داڑھی
رکھنا سنت ہے یا واجب؟
==============
مردوں کے لیے داڑھی رکھنا
واجب ہے ۔اور داڑھی رکھنا تمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہے اسلامی اور قومی
شعار، شرافت اور بزرگی کی علامت ہے ۔ اسی سے مردانہ شکل کی تکمیل اور صورت نورانی
ہوتی ہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوداڑھی رکھنے کا تاکیدی حکم
فرمایا ہےاورصحیح
احادیث میں اس کی تعبیر بصیغہ امر کی گئی ہے جو وجوب کی دلیل ہے ۔
داڑھی سے متعلق احادیث دیکھیں۔
(1)
عن عبداللہ بن عمرؓ قال قال
رسول اللہ ا : خَالِفُوا الْمُشْرِکِےْنَ، وَفِّرُوا اللِّحَی، وَاَحْفُوا
الشَّوَارِبَ۔ وفی رواےۃ قال رسول اللہ ا: اَنْہِکُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا
اللِّحٰی۔ (بخاری/ باب تقلیم الاظفار
، مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو
بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی
طرح کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔
(2) عن عبداللہ بن عمرؓ قال ذُکر لرسولِ اللہ ا المجوس فقال:
اِنَّہُم ےُوْفُوْنَ سِبَالَہُمْ وَےُحْلِقُونَ لِحَاہُمْ فَخَالِفُوْہُم۔ (صحیح ابن حبان ۸/۴۰۸)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ اکے سامنے مجوس (آگ کی پرستش کرنے والے) کا ذکر کیا گیا تو
آپ انے فرمایا: یہ لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو مونڈتے ہیں، پس تم ان
کی مخالفت کیا کرو۔
(3) عن عبداللہ بن عمرؓ عن النبی ا اَنَّہ اُمِرَ بِاِخْفَاء
الشَّوَارِبِ وَاِعْفَاءِ اللِّحْےَۃِ ۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ا کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ا کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔
(4) عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اللہ ا: اِنَّ اَہْلَ
الشِّرْکِ ےُعْفُوْنَ شَوَارِبَہُمْ، وَےُحْفُوْنَ لِحَاہُمْ فَخَالِفُوہُمْ ،
فَاعْفُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ۔ (رواہ البزاز بسند حسن)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: مشرک لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور
داڑھیوں کو کاٹتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو، اورداڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو
کاٹو۔
(5) عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اللہ ا: جُزُّوا
الشَّوَارِبَ وَاَرْخُوا اللِّحٰی خَالِفُوا الْمَجُوْسَ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں
کی مخالفت کرو۔
(6) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ انے دس خصلتیں فطرت میں سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھوں
کو کاٹنا اور دوسری خصلت داڑھی کو بڑھانا ہے۔۔۔۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
داڑھی سے متعلق احادیث میں یہ کلمہ سب وارد ہیں۔
«واعفوا -اوفوا-ارخوا-ارجوا-وفروا»ہے۔
امام
نو وی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فر ما تے ہیں ۔
«ومعناه كلها :تركها علي حالها هذا هو الظاهر من الحديث الذي تقتضيه
الفاظه» (٣/١٥١)
یعنی
"ان تمام الفا ظ کا مفہوم یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو حدیث کے
ظاہر ی الفاظ کا تقاضایہی ہے ۔"
ایک شبہ کا ازالہ
=============
بعض
لوگوں کا خیال ہے کہ داڑھی رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے کیونکہ یہ سنت سے ثابت
ہے ۔ یہ شبہ دراصل جہالت اور نادانی پر مشتمل ہے ، دین کا کوئی بھی واجبی حکم سنت
ہی سے ثابت ہوتا ہے ۔ چاہے اس کا ذکر قرآن میں ہو یا حدیث میں ہو یا دونوں میں۔
علماء کے اقوال
===========
مشہور شافعی فقیہ اور محدث
امام نووی ”حدیث خصال فطرت“
کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
”المختار ترکہا علی
حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ“
ترجمہ:․․․”مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑدیا جائے
اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے“۔
امام نووی ؒ نےاسے راجح قرار دیا ہے، نیز امام احمد بن حنبل ؒ کی
دو رائے میں سے ایک رائے یہی ہے۔
فتاویٰ مفتی محموددیوبندی میں
ہے:
”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق مردود الشہادة ہے“۔( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)
”داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے، نہ رکھنے والا فاسق مردود الشہادة ہے“۔( فتاویٰ مفتی محمود، باب الامامة، داڑھی کی شرعی حیثیت: 2/175، جمعیة پبلیکیشنز)
مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ دیوبندی
نے بھی واجب قرار دیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں انکی عربی کتاب\”وجوب اعفاء اللحےۃ
کلام آخر:
=========
جمہور محدثین ومحققین وفقہاء
اور علماء کرام نیز چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ،
امام احمد بن حنبلؒ ) داڑھی کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔ عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ
کے تقریباً تمام مکاتب فکر قرآن وحدیث کی روشنی میں وجوب کے ہی قائل ہیں۔ یعنی
خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا
عالم نے داڑھی کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا
ہی فیصلہ فرمایا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔