Thursday, April 9, 2015

عورتوں کو چار شادی کی ممانعت کےوجوہات

عورتوں کو چار شادی کی ممانعت کےوجوہات

اللہ تعالی کا فرمان"تو تم نکاح کرو  دو سے تین سے چار سے اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم ان کے درمیان عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی سےکرو" سورہ نسا آیت3

گویا ایک سے زیادہ شادی کا حکم الہی صرف مردوں کو ہے ، عورتوں کو نہیں ۔ ایسا کیوں ہے اس کے چند وہات مندرجہ ذیل سطور میں دیکھیں۔

پہلی وجہ: عورتوں پر کچھ ایام ایسے گزرتے ہیں جن میں ہمبستری کے قابل نہیں ہوتی جیسے حیض نفاس طبی نقطہ نظر سے حالت حمل میں نیز اگر عورت بیمار ہے یا ایسی پریشانی میں ہے جس میں جماع مانع ہے تواس میں عورت کی مجبوری ہے اور مرد اکثر مخصوص مسائل کے علاوہ بھی عام حالات میں ان پریشانیوں سے دو چار کم ہی ہوتاہے۔

دوسری وجہ: اللہ تعالی نے عورتوں کو مردوں کے بالمقابل کمزور پیدا کیا ہے اور یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی حکمت ہے۔

تیسری وجہ: اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذریعہ ہونے فسادات کا خاتمہ کردیاہے مثال کے طور پر ایک عورت چار مردوں سے شادی کرتی ہے اور وہ حاملہ ہوتی ہے وضع حمل کے بعد وہ بچہ ان چاروں میں سے کس کا مانا جائے گا؟
چونکہ اولاد کی محبت اور ان کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو فیصلہ کیسے ممکن ہوتا۔

چوتھی وجہ : مرد فطری طور پر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔

پانچویں وجہ : ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں، اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کر سکتی ہے ،چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔

چھٹی وجہ : اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے۔ وہ خاوند کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کر سکے۔

ساتویں وجہ : مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔

جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بندر اور بندریا وہاں آئے۔ بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سو گیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جا کر انھوں نے بدکاری کی، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرنا چاہا تو وہ جاگ اُٹھا۔ اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکٹھے ہو گئے، وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ بندر ادھر ادھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی۔ انھوں نے ان دونوں کے لیے ایک گڑھا کھودا اور انھیں رجم کر دیا۔
(فتح الباری: 202/7، حدیث: 3859)
اسی طرح خنزیر کے علاوہ تمام جانوروں میں یہ غیرت کی حس موجود ہے۔ جب حیوان برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی مؤنث کو کوئی اور نر جفتی کرے تو انسان اپنی شریکِ حیات میں شراکت کیسے برداشت کر سکتا ہے؟

ان تمام ظاہری وجوہات سے پتہ چلتا ہے کہ عورت شادی شادی کے لائق ہی نہیں ، اس لئے اسے شار شادی سے منع کیا گیا۔ ان وجوہات کے علاوہ اصل حکمت اور اصل وجہ کا جاننے والا وہی ہے جس نے ہمیں شادی کا ایسا فطری قانون دیا۔اور جو دانا و بینا ہے۔

واللہ اعلم




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔