Wednesday, March 11, 2015

مقلدین کے دس سوالوں کا جائزہ

گمنا م متعصب مقلد کے دس سوالوں کا جائزہ

داپولی سے عمران تیلگھرکر اور چپلون سے یٰسین دلوی صاحبان کے ذریعہ دس سوال پر مشتمل ایک پمفلٹ دستیاب ہوا جو کسی غیر اہل حدیث گمنام متعصب مقلد کا ہے ناک کٹنے اور چوڑیوں کے ٹوٹنے کے اندیشے سے نہ قلمکار کا نام ہے نہ کسی ناشر کا –

- ) یہی سوالات واٹس اپ پر احناف میڈیا کے حوالے سے شعبۂ اہل سنت والجماعت سرگودھا کابھی موجود ہے ۔ جس کی اطلاع ہمارے بعض ساتھیوں نےدی ہے ۔ مگر پمفلٹ چھاپنے والو ںنے شعوری یا غیر شعوری طو رسے اسے نہ جانے کیوں نظر انداز کردیا ہے چونکہ پمفلٹ میں کسی قلم کار یا ناشر کا حوالہ نہیں ہے اس لئے ہم نے اسے گمنام متعصب مقلد کے نام موسوم کیا ہے ۔ یہ شرارت اور شرانگیزی ہے ایسے سوالوں کا جواب و جائزہ اگرچہ تضیع اوقات ہے تاہم پمفلٹ پڑھنے والوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے نادانوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ دیکھو، ان سوالوں کا جواب - اہل حدیثوں نے نہیں دیا۔(

میرے مخاطب وہ تمام افراد ہیں جن کے ہاتھوںمیں یہ یا اس طرح کا پمفلٹ پہنچا ہو لیکن میرا خاص خطاب اور میرا پیغام ’’ غیر اہل حدیث گمنا م متعصب مقلد‘‘ کے نام ہے ۔

گمنام متعصب مقلد صاحب! آپ نے آخر میں ضروری نوٹ لگایا ہے ۔

’’ اہل حدیث کا دعویٰ ہے کہ ہم صرف قرآن اور صحیح حدیث کو مانتے ہیں‘‘

بے شک ہم صرف قران اور صحیح حدیث کو مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ ’’ رامائن‘ اور ’’ گیتا‘‘ کو بھی اس میں ملاتے ہیں؟ اگر جواب ’’ ہاں‘‘ میں ہے تو آپ کا خود ساختہ اسلام آپ کو مبارک، ایسے اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، آپ اگر اجماع، اجتہاد، قیاس اور فقہ وغیرہ کی بات کریں گے تو ہمارا سوال ہوگاکہ ان سب کو آپ کہاں سے لائیں گے؟ رامائن اور گیتا سے ، یا صرف قرآن وحدیث سے ۔ اگر جواب ہے کہ صرف قرآن وحدیث سے ، تو پتہ چلاکہ آپ بھی صرف قرآن اور حدیث کو اصل مانتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دیگر امور، اصول و ضوابط اسی سے مستخرج ہیں پھر اصل کہہ کر فرع کو گنوانے کی کیا ضرورت ہے ۔ فرع خود اصل میں شامل ہے۔

گمنام مقلد صاحب! جب آپ کی کھوپڑی میں تقلیدی غلاظت، شر انگیزی اور شرارت بھری ہوئی ہے تو قرآن و حدیث کی بات اس میں کہاں جگہ بنا پائے گی۔ اصول و ضوابط کے لئے گہرائی سے قرآن و حدیث پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؆نے  لعن اللہ الواشمات الخ کی بات کی یعنی خوبصورتی کے لئے گودنا گودنے اور گودوانے والیوں، بھوؤں کے بالوں کو تراش خراش کرنے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر اللہ کی لعنت بھیجی ہے ۔ کیونکہ یہ تخلیق الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؆کا یہ کلام قبیلۂ بنو اسد کی ایک عورت کو معلوم ہوا جو ام یعقوب کے نام سے مشہور تھی۔ وہ عبداللہ ابن مسعود ؆کے پاس آئی اورکہاکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس طرح کی عورتو ںپر لعنت بھیجی ہے تو حضرت عبداللہ ابن مسعود ؆ نے جواب دیا : ’’ ما لی لا العن من لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و من ھو فی کتاب اللہ ‘‘ جس پراللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور وہ قرآن میں ہے تو اس میں اس پر لعنت کیوں نہ بھیجوں۔ اس عورت نے کہاکہ قرآن مجید تو میں نےبھی پڑھا ہے لیکن آپ جو کچھ کہتے ہیں میں نےتوا س میں یہ بات کہیں نہیں دیکھی۔ انہو ںنے کہاکہ اگر تم نے قرآن بغور پڑھا ہوتا تو تمہیں ضرور مل جاتا ۔ کیاتم نے یہ آیت نہیں پڑھی:

’’ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ ‘‘ [الحشر : ۷]

’’اور رسول (ﷺ)جو کچھ تمہیں دیں لے لیا کرو او رجس سے تمہیں روک دیں رک جایا کرو۔‘‘

اس عورت نےکہا ہاں پڑھا تو ہے ۔ تب ابن مسعود ؆نے فرمایا کہ ان چیزوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔ ( بخاری کتاب التفسیر)

گمنا م مقلد صاحب! اصولی اعتبار سے مقلد عالم نہیں ہوتا ممکن ہے آپ نے ناظرہ قرآن پڑھا ہو ڈھونڈ لیجئے ’’ لعن اللہ الواشمات ‘‘ یہ الفاظ قرآن میں نہیں ملیں گے لیکن عبداللہ ابن مسعود ؆نے جب ام یعقوب نامی عور ت کو سورۃ الحشر کی آیت نمبر سات سے اس کا ہونا سمجھا دیا تو ام یعقوب مطمئن ہوکر چلی گئیں۔ اصول و ضوابط ان کی سمجھ میں آگئے لیکن مقلد کے پاس اتنا بھی علم نہیں ہوتاکہ وہ ان موٹی موٹی باتوں کو سمجھ سکے۔ نہ وہ قرآن سمجھتا ہے نہ حدیث سمجھتا ہے نہ ان کے معانی و مطالب سے کچھ واقفیت رکھتا ہے۔ مگر استہزائی انداز میں وہ اہل حدیثوں سے قرآن اور صحیح صریح غیر معارض احادیث طلب کرتا رہتا ہے ۔ کیونکہ اس کی نظر میں قرآن و حدیث محض معمہ اور چیستاں ہے ۔ ام یعقوب کی طرح اس کا دل و دماغ قرآن و حدیث کی عظمت اور اس میں باہمی اشتراک کو نہیں سمجھتا۔ ہاں کوئی بات بالکل آسان اور واضح لفظوں میں مل جائے او راسے اس کے امام کی تائید بھی حاصل ہو تو لے لیتا ہے ورنہ تاویل کرجاتا ہے ۔ اس مختصر سی تمہید کےبعد اب گمنام مقلد کے دس سوال پر نظر ڈالتا ہوں۔

سوال ۱ :                مکمل نماز تکبیرِ تحریمہ سے سلام تک بمع احکام و مسائل ( فرائض و واجبات، سنن، مستحبات، مکروہات، تعدادِ رکعات) قرآن کریم کی صریح آیات یا صحیح صریح غیر معارض احادیث سے ثابت کریں۔

جائزہ : گمنام متعصب مقلد صاحب! نماز ہمارے نبی ﷺ نے پڑھ کر بتائی ہے ۔ نماز کے تمام تر مسائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ام یعقوب کی طرح آپ کا دل ودماغ قبولِ حق کے لئے تیار ہے اور کیا آپ قرآن وحدیث کے باہمی اشتراک کو سمجھتے ہیں؟ ’’ صلوا کما رایتمونی اصلی‘‘ پر عمل کرنے کا جذبہ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں؟

دیکھئے صحیح بخاری کی روایت حدیث نمبر ۵۱۶ اور مسلم شریف حدیث نمبر ۷۱ میں صاف مسئلہ موجود ہے کہ نبی ﷺنے اپنی نواسی کوگود میں اٹھا کر نماز پڑھی ہے ، جب رکوع میں جاتے تو اسے زمین پر بٹھادیتے لیکن مقلد جسے رفع الیدین کی حدیثیں ہضم نہیں ہوتی ہیں وہ اسے کیسے ہضم کرتے۔ اسے عمل کثیر اور بوجوہ دگر مفسد صلوٰۃ میں شامل کرکے نبی ﷺ کے عمل کو ناقابلِ عمل بنادیا او راس پر مستزاد یہ کہ کتے کے بچے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ در مختار کتاب الطہارۃ باب المیاہ  ؃۱۵۳

اس قدر حدیث کی صریح مخالفت اور پھر حدیث کی فرمائش: مضحکہ اور مسخرا پن کے لئے کوئی اور میدان دیکھئے جو آپ کے ذوق کا سامان فراہم کرسکے ، اس میں حدیث کو کھینچنے سے توبہ کیجئے ۔

سوال ۲ :                آپ کا امام تکبیرِ تحریمہ (نماز کے شروع میں اللہ اکبر کہنا) اونچی آواز سے کہتا ہے اور مقتدی آہستہ آواز میں کہتے ہیں اس پر قرآن کریم کی صریح آیات یا صحیح صریح غیر معارض احادیث پیش کریںنیز اگر امام نے تکبیر آہستہ اور مقتدی نے بلند آواز میں کہہ دی تو نماز ہوگی یا نہیں ؟ قرآن و حدیث سے جواب دیں۔

جائزہ: گمنام جامد مقلد صاحب!آپ کو تو حدیثوں سے بیر ہے ۔ متلاشیانِ حق کے لئے عرض ہے :

آپ ﷺ فرماتے تھے : ’’مفتاح الصلوٰۃ الطھور و تحریمھا التکبیر و تحلیلھا التسلیم ‘‘( ابوداؤد، ترمذی)

’’ یعنی نماز کی کلید صرف وضو ہے اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے اور نماز سے صرف السلام علیکم و رحمۃ اللہ ہی سے نکلا جاسکتا ہے ۔‘‘

آپ ﷺ بلند آواز سے اللہ اکبر کہا کرتے تھے یہاں تک کہ پچھلے سارے لوگوں کو سنادیتے۔ ( احمد، حاکم)

اور جب آپ ﷺ بیمار ہوئے تو لوگوں تک آپ ﷺ کی تکبیر پہنچانے کے لئے ابوبکر ؄نے آواز بلند کی ۔ ( مسلم ، نسائی)

آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب امام اللہ اکبر کہے تم بھی اللہ اکبر کہو (احمد ، بیہقی) معلوم ہوا کہ امام تکبیرِ تحریمہ یعنی اللہ اکبر اونچی آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ کہیں گے اور نماز ختم کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے یعنی السلام علیکم و رحمۃ اللہ ۔ لیکن جب مقلدین کو حدیثوں سے آسودگی نہیں ہوتی تو ہ کیا کہتے ہیںسنئے : ہدایہ اور دیگر کتب فقہ میں مرقوم ہے تکبیر تحریمہ میں اللہ اکبر کے بجائے اس کے قائم مقام بہت سے الفاظ کہے جاسکتے ہیں ۔ اللہ اعظم، اجل، الرحمٰن الاکبر، الحمد للہ، سبحان اللہ وغیرہ وغیرہ

اسی طرح گوزمارنے یعنی قصداً ہوا خارج کرکے ( پاد کے ) نماز ختم کرے تونماز صحیح ہے ۔ دیکھئے ہدایہ ، درمختار اور دیگر کتب فقہ۔

حدیث کے مقابلے میں فقہی شریعت پر چلنے والے بے چارے حدیث کی عظمت کیا جانیں۔ بلاوجہ بلکہ شرارتاً وہ اہل حدیثوں سے حدیث کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ انھیں تو نمازِ محمدی کے بجائے اپنی فقہی و رواجی نماز پڑھنی ہے پھر حدیث کا مطالبہ آخر کس لئے ؟

استہزائی اور بلا ضرورت مطالبہ حدیث سے توبہ کیجئے ۔ حدیث کی بالادستی قبولِ خاطر نہیں، نہ سہی اسے مذاق اور ٹھٹھا نہ بنایئے۔

سوال ۳:  زید نے زینب کو تین (۳) شرعی طلاقیں دیں، اس کے بعد زینب نے بکر سے نکاح کیا۔ پھر بکر نے اسے طلاق دے دی۔ اب زینب عدت گزار کر زید سے نکاح کرسکتی ہے یہ مسئلہ تو قرآن و حدیث میں ہے لیکن اگر بکر نے طلاق نہیں دی بلکہ زینب نے خلع کرالی یا بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرایا تو اب زینب عدت گزار کر زید سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں۔ ثبوت میں قرآن کریم کی صریح آیات یا صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش فرمائیں۔

جائزہ : گمنام مقلد صاحب!آپ کے اس سوال میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات کا قرآن و حدیث میں ہونا آپ کو تسلیم ہے ۔ سچ بتایئے ، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دیجئے۔ کیا آپ نے اس مسئلہ کو اس لئے مانا کہ وہ قرآن وحدیث میں ہے یا اس لئے کہ آپ کی مروجہ فقہ اس کی تائید کرتی ہے ؟ یعنی آپ کی نظر میں اولیت قرآن و حدیث کو حاصل ہے یا مروجہ فقہ کو؟ مقلد صاحب! آپ کی دوسری بات بھی قرآن و حدیث کے اصول و ضوابط کے مطابق بالکل واضح ہے اور قرآن و حدیث میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے مگر قرآن کی عظمت اور حدیث کی بالادستی تو تسلیم کیجئے اسے اگر فقہ کی لونڈی ہی بنا کر رکھیں گے تو لونڈی لونڈی ہی رہے گی وہ بیوی کا مقام کب پائے گی۔

ہمارا دین کامل ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے قیامت تک پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے یہ کافی ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ آپ جیسے جامد مقلد، باب اجتہاد پر قفل آویزاں کرنے والے ام یعقوب کی طرح اسلامی فہم و فراست کے مالک نہیں ہیں اور آپ تو صحیح صریح مسائل میں بھی پیوند کاری کے رسیا ہیں جیسا کہ جائزہ ۲ میں گزر چکا۔

سوال ۴:  آج کل کثرت سے پیش آنے والے درج ذیل مسائل میں قرآن کریم اور صحیح صریح احادیث پیش فرمائیں۔ کیا خون دینا اور لینا جائز ہے ؟ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ کیا اپنا خون اور اعضاء ( دل ، آنکھیں ، گردے وغیرہ) فروخت کرنا جائز ہے؟ کسی ضرورت مند کو اپنے اعضاء ہدیہ کرنا جائز ہے؟ مرنے کے بعد اعضاء کے عطیہ کرنے کی وصیت کرنا جائز ہے؟ٹیلیفون یا انٹرنیٹ پر نکاح جائز ہے یا نہیں؟

جائزہ : گمنا م مقلد صاحب !قرآن و حدیث کو محض تبرک کےلئے پڑھنے والوں پر قرآن وحدیث کے اصول و ضوابط واضح نہیں ہوتے ’’ لعن اللہ الواشمات ‘‘ کا ایک طرح سے قرآن میں ہونا عبداللہ ابن مسعود ؆کی فہمائش کے مطابق ام یعقوب نے مان لیا کیونکہ ان کا دل و دماغ آپ کی طرح تقلیدی عصبیت سے آلودہ نہیں تھا۔

جدید فقہی مسائل پر علماء کے اجتہادات موجود ہیں۔ اجتہاد کا دروازہ جسے مقلدین نے زبردستی بند کردیا تھااسے علماء اہلِ حدیث نے ہمیشہ کھلا رکھا اور قیامت تک پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد ہوتا رہے گا۔

الحمد للہ! اہلِ حدیث علماء نے قرآن و حدیث کے اصول و ضوابط کی روشنی میں جدید مسائل پر بھی کتابیں لکھی ہیں ملاحظہ فرمائیں: اعضاء کی پیوند کاری، احکامِ تجارت اور لین دین، جدید فقہی مسائل، جدید طبی ایجادات اور اسلامی احکام وغیرہ وغیرہ

اگر مذکورہ کتابوں میں آپ کو قرآن و حدیث کے دلائل نظر نہ آئیں یا حسب فرمائش صحیح صریح غیر معارض احادیث نہ مل سکیں تو اپنی آنکھوں کا علاج کرایئے یا کسی پاگل خانے میں بھرتی ہوجائے یا ام یعقوب کی طرح اپنی فراست ایمانی سے کام لیجئے ۔

سوال ۵ : کوئی ایک ایسی صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو او راس روایت کے کسی ایک راوی کا اپنا فتویٰ اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔

جائزہ : گمنا م مقلد صاحب !آخر آپ کو حدیث صحیح سے اتنی محبت کب سے ہوگئی کہ ہر معاملے میں صحیح صریح غیر معارض کی مسلسل رٹ لگارہے ہیںجبکہ آپ کو حدیثوں کی نہیں ائمہ کے فتوؤں کی ضرورت ہے ملاحظہ فرمائیں:

’’ مقلدین کے لئے قرآن وحدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتوؤں کی ضرورت ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ تجلی ج ۱۹، ش ۱۱، ص ۴۷)

’’ حدیث کا ضعیف ہوجانا غیر مقلدوں کے لئے قیامت ہے کیونکہ ان کے مذہب کا دارومدار انھیں روایتوں پر ہی ہے ۔ روایت ضعیف ہوئی تو ان کا مسئلہ بھی فنا ہوا مگر حنفیو ںکے لئے کچھ مضر نہیں کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے ۔ ‘‘ ( جاء الحق حصہ دوم ص ۹)

مقلد صاحب!آپ کے ان اصولوں کی روشنی میں اہلِ حدیث آپ سے برملا کہہ سکتے ہیں ’’ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ‘‘ آپ کو خود اعتراف ہےکہ قرآن وحدیث غیر مقلدوں کےلئے ہے۔ مقلدوں کا دین قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ ان کا دین ائمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتوؤں پر منحصر ہے ۔ پھر حدیث کی مانگ کیا تمسخر اور استہزاء کے لئے ہے ۔ آپ کو قرآن وحدیث سے کچھ سروکار نہیں ۔ مانیں گے وہی جس پر آپ کے امام کی تائید و توثیق ہوگی ، پھر بار بار حدیث کا مطالبہ آخر کس لئے ؟

سوال ۶ : خنزیر، شیر، چیتا، بھیڑیا، بندر، گینڈا، گیڈر، لومڑی وغیرہ درندوں کے جوٹھے کا کیا حکم ہے ؟ پاک ہے ناپاک؟ قیاس کئے بغیر ہر ایک کےلئے نام بہ نام قرآن کریم یا احادیثِ مبارکہ سے صحیح نص پیش کریں۔ مندرجہ بالا جانوروں کےپیشاب، پاخانے، قے، خون، پسینے وغیرہ کے پاک یا ناپاک ہونے کا نام بہ نام صریح نصوص بھی پیش فرمائیں۔

جائزہ : گمنام مقلد صاحب !یہاں آپ سے بڑی بھول ہوئی کہ اپنے محبوب ترین جانور کا نام گنایا ہی نہیں ، جس کی کھال پر نماز پڑھنے او ر اس کے بچے کو گود میں لے کر نماز پڑھنے کا بڑا شوق رکھتے ہیں۔ چلئے چھوڑیئے گھر کی مرغی دال برابر۔

مندرجہ بالا جانور وں سے بھی اگر محبت کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں جیسے کتے سے کررہے ہیںمگر یہ سمجھنا کہ کتاب و سنت میں اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں ہے یہ کم علمی اور کم عقلی کی دلیل ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہر چیز کا واضح حکم موجود ہے مگر اسے محبت و عقیدت ، تعلیم و تعلم کی نیت سے پڑھئے تو سہی۔ نہ سمجھ پائیںتو قرآن و حدیث والے علماء سے رجوع کریں اور ام یعقوب کی طرح سمع و طاعت کا جذبہ بھی رکھیں۔

ہمارے سامنے کتاب ہے ’’ غیر مسلموں اور جانوروں کا جوٹھا‘‘ جو ایک سو چھ ( ۱۰۶) صفحات پر مشتمل ہے اس کتاب میں قرآن و حدیث کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی احکامات لکھے گئے ہیں جب جس چیز کی ضرورت ہواسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

مقلد صاحب !اسلام ایک کامل دین ہے اس میں تشنگی نہیں ہے بلکہ اس میں ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا حل موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 ’’ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ‘‘[النحل : ۸۹]

’’ اور ہم نے تجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے ۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے :

’’وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ ‘‘ [النحل : ۴۳]

’’ اور یہ ذکر ’’ کتاب‘‘ ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں۔‘‘

محترم! قرآن وحدیث میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے یعنی ایسے اصول و ضوابط موجود ہیں جس کی ر وشنی میں ہر مسئلے کا حل بآسانی نکالا جاسکتا ہے ۔ مگر جس پر تقلیدی جنون کا دورہ پڑتا ہے وہ دین کو ’’ نامکمل ‘‘ اور رسول برحقﷺ کو ’’ خائن‘‘ قرار دیتا ہے اور اپنے امام کو ’’ رسول ‘‘ کے مقام پر فائز کردیتا ہے اور برملااس کا اظہاربھی کرتا ہے ۔ مثال دیکھئے ایک مشہور حنفی مقلد ’’ مسئلہ بیع خیار‘‘ کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’ حق اور انصاف کی بات یہی ہے کہ احادیث اور دلائل قطعیہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کی تائید میں مضبوط اور پختہ ہیں لیکن ہم اس مسئلہ کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں اور ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے ۔ ‘‘ (تقریر ترمذی ص ۳۹)

غور کرنے والے غور کریں کہ حدیث اور فقہ کے اختلاف میں مقلد امام کی فقہ کو مانتا ہے اسے اولیت دیتا ہے اور حدیث رسول ﷺ کا سراسر انکار کرتا ہے ۔ پھر بلا وجہ حدیث کی رٹ ۔ نبی ﷺ کے بجائے ایک امتی کی بات کی قدر ومنزلت- کہاں رہا آپ کا اسلام- آخر دوسروں کو کیوں بے وقوف بنایا جارہا ہے ؟

کلمہ میں تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے ساتھ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ  کو شامل کرتے ہیں اور عمل کرنا ہوتا ہے تو ’’امتی ‘‘ کاقول و عمل تلاش کیا جاتا ہے او راسی کو لیا جاتا ہے اگرچہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہورہی ہو۔ افسوس ہے اس حالتِ زار پر اور مزید افسوس ایسے لوگوں کے مطالبۂ حدیث پر اعاذ نا اللہ منہ

سوال ۷:  آپ کے نزدیک تقلید شخصی شرک ، ناجائز اور حرام ہے جبکہ امام یحییٰ بن سعید القطان( حنفی) امام بخاری( شافعی) امام مسلم ( شافعی) امام ابن تیمیہ (حنبلی) امام ابن حجر ( شافعی) امام نووی(شافعی) امام ذہبی ( شافعی) مقلد ہیں تو قرآن وحدیث سے ان حضرات کا حکم بیان فرمائیں اوریہ بھی فرمائیں کہ جو ان مقلدوں کی روایت لیتا ہے یا ان کی بات پر عمل کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے ۔

جائزہ : گمنام مقلد جی! یہاں کیسے چوک گئے قرآن کریم اور حدیث صحیح صریح غیرمعارض سے دامن جھاڑ بیٹھے۔ سچ ہے ساون کے اندھے کو سب ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے ۔ بالکل اسی طرح مقلد کی آنکھوں میں تقلیدی خمار چڑھا رہتا ہے او راسے ساری دنیا مقلد نظر آتی ہے ۔ جن ائمہ ہدی اور اساطین علم و فضل کا نام آپنے گنوایا ہے وہ سب ہمارے لئے قابلِ  احترام ہیں۔ آپ کو نام ہی گنوانا تھا تو دو تین صفحات بھی سیاہ کرسکتے تھے مگر آپ نے بخیلی سے کام لیا ہے ۔ کیا آپ کے لکھ دینے سے کوئی مقلد ہوجائے گا ؟ مسلکی انتساب کی حقیقت سے ہم اچھی طرح واقف ہیں اور اس کے بہت سے وجوہات ہیں۔ دیکھئے امام بیہقی کو بالعموم شافعی لکھا جاتا ہے مگر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اس حقیقت کو خوب واضح کرتے ہیں کہ تقلیدی ترنگ میں تمام حضرات کو کسی نہ کسی سے جوڑ دیا جاتا تھا۔

’’فیقال فلان شافعی و فلان حنفی و کان صاحب الحدیث ایضاً ینسب الی احد المذاھب لکثرۃ موافقتہ لہ کالنسائی والبیھقی ینسبان الی الشافعی‘‘( حجۃ اللہ البالغہ مترجمہ ج ۱ص ۳۶۹)

’’چنانچہ کہا جاتا فلاں شافعی ہے فلاں حنفی ہے اور گاہے ایک اہل حدیث کو بھی ان میں سے کسی مذہب کی طرف منسوب کردیا جاتا اس لئے کہ وہ بہت سے مسائل میں اس کی موافقت کرتا ۔مثلاً امام نسائی اور بیہقی کو شافعی کی طرف منسوب کیا جانا۔

مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ النافع الکبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ :

’’وقد نقل عن ابی بکر القفال و ابی علی القاضی حسین من الشافعیہ انھم قالوا لنا مقلدین للشافعی بل وافق رأینا رأیہ‘‘( الارشادص ۱۰۰)

’’ ابوبکر قفال اور ابو علی اور قاضی حسین سے منقول ہے کہ جو کہ شافعیہ میں شمار کئے جاتے ہیں انہو ںنے کہا ہم شافعی کے مقلد نہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے سے موافق پڑگئی۔‘‘

محترم مقلد صاحب! تقلید کی چھڑی سے سب کو مت ہانکئے بلکہ انصاف کی بات لکھئے جو عالم ہوگا وہ کسی کا مقلد نہیں ہوگا۔ دیکھئے ائمہ اربعہ کویہ کسی کے مقلد نہیں تھے، عالم تھے، اہلِ حدیث تھے اور ان کے شاگرد بھی اپنے استاد کے مقلد نہیں تھے استاد کی وہی باتیں لیتے تھے جو کتاب وسنت کے دائرے میں ہوتی تھیں بلکہ ان کی باتیں ذکر کرکے ’’ولسنا ناخذ بھذا‘ ‘ کہہ دیتے تھے لیکن بعد میں جب تقلید نے اپنے پرو بازو نکالے اور وہ سلاطین کے دربار میں پہنچی اور قاضیوں کی تقرری ہونے لگی تو پھر تقلیدی ترنگ میں ہر بکواس کو راستی نصیب ہوئی یہاں تک کہ امام مہدی اور عیسیٰ ؈کو بھی حنفی مقلد باور کرایا گیا ۔ حضرت خضر کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا شاگرد بنایا گیا۔ بس چلے تو حضرت آدم ؈سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک سب کو حنفی اور مقلد ثابت کردیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

سوال ۸ : قرآن کریم پر اعراب لگانا، رکوعات، پارے، منزلیں یہ ترتیب حضور ﷺ نے قائم نہیں فرمائی بلکہ یہ ترتیب امت نے قائم کی ہے اس پس منظر میں :

    الف   :                موجودہ ترتیب کے ساتھ شائع اور پڑھے جانے والے قرآن کریم کا مقبول ہونا نص صریح سے ثابت کریں۔

      ب   :                یہ فرق ثابت کریں کہ امت کا دیا ہوا قرآن کریم تو لینا جائز ہے اور فقہ لینا ناجائزہے۔

      ج    :                امت کے ترتیب دیئے ہوئے قرآن کریم سے حفظ کرنے کا جواز اور نماز میں اس کی قرات کا صحیح ہونا کسی نص صریح سے ثابت کریں۔

جائزہ : گمنام مقلد صاحب! آپ کاعقیدہ آپ کو مبارک ہو آپ کے پاس امت کا دیا ہوا قرآن ہے لیکن ہمارے پاس تو وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ہے او روہ تمام تحریفات، خردبرد سے پاک ہے ۔ صحابہ کرام اس قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور ان شاء اللہ یہ قیامت تک اسی طرح محفوظ رہے گا۔

قرآن مجید کے بارے میں شکوک شبہات پھیلا کر کہیں ’’ الفرقان الحق‘‘ فتنے کی ہمنوائی تو نہیں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

محترم مقلد صاحب ! آپ نے قرآن کے متعلق اس طرح کا سوال کرکے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے تھوڑی سی تفصیل عرض ہے تاکہ عوام الناس کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔

عہدِ نبوی میں کاتبانِ وحی کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی تھی اور وفات نبوی کے وقت تقریباً سترہ مصاحف موجود تھے اورقر آن کے حفاظ بکثرت تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؄کے عہدِ خلافت میں زید بن ثابت ؄ نے حضرت عمر ؄کے تعاون ، اپنے حافظے ، مختلف صحائف اور لوگوں کی شہادت سے جو نسخہ تیار کیا اسے ’’ امّ‘‘ کہا جاتا ہے جس کے تین واضح اوصاف تھے۔  (۱) تمام سورتوں کی آیات کی ترتیب رسول اللہ ﷺ کی بتلائی ہوئی ترتیب کے مطابق کردی گئی ۔ (۲) اس نسخہ میں قرات کے سات حروف یا لہجے موجود تھے تاکہ جو شخص جس حرف یا لہجہ میں بآسانی پڑھ سکے پڑھ لے۔ (۳) سورتوں کی ترتیب طے نہیں کی گئی تھی تمام سورتیں الگ الگ صحیفوں کی شکل میں جمع کی گئی تھیں۔

عہدِ عثمانی میں صحابہ کرام کی ایک کمیٹی نے ’’ امّ‘‘ کو سامنے رکھ کر دیگر انفرادی صحیفوں سے موازنہ کرکے ایک متفق علیہ نسخہ کی نقول تیار کروائیں وہی نسخہ آج ہمارے درمیان موجود ہے ۔ مصحف عثمانی کے بعد ، اہلِ عجم کی سہولت کے لئے اعراب لگوانا، منزل یا حزب کی علامت لکھنا ، پاروں کی تقسیم، ربع، نصف، ثلاثہ ، رکوع کی علامتیں، آیات نمبر، رموز و اوقاف وغیرہ یہ سب محض قرآن مجید کی تلاوت اور تحفیظ کو آسان بنانے کے لئے کیا گیا ہے ۔ نزولِ قرآن سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ۔ نہ ہی شرعاً ان کی کوئی حیثیت ہے ۔ اب ہم مقلد کے قرآن کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پھیلانے کی ناروا کوشش کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور پھر اپنی فقہ سے قرآن کا موازنہ کرکے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی بے جاجسارت پر توبہ کی تلقین کرتے ہیں۔ قدرِ گل بلبل بداند، قدر جوہرجوہری

سوال ۹ : اہلِ حدیث حضرات رمضان المبارک میں یہ امور انجام دیتے ہیں:  آٹھ رکعت ، باجماعت، اپنی تمام مساجد میں ، پورا مہینہ، اور پورا قرآن ختم کرتے ہیں۔ اگر یہ پانچوں چیزیں حضور ﷺ سے ثابت ہیں تو پیش فرمائیں اور اگر ثابت نہیں، تویہ کام کرنے والوں سے متعلق قرآن و سنت سے فتویٰ صادر فرمائیں۔

جائزہ : گمنا م مقلد جی !پانچ چیزوں کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے اور اسے نبی ﷺ سے ثابت کرنے کی درخواست کی ہے ۔ آپ کے اندازِ سوال سے واضح ہوتا ہے کہ یہ امور نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔ یہ محض آپ کی خام خیالی ہے۔ آٹھ رکعت ثابت، باجماعت ثابت، مساجد میں پڑھنا ثابت، پورا مہینہ پڑھنا ثابت، قرات قرآن کو طول دینا ثابت ، ثابت تو بہت کچھ ہے مگر آپ کی نیت ثابت شدہ مسائل پر عمل کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا استہزاء مقصود ہے ۔ اگر دل و دماغ میں حدیث رسول ﷺ کی عظمت نہیں ہے تو حدیث سمجھ میں بھی نہیں آتی ۔ دیکھئے آپ کے بھائی کیا ارشا دفرماتے ہیں:

’’ ہر وہ حدیث جو ہمارے اصحاب اصول کے قول کے خلاف ہو اسے نسخ پر محمول کیا جائے گا یا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ معارض ہے اپنے ہم پلہ حدیث کے ۔‘‘ ( اصول کرخی اردو ص ۲۵)

جب حدیث رسول ﷺ کے بارے میں مقلدین کا نظریہ اتنا گرا ہوا ہے تو کوئی بھی ہوشمند ان کےسامنے حدیث رسولﷺ پیش کرکے حدیث کی توہین نہیں کرے گا۔

محترم مقلد صاحب !شروع ہی میں ہم نے حدیث پیش کرکے اصول وضوابط کی نشاندہی کردی ہے اگر اسے مان لیں تو ہر معاملے میں شرارتاً ہی سہی حدیث کی رٹ لگانا چھوڑ دیں گے ۔ لیکن ذرا سنجیدگی اور ہوش و حواس کے ساتھ اسے پڑھ لیں۔

سوال 1۰ : اگر کسی نمازی نے نماز میں سبحان ربی العظیم کی جگہ سبحان ربی الاعلیٰ یا سبحان ربی الاعلیٰ کی جگہ سبحان ربی العظیم یا درود شریف کی جگہ دعائے قنوت یا التحیات کی جگہ سورۃ الفاتحہ یا اللہ اکبر کی جگہ اللہ کبیر یا سمع اللہ لمن حمدہ کی جگہ اللہ اکبر کہہ دیا یا اس کے برعکس کردیا تو اس کی نماز ہوگی کہ نہیں۔ ہر دو صورتوں میں صحیح صریح غیر معارض احادیث پیش فرمائیں۔

جائزہ : گمنام مقلد جی! نماز پڑھنی شروع کئے ہیں یا کبڈی کھیلنے اترے ہیں؟ کہنے والے نے عمدًا کہا ہے یا سہواً کہا ہے۔ دونوں کا حکم الگ الگ ہے اور صحیح صریح غیر معارض احادیث سے دلائل بھی موجود ہیں۔ مگر مقلد جو ٹھہرے ۔ آپ کو نماز تو اپنی رواجی فقہ کے مطابق ہی پڑھنی ہے تو آخر کیو ںحدیث کا مطالبہ کرکے حدیث کی توہین و تذلیل پر کمربستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے سبق حاصل کریں۔

’’ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۶۳ ‘‘ [النور : ۶۳]

’’ سنو! جو لوگ حکم رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آن پڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔‘‘

آپ کی مروجہ فقہ میں نماز کی جو درگت بنائی گئی ہے کیا اسے سب پر تھوپنا چاہتے ہیں؟

۱-            آپ کے یہاں اللہ اکبر کی جگہ بہت سے الفاط ادا کرنے کی گنجائش ہے ۔

۲-            آپ کے یہاں عربی کے علاوہ فارسی وغیرہ میں بھی نماز جائز ہے۔

۳-            کتے کی کھال کامصلیٰ بنانا اس پر نماز پڑھنا جائزہے۔

۴-            کتے کےبچے کو گودی میں لے کر نماز پڑھنا جائزہے۔

۵-            نماز میںٹھہر ٹھہر کر جوئیں مارنے میں کچھ حرج نہیں۔

۶-            مرد نماز پڑھتا رہے عورت بوسہ لیتی رہے کوئی حرج نہیں۔

۷-            سلام کی جگہ پاد مار کرنماز ختم کردے تو نماز صحیح ہے ۔

۸-            امامت کامستحق وہ ہے جس کی بیوی زیادہ خوبصورت ہو۔

۹-            امامت کا مستحق وہ ہے جس کا سر بڑا ہو اور ’’عضو‘‘ چھوٹا ہو۔

۱۰-         مرد عورت ننگے ہوں اور ان کی شرمگاہیں باہم مل جائیں پھر بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔

۱۱-         زندہ یا مردہ جانور مثلاً گدھی، گھوڑی، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری یا کم عمر لڑکی سے جماع کیا تو وضو نہیں ٹوٹتا وغیرہ۔

نماز ہی کی طرح روزے اور حج کے بھی چٹ پٹے مسائل موجود ہیں ۔ تعلیماتِ رسول ﷺ سے روگردانی کا نتیجہ سامنے ہے ۔ کسی مقلد نے کہا ہے  ؎ 

 مزے بھی لوٹتے ہیں اور لیتے ہیں ثواب الٹا

محترم مقلد صاحب! دعویٰ تو یہ ہے کہ ہماری فقہ قرآن وحدیث کا نچوڑ ہے۔ مسائل مذکورہ کی صحیح صریح غیر معارض احادیث جس صندوق میں بند ہے اسے کھول کر نکالیں تو سہی ۔ دوسروں سے صحیح صریح غیر معارض احادیث مانگنے کا استہزاء کب تک کرتے رہیں گے؟

آخری بات ! 

محترم مقلد صاحب! مقلدین نے ہر دور میں اہلِ حدیث کے خلاف افواہوں کو جنم دیا ہے ۔ عوام الناس میں بدگمانیاں پھیلا کر ان کے ذہنوںکو پراگندہ کیا ہے اور انہیں حدیث دشمنی میں فقہی ٹیبلٹ کھلا کر یا تھپکیاں دے کر سلانے کی کوشش کی ہے اور آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اسے استعمال میںلانے سے سختی سے روکا ہے ۔

اکثریت تو تقلیدی حصار میں مقید ہے مگر انہیں میں سے کتنے عالم، دانشور اور باضمیر لوگ جب آنکھیں کھولتے ہیں اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں تو تقلیدی بیساکھی پھینک کر تحقیق کی وادی میں آجاتے ہیں اور پھر ’’ الدین النصیحۃ ‘‘ کے تحت اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی کھینچ لانے کےلئے فکر مند ہوجاتے ہیں۔ یہ محض اللہ کا کرم اور احسان ہے۔

مقلدین نے حدیث اور اہل حدیث دشمنی میں جو مجنونانہ حرکتیں کی ہیں وہ کافی دلخراش ہیں ۔ مقلدین کا یہ کہنا کہ اہل حدیث اجماع اور قیاس کے منکر ہیں یہ جھوٹ ہی نہیں بلکہ سفید جھوٹ ہے ۔ اہلِ حدیث اجماع کے قائل ہیں، صحیح قیاس کومانتے ہیں، اجتہاد اور فقہ کو بھی مانتے ہیں۔ مگر ماننے، ماننے میں فرق ہے جہاںصحیح حدیث رسول اللہ ﷺ مل گئی وہاں اجماع، قیاس، اجتہاد اور فقہ کوکوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ نہیں کہتے کہ ’’ اللہ اکبر‘‘ کی جگہ ’’ اللہ اعظم ‘‘ اور ’’ اجل و کبیر ‘‘ بھی درست ہے ۔ ’’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘‘ کی بجائے ’’ پاد ‘‘ کر بھی نماز ختم کرسکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی نواسی کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھی۔ اہل حدیث کی یہ جرأت نہیں ہے کہ اس عمل کو مفسد صلوٰۃ کہیں اور رسول اللہ ﷺ جن کا عمل بذاتِ خود دلیل ہے ان پر اعتراض کریں اور اپنی طرف سے شریعت سازی کریں۔ نص کی موجودگی میں قیاس اور اجتہاد کو راہ دینا مقلدین کا شیوہ ہے اسے اہل حدیث نہیں مانتے ۔یہ ہے اجماع اور قیاس کے نہ ماننے کی حقیقت جسے مقلدین نمک مرچ لگا کر پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ کہنا کہ اہل حدیث ائمہ اربعہ کو بھی نہیں مانتے۔ یہ بھی ایک غلط پروپیگنڈہ ہے ۔ اہلِ حدیث تو تمام ائمہ ہدی کو مانتے ہیں۔ ان کی قدر کرتے ہیں۔ ان کے عملی ورثہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں لیکن مقلدین کی طرح کسی ایک ہی امام کے تمام نرم گرم اقوال کو لیتے رہنے اور اسے واجب سمجھنے سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ جس کی بات بھی قرآن و سنت سے مدلل ہوتی ہے اسے مانتے ہیں۔اور ائمہ کو معصوم نہیں مانتے ، ان کے اجتہادات میں خطا و صواب کا احتمال موجود ہے جن پر وہ تو ماجور ہیں مگران کی غلطی واضح ہوجانے پر ان کی پیروی درست نہیں ہے۔ عصبیت کے شکار مقلدین غلطی میں بھی ان کی پیروی کرتے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے اسے عملی جامہ پہناتے ہیں اور ہر حال میں ان کی تقلید کو واجب مانتے ہیں،اہل حدیث اسے نہیں مانتے ۔ مقلدین یہ پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ اہل حدیث صحابہ کرام؇ کو نہیں مانتے ۔ اس سلسلے میں بھی تھوڑی وضاحت کی ضرورت ہے ۔

صحابہ کرام ؇کی مقدس ترین جماعت کے سلسلے میں زبانِ رسالت ﷺ سے جو اوصاف ومحاسن اور فضائل بیان کئے گئے ہیں ان پر اہلِ حدیث کا ایمان و عقیدہ ہے نیز ’’الصحابۃ کلھم عدول ‘‘ محض صحابہ کرام کی شان ہے اور قرآن وحدیث کو ہم تک پہنچانے والے وہ اولین ذرائع ہیں اگر ان پر اعتماد نہ رہا تو سارا دین ہی مشکوک قرار پائے گا ۔ صحابۂ کرام ؇کی تنقیص کرنے والا ، تبرا بازی کرنے والا ( زندیق) بے دین ہے ۔ تاہم صحابہ کرام بھی انسان تھے، معصوم نہیں تھے، ان کے زلات و مشاجرات پر ہم تنقید نہیںکرتے رضی اللہ عنہم ان کی خاص صفت ہے ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے کسی صحابی کی بات اگر ٹکراتی ہے تو اہلِ حدیث ، حدیث پر عمل کرتے ہیں صحابی کی بات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ بصورت دیگر صحابی کا قول و عمل ہمارے لئے حجت ہے ۔ صحابہ کرام کی بھی یہی روش تھی جس پر اہل حدیث قائم ہیں۔ حج تمتع کے بارے میں حضرت عمر ؄کی بات کو حدیث رسول ﷺ کے بالمقابل صحابہ کرام نے قبول نہیں کیا۔ اہل حدیث بھی صحیح حدیث کی موجودگی میں کسی صحابی، محدث، مجتہد، فقیہ اور امام کی بات قبول نہیں کرتے۔ بس اتنی سی بات ہے جس کی وجہ سے اہلِ حدیث کو صحابہ کادشمن گردانا جارہا ہے ۔ یہ محض مقلدین کی کارستانی ہے ۔

الحمدللہ! تقلیدی حصار ٹوٹ رہا ہے ۔ افواہوں کے بادل چھٹ رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق تحقیق کی وادی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ قرون ثلاثہ ( دور تقلید سے پہلے) میں امت کا جو طرز عمل تھا وہ آہستہ آہستہ واپس آرہا ہے۔

آخر میں ، میں اللہ تعالیٰ سے حق کی ہدایت اور اس پر توفیقِ عمل کی نیز حق کی مخالفت سے بچنے کی دعا کرتا ہوں۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

                خیراندیش

                خادم العلماء غلام عبداللہ پرکار
                ۲؍مئی ۲۰۱۴؁ء


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔