Sunday, December 28, 2014

مختلف حالات میں سلام کا جواب دینا

مختلف حالات میں سلام کا جواب دینا


لوگوں کے درمیان بعض حالات میں سلام کا جواب دینا معلوم نہیں ہے اس لئے آئے دن اس قسم کے سوالات دہرائے جاتے رہتے ہیں ۔ موقع کی نزاکت کے تئیں ان کا جواب قارئین کی نظر کیا جا رہاہے۔

(1)حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینا:

======================
اگر مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور تمام نمازی با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں اور  باہر سے آنے والا شخص جب سلام کہے تو نمازی اس کا جواب الفاظ سے نہ دیں کیونکہ نماز کی حالت میں کلام کرنا منع ہے بلکہ نمازی ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔
دلیل : سیدنا عبداللہ بن عمرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
    '' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم کو نماز کی حالت میں جب لوگ سلام کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے رسول ا للہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کو کیسے دیکھا ؟ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   ایسے کہتے  تھے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلایا '' (بلوغ الامرام مع سبل السلام ۱/۱۴۰)
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیتے تھے۔ زبان سے کلام نہیں فرماتے تھے ۔ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
    '' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہے تو اس کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے دے نہ کہ زبان سے بول کر '' ( سبل السلام ۱/۱۴۰)

(2)کھاتے وقت سلام کا جواب دینا:

====================
کھانا کھاتے وقت سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا جائز ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگوں کی زبانوں پر یہ جومشہور ہے کہ لا سلام ولا کلام علی الطعام کہ” کھاتے وقت سلام یا کلام نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ مقولہ ہے جو لوگوں میں رائج ہوگیا ہے ۔
اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کھانے کے بیچ بات کرناثابت ہے ۔ ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه وسلم  کے پاس گوشت پیش کیا گیا آپ نوچ نوچ کرتناول فرمانے لگے ، اسی اثناء فرمایا : ”میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا “ پھر آپ نے شفاعت کی طویل حدیث بیان کی ۔ (بخای ومسلم)
جب حدیث سے کھاتے وقت بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے تو اس حالت میں سلام کا جواب دینا بدرجہ اولی درست ہے۔

(3)قرآن کی تلاوت کرتے وقت سلام کا جواب دینا :

============================
قرآن کی تلاوت کرتے وقت سلام کا جواب دینا جائز ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ یارسول اللہﷺ! آپﷺنے فرمایا: جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہیے، جب وہ دعوت دے تو قبول کیجیے، جب وہ نصیحت طلب کرے تو اسےنصیحت کیجئے، جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اسےچھینک کا جواب دیجیے، جب وہ بیمار ہو تواس کی عیادت کیجیے اور جب وہ فوت ہو تو اس کے جنازے کے پیچھے چلیے۔‘‘ (صحیح مسلم:2162)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ملاقات کےوقت ہرمسلمان کو سلام کرنا مستحب عمل ہے جب کہ سلام کاجواب دینا فرض ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے :
’’ وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‘‘اورجب تمہیں سلام کیا جائے تواس سے اچھاسلام کا جواب دو یا اسی کے مثل لوٹادو، بےشک اللہ ہرچیز کا خوب حساب رکھنے والا ہے۔(النساء:86)
خلاصہ کلام یہ کہ تلاوت قرآن میں منہمک شخص کو سلام کرنا مستحب عمل ہے اورتلاوت کرنے والے شخص پر سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔

(4)دوران خطبہ سلام کا جواب دینا:

====================
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ’’جب جمعہ کے دن دوران خطبہ تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بھی تم نے لغو کام کیا۔‘‘
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ دوران خطبہ بات کرنا ممنوع ہے لیکن اگر کسی مصلی نے سلام کیا تو دل میں اس کا جواب دے دے، اس لیے کہ دل میں سلام کا جواب دینے سے خطبے کے سماع میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ البتہ بالجہر جواب دینا سماع میں خلل کا باعث ہے، اس لیے بالجہر سلام کا جواب نہ دے۔


(5)اذان دیتے وقت سلام کا جواب دینا:

======================
آذان ہوتے ہوئے سلام کہنا اور اس کا جواب دینا کسی حدیث سے منع نہیں ہے۔ 
اس لئے آذان ہوتے ہوئے سلام کا جواب دینا درست ہے ۔ سلام کا جواب دینے سے اذان کے سماع میں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ مؤذن کلمات کھینچ کر کہتا ہے۔ 


نوٹ : سلام کرنے اور جواب دینے کے لئے یہ قاعدہ ذہن میں رہے کہ جہاں سلام کرنے کی ممانعت نص سے وارد ہے وہاں سلام کرنا اور جواب دینا ممنوع ہوگا، مثلا قضائے حاجت کے وقت سلام کرنا اور جواب دینا منع ہے ، بقیہ دیگر مواقع پر سلام کرنا یا جواب دینا جہاں ممانعت کی دلیل نہیں مشروع اور جائز ہوگا۔

ترتیب و پیشکش:

مقبول احمد سلفی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔