خودکشی کرنے والے کا حکم
خودکشی کرنے والا کافر
نہیں ہے ۔مذاہب اربعہ میں سے کسی نے بھی خودکشی کرنے والے کو کافر نہیں قرار دیاہے
۔ کتاب وسنت سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ شرک کے علاوہ کوئی بھی گناہ ہو چاہے
بڑے سے بڑا جرم ہو یا پہاڑ جیسی برائی ہو اللہ چاہے تو اسے معاف کرسکتا ہے ۔
( إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ
أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء ) النساء/ 48
ترجمہ : اللہ تعالی شرک
کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور جو اس کے علاوہ ہو اسے معاف کرسکتا ہے ۔
لہذا یہ بات معلوم ہوئی
کہ خودکشی کرنے سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا بلکہ شرک کے ارتکاب سے اسلام سے
خارج ہوتا ہے ۔ اور خودکشی کرنے والا کافر نہیں ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ كسى جان كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور ايسا
كرنے والے كے متعلق بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، ليكن وہ دائرہ اسلام سے خارج
نہيں ہوتا، اور سنت نبويہ ميں خود كشى كرنے والے كى نماز جنازہ عام لوگوں كا ادا
كرنا ثابت ہے، اور خاص لوگوں، مثلا اہل علم و فضل اورامير كے ليے مشروع يہى ہے كہ
وہ اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائے، تا كہ اس طرح كے لوگوں كو عبرت حاصل ہو، اور وہ
ايسا كا كرنے سے باز آجائيں۔.
جابر بن سمرہ رضى
اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص لايا
گيا جس نے اپنے آپ كو تير سے ہلاك كر ليا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے
اس كى نماز جنازہ نہ پڑھائى۔.
صحيح مسلم حديث نمبر :
978) )
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے
مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا خود كشى كرنے
والے كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟
تو شيخ رحمہ اللہ
تعالى كا جواب تھا:
سب گنہگاروں كى طرح
اس كى بھى بعض عام مسلمان نماز جنازہ ادا كريں گے؛ كيونكہ اہل سنت والجماعت كے
نزديك يہ ابھى تك اسلام كے حكم ميں ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى
الشيخ بن باز ( 13 / 162 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ
اللہ تعالى سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ:
كيا خود كشى كرنے
والے كو غسل ديا جائےگا اور اس كى نماز جنازہ ادا كى جائے گى ؟
تو شيخ رحمہ اللہ
تعالى كا جواب تھا:
خود كشى كرنے والے كو
غسل بھى ديا جائےگا، اور نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى اور اسے مسلمانوں كےقبرستان
ميں دفنايا جائےگا، كيونكہ وہ گنہگار اور مرتكب معاصى ہے، كافر نہيں، اس ليے كہ
خود كشى كرنا معصيت و گناہ ہے كفر نہيں.
اور جب كوئى شخص خود
كشى كر لے ( اللہ اس سے محفوظ ركھے ) تو اسے غسل بھى ديا جائےگا، اور اسے كفن بھى
پہنايا جائےگا، اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، ليكن بڑے امام اور اہم
لوگوں كو اسكى نماز جنازہ نہيں ادا كرنى چاہيے تا كہ اس برائى كا انكار كيا جائے
اور اسے روكا جا سكے، تا كہ يہ گمان نہ ہو سكے يہ اس كے عمل اور فعل پر راضى تھے،
بڑا امام، يا حكمران، يا قاضى حضرات يا علاقے كا سردار يا امير جب اس چيز كو روكنا
ترك كردے اور يہ اعلان كرے كہ يہ غلط اور خطا ہے تو يہ بہتر ہے، ليكن بعض مسلمان
اسكى نماز جنازہ ادا كريں.
ديكھيں: مجموع فتاوى
الشيخ ابن باز ( 13 / 122 ) اور فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 62 ).
واللہ اعلم .
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔