اپنے اندر فکر آخرت کیسے
پیدا کریں ؟
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ طائف
آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پیدا ہورہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں وفات پارہے ہیں ، دنیا میں ہرآنے والایہاں سے جارہا ہے اس لئے اس بات میں کسی کو شک واختلاف نہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہرکسی کو دنیا سے جانا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ جب اس دنیا میں آنے کے بعد ہمیں مرہی جانا ہے تو پھر اس دنیا کی کیا حقیقت ہے ، یہاں ہم کیوں آئے ہیں اور ہمیں دنیا میں کیا کرنا چاہئے ؟
یہ دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے یعنی ہمیں اللہ نے دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ تاکہ ہم اس کی بندگی کریں اور اس نے جو صراط مستقیم دیا ہے اس پر چلتے ہوئے زندگی کریں ۔ اللہ کے سوا کسی کو بقا نہیں ہے ، یہاں ہرکسی کی زندگی متعین ومحدود ہے جب اس کی زندگی کا متعین دن آجاتا ہےوہ اس دن یہاں سے کوچ کرجاتا ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ مسافر کی طرح چند لمحہ بسر کرنے کی جگہ ہے ،ہمارا اصل ٹھکانہ آخرت ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے ،اللہ کا فرمان ہے :يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ(غافر:39)
ترجمہ : اے میری قوم! یہ حیات دنیا متاع فانی ہے ، یقین مانوکہ قرار اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے۔
بلکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی گھڑی بھر کا ٹھکانہ ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (یونس:45)
کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک دنیا دار آیا ، فرعون آیا، قارون آیا، ہامان وشداد آیا مگر کسی کو اپنی فوج ، طاقت، سلطنت اور دنیا نے نہیں بچایا آخرکار دنیا چھوڑ کر سب کو جانا ہی پڑااس لئے کافر لوگ بھی موت سے انکار نہیں کرتے مگر وہ موت سے نصیحت نہیں لیتے اور مرنے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہیں ،اللہ کا فرمان ہے :
زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚقُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (التغابن:7)
ہر مسلمان آخرت پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ ایمان کے چھ ارکان میں ایک رکن آخرت پر ایمان لانا ہے بلکہ اس آیت کی روشنی میں سب پہلے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم یہ یختہ عیقدہ بنائیں کہ اس دنیا سے وفات پاجانے کے بعد اللہ تعالی سارے انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا اور سب کے عملوں کا حساب وکتاب ہوگا پھر آخرت سے متعلق قرآن وحدیث میں جتنی باتیں مذکور ہیں ان سب پر ایمان لانا ہے مثلا برزخ کی زندگی،قبر کی نعمتیں، قبر کا عذاب، اسرافیل علیہ السلام کا صور پھونکنا، قبروں سے دوبارہ زندہ ہوکرکھڑا ہونا، محشر میں سب کا جمع ہونا،اللہ کی عدالت قائم ہونا، حساب وکتاب، حوض کوثر، پل صراط اور جنت وجہنم میں داخلہ وغیرہ ۔
آخرت برحق ہے اور اس دنیا کی زندگی میں دراصل آخرت کی تیاری کے لئے ہی آئے اس لئے اللہ نے قرآن میں جابجا آخرت کی تیاری کا حکم دیا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر:18)
سورہ اسراء کی ایک آیت میں اللہ نے آخرت کی فکر کرنے کے ساتھ اس کی بہترتیاری کرنے والوں کو سعی مشکور(قدرکی جانے والی تیاری)کہہ کربشارت بھی دی ہے گویا وہاں فکرآخرت، تیاری اور نتیجہ تینوں بیان ہوا ہے، اللہ فرماتا ہے:
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا (الاسراء:19)
ترجمہ : جس نے آخرت کی فکر کی اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا (المزمل:20)
ترجمہ : اور جو نیکی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالی کے یہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے ۔
اس آیت سے سبق ملتا ہے کہ کل کے لئے خرچ کرنےاور کسی قسم کی قربانی دینےسے گریز نہیں کرنا چاہئے بلکہ آخرت میں بہتر بدلہ پانے کی امید میں ہر قسم کی خیروبھلائی کرتے رہنا چاہئے۔
یہاں ایک افسوسناک پہلو ذکرکرکے مضمون کے اصل ہدف کی طرف آؤں گا ۔ ہمارے دین کی اصل اور اس کا لب لباب آخرت کی تیاری اور اس کے ذریعہ آخرت کی کامیابی حاصل کرنا ہے،یہاں کی تمام دینی کارگزاریوں کا اصل ہدف آخرت کی تیاری ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت فکر آخرت سے حددرجہ غافل ہے جس سے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان بھی دوبارہ زندہ ہونے ، رب سے ملاقات کرنے اور آخرت کے حساب وکتاب کےمنکر ہوگئے؟۔انسانوں کی غفلت کی طرف اللہ تعالی نے بھی اشارہ کیا ہے ، رب العالمین کا فرمان ہے:
اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ (الانبیاء:1)
ترجمہ: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
مذکورہ باتوں تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےہمیں آخرت پر ایمان پختہ کرنے کے ساتھ اپنے اندر فکر آخرت پیداکرنےکی اشد ضرورت ہے ، آخر اسی بات سے ہم میں اور کافروں میں دنیاوی زندگی کے مقصد میں فرق ہے ، وہ آخرت سے غافل دنیا کو ہی مسکن سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک اصل مسکن آخرت ہے۔چنانچہ میں سطورذیل میں چند اہم نکات ذکر کرناچاہتا ہوں جوفکر آخرت پیدا کرنے میں معاون ہوں گے ، ان شاء اللہ۔
(1)فکرآخرت پیداکرنے میں اہم رول اس احساس کا ہے کہ ہم ہمہ وقت اس شعورواحساس کے ساتھ جئیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔وہ ہمارے عملوں سے باخبر ہے ،اس سے چھپاکر ہم کوئی بھی کام انجام نہیں دے سکتے ہیں۔اللہ کا فرمان ہے : أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (العلق:14)
ترجمہ: کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے ۔
اس احساس کے ساتھ جینے والا مسلمان ایمان کی حفاظت کرے گا، عمل صالحہ کی طرف گامزن رہے گا اور برائی کے انجام سے خوف کھاتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرتا رہے گا، گویا وہ ہمیشہ فکر آخرت اور اس کی تیاری میں لگارہے گا۔
(2) تقوی اختیار کرنے والا آخرت کے لئے فکرمند رہتا ہے اس لئے اللہ نے سفر آخرت کے لئے تقوی کا توشہ لینے کا حکم دیا ہے ، فرمان الہی ہے:
وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ(البقرۃ:197)
اوراپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو ، سب سے بہتر توشہ تقوی یعنی اللہ تعالی کا ڈر ہے۔
تقوی کی تعریف ہے:"التقوى هي الخوف من الجليل والعمل بالتنزيل والرضا بالقليل والاستعداد ليوم الرحيل"یعنی تقوی اللہ سے ڈرنے، اس کے حکم پر عمل کرنے ، تھوڑی چیز پر قناعت کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا نام ہے ۔
آج انسان عمل سے کورا اور گناہوں کا رسیا اللہ سے بے خوف ہوجانے کی وجہ سے ہے ، جس کے دل میں خوف الہی ہو وہ آخرت کی فکر اور اس کی تیاری کرتا ہے ۔
(3) موت کو کثرت سے یاد کرنا اپنے اندر فکر آخرت پیداکرنے کے لئے بڑا معاون ذریعہ ہے ، موت دنیاوی زندگی کے خاتمے کا نام ہے ، پھر اس کے بعد آخرت کی منزل شروع ہوجاتی ہےاس لئے نبی ﷺ نے موت کو بکثرت یاد کرنے کا حکم دیا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
أَكثروا ذِكرَ هاذمِ اللَّذَّات يعني الموتَ(صحيح الترمذي:2307)
ترجمہ: لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔
آپ ﷺ کے اس فرمان کا مقصد ہے کہ ہم دنیا کی عارضی لذتوں اور شہوتوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، اللہ سے تعلق جوڑیں اور موت کو کثرت سے یاد کرکے موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کریں ، اسی لئے متعدد اسلاف سے منقول ہے کہ نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔ویسے تو اللہ نے بڑے بڑے ظالم کو عبرتناک موت دی ہے لیکن ان سب میں فرعون کی موت کو خصوصی طورپر نشان عبرت بنایا ہے۔
(4) فکر آخرت پیداکرنے میں قبروں کی زیارت بھی اہم ذریعہ ہے، کسی کی موت سے بالفور نصیحت ملتی ہی ہے ساتھ ہی گاہے بگاہے قبرستان جاکران مرنے والوں کی قبروں سے بھی نصیحت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انسان میں خوف الہی، نرم دلی اور فکر آخرت پیدا ہو، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
كنتُ نهيتُكم عن زيارَةِ القبورِ ألا فزورُوها ، فإِنَّها تُرِقُّ القلْبَ ، و تُدْمِعُ العينَ ، وتُذَكِّرُ الآخرةَ ، ولا تقولوا هُجْرًا(صحيح الجامع:4584)
ترجمہ: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ، اب تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ دلوں کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے خشیت کے آنسو بہاتی ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے اور تم وہاں لغو بات نہ کرو۔
اس حدیث کے پس منظر میں عثمان رضی اللہ عنہ کی حالت پہ غور کریں ،آپ رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پرجاتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی ، آپ سے پوچھا جاتا کہ جنت و جہنم کے ذکر پہ آپ نہیں روتے اس پہ کیوں روتے ہیں ؟تو وہ جواب دیتے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ القبرَ أوَّلُ مَنازلِ الآخرةِ ، فإن نجا منهُ ، فما بعدَهُ أيسرُ منهُ ، وإن لم يَنجُ منهُ ، فما بعدَهُ أشدُّ منهُ قالَ : وقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : ما رأيتُ مَنظرًا قطُّ إلَّا والقَبرُ أفظَعُ منهُ(صحيح ابن ماجه:3461)
ترجمہ: آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سواگر کسی نے قبرکے عذاب سے نجات پائی تواس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے، عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اورمنظر کو نہیں دیکھا.
قبراور قبرستان ایک بھیانک جگہ ہے ، وہاں اپنے ان دوست واحباب ، رشتے دار اور اعزاء واقرباء کی قبروں کو پاتے ہیں جن کے ساتھ زندگی کے یادگار لمحات گزارے ہوتے ہیں کیا ان کے بچھڑنے کا غم نہیں ہوتا اور ان کی جگہ خود بھی جانے کی فکر پیدا نہیں ہوتی ؟
(5) موت کے بعد جتنے بھیانک مرحلے اور ہولناک مناظر ہیں ان سب پہ غور کیا کریں ۔ ان اسباق کوکتابوں سے اور علماء کے بیانات سے دہرایا کریں ،اس عمل سے آخرت کی تذکیر ہوتی رہے گی اور اس کی فکر پیداہونے میں مدد ملتی رہے گی۔ موت کی سختی، عذاب قبر، محشر کی ہولناکی، نفسی نفسی کا عالم ، حساب کی سختی ، پل صراط کی حقیقت اور جہنمیوں کی بھوک وتڑپ اور شدید سے شدید عذاب کا مطالعہ کرکے یقینا ایک مسلمان تڑپ اٹھے گا اور آخرت کی پریشانیوں اور سختیوں سے بچنے کی فکر کرے گا۔
(6) آخرت کی فکر اور اس کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا کی محبت یا دنیا طلبی ہے ، یہ حقیقت بھی ہے کہ جس کی دنیا جس قدر وسیع اور کشادہ ہے اس کے اندر دینداری کی اتنی ہی قلت ہے اور جس کی دنیا چھوٹی ہوتی ہے اس کے پاس دین زیادہ ہوتاہے۔اس بات کو دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے دین پر دنیا کو ترجیح دیدی اس نے آخرت کو بھلادیا ، اس حقیقت کو اللہ قرآن میں بایں الفاظ ذکر کررہا ہے ۔
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَاوَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ (الاعلی:16-17)
ترجمہ:بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔
ہمارے عملوں پر تعجب ہے کہ ہم دارفانی اور اس کے لمحہ بھر کی لذتوں کوابدی زندگی اور ابدی سکون وراحت پر ترجیح دیتے ہیں جبکہ اللہ اس دنیا کو مچھر کے پر برابربھی نہیں اہمیت دیتا ، سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كانتِ الدُّنيا تعدلُ عندَ اللهِ جناحَ بعوضةٍ ما سقى كافرًا منها شربةَ ماءٍ(صحيح الترمذي:2320)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
(7) آخرت کی فکر اور اس کی تیاری میں ایک بڑی رکاوٹ دلوں کی سختی اور ان میں کفر ومعصیت کی آلودگی کا ہونا بھی ہے ۔ اگر ہم اپنے نفس کا تزکیہ اور دلوں کو کفر ومعصیت اوراخلاق رذیلہ سے پاک وصاف کرلیتے ہیں تو عبرت حاصل کرنے والی چیزوں سے ہمیشہ عبرت حاصل کرسکیں گے ورنہ دلوں کی سختی مانع عبرت کے علاوہ ترک واجبات اور فعل منکرات کا سبب بھی ہےاور اللہ کے یہاں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک ومعصیت کی آلودگیوں سے پاک کریں گے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے قد افلح من تزکی یعنی بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔
(8) دنیا کی زندگی کو مسافر کی طرح گزاریں اس سے ہمارے اندرسے یہاں زیادہ دیر تک رہنے اور پرتعیش زندگی گزارنےکا خیال جاتا رہے گا اس کی جگہ دل میں ذکر الہی اور فکر عقبی پیدا ہوگی۔یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں ہر آنے والا آخرت کے سفر کا مسافر ہے ، اس حقیقت کو جو سمجھ لیتا ہے وہ خود کو دنیا میں مسافر ہی سمجھتا ہے اوردنیاکا ایک مسافر جس طرح اپنا سامان سفر تیار رکھتا ہے کہ نہ جانے کب کوچ کرنا پڑے اسی طرح آخرت کا مسافر دین و ایمان اورعمل وعقیدہ کے ساتھ تیار رہتا ہے کہ نہ جانے کب موت کی سواری آجائے اور آخرت کی طرف کوچ کرجانا پڑے ۔ فکر آخرت کے اسی تناظر میں نبی ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے :
كُن في الدُّنيا كأنَّكَ غَريبٌ أو عابرُ سبيلٍ وعدَّ نفسَكَ في أَهْلِ القبورِ(صحيح الترمذي:2333)
ترجمہ: تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو۔
جاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کر لو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا۔
اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو، گویا تم دنیا سے جا چکے، اسی لیے آگے فرمایا: صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پا لینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لو، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔(منقول ازشرح ترمذی اردو)
(9) قرآن کو تفکر وتدبر کے ساتھ پڑھنا اپنے اندرفکر آخرت پیداکرنے کا ذریعہ ہے ۔ اللہ کی کتاب ہی تو ہدایت کا سرچشمہ اور دنیا وآخرت میں کامیابی ضامن ہے ۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے ایک طرف ایمان میں زیادتی پیداہوتی ہے اور اعمال صالحہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف اللہ کا خوف ، نیتوں کی اصلاح اور جہنم سے بچنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے،یہ دونوں کیفیات قرآن کے انذار وتبشیر سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب مومن ایمان وعمل اور اس کے بدلے جنت ونعمت کی بشارت پڑھتا ہے تو وہ شوق جنت میں اس کےحصول کی طرف آتا ہے اور جب اللہ کے عذاب ، جہنم اور نافرمانوں کے حالات پڑھتا ہے تو مارے خوف کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتا ہے ۔ اس لئے ہمیشہ سمجھ کر قرآن کی تلاوت جاری رکھیں تاکہ جنت کا شوق اور جہنم کا خوف لگارہے ۔
(10) آخری پوائنٹ اس بات کا سدا احساس رہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مرتے دم تک اس احساس کی حفاظت کرتے رہیں تاآنکہ موت آجائے ،ایک مسلمان کے سامنے مقصد تخلیق یعنی عبادت الہی رہنا چاہئے اور خلوص کے ساتھ ، سنت کے مطابق اللہ کی بندگی کرتے رہنا چاہئے تاآنکہ موت آجائے ، ان دونوں باتوں کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (ِآل عمران:102)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے اور دیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
اور فرمان رب العالمین ہے:وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر:99)
ترجمہ:اوراپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
یہ چند نکات تھے جو فکر آخرت پیدا کرنےمیں معاون ہوں گے ، ان کے علاوہ بھی بہت سارے نکات ان میں داخل کئے جاسکتے ہیں مثلا دلوں کو نرم کرنے والے اور ان میں خوف پیداکرنے والے سارے عملوں سے فکرآخرت کی ترغیب ملے گی حتی آخرت میں ملنے والے ہرقسم کے عیش وآرام سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوگی۔اللہ تعالی ہمارے اندر فکر آخرت پیدا کردے تاکہ ہم اس کی جیسی تیاری ہونی چاہئے کرسکیں اور آخرت میں نجات پاسکیں۔
1 comments:
What kind of preparation we need for Akhirah?
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔