بنت
حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل – قسط: ۲۵
جواب
از شیخ مقبول احمد سلفی /اسلامک دعوۃ سنٹر-مسرہ(طائف)
(1)سوال: شوہر نماز نہیں پڑھتا ، کیا اس سے طلاق لے لینا چاہئے یا اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے ؟
جواب: مجھے امید ہے کہ آپ کا شوہر جمعہ کی نماز کے علاوہ کبھی کبھار دیگر نمازیں بھی ادا کرلیا کرتا ہوگااور وہ نماز کا منکر نہیں ہوگا بلکہ سستی کی وجہ سے پنج وقتہ نمازیں نہیں پڑھتا ہوگاایسی صورت میں وہ مسلمان مانا جائے گا ۔آپ اس سے طلاق کا مطالبہ نہ کریں بلکہ مسلسل نماز کی تلقین کرتے رہیں ، اس کا ماحول بہتر بنائیں اور دین سے جوڑنے کے لئے جتنی کوشش کرسکتی ہیں کریں ، مفیدکتاب دے کر، ناصحانہ تقریر سناکر، علماء کی صحبت یا دینی مجلس میں شریک کرواکر۔میاں بیوی کو ایک دوسرے کا کس قدر خیرخواہ ہونا چاہئے خصوصا نماز کے تئیں مندرجہ ذیل حدیث سے اندازہ لگانا چاہئے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحِمَ اللَّهُ رجلًا قامَ منَ اللَّيلِ فصلَّى وأيقظَ امرأتَهُ فصلَّت فإن أبَت نضحَ في وجهِها الماءَ رحِمَ اللَّهُ امرأةً قامَت منَ اللَّيلِ فَصلَّت وأيقَظَت زَوجَها فإن أبَى نضَحَت في وجهِهِ الماءَ(صحيح أبي داود:1450)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار
کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔
اسی طرح ابوداود کی دوسری حدیث میں ہے کہ ایک صحابیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر(صفوان بن معطل) کے بارے میں کچھ شکایات کرتی ہیں ان میں ایک شکایت کرتے ہوئے کہتی ہیں :ولا يصلي صلاةَ الفجرِ حتى تطلعَ الشمسُ (صحيح أبي داود:2459) یعنی وہ فجر کی نماز سورج نکلنے کے بعد پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ سے صفوان نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، اس بات پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جب بھی جاگو نماز پڑھ لیا کرو ۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں سے ہرایک کو چاہئے کہ دوسرے کی نماز کی فکر کرے بلکہ شوہر میں اگر غفلت و سستی ہو تو بیوی اس کی غفلت دور کرنے کی کوشش کرے اور بیوی میں کوتاہی ہو تو شوہر اس کی کوتاہی دور کرے۔
(2)سوال: آٹھ سال کا لڑکا اپنی ماں کو لپٹ کر سوتا ہے ، منع کرنے کے باوجود نہیں مانتا، ذرا بتائیں کہ لڑکا کب تک اپنی ماں کے ساتھ سو سکتا ہے؟
جواب: ابوداود میں ایک حدیث ہے جسے شیخ البانی حسن صحیح کہا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
مُروا أولادَكم بالصلاةِ وهم أبناءُ سبعِ سنينَ واضربوهُم عليها وهمْ أبناءُ عشرٍ وفرِّقوا بينهُم في المضاجعِ(صحيح أبي داود:495)
ترجمہ: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ دس سال کی عمر والا بچہ ماں باپ سے الگ ہوکر علاحدہ بستر پر سوئے گا بلکہ شیخ البانی نے صحیح الجامع میں سات سال والی حدیث ذکر کی ہے ۔نبی کا فرمان ہے:
إذا بلغ أولادُكم سبعَ سنينَ ففرِّقوا بين فُرُشِهم(صحيح الجامع:418)کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردو۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے بچےماحول اور انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت جلد باشعور ہوجاتے ہیں اس لئے آپ اپنے بچوں کو چھ سات سال کے بعد جب سے ان میں شعور ، تمیز اور سمجھداری آنے لگتی ہے اس وقت سے الگ بستر پر سلائیں۔
الگ بستر کا مطلب یا تو ہر بچے کا الگ الگ مستقل بستر ہو یا ایک لمبے بستر پر کئی بچے ہوں مگر ان سب کا مخصوص لحاف/چادر ہو تاکہ آپس میں فصل وجدائی رہے ۔ رہا مسئلہ آٹھ سالہ لڑکے کا اپنی ماں سے لپٹ کر سونا تو اب اس لڑکے کو ماں سے الگ کرکے سلایا جائے گا۔
(3)سوال: کیاسورہ واقعہ کی تلاوت سے فقر وفاقہ دور ہوتا ہے ،کیا یہ سورت عورتوں کو سیکھنا چاہئے ؟
جواب: سورہ کی فضیلت میں یہ روایت آتی ہے : مَن قرأ سورةَ الواقعةِ كلَّ ليلةٍ لم تُصِبْهُ فاقةٌ أبدًا(السلسلة الضعيفة:289)
ترجمہ: جو آدمی ہر رات سورہ واقعہ پڑھے گا اسے کبھی فاقہ نہ پہنچے گا۔
یہ حدیث ضعیف ہے ، اسی طرح جس میں یہ مذکور ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو یہ سورت سکھاتے وہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ عورتوں کو اس کی تعلیم دینے سے متعلق یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
علموا نساءَكم سورةَ الوَاقِعَةِ ؛ فإنَّها سورةُ الغنى(السلسلة الضعيفة:5668)
ترجمہ: تم اپنی عورتوں کو سورہ واقعہ کی تعلیم دو کیونکہ مالداری والی سورت ہے۔
(4)سوال: کسی عورت کو بچہ پیدا نہ ہو تو وہ کسی قریبی رشتہ دار سے یا یتیم خانے سے بچہ خرید سکتی ہے؟
جواب: کسی عورت کو بچہ پیدا نہ ہو تو وہ کسی دوسری عورت کا بچہ گود لے سکتی ہے اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے لیکن کوئی بچہ کسی سے خریدنا جائز نہیں ہے ، نہ یتیم خانے اور نہ ہی کسی رشتے دار سے ۔ حتی کہ انسانی اعضاء میں سے کوئی بھی عضو بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ پورا جسم اللہ کی ملکیت ہے اور انسان صرف اسی چیز کو بیچ سکتا ہے جو اس کی ملکیت میں ہے ۔
(5)سوال: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعظیم میں کھڑےہوتے تھے تو دوسروں کی تعظیم میں کیوں نہیں کھڑا ہونا چاہیے ؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر استقبال کے لئے کھڑے ہوکر آگے بڑھتے جیساکہ ابوداود اور مسند احمد وغیرکی روایت میں ہے : ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كانت إذا دخَلَتْ عليه قام إليها ، فأخَذَ بيدِها وقبَّلَها وأَجْلَسَها في مجلسِه ، وكان إذا دخَلَ عليها قامت إليه ، فأَخَذَتْ بيدِه فقَبَّلَتْه وأَجَلَسَتْه في مجلسِها(صحيح أبي داود:5217)
ترجمہ:وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
اس طرح کسی آنے والے کے استقبال میں کھڑا ہونا ، سلام ومصافحہ کرنا اور جگہ پر بٹھانا مشروع وجائز ہے لیکن کسی بیٹھے شخص کی تعظیم میں کھڑا ہونا یا کسی آنے /جانے والےوالے کی تعظیم محض میں اپنی جگہ کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔
(6)سوال: کیا انگڑائی لینے میں گناہ ہے ؟
جواب: انگڑائی لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ، ابوداود کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں جسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔ قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے:
كان بيتي منْ أطولِ بيتٍ حولَ المسجدِ وكان بلالُ يؤذنُ عليهِ الفجرَ فيأتي بسَحَرٍ فيجلسُ على البيتِ ينظرُ إلى الفجرِ فإذا رآهُ تمطَّى، ثم قال : اللهمَّ إني أحمدُكَ وأستعينُكَ على قريشٍ أن يُقيموا دِينَكَ .قالتْ : ثم يُؤذِّنُ .قالتْ : واللهِ ما علمتُهُ كان تركها ليلةً واحدةً تعني هذهِ الكلماتِ(صحيح أبي داود:519)
ترجمہ: مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال رضی اللہ عنہ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے:اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
ایک خیال یہ رہے کہ انگڑائی لینے میں جسم کی کیفیت عجیب سی ہوجاتی ہے لہذا عورت کوانگڑائی لیتے وقت اجنبی نظروں سے بچنا چاہئے۔
(7)سوال:بہت ساری عورتیں آن لائن قرآن کی تعلیم دیتی ہیں ،کیا انہیں مجلس کا اجر وثواب ملے گا؟
جواب: آن لائن قرآن کی تعلیم بھی ایک طرح کی مجلس ہی ہے اور اس کام پر پڑھنے اور پڑھانے والیوں کو وہ تمام فضیلت ملے گی جن کا ذکر قرآن وحدیث میں مذکور ہے تاہم وہ مجلس ذکر جسے فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور اس پر رحمت و سکینت نازل ہوتی ہے وہ مجلس ایک مقام پہ جسمانی طور پر دینی تعلیم اور ذکر کے لئے جمع ہونا ہے جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ المَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَن عِنْدَهُ.(صحيح مسلم:2700)
ترجمہ:جو لوگ بیٹھ کر یاد کریں اللہ تعالیٰ کی تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے۔
(8)سوال: کیا کوئی دلہن اپنی تصویر کسی سہیلی کو موبائل پر بھیج سکتی ہے ؟
جواب: اسلام میں جاندار کی تصویر حرام ہے اس لحاظ سے دلہا یا دلہن کو چاہئے کہ شادی کے موقع پر تصویر کشی سے پرہیز کرے ۔ اگر کسی دلہن کے موبائل میں اس کی شادی کی تصاویر ہوں تو سہیلیوں کو بھیجنے کی بجائے دلہن کو چاہئے کہ ان تصاویر کو ڈیلیٹ کردے تاکہ جاندار کی تصویر رکھنے کے گناہ سے بچ جائے ۔ گوکہ ایک عورت دوسری عورت کی تصویر دیکھ سکتی ہے مگر چونکہ جاندار کی تصویر حرام ہے اس لئےبلاضرورت موبائل میں رکھنا یا کسی کو بھیجنا جائز نہیں ہے ۔ ڈیجیٹل تصویرکو بعض علماء نے جائز کہا ہے مگر ان کا موقف دلائل کی رو سے کمزور ہے ، صحیح اور قوی موقف یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر بھی حرمت والی تصویر میں داخل ہے ۔
(9)سوال: میں پاکستان کی لیڈی ڈاکٹر ہوں ، میرے پاس شادی شدہ اورغیرشادی شدہ دونوں قسم کی عورتیں اسقاط حمل کے لئے آتی ہیں ،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مجھےکیا کرنا چاہئے ؟
جواب: صحیح مسلم میں غامدیہ کی ایک عورت کا واقعہ مذکور ہے جس نے زنا کرلی تھی اور حمل ٹھہر گیا تھا ، گناہ کے خوف سے رسول اللہ سے پاک کرنے کی گزارش کرتی ہیں، رسول نے فرمایا،بچہ جننے کے بعد آنا، جب بچہ جن کر لائی تو آپ نے کہا جا دودھ پلاجب اس کا دودھ چھٹے تب آنا، دودھ چھٹنے کے بعد واپس آئی اس حال میں کہ بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔اس واقعہ میں یہ بھی مذکور ہےکہ سر پہ ایک پتھر مارنے سے خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پرخون گرا تو برابھلا کہنے لگے ، جب رسول نے یہ بات سنی تو فرمایا:
مَهْلًا يا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لو تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ له(صحيح مسلم:1695)
ترجمہ:خبردار اے خالد (ایسا مت کہو) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نےاتنی (خلوص کے ساتھ ) توبہ کی ہے اگر حرام ٹیکس کھانے والا بھی ایسی توبہ کرلے تو بخش دیا جائے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے :لقد تابت توبةً لو قُسِّمَتْ بين سبعين من أهلِ المدينةِ لوسعَتْهم ( صحيح الجامع :۵۱۲۸)
اس نے اتنی (خلوص سے توبہ کی ہے) کہ اگر ستر اہل مدینہ میں تقسیم کردی جائے تو ان کے لیےکافی ہوجائے۔
اس واقعہ کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد زنا کی سنگینی ، ایمان والی خاتون سے زنا سرزدہونے پر غذاب الہی کا خوف ، بھیانک سزا اور غامدیہ کی خالص توبہ کوذکرکرنا ہےتاکہ آج کی مسلم خواتین اس واقعہ سے عبرت حاصل کرے ۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگرزنا کرنے سے حمل ٹھہر جائے تو اس کو ساقط نہیں کیا جائے گا چاہے عورت شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ حتی کہ کوئی بھی حمل ضائع کرنابڑا گناہ ہے۔ حمل ایک جان اور ایک نفس ہے اس کا اسقاط ایک نفس کا قتل ہے لہذا آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کا خوف کھاتے ہوئے کسی بھی عورت کا حمل ساقط نہ کریں الا یہ کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو تو ضائع کیا جاسکتا ہے۔اس بارے میں میرے بلاگ پر "اسقاط حمل پہ دیت وکفارہ کا حکم" پڑھنا مفید رہے گا۔
(10)سوال:کیاماہواری سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنے سے پہلے مباشرت کرنا جائز ہے اور اگر کسی نے غسل سے پہلے مباشرت کرلیا تو کیا حکم ہے؟
جواب: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد اس وقت تک جماع کرنا جائز نہیں ہے جب تک عورت غسل نہ کرلے ۔ اگر کوئی غسل حیض سے قبل جماع کرلیتا ہے اسے توبہ واستغفار کے ساتھ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرنا چاہئے ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے غسل حیض سے قبل جماع کرنے پرکفارہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا کہ غسل سے قبل جماع کرے تو کفارہ دینا پڑے گا۔ (بن بازڈاٹ آرگ ڈاٹ ایس اے)
(11)سوال:میں نے سناہے کہ ماں کوطلاق ملنے پر اس کی اولاد کو باپ کی وراثت سے حصہ ملے گا مگر خلع ہونے کی صورت میں حصہ نہیں ملے گا کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: آپ نے جو سنا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ حقیقی اولاد اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ پائے گی چاہے ماں کو طلاق ملے یا خلع ملے ۔
(12)سوال:کسی کسی عورت کا ابرو ہلکا ہوتا ہے تو کیا وہ بلیک قلم سے اس جگہ کو ڈارک کرسکتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھوں کی پلکوں کو بھی کالا سرمہ لگایا جاتا ہے ؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو کالے رنگ سے رنگنے سے منع فرمایا ہے ، یہ حکم عورت ومرد دونوں کے لئے ہے اس لئے کوئی عورت بالوں کو رنگنے کے لئے کالے رنگ کا استعمال نہیں کرسکتی ہے ۔ابرو کا ہلکا ہونا کوئی عیب نہیں ہے جس کے علاج کی ضرورت ہو، اس کو ویسے ہی رہنے دینا چاہئے ۔رہا سرمہ کا مسئلہ تو وہ پلکوں پر نہیں لگایا جاتا بلکہ آنکھوں میں ان کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور پھر سرمہ کی اجازت ہے تو یہ اجازت صرف آنکھوں کے لئے ہے نہ کہ ابرو کے لئے ۔
(13)سوال:عورت اگر انگشت زنی کرے تو کیا غسل واجب ہوجاتا ہے جبکہ مذی نکلے مگر منی کا خروج نہ ہو؟
جواب: اولا میں مسلم بہنوں کو اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ غیرفطری طریقے سے شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے اس عمل سے باز رہیں ، اللہ کا خوف کھائیں اوراپنے اندر اعمال صالحہ کی طرف رغبت پیدا کریں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کا خروج ہونے سے غسل واجب ہوجاتا ہے چاہے انگشت زنی سےہو یا کسی اور طریقے سے۔ عورت کی منی باہرنکلنے کی بجائے رحم کی طرف جاتی ہے اس لئے اگر عورت کو شہوت کے ساتھ منی نکلنے کا احساس ہو تو غسل واجب ہوجاتا ہے تاہم فقط لیس دار مادہ جسے مذی کہتے ہیں اس کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
(14)سوال:ہمارے یہاں دلہن کو اسٹیج پر لایا جاتا ہے کیا عورتیں پردے میں رہتےہوئے دلہا ودلہن کے رسم ورواج کو دیکھ سکتی ہیں؟
جواب: اصل میں دلہن کو اسٹیج پہ لانا اور وہاں پہ مردوعورت کا ایک ساتھ اکٹھا ہونا شریعت کے مخالف ہے ۔ مردوں کی محفل میں دلہن کو نہیں لانا چاہئے اور اسی طرح عورتوں کو بھی مردوں کی محفل میں جمع نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں ، دلہا کو بھی دیکھ سکتی ہیں مگر کسی محفل میں مردوعورت کا اختلاط نہیں ہونا چاہئے ۔
(15)سوال:کیا عورت فوت شدہ فرض روزےشوہرکی اجازت کے بغیر قضا کرسکتی ہے ؟
جواب: عورت فوت شد ہ فرض روزے شوہر کی اجازت کے بغیر قضا کر سکتی ہے ، کوئی حرج نہیں ہے ،صرف نفلی روزوں میں شوہر کی اجازت چاہئے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔