گناہوں کے مضر اثرات انسانی
زندگی پر
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی
طائف(مسرہ)
دین اسلام ایک کامل
نظام ہے۔اس نے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے ماننے والے
اللہ کی توفیق سے دنیا کے تمام نقصانات سے بچ سکتے ہیں، انسانی زندگی پر برے اثرات
ڈالنے والے عناصرکو پہنچان کر اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں ۔ جسم کو ضرر پہنچانے اسباب سے
پرہیز کرکے تندرست وتوانا رہ سکتے ہیں ۔
آج مسلمان کی زبوں
حالی، معاشی پریشانی، سماجی فساد، زیست کی صعوبت اور جسم وجاں کی کسمپرسی سے دوچار
ہونے کی وجہ خود کی بے راہ روی، بے دینی ، بدعملی، ترک قرآن اور عبادت ومناجات سے
خالی زندگی گزارنا ہے۔ ہم نے دینی راہ چھوڑدی جو صاف ،سہل ، سیدھی ،سچی اور روشن
ہےاور شیطانی ڈگر، گناہوں کی پرخطر پگڈنڈی اور بے ایمانی کی خاردار وادی سے
گزراپنی زندگی کا ہدف بنالیا۔بالآخر شیطان نے ہم سے وہ کام لیا جو اس کا ہدف تھا
پھر زمانے میں شروفساد کا ظہور ہوا، قہرالہی نے زمین میں انسانی آہ وبکا اور چیخ
وپکار پھلادی، انسان کے گناہوں نے ہماری زندگیاں تباہ ، ہمارے گھر برباد اور سماج
ومعاشرہ کو تہ وبالا کردیا۔
شیطان ہمیں ، ہمارے اہل
وعیال، ہمارے گھروں، ہمارے سماج اور پوری دنیا کو تباہ کرنا چاہتاہے اور ہم اس کا
آلہ کار بن کر اپنی تباہی آپ کررہے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے
:
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ
لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ, إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
(ص:82-83)
ترجمہ: کہنے لگا پھر تو
میں تیری عزت کی قسم! میں ان سب کویقینا بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندون کے جو چیدہ
اور پسندیدہ ہوں۔
نیچے "گناہوں
کےمضر اثرات انسانی زندگی پر" اس موضوع کی وضاحت کرنی ہے ۔ اوپر شیطان اور اس
کے فریب کا ذکر اس لئے کیا ہوں کہ انسان ،گناہ کرنے کی وجہ سے شیطان کا محبوب اور
اللہ کا ناپسندیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ گناہگاروں کو بہکانا اور ان سے شیطینت کروانا
شیطان کے لئے آسان ہے ۔ جو مخلص بندے ہیں، دین پر مضبوطی سے عمل کرتے ہیں ، عقائد
وایمان مستحکم بنائے ہوئے ہیں اور رب کی بندگی میں صبح وشام کرتے ہیں ایسے مخلص
بندوں کو بہکانا شیطان کے لئے مشکل ہے۔ اس لئے ہمیں دین پر جم جانا ہے اور گناہوں
سے اپنا دامن بچانا ہے ۔
گناہ کہتے ہیں
"ترک المامورات وفعل المحظورات " (جن کا حکم دیاگیا ہے انہیں چھوڑدینا
اور جن سے منع کیا گیا ہے انہیں انجام دینا)۔
گناہ کے لئے عربی میں
مختلف الفاظ وارد ہیں مثلا ذنب، معصیہ، سیئہ، خطیئہ، اثم، فسق، فجور، فساد وغیرہ
گناہوں کے دو اقسام
ہیں۔ ایک گناہ کبیرہ اور دوسری گناہ صغیرہ ۔
گناہ کبیرہ اسے کہتے
ہیں جس کام پر وعید، سزا، لعنت، جہنم ، آگ وغیرہ کی سزا سنائی گئی ہو اور گناہ
صغیرہ جن کاموں پر اس قسم کی کوئی وعید وارد نہ ہو۔ تاہم چھوٹے گناہوں کے بھی
بھیانک انجام ہیں خصوصا جب انہیں ہلکا سمجھ لیا جائے یا مسلسل انجام دیاجائے یا
اعلانیہ طورپران کا ارتکاب کیا جائے۔
آج امت کے گناہوں
نےانسانی زندگی کو بھیانک اور پرخطرموڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہمارا کوئی پرسان حال
نہیں، ہم مارے کاٹے اور گاجرمولی کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں مگر کہیں سے مدد نہیں
آرہی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا شعر موجودہ صورت حال کی عکاسی کررہاہے ۔
حق پرستوں کی اگر کی تو
نے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم
کا خدا کوئی نہیں
امت میں تفرقہ، فساد،
رشوت خوری، زناکاری، سود بازاری، لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت گری، ظلم وجور، کسب معاش
میں حلت وحرمت کا فقدان، ذکر الہی اور عبادت رحمن سے غفلت، برائی کا شوق اور نیکی
سے نفرت ، ایمان بلاعمل اور مسلمان بلاکردار اسی کا نتیجہ ہے ۔ ترقی یافتہ دور میں
جہاں دنیا سمٹ گئی ہے وہیں برائی کا اثر ورسوخ بھی گہرا اور کافی وسیع ہوگیا ہے ۔
لمحوں میں برائی کا اثر دنیا پر مرتب ہوجاتا ہے۔ گناہ کے اثر سے فرد تو فرد جماعت
محفوظ نہیں حتی بحر وبر کی ساری چیزیں اس سے متاثر ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا
فرمان ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي
الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ
الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم:41)
ترجمہ: خشکی اور تری
میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں
کا پھل اللہ تعالی چکھادے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔
اس معنی کی بہت ساری
آیات قرآن میں موجود ہیں ۔ چند ایک یہاں پیش کرتا ہوں ۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ
مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ(الشورى: 30)
ترجمہ: تمہیں جو کچھ
مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ اور وہ تو بہت سی
باتوں سے درگزر فرمادیتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
أَوَلَمَّا
أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ
هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(آل
عمران: 165)
ترجمہ: (کیا بات ہے) کہ
جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے یہ
کہاں سے آگئی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے بشک اللہ تعالی ہرچیز پر
قادر ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
مَا أَصَابَكَ مِنْ
حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ(النساء:
79)
ترجمہ: تجھے جو بھلائی
ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی
طرف سے ہے ۔
اللہ فرماتا ہے:
وَلَوْلَا أَنْ
تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ...(القصص: 47)
ترجمہ: اگر یہ بات نہ
ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت
پہنچتی ۔۔۔۔
اللہ فرماتا ہے:
ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ
أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ(آل عمران: 182)
ترجمہ: یہ تمہارے پیش
کردہ اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
اللہ فرماتا ہے :
وَإِذَا أَذَقْنَا
النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ
أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ (الروم: 36)
ترجمہ: اور جب ہم لوگوں
کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور ماگر انہیں ان کے ہاتھوں
کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں۔
ان ساری آیات سے صاف
صاف ظاہر ہے کہ زمانے میں فساد کی وجہ ہمارے برے کرتوت اور گندے اعمال ہیں ۔
انسانی زندگی میں پریشانی کا سبب خود کے برے اوصاف ہیں۔
گناہوں کے مضر اثرات انسانی
زندگی پر بے شمار ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر سطور ذیل میں کیا جاتا ہے تاکہ ہم
انسان عبرت پکڑیں اور گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم کریں
۔
(1) حافظہ کی کمزوری : گناہ کا انسانی زندگی
پر اس قدر شدید برا اثر پڑتا ہے کہ آدمی کی عقل تک متاثر ہوجاتی ہے۔ سوچنے سمجھنے
میں خطا کرنے لگتا ہے اور حافظہ پر تو برا سے برا اثر پڑتا ہے۔ بھولنے کی بیماری
لاحق ہوجاتی ہے ۔ یاد کیا ہوا بھی ذہن سے اڑنے لگ جاتا ہے اور کوئی چیز یاد کرنے
میں بہت گراں گزرتی ہے۔ دیوان شافعی میں اس سے متعلق بہت ہی نصیحت آموزشعر موجود
ہے جسے میں یہاں درج کررہاہوں ۔
شَكَوتُ إِلى وَكيعٍ
سوءَ حِفظي فَأَرشَدَني إِلى تَركِ المَعاصي
وَأَخبَرَني بِأَنَّ
العِلمَ نورٌ وَنورُ اللَهِ لا يُهدى لِعاصي
اشعار کا ترجمہ: میں نے
اپنے استاد حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے قوت حافظہ کی کمی کی شکایت کی جس پر میرے
استاد نے مجھے گناہوں کو ترک کر دینے اور ان سے مکمل اجتناب کی نصیحت فرمائی اور
فرمایا:علم اللہ رب العزت کے نور میں سے ھے اور اللہ تعالی کا نور گناہ گار کو
عطاء نھیں کیا جاتا۔
(2) رزق سے محرومی : گناہگار رب کی رحمت سے
دور ہوتا ہے۔ اس کی زندگی پریشانی سے گھری ہوتی ہے وہ اپنے گناہوں کے سبب رزق سے
بھی محروم کردیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إن العبدَ ليحرمُ
الرزقَ بالذنبِ يصيبُه(حاشية بلوغ المرام لابن باز:778)
ترجمہ: بے شک انسان
اپنے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
علم وعمل والے نیک
لوگوں کی وجہ سے زرق دیا جاتا ہے اور جاہل وبدعمل لوگ اللہ کے فضل وکرم سے دور کئے
جاتے ہیں چنانچہ امام ترمذی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے انہوں
نے بیان کیا:
كانَ أخَوانِ على
عَهْدِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فَكانَ أحدُهُما يأتي النَّبيَّ
صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ والآخرُ يحترِفُ، فشَكَى المحترفُ أخاهُ إلى
النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فقالَ: لعلَّكَ ترزقُ بِهِ(صحيح
الترمذي:2345)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے
زمانے میں دو بھائی تھے ایک حصول علم کی خاطر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھااور
دوسرا حصول معاش کے لئے جدوجہد کرتا۔ حصول معاش کے لئے جدوجہد کرنے والے نے نبی ﷺ
سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:" لعلک ترزق بہ" شاید
تمہیں اسی کی وجہ سے رزق دیا جارہاہے ۔
(3) گناہ کا خوف مٹ جانا: مومن وہ ہوتا ہے جسے
گناہ پر ڈر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ سے خوف کھاتا ہے اور اس کی سزا کا خوف کھاکر توبہ
کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرتا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ کے قول سے اندازہ لگائیں کہ مومن گناہوں سے کس قدر خوف کھاتا ہے اور
منافق کا حال کیسا رہتا ہے؟
إنَّ المؤمنَ يرى
ذنوبَه كأنه قاعدٌ تحت جبلٍ يخاف أن يقعَ عليه، وإن الفاجرَ يرى ذنوبَه كذبابٍ مر
على أنفه(صحيح البخاري:6308)
ترجمہ: مومن اپنے
گناہوں کو ایسا خیال کرتا ہے جیسے پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا شخص یہ خوف کرتا ہے کہ
کہیں پہاڑ اس پر نہ گر پڑے اور فاجر گناہ کو ایسا سمجھتا ہے کہ ناک پر سے مکھی اڑ
گئی۔
ہم گناہوں کو پہاڑ جیسا
سمجھیں خواہ وہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو۔ بسا اوقات چھوٹے گناہ پر بھی سخت آزمائش
آجاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر پہاڑبن جاتے ہیں۔
(4) گناہگار کی ذلت : گناہ کرنے والا کبھی
کبھار دنیاوالوں کے سامنے ہی ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے اور آخرت میں جو رسوائی ہے وہ
اپنی جگہ برحق ہے۔ اللہ تعالی نہ دنیا میں
اور نہ ہی آخرت میں اہل فسق وفجور کو عزت دے گا ۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے ،گناہوں کا
خوف کھاتا ہے۔ برائی سے بچتا رہتا ہے اللہ ایسے شخص کو عزت دیتا ہے ۔ فرمان الہی
ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ
إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ
لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ
اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ
خَبِيرٌ (الحجرات :13)
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے
تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک
دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ
ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
(5) گناہگاروں کا معاملہ
سخت تنگ ہے: اللہ تعالی ایسے لوگوں
کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتا ہے جن کی زندگی گناہوں میں ملوث ہو اور گناہوں سے بے
خوف ہوکر برائی پہ برائی کررہاہو بلکہ ایسوں کے لئے زندگی کی پریشانیوں سے نکلنے
کا راستہ تک مسدود فرما دیتا ہے ۔ امن وراحت کا طریق اور زندگی کی آسان گزرگاہ صرف
مومن کو نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کافرمان ہے :
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ
يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق:2)
ترجمہ: جو اللہ سے ڈرتا
ہے ،اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔
(6) آسمانی بلائیں گناہوں
کے باعث نزول کرتی ہیں : دنیا میں کہیں زلزلے، کہیں طوفان ، کہیں شدید سیلاب، کہیں شدید
قحط، کہیں بھوک مری، کہیں وبائیں اور کہیں لاعلاج بیماریاں گناہوں اور اپنے اعمال
کے سبب ہیں ۔ ہم جس قدر شدید گناہ کرتےہیں اسی قدر شدید قہر الہی نازل ہوتا ہے ۔
ایسی بیماریوں میں ہم گرفتار ہوتے جن کا علاج میسر نہیں ہوتا اور نشان عبرت بنے
دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔
(7) گناہوں کے باعث دل کی
سختی: دنیاوی مشاہدہ بھی ہے
کہ جو جس قدر برائی کا رسیا ہے وہ اسی قدر لوگوں کے لئے سخت دل ہے۔ اسے کسی سے
پیار نہیں ہوتا، معمولی بات پہ ہنگامہ آرائی اس کی فطرت بن جاتی ہے اور لوگوں کے
ساتھ کبھی بھی نرمی کا برتاؤ نہیں کرتا حتی کہ سختی میں اپنے اور بیگانوں کا فرق
بھی یاد نہیں رہتا۔ سچ کہا ہے رب العالمین نے :
فَلَوْلَا إِذْ
جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ
الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام:43)
ترجمہ: سوجب ان کو
ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی، لیکن ان کے قلوب سخت
ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا۔
(8) بے حیائی کا پیکر: بے حیائی کا ایک برا
پہلو یہ ہے کہ اس کا خوگر بے حیا بن جاتا ہے ۔اس کے پاس خوف کا نام نہیں شرم تک
کھوبیٹھتا ہےاور نہایت بےشرمی سے ڈھیٹ بن کر برائی کرتا ہے جیسے کوئی اس کاخالق و
مالک نہیں، کسی کو اپنے کئے کا حساب نہیں دینا ہے اور نہ ہی دنیا میں اورآخرت میں
کسی ملامت ورسوائی کا ڈر ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ ممَّا أدرَك
النَّاسُ من كلامِ النُّبوَّةِ : إذا لم تَسْتَحْيِ فاصنَعْ ما شِئْتَ( صحيح
البخاري:3484)
ترجمہ:اگلے پیغمبروں کے
کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو پھر جو جی چاہے
کر۔
بدلے کے اعتبار سے
گناہوں کا جو نقصان ہے بلاحدوحساب ہے یہاں انسانی زندگی پر ان کے مضر اثرات میں سے
چند گہرے اور برے اثرات بیان کئے گئے ہیں ۔
بنی آدم سے گناہ ہوجانا
بعید نہیں ہے ،گناہ کرکے نہ پچھتانا یہ قابل افسوس ہے ۔ جو لوگ گناہ کرکے شرمندہ
ہوتے ہیں ، اللہ سے ڈرنے لگتے ہیں اور مارے خوف کے توبہ واستغفار کرتے ہیں دراصل
ایسے ہی بندے اللہ کو پسند ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كلُّ بني آدمَ خطَّاءٌ
وخيرُ الخطَّائينَ التوَّابونَ(صحيح ابن ماجه:3447)
ترجمہ: بنی آدم کی تمام
اولاد گناہگار ہیں اور بہترین گناہگار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں ۔
گناہ سے متعلق ایک
پیاری سی حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لولا أنكم تذنبون لخلقَ
اللهُ خلقًا يذنبون ، يغفرُ لهم(صحيح مسلم:2748)
ترجمہ: اگر تم لوگ گناہ
نہ کرو تو اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کر دے جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا۔
اوپر میں نے گناہوں کی
دو اقسام بیان کیا ہے ۔ اب یہ جان لیں کہ گناہوں کی کیفیات اور ان کے اشکال مختلف
ہیں ،ان کیفیات کے بقدر جرم ومعصیت میں تفاوت ہے۔ کچھ گناہ انجانے میں ہوجاتے ہیں
، کچھ عمدا ہوتے ہیں ، کچھ گناہ اصرار کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور کچھ اعلانیہ طور
پر۔ان سب کے متعلق شریعت کا حکم بھی جان لیں ۔
جو گناہ انجانے میں
ہوجائے اس کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ وضَعَ عن
أمَّتي الخطَأَ والنِّسيانَ وما استُكرِهوا عليهِ(صحيح ابن ماجه:1677)
ترجمہ: اللہ تعالی نے
میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں
ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔
قصدا اور عمدا گناہ
کرنے کی بابت حق جل شانہ کا فرمان ہے :
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ
جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ
غَفُورًا رَّحِيمًا (الاحزاب:5)
ترجمہ: تم سے بھول چوک
میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ
دل سے کرو اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے ۔
اصرار کے ساتھ گناہ
کرنا بہت ہی سنگین ہے ۔ گناہوں کو حقیر سمجھنا بھی گناہوں پر اصرار ہے اور جو گناہ
مسلسل کئے جائیں وہ تو ہیں ہی۔ اس گناہ کا معاملہ سخت ترین ہے اس لئے کہاجاتا ہے
کہ تسلسل کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹا گناہ چھوٹا نہیں ہےبڑا ہوجاتا ہے۔ مومن بندہ
گناہ کرکے شرمندہ ہوتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں آکر سچی توبہ کرتا ہے اور اس
گناہ پر مداومت نہیں کرتا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ
ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن
يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ
يَعْلَمُونَ ﴿ِآل
عمران : 35﴾
ترجمہ: جب ان سے کوئی
ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے
گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالٰی کے سِوا اور کون گناہوں کو
بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی بُرے کام پر اَڑ نہیں جاتے ۔
اعلانیہ طور پر گناہ
کرنا یہ گزشتہ گناہ سے بھی خطرناک ہے ۔ ایسا شخص اللہ کے غیظ وغضب کا شکار ہوجاتا
ہے اس کے حق سے معافی اٹھا لی جاتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كلُّ أمَّتي مُعافًى
إلَّا المُجاهِرينَ ، وإنَّ منَ المُجاهرةِ أن يعمَلَ الرَّجلُ باللَّيلِ عملًا ،
ثُمَّ يصبِحَ وقد سترَه اللَّهُ ، فيقولَ : يا فلانُ ، عمِلتُ البارحةَ كذا وَكذا
، وقد باتَ يسترُه ربُّهُ ، ويصبِحُ يَكشِفُ سترَ اللَّهِ عنهُ( صحيح
البخاري:6069)
ترجمہ:میری تمام امت کو
معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا
کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی ( گناہ کا ) کام کرے اور اس کے
باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے
فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے
اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
اللہ تعالی کھلے پوشیدہ
تمام احوال سے باخبر ہے ، کوئی تنہائی میں گناہ کرکے یا رات کے اندھیرے میں جرم کا
ارتکاب کرکے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو اللہ سینوں کے راز تک سے بے خبر ہے اور
روئے زمین پر ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں برائی کرنے سے زمین وآسمان کا خالق ومالک
نہیں دیکھ سکتاہے۔
آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے
، موبائل سے لوگ تنہائی میں بڑے بڑے فواحش ومنکرات انجام دے رہے ہیں اور انہیں بڑی
بے باکی سے لوگوں میں نشر بھی کررہے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔
اور جان لینا چاہئے کہ جو گناہ ہم سے سرزد ہوا ہے اس کا وبال بھی ہمارے ہی سر پر
آئے گا اور سزا بھی ہمیں ہی بھگتنی پڑے گی ۔ اللہ کا فرمان ہے :
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا
فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا
ۗ وَمَا رَبُّكَ
بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ(فصلت:46﴾
ترجمہ: جو شخص نیک کام
کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے ۔ اور
آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
گناہ کی لذت چند لمحوں
کی ہے جبکہ اس کی سزا دیرپا ہے،قیامت کے دن لذت اندوز ہونے والے اعضا ء ہمارے خلاف
گواہی دیں گے ۔اللہ کا فرمان ہے :
یَوْمَ تَشْھَدُ
عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ ( النور: 24 )
ترجمہ: جبکہ ان کے
مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔
گناہوں کی وجہ سے اللہ
بستیاں تباہ کردیتا ہے اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹادیتا ہے ۔ اللہ نے قرآن مقدس
میں ایسی تباہ شدہ بستیوں کی مثال بیان کیا ہے تاکہ دوسری بستیاں عبرت حاصل کریں ۔
وَكَأَيِّن مِّن
قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا
شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا (الطلاق:8)
ترجمہ: اور بہت سی بستی
والوں نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت
حساب کیا اور انہیں عذاب دیا ان دیکھا ( سخت ) عذاب ۔
عذاب شدہ ایک اور بستی
کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
وَضَرَبَ اللَّهُ
مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا
مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ
الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (النحل:112)
ترجمہ: اللہ تعالٰی اس
بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس
با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی ۔ پھر اس نے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا کفر کیا تو
اللہ تعالٰی نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ
آدمی گناہ کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو صحیح سے نہیں
پہچانتا، اس سے نہیں ڈرتا، اس کی عبادت نہیں کرتا، اس کے دین پہ صحیح سے نہیں چلتا
اور اخروی زندگی پر پختہ یقین نہیں رکھتا ۔
یہاں ایک دوسرا سوال یہ
ہے کہ ہم سے انجانے میں یا جان بوجھ کر بہت سارے گناہ ہوگئے ، اب اپنے خالق ومالک
کے دین کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں اور اپنے کئے پہ شرمندہ ہوکر سابقہ گناہوں سے دامن
چھڑانا چاہتے ہیں اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟
ایسے لوگوں کو اللہ
تعالی اولا مایوس ہونے سے منع کرتا ہے اور بڑے دلنشین انداز میں بندوں کومعاف کرنے
کی بشارت دیتا ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ
الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ
الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ
الرَّحِيمُ (الزمر:53)
ترجمہ:( میری جانب سے)
کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے
نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ،
بخشش بڑی رحمت والا ہے ۔
ثانیااللہ کی ذات وحدہ
لاشریک پر کامل یقین رکھتے ہوئے ، اسے بڑا مہربان، بہت ہی رحم کرنے والااور بہت
زیادہ معاف کرنے والا سمجھ کر سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ
عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا
الْأَنْهَارُ(التحریم:8)
ترجمہ: اے ایمان والو!
تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے
اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔
ثالثا کثرت سے اعمال
صالحہ انجام دینا تاکہ برائی کا دھیان مٹ جائے اور بطور خاص ان اعمال کی طرف
التفات کرنا چاہئے جن پر جنت کی بشارت، گناہوں کی مغفرت اور بے پناہ اجروثواب کا
وعدہ کیا گیا ہے ۔
رابعا یہ دھیان رہے کہ
نیکی کرنے یا توبہ کرنے سے حقوق العباد معاف نہیں ہوتے حتی کہ حج کرنے سے بھی
صغیرہ اور کبیرہ گناہ ہی معاف ہوتے ہیں اس لئے بندوں کے حقوق لوٹانے سے ہی حقوق
العباد معاف ہوں گے ۔ امت کا مفلس ہے وہ شخص جس نے نماز وروزہ اور زکوۃ کی پابندی کیا
ہو اور ساتھ ساتھ بندوں کو ستایا بھی ہو۔قیامت کے دن ایسے لوگوں کی نیکی مظلوموں
میں تقسیم کردی جائے گی ۔ اگر ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں تو مظلوم کے گناہ اس کے
سر پر لاد دئے جائیں گے یہاں تک کہ اسے گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح
مسلم)
اللہ تعالی سے اپنے
گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں، ایمان وعمل پہ قائم رہنے کی عاجزی کرتے ہیں اور
اپنےفضل وکرم سے جنت الفردوس میں داخلہ نصیب فرمانے کی التجا کرتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔