Wednesday, December 21, 2016

اللہ کو تو کہہ کر پکارنا

اللہ کو تو کہہ کر پکارنا
=========

مقبول احمد سلفی

سوال : کیا اللہ کو تو کہنا صحیح ہے اور کیا قرآن وحدیث میں اس کی کوئی دلیل ملتی ہے ؟

جواب : اللہ تعالی تن تنہا  پوری مخلوق کاخالق، مالک، رازق اور اس کائنات کا مختار کل ہے ۔ اسی کے دم سے دنیا کی حکمرانی ہے اور اسی کے حکم سے زندگی و موت ہے ۔ ایک مومن کو ان باتوں پر دل سےیقین کرتے ہوئے ایمان لانا ہے جو اللہ کی ذات ، اس کی صفات اور بندگی میں کسی کو شریک کرتا ہے وہ مشرک ہے اور اسلام سے خارج ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات ہی سب سے بلند اور اعلی و ارفع ہے تو کیا لفظ"تو" کا استعمال اتنی بڑی مقدس ذات کے لئے کرنا اس کے شایان شان ہے ؟ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اللہ کو "تو" ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ جواس لفظ کو اللہ کے لئے مناسب نہیں سمجھتا وہ اس کی جگہ احترام کے دوسرے کلمے استعمال کرتا ہے ۔
واقعی اللہ سب سے بلند ذات ہے ، اس کے لئے احترام کا سب سے اعلی لفظ استعمال کرنا چاہئے ۔ اللہ کی حمد بیان کریں ، اللہ کا ذکر کریں یا  اللہ سے کچھ طلب کریں دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ اللہ کا احترام ملحوظ ہونا چاہئے ۔
لفظ "تو "گوکہ اپنے سماج میں بولنے کے اعتبار سے سب سے چھوٹے کو کہتے ہیں جو اکیلا ہو اور جب چھوٹے لوگوں کی جماعت ہو تو "تم" استعمال کرتے ہیں ۔ بڑوں کے لئے خواہ اکیلا ہو یا جماعت کی شکل میں "آپ" کا استعمال عام ہے ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ اکیلا ہے ،اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔اگر ہم احتراماً تم کہتے ہیں تو عقیدہ کے خلاف ہے کیونکہ تم بہت سے لوگوں کے لئے مستعمل ہے ۔ اگر آپ کہتے ہیں تو یہ بھی جہاں ایک کے لئے استعمال ہوتا ہے وہیں جمع کے لئے بھی رائج ہے ۔ گویا اللہ کے لئے تم اور آپ کے استعمال سے عقیدے کے لخاظ سے عیب پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالی شرکت سے پاک ہےاور ہرعیب سے پاک وصاف ہے ۔ تو اللہ کے لئے کامل احترام لفظ تو کے استعمال میں ہی پایا جاتا ہے ۔ اس لئے متقدمین ومتاخرین علماء نے اللہ کے لئے "تو" کا استعمال کیا ہے اور یہی عوام میں رائج بھی ہے ۔ بعض لوگ اللہ سے شدید محبت واحترام میں آپ یااس کے مشابہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اصل میں مذکورہ بالا حقیقت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے مختلف انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم کا قول ذکرکیا ہے جس میں انہوں نے واحد کا ضیغہ استعمال کیا ہے ۔ مثلا  ابراہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے دعا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (ابراهيم :35)
ترجمہ: (ابراہیم کی یہ دعابھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے ۔
نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے خطاب : 
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
ان دونوں آیات میں "یارب"(اے میرے رب) کا لفظ آیا ہے ۔ رب میں یائے متکلم محذوف ہے جو ایک آدمی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اگر ایک سے زائد کے لئے استعمال کرنا ہو تو "یا ربنا"(اے ہمارے رب)کہیں گے ۔
"تو" میں اللہ کا احترام ہونے کے ساتھ اختصاص بھی پایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے جو اختصاص قرآن کی اس آیت میں ہے ۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحه:5(
ترجمہ: تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔


واللہ اعلم 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔