Monday, December 19, 2016

حیض والی عورت کا عمرہ

حیض والی عورت کا عمرہ
===============

عورت اگر عمرہ کا ارادہ رکھتی ہو اور اسے اپنے قریب ہی حیض آنے کی خبر ہو تو ارادہ ملتی کردے اور جب حیض سے پاک ہوجائے تب عمرہ پہ جائے۔
اوروہ خاتون جو عمرہ کے ارادے سے نکل پڑی اور میقات پہ یا اس سے پہلے حیض آگیا تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ غسل کرکے عمرہ کی نیت کرلے(لبیک عمرۃ کہے) کیونکہ نیت کے لئے طہارت شرط نہیں ہے اور میقات سے مکہ تک تلبیہ پکارتی رہی اور مکہ میں اپنے حیض سے پاک ہونے کا انتظار کرے جب پاک ہوجائے تومسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں اپنی رہائش پہ ہی غسل کرے اور وہیں سے عمرہ ادا کرے ۔
یہاں مزید چند مسائل بیان کردئے جاتے ہیں ۔
(1) بہت ساری خاتون حیض کی حالت میں احرام باندھنے کا حکم نہیں جانتی جس وجہ سے احرام نہیں باندھتی اور باوجودیکہ عمرہ کا ارادہ رکھتی ہے بغیر احرام میقات سے گذرجاتی ہے اور پھر پاک ہونے پر مسجد عائشہ سے احرام بادھتی ہے ۔ یہ غلط ہے ۔ جس کا ارادہ عمرہ یا حج کا ہو وہ بغیر احرام  میقات پار نہ کرے خواہ وہ حیض یا نفاس سے ہی کیوں نہ ہو۔اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے جب ذوالحلیفہ میں بچہ جنم دیا تھا تو انہیں نبی ﷺ نے غسل کرکے احرام باندھنے کا حکم دیا تھا ۔ اس سے امام نووی رحمہ اللہ حیض والی کے احرام پر بھی دلیل پکڑی ہے ۔
(2) حالت حیض میں احرام باندھ کر پاکی کا انتظار کرے اس دوران وہ خود کو اپنے شوہر سے دور رکھے گی ۔
(3) کچھ عورتیں جہالت کی وجہ سے حالت حیض میں مکمل عمرہ کرلیتی ہیں ، یہ بھی غلط ہے ۔ ناپاکی کی حالت میں طواف کرنا منع ہے یہاں تک کہ بغیر وضو بھی طواف نہیں ہوگا۔ اگر کسی عورت نے حیض کی حالت میں مکمل عمرہ کرلیا تو اسے اللہ سے سچی توبہ کرنا چاہئے  اورعمرے کا اتمام کرنا چاہئے۔
(4) اگر کسی عورت کو مکہ پہنچ کر حیض آیا توبھی پاک ہونے تک رکی رہے ، کسی کو طواف کرتے حیض آیا تو طواف چھوڑدے اور پاک ہونے پہ پھر سےازسرے نو طواف اور عمرے کے دیگر ارکان وواجبات ادا کرے، اور کسی کو طواف کے بعد یا سعی کرتے ہوئے حیض آیا توسعی مکمل کرلے کیونکہ سعی کے لئے طہارت شرط نہیں ہے پھررک جائے اور پاک ہونے پر طواف ، طواف کی نماز اور بال کاٹے اور چاہے توطواف کے بعد سعی بھی کرلے نہ کرے تو بھی پہلی سعی کافی ہوگی۔ اور اگر بال کاٹنے کے بعد حیض آیا تو عمرہ مکمل ہوچکا ہے ۔
(5) حالت حیض میں ذکر و اذکار اورصحیح قول کے مطابق زبانی تلاوت (بلاچھوئے) بھی جائز ہے اس لئے انتظار کے ایام میں حیض والی اس کام میں مشغول رہے۔
(6) جن عورتوں کو احرام کی حالت میں حیض آنے کا اندیشہ ہو تو وہ میقات پہ عمرہ کی نیت کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی کہے"إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني" (صحیح الببخاري :5089وصحیح مسلم:1207)
ترجمہ:اگر کسی عارضہ نے مجھے روک لیا تو میری نیت وہاں تک ہی ہے ،جہاں اس نے روک لیا۔
اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عمرہ کرتے ہوئے اب اگر حیض آگیا تو اس کے اوپر کچھ بھی نہیں ۔ نہ دم دینا ہے، نہ فدیہ دینا ہے ، نہ بال کٹانا ہے اور نہ اس کی قضا دینی ہے، وہ فورا احرام ختم کرسکتی ہے۔
(7) بعض علماء نے حیض آنے کے اندیشے میں مانع حیض گولی کھانا جائز قرار دیا ہے گر کوئی نقصان دہ پہلو نہ ہومگر میری رائے یہ ہے کہ عمرہ کو " إن حبسني حابس فمحلي حيث حبستني" سے مشروط کرلینا ہی ہراعتبار سے زیادہ بہترہے۔
(8) اگر عورت کے ساتھ ایسا معاملہ ہو کہ وہ خارج سعودی عرب  سے عمرہ پر آئی ہو اور اس کے پاس انتظار کے لئے وقت نہ ہونیز اس کا دوبارہ لوٹ کر آنا بھی ممکن نہ ہو تو کس کےلنگوٹی باندھ لے اور عمرہ مکمل کرلے اور اگر داخل سعودی عرب سے آئی ہوتواس کا لوٹنا ممکن ہے وہ سفر کرجائے اور پاک ہوکر آئے اور عمرہ مکمل کرے ۔
 شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیاگیاحائضہ نے ابھی تک طواف افاضہ نہیں کیاہے اور وہ سعودی عرب سے باہر رہتی ہے ،اس کے جانے کا وقت آگیا ہے وہ انتظار نہیں کرسکتی اور نہ ہی واپس آسکتی ہے ایسی عورت کا کیا حکم ہے ؟
شیخ نے جواب دیا : اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو دو میں سے کوئی ایک کام کرے یاتو سوئی لگالے جو دم حیض کو روک دے پھر طواف کرے یا اس طرح لنگوٹی باندھ لے کہ حرم میں خون نہ بہے پھرطواف کرے ۔  
واللہ اعلم

کتبہ
مقبول احمد سلفی


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔