ایک
مسجد میں دوبارہ جماعت کا حکم
ایک
ہی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا جوازصحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام
رضی اللہ تعالٰی عنہم ، تابعین عظام اور فقہاء محدثین رحمہم اللہ
کا اس پر عمل رہا ہے۔
دلائل
ملاحظہ فرمائیں۔
(1) سنن ابو داؤد میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
'' رسول اللہ ؑ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اکیلا نماز پڑ ھ رہا
ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کیا ایسا کوئی آدمی نہیں جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔'' (سنن ابو
داؤد ١۱/ ۱۵۷،
ترمذی ۱١
/۴۱۷
)
ترمذی
میں یہ الفاظ مروی ہیں :
'' تم میں سے کون شخص ہے جو اس کے ساتھ اُجر ت میں شریک ہو ؟ ایک
آدمی کھڑا ہو ااور اُ س نے اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی''۔
یہ
روایت کئی طرق سے مروی ہے اور مسند احمد ٣۳/٥۵، ٤٥۴۵، ٨۸۵ ۔ سنن درامی ۱/۳۱۸ ٣١٨ مستدرک حاکم،
محلی ابن حزم ۴٤/۲۳۸ ۔ امام حاکم نے مستدرک
حاکم میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور تلخیص میں امام ذہبی نے حاکم کی موافقت کی
ہے ۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اور علامہ سیوطی نے فوت المغتذی میں لکھا
ہے کہ جس آدمی نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ
تھے۔
اس
حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ثانیہ مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد
میں آجائے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں
نماز ادا کرے تو یہ صحیح مشروع اور جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ( ایکم یتجر علی ھذا الا رجل یتصدق
علی ھذا )اس پر شاہد ہیں۔
امام
بغوی رحمہ اللہ شرح السنہ میں لکھتے ہیں :
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت
کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو ، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ
نماز ادا کر لے ۔ اسی طرح مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے
صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام
رحمہ اللہ کا قول ہے''
امام
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
:
'' ایک مسجد میں جماعت کا اعادہ کران مکرو ہ نہیں ، اس کا مطلب یہ
ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گی تو اس کیلئے
مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود، عطاء ، نخعی،
حسن، قتادہ، اور اسحق بن راوھویہ رحمہ
اللہ کا ہے ''۔ ( المغنی٣۳/۱۰)
(2) سیدنا انس بن
مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اس حدیث
کا یہی مفہوم سمجھا اور وہ دوسری جماعت کے قائل و فاعل تھے۔ امام بخاری نے صحیح
بخاری میں لکھاہے کہ :
'' سید نا انس رضی اللہ
تعالٰی عنہ مسجد میں آئے جماعت فوت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کہی اور
جماعت سے نماز پڑھی ۔ '' ان کا یہ اثر ابن شیبہ ١۱/۱۴۸ ١٤٨ ابو یعلیٰ اور
بیہقی میں موصولاً مروی ہے اس کی سند صحیح ہے۔
(3) '' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا جماعت کی نماز کی
فضیلت اکیلئے آدمی کی نماز پر ٢٥ درجے زیاد ہے ''۔
(بخاری مع فتح الباری ۲٢/۳۹۹، مسلم ۵٥/۱۵۱١، مع نووی موطا ۱١/۲۹ ٩، نسائی ١۱/۲۴۱، ۲٢/۱۰۳، ترمذی (٢۲۱۶١٦) ، ابن ماجہ (٧۷۸۷٨٧)، دارمی ١۱/۲۳۵٣٥، ابو عوانہ ۲٢/۲ ٢، ابن خزیمہ ٢۲/۳۶۴ ٤، ابن حبان ٣۳/ ۳۱۸١، ٣٨٢۳۸۲، بیہقی ۳٣/۶۰ ٦٠، شرح السنہ ۳٣/۳۴۰٣٤٠)۔
اسی
طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ٢۷ درجے فضیلت کا ذکر ہے۔
(ملاحظہ ہو بخاری مع فتح الباری ٢۲/۱۳۱٣١)
یہ
حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے جس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے توہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز
ادا کرے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا۔
(4) '' ابو عثمان الجعد سے مروی ہے کی بنو ثعلبہ کی مسجد میں انس بن
مالک ہمارے پاس سے گزرے تو کہا کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے
کہا ہاں اور وہ صبح کی نماز تھی ۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم کیا، اس نے اذان و اقامت
کہی ، پھر اپنے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی '' ( یہ خبر بخاری میں تعلقیاً ۲٢/ ۱۳۱١٣١ مع فتح الباری اور
مسند ابی یعلی(٤٣۴۳۵۵٥٥)
٨۷/ ۳۱۵،
ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۱٢١، بیہقی ٣۳/ ۷۰، مجمع الزوائد٢۲/۴ ٤، المطالب
العالیہ ١۱/ ۱۱۸(٤۴۲۶٢٦) تغلیق التعلیق ٢۲/۲۷۶ ٦، عبدالرزاق ۲٢/۲۹۱ ٢٩١ طبقات
المحدثین لابی الشیخ ١۱/۴۰۲٠٢
، ۴۰۳٣
میں موصولاً مروی ہے۔ )
(5) ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
'' عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے علقمہ ،
مسروق اور اسود کو جماعت کرائی ''۔ (ابکار المنن ص ٢۲۵۳٣، اس کی سند صحیح ہے ۔
مر عاۃ شرح مشکوۃ ٤/ ١٠٤)
مذکورہ
بالا احادیث و آثار صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کرا لینا بلا
کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی
تھا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔