عیدالفطر کی نماز سے متعلق وضاحت
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف
کئی بھائیوں سے اصرار کیاہے کہ ہندونیپال میں گھروں سے
نکلنے کی اجازت نہ ملنے پر عید کی نماز کیسے ادا کریں ؟ اس سوال کا جواب میں نے
تحریری اور تقریری دونوں صورت میں دیا ہے ۔یہاں مزید وضاحت کرناچاہتا ہوں تاکہ بات
بالکل واضح اور لوگوں پر میرا مقصود پوری طرح ظاہر ہوجائے ۔
دراصل میری بات سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہورہا ہے کہ میں
ہندوستان کی تیس کروڑ مسلم آبادی کورام لیلا جیسےمیدان میں جمع ہونے کی بات کررہا
ہوں جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔ پہلے یہ سمجھ لیں کہ جس طرح آج علی الاطلاق گھر گھر
عید پڑھنے کا جواز بتلایا جارہا ہے کیا اس فتوی سے عوام میں یہ پیغام نہیں جارہا
ہے کہ آئندہ سالوں میں لوگ عید کی نماز اپنے گھروں میں بھی پڑھیں کوئی حرج نہیں ہے
بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کل دوسری عیدوں پر کورونا نہیں ہوگا مگر آج کادیا
ہوایہ فتوی ضرور ہوگا کہ کوئی کہیں بھی ، اکیلے یا جماعت کےساتھ ، خطبہ یا بغیر
خطبہ کےنمازعید پڑھ لے جائز ہے لہذا عید کے دن قصائی ، حجام ، دوکان دار، مزدور
اپنے کاموں کی جگہ اور گھروالے اپنے اپنے گھروں میں نماز عید ادا کرتے ملیں گے ۔
عیدسے متعلق شرعی نصوص کی روشنی میں اپنی بات کو دو طرح سے واضح
کرنا چاہتا ہوں ۔
پہلی صورت: عیدکی نماز فرض عین ہے اور اس کی ادائیگی
اجتماعی ہےجو عبادت اور توقیفی معاملہ ہے، اگر اس عبادت کی عین اس صورت میں
ادائیگی ممکن نہ ہو تو پھر یہ فریضہ سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا جبکہ اس کا کوئی
بدل نہ ہو،اس کی مثال حج جیسی ہے ۔پوری دنیا کے مسلمانوں میں لاکھوں ایسے لوگ ہوں
گے جن پر امسال حج فرض ہوتا ہے مگر کورونا کی وجہ سے حج کا سفر کسی کے لئے ممکن
نہیں ہے ایسی صورت میں امسال(ہمیشہ کے لئے
نہیں)فریضہ حج ان تمام مسلمانوں سے ساقط ہوجائے گایعنی امسال ان کے حق میں حج کی ادائیگی ضروری نہیں ہوگی ، اگر زندگی رہی
تو بعدمیں اداکریں گے اور ممکن ہے کتنے لوگ بغیر فریضہ ادا کئے ہوئے دنیا چھوڑ
جائیں ۔کیاکوئی عالم یہ فتوی دے سکتا ہے کہ حج بھی اپنے گھروں میں ادا کرسکتے ہیں
کیونکہ اللہ نے کہا ہے کہ اتنا ہی ڈرو جتنا ڈرنے کا حق ہے اور رسول نے کہا
:لاضررولاضرار(نہ تکلیف دینا ہے ،نہ لیناہے)۔سوچنے کا مقام ہے۔
دوسری صورت : میری نظر میں نمازعید کی یہ صورت شعائردین کا
حسب استطاعت اظہار ہے ،میں اسی صورت کو پسند کرتا ہوں اور اسی کی طرف سب توجہ
مبذول کراتا ہوں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہندونیپال میں ہرگاؤں اور علاقہ میں نیک
لوگوں کی ایک جماعت (خواہ چھوٹی ہو یابڑی)نمازعید کو اس کی اصل ہیئت وکیفیت کے
ساتھ عید گاہ /مسجد /کھلی جگہ میں ادا کرے
،بقیہ بستی کے پورے افراد معذور کہلائیں گے اور اپنے اپنے گھروں /جگہوںمیں
نمازعیدادا کریں گے۔ یہ جماعت حسب امکان چند افراد پر مشتمل ہوگی جو آپس میں صلاح
ومشورہ سے طے پائے گی جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ ان کا ہرکام آپس میں مشورے سے طے ہوتاہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ،اس
کو مثال سے سمجھاتا ہوں ۔
گاؤں میں کسی کی وفات ہوجاتی ہے کیاہم اس کو گھر میں دفن
کردیتے ہیں یا کوئی اکیلے چپکے سے کہیں گاڑ آتا ہے ؟ نہیں ۔ بلکہ ہرجگہ میت کی
اسلامی طریقہ سے تدفین عمل میں آتی ہے ۔ کوئی کفن خریدنے جاتاہے ، کوئی لکڑی ،
بانس اور بیری کی ڈال لاتا ہے ، کوئی قبر کھودتا ہے ، کچھ لوگ غسل وتکفین کرتے ہیں
پھر ایک جماعت اس پر نمازجنازہ پڑھتی ہے اور وہ جماعت تدفین کا کام بھی انجام دیتی
ہے ۔ یہ سب کام ہورہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جبکہ اس میں کافی وقت لگتا ہے جبکہ
نمازعید کے لئے معمولی وقت چاہئے ۔ باوضو عیدپڑھنے کی جگہ جائیں ، وقت نماز پہلے
سے متعین ہو چند منٹوں میں نماز اور خطبہ ختم کردیں ۔
کیا جس طرح جنازہ کی تجہیزوتکفین میں ایک جماعت مستعد رہتی
ہے نمازعید کے لئے اسی طرح ایک جماعت تیار نہیں کرسکتے ؟ بالکل کرسکتے ہیں ۔ اس
وقت حالات بھی نارمل ہیں ، اکثرمقامات پرچند افراد نےمساجدمیں تراویح کا اہتمام کیا اور بہت ساری مساجد میں اعتکاف
بھی ہورہا ہے ۔ چوتھے لاک ڈاؤن میں زندگی معمول پر لانے کے لئے حکومت نے کچھ شرائط
کے ساتھ گھروں سے نکلنے، اکثر دوکانیں،کام کاج اور گاڑی چلانے کا فیصلہ لیا ہے ۔کیا
ہم دس بیس لوگوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت بھی تیار نہیں کرسکتے جو کم ازکم فرض
کا چھوٹا درجہ فرض کفایہ کی ہی ذمہ داری ادا کرسکے ، جو امام احمد بن حنبل کا موقف
ہے اور شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ نے اسی کو اختیار کیاہے۔ممکن ہے ۔ یہ کام کہیں
اپنے تئیں مشورے سے طے کرسکتے ہیں توکہیں حساس مقام پر اپنے سیاسی رہنما کے توسط
سے علاقائی پولیس اسٹیشن سے اجازت طلبی کی صورت میں کرسکتے ہیں ۔بعض علماء نے ان
دنوں سوشل مسافت کے ساتھ بھی نماز پڑھنا جائز قرار دیا ہے ایسے میں پولیس سے اپنی
بات منوانا " ہم سوشل مسافت کا خیال رکھیں گے ،یقین نہ ہو آپ ہمارے اوپر
محافظ متعین کرلیں " آسان ہوگا،واضح رہے پورے گاؤں والوں کے لئے اجازت نہیں
لینی ہے۔
میں ہندوستانی حالات سے پوری طرح واقف ہوں ، شاید پہلے اتنی
خبریں کبھی نہیں سنتا تھا جتنی سی اے اے اور این آرسی جیسی پائی جانے والی صورت
حال سے سننے لگا ہوں ۔ ظالم حکومت اور منووادی طاقت مسلمانوں کو مٹانا چاہتی ہے ، اذان وعبادت پر
روک لگانا چاہتی ہے، مساجدومدارس کو منہدم کرنا چاہتی ہے، ہم سے جے شری رام اور
وندے ماترم کا مطالبہ ہے۔ مگر ہمارا فریضہ اپنے دین وایمان کا تحفظ ودفاع ہونا
چاہئے ۔ یاد رکھیئے ! ہم جس جس جگہ سےکمزور ہوتے جائیں گے وہاں وہاں ظالموں کا
پلڑا بھاری ہوتا جائے گا اور دھیرے دھیرے تعبدی مسائل بھی دشوار ہوتے جائیں گے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔