Sunday, January 18, 2015

دارالحرب میں سود کی حرمت

دارالحرب میں سود کی حرمت
مقبول احمد سلفی

سود لینا دینا سنگین جرم ہے ، اور اسلام میں ہرقسم کا سود حرام ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
((الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبَا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِأَنَّھُمْ قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہٗ اِلیٰ اللّٰہِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلٓئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ٭یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ)) [البقرۃ:274،275]
’’سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے،یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام ،جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے،اور جس نے پھر بھی کیا،وہ جہنمی ہے،ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
سود کی حرمت کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے ، حالانکہ اس سے متعلق کتی آیات اور کتنی احادیث موجود ہیں ۔
قرآن و احادیث کے نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ ہرقسم کا سود حرام ہے جس میں سود کا شائبہ ہو وہ بھی حرام ہے۔ غیرمسلموں سے سودی تجارت کرنا، یا غیرمسلم بنکوں سے لین دین کرنا یا پھر دارالحرب میں سود لینا دینا یہ سب حرام قبیل سے ہیں۔ ان میں سے کوئی صورت جائز نہیں ۔
 یہی مسلک ہے  امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ  اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابو یو سف رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور علما ء کا کیو نکہ قرآن وحدیث اور اجما ع صحا بہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے سود کی حر مت علی الاطلاق ثا بت ہے ۔ 
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمدرحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ دارالحرب میں کا فر حر بی سے سود لینا درست ہے ، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
اس فتوی کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح سے ہے ۔
"لا ربا بين المسلم و الحربی فی دار الحرب."
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : مسلمان اور حربی کافر کے درمیان دار الحرب میں سُود نہیں‘‘۔
یہ روایت مرسل ہے ۔ اس روایت سے متعلق المغنی میں لکھا ہوا ہے :
هٰذا خبر مجهول لم يُرو فی صحيح و لا مسند و لا کتاب موثوق به.
’’یہ خبر مجہول ہے، کسی صحیح مسند یا کسی قابل اعتماد کتاب میں اسے روایت نہیں کیا گیا‘‘۔
بالفرض یہ روایت مجہول صحیح بھی ہو تو معنی یہ ہو گا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے ذمیوں اور مستامنوں سے سُودی لین دین جائز نہیں حربیوں سے بھی ربیٰ (سُود) جائز نہیں نیز یہ روایت ثابت ہو بھی جائے تو خبر واحد قرآن کے مطلقات کو اس سے مقید نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا’’سُود نہ کھاؤ‘‘۔ مطلق ہے نہ اس پر خبر واحد سے اضافہ جائز ہے نہ اس مطلق کو مقید کرنا۔(امام ابن الهمام، فتح القدير 6 : 177)

اس کے علاوہ یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ہندوستان دارالحرب ہے ؟

چنانچہ ہم یہاں دکھتے ہیں امام ابوحنیفہ ؒ نے دارالحرب کی کیا تعریف کی ہے؟ امام کا ماننا ہے کہ جب اسلام کے کل شعائر موقوف ہوجائیں تو اس صورت میں دارالاسلام دارالحر ب ہو جاتا ہے ۔ اور جب تک ایک سبب بھی شعائر اسلام کا موجود ہوگا تو دارالحرب متحقق نہ ہوگا۔ جیسا کہ فصول عمادی وطحاوی وغیرہ میں مذکور ہے۔
اب ہمارا یہ کہنا ہے کہ جب امام صاحب کے قول کی روشنی میں ہندوستان دارلحرب نہ ٹھرا تو امام صاحب کے نزدیک  بھی ہندوستان میں سود لینا دیناحرام وممنوع ہوگا۔

یہاں یہ بات بالکل واضح رہے کہ سود لینا اور سود دینا کہیں بھی جائز نہیں ہے،خواہ وہ دار الحرب ہو یا دار الاسلام ہو۔ حدیث نبویﷺ ہے:
’’ لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه ‘‘ (صحيح البخاري)
"رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے ،سود کھلانے والے،سود لکھنے والے اور سودی معاملے کی گواہی دینے والے تمام افراد پر لعنت فرمائی"۔
یہ حدیث عام ہے جو ہر حال میں سود کی حرمت پر دلالت کر رہی ہےاور اکثر اہل علم اسی کے مطابق فتویٰ دیتےہیں۔




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔