عقیقہ
سے متعلق جانور کے مسائل
=====================
(1)ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور اُم کرز کعبیہؓ
بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ'' '(رواہ أحمد و ترمذي عن عائشة سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة، و سنن نسائي کتاب العقیقة عن أم کرز الکعبیة بالأسانید الصحیحة)
ترجمہ : "لڑکے پرایک جیسی دو بکریاں اورلڑکی پر ایک بکری''
''عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ'' '(رواہ أحمد و ترمذي عن عائشة سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة، و سنن نسائي کتاب العقیقة عن أم کرز الکعبیة بالأسانید الصحیحة)
ترجمہ : "لڑکے پرایک جیسی دو بکریاں اورلڑکی پر ایک بکری''
(2)سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے ایک اور حدیث میں مروی ہے:
''ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امرھم عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن نسائي، کتاب العقیقة و ترمذي، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ، جید)
ترجمہ: ''رسول اللہ ﷺنے انہیں حکم فرمایا کہ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں او رلڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''
''ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امرھم عن الغلام شاتان مکافئتان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن نسائي، کتاب العقیقة و ترمذي، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ، جید)
ترجمہ: ''رسول اللہ ﷺنے انہیں حکم فرمایا کہ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں او رلڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''
(3)ایک اور حدیث میں ''شاتان مکافئتان'' کی جگہ ''شاتان مثلان''
کے ہم معنی الفاظ بھی ملتے ہیں:
''عن الغلام شاتان مثلان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ جید)
ترجمہ: "لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری''
''عن الغلام شاتان مثلان و عن الجاریۃ شاۃ''(سنن أبي داود، کتاب الأضاحي باب في العقیقة و إسنادہ جید)
ترجمہ: "لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری''
(4)ایک اورمقام پر سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں:
''ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاتان مکافئتان''(الطحاوی ج1 ص457 باسناد صحیح)
ترجمہ:''جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ) وہ یہ ہے کہ( دو ایک جیسی بکریاں''
''ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاتان مکافئتان''(الطحاوی ج1 ص457 باسناد صحیح)
ترجمہ:''جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ) وہ یہ ہے کہ( دو ایک جیسی بکریاں''
٭بہر
حال عقیقہ کے لیے بکرا بکری یا اسے سے مشابہ جانور مثلاً بھیڑ یا مینڈھا اور دنبہ
ہی ذبح کرنا چاہیے جیسا کہ اوپر بیان کی ہوئی تمام احادیث سے ثابت ہے۔
٭البتہ جانوروں کے انتخاب میں ایک جیسے ہونے،
جانوروں کی عمر ایک سال مکمل ہونے اور غالب جسمانی عیوب سے پاک ہونے کے علاوہ کوئی
اورمعیار نہیں ہے۔
مثلاً رنگ اور وزن وغیرہ ۔
٭جانوروں کا قد، عمر او رجنس میں یکسانیت جانوروں کے ایک جیسا ہونے کے لیے کافی ہے۔
مثلاً رنگ اور وزن وغیرہ ۔
٭جانوروں کا قد، عمر او رجنس میں یکسانیت جانوروں کے ایک جیسا ہونے کے لیے کافی ہے۔
٭جنس سے مرا دیہ ہے کہ اگر بکری سے عقیقہ
کرنا ہے تو دونوں جانور بکریاں ہی ہوں، ایک بکری اور ایک بھیڑ نہ ہو۔ ذبیحہ کے
جانوروں میں نر و مادہ کی تمیز بھی نہیں کی جائے گی جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث سے
ثابت ہے۔
ام کرز کعبیہؓ بیان کرتی ہین کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الانثیٰ واحدۃ ولا یضرکم ذکرانا او اناثا''(مسنداحمد و سنن الترمذی مع التحفہ صفحہ 2؍362)
ترجمہ:''لڑکے پر دو بکریاں ہیں او رلڑکی پرایک، اور تم پر کوئی حرج نہیں خواہ جانور نر ہوں یا مادہ''
ام کرز کعبیہؓ بیان کرتی ہین کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا:
''عن الغلام شاتان و عن الانثیٰ واحدۃ ولا یضرکم ذکرانا او اناثا''(مسنداحمد و سنن الترمذی مع التحفہ صفحہ 2؍362)
ترجمہ:''لڑکے پر دو بکریاں ہیں او رلڑکی پرایک، اور تم پر کوئی حرج نہیں خواہ جانور نر ہوں یا مادہ''
٭بعض
لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ لڑکے کے لیے نر جانورذبح کرنا چاہیے اور لڑکی کے لیے
مادہ جانور،،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ بات محض لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔
سنن
ابی داؤد، سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا بیان ہے :
"عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ"
"رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
( سنن نسائی: ۴۲۲۴... علامہ البانیؒ نے ارواء الغلیل: ۴؍۳۷۹ میں اس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔)
"عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ"
"رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
( سنن نسائی: ۴۲۲۴... علامہ البانیؒ نے ارواء الغلیل: ۴؍۳۷۹ میں اس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے۔)
٭احادیث
سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے۔
٭عقیقہ
میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے، نیز قولِ سيده عائشہؓ بھی اس مفہوم کی تائید
کرتا ہے۔
جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا :
اے امّ المومنین!
"عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ"
ترجمہ: "اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ !
بلکہ ہم وہ ذبح کریں گےجو رسول ﷺ نے فرمایا ہے:"لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں۔"( سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔)
جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا :
اے امّ المومنین!
"عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ"
ترجمہ: "اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ !
بلکہ ہم وہ ذبح کریں گےجو رسول ﷺ نے فرمایا ہے:"لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں۔"( سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔)
٭عقیقہ
میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ
ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔
اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ"
ترجمہ:"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ عقیقہ میں اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"( طبرانی صغیر : ۲۲۹... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے۔ (موضوع)
۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔
-مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
-حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔
اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ"
ترجمہ:"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ عقیقہ میں اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"( طبرانی صغیر : ۲۲۹... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے۔ (موضوع)
۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔
-مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
-حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔
محدث میگزین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔