Wednesday, January 12, 2022

کہیں یہ طریقہ رواج نہ پاجائے ؟؟؟؟

 

کہیں یہ طریقہ رواج نہ پاجائے ؟؟؟؟

مقبول احمد سلفی

اسلامک دعوۃ سنٹر-مسرہ -طائف

شہری جمعیت اہل حدیث حیدرآباد وسکندرآبادکےمرکز لنگرہاوس میں یکم جنوری کو ایک میٹنگ طلب کی گئی جس میں صوبائی جمعیت اہل حدیث تلنگانہ کے ذمہ داران بشمول شیخ حسین مدنی کو بھی مدعوکیا گیا۔ معاملہ میاں بیوی کے درمیان کا تھا ،ایک شوہر کی طرف سے اپنی بیوی پرکچھ الزام تھےجو مرکزکی اس بیٹھک میں اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھی۔ اسی مسئلےسے متعلق رومن اردومیں ایک درخواست دی گئی تھی جس کو حل کرنے کے لئے شہری اور صوبائی جمعیت کے ذمہ داران مرکز میں جمع ہوئے تھے ۔

ابھی اس بیٹھک میں بحیثیت ملزم ایک عورت تھی ، اسے اپنے الزام کے معاملے میں صفائی پیش کرنی تھی مگر اپنا الزام رفع کرنے کی بجائے اس نے سب کی توجہ دوسری طرف موڑ دی اور کچھ منٹوں میں اب ایک دوسری شخصیت کو موردالزام ٹھہرادیاجن کے بارے میں عوام کے علاوہ علماء طبقہ بھی حسن ظن رکھتاہےاور علمی خدمات کی وجہ سے وہ لوگوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔

عورت کی بات جاری ہی تھی کہ ایک شخص مجلس سے اٹھ کر شیخ حسین مدنی کو مارنا شروع کردیتا ہے ، اس کو دیکھ کئی افراد مارنے دوڑتے ہیں اور بری طرح مارتے ہیں حتی کہ موبائل چھین لیاہے اور جبرا استعفی لکھوایا جاتا ہے ۔ہم جیسے بہت سارے لوگوں کو جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے اس قسم کاگھناونا واقعہ دیکھنے اور سننے کوملا یہ بیحدافسوسناک ہے ۔

اس معاملے میں ایک بڑا خطرہ جو مجھے محسوس ہورہا ہے یہ ہے کہ جس طرح قابیل نے ہابیل کو قتل کرکے دنیا کو قتل سے متعارف کرایا اور یہ طریقہ دنیا میں رائج ہوگیا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے ناحق خون کی بری رسم قائم کی۔(مسلم7321)

کہیں یہ افسوسناک واقعہ بھی اہل علم سے بغض وحسد کرنے والوں اور شرپسندوں کےدرمیان رواج نہ پاجائے ۔الحفظ والاماں

ا س واقعہ میں جمعیت وجماعت دونوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔ وائرل ویڈیو سے جو صاف صاف معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ میاں بیوی سے متعلق مالی معاملات(درخواست کے تناظر میں ) کے حل کے لئے شہری جمعیت حیدرآباد وسکندرآباد نے صوبائی جمعیت کے ذمہ داروں کو بھی بلایا اور اس پورے معاملے کو رکارڈ کرنے کے پہلے سے منصوبہ بنایا مگر پہلے سے ٹھوس ایجنڈا طے کرکےذمہ داران وحاضرین کو اسی ایجنڈے کے تحت گفتگوکرنے کا پابند نہیں بنا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملزمہ عاقلہ کئی منٹ تک مالی معاملہ سے ہٹ کراپنی خدمات بیان کرتی رہی اور شیخ حسین مدنی پر مختلف الزامات لگاتی رہی مگر کسی ذمہ دار نے اسے نہ ٹوکا اور نہ اسے روکا ، آزادی سے بولنے دیا گیا یہاں تک کہ ملزمہ سے ثبوت طلب کئے بغیراور فریق مخالف سے وضاحت حاصل کئے بغیر کئی افراد نے شیخ کو زدوکوب کیا ۔یہ حقیقت سنی سنائی نہیں بلکہ رکارڈ شدہ ویڈیو سے ظاہر ہے ۔میٹنگ ہال میں جو کچھ ہوا وہ رکارڈ ہوا ہی ، اس رکاڈنگ نے جمعیت اور علماء کے تئیں جماعت میں بیحد انتشار برپا کیا۔

اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے میں چند امور ذکر کرنا چاہتا ہوں جو جمعیت وجماعت دونوں کے لئے اہم ہیں ۔

(1) اس معاملے میں سب سے اہم ترین معاملہ ایجنڈے کا ہے ، غورکرنے کا مقام ہے کہ شہری جمعیت کے ساتھ صوبائی جمعیت کی بیٹھک ہے اور ایجنڈا طے نہیں ہے ، ایجنڈارومن اردو میں حاصل شدہ کئی صفحات پر مشتمل درخواست ہے ، اس درخواست سے جو بات سمجھ میں آجائے یا جس سطر پہ نظر چلی جائے اس پہ بات شروع کردینی ہے۔اگر یہ دعوی کیاجائے کہ ایجنڈا طے شدہ تھا تو یہ دعوی باطل ٹھہرے گا کیونکہ عاقلہ کی جن باتوں سے فتنہ برپا ہوا وہ درخواست میں مذکور نہیں ہے پھر ایجنڈا طے کیسے ہوا؟ اس لئے چھوٹی بڑی تمام قسم کی جمعیات کو چاہئے کہ کسی بھی میٹنگ کے لئے ایجنڈا پہلے سےطےشدہ ہواور حاضرین کو اسی کے تحت گفتگو کی اجاز ت ہو۔

(2)جمعیت کی میٹنگ میں ایجنڈے کے تحت مدعو کئے گئے تمام افراد گفتگو میں شریک ہوسکتے ہیں مگر کسی کی غلطی ذکر ہوجانے پر دوچندافرادکا اپنی مرضی سے سزا دینے لگ جانا نہ صرف باہم مشورہ کے خلاف ہے بلکہ سماجی اور قانونی اعتبار سے بھی جرم ہے ۔ اگر لنگر ہاوس میں کسی عورت نے ایک عالم دین پر الزام لگایا تو اس کا فیصلہ مکمل کمیٹی کرتی پھر کوئی قدم اٹھایا جاتا مگر یہاں یک طرفہ بات سن کر، مجلس کے فیصلے ، دلائل اور فریق مخالف کی پرواہ کئے بغیر چندلوگوں نے اپنی مرضی سے عالم کو مارا پھر انہوں نےبغیر اتفاق رائے کے استعفی طلب کیاجس سے یہ شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں یہ پہلے سے منصوبہ بندی تو نہیں ؟یہاں تک کہ رسوائی والے مناظر قید کرکے وائرل بھی کردئے گئے نہ عالم کی عزت کا خیال رہا اور نہ ہی جمعیت وجماعت کی پرواہ رہی۔

(3) چونکہ جمعیت عوام کی خیروبھلائی کے لئے بنائی جاتی ہے اس لئے کسی کوعہدہ دیتے وقت صلاحیت وصالحیت دونوں دیکھنا ازحدضروری ہے ۔غلطی سے اگر ایسا کوئی ذمہ دار منتخب ہوگیا ہو جو جماعت کا خیرخواہ نہیں تو اسے برطرف کردینا چاہئے ۔

(4) شہری جمعیت حیدرآبادوسکندرآباد اورصوبائی جمعیت تلنگانہ کے حالات سے معلوم ہوتا ہے مرکزی جمعیت اہل حدیث دہلی کی نگرانی میں ان دونوں کی تنظیمی باڈی کو درست کیا جائے تاکہ جمعیت اور جماعت کو فتنہ وفساد سے محفوظ رکھا جائے ۔

(5)حساس قسم کے مسائل کے حل کے لئے ارباب حل وعقد ہی مدعو کئےجائیں اور ایسے لوگوں کو اس بیٹھک سے دور رکھاجائے جو مسائل حل کرنے کے بجائے فتنے کا سبب بن سکتے ہوں۔

(6)بہت سے مسائل علمی شخصیات اوراصحاب شر ف کی عزت وآبروسے جڑے ہوتے ہیں ، ایسے مسائل عوام میں ظاہر ہونے سے پورے علمی حلقے کی رسوائی ہوتی ہے ایسے مسائل کے حل کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ موقع پرستوں کو کسی قسم کا شہ نہ ملے بلکہ یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ آن رکارڈ ہواور نہ ہی کسی اور ذریعہ سے اس کی تشہیر ہوجیساکہ مذکور حادثہ سے ہمیں سبق ملا۔

(7) جہاں تک مسئلہ عوام کا ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ عوام سے پہلے عاقلہ کا کام تھا کہ اسے اپنے مسئلے میں پوری طرح سوچ بچارلینا چاہئے کہ کیا بولنا ہے ؟ زنا کا معاملہ بچوں کاکوئی کھیل نہیں ہے ۔اگر اس نے واقعی جان بوجھ کر شیخ پرتہمت لگائی تھی تو فاسقہ وفاجرہ کہلائے گی لیکن اگر سچ بیان کررہی ہے اس یقین کے ساتھ کہ زنا کی تہمت لگاکر میں چار عینی گواہ نہیں پیش کرسکوں گی تو ایسی صورت میں اس مسئلے کو چھیڑنا دین سے عدم واقفیت کے ساتھ ایک عالم کی آبروزیری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ زنا کی تہمت پر چار عینی گواہ نہ پیش کرسکے تو الزام لگانے والے حدقذف ہےبلکہ تہمت لگانے والوں میں شامل سب قابل حد ہیں جیسے واقعہ افک میں حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے ساتھ ہوا۔ اس لحاظ سے مارنے والوں کو دہری سزا ملنی چاہئے، ایک سزاظلم کی اور دوسری سزاتہمت میں شامل ہونے کی ۔یہ الگ بات ہے کہ متہم اگر معاف کردے تو حدقذف اورظلم کی سزا دونوں معاف ہوسکتی ہیں۔

(8) واقعہ افک میں عوام کی یہ رہنمائی موجود ہے کہ اگر اچھے لوگوں پر تہمت لگائی جائے تو تہمت سنتے ہی فورا اسے جھوٹ اور بہتان قرار دے ۔ کیا آپ نے اوپر کی باتوں سے یہ نہیں جان لیا کہ خود تہمت لگانے والی/والا اگر چار گواہ پیش کرنے کی قدرت نہ رکھتی/ رکھتا ہو تو اسے بھی اپنی زبان بندرکھنی چاہئے پھر عوام اس مسئلے میں کیوں کر اٹکل لگائے گی ۔ ہاں جسے اپنی آخرت برباد کرنی ہووہ اٹکلیں لگائے اور بے قصور کو جو چاہے کہے ۔

(9)واقعہ افک سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متہم نے اپنی برات کا اظہار نہیں کیا بلکہ الزام لگانے والے کے ذمہ ثبوت وگواہ پیش کرنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے : البینۃ علی المدعی یعنی دلیل دینا دعوی کرنے والے ذمہ ہے ۔ اسی طرح یہاں پر رسول اللہ کا یہ فرمان بھی یادکرنا چاہئے: اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا(صحیح مسلم:۱۷۱۱)

اس لئے شیخ حسین مدنی کی طرف سے وضاحتی بیان طلب کرنا صحیح نہیں ہے وہ اس وقت کس صدمے میں ہوں گے وہی جان سکتے ہیں ۔ انہوں نے ایف آئی آر کیا تھا جو صفائی طلب کرنے والوں کے حق میں کافی ہے اگرچہ کسی کے کہنے پہ انہوں نے واپس لے لیا۔

(10)واقعہ افک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن پر زناکی تہمت لگائی جائی اور گواہ نہ پیش کئے جاسکیں تو پھر مومن کی برات کا اعلان کیا جائے جس طرح اللہ نے سیدہ عائشہ کی برات کا اعلان کیاتاکہ  اس کی عزت دوبارہ بحال ہوسکے لہذا جمعیت وجماعت کے ذمہ واجب ہے کہ ملزمہ اگر گواہ نہ پیش نہ کرسکے تو شیخ حسین مدنی کی برات کا اعلان کریں ۔

جان رکھیں کہ ایک عام مسلمان کی عزت پامال کرنا حرام ہے تو جو وارثین انبیاء ہیں ان کی عزتوں کو اچھالنا کس قدر سنگین جرم ہے ۔ ہم میں سے کوئی بھی گناہوں سے پاک نہیں ہے مگر ہم سب کو اپنی اپنی عزت پیاری ہے اور اسلام نے سب کی عزتوں کی حفاظت کی ہے پھر ہم کیوں عداوت ودشمنی میں کسی کی عزت اچھال دیتے ہیں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام ہمیں نہیں معلوم کہ جو کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا اللہ تعالی قیامت کے روز اس کے عیب کو چھپائے گا۔ (مسلم:2699)

منکر پر نکیر بلاشبہ کرنا چاہئے مگر حکمت کے ساتھ اور تنہائی میں ۔جیسے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا عیب کوئی نہ جانے ویسے ہرکوئی چاہتا ہے اس کا عیب دوسرا نہ جانے ۔ اس پہلو پر تفصیل سے میں نے "رازچھپانے کے فوائداور اس کوظاہر کرنے کے نقصانات" میں ذکرکیا ہے جو میرے بلاگ، محدث فورم ، اردومجلس فورم اور دیگر سوشل سائٹس پر مل جائے گا۔ اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔