Friday, January 16, 2015

مساجد میں بچوں کے ساتھ رویہ

مساجد میں بچوں کے ساتھ رویہ

سوال: مساجد میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی نماز کے لئے آتے ہیں۔ خود نبی کریمﷺ نے بھی بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ کی امامت میں جب خواتین نماز ادا کرتی تھیں تو آپ کسی بچے کے رونے پر نماز مختصر فرمادیتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ مسجد میں کیا رویہ ہونا چاہئے؟ عام طور پر نمازی حضرات بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، جھڑکتے ہیں اور بسا اوقات مارنے سے بھی نہیں چوکتے جس کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ دوسری طرف بچے بھی ہنسی مذاق اور شرارتوں سے نماز میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں؟


جواب: مساجد کو اللہ تعالیٰ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قرآن وحدیث نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ اللہ تعالیٰ کا گھر بچوں یا عورتوں کے لئے بند ہے۔ لیکن کسی بھی گھر کے آداب کی طرح مسجد کے بھی آداب ہیں۔ مسجد کے آداب میں خشوع وخضوع اور خاموشی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ صفوں کے سلسلے میں نمازیوں کے مراتب کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ امام کے فوری پیچھے وہ افراد ہوں جو قرآن کا علم زیادہ رکھتے ہوں تاکہ اگر امام سے سہو ہو تو وہ فوراً اس کی اصلاح کردیں۔ صف بندی میں آغاز امام کے پیچھے سے کیا جائے اور پہلے داہنی پھر بائیں جانب بالترتیب افراد صف بناتے جائیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بچوں کو بعد کی صف میں رکھا جائے اور آخر میں خواتین تا کہ وہ مردوں سے دُور  رہیں۔ نیز احادیث میں اس بات کو بھی واضح کردیا گیاکہ عورت کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلے میں گھر میں ادا کرنا افضل ہے۔ اس لئے عام حالات میں خواتین کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا چاہئے۔ وہ مسجد میں نماز کے لئے اسی وقت آئیں جب ان کے لئے مسجد میں آنا ضروری ہو، مثلاً خطبہ جمعہ، درس قرآن، درس حدیث یا عیدین میں خطبہ سے استفادہ کرنا۔ ایسی صورت میں مسجد میں حاضری، نماز باجماعت میں شرکت اور وعظ ودرس سے استفادہ شامل ہے۔
آپ نے بالکل صحیح نشان دہی کی ہے کہ بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ افسوس ناک ہے۔ اگر بچوں کے مساجد میں آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو آیندہ نسلوں کا اسلام سے تعلق بھی کمزور ہوگا۔ اس لئے بچوں کو مساجد میں آنے پر ابھارنے اور ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں ان کے لئے ان کے ہم عمر بچوں کے تعاون سے ایسے پروگرام ہونے چائیے جن سے وہ نہ صرف نماز میں پابندی کے عادی ہوں بلکہ دینی معلومات بھی حاصل کرسکیں۔
بچوں کو شرارت سے روکنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ مردوں کی صف میں اگر دو مردوں کے درمیان ایک بچہ کھڑا کردیا جائے تو بچے نہ شور وغل کر پائیں گے، نہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں گے اور نہ کسی دینی اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ پہلے مردوں کی پھر بچوں کی اور سب سے آخر میں خواتین کی صف اسی وقت بن سکتی ہے جب تمام لوگ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جائیں ورنہ عملی دقتیں پیش آئیں گی۔اور پھر بعض روایات سے بچوں کو مردوں کی صف میں بھی کھڑے کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ آج کل جن مساجد میں خواتین کی شرکت کا انتظام ہوتا ہے وہاں ان کے لئے علیحدہ حصہ مختص کردیا جاتا ہے۔ اس سے بھی سہولت ہوجاتی ہے۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر مسجد اور نماز سے بدظن کردینا کسی طور بھی درست نہیں۔ حکمت اور محبت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔