقت ایک کار نظرآرہی تھی۔ اس وقت کار والا ، کار میں ایک بیک پیچھے کی جانب ڈال رہاتھا ، ابھی میں کچھ فاصلہ پر تھا ، تیزتیزبھاگ کرجب تک گاڑی کے قریب آتا، گاڑی والا بس نکلنے ہی والا تھاتاہم مجھے اس سے بات کرنے کا موقع مل گیا ، میں نے کہا مجھے ایرپورٹ جانا ہے، اس نے فورا کہہ دیا کہ بیٹھئے ایرپورٹ ہی جارہاہوں ، پیچھے کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ اس بھائی صاحب کی گاڑی جام میں پھنس گئی تھی اس نے کال کرکے مجھے بلایا ہے ۔ سبحان اللہ ،  کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ ایک شخص اپنی ضرورت کے لئے فون کرکےگاڑی بلایااور اللہ نے مجھے بھی اس میں بیٹھنے کا موقع دیا۔
میں نے گاڑی والے سے کہا کہ میرے ساتھ بھی یہی حادثہ پیش آیا ہے، اس کو بتلایا کہ دیکھو میرے گھر والے دوسری جانب گاڑی میں بیٹھے ہوئےہیں، ڈرائیور نے کہا کہ ایک ہزار روپیہ کرایہ لگے گا  حالانکہ دوتین سو کرایہ کافی تھامگر وقت پیسہ کم کرانے کا نہیں تھا۔ میں نے کہا ٹھیک بس مجھے جلدی سے جلدی ایرپورٹ پہنچا دو۔ ٹیکسی والا راستے کا بہت ماہرتھا، ایک تو گاڑی تیز چلائی پھر مختصر راستے سے لے کر گیا۔ ابتک فلائٹ پرواز کرنے کے قریب ہوگئی تھی بلکہ یہ کہہ لیں ٹیکسی پر بیٹھتے وقت  اڑان بھرنے میں پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ رہا ہوگا۔ یہ بندہ پندرہ منٹ کے آس پاس کدھرکدھر سے لےجاکرایرپورٹ چھوڑ دیا۔ میں ایرپورٹ کے اندرداخل ہوا،سیدھے کاؤنٹرپرگیا اور دولفظوں میں کہا کہ فلائٹ اڑنے کا وقت ہوگیا ہے مجھے لکھنؤجانا ہے، میرے پاس لگیج نہیں تھا، اس نے فورا پاس دیا ، پاس دکھاکر اندر گھسا، آخری بس مسافر کو جہاز تک لے جانے کے لئے کھڑی تھی ، شاید میرے لئے ہی ہو کیونکہ اس میں کوئی مسافر نظر نہیں آیا، جیسے بس میں بیٹھا، بس جہاز تک پہنچادیا۔ جہاز میں داخل ہوا ، ایئرہوسٹس نے  بلاخیرسیٹ کی طرف رہنمائی  کی ، پرواز سے قبل دی جانی والی ہدایات دی جاچکی تھیں ۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا چندلمحوں میں فلائٹ پرواز کرگئی ۔ رب کا شکر بجالایا۔
لکھنؤ پہنچ کر گھروالوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلاوہ لوگ اسی جگہ جام میں ابتک پھنسے ہوئےہیں، چلچلاتی دھوپ تھی ، ساتھ میں بچے بھی تھے اور آس پاس کوئی دوکان تک نہیں تھی ۔میرا بھائی اور بھتیجا پٹنہ میں رہتا ہے ان لوگوں کو فون کرکے کھانے پینے کی چیزیں منگوایا۔
سعودی عرب پہنچنے کے بعد غور کیا کہ یہ سفر تو بہت نازک تھا آخر اس سفر کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے تو باربار یہی خیال آیا ، لوگوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔سفر والے دن سرے شام ہی اپنے سفر سے متعلق سوشل میڈیا پرخبردیدی تھی  جہاں ساتھیوں نے دعائیں دی۔ پھر گھروالوں کی دعائیں اور بحیثیت مسافر خود کی دعا۔ یقینا اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں جن کا علم اللہ کو بہتر ہے تاہم میرے دل نے جس بات کو باربار یاددلایا ہے وہ دعا ہے۔
تقریبا سال سے بھی اوپر ہوگیا ہوگا، فریج کا پانی استعمال نہیں کرتا ہوں لیکن گزشتہ جمعہ ضیافت میں پیش کیاگیا ٹھنڈا جوس پینے سے اچانک طبیعت بگڑ گئی ، ابھی جدہ کا موسم بھی بارش والا ہے۔دوائیں  استعمال کرہاہوں تاہم ساتھیوں نے جو دعائیں دی ہیں، ان دعاؤں کی برکت مجھے زیادہ نظر رہی ہے  ، بہتر محسوس کررہا ہوں اور مدینہ کا بھی  سفر ہوگا، ان شاء اللہ ۔اسی سبب فلائٹ والا  پچھلا واقعہ یاد آگیاتو سوچا اس واقعہ کو آپ لوگوں سے بیان کروں ۔
آخر میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکرگزار ہوں نے جنہوں نے دعائیں دی ، اللہ تعالی آپ سب کو صحت وعافیت سے رکھےاور جو بھائی بیمار ہیں ان کو جلدازجلد شفایابی نصیب فرمائے ۔ آمین
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔