Monday, January 18, 2016

سورہ فاتحہ سے متعلق سوال

ایک پریشان حنفی کا سوال
================


کچھ سوال جو ہمیں دن رات پریشان کرتے ہیں ۔

(1) اگر مقتدی پہ قراۃفاتحہ بھی ہو اور آمین بھی تو بتاؤ کہ اگر امام مقتدی سے پہلے سورہ فاتحہ سے پہلےفارغ ہو جائے تو یہ مقتدی جو ابھی فاتحہ کے بیچ میں ہے آمین کہے یا نہ کہے ۔ تواپنی فاتحہ ختم کرکے بھی آمین کہے یا نہ کہے جو بھی جواب دو حدیث دکھا کر دو۔ نہ دو آمین جائز ہیں نہ فاتحہ کے بیچ میں آمین درست ہے ۔

(2) اگر مقتدی فاتحہ کےبیچ میں ہو اور امام رکوع میں چلا جائے تو بتاؤ یہ مقتدی آدھی فاتحہ چھوڑ دے یارکوع چھوڑ دے جو بھی جواب دو حدیث دکھاؤ۔اپنی عقل و قیاس سے جواب نہ دینا۔

ہم آپ کے جواب کاانتظار کریں گے ۔
محمد یوسف سنی حنفی

الحمد للہ :
پہلے سوال کا جواب : مقتدی کا فاتحہ الگ ہے ، امام کا فاتحہ الگ ہے ۔ دونوں کو بس فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے ،اس لئے یہ دونوں آگے پیچھے ہوسکتے ہیں ۔اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حدیث میں آمین کی موافقت کی فضیلت وارد ہے جو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہے گا اسے یہ فضیلت ملےگی لیکن آمین کی موافقت یا عدم موافقت کا سورہ فاتحہ میں نقص یا نماز میں عدم صحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ روایت پہ غور کریں۔
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قال الإمام ‏{‏غير المغضوب عليهم ولاالضالين‏}‏ فقولوا آمين‏.‏ فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ ‏(صحیح البخاری : 782)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم بھی آمین کہو کیوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ آمین کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

آمین کی ساری حدیثوں سےپتہ چلتا ہے کہ متقدی کی آمین امام کی آمین کے ساتھ ہے ، الگ سے مقتدی کی آمین کا ذکر نہیں ہے ۔ لہذا جو مقتدی ابھی درمیانی فاتحہ پہ ہو وہ  یا جس نے اپنا فاتحہ مکمل کرلیا ہو وہ امام کےساتھ آمین کہے ۔

دوسرے سوال کا جواب :
اگر مقتدی فاتحہ کی قرات کرہی رہاہو اور امام رکوع میں چلاجائے تو اس کی دو صورتیں بنتی ہیں ۔
(1)اگر مقتدی نے فاتحہ کی اکثر آیات پڑھ لیا ہو امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے فاتحہ مکمل کرسکتا ہو توفاتحہ مکمل کرے اور پھر رکوع میں جائے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا صلاۃ لمن لم یقرأبفاتحۃ الکتاب۔ (صحیح بخاری: 756 صحيح مسلم : 394)
ترجمہ : جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔
(2)اگرفاتحہ کی اکثرآیات باقی ہوں ، فاتحہ مکمل کرنے سے رکوع چھوٹنے کا خدشہ ہو تو جتنا پڑھا ہو اتنے پہ رکوع میں شامل ہوجائے، اس حال میں وہ معذور ہوگا اور فاتحہ اس سے ساقط ہوجائے گا کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :إنما جعل الإمام ليؤتم
به ، فلا تختلفوا عليه ، فإذا كبر فكبروا ، وإذا ركع فاركعوا (بخاری : 722، و مسلم: 414)
ترجمہ : امام بنایاجاتا ہے اسی لئے کہ اس کی پیروی کی جائے لہذا تم اس سے اختلاف نہ کرو، جب وہ تکبیرکہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ"سمع اللہ لمن حمدہ" کہے، تو تم "ربنا ولک الحمد" کہو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

مجھے امید کہ ہے پریشان مقلد کی پریشانی دور ہوجائے گی ، اگرسوال اس لئے کیا تھاتاکہ واقعی علم حاصل کرےلیکن اگر سوال بدنیتی سے کیا تھا تو اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہم اللہ سے اس کی پریشانی دور ہونے کی دعا کرتے ہیں ۔
دعاگو
مقبول احمد سلفی
طائف سعودی عرب

1 comments:

MAQUBOOL AHMAD SALAFI نے لکھا ہے کہ

اس پوسٹ پہ ایک بندے نے اعتراض کیا ، اس کا جواب ملاحظہ ہو۔

حفظ الرحمن ندوی اثری : السلام علیکم ورحمة الله و بركاته!
شیخ محترم آپ کے جواب سے میں اور مضطرب وپریشان ہوگیا پہلے کے مقابلہ میں اور ہی زیادہ شش وپنج میں مبتلا ہوگیا براےُکرم آپ کے سوالات کے جوابات میں دو اور سوالات پیدا ہوگئے ان کے جوابات سے نواز کر شکریہ کا موقع دیں.
پہلا سوال (1) آپ نے اقتداء والی حدیث بعد کے جواب میں پیش کیا إنما جعل الإمام ليؤتم به........ تو کیا سورہ فاتحہ کی تلاوت میں اقتداء ضروری نہیں اگر نہیں تو کس دلیل کی بنیاد پر
دوسرا سوال (2) اگر کوئی مقتدی نصف سورہ فاتحہ کی تلاوت میں ہے اور امام سورہ فاتحہ مکمل کرچکا تو ایسی صورت میں مقتدی نصف سورہ پڑھنے والا مقتدی بھی آمین کہے گا پھر آمین کہنے کے بعد بقیہ سورت کی تکمیل کریگا یا امام کی تلاوت سنے گا بصد ادب واحترام گزارش ہیکہ احقر کے اشکلات کا حل فرما کر شکریہ کا موقع دینگے.
والسلام اخوكم في الله حفظ الرحمٰن
مقبول احمد سلفی : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ پریشانی آپ کی خود کی بنائی ہوئی ہے جیسے کوئی درخت سے الٹا لٹک جائے اور کسی کو کہے تو نے مجھے تکلیف دی ۔ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ۔
مقتدی کا سورہ فاتحہ یا تسبیح پڑھنے میں امام کی اقتداء ضروری نہیں ہے ۔ حدیث میں اقتداء سے مراد یہ ہے کہ جب امام قیام میں ہو تو قیام کرو، رکوع میں ہو تو رکوع کرو، اور سجدہ میں ہو تو سجدہ کرو۔
سورہ فاتحہ کے لئے بہتر یہ ہے کہ مقتدی اپنا فاتحہ پہلے ختم کرلے تاکہ امام کا فاتحہ بھی سننے کو مل جائے ۔ ایک صحیح اثر بھی ملتا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ , عَنِ الْعَلاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : " إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَاقْرَأْ بِهَا وَاسْبُقْهُ ، فَإِنَّ الإِمَامَ إِذَا قَضَى السُّورَةَ ، قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَتِ الْمَلائِكَةُ : آمِينَ ، فَإِذَا وَافَقَ قَوْلُكَ قَضَاءَ الإِمَامِ أُمَّ الْقُرْآنِ كَانَ قَمِنًا أَنْ يُسْتَجَابَ " . .(جزء القراءة : 154)
ترجمہ : سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب امام سورۂ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور امام سے پہلے ختم کرلو، پس بیشک وہ جب ’’وَلَاالظَّالٓیْن‘‘ کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین اس کے موافق ہوگئی تو وہ اس کے لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔
مگر واضح رہے مقتدی امام سے پہلے بھی ، یا امام کے ساتھ ساتھ یا امام کے فاتحہ پڑھنے کے بعد فاتحہ پڑھ سکتا ہے ۔ سب جائز ہیں ۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ نصف فاتحہ پڑھنے والا مقتدی بھی آمین کہے ۔ دلیل وہی آمین کہنے والی حدیث ۔

حفظ الرحمن ندوی اثری: جزاك الله خيرا و أحسن الجزاء ويصلح بك الأمة وينفعهم!!! آمین کہنے کے بعد بقیہ سورت کی تلاوت مقتدی کریگا یا امام کی تلاوت سنے گا?
مقبول احمد سلفی : آمین کہنے کے بعد مقتدی بقیہ سورت کی تلاوت کرے گا۔


حفظ الرحمن ندوی اثری: شكراً
مقبول احمد سلفی : عفوا


اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔