Thursday, November 27, 2014

مصافحہ سے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطلب

مصافحہ سے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطلب


بعض حضرات ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دوہاتھ سے مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔ حدیث اس طرح سے ہے ۔

''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں تھا۔'' (بخاری2/926)

(1) اس حدیث کا ملاقات کے وقت مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد سکھا رہے تھے اور تعلیم کے وقت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔

(2) اگر اس سے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا مراد لیں تو اس کی صورت یہ بنے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا یعنی تین ہاتھ کا مصافحہ ۔
اور اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں یعنی تین ہاتھ سے مصافحہ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

(3) حنفی مذہب کے جید علماءیہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی ہتھیلی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پکڑنا مزید اہتمام اور تعلیم کی تاکید کے لئے تھا۔

گواہی ملاحظہ فرمائیں:--
٭حنفی مذہب کی فقہ کی مشہور داخل نصاب کتاب ہدایہ1/93 کتاب الصلوة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اس لئے تھاما تھا تا کہ ان کا دماغ حاضر رہے اور کوئی چیز ان سے فوت نہ ہو جائے۔

٭علامہ زیلعی حنفی ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کی ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر ترجیح ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ والے تشہد پر راجح ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا اور میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھی اور یہ بات ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے تشہد میں نہیں۔ اس نے مزید توجہ اور اہتمام پر دلالت کی۔''
(نصب الرایہ1/421، کتاب الصلوة)

٭یہی بات ابنِ ہمام حنفی نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھی ہے۔

٭مولوی عبدالحی لکھوی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ابنِ مسعود والی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے، مراد نہیں ہے بلکہ یہ ہاتھ میں ہاتھ لینا ہے ۔
(الفتاوی اردو 1/134، کتاب العلم والعلماء)

٭علامہ جلال الدین خوارزمی حنفی ہدایہ کہ شریہ کفایہ میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تاکید تعلیم پر محمول ہے۔ اس لئے کہ محمد بن حسن شیبانی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور ابو یوسف نے کہا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا اور امام ابو حنیفہ نے کہا حماد بن ابی سلیمان رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ امام حماد کہتے ہیں علقمہ رحمة اللہ علیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔ علقمہ کہتے ہیں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے تشہد سکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے تشہد سکھایا۔'' (الکفایہ شرح ہدایہ۲۷۳/۱)

(4) احادیث سے ہاتھ میں ہاتھ پکڑ کر تعلیم دینا ثابت ہے۔ ایک حدیث لکھی جاتی ہے:
''معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اے معاذ اللہ کی قسم میں تمہیں دوست رکھتا ہوں میں نے کہا ، اللہ کی قسم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑنا ۔''(ابو دائود (۱۵۲۲)۸۶/۲، نسائی۵۳/۳، عمل الیوم والیلہ (۱۰۹)، الادب المفرد (۶۱۹)، مسند احمد۲۴۴/۵،۲۴۷، ابنِ خزیمہ (۷۵۱)، ابنِ حبان (۲۴۵)، حاکم۲۷۳/۱،۲۷۲/۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مُتَعَلِّمْ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھایا جائے تا کہ اس کا دھیان اور توجہ مسئلہ مذکورہ کی طرف ہو۔



مذکورہ بالا تحقیق سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا دو ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنے سے تعلق نہیں بلکہ یہ طریقۂ تعلیم پر محمول ہے جو کہ طالب علم کو مزید تاکید سے اہتمام و توجہ دلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہذا صحیح احادیث کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔