السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔
ایک بہت اہم سوال ہے جس کا جواب بہت جلد چاہئیے جواب کے آخر میں اپنا نام ضرور لکھیں کیونکہ یہاں کچھ لوگوں کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے آپکے اس جواب کو آپکے نام کے ساتھ دکھانا ہے تاکہ لوگ تسلیم کر لیں۔
گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب دے کر ہم تمام کی اصلاح کریں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی ظہر نماز قضا ہو گئی ہو اور عصر نماز کی جماعت کھڑی ہو تو وہ شخص کیا کرے ؟ ظہر کی نیت کر کے عصر کی جماعت میں شامل ہو جائے یا پہلےعصر پڑھے پھر ظہر پڑھے ، دونوں صورتوں میں صحیح کیا ہے یا پھر ان دونوں میں افضل صورت کونسی ہے؟ آپ کے جواب کا ہمیں بہت شدت سے انتظار رہے گا۔
جزاک اللہ خیرا
سائل : ظہیراحمد نیازاحمد سلفی
الجواب بعون اللہ الوھاب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب : اگر عصر کی جماعت ہونے میں کچھ وقت باقی ہے تو اس دوران ظہر کی نماز ادا کرلیں اور اگر جماعت شروع ہونے والی ہے یا ہوگئی ہےتو آپ ظہر کی نیت سے امام کے ساتھ مل جائیں ۔ یہ آپ کی ظہر کی نمازہوگئی پھر بعد میں عصر کی نماز پڑھ لیں ۔ جنگ خندق کے موقع سے رسول اللہ ﷺ سے عصر کی نماز فوت ہوگئی تو آپ نے پہلے عصر کی نماز پڑھی حالانکہ مغرب کا وقت تھا اور پھر مغرب کی نماز پڑھی ۔ حدیث اس طرح سے آئی ہے ۔
أنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ، جَاءَ يَومَ الخَنْدَقِ، بَعْدَ ما غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يا رَسولَ اللَّهِ ما كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ، حتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: واللَّهِ ما صَلَّيْتُهَا فَقُمْنَا إلى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ وتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ ما غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ.(صحيح البخاري:596)
ترجمہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں چار نمازوں کے چھوٹنے کا ذکر ہے ، اس موقع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے وہ نماز نہیں پڑھی جس کا وقت تھا بلکہ آپ نے فوت شدہ نمازوں کو ترتیب سے اد ا کیا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
إنَّ المشرِكينَ شغَلوا النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ عن أربعِ صلَواتٍ يومَ الخندقِ فأمرَ بلالًا فأذَّنَ ثمَّ أقامَ فصلَّى الظُّهرَ ثمَّ أقامَ فصلَّى العصرَ ثمَّ أقامَ فصلَّى المغربَ ، ثمَّ أقامَ فصلَّى العِشاءَ(صحيح النسائي:661)
ترجمہ: جنگ خندق (احزاب) کے دن مشرکین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازوں سے روکے رکھا، چنانچہ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عشاء پڑھی۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح النسائی میں صحیح لغیرہ قرار دیا ہے ۔
اس لئے اگر کسی کی ظہر کی نماز چھوٹ گئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہے تو وہ اس نماز میں ظہر کی نیت سے شامل ہوجائے ، یہ اس کی ظہر کی نماز ہوجائے گی پھر اس کے بعد عصر کی نماز ادا کرلے ۔ یہ افضل ہے تاہم کوئی پہلے عصر کی نماز پڑھ لے پھر بعد میں ظہر کی قضا کرے تو یہ صورت بھی جائز ہے ، یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ امام ومقتدی کی نیت میں فرق ہوسکتا ہے ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف۔ سعودی عرب
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔