بھینس کی حلت کتاب وسنت کی روشنی میں
..................................
موجودہ دورمیں بعض لوگ تجاہل عارفانہ کی روش اپناتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں
کہ قرآن و حدیث میں بھینس کی حلت موجود نہیں بلکہ ہماری "فقہ" نے اسے
حلال قرار دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تقلیدی فقہ کو حلت و حرمت اور شریعت
سازی کا اختیار کس نے دیا؟ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُون .
"َاور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے.
حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ (متوفی ۷۷۴ھ) اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:"ہر وہ بدعتی اس حکم میں داخل ہے جس نے بدعت جاری کی، جبکہ اس کے پاس اس بدعت پر شرعی ثبوت و دلیل نہیں ہے یا جس نے محض اپنی رائے اور نفسانی خواہش سے اللہ تعالی کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا" (تفسیر ابن کثیر ۸۵/۶)
ثابت ہوا کہ حلال و حرام صرف وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حلال و حرام قرار دیا ہے۔
آئیے اب ہم آپ کے سامنے وہ دلائل پیش کرتے ہیں جن سے بھینس کا حلال ہونا ثابت ہوتا ہے۔.
دلیل نمبر:۱
ارشاد باری تعالی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيد
"ُاے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے"
امام قتادہ بن دعامہ تابعی رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: الأنعام کلّھا یعنی تمام جانور (حلال کر دیے گئے ہیں) (تفسیر طبری۶۵۵/۹ وسندہ صحیح) امام ابن جریر طبری رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہی قول مختار ہے۔
ابن عطیہ کہتے ہیں: ھذا قول حسن (تفسیر شوکانی"۶/۲)
اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع حنفی دیوبندی لکھتے: " پالتو جانور جیسے اونٹ ، گائے ، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورہ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں ان کو انعام کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔
اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیئے اونٹ ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کر دیا ہے، ان کو شرعی قاعدہ کے موافق زبح کر کے کھا سکتے ہیں" (معارف القرآن محمد شفیع دیوبندی ۱۳/۳).
دلیل نمبر:۲
بھینس کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے اور اس کی حرمت پر نص قائم نہیں کی، لہذا یہ حلال ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
"آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے(الانعام:۱۴۵)
حافظ ابن رجب لکھتے ہیں: "یہ آیت کریمہ اس قانون پر دلیل ہے کہ (شریعت میں کھانے پینے اور پہننے کی) جس چیز کی حرمت نہ پائی جائے وہ حرام نہیں" (جامع العلوم و الحکم لابن رجب ص۳۸۱)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جس کو اللہ نے حلال قرار دیا وہ حلال ہے، جس کو اس نے حرام قرار دیا وہ حرام ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی وہ معاف (حلال) ہے،
آپ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) یہ آیت تلاوت فرمائی قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا۔۔۔" (سنن ابی داؤد:۳۸۰۰ و سندہ صحیح)
یہی بات امام ابن کثیر نے بھی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھی ہے (تفسیر ابن کثیر:۱۰۴-۱۰۳/۳).
دلیل نمبر:۳
سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کلّ ذی ناب من السّباع، فاکلہ حرام "ہر کچلی (نوک دار دانت جو اگلے دانتوں کے متصل ہوتے ہیں) والے درندے کا کھانا حرام ہے" (صحیح مسلم ح ۱۹۳۳)
بھینس شریعت کے اس اصول کے تحت بھی نہیں آتی کیونکہ یہ ذی ناب من السّباع میں سے نہیں ہے، اس کی حرمت پر بھی کوئی دلیل نہیں لہذا یہ حلال ہے۔.
دلیل نمبر:۴
بھینس کے حلال ہونے پر اجماع و اتفاق ہے، کسی نے اس کو حرام نہیں کہا، یہ بھی ایک قوی دلیل ہے کیونکہ اجماع امت شریعت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔
امام ابن المنذر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے" (الاجماع لابن المنذر:۴۸)
حافظ ابن قدامہ المقدسی لکھتے ہیں: "ہمیں اس میں اختلاف کا علم نہیں ہے، ابن المنذر نے اس بات پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے، نیز بھینس گائے کی ایک نوع ہے۔" (المغنی لابن قدامہ ۵۹۴/۲)
حافظ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: "بھینس گائے کی طرح ہے اس پر ابن المنذر نے اجماع بیان کیا ہے (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ۳۸/۲۵)
امام حسن بصری بھی یہی کہا کرتے تھے کہ "بھینس گائے کی طرح ہی ہے" (مصنف ابن ابی شیبہ:۲۱۹/۳ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حزم رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں "بھینس گائے کی ایک نوع و قسم ہے" (المحلّی لابن حزم ۲/۶).
تنبیہ بلیغ:
...................
جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث سے بھینس کا حلال ہونا ثابت نہیں ہے، ان سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا دلائل اور اجماع پر دوبارہ غور کر لیں اور اپنے مزعوم امام سے ، جن کی تقلید کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، باسند صحیح بھینس کا حلال ہونا ثابت کردیں اور ہمیں قوی امید ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے.
۔۔۔۔۔!!!!
الحاصل:
بھینس شریعت کے اصول و قاعدہ کے مطابق حلال ہے، جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے اسے حلال نہیں کیا، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔