Sunday, September 6, 2015

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی

ایک جانور کی قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی
=======================

ترتیب و پیشکش : مقبول احمد سلفی

یہ بات متحقق ہے کہ ایک قربانی پورے ایک فیملی ممبرس کے لئے کافی ہے ، لیکن سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ فیملی ممبرس یا ایک گھرانہ کسے کہتے ہیں ۔
اس بارے میں علمائے کرام کے چار اقوال ہیں:
(1)
جن میں تین شرائط پائی جائیں: (الف)قربانی کرنے والا شخص انکے خرچہ کا ذمہ دار ہو (ب) وہ تمام افراد اسکے رشتہ دار بھی ہو (ج) قربانی کرنے والا شخص انکے ساتھ رہائش پذیر ہو، یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے۔
(2)
جن پر ایک ہی شخص خرچ کرتا ہو، یہی موقف کچھ متأخر شافعی فقہاء کا ہے۔
(3)
قربانی کرنے والے کے تمام عزیز و اقارب، چاہے ان پر یہ خرچ بھی نہ کرتا ہو۔
(4)
قربانی کرنے والے کیساتھ رہنے والے تمام افراد چاہے اسکے رشتہ دار نہ ہوں، اس موقف کے قائلین میں خطیب شربینی، شہاب رملی، اور متأخر شافعی فقہاء میں سے طبلاوی رحمہم اللہ جمیعا شامل ہیں، لیکن ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے اسے بعید قرار دیا ہے۔

اب اس سلسلہ میں احادیث دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)
عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا کہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟
تو انہوں نے جواب ديا:
آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے "
(
سنن ترمذى حديث نمبر :1505) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
"
يہ حديث اس كى صريح نص اور دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى ہو، اور حق بھى يہى ہے۔
(2)
عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیَّ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا فِیْکُمْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ یُضَحِّیْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ فَیَاْکُلُوْنَ وَ یُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَکَمَا تَرَی .
(
ابن ماجہ : ابواب الاضاحی ‘ باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ‘ رقم 3147:)
حضرت عطاء نے ابوایوب سے پوچھا کہ آنحضور ﷺ کے عہد میں قربانیوں کا کیا حال تھا؟ انھوں نے جواب دیا کہ عہد نبوی میں ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی دیتا تھا۔۔۔ کبھی کھاتے اور کبھی اوروں کو کھلاتے۔ یہاں تک کہ فخرو مباہات شروع ہو گیا‘ جیسے تم دیکھ رہے ہو۔
(3)
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَائشَۃَ وَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ کَانَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یُّضَحِّیَ اِشْتَرٰی کَبَشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ اَقْرَنَیْنِ اَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْءَیْنِ فَذَبَحَ اَحَدَھُمَا عَنْ اُمَّتِہٖ لِمَنْ شَھِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَ شَھِدَ لَہ‘ بِالْبَلاَغِ وَ ذَبَحَ الْاٰخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ عَنْ اٰلِ مُحَمَّدٍ ۔
(
ابن ماجۃ : ابواب الاضاحی ‘ باب الاضاحی رسول اﷲ رقم 3122:)
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے مینڈے خریدتے جو کہ موٹے سینگوں والے عمدہ رنگ والے اور خصی ہوتے۔ ایک کو اہل توحید کی طرف سے ذبح کرتے اور دوسرے کو اپنی آل کی طرف سے ۔

آثار و اقوال اورفتاوے 
ــــــــــــــــــــــــــ
(1)
ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا قول: " ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا "
(2)
سیدنا عبداللہ بن ہشام خود بھی اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک ہی بکری قربانی دیتے تھے۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام ، باب بیعۃ الصغیر (7210)
(3)
حافظ ابن قيم رحمہ اللہ " زاد المعاد " ميں كہتے ہيں:
"
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو.
(4)
امام شوكانى " نيل الاوطار " ميں لكھتے ہيں:
"
حق يہى ہے كہ ايك بكرى ايك گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد سو يا اس بھے زيادہ ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ سنت سے اس كا فيصلہ ہو چكا ہے ".
(5)
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"
ثواب ميں شراكت كى كوئى حصر نہيں ہے، ديكھيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سارى امت كى جانب سے قربانى كى، اور ايك شخص اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كرتا ہے چاہے ان كى تعداد ايك سو ہى كيوں نہ ہو " . ديكھيں الشرح الممتع ( 5 / 275 ).
(6)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"
اگر خاندان کے افراد زیادہ ہوں، اور سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، تو ان سب کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہوگی، اور اگر ایک سے زائد قربانی کریں تو یہ افضل ہے"انتہی
"
فتاوى اللجنة الدائمة" (11/ 408)
(7)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ دوسری جگہ کہتے ہیں:
"
ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کوایک ہی قربانی کافی ہے، چاہے انکی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو، [مثلاً] سب بھائی ایک جگہ ہیں اور اکٹھے کھانا تیار ہوتا ہے، انکا مکان ایک ہی ہے، تو انکی قربانی بھی ایک ہی ہوگی، چاہے سب کی متعدد بیویاں ہوں، اسی طرح والد کا اپنے بیٹوں کیساتھ حکم ہے، چاہے اسکے کچھ بیٹے شادی شدہ ہوں، تو انکی قربانی بھی ایک ہی ہوگی" ۔
"
مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين" (25/ 43)
حاصل کلام یہ کہ مذکورہ بالا احادیث ، آثار ، اقوال اور فتاوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جانور کی قربانی پورے ایک گھر کے افراد کے لئے کافی ہے چاہے ان کی تعداد جتنی ہو۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔