سوال: کیا نماز ادا کرتے ہوئے جب سجدہ کو جائیں تو پہلے ہاتھ رکھیں
یا گھٹنے ؟ صحیح حیدث کی رُو سے وضاحت فرمائیں۔
جواب: نماز میں سجدہ کو جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھنا ہی صحیح ہے
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمای ا:
'' جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے ''۔
اس حدیث کی سند جید ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ ، امام زرقانی رحمہ اللہ ، امام عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا یہ حدیث سید ناوائل بن حجر والی حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔ ملا حظہ ہو مجموعہ۳ ٣/۴۲۱ ٤٢١ تحفۃ الا حوذی ۱١/۲۲۹ ٢٢٩بلوغ المرام مع سبل السلام ۱١/ ۳۱۶٣١٦) اس حدیث کی شاہد حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی ہے ۔ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ یہ حدیث ابن خزیم (۶۲۷) دارقطنی۱/۳۴۴، بیہقی۲/۱۰۰ حاکم۱/۲۲۶ میں ہے۔ اس حیدث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہنی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ جو لوگ سجدہ جاتے ہوئے پہلے گھنٹے رکھنے کے قائل ہیں ۔ وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔
'' وائل بن حجر رحمہ اللہ سے رویات ہے کہ میں نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو دونوں گھنٹے ہاتھوں سے پہلےز مین پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ''۔ ( ابو داؤد (۸۳۸) ، نسائی۲/۲۰۶، ترمذی (۲۷۸) ، ابن ماجہ (۸۸۲) ، دارمی ۱/۳۰۳، ابن خزیمہ (۶۲۶)، طحاوی۱/۲۵۵، ابن حبان (۴۸۷) ، دارقطنی ، ۱/۳۴۵، بیہقی ۲/۹۸، شرح السنہ (۶۴۲)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف راوی ہیں ۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحدیث الضعیفۃ۲/۳۲۹)۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ راحج اور قومی مذہب کی یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کے بجاے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے۔ امام اوزاعی، امام مالک، امام ابنِ خمر رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن جنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
حدیث وائل بن حجرکو اگر صحیح یتسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ترجیح اسی موقف کو ہے۔ اسلئے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قولی ہے اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث فعلی ہے اور تعارض کی صورت میں قولی حدیث کو فعلی حدٰث پر ترجیح دی جاتی ہے اور سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث کی شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث بھی ہے۔ علاوہ ازیں سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث میں ہاتھوں سے قبل گھنٹے رکھنے کی مامنعت ہے اور تعارض کی صورت میں ممانعت والی رویات کو لیا جات اے ۔ تفصیل کیلئے دیکھیں ۔(محلی ابن حزم ۴/۱۲۹، ۱۳۰) ماخوذ از اسلامک میسیج آرگنائزیشن
'' جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے ''۔
اس حدیث کی سند جید ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ ، امام زرقانی رحمہ اللہ ، امام عبدالحق اشبیلی رحمہ اللہ ، علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا یہ حدیث سید ناوائل بن حجر والی حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔ ملا حظہ ہو مجموعہ۳ ٣/۴۲۱ ٤٢١ تحفۃ الا حوذی ۱١/۲۲۹ ٢٢٩بلوغ المرام مع سبل السلام ۱١/ ۳۱۶٣١٦) اس حدیث کی شاہد حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی ہے ۔ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ یہ حدیث ابن خزیم (۶۲۷) دارقطنی۱/۳۴۴، بیہقی۲/۱۰۰ حاکم۱/۲۲۶ میں ہے۔ اس حیدث کو امام حاکم نے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہنی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ جو لوگ سجدہ جاتے ہوئے پہلے گھنٹے رکھنے کے قائل ہیں ۔ وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں ۔
'' وائل بن حجر رحمہ اللہ سے رویات ہے کہ میں نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو دونوں گھنٹے ہاتھوں سے پہلےز مین پر رکھتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ''۔ ( ابو داؤد (۸۳۸) ، نسائی۲/۲۰۶، ترمذی (۲۷۸) ، ابن ماجہ (۸۸۲) ، دارمی ۱/۳۰۳، ابن خزیمہ (۶۲۶)، طحاوی۱/۲۵۵، ابن حبان (۴۸۷) ، دارقطنی ، ۱/۳۴۵، بیہقی ۲/۹۸، شرح السنہ (۶۴۲)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف راوی ہیں ۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحدیث الضعیفۃ۲/۳۲۹)۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ راحج اور قومی مذہب کی یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کے بجاے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے۔ امام اوزاعی، امام مالک، امام ابنِ خمر رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن جنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔
حدیث وائل بن حجرکو اگر صحیح یتسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ترجیح اسی موقف کو ہے۔ اسلئے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قولی ہے اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث فعلی ہے اور تعارض کی صورت میں قولی حدیث کو فعلی حدٰث پر ترجیح دی جاتی ہے اور سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث کی شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہ والی صحیح حدیث بھی ہے۔ علاوہ ازیں سیدنا ابو ہریرہ رحمہ اللہ کی حدیث میں ہاتھوں سے قبل گھنٹے رکھنے کی مامنعت ہے اور تعارض کی صورت میں ممانعت والی رویات کو لیا جات اے ۔ تفصیل کیلئے دیکھیں ۔(محلی ابن حزم ۴/۱۲۹، ۱۳۰) ماخوذ از اسلامک میسیج آرگنائزیشن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔