نبی ﷺ کے سایہ پہ مقبول احمد سلفی اور محمد
عبدالقیوم حیدرقریشی بریلوی کا مکالمہ
میں نے اپنے فیس
بوگ گروپ "اسلامیات " میں ایک مختصر پوسٹ گنبدخضراء کے سایہ سے متعلق
شیئر کیا تھا اس پوسٹ پہ ایک بریلوی نے مجھ سے نبی ﷺ کے سایہ کے متعلق بحث کی ،
میں نے دلائل کی روشنی میں نبی ﷺ کا سایہ ثابت کردیا، بالآخر بریلوی ہار مان
کربھاگ گیا۔ وہ مکالمہ استفادہ کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں ۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:گویا کہ بریلویت سے قبل نبی کے سائے والے نظریے کا کوئی وجود نھیں
ھے؟
مقبول احمد سلفی :آپ کی بات واضح نہیں ہے ، اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نبی ﷺ کے سائے کا
انکار بریلویوں سے پہلے بھی کسی نے نہیں کیا اور ان کے بعد بھی کوئی ان کے علاوہ
انکار نہیں کرتا۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:نبی کے سایے کے نہ ھونے کے قائلین متقدمین میں سے کافی علماء ھیں.
اور یہ مسئلہ عقیدے کا نھیں محض عقیدت کا ھے۔
مقبول احمد سلفی :متقدمین کے دلائل سے ذرا نبی ﷺ کا سایہ نہ ہونا ثابت کرکے دکھائیں
۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:
حکیم ﺗﺮﻣﺬﯼ
ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻧﻮﺍﺩﺭ ﺍﻻﺻﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺫﮐﻮﺍﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻋﻦ ﺫﮐﻮﺍﻥ ﺍﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻢ ﯾﮑﻦ ﯾﺮﯼ ﻟﮧ ﻇﻞ ﻓﯽ ﺷﻤﺲ ﻭﻻ ﻗﻤﺮ ﺳﺮﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﻣﯿﮟ۔ ( ﺍﻟﻤﻮﺍﮨﺐ ﺍﻟﻠﺪﻧﯿﮧ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺸﻤﺎﺋﻞ ﺍﻟﻤﺤﻤﺪﯾﮧ ﺻﻔﺤﮧ 30 ﻣﻄﺒﻊ ﻣﺼﺮ .. ﺍﻣﺎﻡ ﻧﺴﻔﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﺪﺍﺭﮎ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻘﻞ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻗﺎﻝ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺎ ﺍﻭﻗﻄﻊ ﻇﻠﮏ ﻋﻠﯽ ﺍﻻﺭﺽ ﻟﺌﻼ ﯾﻀﻊ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻗﺪﻣﮧ ﻋﻠﯽ ﺫﺍﻟﮏ ﺍﻟﻈﻞ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮍﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﻗﺪﻡ ﻧﮧ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ۔ ( ﻣﺪﺍﺭﮎ ﺷﺮﯾﻒ ﺝ2 ﺻﻔﺤﮧ 103 .....
ﻭﻗﺖ
ﮐﮯ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺎﺿﯽ ﻋﯿﺎﺽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ ﻭﻣﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﻦ ﺍﻧﮧ ﻻﻇﻞ ﻟﺸﺨﺼﮧ ﻓﯽ ﺷﻤﺲ ﻭﻻ ﻓﯽ ﻗﻤﺮ ﻻﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﻧﻮﺭﺍ ﻭﺍﻥ ﺍﻟﺬﺑﺎﺏ ﮐﺎﻥ ﻻ ﯾﻘﻊ ﻋﻠﯽ ﺟﺴﺪﮦ ﻭﻻ ﺛﯿﺎﺑﮧ۔“ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﻭ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺑﺎﺭﮎ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ۔ ( ﺷﻔﺎ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﻘﺎﺿﯽ ﻋﯿﺎﺽ ﺝ1 ، ﺻﻔﺤﮧ 342 ۔ 343
ﺍﻣﺎﻡ
ﻋﻼﻣﮧ ﺍﺣﻤﺪ ﻗﺴﻄﻼﻧﯽ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ﻗﺎﻝ ﻟﻢ ﯾﮑﻦ ﻟﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻇﻞ ﻓﯽ ﺷﻤﺲ ﻭﻻ ﻗﻤﺮ ﺭﻭﺍﮦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺫﮐﻮﺍﻥ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺳﺒﻊ ﮐﺎﻥ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻮﺭﺍ ﻓﮑﺎﻥ ﺍﺫﺍ ﻣﺸﯽ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﺍﻭ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﻟﮧ ﻇﻞ۔“ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺍﻃﮩﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﻣﯿﮟ، ﺍﺑﻦ ﺳﺒﻊ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺟﺴﻢ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ( ﻣﻮﺍﻟﺐ ﺍﻟﻠﺪﻧﯿﮧ ﺝ1 ﺻﻔﺤﮧ180 ﺯﺭﻗﺎﻧﯽ ﺝ4 ﺻﻔﺤﮧ 220
ﻣﺎﻡ
ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻣﮑﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ﻭﻣﻤﺎ ﯾﻮﯾﺪ ﺍﻧﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺻﺎﺭ ﻧﻮﺭﺍ ﺍﻧﮧ ﺍﺫﺍ ﻣﺸﯽ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﺍﻭﺍﻟﻘﻤﺮ ﻻ ﯾﻈﮭﺮ ﻟﮧ ﻇﻞ ﻻﻧﮧ ﻻ ﯾﻈﮭﺮ ﺍﻻ ﻟﮑﺸﯿﻒ ﻭﮬﻮ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺪ ﺧﻠﺼﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻣﻦ ﺳﺎﺋﺮ ﺍﻟﮑﺸﺎﻓﺎﺕ ﺍﻟﺠﺴﻤﺎﻧﯿﮧ ﻭﺻﯿﺮﮦ ﻧﻮﺭﺍ ﺻﺮﻓﺎ ﻻ ﯾﻈﮭﺮ ﻟﮧ ﻇﻞ ﺍﺻﻼ۔“ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺎﮎ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﻧﮧ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﻣﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺜﯿﻒ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍﺋﮯ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﮐﺜﺎﻓﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ “ﻧﻮﺭ ﻣﺤﺾ“ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ (ﺍﻓﻀﻞ ﺍﻟﻘﺮٰﯼ ﺻﻔﺤﮧ72
ﺤﻘﻖ
ﻋﻠﯽ ﺍﻻﻃﻼﻕ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻧﺒﻮﺩ ﻣﺮﺁﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺍ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﺩﺭ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﻭ ﻧﮧ ﺩﺭ ﻗﻤﺮ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﻣﯿﮟ۔ ( ﻣﺪﺭﺍﺝ ﺍﻟﻨﺒﻮۃ ﺝ1 ، ﺻﻔﺤﮧ21
ﺍﻣﺎﻡ
ﺭﺑﺎﻧﯽ ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﺮﮨﻨﺪﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﺒﻮﺩ ﺩﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﺍﺯ ﺷﺨﺺ ﻟﻄﯿﻒ ﺗﺮﺍﺳﺖ ﭼﻮﮞ ﻟﻄﯿﻒ ﺗﺮﺍﺯﺩﮮ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺩﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﺒﺎﺷﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺎﯾﮧ ﭼﮧ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﺍﺭﺩ۔“ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻟﻄﯿﻒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻄﯿﻒ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﭘﮍﺗﺎ۔ ( ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺝ3 ﺻﻔﺤﮧ 147 ﻣﻄﺒﻮﻋﮧ ﻧﻮ ﻟﮑﺸﻮﺭ ﻟﮑﮭﻨﺌﻮ۔
ﺍﻣﺎﻡ
ﺭﺍﻏﺐ ﺍﺻﻔﮩﺎﻧﯽ (ﻡ 450 ) ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ ﺭﻭﯼ ﺍﻥ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎﻥ ﺍﺫﺍ ﻣﺸﯽ ﻟﻢ ﯾﮑﻦ ﻟﮧ ﻇﻞ۔“ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭼﻠﺘﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ (ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﻟﺮﺍﻏﺐ
ﻣﺎﻡ
ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺑﻦ ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : “ ﺍﺯ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﺁﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺍﺩﺭ ﺑﺪﻥ ﻣﺒﺎﺭﮐﺶ ﺩﺍﺩﮦ ﺑﻮﺩﻥ ﮐﮧ ﺳﺎﯾﺌﮧ ﺍﯾﺸﺎﮞ ﺑﺮﺯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﯽ ﺍﻓﺘﺎﺩ۔“ ﺟﻮ ﺧﺼﻮﺻﯿﺘﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﺍﻗﺪﺱ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﺪﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
میں نے اقوال اس لیے نقل کیے ھیں کہ ان شخصیات کو عقل کا اندھا
کہنے سے گریز کیا جائے. . باقی عرض کیا کہ یہ مسئلہ عقیدت کا ھے اگر دونوں ظرف
اقوال موجود ھیں بھی تو میں عدم وجود سایہ کی طرف ھوں گا. اب آپ دلائل نقل فرما
لیں۔
مقبول احمد سلفی : میں نے عقل کا اندھا گنبد خضراٰء کے پس منظر میں کہا ہے جس
پرہماری پوسٹ ہے ۔ ضمنا نبی ﷺ کے سایہ کی بھی بات کی ہے جو کہ نصوص صحیحہ سے ثابت
ہے ۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:ﺟﺲ
ﻃﺮﺡ ﻋﻘﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﮯ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ ... یہ جملہ آپ کے
سامنے ھے......
مقبول احمد سلفی :میں حق قبول کرتا ہوں ، چاہے کسی کی جانب سے ہو۔ میں نے اپنی غلطی
کی اصلاح کردی ۔ کیا آپ کے اندر غلطیوں کی اصلاح کا جذبہ ہے ؟
آپ نے جتنی بھی باتیں کی سوائے ایک کے سب اقوال رجال ہیں ، اور
صحیح دلائل کے برخلاف اقوال رجال کی کوئی حیثیت نہیں ۔
ایک دلیل ذکر کی ہے : عن ذكوان أن رسول الله صصص لم يكن يرى له ظل
في شمس ولا قمر۔
یہ روایت مرسل ہے ، اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ۔ دیکھیں الخصائص
الكبرى (1/122)
باقی آپ کی پیش کردہ اقوال رجال سے استدلال نہیں کیاجاسکتا اگر اور
بھی کوئی دلیل ہو تو پیش کریں ۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:ﻧﺒﯽ
ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺍﻗﺪﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺏ ﻓﻀﺎﺋﻞ ﻭﻣﻨﺎﻗﺐ ﺳﮯ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﮐﻔﺮﻭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺪﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ،.. اس سلسلہ میں حدیث
مرسل ھو یا اقوال علماء. سر آنکھوں پر۔
مقبول احمد سلفی :نبی ﷺ کا سایہ نہ ہونے کا نظریہ رکھنے کی دلیل کتاب وسنت سے چاہئے
، اقوال علماء سے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی ۔ ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین ۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:نہ ھو حکم شرعی تو ھے نھیں. کہ اسلام سے خارج ھو جانے کا خطرہ ھو.
میرے لیے کافی ھے کہ کہ میں آپ کی بنسبت علمائے حق پر اعتماد کروں. باقی آپ نے جو
حکم داغنا ھے داغ دیں.
مقبول احمد سلفی :آپ لوگ کبھی اپنی کسی غلطی کا اعتراف نہیں کرسکتے، چہ جائیکہ کتاب
و سنت کے دلائل ٹھکرانے پڑے ، اس کے وجوہات میں نے پوسٹ میں واضح کردیا ہے ۔
نبی ﷺ کا سایہ مبارک
============
آپ ﷺ کا سایہ تھا ، یہ بات عقلا اور نقلا دونوں سے ثابت ہے ۔ شرعی
دلائل ملاحظہ ہوں ۔
(1) ﴿أَوَلَم يَرَوا إِلىٰ ما خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيءٍ
يَتَفَيَّأُ ظِلالُهُ عَنِ اليَمينِ وَالشَّمائِلِ سُجَّدًا لِلَّـهِ وَهُم داخِرونَ ﴾
(النحل : 48)
کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا ؟کہ اس
کے سائے دائیں بائیں جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہیں اور عاجزی کا اظہار
کرتے ہیں ۔
(2) ﴿وَلِلَّـهِ
يَسجُدُ مَن فِي السَّماواتِ وَالأَرضِ طَوعًا وَكَرهًا وَظِلالُهُم بِالغُدُوِّ
وَالآصالِ ﴾ (الرعد: 15)
اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی سب مخلوق خوشی اور نا خوشی سجدہ
کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح و شام ۔
ان دونوں آیات مقدسہ سے ثابت ہوا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ
تعالیٰ نے جتنی اور جتنی اقسام کی مخلوق پیدا فرمائی ہے ان کا سایہ بھی ہے اور
رسول اللہ ﷺ بھی تو بہر حال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ لہذا دوسری تمام مخلوق کی
طرح لا محالہ آپ کا بھی سایہ تھا ۔
(3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور عین نماز کے دوران آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک
اچانک آگے بڑھایا ، پھر جلد ہی پیچھے ہٹا لیا ۔ ہم نے آپ ﷺسے آپ کے اس خلاف معمول
نماز میں جدید عمل کے اضافہ کی وجہ دریافت کی تو ہمارے اس سوال کے جواب میں آپ ﷺنے
فرمایا کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت لائی گئی ۔ میں نے اس میں بڑے اچھے پھل دیکھے
تو میں نے چاہا کہ اس میں سے کوئی گچھا توڑلوں ۔ مگر معاحکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔
میں پیچھے پلٹ گیا ۔ پھر اسی طرح جہنم بھی دکھائی گئی ۔ حتى رأيت ظلى وظلكم میں نے
اس کی روشنی میں اپنا اور آپ لوگوں سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف
اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔(مستدرك الحاكم ج4ص 456) حديث صحيح
(4) حضرت صفیہ بنت حیی فرماتی ہیں کہ ہم حج کی سعادت حاصل کر کے
واپس آ رہے تھے کہ میری سواری بہک گئی جب کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس
ایک اونٹ زائد تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :افقرى
اختك صفية جملك -آپ اپنا اونٹ سواری کے لئے عاریتا صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے
دو ۔تو حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنا اونٹ یہود یہ
عورت کو کیوں دوں؟اس تلخ بات پر رسول اللہ ﷺسیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
ناراض ہو گئے اور تین ماہ تک ان کے گھر بھی تشریف نہ لائے حضرت زینب فرماتی ہیں :
فلما كان شهر ربيع الأول دخل عليها فرأت ظله فقالت: إن هذا لظل رجل
وما يدخل علي النبي - صلى الله عليه وسلم - فمن هذا؟ دخل النبي صلى الله عليه
وسلم. (مجمع الزوائد ج4 ص 324)
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ جب ناراضگی میں محرم
اور صفر گزر گئے اور ربیع الاول کا مہینہ آ پہنچا تو رسول اللہ ﷺمیرے ہاں تشریف
لائے ہوا یوں کہ میں نے آپ سے پہلے آپ کا سایہ دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ تو
انسانی سایہ ہے جو میرے گھر میں گھس رہا ہے۔
(5) حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد بزرگوار حضرت عبداللہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد میں شہادت پا گئے تو ان کے اہل و عیال ان کے پاس
اکٹھے ہو کر رونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مازالت الملائكة تظله باجنحتها حتى دفعتموها»(بخارى كتاب الجنائز)
جب تک تم لوگ اس کو یہاں سے اٹھا نہیں لیتے اس وقت تک فرشتے اس پر
اپنے پروں کا سایہ کرتے رہیں گے۔"
اس حدیث سے نوری کا بھی سایہ ثابت ہورہا ہے تو بشر کا سایہ درجہ
اولی ۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:کیا ظل سے مراد ھمیشہ سایہ ھی ھوتا ھے؟ تاریک جسمانی سایہ؟ویسے
جھگڑا لفظ ظل کے ثبوت کا ھے یا تاریک جسمانی سائے کے ثبوت کا؟
مقبول احمد سلفی :جو حق تسلیم نہیں کرتا وہ ایسے ہی باطل تاویلات سے خود کو جهوٹی
تسلی دیتا ہے.
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:برادر.قرآن و حدیث میں اپنی زاتی تاویلات کو آپ حق کا نام دیں گے
تو قبول و رد دونوں کی گنجائش موجود ھے۔
مقبول احمد سلفی :میرے پیش کردہ نصوص میں تاویلات کا ذکر ہی نہیں ، اس لئے براہ راست
میں نے دلائل پیش کیا ہے. اسے نص صریح کہتے ہیں جس میں تاویل کی ضرورت نہیں
ہوتی...تاویلات تو آپ کے پاس ہیں . صریح نص کی فاسد تاویل ...
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:لفظ ظل ھی کو ثابت کر رھے ھیں جسمانی سائے کا ثبوت تو پھر بھی نھیں
ھے۔
مقبول احمد سلفی :یہ سب تاویل چهوڑ کے کوئی صریح دلیل ہو تو پیش
کریں وگرنہ میرے دلائل پر ایمان لائیں اور سایہ تسلیم کریں.
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:قرآن و حدیث سر آنکھوں پر. مگر ظل کے لفظ میں سایے کے معنی کا حصر
ھے تو پیش فرما دیں. آپ کے دلائل پر ایمان لانے کو آپ کی اپنی پوری ٹیم ھے نا.
اپنی تاویلوں سے انھیں کو ھی مطمئن رکھیں.. جزاک اللہ استاذ. جزاک اللہ شیخ
مقبول احمد سلفی :قرآن و حدیث سر آنکهوں پہ ہوتا تو آپ کی ٹولی دین کا تیا پانچہ
نہیں کرتی. رہی ہماری جماعت کی بات ....
تو اس جماعت کا ادنی فرد بهی بغیر دلیل کے کوئی بات تسلیم نہیں
کرتا.
ظل سایہ کو کہتے ہیں . اس میں کون سا اجمال ہے ؟
ظل کا لفظ جہاں دیگر مخلوق کے لئے قرآن میں استعمال ہوا وہیں
خصوصیت کے ساته نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بهی آیا ہے.
اب اس کے بعد بهی کوئی انکار کرے تو اس کی ہدایت کے لئے دعا کرسکتے
ہیں. اور بس۔
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:جب لغت میں ظل بھت سے معنی کے لیے مستعمل ھے تو آپ کے پاس ظل بمعنی
سایہ کا حصر کیسے؟ ظل تو اللہ کی زات سمیت سب کے لیے استعمال ھوا. جھگڑا جسمانی
سائے کا ھے. لفظ ظل کا نھیں ھے برادراور ھاں جگتیں لگانے اور اپنی جماعت کی
تعریفوں کی ضرورت نھیں ھے. اپنے پاس رکھیے
مقبول احمد سلفی :میں نے اپنی جماعت کی خصوصیت بتلائی ہے، اسے تعریف سمجهیں یا
حقیقت..
سچ کہا ہے کسی نے :
"جهوٹ کو پیر نہیں ہوتا"اس لئے چل نہیں سکتا.
اوپر آپ نے اسی لفظ ظل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی سائے
کا انکار کیا ہے. اور کتنے سارے اقوال پیش کئے ہیں.
جب ان دلائل سے بات نہیں بنی تو اب اپنے ہی پیش کردہ اس لفظ کی
باطل تاویل کرنے لگ گئے...لاحول ولا قوة الا باللہ
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:بھت دور کی کوڑی لائےمولوی صاحب. سایے کا انکار کیا ھے لفظ ظل کا
نھیں. ھمارے پاس سائے کے معنی کے انکار کے لیے تائید علماء موجود ھے. مگر آپ کے
پاس ظل بمعنی سایہ جسمانی کے حصر کی دلیل نھیں ملے گی
لفظ ظل تو اللہ کے لیے بھی ھے فرشتوں کے لیے بھی. سورج کے لیے بھی.
تو اب ظل بمعنی جسمانی سایہ منطبق فرما دیں
مقبول احمد سلفی :آپ نے ذکوان والی روایت پیش کرکے لفظ ظل سے جسمانی سائے کا انکار
کیا ہے وہی لفظ ظل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حدیث میں آیا ہے تو یہ سایہ
غیرجسمانی ہوگیا ؟؟
محمد عبدالقیوم حیدر قریشی:ظل ھونا نھیں ظل نہ ھونا نبی کے لیے آیا ھے. لھذا جب ظل نھیں تو
تعین معنی کی کیا حاجت؟. تم آپ ظل ثابت کر رھے ھیں تو دلیل حصر دے دیں.لم یکن یری
لہ ظل
مقبول احمد سلفی : انسان کے لئے جب ظل کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے اس کا جسمانی
سایہ ہی مراد ہوتا ہے ، یہی عرف عام ہے ، اگر کوئی اس معنی سے ہٹ کر دوسرا معنی
مراد لے تو اس کے لئے کوئی قرینہ صارفہ چاہئے ۔ بطور مثال اگر میں کہوں : "
ظل محمد عبدالقیوم حیدر قریشی" تو اس کا معنی صرف اور صرف یہی ہوگا "
محمد عبدالقیوم حیدرقریشی کا جسمانی سایہ " اگر اس معنی کو چھوڑکر دوسرا معنی
مراد لیا جائے تو صحیح نہیں ۔ اور بغیر قرینہ کے دوسرا معنی مرادبھی نہیں لے سکتے
۔
آپ کو چونکہ ماننا نہیں ہے تو بال کی کھال نکال رہے ہیں ۔ آپ کا
کہنا یہ ہے کہ ظل سے مراد جسمانی سایہ حصر کے ساتھ اس کی دلیل کیا ہے ؟۔آپ کی
معلومات کے لئے ،،،،،، دلیل اس کی نہیں چاہئے بلکہ عرف عام سے دوسرا معنی مراد
لینے میں دلیل چاہئے ۔
چلیں آپ کو حصر کے ساتھ بھی بتاتے ہیں کہ جب ظل انسان کے ساتھ
استعمال ہو تو اس کا جسمانی سایہ مراد ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل دیکھیں:
مسلم شریف میں ہے۔
وَقْتُ الظُّہْرِ اذا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجلِ
کَطُوْله
’’ظہر کا وقت سورج ڈھلے سے شروع ہو کر آدمی کے قدر کے برابر سایہ
ہو جانے تک ہے۔‘‘
یہاں اس حدیث میں ظل سے صرف اور صرف انسانی سایہ مراد ہے اگر کوئی
دوسرا معنی مراد لے تو عبث ہے ۔
ایک دوسری روایت :
صلی بی العصر حین صار ظل کل شئی مثلہ(ترمذی۔ ابو داؤد)
’’نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے عصر اس وقت
پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو چکا تھا۔‘‘
یہ حدیث مزید واضح کردیتی ہے کہ اس ظل سے مراد صرف اور صرف ہرچیزکا
جسمانی سایہ ہے ۔ اگر کوئی اس سے ہٹ کوئی دوسرا معنی مراد لیتا ہے تو پھر نماز کے
اوقات اور اس کا سارا کا سار ا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
یہ میری آخری دلیل تھی جس سے لاجواب ہوکر بریلوی گروپ چھوڑگیا۔ اس آخری
کلام کو دس لوگوں نے لائک کیاجن میں صفی الرحمن اسماعیل،حسین ربانی،ناصرسلفی،شازیہ
احمد، سراج احمد،قمرالزماں،چاچاسہیل، سلیمان اعجاز،غلام فاروق بلوچ اور ایس کے
سواتی ہیں ۔
آخرمیں لوگوں نے اس
مکالمے پہ بہت سے تعریفی تبصرے کئےچند
ایک یہاں ذکر کرتاہوں ۔
عبدالقدیر محمدی :اللہ آپکو جذا ہخیر عطا فرماہیے شیخ آپ دین کے معاملے میں لوگوں
کہں رہنماہی کر تے ہیں۔
عبدالوحید ذکاء اللہ سنابلی : الله آپ کو جزائے خیر دے آپ نے کتنے بہتر انداز
میں مخالف کا منہ بند کر دیا۔
صفی الرحمن سلفی :الله تعالى شیخ مقبول احمد سلفی کو جزائے خیر دے اور ان کی حفاظت
فرمائے آمین
آج مجھے گنبد خضرا کا سایہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
سایہء مبارک کے تعلق سے چند دلیل کی ضرورت پڑی تو شیخ مقبول احمد سلفی صاحب کے
پوسٹس کی طرف رجوع کیا؛ میں جیسے جیسے شیخ کے دلائل پڑهے جارہا تھا ، مجھے لگ رہا
تھا کہ مخالف حق قبول کرنے پر ضرور آمادہ ہوجائے گا،لیکن وہ میدان چهوڑ گیا!الله
تعالى ہماری اور سبھی لوگوں کی صحیح رہنمائی فرمائے!
اطہر عمری : محمد عبدالقیوم حیدر قریشی کہاں چھپ گیا ۔ جواب ملا یا نہیں ۔
مقبول احمد سلفی : لاجواب ہونے کے بعد وہ خود ہی گروپ چھوڑگیا جو اس
بات کی دلیل ہے کہ اس کی ہارہوگئی یا اس نے اپنی شکشت تسلیم کرلی۔ الحمد للہ
اللہ تعالی منکرین سایہ نبی ﷺ کو ہدایت دے ۔ آمین
نوٹ : یہ مکالمہ بغیر کسی تبدیلی کے ہوبہو
نقل کیاگیاہے اس میں رتی برابربھی حذف واضافہ نہیں کیاگیا۔ نیچے دئے لنک پہ آپ خود
ہی اس کی حقیقت سے آشنا ہوسکتے ہیں ۔
1 comments:
Masha allah saikh bhut hi acha jawab dye barailwi bhai ko
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔