نذر کی شرعی حیثیت
_______________
اگر کوئی نذر مانے اور وہ ایسی نذرہو جس میں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ ہو تو اسے پورا کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی معصیت میں نذر مان لے تو ایسی نذر پورا نہ کرے جیسے غیراللہ کے نام پرجانور ذبح کرنا۔
جائز نذر پوری کرنے کی دلیل اللہ تعالیٰ فرمان ہے:
((وما انفقتم من نفقۃ او نذرتم من نذرٍفان اللہ یعلمہ)) (البقرہ/270)
’’اور تم جو کچھ بھی(اللہ کی راہ میں) خرچ کرویا کو ئی نذر مانو، اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ)) (صحیح البخار/6700)
’’جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی نذر مانے تو اسے اللہ پاک کی اطاعت کرنی چاہیے‘‘
آج کل اکثر ایسی نذریں مانی جاتی ہیں جن میں سراسر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہے، مثلاً: لوگ نذر مانتے ہیں کہ مرا فلاں کام ہو جائے تو میں دربار پہ دیگ دونگا،یہ اور اس طرح کے تمام کام شرک ہیں اور شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں، چنانچہ ایسی کوئی نذر نہیں ماننی چاہیے جس میں اللہ پاک کی نافرمانی ہو۔
یہ بات یاد رہے کہ نذر ماننے سے کچھ ہوتا نہیں ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ :
(( انہ لا یأتی بخیر، وانما یستخرج بہ من البخیل)) (صحیح البخار/6608)
’’یہ کوئی بھلائی نہیں لاتی تاہم ا س سے بخیل کا کچھ مال ضرور نکل جاتا ہے‘‘
_______________
اگر کوئی نذر مانے اور وہ ایسی نذرہو جس میں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ ہو تو اسے پورا کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی معصیت میں نذر مان لے تو ایسی نذر پورا نہ کرے جیسے غیراللہ کے نام پرجانور ذبح کرنا۔
جائز نذر پوری کرنے کی دلیل اللہ تعالیٰ فرمان ہے:
((وما انفقتم من نفقۃ او نذرتم من نذرٍفان اللہ یعلمہ)) (البقرہ/270)
’’اور تم جو کچھ بھی(اللہ کی راہ میں) خرچ کرویا کو ئی نذر مانو، اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ)) (صحیح البخار/6700)
’’جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی نذر مانے تو اسے اللہ پاک کی اطاعت کرنی چاہیے‘‘
آج کل اکثر ایسی نذریں مانی جاتی ہیں جن میں سراسر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہے، مثلاً: لوگ نذر مانتے ہیں کہ مرا فلاں کام ہو جائے تو میں دربار پہ دیگ دونگا،یہ اور اس طرح کے تمام کام شرک ہیں اور شرک سے بڑا کوئی گناہ نہیں، چنانچہ ایسی کوئی نذر نہیں ماننی چاہیے جس میں اللہ پاک کی نافرمانی ہو۔
یہ بات یاد رہے کہ نذر ماننے سے کچھ ہوتا نہیں ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ :
(( انہ لا یأتی بخیر، وانما یستخرج بہ من البخیل)) (صحیح البخار/6608)
’’یہ کوئی بھلائی نہیں لاتی تاہم ا س سے بخیل کا کچھ مال ضرور نکل جاتا ہے‘‘
اس لئے مناسب یہی ہے کہ نذر نہ مانی جائے ۔
ہمارے ہاں ایک یہ بھی رجحان پایا جاتا ہے کہ لوگ جب بیمار ہوتے ہیں، یا کسی مصیبت میں ہوتے ہیں تو نذر مانتے ہیں اس وقت ان کا خیال ہوتا ہے کہ نذر ماننے سے یہ کام ہو جائے گا ، خدا نخواستہ اگر وہ کام پورا ہو گیا تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ نذر ماننے کی وجہ سے ایسا ہواہے، حالانکہ کوئی کام پورا ہونے ، یا کسی کے صحتیاب ہونے یا پریشانی ٹلنے میں نذر کا کوئی دخل نہیں ۔ ہر آفت اور ہر پریشانی اللہ کی طرف سے ہے اور وہی تن تنہا ٹالنے والا ہے ۔
بہتر یہ ہے کہ ہمیں دعاکرنی چاہیئے اللہ تعالیٰ سے وہ ہمارے تمام مسائل دعا سے حل کر سکتا ہے۔ یہ نذر ماننے سے کہیں بہتر ہے ۔
پھر نذر ماننے کے بعد اکثر لوگ کوتاہی سے کام لیتے ہیں جو کہ بہت ہی بری بات ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ( 75 )
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیک کاروں میں ہو جائیں گے۔
فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ( 76 )
لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے
فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( 77 )
تو اللہ نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس میں وہ اللہ کے روبرو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
منقول از محدث فورم
بہتر یہ ہے کہ ہمیں دعاکرنی چاہیئے اللہ تعالیٰ سے وہ ہمارے تمام مسائل دعا سے حل کر سکتا ہے۔ یہ نذر ماننے سے کہیں بہتر ہے ۔
پھر نذر ماننے کے بعد اکثر لوگ کوتاہی سے کام لیتے ہیں جو کہ بہت ہی بری بات ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ( 75 )
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیک کاروں میں ہو جائیں گے۔
فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ( 76 )
لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے
فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ( 77 )
تو اللہ نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس میں وہ اللہ کے روبرو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
منقول از محدث فورم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔