Tuesday, November 17, 2015

حاملہ میت کے پیٹ میں زندہ بچہ کا حکم

حاملہ میت کے پیٹ میں زندہ بچہ کا حکم

مقبول احمد سلفی
اگر عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں غیر متحرک یعنی مردہ بچہ ہو تو بلااختلاف عورت کو مردہ بچہ سمیت دفن کیا جائے گا لیکن اگر بچہ زندہ ہو یعنی پیٹ میں حرکت کر رہاہوتو کیا بچے کو ماں سمیت دفن کردیا جائے گا یا بچہ باہر نکالاجائے گا؟
یہ اختلاف کا موضوع ہے ۔
٭ حنفیہ کا کہنا ہے کہ جب حاملہ عورت مر جائے اور بچہ ماں کے پیٹ میں حرکت کر رہاہو توبائیں سے پیٹ کو چاک کرنا جائز ہے تاکہ زندہ بچہ نکالا جاسکے ۔
٭ شافعیہ کے نزدیک بھی یہی حکم ہے ۔
٭ امام مالک کہتے ہیں کہ میتہ کا پیٹ چاک کرکے بچہ نہیں نکالا جائے گا گرچہ بچہ حرکت کرتا ہو۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ جس طرح زندگی میں بچہ پیدا ہوتا تھا اس طرح نکالنے کا امکان ہو تو نکالا جائے ۔ لیکن سحنون کہتے ہیں کہ جب زندگی مکمل ہوگئی ہو اور بچنے کی امید ہو تو پیٹ چاک کیا جائے گا۔
٭ حنابلہ میں ایک قول ہے کہ بچے کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا پھر ماں کوبچہ سمیت دفن کیا جائے گاجبکہ ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ میت کے بعض جزء کا نقصان پہنچانا ایک زندگی کو بچانے کے لئے ہے ۔
ابن حزم نے بڑی اچھی بات کی کہ اگر حاملہ عورت مر جائے اور بچہ پیٹ میں حرکت کر رہاہو اور حمل چھ مہینے کا ہوگیا ہو تو لمبائی میں ماں کا پیٹ چاک کیا جائے گا اور بچے کو نکالا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا۔(المائدة: 32)
ترجمہ : جس نے کسی نفس کی جان بچائی گویا اس نے پورے انسان کی جان بچائی ۔
پھر اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں کہ جس نے قصدا چھوڑ دیا یہاں تک کہ بچہ مر گیا تو وہ اس بچے کا قاتل ہے ۔

چاروں مسلک کی روشنی میں ابن حزم کی بات اقرب الی الصواب ہے ، میں اسی کو ترجیح دیتا ہوں۔
یہاں ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ میت کا پیٹ چاک کرنا لاش کی بے حرمتی ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ لاش کا چیرپھاڑ کرنا مثلہ ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مثلہ سے منع فرمایا ہے :
وعن عبد الله بن يزيد - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن النهبة والمثلة۔ (رواه البخاري)
ترجمہ : عبد اللہ بن یزید روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے لوٹ مار اور مثلہ سے منع فرمایا ہے ۔
لہذا کسی میت کے ساتھ چیر پھاڑ نہیں کیا جائے گا لیکن اگر شدید ضرورت پڑے تو میت کو چیرا جا سکتا ہے جیساکہ مذکورہ بالا صورت حال ہے ، پوسٹ مارٹم بھی جواز کے قبیل سے ہے جب شدید ضرورت کے باعث ہو۔ گویا بلا ضرورت یا میت کی توہین کی خاطر چیر پھاڑ حرام ہے کیونکہ ایک مسلمان کا احترام جس طرح زندگی میں تھا وفات کے بعد بھی باقی رہتا ہے ۔
عن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:كَسْرُ عَظْمِ المَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا۔(صحیح ابو داؤد للالبانی : 3207)
ترجمہ : میت کی ہڈی توڑنا ،زندہ  انسان کی ہڈی توڑنے جیسا ہے۔
٭ اس حدیث کو البانی صاحب نے صحیح قرار دیا ہے ۔
حافظ  ابن حجر ؒفرماتے ہیں:وَيُستَفَادُ مِنهُ أن حُرمَةَ المؤمِنِ بَعدَ مَوتِهِ بَاقِيَة كَمَا كَانَت فِي حَيَاتِهِ۔(فتح الباری 9/113)
یعنی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤمن کی حرمت موت کے بعد موت سے پہلے کی طرح باقی رہتی ہے۔
چند مسائل :
(1) حاملہ  میت کے پیٹ میں بچہ حرکت کر رہاہواور بچہ چھ مہینے کا ہوگیا ہو تو جس بھی طریقے سے ہو بچہ نکالاجائے گا۔
(2) میت کا احترام اپنی جگہ باقی ہے صرف مصلحت کی بنا پر زندہ بچہ کے لئے پیٹ چاک کیا جائےگاجوکہ مثلہ میں یا میت کی حرمت کی پامالی میں داخل نہیں ہے۔
(3) ضرورت کى بناپر پوسٹ مارٹم کا بھی یہی حکم ہے ۔
(4)سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی:3/439)
(5) امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی  شخص کسی کا زندگی میں مال نگل گیا اور وہ مر گیا ، پھر صاحب مال اس کا مطالبہ کرے تو اس کا پیٹ چاک کیا جائے گا اور مال واپس کیا جائے گا۔ ( الروضۃ)
(6) حاملہ عورت اگر اکسڈنٹ سے مرے، یا کوئی بھی مسلمان عورت حمل کے سبب مرے اہل علم نے انہیں شہیدہ میں شمار کیا ہے ۔ یہی مفہوم ہے اس حدیث کا :الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِق ُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْاَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شہیدۃٌ(سنن ابو داؤد:3111)
ترجمہ : جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں ،مطعون شہید ہےاور ڈوبنے والا شہید ہےاور ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور اورپیٹ کی بیماری سے مرنے والا ، اور جل کر مرنے والا شہید ہے، اورملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے ، اورحمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہ ہے۔
٭ اس حدیث البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔

(7) اگریہودیہ یا نصرانیہ حاملہ عورت مرجائے تو نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے نہ ہی اہل کتاب کے بلکہ الگ سے دفن کیا جائے گا اور اس کی پیٹھ قبلہ جانب کردی جائے گی کیونکہ بچہ مسلمان ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔