جسم
کے کسی بھی حصے سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا
========================
دلیل : امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل ترجمۃ الباب
قائم کرکے ان دلائل کا ذکر کیا ہےجن سے ثابت ہوتا ہے خون ناقض وضو نہیں۔
وقول الله تعالى {أو جاء أحد منكم من الغائط} وقال عطاء فيمن يخرج من دبره الدود أو من ذكره نحو القملة يعيد الوضوء. وقال جابر بن عبد الله إذا ضحك في الصلاة أعاد الصلاة، ولم يعد الوضوء. وقال الحسن إن أخذ من شعره وأظفاره أو خلع خفيه فلا وضوء عليه. وقال أبو هريرة لا وضوء إلا من حدث. ويذكر عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمي رجل بسهم، فنزفه الدم فركع وسجد، ومضى في صلاته. وقال الحسن ما زال المسلمون يصلون في جراحاتهم. وقال طاوس ومحمد بن علي وعطاء وأهل الحجاز ليس في الدم وضوء. وعصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم، ولم يتوضأ. وبزق ابن أبي أوفى دما فمضى في صلاته. وقال ابن عمر والحسن فيمن يحتجم ليس عليه إلا غسل محاجمه.
باب : اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
وقول الله تعالى {أو جاء أحد منكم من الغائط} وقال عطاء فيمن يخرج من دبره الدود أو من ذكره نحو القملة يعيد الوضوء. وقال جابر بن عبد الله إذا ضحك في الصلاة أعاد الصلاة، ولم يعد الوضوء. وقال الحسن إن أخذ من شعره وأظفاره أو خلع خفيه فلا وضوء عليه. وقال أبو هريرة لا وضوء إلا من حدث. ويذكر عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمي رجل بسهم، فنزفه الدم فركع وسجد، ومضى في صلاته. وقال الحسن ما زال المسلمون يصلون في جراحاتهم. وقال طاوس ومحمد بن علي وعطاء وأهل الحجاز ليس في الدم وضوء. وعصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم، ولم يتوضأ. وبزق ابن أبي أوفى دما فمضى في صلاته. وقال ابن عمر والحسن فيمن يحتجم ليس عليه إلا غسل محاجمه.
باب : اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
صحیح
البخاری کتاب الوضو
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔