نماز میں سکون اختیار کرنے کی حقیقت
مسلم
شریف کی ایک حدیث پیش کرکے نماز میں رفع یدین نہ کرنا ثابت کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت
اس کے برعکس ہے۔ پہلے حدیث دیکھیں:
قَالَ
الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ
بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍعَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ
بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا
اَیْدِیَھُمْ فَقَالَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیٍل شُمُسٍ اُسْکُنُوْا
فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘ (صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ:
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مسجد میں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ’’انہوں نے اپنے
ہاتھوں کوشریرگھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایاہے تم نماز میں سکون اختیار کرو"
اس
حدیث کا تعلق رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین سے نہیں بلکہ صحابہ کرام نماز میں
سلام پھیرتے وقت ہاتھ بھی اٹھایا کرتے تھے اس کا ذکر ہے،اس لئے امام نووی رحمہ اللہ
نے صحیح مسلم میں یہ حدیث سلام کے باب میں لائے ہیں رکوع اور قومہ کے باب میں نہیں۔
اوراسی طرح امام نسائی نے بھی اس حدیث کو سلام پھیر نے کے باب میں لائے ہے۔
اس
بات کی صراحت صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث کرتی ہے جس میں جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ : ’’ ہم لوگ نماز میں سلام پھیر تے وقت اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے السلام علیکم
و رحمۃ اللہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے۔
اللہ
کے رسول ﷺ نے ہم کو دیکھ لیا اور فرمایا کہ : ’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہیں
دیکھ رہا ہوں کہ تم نماز میں اپنے ہاتھوں کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھاتے ہو،
ایسا مت کرو، نماز میں سکونت اختیار کرو۔‘‘
اسی
لئے کوئی بھی محدث اس حدیث سے رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کا رفع الیدین مراد
نہیں لیا اور اس حدیث کو سلام کے باب میں لائے۔
علمائے
احناف بھی اس حقیقت کے معترف ہیں چنانچہ محمود حسن دیوبندی "اسیر مالٹا"
نے کہا:
"باقی اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ
وہ سلام کے بارہ میں ہے کہ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید بھی
کرتے تھے. آپ نے اس کو منع فرما دیا." (الورد الشذی ص ٦٣، تقاریر ص ٦٥)
محمد
تقی عثمانی دیوبندی نے کہا:
"لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنیفہ کا استدلال مشتبہ
اور کمزور ہے...." (درس ترمزی ٢/٣٦)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔