Tuesday, November 3, 2015

غیرمسلموں سے ان کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنا

غیرمسلموں سے ان کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنا
======================

مقبول احمد سلفی


یہ بات اہل علم کے درمیان متفقہ ہے کہ غیرمسلموں کو ان کے تہوار پہ ہدیہ دینا منع ہے کیونکہ ان مواقع پر انہیں تحائف دینا باطل تہوار اور تقریبات کا اقراراور ان میں شرکت کرنے کے مترادف ہے۔
البتہ اگر غیرمسلم اپنے تہوار پہ تحفہ دے تو اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ ان کے تہوار میں شرکت یا معاونت نہیں کہلائے گا بلکہ احسان و سلوک کے درجے میں آئے گا جو اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان سے معلوم ہوتا ہے :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
گویا جیسے غیرتہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرسکتے ہیں ویسے ان کے تہوار پہ بھی قبول کرسکتے ہیں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس سلسلے میں کچھ آثار و اقوال ملتے ہیں جنہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ۔
وأما قبول الهدية منهم يوم عيدهم ، فقد قدمنا عن علي -رضي الله عنه- أنه أتي بهدية النيروز فقبلها. وروى ابن أبي شيبة في المصنف : حدثنا جرير عن قابوس عن أبيه أن امرأة سألت عائشة ، قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا . فقالت : "أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم "وقال حدثنا وكيع عن الحسن بن حكيم ، عن أمة ، عن أبي برزة : أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : " ما كان من فاكهة فكلوه وما كان من غير ذلك فردوه " .
فهذا كله يدل على أنه لا تأثير للعيد في المنع من قبول هديتهم ، بل حكمها في العيد وغيره سواء ؛ لأنه ليس في ذلك إعانة لهم على شعائركفرهم . لكن قبول هدية الكفار من أهل الحرب وأهل الذمة مسألة مستقلة بنفسها ؛ فيها خلاف وتفصيل ليس هذا موضعه ، وإنما يجوز أن يؤكل من طعام أهل الكتاب في عيدهم ، بابتياع أو هدية ، أو غير ذلك مما لم يذبحوه للعيد ، فأما ذبائح المجوس ، فالحكم فيها معلوم ، فإنها حرام عند العامة.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفار کی عید کے دن ان سے تحائف قبول کرنے کے بارے میں ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نوروز کے دن انہیں تحفہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول کر لیا۔


اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ: ۔۔ "ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا: ہمارے بچوں کو دودھ پلانے والی کچھ مجوسی خواتین ہیں، اور وہ اپنی عید کے دن تحائف بھیجتی ہیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "انکی عید کے دن ذبح کئے جانے والے جانور کا گوشت مت کھاؤ، لیکن نباتانی اشیاء کھا سکتے ہو"


ابو برزہ کہتے ہیں کہ : ان کے قریب کچھ مجوسی رہائش پذیر تھے جو نوروز اور مہرجان کے دن تحائف بھیجتے تھے، تو ابو برزہ اپنے اہل خانہ سے فرماتے: انکی طرف سے آنے والے پھل کھا لیا کرو، اور اس کے علاوہ دیگر اشیاء مسترد کردو"


ان تمام سے پتا چلتا ہے کہ کفار کی عید کے دن ان کے تحائف قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ عید یا غیر عید میں انکے تحائف قبول کرنے کا ایک ہی حکم ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے انکے کفریہ نظریات پر مشتمل شعائر کی ادائیگی میں معاونت نہیں ہوتی۔۔۔"
اس کےبعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے متنبہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اگرچہ حلال ہے، لیکن جو انہوں نے اپنی عید کے لئے ذبح کیا ہے وہ حلال نہیں ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: "اہل کتا ب کی طرف سے عید کےدن ذبح کیے جانے والے جانور کے علاوہ انکے [نباتاتی]کھانے وغیرہ خرید کر یا ان سے تحفۃً لیکر کھائے جا سکتے ہیں۔
جبکہ مجوسیوں کے ذبیحہ کا حکم معلوم ہے کہ وہ سب کے ہاں حرام ہے۔
(اقتضاء الصرط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم)
امام احمد سے بھی اس پہ جواز نقل کیا گیا ہے۔ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق چند باتیں دھیان میں رہے ۔
(1) یہ ہدیہ ایسا پکوان نہ ہو جو پوجا میں استعمال کیا گیا ہومثلا پرساد وغیرہ
(2) ہدیہ میں حلال چیزیں ہی قبول کی جائیں گی مثلا میوے جات ۔
(3) ان چیزوں کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جن سے غیرمسلم اپنے معبود سے نزدیکی تلاش کرتے ہیں مثلا ذبیحہ ، انڈے، اگربتی ، موم بتی اور رسومات میں استعمال ہونے والی دیگراشیاء۔
(4) جو تحفہ اسلامی اعتبار سے قابل قبول نہ ہو تو اسے ہزگر قبول نہ کریں ساتھ ہی عدم قبولیت کی وجہ ان سے بتلادیں۔
(5) تحفہ قبول کرنے کا مقصد کافروں سے دوستی کرنا نہیں بلکہ احسان و سلوک کرنا تاکہ انہیں اسلام کی طرف مائل کیا جاسکے ۔


واللہ اعلم


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔