Saturday, June 23, 2018

نومولود بچی کاساتویں دن بال منڈانا

نومولود بچی کاساتویں دن بال منڈانا


مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ نومولود بچی کا ساتویں دن لڑکا کی طرح بال منڈایا جائے گا یا نہیں ؟ بعض حنابلہ بچیوں کے حق میں حلق (منڈانا) سے منع کرتے ہیں جبکہ امام مالک وامام شافعی کے یہاں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی بال منڈایا جائے گا۔ منع وعدم منع اپنے اپنے انداز استدلال پر منحصر ہے۔ جو منع کرتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ احادیث میں خصوصیت کے ساتھ بچیوں کے بال منڈانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ غلام کا ذکر ہے جوکہ بچہ(مذکر) پر دلالت کرتا ہے اور بچیوں(مؤنث) کے متعلق بال منڈانے کی ممانعت وارد ہے ۔ عدم منع والے کا استدلال ہے کہ نص عام ہے اس میں جس طرح غلام (لڑکا) داخل ہے اسی طرح جاریہ(لڑکی) بھی داخل ہے۔
پہلے نولود سے متعلق روایات کا جائزہ لیتے ہیں پھر اندازہ کرتے ہیں کہ بچی کا بال منڈانا چاہئے یا نہیں ؟
پہلی روایت : عن محمد بن علي بن الحسين أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وزنت شعر الحسن والحسين وزينب وأم كلثوم وتصدقت بزنة ذلك فضة . (رواه مالك في الموطأ (2/501 ، ورواه أبو داود في المراسيل :ص279 ح 380، ورواه البيهقي في السنن الكبرى :9/304)۔
ترجمہ: محمد بن علی بن حسین سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ نے حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم کا بال وزن کیا اور اس کے برابر چاندی صدقہ کیا۔
یہ روایت مرسل ہے جوکہ ضعیف ہوتی ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسری روایت : أَخْرَجَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي المُصَنَّفِ(4/333 _ رقم : 7973) عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ؛ قَالَ : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ يَقُولُ : كَانَتْ فَاطِمَةُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لاَ يُولَدُ لَهَا وَلَدٌ إِلاَّ أَمَرَتْ بِهِ فَحُلِقَ ، ثُمَّ تَصَدَّقَتْ بِوَزْنِ شَعْرِهِ وَرِقاً۔
ترجمہ: عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں ابن جریج کے واسطہ سے ذکر کیا ہے انہوں نے کہاکہ میں نے محمد بن علی سے سنا وہ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کے یہاں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تو حکم دیتی کہ اس کا سر منڈایا جائے پھر اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرتی ۔
ولد کا اطلاق مذکر ومؤنث دونوں پر ہوتا ہے مگریہ روایت بھی منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ محمد بن علی اور فاطمہ کے درمیان انقطاع ہے۔
مذکورہ دو نوں روایات ضعیف ہیں مگر نیچے کچھ صحیح احادیث ذکر کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکا کی طرح لڑکی کا بھی بال مونڈا جائے گا۔
(1) حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے ،نبی ﷺ نےفرمایا:
كلُّ غلامٍ مرتَهَنٌ بعقيقتِهِ تذبحُ عنْهُ يومَ السَّابعِ ويُحلَقُ رأسُهُ ويُسمَّى(صحيح ابن ماجه:2580)
ترجمہ: ہربچہ اپنے عقیقے کے بدلےگروی ہے ۔ ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقے کاجانور )ذبح کیا جائے اور اس کے سر کے بال اتارے جائیں اور اسکا نام رکھا جائے ۔
اس حدیث میں غلام کے تعلق سے تین باتوں کا ذکر ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، دوسری بات اسی دن سر منڈایا جائے اور تیسری بات اس دن نام رکھا جائے ۔
یہ روایت عام ہونے کے سبب اس میں گوکہ غلام (لڑکا) کا لفظ آیا ہے مگر لڑکی کو بھی شامل ہے ۔جس طرح ایک لڑکے کا ساتویں عقیقہ ، سرمنڈن اور نام رکھائی مسنون ہے اسی طرح سے یہ سب باتیں لڑکی کے حق میں بھی مسنون ہے۔ الگ سے کسی حدیث میں نبی ﷺ نے لڑکی کو مخاطب کرکے نام رکھنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ وہی حدیث لڑکیوں کے لئے بھی نام رکھنے پر دال ہے جہاں لڑکوں کا مخاطب کیا ہے۔جب لڑکیوں کے نام رکھنےمیں یہ روایت دلیل ہے تو عقیقہ کرنے اورسرمنڈانے میں بھی دلیل ہوگی ۔ رہا مسئلہ لڑکا اور لڑکی کی جانب سے جانور میں تعداد کے فرق کا تو اسے رسول اللہ ﷺ نے الگ سے واضح فرمادیا ہے جبکہ نومولودلڑکیوں کے بال منڈانے کی ممانعت نہیں وارد ہے ۔ نصوص کی عمومیت سے دلیل پکڑتے ہوئے کہا جائے گا کہ لڑکی کے حق میں بھی سرمنڈانا مسنون ہےاور ویسے بھی نومولود بچی کے سرمنڈانے پر ممانعت کی دلیل نہیں ۔
نبی ﷺکا فرمان ہے : إنَّ النِّساءَ شقائقُ الرِّجالِ.(صحيح الترمذي:113)
ترجمہ: عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
اگر کوئی  نص عام  ہو تو جوحکم مردوں کے لئے ہے وہ حکم عورتوں کے لئے بھی ہوگا البتہ مردوں یا عورتوں کے جو مخصوص احکام ہیں ان کا معاملہ الگ ہے۔
(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
عقَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ عنِ الحسَنِ بشاةٍ وقالَ يا فاطمةُ احلِقي رأسَهُ وتصدَّقي بزنةِ شعرِهِ فضَّةً قالَ فوزنتْهُ فَكانَ وزنُهُ درْهمًا أو بعضَ درْهمٍ( صحيح الترمذي:1519)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺنے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اور فرمایا: فاطمہ ! اس کا سرمونڈدواوراس کے بال کے برابرچاندی صدقہ کرو، فاطمہ نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابریا اس سے کچھ کم ہوا۔
اس حدیث میں نومولود کی جانب سے بال منڈاکر اس کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس حکم میں لڑکی بھی داخل ہے ، اگر نومولود کی جانب سے چاندی کرنا محض لڑکا کی جانب سے ہے تو پھر شارع علیہ السلام ضرور اس فرق کی وضاحت فرماتے مگر آپ ﷺ نے جس طرح بچیوں کے بال منڈانے کی ممانعت نہیں فرمائی اسی طرح اس کی جانب سے صدقہ کرنے کو بھی منع نہیں فرمایا ہے ۔
(3) سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى۔(رواه البخاري معلقا)
ترجمہ:بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ، لہذا اس کی طرف سے خون بہاو اور اس سے میل کچیل دور کرویعنی سرمنڈاؤ۔
بلکہ ایک روایت میں نومولود کا لفظ آیا ہے جو عام ہے مذکرومؤنث دونوں کو ،اس کی سند کو مبارکپوری صاحب نے صحیح کہا ہے۔
إذا كانَ اليومُ السَّابعُ للمولودِ فأهريقوا عنهُ دمًا وأميطوا عنهُ الأذَى وسمُّوهُ۔(تحفة الأحوذي:4/462)
ترجمہ: جب نومولود کا ساتواں دن ہو تو اس کی جانب سے خون بہاؤ، اس کا میل دور کرو (سرمنڈاؤ) اور اس کا نام رکھو۔
اس حدیث میں "امیطوا عنہ الاذی" سے استدلال ہے کہ یہ بچی کو بھی شامل ہے ۔ بال کو گندی سے تعبیر کرکے حلق شعر(بال منڈانے) کو گندگی دور کرنا کہا گیا ہے۔
بہت سے اہل علم نے "اذی" سرمنڈانے کو کہا ہے اصمعی نے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ یہ سرمنڈانا ہے بلکہ ابن سیرین کا قول ہے وہ کہتے ہیں کہ اذی سے مراد سر منڈانا نہیں ہے تو مجھے نہیں معلوم اور کیا ہے؟۔
شیخ عبدالمحسن عباد حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا بال منڈانا لڑکا اور لڑکی دونوں کو شامل ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ازالہ اذی سے مقصود لڑکا اور لڑکی دونوں کی طرف سے گندگی دور کرنا ہے۔ (شرح سنن الترمذي شريط رقم 174)
صاحب سبل السلام امام صنعانی نے کہا کہ سمرہ کی حدیث میں "ویحلق" سے ساتویں دن مولود کی طرف سے سر منڈانے کی شرعی دلیل ہےاور ظاہر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کے سرمنڈانے کو عام ہے۔
شیخ البانی نے لڑکی کا سرمنڈانا لڑکے کی طرح کہا ہے۔ (سلسلة الهدى والنور/ شريط رقم :564)
مزید دونکتے جن سے لڑکی کا بال منڈانے کی وضاحت ملتی ہے۔
پہلا نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچی کا سر منڈا نے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ یہ ہے کہ عقیقہ دراصل نومولود کے سر کے بال کو کہتے ہیں جسے منڈا جاتا ہے ابوعبید اوراصمعی کا قول دیکھیں :
أَصْلُهَا الشَّعْرُ الَّذِي یَخْرُجُ عَلى رَأْسِ الْمَوْلُوْدِ(شرح سنن الترمذی، باب ماجاء فی العقیقۃ)
ترجمہ: عقیقہ دراصل مولود کے سر کے وہ بال ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر پائے جاتے ہیں۔
علامہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَسُمِّیَتْ الشَّاةُ الَّتِی تُذْبَحُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ عَقِیْقَةً لِأَنَّهُ یُحْلَقُ عَنْهُ ذَلِكَ الشَّعْرُ عِنْدَ الذَّبْحِ۔(مصدر سابق)
ترجمہ: پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہےکیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
اَلْعَقِیْقَهُ الذَّبِیْحَةُ اَلَّتِي تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِي الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الْمَوْلُوْدِ ( نیل الأوطار : 5/140)
ترجمہ: عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔
عیقیقہ نومولود کی طرف سے ذبح کئے جانے والے جانور بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ہم نے پڑھا کہ نومولود کے بال پر عقیقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ گویا نومولود کا بال منڈنا ہی عقیقہ ہے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ہے ۔ اس وجہ سے ہمیں بلاتفریق مذکر ومؤنث نومولود کے ساتویں اس کا بال منڈنا چاہئے اور اس کے برابر فقراء و مساکین میں چاندی صدقہ کرنا چاہئے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نومولود کا پیدائشی بال کمزور،انتہائی نرم، گھونگھرالے اور مختلف رنگ کا ہوتا ہے ، نیچےمسام پرایک موٹی سی پرت جمی ہوتی ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے اس بال کو منڈانے میں نومولود کی صحت کا فائدہ ہے۔ اس سے بال کو تقویت ، کثافت اور کالے رنگت کا فائدہ ہوتا ہے۔پرت کی صفائی کے ساتھ مسام بھی کھل جاتےہیں ۔ سننے، دیکھنے اور سونگھنے کی قوت میں اضافہ کا سبب ہے۔ اطباء نے بھی توالد کے پہلے ہفتہ میں سرمنڈانا مفید بتلایا ہے۔گویا طبی نقطہ نظر سے نومولود کا سرمنڈانا ایک ضرورت ہے اس ضرورت کے تئیں بچی کا سرمنڈانے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کی بھلائی بھی ہے جو صدقہ وخیرات کی شکل میں غرباء کے لئے انجام دی جاتی ہے۔
سنن ترمذی وسنن نسائی میں عورتوں کے بال منڈانے پر ممانعت والی حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترمذی(914) اور ضعیف النسائی(5064) میں شامل کیا ہے ۔
نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق مسلم شریف میں ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
وكان أزواجُ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- يَأخذْنَ مِن رؤوسِهنَّ حتى تكونَ كالوَفْرَةِ (صحيح مسلم:320)
ترجمہ: بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت عورت اپنا بال کاٹ سکتی ہے تو جب عورت کے لئے یہ رخصت ہے پھر پیداہونے والی نئی بچی کا معاملہ تو نومولود کا ہے اس کا سر منڈانا ایک ضرورت اور بھلائی کے تحت کے ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نومولود بچی کا ساتویں دن جس طرح نام رکھنا اور عقیقہ کرنا مسنون ہے اسی طرح بال منڈانا اور اس کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مسنون ہے۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔