Wednesday, December 17, 2014

میلادیوں کا ایک شبہ اور اس کا رد

میلادیوں کا ایک شبہ اور اس کا رد
===============

میلاد منانے والے صحیح مسلم کی ایک حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں جس میں آپ ﷺ کے دوشنبہ کے دن روزہ رکھنے کاذکر ہے، آپ کا فرمان ہے ’’إنہ یوم ولدت فیہ‘‘۔
(صحیح مسلم مع النووی۸؍۲۹۲،۲۹۳)
ترجمہ : یعنی یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی ۔

یہ اشتباہ چند وجوہات کے تحت باطل اور مردود ہے۔

(1) جب محفل میلاد کے منعقد کرنے سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت ولادت پراللہ تعالى کا شکرادا کرنا ہے ، تو اس صورت میں عقل ونقل کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ شکر اسی نوع کا ہو، جس نوع کا شکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یعنی آپ نے روزہ رکھا تو ہمیں بھی آپ کی طرح اس روز روزہ رکھنا چاہئےیہ اور بات ہے کہ میلاد والے روزہ ہرگز نہ رکھیں گے ، کیونکہ روزہ میں نفس کو لذتِ کام و دہن سے محروم کرکے نفس کی اصلاح کی جاتی ہے ، اور ان لوگوں کا مقصود یہی لذت کام و دہن ہے، اسلئے غرض متعارض ہوگئی چنانچہ انہوں نے اپنی پسند کو اللہ کی پسند پر ترجیح دی اور نتیجے میں کھانے پینے کی رسم جشن عیدمیلاد کے نام سے ایجاد کی۔

(2)رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کے دن کا روزہ نہیں رکھا ہےبلکہ آپ نے دوشنبہ کے دن روزہ رکھا ہے ، جو ہرمہینہ میں چار یا چار سے زائد مرتبہ آتا ہے ، اس بناء پر بارہویں ربیع الاول کو کسی عمل کے لئے مخصوص کرنا اورہر ہفتہ آنے والے دوشنبہ کوچھوڑ دینا شارع علیہ السلام کی سنت کی تمامتر مخالفت ہے ۔

(3) احادیث کے اندر مذکور ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کا بھی روزہ رکھتے تھے ، اگر آپ اپنی پیدائش کی وجہ سے روزہ رکھتے اور آپ کا مقصود عیدمیلاد ہوتا تو جمعرات کا روزہ نہیں رکھتے نیز جیساکہ میں نے اوپر بتلایا ہے آپ ﷺ ہرسال اپنی پیدائش کے دن کا روزہ رکھتے مگر آپ کا ایسا معمول نہیں تھا۔  

(4)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ولادت اور تخلیق اور تمام انسانوں کی طرف بشیر ونذیر ہوکر مبعوث ہونے کے شکریہ میں دوشنبہ کےدن روزہ رکھا تو کیا آپ نے روزے کے ساتھ کوئی محفل اور تقریب بھی کی جیسا کہ آجکل میلادمیں رقص وسرور، اختلاط مردوزن، قوالیاں، نیازوفاتحہ ، چراغاں اور طرح طرح کے پکوان نظرآتے ہیں۔

مذکورہ چند وجوہات کی بنیاد پر جشن عیدمیلادالنبی ﷺ منانا سراسر بدعت اور ناجائز ہے بلکہ اس میں شرکیات بھی  پائے جاتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ میلادیوں نے مسلم شریف کی مذکورہ بالا حدیث سے جو دلیل پکڑی ہے وہ طرزاستدلال صحیح نہیں ہے ۔
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ جو نبی ﷺ سے ثابت شدہ ہو اسے تسلیم کریں اور جو ثابت نہ ہو اسے رد کریں جیساکہ اللہ تعالى فرماتا ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
( سورة الحشر : 59 ، آیت : 7 )
ترجمہ : اوررسول جو تم كو دیں، اس كو لے لو اورجس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔

اوردوسری جگہ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
( سورة الحجرات : 49 ، آیت : 1 )
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول کے آگے نہ بڑھو ، اور اللہ سے ڈرو ،بٍے شک اللہ سننے والا ، جاننے والا ہے۔

اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
إیا کم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ ، وکل بدعۃ ضلالۃ
ابو داؤد حدیث : 4609))
ترجمہ : تم نئے ایجاد کئے ہوئے امور سے بچو ، اسلئے کہ ( دین میں ) نئی ایجاد کی ہوئی ہر چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔


اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرما اور کتاب و سنت کی پیروی کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔