Saturday, January 3, 2015

مقلدین کے بارہ سوالات کے جوابات

مقلدین کے بارہ سوالات کے جوابات
________________________________________

صوفی محمد عباس رضوی خطیب واہنڈو کی طرف سے کیے گئے سوالات اور استادِ محترم فضیلۃ الشیخ مولانا محمد فاروق اصغر صاحب صارم کی طرف سے مفصل جوابات درج ذیل ہیں:
بالترتیب جوابات

سوال نمبر ۱:… کیا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نمازِ وتر میں بعد از رکوع عام دعا کی طرح ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ہے یا آپ  صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے؟

جواب:…قنوتِ وتر میں دعا مانگنا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح ثابت ہے۔ رکوع سے پہلے قنوت وتر کی دعا مانگنا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا عمل ہے جب کہ رکوع کے بعد قنوتِ وتر کی دعا مانگنا رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے۔ حکم والی روایت کی صورت یعنی رکوع کے بعد قنوت وتر کی دعا پڑھنا ہمارے ہاں زیادہ بہتر ہے۔ (دیکھئے: کتب اُصول حدیث)اب دونوں روایتوں کی تفصیل سنیے:
حضرت ابی  رضی اللہ عنہ بن کعب سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے قنوتِ وتر رکوع سے پہلے کیا ۔ (ابو داؤد،مع العون:۱،۵۳۸)1
حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے مجھے وتر کی دعا سکھائی ((اللّھم اھدنی فیمن ھَدَیْت……))اور کہا یہ دعا اس وقت مانگنا جب (قیام و رکوع ادا کر لو) صرف سجدہ کرنا باقی رہے ۔ کلمات یہ ہیں: ((اذا رَفَعْتُ رَأسِیْ وَلَمْ یَبْقَ اِلاَّ السُّجودُ)) (رواہ الحاکم :۳،۱۷۲ و سنن البیہقی :۳،۳۸) علامہ البانی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے ۔ دیکھئے: ارواء الغلیل:۲،۱۶۸
باقی رہاہاتھ اُٹھا کر دعا قنوت مانگنے کا مسئلہ تو سنن بیہقی کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلمکو حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے دیکھا صبح کی نماز میں آپ نے قنوت کیا ، دونوں ہاتھوں کو اُٹھایا ہوا تھا اور جنہوں نے آپ کے صحابہ کو شہید کر دیا تھا آپ ان پر بد دعا کر رہے تھے۔  (سنن بیہقی :۲،۲۱۱)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب القنوت فی الوتر

وضاحت:
…دونوں قنوت ہیں۔ دونوں نماز کے اندر ہیں ۔ ایک قنوت میں ہاتھ اُٹھانے کی وضاحت آ گئی تو دوسرے قنوت میں بھی اسی شکل کو ہی اختیار کرنا مناسب ہو گا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی بھی مرفوع صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے جنازہ میں سبحانک اللھمپڑھا ہو یا تلقین فرمائی ہو اس کے باوجود فرض نماز کی طرح جنازہ کو نماز سمجھتے ہوئے ہم اور آپ بھی سبحانک اللھم پڑھ لیتے ہیں۔


سوال نمبر۲:…کیا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ کی تمام تکبیرات میں رفع الیدین کرنے کا حکم فرمایا ہے یا آپ  صلی الله علیہ وسلم نے خود نمازِ جنازہ کی تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین فرمایا ہے؟

جواب:…حضرت ابن عمر  رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم جنازہ کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا کرتے تھے۔(العلل لدار قطنی)
اس روایت کے متعلق شیخ ابن باز k فرماتے ہیں :’’ اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔ عمر بن شبہ بھی ثقہ راوی ہیں۔ بحوالہ حاشیہ فتح الباری :۳،۱۹۰‘‘
اس روایت کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ بھی جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری مع الفتح :۳،۱۸۹)

سوال نمبر۳: …حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے کس کس شہید صحابی کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی تھی؟

جواب:… عبارتِ سوال سے واضح ہو رہا ہے کہ غیر شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ آپ تسلیم کر چکے ہیں لیکن  تقلید کا پھندا عمل نہیں کرنے دیتا ہو گا جو دلیل غیر شہید کی ہے وہی دلیل شہید کی سمجھ لیجئے۔
(ب) یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں مختلف فیہ ہے ۔ شہید کے جنازہ کے قائلین کے پاس جو دلائل ہیں ان میں سے صرف ایک روایت کو ذکر کیا جاتا ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نکلے ، پس آپ صلی الله علیہ وسلم نے شہداء احد پر اس طرح نماز ادا کی جس طرح آپ میت پر نماز ادا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:۱،۱۷۹)1 واضح رہے کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم  کے یہ نماز ادا کرنے کا واقعہ غزوۂ اُحد سے آٹھ سال بعد کا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری،کتاب الجنائز،باب الصلوۃ علی الشہید

سوال نمبر ۴:… ایک صحیح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نمازِ جنازہ میں امام دعائیں بلند آواز سے پڑھے اورمقتدی صرف آمین آمین پکاریں؟
جواب: …نمازِ جنازہ سراً پڑھانا بھی درست ہے اور جہراً پڑھانا بھی صحیح ہے۔ جہاں تک دعائیں سراً پڑھنے کا ذکر ہے وہ تو گوشہ آپ کو معلوم ہے البتہ اگر نہیں معلوم تو وہ بلند آواز سے دعائیں پڑھنے کا گوشہ ہے ۔ لیجئے اس وقت ایک روایت بطورِ دلیل پیش کی جاتی ہے ۔ شاید سید الکونین  صلی الله علیہ وسلم کا عمل آپ پر بھی اثر کر جائے۔
حضرت عوف بن مالک  رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی وہ تمام دعائیں یاد کر لیں جو آپ  صلی الله علیہ وسلم نے اس موقعہ پر پڑھی تھیں اور وہ یہ تھیں: ((اَللّٰھُمَّ) اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمْہُ……الخ)) (صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز)1
وضاحت:
…صحابی رسول کا آپ کی دعاؤں کو یاد کرنا تبھی ہو سکتا ہے جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے بلند آواز سے پڑھی ہوں ، سراً پڑھنے سے تو سنائی نہیں دیتیں یاد کرنا کیسے ممکن تھا۔
باقی رہا آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کا آمین آمین کہنا تو جب رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نماز میں دعائیں پڑھتے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پیچھے آمین آمین کہا کرتے تھے جیسا کہ ابھی اگلے سوال کے جواب میں وضاحت سے بیان ہو گا۔ اس کا ایک عام فائدہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اکثر لوگوں کو جنازے کی دعائیں یاد نہیں ہوتیں۔ حالانکہ جنازے کا مقصد دعا ہے ۔ آمین کہنے کی وجہ سے ہر ایک کی شرکت ہو جاتی ہے۔

سوال نمبر ۵:… ایک صحیح صریح حدیث پیش کریں کہ نمازِ وتر میں رکوع کے بعد امام بلند آواز سے دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی صرف آمین آمین پکاریں؟
جواب:…حضرت ابن عباس  رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک ماہ مسلسل پانچوں نمازوں کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد دعا قنوت پڑھی جس میں بنی سلیم ، رِعل ، ذکوان ، عصیہ قبائل ( جنہوں نے قراء کو شہید کر دیاتھا) پر اونچی آواز میں بد دعا کی اور مقتدی آمین آمین پکارتے رہے ۔ (قیام اللیل للمروزی :۲۳۵)
وضاحت:
… قنوت وتر بھی قنوتِ نازلہ کی طرح دعائیہ کلمات پر مشتمل ہے ۔ دونوں نماز کی آخری رکعت میں ہی کیے جاتے ہیں ، اس حدیث کی روشنی میں جماعت کی صورت میں اگر اونچی آواز سے امام قراء ت کرے گا تو مقتدی بآواز بلند ہی آمین کہیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم،کتاب الجنائز،با ب الدعاء للمیت فی الصلاۃ۔

سوال نمبر ۶:… کیا نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلمنے حکم فرمایاتھا کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں یا آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھے تھے؟
جواب:… رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا یہ ایسی واضح حقیقت ہے جس کو کئی ایک روایات کی تائید حاصل ہے ۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے صرف ایک روایت پیش کی جاتی ہے۔
حضرت وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو میں نے دیکھا آپ صلی الله علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینہ کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ (صحیح ابن خزیمہ : ۱،۲۴۳)
واضح رہے کہ بحر الرائق شرح کنز الدقائق کے حنفی مؤلف نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایات عند المحدثین بالاتفاق ضعیف ہیں۔ (دیکھئے: شرح مسلم للنووی)

سوال نمبر ۷:… کیا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کہنی پر رکھا تھا؟
جواب:… حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی نمازیوں تھی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے قبلہ کی طرف منہ کیا ، تکبیر تحریمہ کہی اور کانوں تک ہاتھ اُٹھائے پھر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی گٹ اور کلائی ( ساعد) پر رکھا۔ (ابو داؤد مع العون : ۱،۲۶۵)
وضاحت:
… ہم جب بھی نمازِ نبوی کو بیان کرتے ہیں اور مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں تو اس مذکور حدیث کی روشنی میں ہی وضاحت کرتے ہیں کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،گٹے اور کلائی پر رکھ کر سینے پر رکھا جائے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ حدیث میں موجود کلمہ ’’ساعد ‘‘ جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جو گٹے سے شروع ہو کر کہنی تک جاتا ہے ۔ کہنی شامل نہیں ہے اگر کوئی شخص کہنی پر بھی ہاتھ رکھنے کا اہتمام کرتا ہے تو یہ اسے ہماری تعلیم و تلقین نہیں ، ذاتی طور پر اس کی غفلت ہے۔

سوال نمبر ۸:… ایک صحیح مرفوع حدیث پیش کریں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پورا سال تہجد کی اذان کا حکم فرمایا ہو وہ اذان رمضان شریف میں سحری کھانے کے لیے نہ ہو بلکہ پورا سال تہجد پڑھنے کے لیے ہو؟
جواب:… رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں فجر کے وقت ہر روز دو اذانیں ہی ہوا کرتی تھیں ، صرف رمضان المبارک کے مہینہ کی تخصیص و تعیین میں کوئی روایت نہیں آئی۔ دو اذانوں کا جو معمول سار ا سال تھا وہ معمول رمضان المبارک میں بھی تھا۔ اس بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ کیجئے:
((  عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ فَاِنَّہٗ یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قائمَکُمْ وَلِیُنَبِّہَ نَائِمَکُمْ)) (صحیح البخاری مع الفتح:۲،۱۰۳)1
’’حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں بلال کی اذان سحری کھانے سے نہ روکے وہ ( فجر سے پہلے ) رات کے وقت اذان دیتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ قیام کرنے والا ( سحری کے لیے ) لوٹ جائے اور سویا ہوا اُٹھ جائے۔‘‘
حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال  رضی اللہ عنہ کی اذان رات کے وقت ( فجر سے پہلے ) ہوتی ہے لہٰذا کھا پی لیا کرو یہاں تک کہ عبداللہ بن اُم مکتوم  رضی اللہ عنہاذان دے۔ (تب کھانا پینا چھوڑ دیا کرو)
وضاحت:
… ان دونوں روایتوں سے پتہ چلا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک اذان فجر سے پہلے ہوتی تھی جو حضرت بلال  رضی اللہ عنہ دیتے تھے اور دوسری اذان طلوع فجر کے ساتھ ہوتی تھی جو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے تھے۔ دونوں اذانیں بامقصد تھیں۔  حضرت بلال  رضی اللہ عنہکی اذان سحری کھانے اور نمازِ تہجد کے وقت کے لیے ایک اعلان کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان کا مقصد طلوعِ فجر کی اطلاع دینا تھا۔
ان روایتوں کی جگہ بھی ماہِ رمضان کا نام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ان روایتوں کے تحت فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ یہ دو اذانیں سارا سال ہوتی تھیں۔
اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ خود رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے ، ہر ماہ تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتے ، سوموار ، جمعرات کا ہفتہ وار روزہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ماہِ شعبان کے اکثر ایام میں اور ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ میں نفلی روزوں کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ جب دل چاہتا روزے کا پروگرام بنا لیتے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعینبھی آپ  صلی الله علیہ وسلمہی کے تربیت یافتہ تھے ، وہ بھی فرضی روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کے شوقین تھے اور پیش پیش تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کے متعلق ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام والے روزے رکھتے تھے یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعینبھی نفلی روزوں کا اہتمام کیا کرتے تھے تو صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کی سہولت کی خاطر دو اذانوں کا اہتمام کیا گیا اور یہ اہتمام سارا سال ہی تھا کسی مخصوص ماہ کے لیے نہ تھا جیسا کہ عبارت روایت سے عیاں ہوتا ہے۔
ثانیاً:… ایک ہی روایت میں دونوں اذانوں کا ذکر ہے اگر دوسری اذان آپ کے نزدیک سارا سال تھی تو پہلی اذان سارا سال کیوں تسلیم نہیں کی جاتی ۔ دونوں میں فرق کرنے کی کوئی علت و شہادت نہیں ملتی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری،کتاب الاذان،باب الاذان قبل الفجر۔

سوال نمبر ۹:… ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نماز باجماعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنے کا حکم دیا ہو یا خود پڑھی ہو؟
جواب:…نماز میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ آہستہ پڑھنا بھی درست ہے اور بلند آواز میں بھی صحیح ہے ۔ آہستہ پڑھنے والی روایت آپ کو معلوم ہے ، اونچی پڑھنے والی روایت سنیے:
جناب نعیم بن مجمر نے کہا میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ، انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی ، پھر اُم القرآن (سورۂ فاتحہ) پڑھی، جب غیر المغضوب علیہم ولا الضآلّین تک پہنچے تو آمین کہی ، لوگوں نے بھی آمین کہی… جب سلام پھیرا تو کہا مجھے اس ذات کی قسم 1 جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے ۔(سنن نسائی)1
وضاحت:
… اس روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا بیان ہے جس میں انہوں نے سورۂ فاتحہ کی طرح بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھی۔ نعیم مجمر سن کر ہی بیان کر رہے ہیں ، پھر صحابی رسول  صلی الله علیہ وسلم نے اپنی نماز کو رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم والی نماز قرار دیا۔
واضح رہے دار قطنی نے اس روایت کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے: (رواتہ کُلُّھم ثِقات) کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
مزید سینے : ابن عمر ، ابن عباس اور ابن زبیر وغیرھم رضوان اللہ علیھم اجمعین کا یہی مسلک تھا کہ بسم اللہ جہراً پڑھنی چاہیے ۔ ملاحظہ ہو: جامع الترمذی مع التحفہ : ۱،۲۰۵2

سوال نمبر ۱۰:… ایک صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے وفات تک رفع الیدین عند الرکوع و بعد الرکوع کیا تھا؟
جواب:… اگر ہر عمل میں یہ شرط لگا دی جائے کہ حدیث میں صراحتاً ہو ’’ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ عمل تا وفات کیا ہو ۔‘‘ تو یہ ایک ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے بہت سے اعمال نبویہ کا تعلق ہماری زندگی سے ختم ہو جائے گا بلکہ دین اسلام کی اصلی شکل مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ مثلاً کوئی شخص آپ سے یہ پوچھ لے کہ نماز و تر میں تم تکبیر تحریمہ کی طرح جو رفع الیدین کرتے ہو اس کے لیے ایسی حدیث پیش کرو جس میں یہ صراحتاً ذکر ہو کہ آپ نے دعا قنوت شروع کرنے سے قبل تکبیر تحریمہ کی طرح وفات تک رفع الیدین کیا تھا تو بتائیے آپ ایسی روایت جو مرفوع و صریح اور صحیح ہو پیش کر سکیں گے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 نسائی،کتاب الافتتاح،باب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
2 ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب من رأی الجھر بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے سوال میں ’’وفات تک ‘‘ کے کلمات بتا رہے ہیں کہ آپ بریلوی ہو کر وفات رسول صلی الله علیہ وسلم کے قائل ہیں۔ کیا خیال ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ رفع الیدین کی احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ میں سے ایک صحابی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی ہیں ، ان کی روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔ یہ صحابی رضی اللہ عنہ ۹ ہجری کو مسلمان ہوئے ، حضور  علیہ السلام سے تربیت لے کر اپنے علاقہ کی طرف واپس چلے جاتے ہیں ، ایک سال بعد یعنی دس ہجری کو پھر مدینہ منورہ آتے ہیں تو صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین اور رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا رفع الیدین عند الرکوع و غیرہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں ۔ (دیکھئے: ابوداؤد)… گیارہ ہجری کے تقریباً ابتدائی ماہ بارہ ربیع الاوّل میں آپ کی وفات ہو جاتی ہے۔ بتائیے وہ کونسی مرفوع صحیح صریح روایت ہے جس نے اسے منسوخ کر دیا؟
صاحبِ ہدایہ نے ابتدائی رفع الیدین کے لیے ’’واظب علیہ ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں یعنی اس رفع الیدین پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی۔ علامہ زیلعی حنفی نے اس روایت کو واضح کر دیا جس کی طرف بطورِ دلیل صاحب ہدایہ نے اشارہ کیا تو وہ روایت ابن عمر  رضی الله عنہ والی ہی تھی جس میں رفع الیدین عند الرکوع والرفع منہ کا بھی ذکر تھا۔
تعجب ہے ایک ہی روایت میں تین جگہ کا رفع الیدین بیان ہوا ، وہ روایت پہلے رفع الیدین کے لیے ہمیشگی کی دلیل بن گئی اور دوسرے مقامات کے رفع الیدین منسوخ پا گئے۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ یا تو تینوں مقامات کے رفع الیدین منسوخ قرار پاتے یا تینوں مقامات کے رفع الیدین ہمیشہ کے لیے ثابت ہو جاتے کیونکہ روایت ایک ہی ہے۔  اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ…  [البقرۃ:۸۵] [’’کیا بعض احکام پر یقین رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو۔‘‘]
بیان میں نکتہ حدیث آ تو سکتا ہے
تیرے دماغ میں تقلید ہو تو کیا کہیے

سوال نمبر ۱۱:… ایک صحیح صریح مرفوع غیر محتمل حدیث پیش کریں کہ کپڑا ہوتے ہوئے ننگے سر نماز
پڑھنے کا حکم حدیث میں ہو؟
جواب:…صحت نماز کے لیے سر پر کپڑا باندھ کر رکھنے کی شرط میں  نہ کوئی قرآنی آیت ہے اور نہ ہی
صراحتاً رسو ل اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی حدیث شریف ہے ، نہ ہی رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم اس کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جس حال میں ہوتے نماز ادا کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث شریفہ میں آپ کا ننگے سر نماز ادا کرنا بھی آیا ہے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ ایک ہی کپڑا اوڑھے ہوئے تھے جس کے دونوں کنارے آپ کے کندھوں پر تھے۔ (بخاری و مسلم )1
حضرت سلمہ بن اکوع  رضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا میں شکار کے لیے نکلتا ہوں تو کیا ایک ہی قمیص میں نماز پڑھ لیا کرو ں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ البتہ قمیص کو آگے سے بند کر لیا کرو۔ (ابوداؤد)2
حضرت جابر  رضی اللہ عنہ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی تو گردن کے پیچھے گرہ دی ہوئی تھی اور باقی کپڑے اُتار کر ٹنگنی پررکھ لیے ، سائل نے پوچھا یہ کیا؟ تو کہا یہ اس لیے کیاہے تاکہ تم جیسے احمق لوگ دیکھ لیں۔ (صحیح البخاری)3
محترم1 سوچئے اور فرمائیے ان مذکورہ واقعات سے کوئی نصیحت و مسئلہ دریافت ہوتا ہے ؟ اگر پھر بھی آپ کا خیال ہے کہ سر ننگے نماز نہیں ہوتی تو اس کے لیے آپ مرفوع ، صریح ، صحیح روایت پیش کریں کیونکہ آپ انہیں شرائط کو چاہتے اور پسند کرتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۲:… ایک صحیح ، صریح ، مرفوع حدیث پیش کریں جس میں نماز میں دو ، دو فٹ کھلے پاؤں کر کے کھڑے ہونے کا حکم ہے؟
جواب:…یہ محض مبالغہ ہے ، ہم نے کبھی بھی ایسا نہیں کہا اور بیان کیا ۔ کوئی شخص بے خبری میں ایسا کرتا ہے تو درست نہیں …… البتہ ہم تو اپنے مقتدیوں کو یوں کہتے ہیں کہ دو قدموں کے درمیان اس قدر فاصلہ رکھو کہ ساتھ والے نمازی سے کندھا بھی مل جائے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے یوں ہی نماز کے لیے صف بندی کرتے اور کھڑے ہوتے تھے۔ الحمد للہ ہمارے نمازی اس طرح یعنی حدیث کے مطابق کھڑے ہوتے ہیں ، مقلدین کی طرح نہیں کہ جماعت میں کھڑے ہو کر بھی اس طرح دور دور رہتے ہیں جیسے ایک دوسرے کے دشمن مجبوراً کھڑے ہوں ۔ باقی رہا اکیلا نمازی تو اس کے لیے شرعاً کوئی پابندی نہیں کہ دو قدموں کے مابین کتنا فاصلہ رکھے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مرفوع ، صحیح ، صریح روایت ہو تو پیش کریں؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1بخاری،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ فی الثوب الواحد ملتحفاً بہ۔مسلم،کتاب الصلاۃ،با ب الصلاۃ فی ثوب و احد
2 ابو داؤد،کتاب الصلاۃ،باب الرجل یصلی فی قمیص واحد
3 بخاری،کتاب الصلاۃ،باب عقد الازارعلی القفا فی الصلاۃ۔

بشکریہ محدث فورم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔