Wednesday, June 21, 2017

آپ کے سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جوابات

آپ کے سوالات اور شیخ مقبول احمد سلفی کے جوابات

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامکدعوۃ سنٹر- طائف
سوال (1): خلیجی ممالک میں رہنے والے جب اپنا فطرانہ اپنے ملک بھیجنا چاہیں تو کیسے بھیجیں گے ؟
جواب :  اصل تو یہی ہے کہ جو جہاں ہو وہ اسی جگہ کے محتاج لوگوں کو فطرانہ دے لیکن اگر ضرورت پڑے کسی دوسری جگہ فطرہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خلیج کے حساب سے ڈھائی یا تین کلو غلہ کے حساب سے روپیہ اپنے ملک بھیج دیں اور وہاں ان پیسوں سے غلہ خرید کر آپ کا وکیل عید سے ایک دو دن پہلے محتاجوں میں تقسیم کردے ۔  
سوال(2): صدقۃ الفطر  سے محتاجوں کو کھانا کھلا نا یا انہیں کپڑا دینا کیسا ہے ؟
جواب : صدقۃ الفطر غلہ سے دیا جائے گا، نہ کھانا کھلایا جائے گا اور نہ ہی کپڑا دیا جائے گا۔ ہاں اگر محتاج کو پیسے یا کپڑے کی سخت ضرورت ہو تو ان کی  وہ ضرورت فطرانے سے پورا کرسکتے ہیں ۔
سوال (3) : عام طور سے تراویح میں قرآن ختم ہونے پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟
جواب : ختم قرآن پر مٹھائی تقسیم کرنے کا عمل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہے اس لئے اس سے بچنا اولی وافضل ہے ۔اگر کہیں تکلف اور کسی خاص رسم ورواج سے بچتے ہوئے یونہی سادہ انداز میں کسی نے نمازیوں کے درمیان مٹھائی تقسیم کردی تواس میں کوئی حرج نہیں ۔بعض جگہوں پر ختم قرآن پہ تقریب، کھانے پینے میں افراط اور مختلف قسم  طور طریقے رائج ہیں ،ان چیزوں کی شرعا گنجائش نہیں ہے ۔  
سوال(4): تراویح میں قرآن ختم ہونے پر دعاکرنا کیسا ہے ؟
جواب : تراویح میں یا یونہی قرآن ختم کرنے پہ کوئی دعا سنت سے ثابت نہیں ہے ۔ لوگوں میں ختم قرآن کی ایک مخصوص دعا  رائج ہےیہ  حدیث مصطفی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔ہاں اگر تراویح کی نماز میں ختم قرآن پہ دعا قنوت کرتے وقت تلاوت ، اذکار، نماز، روزہ ، دعا اور دیگر طاعات کی قبولیت کی بھی دعا کرلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ وتر کی دعا میں وسعت ہے ۔ 
سوال (5): ماں کے پاس 5 تولہ سونااور بہو کے پاس 5 تولہ سونا ہے تو کیا انہیں جمع کرکے زکوۃ دی جائے گی؟
جواب : ماں کی ملکیت کو بہو کی ملکیت کے ساتھ جمع نہیں کیا جائے گا ، مال جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملکیت ایک ہی شخص کی ہو لہذا ماں اور بہو کے پانچ پانچ تولہ  سوناپر زکوۃ نہیں ہے ۔
سوال (6) : میں نے گھر بنانے کے لئے کچھ پیسے رکھے ہیں جو نصاب تک پہنچ گیا ہے تو کیا اس کی زکوۃدینی ہوگی ؟
جواب :  پیسے کسی بھی نیت سے رکھے گئے ہوں ،اگر وہ نصاب تک پہنچ رہے ہیں اور اس پر سال مکمل ہو گیا ہے تو اس کی زکوۃ دینی ہوگی ۔
سوال (7): ایک بیوہ عورت کو تین لڑکیاں ہیں ، اس نے اپنی بچیوں کی شادی کے لئے بیس تولہ سونا رکھا ہوا ہے کیا اسے زکوۃ دینی ہوگی اور اگر وہ زکوۃدے تو امیروں کی طرح اس پر بھی مکمل زکوۃ ہے یا کچھ کم ہے ؟
جواب : بیس تولہ سونا نصاب کوپہنچ جارہاہے ،اگر اس پہ سال مکمل ہوگیا ہے تو بیوہ عورت کو بیس تولہ سونے کی قیمت کا اندازہ لگاکر اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی اور یہ ڈھائی فیصد زکوۃ دینے والے سب کے لئے برابر ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا کرتاہوں کہ یتیم لڑکیوں کی شادی کا انتظام فرمادے اور ان بچیوں کو صالح شوہر عطا فرمائے ۔ آمین
سوال (8) : کسی نے زمین خرید کر یونہی چھوڑ رکھا ہے تو اس پرزکوۃ بنتی ہے ؟
جواب : یونہی چھوڑی ہوئی زمین پر زکوۃ نہیں ہے ، اس زمین پر زکوۃ ہے جسے  بیچنے کی نیت سے رکھی گئی ہو۔
سوال (9): کیا شب قدر کی دعا ضعیف ہے ؟
جواب :  شب قدر کی دعا"اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی" ضعیف نہیں ہے ، بہت سے محدثین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے مشکوۃالمصابیح کی تخریج میں ،صحیح الجامع میں ، صحیح ابن ماجہ میں ،صحیح الترغیب میں، سلسلہ صحیحہ میں اور صحیح الترمذی میں صحیح کہا ہے ۔ شیخ البانی کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے اسے صحیح کہا ہے مثلامنذری، نووی، ابن دقیق العید اور ابن القیم وغیرہ ۔ امام حاکم نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔ لہذا یہ حدیث صحیح وثابت ہے اور جس علت کی وجہ سے بعض لوگوں نے اسے ضعیف کہا ہے وہ علت کمزور ہے البتہ جس حدیث میں لفظ کریم کی زیادتی ہے وہ ضعیف ہے ۔
سوال (10): دعائے ماثورہ میں اپنی  طرف سے کمی بیشی کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  اپنی طرف سے عمومی دعا کرنے میں کسی بھی مناسب الفاظ وجملے کااستعمال کرسکتا ہے اور کسی بھی زبان میں کرسکتا ہے لیکن ماثورہ دعاؤں میں اپنی طرف سے کمی بیشی نہ کرے ،ہوبہو اسی طرح دعا کرے جس طرح وارد ہے اور اسی طرح آدمی کواپنی جانب سے کوئی دعا  یا ذکربناکرہمیشہ اس کااہتمام کرنا صحیح ہے ۔ماثورہ دعاؤں کی کمی نہیں ہے ،آدمی اسی پر اکتفا کرے یا اپنی طرف سے جو دعائیں کرے اسے مخصوص کرکے ہمیشہ اس کا اہتمام نہ کرے بلکہ الفاظ  بدل بدل دعاکیا کرے ۔
سوال (11): کیا مسجد نبوی میں وضو کرکے مسجدقبا میں نماز ادا کرنے سے عمرہ کا ثواب ملتا ہے ؟
جواب :  کہیں سے بھی وضو کرکے جائیں اور مسجد قبا میں دو رکعت نماز ادا کریں ، عمرہ کا ثواب ملے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الصَّلاةُ في مسجدِ قُباءَ كعُمرةٍ(صحيح الترمذي:324)
ترجمہ: مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے ۔
گویا کہیں سے بھی وضو کرکے آئیں حتی کہ مسجد قبا میں وضو کریں اور وہاں نماز ادا کریں تواس میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ملے گا۔
سوال (12) :ایک شخص کے پاس استعمال کےلئے موٹر سائیکل ہے وہ اس  کی بھی زکوۃ نکالتا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب : استعمال کی موٹر سائیکل پر زکوۃ نہیں ہے ۔
سوال (13): سرکاری بجلی لینے میں ٹیکس اور ظلم کا سامنا ہے تو کیا اس سے بچنے کے لئے چوری کی بجلی استعمال کرسکتے ہیں ؟
جواب : چراکر بجلی استعمال کرنا قانونا اور شرعا دونوں طرح صحیح نہیں ہے ۔ اگر کہیں سسٹم اور نظام میں ظلم وزیادتی ہوگی تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں گے نہ کہ غلط راستہ اختیار کریں گے ۔
سوال (14): عمان میں باہری ملک والوں کاچندہ کرنا منع ہے پھر بھی کچھ مدارس والے یہاں آکر چندہ کرتے ہیں ، کیا ان کا ایسا کرنا ٹھیک ہے اور ایسے لوگوں کو چندہ دے سکتے ہیں ؟
جواب : اگر عمان میں باہری ممالک والوں کے لئے انفرادی چندہ کرنا بھی قانونا منع ہے تو پھر مدرسہ والوں کا عمان جاکر چندہ کرنا قانونی اعتبارسےصحیح نہیں ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں کی عوام خیر پر تعاون کرناچاہتی ہے مگر حکومت صرف عالمی سیاست کی مجبوری کی  وجہ سے اس پر پابندی لگاتی ہے ۔ایسے عالم میں بھی بچنا بہتر ہے تاکہ پکڑے جانے پرمچند قانونی مجرم نہ قرار پائے لیکن اگر کوئی آجاتا ہے اور وہ قابل اعتماد ہے تو اسے چندہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال (15): زکوۃ کا پیسہ مسجد کے امام یا مدرسہ کے عالم کو دے سکتے ہیں؟
جواب : زکوۃ کا پیسہ مسجد کے امام اور مدرسہ کے عالم کونہیں دے سکتے ،ہاں اگر ان کا شمار قفیر ومسکین میں ہوتا ہو تو پھر ان کے لئے جائز ہے ۔
سوال(16): انڈیا میں کسی کے پاس کتنا نقد پیسہ ہو تو زکوۃ فرض ہوجاتی ہے ؟
جواب : سونے چاند ی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اس لئے اس کے تاجروں سےعین وقت پر جب زکوۃ دینی ہو 595 گرام چاندی کی قیمت معلوم کرلیں ، جتنی قیمت ہوگی ،اتنا نقد جب کسی کے پاس جمع  ہوجائے تو نصاب کو پیسہ پہنچ جاتا ہے ۔
سوال (17): پیٹ میں بچے کی طرف سے صدقۃ الفطر نکالناکیسا ہے ؟
جواب : صحیح بات یہ ہے کہ جو بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے اس کی طرف سے فطرہ دیناواجب نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس کی طرف سے ادا کرنا چاہئے تو ادا کرسکتا ہے ۔
سوال (18): جب فطرانہ روزے کی پاکی کے لئے ہے تو چھوٹے بچوں کی طرف سے فطرہ کیوں نکالا جاتا ہے ؟
جواب : فطرہ نکالنے کے کئی مقاصد ہیں ، ان میں سے ایک مقصد غریب ونادار لوگوں کی مدد (کھانےکا انتظام)کرنا ہے ،اس لئے بچوں اوران لوگوں کی طرف سے بھی فطرہ ادا کیا جاتا ہے جنہوں نے روزہ نہیں رکھا یا نہیں سکتے ۔
سوال (19):میں سعودی میں ہوں ،کیا میرے گھر والے میری طرف سے فطرہ ادا کرسکتے ہیں ، اگر کرسکتے ہیں تو وہ سعودی کے حساب سے فطرہ دیں گے یا اپنے ملک کے حساب سے ؟
جواب : جی بالکل نکال سکتے ہیں اور صدقہ الفطر ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک ہی مقدارہے وہ عربی ایک  صاع ہے جو تقریبا ڈھائی کلو بنتاہے ۔اس لئے آپ کے گھر والے آپ کی طرف سے بھی اناج میں سے ڈھائی کلو نکالیں گے ۔ 
سوال (20) : خلیجی ممالک والے اپنے ملک میں فطرہ دینا چاہیں تو کیا ہفتہ دن پہلے بھیج سکتے ہیں ؟  
جواب : جی ہاں ، بھیج سکتے ہیں ، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ آپ خلیج سے ہفتہ دن پہلے فطرہ بھیج دیں اور اپنے وکیل کو تاکید کردیں کہ عید سے ایک یا دو دن پہلے یا عید کی نماز سے پہلے پہلے مسکین کو آپ کی طرف سے فطرہ ادا کردے ۔
سوال (21): اگر کوئی شرعی عذر کے تحت اعتکاف سے اٹھ جائے تو کیا اس کا کفارہ ہے مثلا عورت کو حیض آجائے یا کسی کے یہاں جنازہ ہوجائے ؟
جواب : حیض آنے سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ،اس حال میں  عورت کومسجد سے اٹھ جانا چاہئے لیکن اس پہ کوئی کفارہ نہیں ۔اسی طرح قریبی رشتہ دار کی موت پر اعتکاف چھوڑ نا جائز ہے ،اس پر بھی کفارہ نہیں ہے ۔
سوال (22) : معتکف کا نماز جنازہ میں شریک ہونا کیسا ہے ؟
جواب :بعض علماء جواز کی طرف گئے ہیں مگر بہتریہی ہے کہ  اعتکاف کرنے والے کے لئے جنازہ میں شرکت کرنا جائز نہیں ہےجیساکہ ابوداؤد(2473) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ اعتکاف کرنے والا کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، نہ جنازہ میں شریک ہو ۔اسے البانی صاحب نے صحیح کہا ہے ۔


مکمل تحریر >>

Monday, June 19, 2017

سوتیلی ماں کی بہن سے شادی کا حکم


سوتیلی ماں کی بہن سے شادی کا حکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
زیدکی بیوی کا انتقال ہو گیاہے  اس کے بچے جوان ہیں ، ان کے بچوں میں ایک بیٹا جوان یعنی شادی کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔ بیوی کے انتقال کے بعد زید نے دوسری شادی کرلی ہے-یہاں سوال یہ ہے کہ زید کی  دوسری  بیوی کی ایک بہن ہے جو زیدکے  جوان بیٹے کی ہم عمر ہے -تو کیا زید کا بیٹا اپنے باپ کی دوسری بیوی کی بہن یعنی اپنی سوتیلی ماں کی بہن سے جورشتے میں سوتیلی خالہ  لگتی ہے سے شادی کرسکتا ہے ؟- قرآن وصحيح احادیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں - مہربانی ہوگی - جزاک اللہ خیرا
سائل : وحیدالزماں سلفی ،ممبئ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ :
زیدکا بیٹا اپنے باپ کی دوسری بیوی کی بہن سے شادی کرسکتا ہے یعنی آدمی اپنے سوتیلی ماں کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ وہ حقیقی خالہ نہیں ہے ،حقیقی خالہ اپنی سگی ماں کی  سگی بہن ہوتی ہے ۔ سوتیلی ماں کی بہن فقط عرفا خالہ لگتی ہے،لہذا اس سے نکاح جائز ہے ۔سوتیلی ماں کی بہن کے علاوہ اس کا بھائی اور اس کی ماں سے بھی نکاح جائز ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی

مکمل تحریر >>

آخری عشرے سے متعلق چندامور پر انتباہ


آخری عشرے سے متعلق چندامور پر انتباہ


مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر- طائف

رمضان المبار ک کا آخری عشرہ فضیلت کے لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اسی میں اعتکاف ہے اوراسی میں شب قدر ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے ۔ قرآن کا نزول بھی اسی مبارک رات میں ہوا بنایں سبب رسول کریم ﷺ اس عشرے میں طاعات پر زیادہ محنت کرتے اور اپنے اہم وعیال کو بھی اس کی دعوت دیتے ۔ ہم بھی اپنے پیارے نبی کی پیاری سنت پر عمل کرتے ہوئے آخری عشرے میں بھلائی کے کاموں پر زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور شب قدر پانے کے لئے خوب خوب اجتہاد کریں ، اس کے لئے اللہ سے توفیق طلب کریں اور کثرت سے شب قدر کی دعا پڑھا کریں ۔
مندرجہ ذیل سطور میں آخری عشرہ سے متعلق چند ایسے امور پر اطلاع دینا مقصود ہے جن کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں یا بے دینی کو دین سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے ۔
(1)آخری عشرہ میں تساہلی:
مشاہدے میں بات آئی ہے کہ شروع رمضان میں لوگوں میں عبادت وبھلائی کا ذوق وشوق زیادہ ہوتا ہے ، یہ شوق عشرہ گزرنے کے ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ آخری عشرہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
(2)الوداعی جمعہ کا حکم:
جواب : آخری عشرے سے متعلق ایک بات لوگوں میں الوداعی جمعہ سے متعلق رائج ہے جو اصل میں عوام کی مشہور کردہ غلط فہمی ہے ، اس کا علماء سے اور کتاب وسنت سے تعلق نہیں مگر اب عوام کے ساتھ کچھ علماء بھی متاثر ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا، خطبہ میں یا محفل قائم کرکے اس کے گزرنے کا مرثیہ پڑھنا سراسر دین میں زیادتی اور نئی ایجاد ہے ۔کتاب وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے الفاظ سلف صالحین کے یہاں ملتے ہیں۔ ہرہفتے جمعہ کا دن آتا ہے تو پھر کسی ایک مہینے کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ کہنا بالبداہت بھی صحیح نہیں ہےاور جمعہ توہفتے کی عید ہے وہ بھی رمضان المبارک کا جمعہ اس پہ بیحدخوشی ہونی چاہئے خواہ پہلا جمعہ ہو یا آخری جمعہ۔ یاد رکھیں رمضان کے آخری عشرہ میں ہی شب قدر ہے ہمیں اعتکاف اور شب بیداری و اجتہاد کے ذریعہ اسے پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان ایام میں خاص طور سے فضول کام اور تضییع اوقات کا سبب بننے والے امور سے بچنا چاہئے ۔
اس مناسبت سے ایک پیغام امت مسلمہ کے نام دینا چاہتا ہوں کہ رمضان کا آخری جمعہ رخصت ہوتے ہی رمضان بھی ہم سے قریب رخصت ہوجائے گا ،تو الوداعی جمعہ منانے کی بجائے میں دین اور اعمال صالحہ پر اسی طرح قائم رہنے کی تلقین کرتاہوں جس طرح رمضان میں قائم تھے ۔ نیکی صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔جس طرح ایثاروقربانی ، اعمال صالحہ، طاعات وبھلائی ، صدقات وخیرا ت ، عبادت وذکرالہی اور دعوت الی اللہ کی طرف رمضان میں مائل تھے اسی طرح رمضان بعد بھی کرتے رہیں تاکہ دین پر استقامت حاصل رہے اور اسی حال میں موت آئے ۔ ایسے لوگ اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں اوردین پر ہی وفات پانے سے اس کے فضل واحسان سے جنت میں داخل کئے جائیں گے ۔
(3)معتکف کا درس دیناکیساہے ؟
جواب : اگر مسجد میں موجود لوگوں کو تعلیم کی ضرورت ہو اور معتکف (اعتکاف کرنے والا)ان کی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہے تو انہیں درس دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں پابندی کے ساتھ اعتکاف کے اپنے قیمتی اوقات کو درس پر ہی صرف نہ کرے ، اعتکاف دراصل عبادت کے لئے فراغت کا نام ہے لہذا اس مقصد کی تکمیل میں کوشاں رہے ۔
شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ سے سوال کیا گیا کہ کیا معتکف کا کسی کو تعلیم دینا یا درس دینا صحیح ہے تو شیخ کا جواب تھا :
الأفضل للمعتكف أن يشتغل بالعبادات الخاصة كالذكر والصلاة وقراءة القرآن وما أشبه ذلك ، لكن إذا دعت الحاجة إلى تعليم أحد أو التعلم فلا بأس ، لأن هذا من ذكر الله عز وجل(فتاوی الشیخ محمد صالح العثیمین 1/549)
ترجمہ: متعکف کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے مثلا ذکر،نماز،قرآن کی تلاوت اور جو اس قبیل سے ہوں لیکن اگر کسی شخص کو تعلیم دینے اور سکھلانے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے ذکر میں سے ہے ۔
(4)خواتین کا گھر میں اعتکاف :
اعتکاف عورت ومرد دونوں کے حق میں مسنون ہے اور دونوں کے لئے اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے مگر مسلکی علماء اختلاط اور فتنہ کے خوف سے خواتین کو گھروں میں اعتکاف کی تعلیم دیتے ہیں ،یہ سنت کی مخالفت ہے ۔ یہاں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کے لئے علاحدہ جگہ نہ ہو وہاں عورتیں اعتکاف نہ کریں اور جہاں عورتوں کے لئے جگہ مخصوص ہو وہاں اعتکاف کریں ، اس سے اختلاط اور فتنے کا خوف رفع ہوجائے گا۔
(5)شب قدر میں وعظ ونصیحت کا حکم:
جواب : شروع رمضان سے ہی اکثرمساجد میں تراویح کے بعد دروس ومحاضرات اور تفسیرقرآن کا لمبا لمباسلسلہ چلتا رہتا ہے جو نمازیوں کے لئے باعث مشقت ہے ۔حالانکہ یہ جائزوناجائز یا بدعت کا مسئلہ نہیں ہے ،یہ بھی منجملہ رمضان کے نیک اعمال میں سے ہے لیکن تراویح کے بعد کوئی سلسلہ طوالت کا لوگوں کے لئے مزید مشقت کا سبب ہے ۔ میرے خیال سے تراویح کے بعد مختصر دروس اور مختصر تفسیر پہ ہی اکتفا کرنا چاہئے،یا لمبے دروس وتفسیر کے لئے کوئی اور مناسب وقت متعین کرنا چاہئے جس میں لوگ بلامشقت اور نشاط کے ساتھ درس وتفسیر سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس وقت دروس ومحاضرات کا سلسلہ آخری عشرے اور اس کی طاق راتوں میں بھی شروع کیا جانے لگا ہے ۔کچھ لوگ چارچار رکعت کے بعد وعظ کرتے ہیں تو کچھ لوگ تراویح کے آخرمیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آخری عشرے میں درس دینا لوگوں کے لئے مناسب ہے اور شرعا اس عمل کی کہاں تک گنجائش ہے ؟
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ دینی دروس بہرحال مفید ہیں مگر اس کے لئے مناسب وقت کا تعین ضروری ہے ، اس عمل کے قبیل سے لوگوں میں جوازوعدم جواز سے متعلق دوقسم کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ جواز والوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی خیر کے کاموں میں سے ہے اور چونکہ نبی ﷺ سے کسی خیر کی ان راتوں میں ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے آخری عشرے کے لئے خیر کے کاموں کو مخصوص کیا ہے بلکہ آزادی ہے جس قسم کا بھی کارخیرکرے ۔ اس بات پر عرض یہ ہے کہ بلاشبہ درس دینا دعوت الی اللہ اور خیرکا کام ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے مگر اس قدر اجر وثواب والا عمل ہونے کے باوجود سلف سے آخری عشرے میں یہ کام منقول نہیں ہے ۔ ہاں کوئی ان ایام کی فضیلت کے تعلق سےایک آدھ مرتبہ لوگوں کو کچھ نصیحت کرناچاہے تو مجھے اس میں کوئی حرج نہیں محسوس ہوتا لیکن باقاعدہ ان راتوں میں اجلاس یا دروس کا سلسلہ قائم کرنا محل نظر ہے ۔ اگر جوازوالے ان راتوں میں پابندی سے درس کے قائل ہیں جوکہ کارخیر ہے تو پھران کی نظرمیں دسیوں علماء کوبلابلاجلسہ منعقد کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے جبکہ اس بات کے وہ بھی قائل نہیں ہوں گے تومعلوم یہ ہواکہ یہ راتیں عبادت کے لئے فارغ ہونی چاہئے ۔ آئیے ایک حدیث کی روشنی میں نبی ﷺ کا اسوہ دیکھتے ہیں کہ آخری عشرہ میں آپ ﷺ کیا کرتے تھے؟ ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو (عبادت کے لئے)کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہیں ۔
(1) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
نبی ﷺ کے اسوہ کو اپناتے ہوئے آخری عشرے میں ہمارا بھی یہی طرزعمل ہونا چاہئے تاکہ شب قدر اور اس کی فضیلت کو پاسکیں ۔
(6) شب قدر کی مخصوص نماز:
جب آخری عشرہ شروع ہونے لگتا ہے تو مسلمانوں کے بعض طبقوں میں عموما شب قدر کی مخصوص نماز سے متعلق رسالہ تقسیم کیا جاتا ہے جس میں 21، 23، 25، 27، اور 29 کی راتوں کے لئے الگ الگ طریقے سے پڑھی جانے والی شب قدر کی نماز کا مخصوص طریقہ مع اذکار لکھا ہوتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ کی سنت میں شب قدر کی کوئی مخصوص نماز نہیں ہے اور جب شب قدر ہی مخصوص نہیں تو اس کی نماز کیسے مخصوص ہوسکتی ہے،اصلا یہ صوفیوں کا طریقہ ہے اس سے بچاجائے اور دوسروں کو بھی بچایا جائے ۔
(7) آخری عشرہ کی مخصوص دعا:
ایک ضعیف حدیث کی بنیاد پر لوگوں نے تینوں عشروں کی مخصوص دعا ایجاد کردی ہے ۔ پہلے عشرہ میں رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین، دوسرے میں استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ اور تیسرے میں اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنا ۔
ان میں پہلے اور دوسرے عشرے کی مخصوص دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے البتہ تیسرے عشرہ کی جو دعا ہے وہ شب قدر کے لئے ہے لہذا ہم آخری عشرہ میں تمام دن پڑھ سکتے کیونکہ شب قدر اسی آخری عشرہ میں ہے ۔
(8)آخری عشرہ میں دو مرتبہ قیام اللیل کرنے کا حکم:
جواب : عموما رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد تراویح کی نماز پڑھ لی جاتی ہے اور بعض جگہوں پر آدھی رات کے بعد دوبارہ جماعت سے قیام اللیل کا اہتمام کیا جاتا ہے ،لوگ پوچھتے ہیں کہ جب تراویح آٹھ ہی رکعت ہے تو پھردوبارہ قیام کیوں کیا جاتا ہے اور اس کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں نبی ﷺ دوسرے عشرے کی بنسبت زیادہ عبادت کرتے تھے بلکہ آخری عشر ہ تو عبادت کے لئے بیدار رہنے کا نام ہے ۔ ان ایام کی راتوں میں جس قدر ہوسکے عبادت پر اجتہاد کرنا چاہئے ،کوئی رات بھر عبادت کرے، کوئی دو تین باراٹھ اٹھ کر عبادت کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہےخواہ کوئی فجر تک پڑھے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
رمضان میں کثرت سے مستحب اعمال انجام دینا چاہئے اور نفلی عبادتیں مستحب اعمال میں سے ہیں ، اگرکوئی امام کے ساتھ آٹھ رکعات تراویح کی نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کے لئے دوبارہ اٹھ کر قیام کرنے کی ممانعت نہیں ہے خواہ پہلا عشرہ ہو یا آخری عشرہ اور آخری عشرہ عبادت پر اجتہاد کے اعتبار سے کافی اہم ہے کیونکہ اسی میں شب قدر ہے لہذا آخری عشرے کی ساری راتوں میں پوری پوری رات جگ کر عبادت کرنا مستحب ومسنون عمل ہے ۔
(9)عید کی اڈوانس میں مبارکبادی دینے کا حکم:
جواب : سنت سےعید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔ مبارکبادی کے الفاظ ہیں : تقبل اللہ منا ومنک۔ کوئی عید مبارک کے الفاظ کہتا ہے تو بھی درست ہے ۔جہاں تک عید کی مبارکبادی دینا قبل از وقت تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ، عید کی مبارکبادی تو عید کے دن ،عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئےکہ اللہ کے فضل کے سبب ہمیں عید ومسرت میسر ہوئی ۔اس سلسلے میں بعض علماء ایک دودن پہلے تہنیت پیش کرنے کے قائل ہیں مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عید سے پہلے مبارکبادی پیش کرنے کو سنت کی مخالف کہی جائے کیونکہ لوگ اس وقت ہرچیز کے لئے مبارک پیش کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کتنے دنوں پہلے سے ہی ۔ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ کم اور مبارکبادی پیش کرنے کا رواج زیادہ ہوتا نظر آرہاہے ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے عید سے ایک دودن پہلے مبارکبادی پیش کرنے کے متعلق سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیاکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،مبارکبادی توعید کے دن یا عید کے بعد والے دن مباح ہے لیکن عید کے دن سے پہلے مبارکبادی دینے سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ اسلاف سے کچھ ثابت ہے تو پھر لوگ عید سے پہلے کیسے تہنیت پیش کرتےہیں جس کے متعلق کچھ ثبوت نہیں ہے ۔
(10)مسجدوں کی بجائے بازاروں میں چہل پہل :
شروع میں کہا گیا ہے کہ لوگوں میں آخری عشرہ کی آمد پرعبادت کے تئیں  سستی پیدا ہوجاتی ہے جبکہ اسی میں سب سے زیادہ چستی پھرتی چاہئے ۔ رات تو جاگتے ہیں مگر عبادت کے لئے نہیں بات چیت،، کھل کود، سیروتفریح بطور خاص عید کی تیاری کے لئے بازار میں بکثرت سے آمد ورفت ۔اس قدر اہم راتیں اور ہم بازاروں کو رونق بخشتے ہیں یہ ہماری غفلت ، رمضان کی ناقدری اور ہرقسم کی بھلائی سے محرومی کی دلیل ہے ۔
(11) فطرانے کی ادائیگی میں غلطی :
کتنے سارے مسلمان صدقۃ الفطر شروع رمضان سے ہی نکالنا شروع کردیتے ہیں ، کتنے لوگ مفتی صاحب سے فیکس فطرہ کی رقم معلوم کرکے گھرکے سارے افراد کی طرف سے رقم اکٹھا کرلیتے ہیں اور رمضان میں آنے والے سائلوں میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔ صدقۃ الفطر فیکس ڈھائی کلو اناج میں سے ادا کرنا ہے اور اس کا افضل وقت عید کا چاند نکلنے سے نماز عید تک ہے ۔ ہاں ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے تاہم کئی دن پہلے ادا کرنا جائز نہیں ہے نہ ہی اناج کو پیسہ بناکر دیا جاسکتا ہے الا یہ کہ اس کی کسی کو ضرورت ہو۔
(12) خواتین کی بے عملیاں :
عورتوں میں شب قدت کی عبادت کے تئیں کافی سکوت پایا جاتا ہے، وہ خود کو گھر کے انتظامی امور کا ملکہ سمجھتی ہیں ۔ نئے کپڑوں کا انتخاب، گھروں کی زیبائش، عمدہ پکوان کی تیاری اور مصنوعی زیب وزینت کی مصروفیت میں غرق رہتی ہیں ۔  کچھ اللہ کی بندیاں اچھی بھی ہیں مگر نوجوان نسل تو اللہ کی پناہ ۔ حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب اجنبی  مردوں سے اپنے ہاتھوں پر مہندیاں سجاتی ہیں ۔اللہ کے لئے اپنے مقام کو پہچانو، اپنی عزت کرو، دنیاوی معاملات پر دین کو ترجیح دواور آخری عشرہ میں شب بیداری کرکے عبادت پر محنت کرو۔  

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آخری عشرہ میں سنت نبوی کی اقتداء کرنے کی توفیق دے اور اپنے فضل وکرم سے شب قدر کی توفیق دے کر اس کی ہربھلائی سے نواز دے ۔ آمین

مکمل تحریر >>

Sunday, June 18, 2017

وائی فائی کے پاسورڈ کو کیسے کریک کیا جا سکتا ہے (مقصود تعلیم صرف)
How to crack wifi

مکمل تحریر >>

اب ایک موبائل میں دو وٹس اپ اکاونٹس



مکمل تحریر >>

Friday, June 16, 2017

واٹس ایپ گروپ "اسلامیات" کے سوالات اور اس کے اڈمن کے جوابات


واٹس ایپ گروپ "اسلامیات" کے سوالات اور اس کے اڈمن کے جوابات
________________________________
جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی


سوال (1) : نماز تسبیح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : نماز تسبیح کے متعلق علماء کا اختلاف ہے ، بعض نے جائز کہا ہے اور بعض نے ناجائز کہا ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ تسبیح سے متعلق وارد روایات میں صحت وضعف کا اختلاف ہے ۔ جو تسبیح والی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں وہ جائز کہتے اور جو ضعیف قرار دیتے وہ ناجائز کہتے ہیں ۔ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد اختلف الناس في صلاة التسبيح في صحة حديثها والعمل به:فمنهم من صحَّحه، ومنهم من حسَّنه، ومنهم من ضعَّفه ومنهم من جعله في الموضوعات، وقد ذكر "ابن الجوزي" أحاديث صلاة التسبيح وطرقها وضعَّفها كلها، وبين ضعفها وذكره في كتابه الموضوعات.(مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين - المجلد الرابع عشر - باب صلاة التطوع)
ترجمہ: اور لوگوں نے نماز تسبیح والی حدیث کی صحت اور اس پر عمل کرنے کے متعلق اختلاف کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اسے صحیح کہاہے ، بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے ضعیف کہا ہے اور بعض نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ ابن الجوزی نے تسبیح والی نماز کی احادیث اور ان کے طرق کو جمع کیا ہے اور تمام کی تمام کو ضعیف قرار دیا ہے اور انہیں اپنی کتاب "الموضوعات" میں ذکر کیا ہے ۔
راحج یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تسبیح والی احادیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے ۔
سوال (2): حدیث کی تحقیق: جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور وضو کے بعد یہ کہے "اشھد ان لاالہ الااللہ اشھد ان محمد اعبدہ ورسولہ " تو جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جاتے ہیں ۔ اس حدیث کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : یہ روایت صحیح ہے بلکہ مسلم شریف سمیت کئی کتب حدیث میں موجود ہے مثلا ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد۔ روایت اس طرح سے ہے :
ما منكمْ من أحدٍ يتوضأ فيبلغُ ( أو فيُسبغُ ) الوضوءَ ثم يقول : أشهدُ أن لاّ إلهَ إلا اللهُ وأنَّ محمدًا عبدُ اللهِ ورسولُهُ، إلا فتحتْ له أبوابُ الجنةِ الثمانيةُ، يدخلُ من أيّها شاءَ(صحیح مسلم : 234)
ترجمہ: جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله» میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔
سوال (3) : غیرمسلم افطاری کرائے تو اس کی دعوت قبول کرنا کیسا ہے ؟
جواب : اسلام میں جن چیزوں کا کھانا حلال ہے غیرمسلم کی طرف سے ان چیزوں کی بطور افطار دعوت قبول کرنا جائز ہے ۔
سوال(4): زکوۃ کا پیسہ عصری علوم کے لڑکے اور لڑکیوں پر صرف کرنا کیسا ہے ؟
جواب :زکوۃ کا پیسہ فقیر ومسکین طالب علموں پر صرف کرسکتے ہیں جو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہوں ، اسی طرح اگر عصری علوم جو مسلمانوں کے لئے مباح اور جن کے حصول کی ضرورت ہے ایسے علوم کے فقیر ومسکین طالبان پر زکوۃ کا پیسہ صرف کرنا جائز ہے ۔
سوال (5): اگر ہم حنفی دیوبندی کے پیچھے آٹھ رکعت تراویح کی نماز پڑھ لیں تو کیا پوری رات قیام کا ثواب ملے گا جس کا ذکر حدیث میں ہےجبکہ امام کی نماز ابھی باقی ہی ہوتی ہے؟ ۔
جواب : پہلے وہ حدیث پیش کرتا ہوں جس کی طرف سائل کا اشارہ ہے ۔ نسائی کی روایت ہے جسے البانی صاحب نے صحیح کہا ہے :
إنَّهُ من قامَ معَ الإمامِ حتَّى ينصرِفَ كتبَ اللَّهُ لَهُ قيامَ ليلةٍ(صحيح النسائي:1604)
ترجمہ: جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری رات کا قیام امام کے ساتھ آخر تک رہنے پر منحصر ہے ، جس نے آٹھ رکعت نماز تراویح امام کے ساتھ پڑھی اس نے نبی ﷺ کی تراویح کی سنت کو پالیا لیکن پوری رات کے قیام کا اجر اس وقت ملے گا جب امام کے ساتھ آخر تک رہے ۔ لہذا کوشش کریں کہ اہل حدیث امام کے پیچھے نماز پڑھیں تاکہ تراویح کی مسنون رکعات ادا کریں، نماز کے ارکان کی ادائیگی میں اعتدال بھی قائم رہے اور پوری رات قیام کا بھی اجر ملے ۔
سوال (6): کیا قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : اگر آپ خود قے آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔
سوال (7) : ایک بیوہ عورت کی تین لڑکیاں تھیں ، اس سے ایک آدمی نے شادی کی اور حالت حمل میں طلاق دے دیا، کیا وہ طلاق واقع ہوگئی اور دوبارہ رجوع کا کیا طریقہ ہے ؟
جواب : حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہذا یہ طلاق شمار ہوگی ۔ حمل میں دی گئی طلاق کی عدت وضع حمل ہے ، وضع حمل سے پہلے بیوی سے رجوع کرسکتے ہیں لیکن اگر وضع حمل ہوگیا تو پھر نکاح جدید کے ذریعہ دوبارہ اکٹھا ہوسکتے ہیں ۔
سوال(8): حرام وحلال کمائی کرنے والے آدمی کی دعوت کھانا کیسا ہے ؟
جواب : ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ حرام کمائی کرے ، ایسے آدمی سے اگر ہمارا سابقہ ہو تو اسے نصیحت کریں تاآنکہ وہ اس سے رک جائے ۔ رہا مسئلہ ایسے شخص کی دعوت کھانے کا جس کی کمائی میں حلال وحرام دونوں کمائی کی آمیزش ہے تو اس کی دعوت کھائی جاسکتی ہے جیساکہ نبی ﷺ سے یہودی کی دعوت کھانا ثابت ہے مگر اول وحلہ میں ہم اسے نصیحت کریں ، اگر وہ آپ کی بات سے نرمی اپناتا اور آئندہ اس سے بچنے کا وعدہ کرتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن اگر اپنی حرام کمائی پر اتراتا ہے تو پھر اس کی دعوت سے دور رہنا بھلا ہے تاکہ اس کی حوصلہ شکنی ہو۔ ایک مسلمان ہونے کے تئیں منکر کی بابت ہمارا یہی طرز عمل ہونا چاہئے ۔
سوال (9): میری بیوی کو شاد ی پر دو گولڈ ملے ، اور میں اپنی تنخواہ سے بچا بچا کر کمیٹی ڈال کر کچھ پیسے بچایا ہوں جو تقریبا 350000 ہے اس سے پلاٹ خریدنے کا ارادہ ہے ،کیا اس پہ زکوۃ ہے ؟
جواب :آپ پیسے کسی بھی نیت سے رکھے ہوں اگر نصاب زکوۃ تک پہنچ جاتا ہے اور اس پر ایک سال مکمل ہوجاتاہےتو پھر اس کی زکوۃ دینی ہوگی اور گولڈ بیوی کی ملکیت ہے تو اس کی زکوۃ 85 گرام یا اس سے زیادہ سونا ہونے اوراس پر ایک سال گزرنے پر ہے۔
سوال (10): کیا عورت چھت کے اوپر جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ سکتی ہے جبکہ نماز پڑھانے والی بھی عورت ہے ؟
جواب : عورت گھر میں ، مسجد میں ،گھر کی چھت پر اور کسی محفوظ جگہ میں جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ سکتی ہے ۔ یہ نماز انفرادی اور اجتماعی دونوں شکل میں انجام دی جاسکتی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے اکیلے گھر میں پڑھی ہے اور جماعت سے صحابہ کرام کو پڑھا یا بھی ہے ۔ عورت جب عورت کوتراویح کی نماز پڑھائے تو وہ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہونہ کہ مردوں کی طرح اکیلے اگلی صف میں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں عورت جماعت کرائے وہاں اس کی آواز سننے والا غیرمحرم نہ ہواور قرات کی آواز زیادہ بلند نہ رہے۔


مکمل تحریر >>

کیا سونا چاندی او ر زیورات کو ایک میں ملا کر زکوۃ دی جائےگی؟

کیا سونا چاندی او ر زیورات کو ایک میں ملا کر زکوۃ دی جائےگی؟

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
شیخ ایک سوال کا جواب مطلوب ہے.
زید ایک تاجر ہے، اس وقت اس کے پاس مال تجارت اور کچھ نقدی مل ملا کر دس لاکھ کی مالیت تک پہنچ رہی ہے,اسکی ماں کے پاس سونا ہے 5 تولہ اور اسکی بیوی کے پاس بارہ تولہ سونا ہے،کیا وہ اس سونے کو بھی اپنے اموال کے ساتھ کر کے زکوٰۃ نکالے گا؟
کن کن صورتوں / موقعوں پر ساری نقدی اور زیورات سونا و چاندی کو جمع کر کے زکوٰۃ نکالنا ہے؟ کیا مال اگر نصاب کو پہنچ گیا ہو اور سونا بھی یا نہ مال نصاب کو پہنچا نہ ہی سونا تو کیا ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں ہی صورتوں میں مال کے ساتھ سونا شامل کر کے زکوٰۃ نکالی جائے گی؟
سائل : عباد الرحمن حیدرآباد ، دکن

وعليكم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ
الحمد للہ :
زید دس لاکھ کی مالیت میں سے ڈھائی فیصد زکوہ نکالے گا اس شرط کے ساتھ اگر اس پر ایک سال مکمل ہوگیا ہو۔
اس کی ماں کے پاس جو سونا ہے وہ ماں کی ملکیت ہے اس کی ملکیت کو زید کے ساتھ نہیں جوڑا جائے گا اور یہ نصاب سے کم ہونے کے سبب اس پر زکوہ نہیں ہے۔
اور بیوی کی ملکیت کو بھی نہ زید کی ملکیت سے جوڑا جائے اور نہ ہی زید کی ماں کے سونے سے اور چونکہ یہ نصاب تک پہنچ گیا ہے لہذا اس پر زکوہ ہے اگر اس پر سال مکمل ہوگیا ہے۔
اور سونا یا چاندی اس قدر ہے کہ وہ نصاب تک پہنچ جا رہا ہے اور دوسری طرف نقدی بھی نصاب تک پہنچ جارہی ہے تو نقدی کی الگ زکوہ دیں اور سونے/چاندی کی الگ لیکن تھوڑا سونا/چاندی ہو اور تھوڑے پیسے ہوں دونوں میں کوئی نصاب تک نہیں پہنچ رہا ہو اور دونوں کو جمع کرنے سے نصاب تک پہنچ جارہا ہو تو دونوں(سونا/چاندی اور نقدی) کو جمع کرے اور زکوہ دے بشرطیکہ سونا /چاندی اور نقدی ایک ہی آدمی کا ہو۔
البتہ سونا کو چاندی کے ساتھ جوڑ کر زکوہ نہیں دی جائے کیونکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Tuesday, June 13, 2017

سامان تجارت، منافع اور نقدی پر زکوۃ

سامان تجارت، منافع اور نقدی پر زکوۃ



ایک اہم سوال ہے کہ تجارتی مال کی زکوۃ کیسے نکالیں گے اورکیا سال بھر کے منافع کا بھی حساب کیا جائے گا نیز تجارتی مال کے ساتھ ساتھ موجودہ نقدی کو بھی شامل کیا جائے گا؟
اس سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر سال میں منافع سے زیادہ نقصان رہا ہو تجارت میں یا آمدنی برائے نام رہی ہو (یعنی حالات ایسے دگرگوں ہو چکے ہوں کہ سب کچھ کاروبار کی بقا کے لئے انویسٹ کر بیٹھے ہیں) تو کیا صورتحال ہو گی زکوٰۃ نکالنے کی؟
اسی طرح تیسرا سوال یہ ہے کہ گھر بھی ذاتی نہیں،دکان بھی ذاتی نہیں، ہر ماہ منافع کی رقم میں سے دکان کے ملازم اور کفیل کو بھی ایک معینہ رقم ادا کرنی پڑتی ہےتب کیا صورتحال ہو گی زکوٰۃ نکالنے کی؟
سائل : عبادالرحمن ، حیدرآباد، الھند
جواب :
پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ آلات تجارت پر زکوہ نہیں مثلا تجارتی سامان ڈھونے کے لئے گاڑی ہو یا مصنوعات تیار کرنے کے لئے مشینریاں ہوں خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں لیکن سامان تجارت( ( For Sale اوراس کے منافع پر زکوہ ہے نیز کچھ نقدی ہو تو اسے بھی کل مالیت میں جوڑا جائے گا ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ
آپ کے پاس تجارتی سامان ہے اس کی مالیت کا اندازہ لگائیں۔
اس تجارت سے جو منافع خرچ ہوتا رہا اس کی کوئی گنتی نہیں جو منافع سال بھر بچا رہا اس کو جمع کریں۔
ان دونوں کے علاوہ جو دیگر نقدی روپئے ہوں جن پر سال گزر گیا ہو وہ سارے جمع کریں۔اگر نہیں ہے تو پھر کوئی بات نہیں ۔
ان سب پیسوں کو جوڑ کر کل مال کو دیکھیں ،اگریہ کل مال نصاب زکوہ تک پہنچ جارہا ہے یعنی 595 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجارہاہے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوہ دیں، اس شرط کے ساتھ کہ ان مالوں پر ایک سال بھی مکمل ہوگیا ہو۔
رہی بات تجارت میں نقصان کی تو جب تجارت میں نقصان ہوا ہواور سامان تجارت کی مالیت نصاب زکوۃ تک نہیں پہنچ رہی ہو تو پھراس میں زکوہ نہیں دینی ہے لیکن یاد رہے کہ تجارت میں نقصان کے باوجود تجارتی سامان کی مالیت نصاب تک پہنچ رہی ہے اور اس پرسال بھی مکمل ہو رہا ہے تو پھر زکوہ دینی ہوگی۔ اور گھر و مکان پر زکوہ نہیں۔


واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی


مکمل تحریر >>

Monday, June 12, 2017

شوہر کا بیوی پر بلاوجہ ظلم وزیاتی کرنا

شوہر کا بیوی پر بلاوجہ ظلم وزیاتی کرنا
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر – طائف

ایک بہن کا درد بھرا سوال ہے کہ کیا شوہر  بیوی کوبغیر غلطی کے  گالی دے سکتا ہے ، بلاوجہ کوسنا، طعنے دینا،بددعا کرنا شوہر کو اسلام نے اجازت دی ہے ۔ وہ سزا دے ،مارے، ستائے اور عورت بت بنی سب کچھ دیکھتی  سہتی رہے ۔ اس سے متعلق اسلامی حکم کیا ہے ہمیں اس سے آگاہ کریں ۔ اللہ پاک آپ کو اس کا بہترین  بدلہ دے ۔ آمین
واقعی بہت سارے گھروں میں مردوں کی صورت حال ایسی ہی ہے ، اپنی مردانگی کا اظہار میدان میں نہیں صنف نازک پہ کرتے ہیں ۔ بلاوجہ عورتوں کو گالی دینا، اسے کوسنا، مارنا، ستانا، بددعا کرنا، دھمکی دینا ظم وزیادتی پیشہ بنالیاہے ۔ اللہ تعالی ایسے ظالموں کا سخت محاسبہ کرے گا۔ عورت کے صبر وضبط سے فائدہ اٹھاکر بہت سے ظالم لوگ طرح طرح کی سزائیں بھی دیتے ہیں ۔ عورت اپنے شوہر کا خیال کرکے میکے میں بھی کچھ نہیں بتاتی تاکہ اپنے گھر کی اور شوہر نامدار کی بے عزتی نہ ہو۔ایسا پاکیزہ خیال عورت کے اندر ہی ہوتا ہے مردوں کی اکثریت اس صفت سے عاری ہے ۔ ایسے لوگ وہ مرد ہیں جنہیں عورت کے مقام ومرتبے اور ان کی بلندی سے نابلد ہوتے ہیں ۔
عورت گھر کی ہی نہیں کائنات کی زینت ہے ، دنیا سے اگر عورت نابود ہوجائے تو اس کا رنگ وروپ  ماند پڑجائے، زندگی سے عورت چلی جائے تو سونی سونی اجیرن سی ہوجائے ۔ مرودں کو سکون وراحت عورت سے ہی ملتا ہے ، مردوں کے غم دوراں اور غم زندگی کا بوجھ ہلکا کرنے والی عورت کی ہی ذات ہوتی ہے ۔  بیماری سے لیکر کام کاج تک ہرموڑ پر سہارا دینے والی عورت ہے ۔ شادی کے بعد انسان عورت کا مقام بھول جاتا ہے جبکہ معلوم ہونا چاہئے یہی مرد جب بغیر بیوی کے زندگی بسر کرے تو لوگ اسے نامرد کہیں گے ۔ عورت ہی مردوں کی مردانگی کی علامت ہے ، ایمان کی تکمیل کا باعث ہے اور بلند سے بلند معیار پر فائز ہونے میں اس کا اعلی کردار رہاہے ۔ جو مرد کمزور وبے زبان عورت پر اپنا ظلم ڈھاتا ہے وہ مرد بھی کسی عورت کی کوکھ سے نکل کر آیاہے جو مقدس ومحترم لفظ ماں سے موسوم ہے ۔ اس لئے مردوں کو عورتوں کے حق میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں تساہلی سے گریز کرنا چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے مسلم شریف کی حدیث ہے :
فاتقوا اللهَ في النِّساءِ(مسلم :1218)
ترجمہ : اے لوگو! تم عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ فرماتے ہیں  :خيرُكُم خيرُكم لِأهْلِهِ ، وَأَنَا خيرُكم لِأَهْلِي(صحيح الجامع:3314)
ترجمہ : اے لوگو! تم میں سب سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے بہترین ہواورمیں تم میں اپنے عیال کے لئے سب سے بہترین ہوں ۔
اس لئے پیارے بھائیو! اپنی بیوی کو بلاوجہ گالی مت دو، اسے بات بات پر طعنے نہ دو، کبھی غلطی کرجائے تو پیار سے سمجھادومگر طنز سے اس کا نازک سینہ چھلنی نہ کرو۔ ظلم وزیادتی سے تو سچی توبہ کرلو،اللہ تعالی ہمارے ہرعمل سے باخبر ہے اور آخرت میں ذرے ذرے کا حساب وکتاب لے گا۔
دوسری طرف میں عورتوں کو بھی صبر واستقلال کی نصیحت کرتا ہوں ۔ آپ یقین کریں کہ اگر مردوں کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہوکر صبر کا پہاڑ بن جائیں تو مرد آپ کے صبر کے پہاڑ تلے بونا نظر آئے گا۔ عورت کے اندر اللہ نے بہت سے خوبیاں رکھی ہیں ، ان میں سے ایک، صبر کے علاوہ خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے میٹھے اور دل موہ لینے والے اندازو ادا سے شوہر کا دل جیت سکتی ہے ۔ آپ کا شوہر جس بات سے ناراض ہوتا ہے اس کو دل پر لینے کے بجائے بات صحیح ہو تو اپنی اصلاح کرلیں شوہر آپ سے راضی ہوجائےگا اور بات ختم ہوجائے گی ۔ بسااوقات معمولی سی بات میاں بیوی کے درمیان بڑے نزاع اور طلاق وجدائی کا سبب بن جاتا ہے ۔ تو آپ کے ہاتھ گھر کی کشتی کا پتوار ہے اسے سنبھال کر چلائیں ، لاکھ طوفان آئے ، آندھی آئے کشتی ہچکولے کھائے آپ پتوار کا استعمال صحیح سے کریں ۔ میں مانتا ہوں کہ بعض شوہر بلاوجہ بیوی کو  مارتے ہیں ، گالی دیتے ہیں ، بات بات پر گھرسے  نکالنے اور طلاق دینے کی دھمکی دیتے ہیں ، ان سب حالات میں آپ صبر کریں ، صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا أخبرُكم بنسائِكم في الجنَّةِ ؟ ! كلُّ ودودٍ ولودٍ ، إذا غضبَتْ أو أُسيءَ إليها [ أو غضب زوجُها ] ؛ قالت : هذه يدي في يدك ؛ لا أَكتحلُ بغَمْضٍ حتى تَرْضى( السلسلة الصحيحة:3380)
ترجمہ : ميں تمہيں جنتى عورتوں كے بارہ ميں نہ بتاؤں ؟ہر محبت كرنے اور زيادہ بچے جننے والى عورت جنت ميں ہے، جب وہ ناراض ہو جائے، يا پھر اس كے ساتھ برا سلوك كيا جائے، يا خاوند ناراض ہو جائے تو عورت بيوى سے كہے: ميرا ہاتھ تيرے ہاتھ ميں ہے، ميں اس وقت تك نيند نہيں كرونگى جب تك تو راضى نہيں ہوتا ۔
مکمل تحریر >>